HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ایمان کے مشروط تقاضے (حصہ دوم)

 خدا کی نگاہ میں ہجرت کی قدر و قیمت

انسان امتحان و آزمایش کی جس دنیا میں کھڑا ہے، وہ اس کے سامنے ہے۔ اس کی رعنائیاں اس کے سامنے ہیں۔ یہ دنیا ہر وقت اور ہر لمحے اپنے دکھائی دینے اور محسوس ہونے والے پر کشش وجود کے ساتھ انسان کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ اس کی دعوت انسان کے کانوں اور اس کی آنکھوں کے ذریعے سے مسلسل اس کے دل تک پہنچتی ہے ۔ اس کے برعکس انبیا اور رسولوں نے جس بات کی دعوت دی اور آج قرآن مجید ہمیں جس بات کی دعوت دیتا ہے، وہ انسان کی آنکھ سے اوجھل اور کان سے بہت دور ہے۔ آنکھ دیکھے تو وہ دکھائی نہیں دیتی اور کان سنے تو وہ سنائی نہیں دیتی۔ اس کے باوجود رب کریم کو اصرار ہے کہ انسان اس نہ سنائی دینے والی اور نہ دکھائی دینے والی، بات ہی کو مانے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان اسی آزمایش میں تو ڈالا گیا ہے کہ وہ دل کے کانوں سے بھی سنتا ہے یا نہیں اور دل کی آنکھوں سے بھی دیکھتا ہے یا نہیں۔ اس دیکھنے اور اس سننے کے بعد، کیا پھر بھی اس کے جذبات ہی اس کی عقل پر غالب رہتے ہیں یا وہ اپنی عقل کو اپنے جذبات پر غالب کر لیتا ہے۔ انسان جب سوچتا ہے تو لازماً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ خدا کی بات صحیح بھی ہے، اس مالک کو ہمیں آزمانے کا حق بھی ہے۔ خدا کے دوسرے حقوق کی طرح اس کا یہ حق بھی لامحدود ہے۔ البتہ، آزمایش کی کوئی حد ہونی چاہیے اور اس کی شدت کا کوئی درجہ ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو محدود قوت و صلاحیت عطا کی ہے، لامحدود نہیں۔ لہٰذا اس کی جانچ بھی اس محدودیت کی مناسبت ہی سے ہونی چاہیے۔ پروردگار نے آزمایش کے معاملے میں اصول بتا دیا کہ: ’لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا‘۔ یعنی اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہجرت، جہاد و قتال کی طرح انسان کی پوری طاقت کے بقدر بوجھ کا نام ہے۔ چنانچہ اس کا اجر بھی وہ ہے جو خداے جواد کی نظر میں اس کے شایان شان ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجر کا ایک پہلو واضح کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہجرت کا عمل اپنے سے پہلے کی زندگی کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان) 

خدا ’الشکور‘ ہے۔ وہ بڑا قدر دان ہے۔ وہ اپنے بندوں کی محنت، ان کی قربانی اور ان کے ایثار کی ناقدری نہیں کرتا۔ وہ ان کے چھوٹے چھوٹے اعمال پر بھی بہت اجر دیتا ہے اور بڑے اعمال پر تو خیروہ بہت ہی بڑا اجر دے گا۔

ہجرت کیا ہے؟ ہجرت خداے احد کے ساتھ، تنہا جا کھڑے ہونے کا نام ہے۔ اس راہ پر چلنے کے لیے آدمی اٹھتا ہے تو کپڑے جھاڑ کر اٹھتا ہے۔ چند ہی قدم چلتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا سایہ بھی اس کے ساتھ نہیں، وہ بھی وہیں رہ گیا ہے، جہاں سے اس نے تنہا چلنے کا سوچا تھا۔ اس عمل کے بارے میں ایک وضاحت کرتے ہوئے، وہ سب قدر دانوں سے بڑا قدر دان فرماتا ہے:

 ’’اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کے لیے نکلے گا، پھر اس کو (راستے ہی میں) موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا اور اللہ بخشنے وا لا،رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (النساء ۴ : ۱۰۰)

اس راہ کا تو پہلا قدم ہی منزل ہے۔ اس کے بعد آدمی جتنے قدم بھی اٹھائے، وہ اس پہلے قدم کی تصدیق ہوتے ہیں۔ اگر آدمی کی نیت خالص ہو اور ارادہ راسخ ہو تو کیا خدا ہی کی عطا میں کمی ہو گی؟ نہیں، وہ تو بہت فیاض ہے، وہ بہت ہی فیاض ہے۔ اس کے ہاں کمی کا کیا سوال، کمی تو بندوں ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر بندے نے اپنی استطاعت کی حد تک اپنی کمی پوری کر لی اور اللہ کی راہ میں قدم اٹھانے کا ارادہ کر لیا تو الصادق الامین کا ارشاد ہے:

’’جو اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں، ہجرت کی نیت سے نکلا پھر وہ سواری سے گرا اور مر گیا یا اسے سانپ نے کاٹ لیا اور وہ مر گیا یا وہ گھر میں بستر ہی پر مر گیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘(القرطبی ۱۲/ ۸۹) 

یہ اجر جو اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے، یہ کیا ہو گا؟ پروردگار فرماتا ہے:

’’اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر وہ قتل کر دیے گئے یا مر گئے تو اللہ ان کو اپنے رزق حسن سے نوازے گا۔ اور بے شک اللہ ہی ہے، جو بہترین رزق دینے والا ہے۔ وہ ان کو ایسی جگہ داخل کرے گا جس سے وہ راضی و مطمئن ہوں گے۔ اور بے شک اللہ علیم وحلیم ہے۔‘‘ (الحج ۲۲: ۵۸۔۵۹) 

مولانا امین احسن اصلاحی ان آیات کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’(یہ) خاص طور پر ان مظلوم مسلمانوں کو بشارت دی گئی ہے، جو کفار قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر، اپنے دین وایمان کو بچانے کے لیے مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت کریں گے، وہ اطمینان رکھیں کہ اس راہ میں پہلا قدم ہی منزل کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر وہ اپنے دارالہجرت میں پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیے گئے یا ان کو موت آ گئی تو ان کو شہادت کا درجہ نصیب ہو گا اور اللہ ان کو اپنے رزق حسن سے نوازے گا۔ آل عمران آیت ۱۶۹میں یہ بات گزر چکی ہے کہ خدا کی راہ میں مارے جانے والے مرتے نہیں، بلکہ زندہ رہتے ہیں اور وہ اپنی برزخی زندگی میں بھی خاص اپنے رب کے خوان نعمت سے رزق پاتے ہیں۔ ’بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ ۱؂‘ یہی بشارت یہاں ان لوگوں کو بھی دی گئی جو ہجرت کے ارادے سے نکلیں اور ان کو موت آ جائے، اگرچہ ان کو قتل نہ کیا گیا ہو۔ گویا اس راہ میں قتل ہونا ہی شہادت نہیں ہے، بلکہ طبعی موت بھی شہادت ہی کے حکم میں ہے۔ ’رزق‘ یہاں... خدا کے بے پایاں انعامات کی ایک جامع تعبیر ہے۔ اس کو محدود مفہوم میں نہیں لینا چاہیے۔ (آیت کے الفاظ) ’وَاِنَّ اللّٰہَ لَھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ‘ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ خداجب ’خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ‘ ہے، تو کون اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو کیا رزق دے گا جو اس کی خاطر اپنا گھر در سب کچھ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوں گے!
... فرمایا کہ ان کو ایسی جگہ داخل کرے گا جہاں پہنچ کر وہ نہال ہو جائیں گے۔ (آیت میں) ’یَرْضَوْنَہٗ‘ کا لفظ ہے تو نہایت مختصر سا ،لیکن اس کے اندر معانی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ یعنی خدا کی خاطر جو بندہ اپنے گھر اور وطن سے نکلتا ہے، اگر اسی راہ میں اس کو موت آ جاتی ہے تو وہ اطمینان رکھے کہ خدا اس کو ایسی جگہ داخل کرے گا، جہاں اس کی ساری توقعات ہی پوری نہیں ہو جائیں گی، بلکہ وہ کچھ اس کو ملے گا جس کا اس جہان میں وہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
...ہمارے بندے پورا اطمینان رکھیں کہ اس دنیا میں ہماری خاطر اعداے حق کے ہاتھوں وہ جو کچھ جھیل رہے ہیں، ہم اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم ہر چیز سے واقف ہیں۔ لیکن ’علیم‘ کے ساتھ ساتھ ہماری صفت ’حلیم‘ بھی ہے۔ اس وجہ سے ہم اپنے دشمنوں کو جلدی نہیں پکڑتے، بلکہ ان کو اصلاح حال کا پورا موقع دیتے ہیں۔ لیکن وہ یاد رکھیں کہ ہمارے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔‘‘(تدبر قرآن۵/ ۲۷۸۔ ۲۷۹)

اسی طرح سورۂ نحل میں ہجرت کرنے والے صحابہ کی جدوجہد اور ان کی قربانی کا اجر بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیے گئے، ہم ان کو دنیامیں بھی اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، کاش وہ جانیں، یہ ان مہاجرین کے لیے ہے، جنھوں نے استقامت دکھائی اور اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔‘‘ (۱۶ :۴۱۔۴۲) 

خدا، رسول کے مہاجر صحابہ سے فرماتا ہے کہ میں ہجرت کرنے والوں کو دنیا میں بھی خوش حالی دوں گا اور آخرت میں جو اجر ان کو ملے گا، وہ تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، کاش کسی طرح انھیں معلوم ہو سکے کہ انھیں کیا ملنے والا ہے۔ کاش، وہ یہ جان سکیں۔ لیکن وہ تو ان کے حیطۂ خیال ہی میں نہیں آ سکتا۔ کسی انسان کی سوچ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ اس لیے کہ انسان کی سوچ اور فکر محدود ہے اور خدا کی عطا لامحدود ہے۔ محدود سوچ اور محدود فکر خدا کی عطا کو کیا ماپے گی، وہ خدا کے بندوں پر اس کی نوازشوں کو کیا گنے گی اور ان پر اس کی کرم فرمائیوں کا کیا اندازہ لگائے گی۔ یہ دنیا آزمایش کا مقام ہے، یہاں خدا کی حکمت یہی ہے کہ انسان غیب میں رہتے ہوئے اس کی فرماں برداری کرے۔ چنانچہ خدا نے طے کر دیا ہے کہ پردے آخرت ہی میں اٹھیں گے۔ اس دنیا میں انسان کو بس خدا ہی پر اعتماد کرنا ہو گا۔ انسان کی فطرت جانتی ہے کہ خدا قابل اعتماد ہے۔ کون نہیں جانتا کہ حدنظر سے بہت آگے تک پھیلی ہوئی اس کائنات کا خالق، قدرت بھی رکھتا ہے اور حکمت بھی۔ آج بھی یہ کائنات اور اس میں بسنے والا انسان اسی خدا کے سہارے پر کھڑا ہے اور کل جو کچھ ہونا ہے، وہ بھی اسی کی طاقت سے اور اسی کے کرنے سے ہو گا۔ وہ قابل اعتماد ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے صبر بھی کرے اور اس پر اعتماد بھی کرے۔

سورۂ زمر میں مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو ہجرت کی ترغیب دی اور فرمایا:

’’کہہ دو اے میرے بندو، جو ایمان لائے ہو، تم اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ جو لوگ اس دنیا میں نیکی کریں گے، ان کے لیے آخرت میں نیک صلہ ہے۔ اور اللہ کی زمین کشادہ ہے۔ جو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے، انھیں ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔‘‘ (۳۹ :۱۰)

ہمارا پروردگار بڑا غیور ہے، وہ کسی حال میں بھی اس بات پر راضی نہیں کہ اس کے بندے اس کے علاوہ کسی اور کو پوجیں۔ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی کریں۔ وہ کہتا ہے کہ تم ہر حال میں میری ہی بندگی بجا لاؤ۔ تمھارے لیے یہ بندگی اگر اپنے گھر میں ممکن نہ ہو تو اپنا گھر چھوڑ دو، اپنے شہر میں ممکن نہ ہو تو شہر چھوڑ دو اور اگر اپنے ملک میں ممکن نہ ہو تو اپنا ملک چھوڑ دو۔ وہاں چلے جاؤ، جہاں تم میری بندگی کر سکو۔ شہر کوئی بھی ہو اور ملک کوئی بھی ہو، بہر حال، بندگی تمھیں میری ہی کرنی ہے۔ اس دنیا میں تم ہمیشہ نہیں رہو گے۔ تم میں سے ہر ایک مرے گا۔ اور مر کر وہ کہیں چلا نہیں جائے گا، سیدھا میرے ہی پاس آئے گا۔ میں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ میں اپنے بندوں سے ان کے اعمال کا حساب لوں گا۔ جو میرے نافرمان ہوں گے، میں انھیں ابدی سزا دوں گا اور جس نے دنیا میں میری ہی بندگی کی ہوگی، اسے میں اپنے پاس جنت میں عمدہ ٹھکانا دوں گا۔ اور وہ شخص جس نے میرے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، موافق حالات میں بھی میری ہی بندگی کی اور ناموافق حالات میں بھی اسے میری ہی بندگی پر اصرار رہا۔ اسے میری بندگی سے روکا گیا تو اس کا اصرار اور بڑھ گیا۔ وہ اس کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہ ہوتا تھا۔ وہ میری خاطر ستایاگیا۔ اور میری خاطر رلایا گیا۔ اس نے ہر ظلم برداشت کر لیا، مگر وہ میری بندگی سے باز نہ آیا۔ جب اس پر ظلم کی حد ہو گئی تو اس نے میری خاطر اور میری ہی خاطر، اپنا گھر چھوڑا، اپنا شہر چھوڑا، اپنا وطن چھوڑا، اپنے دوست احباب چھوڑے، اپنے عزیز رشتہ دار چھوڑے، اپنی معاشرت چھوڑی، اپنی معاش چھوڑی، اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ اس بندے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا اس نے اپنی استطاعت کی حد تک میرے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ کیا وہ میری خاص رحمت کا حق دار نہیں ہے؟ وہ ضرور میری خاص رحمت کا حق دار ہے۔ میں اسے اس کے عمل کا اجر دوں گا اور بے حساب دوں گا۔ وہ اسے گن نہیں سکے گا۔ وہ اسے شمار نہیں کر سکے گا۔ وہ اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکے گا۔ میں اسے اس جنت کے بالا خانوں میں جگہ دوں گا، جو نہ کسی فرد بشر نے دیکھی ہے، نہ سنی ہے اور نہ اس کی خوبی کسی کے حاشیۂ خیال میں کبھی آئی ہے۔ جو بدلہ میں اسے دوں گا، تم وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں اپنی رحمت کے ساتھ اپنے بندوں کا منتظر ہوتا ہوں۔ جو میری طرف چل کر آتے ہیں، میں ان کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔ کیا کوئی چیز میری اس رحمت سے بھی برتر ہے، جو میں نے اپنے مخلص بندوں کے لیے خاص کر رکھی ہے۔

ارشاد باری ہے:

’’اے میرے بندو، جو ایمان لائے ہو، میری زمین بڑی وسیع ہے، پس تم میری ہی بندگی بجا لاؤ۔ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اور جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ہم ان کو جنت کے بالا خانوں میں متمکن کریں گے۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے، ان لوگوں کے لیے جنھوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر ہر حال میں بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ (العنکبوت ۲۹: ۵۶۔۵۹)

 

صحابہ کا طرز عمل

ہجرت کا مرحلہ صحابہ کی زندگی میں بھی آیا تھا۔ رسول اللہ کے یہ ساتھی کیسے لوگ تھے۔ دین پر ثابت قدم رہنے میں اور بالآخر اس کی خاطر اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر جانے میں بھی یہ ایسی ایسی مثالیں قائم کر گئے کہ بس اب تا قیامت ان کی پیروی ہی کی جائے گی۔ کوئی ان سے بہتر عمل کیا کرے گا، کوئی ان سے بڑھ کر قربانی کیا دے گا اور خدا کے لیے ایثار و محبت میں ان سے آگے کوئی کیا نکلے گا۔ ان کی دعا: ’واجعلنا للمتقین اماما‘ (اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے)ان کے حق میں قبول ہو گئی اور قبول بھی کیسی ہوئی کہ وہ صرف اپنے متقی ازواج و اولاد ہی کے امام نہ ہوئے، بلکہ وہ دنیا و آخرت میں اس امت کے سبھی متقین کے امام ٹھہرے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حق کی دعوت دی تھی، وہ صحابہ کے لیے ایک کڑی آزمایش بنا تھا۔

خدا نے دنیا کو عجیب طرز پر بنایا ہے۔ یہاں حق بات کی مثال ایسے ہے جیسے سنگلاخ چٹانوں میں بارش کا پانی۔ یہ آپ کو کسی چوٹی پر نہیں ملے گا۔ کسی چٹان کے اوپر نہیں ملے گا۔ اسے ڈھونڈنا ہو تو چٹانوں کے نیچے گہری کھائیوں میں جھانکیے، ان کے نشیبوں میں دیکھیے۔ یہ آپ کو وہاں ملے گا۔ بلندیوں کو یہ راس نہیں آتا۔ یہ ان کے مقدر میں نہیں ہوتا۔ آسمان سے اترنے والا وہ حق، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں پیش کیا تھا، اس کا معاملہ بھی یہی تھا، وہ انانیت اور تکبر کی بلند چوٹیوں کے مقدر میں نہ تھا۔ وہ غرور اور سرکشی کی چٹانوں کو راس نہیں تھا۔ وہ ان پر نہیں ٹھہرا۔ وہ ان چٹانوں کے اوپر سے گزرتا، بلندیوں سے نیچے اترا اور تواضع، انکسار اورشرافت کے ان پیکروں میں آ کر ٹھہرا، جو تکبر کی ان چٹانوں تلے اپنا وجود گم کیے ہوئے تھے۔

ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں سے اکثر معاشرتی اعتبار سے کم حیثیت کے لوگ تھے۔ ان میں سے کئی تو غلام تھے، جن کی کوئی معاشرتی حیثیت تھی ہی نہیں۔ بعض غریب الوطن افراد تھے، جو اپنے قبیلے میں نہ ہونے کی وجہ سے قریش کے رحم و کرم پر تھے۔ کچھ کمزور قبیلوں کے لوگ تھے، انھیں قریشی سرداروں کے خلاف اپنے قبیلے کی حمایت ملنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا، لہٰذا یہ بھی دراصل قریش ہی کے دست نگر تھے۔ اور بعض وہ لوگ جو قریش کے بڑے قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے، وہ بھی کوئی اپنے قبیلوں کے بڑے بوڑھے اور سردار نہیں تھے، بلکہ وہ ان کے نوجوان افراد میں سے تھے۔ لہٰذا وہ بھی اپنے قبیلے کے بڑوں کے سامنے کوئی ایسی حیثیت نہ رکھتے تھے، جس کی بنا پر قبیلے کے وہ بڑے بوڑھے ان کے خلاف اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے۔

مکہ کی سوسائٹی میں جو لوگ با اختیار اور صاحب اقتدار تھے انھیں سرداری کے مفادات اور خودسری نے وہ حق قبول کرنے سے روکا، جس کا حق ہونا ان پر واضح تھا۔ یہ لوگ مکہ کے سردار تھے۔ انھیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ عام لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں۔ ان کی یہ پوری کوشش ہوتی کہ جو بات ان کے اپنے مفاد میں نہیں ہے، اسے کوئی ایک شخص بھی قبول نہ کرے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت میں ناکام ہو جائیں۔ انھوں نے اس کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ پہلے طنز و تعریض اختیار کی گئی، جب دیکھا کہ یہ کارگر نہیں ہوئی تو انھوں نے مسلمانوں کو تعذیب کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ابتداءً صرف کمزور لوگوں ہی کو عذاب دیا جاتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ نوبت آ گئی کہ عزت دار اور خاندانی لوگوں تک کو مارا پیٹا اور باندھا جانے لگا۔ قریش کے سرداروں نے باہم طے کیا کہ ان کے بیٹوں، بھائیوں اور قبیلے کے لوگوں میں سے جس جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی قبول کی ہے، اس پر جبر و ظلم کر کے اسے زبر دستی اس دین سے پھیرنے کی کوشش کریں۔ ظلم و ستم کی اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے، ابن ہشام نے اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ میں ابن اسحاق سے یہ روایت نقل کی ہے:

’’مشرکوں نے ان صحابیوں پر جنھوں نے اسلام اختیار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی، ظلم وستم ڈھائے اور ہر قبیلہ میں مسلمانوں کو اس صورت حال سے سابقہ پڑا۔ وہ انھیں قید میں ڈالتے، مارتے، بھوکا پیاسا رکھتے، تپتی ہوئی زمین پر لٹا کر تکلیفیں دیتے۔ ان میں سے جو کمزور تھے، انھیں وہ ان کے دین سے روکتے تھے۔ چنانچہ بعض تو شدید آفتوں کی تاب نہ لاسکے اور فتنے میں الجھ گئے اور بعض ان کے مقابلے میں سختیاں برداشت کر گئے، اور اللہ تعالیٰ نے انھیں بچا لیا۔‘‘ ( ۱/ ۲۷۷)

ان مسلمانوں پر قریش کے ہاتھوں مصائب کا جو پہاڑ ٹوٹا، اس کی داستان پڑھیے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’سیرت سرور عالم‘‘ میں صحابہ پر ہونے والے ان میں سے اکثر واقعات کو یک جا کر دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’حضرت ابوبکر جیسے معزز آدمی کو نوفل بن خویلد بن العدویہ نے، جو اسد قریش کہلاتا تھا، پکڑ کر حضرت طلحہ کے ساتھ باندھ دیا، ان کے خاندان بنو تمیم نے ان کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس پر حضور نے دعا فرمائی کہ ’اللّٰھم اکفنا شر ابن العدویہ‘ خدایا ابن العدویہ کے شر سے ہم کو بچا نے کا تو ہی ذمہ لے لے۔ (بیہقی۔ ابن سعد)۔ حضرت زبیر ابن العوام کو ان کا چچا ایک چٹائی میں لپیٹ کر لٹکا دیتا تھا اور نیچے سے دھونی دیتا اور کہتا جاتا تھا کہ اسلام سے رجوع کر، مگر وہ برابر یہی جواب دیے جاتے کہ میں کبھی کفر نہ کروں گا۔ (ابن سعد۔ طبرانی) حضرت عثمان کو ان کے چچا حکم (مروان کے باپ) نے باندھ دیا اور کہا تو باپ دادا کا دین چھوڑ کر محمد کا دین قبول کرتا ہے؟ میں تجھے نہیں کھولوں گا جب تک تو اس دین کو چھوڑ نہ دے۔ انھوں نے جواب دیا میں اسے نہیں چھوڑوں گا خواہ کچھ ہو جائے (ابن سعد)۔ حضرت مصعب بن عمیر کو ان کے چچا زاد بھائی عثمان بن طلحہ (کلید بردار کعبہ) نے سخت اذیتیں دیں، اور ان کے اہل خانہ نے ان کو قید کر دیا، یہاں تک کہ وہ بھاگ نکلے اور پہلی ہجرت حبشہ کے موقعے پر مہاجرین کے ساتھ چلے گئے (ابن سعد)۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور ان کے بھائی عامر کو ان کی ماں نے بے حد تنگ کیا، مگر وہ اپنے دین سے نہ ہٹے۔‘‘ (۵۴۳)

یہ لوگ قریش ہی کے مختلف قبیلوں کے لوگ تھے۔ جو اذیتیں انھیں دی گئیں، وہ بھی کوئی کم نہیں ہیں، لیکن دوسرے مسلمان جو غلام تھے یا کم حیثیت کے قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے، ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ،وہ اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک حبشی تھے۔ آپ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جب آپ مسلمان ہوئے، تو آپ کو امیہ نے خداے احد کے سامنے سر جھکانے کے اس جرم میں طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ وہ مکہ کی گرم ریت پر آپ کو لٹا دیتا اور چھاتی پر ایک گرم پتھر رکھ دیتا۔ حضرت عمار اور ان کے والدین، رضوان اللہ علیہم اجمعین جب مسلمان ہوئے تو انھیں اسلام لانے کے اس جرم میں ابوجہل نے گونا گوں عذاب دیے۔ ابوفکیہہ رضی اللہ عنہ جن کا نام افلح تھا، یہ مسلمان ہوئے تو ان سے یہ سلوک کیا گیا کہ ان کے پاؤں میں رسی باندھ کر انھیں پتھریلی زمین پر گھسیٹا جاتا۔ خباب ابن ارت رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو کفار نے انھیں خداے رحمان پر ایمان لانے کی پاداش میں آگ کے انگاروں پر لٹایا۔ ان سب افراد سے ایک ہی مطالبہ تھا، ایک ہی تقاضا تھا یعنی یہ کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی چھوڑ دو۔ ان مسلمانوں کے یہ حالات جب سعید ابن جبیر تک پہنچے تو انھوں نے عبداللہ ابن عباس سے ان کی تصدیق چاہتے ہوئے پوچھا کہ کیا مشرکین اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیفیں پہنچانے میں اس حد کو جا پہنچے تھے کہ ان تکلیفوں کے سبب سے وہ اپنا دین ترک کرنے میں معذور سمجھے جا سکتے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا: ’ہاں‘ اور پھر مسلمانوں پر سختی کے وہ حالات بیان کیے، جن سے اصحاب رسول اس وقت دو چار ہوئے تھے۔

شدید آزمایش کے اس دور میں مسلمانوں پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اگر انھیں اپنا دین ہر صورت میں عزیز ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تو بہر حال، اب اس دین کو قائم رکھتے ہوئے، وہ اس سر زمین میں نہیں رہ سکتے۔

ان حالات میں سورۂ کہف نازل ہوئی۔ اس میں اصحاب کہف کے بارے میں مخالفین کے اٹھائے ہوئے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بتایا کہ کس طرح وہ مومنین صادقین کفر و شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں خداے واحد پر ایمان لائے تھے۔ پھر کفر و شرک کے اس ماحول نے جب انھیں حد درجہ خوف زدہ کر دیا اور وہ محسوس کرنے لگے کہ وہ اگر اسی طرح اپنے ایمان پر قائم رہے تو ان کی قوم انھیں زندہ نہیں چھوڑے گی، جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا قول مذکور ہے:

’’ اگر کہیں ان لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگ سار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے، اور ایسا ہوا تو ہم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔‘‘ (الکہف ۱۸ :۲۰)

چنانچہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت جبکہ دین پر قائم رہتے ہوئے اس بستی میں ہماری زندگی ہی خطرے میں ہے تو ہم اپنے ایمان کو بچاتے ہوئے، یہاں سے چھپ چھپا کر نکل جاتے ہیں اور قریبی پہاڑوں میں سے فلاں پہاڑ کی غار میں پناہ لیتے ہیں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے لیے کوئی راہ پیدا کرے گا۔ قرآن مجید نے ان کی یہ بات ان الفاظ میں بیان کی ہے:

’’اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبودان باطل سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو، تمھارا رب تمھارے لیے اپنا دامن رحمت پھیلائے گا اور تمھارے اس مرحلہ میں تمھارے لیے سروسامان مہیا کرے گا۔‘‘ (الکہف ۱۸: ۱۶)

اصحاب کہف کے اس واقعے میں مکہ کے ان مظلوم مسلمانوں کے لیے واضح طور پر یہ اشارہ موجود تھا کہ ظلم و عدوان کی اس انتہائی صورت حال میں وہ کیا کر سکتے ہیں۔ جب یہ بھی انھی کی طرح اس دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں کہ یا مسلسل ایسا درد ناک عذاب سہتے رہیں، جسے برداشت کرنا انسان کے بس سے باہر ہے یا پھرکفار کی ملت میں پلٹ جائیں تو انھیں بھی اپنے اس پیش روان اصحاب کہف ہی کی طرح خدا پر بھروسا کرتے ہوئے، اپنے وطن سے ہجرت کر جانا چاہیے۔

اس کے بعد جب سورۂ عنکبوت نازل ہوئی تو اس میں مسلمانوں کو ہجرت کا وہ حکم دیا گیا، جس کا ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں۔

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان مظلوم صحابہ سے فرمایا:

’’اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ اور وہ بھلائی کی سرزمین ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ تمھاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا نہ کرے، تم لوگ وہاں ٹھہرے رہو۔‘‘

چنانچہ ظلم و جور کے ستائے ہوئے، مسلمانوں میں سے کئی جن کے لیے ہجرت کرنا ممکن تھا، وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ اپنے دین کی حفاظت کے لیے انھوں نے اپنا ماحول اور معاشرہ، اپنی معیشت اور معاشرت، اپنے دوست اور احباب، اپنے عزیز اور رشتہ دار، سب چھوڑ دیے اور اس سب سے بڑھ کر اپنا وہ عزیز شہر چھوڑ دیا، جس کے ساتھ دلی وابستگی کی فطری وجوہ جو ہوا کرتی ہیں، وہ تو تھیں ہی، مزید دو ایسی وجوہ بھی تھیں، جنھیں نظر انداز کرنا کسی عام مسلمان کے لیے بھی بہت دشوار ہے اور اصحاب رسول کے لیے تو دشوار تر تھا۔ ایک یہ کہ اس شہر میں خدا کا وہ گھر تھا، جس کا طواف عبادت تھا، جس کی خدمت سراپا اجر تھی، جس کی زیارت کے لیے لوگ دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے آتے تھے اور دوسرا یہ کہ آں جا دلبراست، اسی شہر میں وہ رسول تھا، جس پر وہ ایمان لائے تھے، جس کی مصاحبت ایک مسلمان کے لیے دنیا کی ہر نعمت سے بڑی تھی۔ لیکن یہ مسلمان اپنے دین کی حفاظت کے لیے اس بیت اللہ سے بھی اور اس رسول اللہ سے بھی بہت دور حبشہ کی طرف چلے گئے۔ کسی مذہبی آدمی کے لیے سب سے بڑی قربانی اس کے مذہبی جذبات کی قربانی ہوتی ہے۔ ان مہاجرین کو دیکھیے، یہ کیسے لوگ تھے، ہر سختی برداشت کر لی، ہر قربانی دے ڈالی، ہر گھاٹی سر کر لی، رسول اللہ کے لائے ہوئے دین کی خاطر جب خود اللہ کے رسول ہی سے جدا ہونا پڑا تو اسے بھی گوارا کر لیا، خدا کی خالص بندگی کی خاطر اگر بیت اللہ کو چھوڑنا لازم ٹھہرا تو اسے بھی چھوڑ دیا۔ خدا کے یہ بندے کتنے مخلص تھے، ان کا ایمان کتنا خالص تھا۔ انھوں نے ہجرت کی اور ہجرت کر کے یہ بتا دیا کہ وہ خدا پر اپنے ایمان کی خاطر سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں۔

ہجرت ایمان کا وہ تقاضا ہے جو کسی وقت بھی، لوگوں کے لیے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ پورے دین پر عمل کرنے کا عزم کر لیتے ہیں اور دین کے معاملے میں اخلاص کو پوری طرح سے اپنا لیتے ہیں تو پھر عام طور پر اس دنیا کی روش اس کے علاوہ کچھ اور نہیں رہی کہ یہ اسے لوگوں کو برداشت کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ انکار ابتدا میں تو دھیمے سروں میں ہوتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس کی لے بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کسی وقت ایسی صورت حال پیش آ جائے تو پھر سچے اہل ایمان کا رویہ ایک ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کو ہر دوسری چیز پر مقدم رکھتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس معاملے میں جس بات کا حکم دیا ہے۔ صحابۂ کرام نے اسے عملاً ہمارے سامنے رکھ دیا۔ انھوں نے اپنے دین کی حفاظت کی، ہر صورت میں کی اور ہر حالت میں کی، جسمانی تعذیب بھی برداشت کی اور ذہنی عذاب بھی سہا۔ پھر جب دین کے ساتھ اپنے شہر اور اپنے وطن میں رہنا ہی ناممکن ہو گیا اور انھوں نے یہ محسوس کر لیا کہ اب انھیں وطن اور دین میں سے کسی ایک چیز ہی کا انتخاب کرنا ہو گا تو وہ اپنے وطن سے ہجرت کر گئے، لیکن دین کو نہیں چھوڑا۔ کسی خطے میں اگر آج اس طرح کا موقع آجائے تو قرآن مجید آج بھی مسلمانوں کو اسی طرح سے ہجرت کا حکم دیتا ہے، جیسے اس نے صحابہ کو دیا تھا۔ آج قرآن مجید کا حکم ہی موجود نہیں، صحابہ کا طرز عمل بھی ہے۔ وہ طرز عمل جو دلوں کو حوصلہ دیتا ہے، جو خواہش کو عزم بناتا اور عزم کو عمل میں ڈھالتا ہے، لیکن وحی کی وہ روشنی اسی کو ٹھوکر سے بچا سکتی ہے، جو ٹھوکر سے بچنا چاہتا ہو اور پیش روان کا یہ طرزعمل اسی کے لیے حوصلے کا باعث بن سکتا ہے، جومنزل تک پہنچنا چاہتا ہو۔

[۱۹۹۷ء]

__________

۱؂’’بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں۔‘‘

____________________

 

B