HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تواصی بالحق اور تواصی بالصببر (حصہ دوم)

تواصی کے بارے میں صحابہ کا طرز عمل

تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے بارے میں جو کچھ خدا اور اس کے رسول نے فرمایا ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سب سے خوب واقف تھے۔ ان کی یہ واقفیت محض علم ہی کے پہلو سے نہ تھی، بلکہ یہ چیز سراپا عمل بن کر ان کے رگ و ریشے میں اتری ہوئی تھی۔ ان کا طرز عمل بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت انتہائی اہم بات تھی۔ وہ اسے اپنی معاشرتی زندگی کا ایک لازمی کام سمجھتے تھے۔ خدا کے رسول کی باتیں ان کی معلومات ہی نہیں بڑھاتی تھیں، ان کے خیالات اور ان کے تصورات کو درست بھی کرتی تھیں، ان کے اخلاق اور ان کے رویے کو بھی سنوارتی تھیں۔ انھوں نے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی ہدایت سنی تو اسے اپنی زندگی میں یوں اپنا لیا، جیسے کوئی انسان اپنی سب سے مرغوب چیز کو اپناتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا، وہ اللہ اور اس کے رسول کی باتیں دل کی پوری رغبت سے سنا کرتے تھے اور پھر پورے عزم و ارادہ سے ان پر کاربند ہوا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام کے ہاں ایک دوسرے کو غلطی پر ٹوک دینا اور حق بات کی نصیحت کرنا اتنا عام تھا کہ ان میں سے کوئی بھی جب دوسرے کو غلطی میں مبتلا دیکھتا تو وہ اسے بھی بے دھڑک ٹوک دیتا۔ تواصی کے حوالے سے دور صحابہ کے واقعات کو دیکھیں تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ وہ لوگ اس معاملے میں کتنے حساس تھے۔

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کوئی ایسا عارضہ لاحق تھا، جس کی بنا پر وہ مجبور تھے کہ صرف ریشم ہی کا لباس پہنیں۔ ایک دفعہ وہ اپنے بیٹے ابوسلمہ کو لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ابوسلمہ نے اس وقت ریشم کا قمیص پہنا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور وہ قمیص پھاڑ دیا اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں تمھارے عارضے کی وجہ سے ریشم پہننے کی اجازت دی تھی۔ یہ اجازت تمھارے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے ہنس رہا ہے تو آپ نے فرمایا: تم جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے بھی ہنس رہے ہو۔ اللہ کی قسم، میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا اور آپ نے یہ محسوس کیا کہ اسے بعض چیزوں کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے تو آپ نے ان الفاظ میں اسے نصیحت فرمائی کہ تم لوگوں میں لگ کر اپنے سے غافل نہ ہو جاؤ، کیونکہ تم سے تمھارے بارے میں پوچھا جائے گا، لوگوں کے بارے میں نہیں۔ ادھر ادھر پھر کر دن نہ گزار دیا کرو، کیونکہ تم جو بھی عمل کرو گے وہ محفوظ کر لیا جائے گا۔ جب تم سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے فوراً بعد کوئی نیکی کا کام کر لیا کرو۔

صحابہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی غلط دیکھتے تو اس پر ضرور تنبیہ فرماتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ آپ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا: دہنے ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے جواب دیا: میرا دہنا ہاتھ جنگ موتہ میں کٹ گیا تھا۔

خلفاے راشدین کی وہ وصیتیں جو انھو ں نے اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو کیں یا ان کے وہ سیکڑوں خطوط جو انھوں نے اپنے سالاروں اور اپنے عمال کو لکھے، انھیں پڑھیے تو صاف معلو م ہوتا ہے کہ صحابہ کے ماحول میں تواصی اہم ترین چیزوں میں سے تھی اور باہمی معاملات میں یہ سب چیزوں پر فوقیت رکھتی تھی۔ وہ تفصیلی وصیت جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بناتے وقت کی، اسے پڑھیے، اس کی ابتدا اس طرح ہے کہ اے عمر، اللہ سے ڈرتے رہنا۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے ذمہ دن میں کچھ ایسے عمل ہیں، جن کو وہ رات کو قبول نہیں کرتے اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے ذمہ رات میں کچھ ایسے عمل ہیں، جن کو وہ دن میں قبول نہیں کرتے۔ جب تک فرض ادا نہ کیا جائے، اس وقت تک اللہ نفل قبول نہیں فرماتے، دنیا میں حق کا اتباع کرنے او رحق ہی کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے قیامت کے دن اعمال کا ترازو بھاری ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو وصیت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو کی، اس کی ابتدا اس طرح ہے: اے عمرو، اپنے ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہنا، چاہے وہ کام چھپ کر کر و یا سب کے سامنے، اور اللہ سے شرم کرنا، کیونکہ وہ تمھیں اور تمھارے سب کاموں کو دیکھتا ہے۔ تم آخرت کے لیے کام کرنے والے بنو۔ تم جو کام بھی کرو، اللہ کی رضا کی نیت سے کرو۔ جو مسلمان تمھارے ساتھ جا رہے ہیں، تم ان کے ساتھ والد کی سی شفقت کا معاملہ کرنا۔ اسی طرح آپ نے دو حضرات عمرو اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہما کو صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تو انھیں جو وصیت کی اس کی ابتدا اس طرح سے ہے : ظاہر اور باطن میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے امین الامت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو جب افواج اسلام کا سپہ سالار بنایا تو انھیں تفصیلی وصیت کی، جس کی ابتدا اس طرح سے ہے کہ میں تمھیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، جو باقی رہے گااور اس کے سوا تمام چیزیں فنا ہو جائیں گی... اپنی آنکھیں دنیا سے بند رکھو اور اپنا دل اس سے ہٹا لو۔ اس کا خیال رکھو کہ کہیں دنیا تمھیں ہلاک نہ کر دے، جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں کو کر چکی ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک امیر کو یہ خط لکھا کہ ( دنیا کی بھاگ دوڑ سے) کچھ دیر کے لیے رک کر یوں سمجھو کہ تم زندگی کے آخری کنارے پر پہنچ گئے ہو۔ تمھاری موت کا وقت آ گیا ہے اور تمھارے اعمال تمھارے سامنے اس جگہ پیش کیے جا رہے ہیں، جہاں دنیا کے دھوکے میں پڑا ہوا ’’ہائے حسرت‘‘ پکارے گا اور زندگی ضائع کرنے والا تمنا کرے گا کہ کاش میں توبہ کر لیتا اور ظالم تمنا کرے گا کہ اسے (ایک دفعہ پھر دنیا میں) واپس بھیج دیا جائے (تاکہ وہ نیک عمل کر کے آئے)۔

تواصی کے معاملے میں صحابہ کا ماحول کتنا عجیب تھا۔ خلفا اور امرا رعایا کو نصیحت کیا کرتے اور رعایا اپنے خلفا اور امرا کو نصیحت کیا کرتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے عمر، میں آپ کو کچھ وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا: ہاں، ضرور وصیت کرو۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کے بارے میں اللہ سے ڈریں اور اللہ کے بارے میں لوگوں سے نہ ڈریں اور آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ بہترین قول وہ ہے، جس کی تصدیق عمل کرے۔ ایک ہی معاملے میں دو متضاد فیصلے نہ کرنا، ورنہ آپ کے کام میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ دلیل والے پہلو کو اختیار کریں، اس طرح آپ کو کامیابی حاصل ہو گی اور اللہ آپ کی مدد کرے گا...حق تک پہنچنے کے لیے مشکلات میں گھس جائیں اور اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ابوعبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما نے آپ کو ایک نصیحت آموز خط لکھا۔ خط کا مضمون یہ ہے: 

’’ابوعبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل کی طرف سے عمر بن خطاب کے نام۔ سلام علیک۔ ہم نے تو یہ شروع ہی سے دیکھا ہے کہ آپ اپنے نفس کی اصلاح کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اب تو آپ پر کالے اور گورے، تمام افراد امت کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ آپ کی مجلس میں بڑے مرتبے والے اور کم مرتبے والے، دوست اور دشمن ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو عدل میں سے اس کا حصہ ملنا چاہیے۔ اے عمر، آپ دیکھ لیں کہ آپ ان کے ساتھ کیسے چل رہے ہیں؟ ہم آپ کو اس دن سے ڈراتے ہیں، جس دن تمام چہرے جھکے ہوئے ہوں گے۔ اور دل خوف کے مارے خشک ہو جائیں گے اور اس بادشاہ کی دلیل کے سامنے تمام (انسانوں کی) دلیلیں ناکام ہو جائیں گی، جو اپنی کبریائی کی وجہ سے ان پر غالب اور زور آور ہو گا اورساری مخلوق اس کے سامنے بالکل بے بس ہو گی۔ سب اس کی رحمت کی امید کررہے ہوں گے اور اس کی سزا سے ڈر رہے ہوں گے۔ ہم آپس میں یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ اس امت کا آخر زمانہ میں اتنا برا حال ہو جائے گا کہ لوگ اوپر سے دوست ہوں گے اور اندر سے دشمن۔ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم نے تو آپ کو یہ خط دلی ہمدردی سے لکھا ہے اور آپ اس کے سوا کچھ اور سمجھ بیٹھیں، کیونکہ ہم نے یہ خط صرف آپ کی خیر خواہی کے جذبے سے لکھا ہے۔ والسلام علیک۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب برسر اقتدار تھے، انھوں نے ایک موقع پر لوگوں سے پوچھا کہ اگر میں ٹیٹرھا ہو جاؤں تو تم کیا کرو گے؟ لوگوں نے برجستہ جواب دیا: امیر المومنین، ہم آپ کو تلوار کی نوک سے سیدھا کر دیں گے۔ ایک موقع پر آپ خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو سنو اور اطاعت کرو۔ حاضرین میں سے آواز آئی: نہ ہم سنیں گے، نہ اطاعت کریں گے۔ پوچھا :کیوں؟ کہا گیا کہ مال غنیمت کی چادروں میں سے جتنا ہر ایک کے حصے میں آیا ہے، آپ کے جسم پر اس سے زیادہ ہے۔ آپ نے سوال کرنے والے کو اس کی وضاحت کی تو آواز آئی کہ اب ہم سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے۔حضرت عمر ہی کا واقعہ ہے، آپ خطبہ دے رہے تھے کہ خطبہ کے دوران میں مہر کے بارے میں حکم دیا کہ چار سو درہم سے زیادہ مقرر نہ کیا جائے۔ یہ حکم دے کر ابھی آپ منبر سے اترے ہی تھے کہ ایک بوڑھی عورت آگے بڑھی اور کہا: اے عمر، تمھیں حق نہیں پہنچتا کہ مہر کی کوئی حد مقرر کرو، جبکہ اللہ نے مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی اور اس نے یہ آیت پڑھی:’ واتیتم احدٰھن قنطارا ‘۲؂حضرت عمر تیزی سے منبر کی طرف یہ کہتے ہوئے پلٹے کہ ہر شخص عمر سے زیادہ فقیہ ہے اور اسی وقت اپنا حکم واپس لے لیا۔

تواصی کی اسی طرح بے شمار مثالیں ہیں جو ہمیں صحابہ کے واقعات میں ملتی ہیں۔ ان مثالوں کو دیکھا جائے تو ان میں ایسی باتیں بہت کم ہو ں گی، جن میں اصلاً دوسرے آدمی کو کوئی نئی بات بتانا یا کوئی نیا علم دینا پیش نظر ہو۔ اکثر و بیش تر باتیں وہ ہیں، جنھیں اسلام میں داخل ہونے والا اجنبی سے اجنبی آدمی بھی پہلے ہی دن جان لیتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کبار صحابہ، اسلام کی یہ بہت عام اور بنیادی باتیں بہت اصرار کے ساتھ اور بار بار ایک دوسرے کو بتاتے ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ صحابہ جانتے تھے اور دل کی گہرائی سے جانتے تھے کہ اسلام کی ہی بہت عام اور بنیادی باتیں ہی اصل باتیں ہیں، آدمی ٹھوکر کھاتا ہے تو یہیں کھاتا ہے۔ لہٰذا، جب بھی باہم ہمدردی و خیر خواہی کا کوئی مقام آتا اور وہ ایک دوسرے سے کچھ کہنا چاہتے تو بے اختیار ان کے ہاں یہی سب باتیں ایک دوسرے کے لیے تلقین و نصیحت بن جاتیں۔ انھوں نے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی جو ہدایت اللہ اور اس کے نبی سے سنی تھی، اسے اپنی معاشرتی زندگی میں یوں اپنا لیا، جیسے کوئی انسان اپنی سب سے مرغوب چیز کو اپناتا ہے۔ ان کے ہاں خلاف حق بات پر جس آزادی اور جس دلیری کے ساتھ ٹوک دینا اور وہ بھی خلیفۃ المسلمین کو ٹوک دینا، پایا جاتا تھا،یہ تبھی ممکن ہوتا ہے، جب حق معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہو اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرنا، اس میں سب سے بڑی معاشرتی قدر ٹھہری ہو۔

 

تواصی کی حقیقت

خدا نے یہ دنیا انسان کی آزمایش کے لیے بنائی ہے۔ اس میں چند روزہ زندگی گزارنے کے بعد سب انسان خدا کے حضور میں اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے پیش ہوں گے۔ جن لوگوں نے خدا کے احکام کے مطابق زندگی بسر کی ہو گی، انھیں وہ جنت کی ابدی زندگی عطا فرمائے گا اور جن لوگوں نے اس کی نافرمانی کی ہو گی، انھیں وہ دوزخ کا ابدی عذاب دے گا۔ ایمان لانے کے بعد انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ جب خدا کے سامنے پیش ہو تو اس کا خدا اس سے خوش ہو، اس کے گناہ معاف کردے اور اسے جنت کی ابدی بادشاہی عطا فرمائے۔ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر درحقیقت، ایک صالح انسان کی وہ کاوش ہے، جس کے نتیجے میں وہ چاہتا ہے کہ اس کا خاندان، اس کے دوست احباب اور اس کے ماحول کے باقی سب لوگ بھی آخرت میں سرخ رو ہوں۔ وہ بھی مہربان خدا سے اپنے صالح اعمال کا اسی طرح اچھا بدلہ پائیں، جیسے یہ خود پائے۔ دوسروں کے حق میں اس سے بڑی خواہش اور کیا ہو سکتی ہے، ان کے ساتھ اس سے بڑی ہمدردی اور کیا ہو سکتی ہے؟ ان کے ساتھ اس سے بڑی خیر خواہی اور کیا ہو سکتی ہے؟ کوئی نہیں، یقیناًکوئی نہیں۔ یہ خیر خواہی ہر ایثار و محبت اور ہر خلوص و ہمدردی سے زیادہ قدرو قیمت رکھتی ہے۔

 

خدا کی نگاہ میں تواصی کی قدر و قیمت

بھلائیوں کا سب سے بڑا قدر دان خدا ہے۔ اس کے ہاں اس بہت بڑی ہمدردی اور اس بہت بڑی خیر خواہی کی کیاقدر ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں حضرت انس کی ایک روایت دیتی ہے:

قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الا اخبرکم باقوام لیسوا بانبیاء ولا شہداء، یغبطہم یوم القیامۃ الانبیاء والشہداء لمنازلہم من اللّٰہ علی منابر من نور، یعرفون: الذین یحببون عباد اللّٰہ الی اللّٰہ، و یحببون اللّٰہ الی عبادہ، و یمشون فی الارض نصحاء، قیل: کیف یحببون عباد اللّٰہ الی اللّٰہ؟ قال: یامرونہم بما یحب اللّٰہ و ینہونہم عما یکرہہ اللّٰہ، فاذا اطاعوہم احبہم اللّٰہ. (شعب الایمان، للبیہقی)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسے لوگ نہ بتاؤں، جو نہ نبی ہوں گے نہ شہید، لیکن ان کو اللہ کے ہاں اتنا اونچا مقام ملے گا کہ قیامت کے دن نبی اور شہید بھی انھیں دیکھ کر خوش ہوں گے، وہ نور کے خاص منبروں پر ہوں گے اور پہچانے جائیں گے۔ وہ لوگ جو اللہ کے بندوں کو اللہ کا محبوب بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کا محبوب بناتے ہیں اور لوگوں کے خیر خواہ بن کر زمین میں پھرتے ہیں۔ یہ پوچھا گیا کہ اللہ کے بندوں کو وہ کیسے اللہ کا محبوب بنائیں گے؟ آپ نے فرمایا: یہ لوگ اللہ کے بندوں کو ان کاموں کا حکم دیں گے جو کام اللہ کو محبوب اور پسند ہیں اور ان کاموں سے روکیں گے جو اللہ کو پسند نہیں ہیں۔ وہ بندے جب ان کی بات مان کر اللہ کے پسندیدہ کام کرنے لگ جائیں گے تو وہ اللہ کے محبوب بندے بن جائیں گے۔‘‘ 

[۱۹۹۷ء]

__________

۲؂النساء ۴: ۲۰، ’’اور تم نے ان میں سے کسی کو ڈھیروں مال دے رکھا ہو۔‘‘

___________________

B