HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تخت سلیمان کے دھڑ کی حقیقت (حصہ دوم)

چوتھی رائے کا تجزیہ 

چوتھی رائے جو ان آیات کی تاویل میں پیش کی گئی ہے، اس میں آپ کی شدید بیماری کی وجہ سے اپنی کرسی پر ایک دھڑ کی طرح پڑے رہنے کا ذکر ہے۔ اس کی رو سے ہمارے سوالوں کے جواب یہ بنتے ہیں۔

۱۔ جسد سے مراد خود حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں جو بیماری کی شدت کی وجہ سے ایک لاشہ سا بن کر رہ گئے تھے۔

۲۔ جسد کے کرسی پر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی کرسی پر بیماری کی وجہ سے دھڑ کی طرح پڑے رہتے۔

۳۔ بیماری کی شدت ہی آپ کے لیے فتنہ یعنی آزمایش تھی۔

۴۔ مرض کی وجہ سے آپ نے دنیا کی نعمتوں کا زوال پذیر ہونا جان لیا تو اپنے لیے دنیا میں ایسی سلطنت مانگی جو چھن کر دوسرے کے پاس نہ جائے۔

یہ تاویل پہلی تین تاویلوں سے اس پہلو سے بالکل مختلف ہے کہ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے اپنے وجود کو وہ جسد قرار دیا گیا ہے جو آپ کی کرسی پر ڈالا گیا تھا۔

اس میں ’جسداً‘ کو مفعول کے بجائے حال مانا گیا ہے۔ زبان کے پہلو سے یہ بالکل ممکن ہے، لیکن اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں جو یہ خبر دی گئی ہے کہ آپ شدید بیمار ہوئے تھے حتیٰ کہ ایک بے جان لاشہ بن کر رہ گئے تھے۔ اس کے بارے میں ہمیں قرآن مجید، حدیث، بائیبل اور تاریخ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ واقعہ بھی اسرائیلی قصے کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا اعتراض اس تاویل پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں’ اناب‘ سے آپ کا حالت صحت کو لوٹنا مراد لیا گیا ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم رجوع الی اللہ بنتا ہے۔ بہرحال انابت کا جو بھی مفہوم لیا جائے یہی وہ عمل ہے جو بیماری کی حالت میں آپ نے کیا ہے۔ اگر اس سے آپ کا صحت یاب ہونا مراد لیا جائے تو پھر ظاہر ہے کہ ’قال رب اغفرلی‘ کے الفاظ جو آپ کی جانب سے انابت الی اللہ کے الفاظ ہیں، وہ بیماری کی حالت میں نہیں، بلکہ دوبارہ صحت حاصل ہونے کے بعد آپ کی زبان پر آئے ہیں، حالانکہ بیماری کی حالت میں انابت الی اللہ کا پیدا ہونا تو ایک عام مسلمان کے ہاں بھی بالکل فطری عمل ہے اور نبی کے ہاں تو ایسے مواقع پر بے مثل انابت ہوتی ہے، جیسے کہ ہم حضرت ایوب علیہ السلام کے ہاں دیکھتے ہیں، لیکن اس تاویل کے مطابق سلیمان علیہ السلام کا معاملہ کتنا عجیب ہے کہ آپ کو انتہائی شدید مرض لاحق ہے اور آپ نے مغفرت کی دعا بھی کی تو اس وقت جبکہ اللہ نے صحت یاب کر دیا اور جب صحت یاب ہوئے تو استغفار کے ساتھ ساتھ نہ چھننے والی بے مثل بادشاہی کی دعا بھی مانگ ڈالی۔ یہ ساری تصویر کسی خشیت رکھنے والے بادشاہ کی بھی نظر نہیں آتی۔ کجا یہ کہ سلیمان علیہ السلام جو خدا کے برگزیدہ اور بڑے دانا پیغمبر تھے، ان کا معاملہ ایسا ہو۔ ان کے حوالے سے تو یہ ضروری تھا کہ ان کی جانب سے بیماری میں شاید انابت کا رویہ ظاہر ہوتا۔ پھر مزید یہ کہ اس کی تو کوئی وجہ ہی نہیں بنتی کہ آدمی بیماری سے اٹھتے ہی نہ چھن سکنے والی طاقت ور اور بے مثل بادشاہی کی دعائیں کرنے لگ پڑے۔ یہ رویہ تو سلیمان علیہ السلام کی شان ہی کے خلاف ہے۔ یہ تو کسی ایسے آدمی ہی کا رویہ ہو سکتا ہے جس کا دل دنیا میں اٹکا ہو۔ پس یہ تفسیر بھی اپنی ان کمزوریوں کی بنا پر قابل قبول نہیں رہتی۔

 

پانچویں رائے کا تجزیہ 

پانچویں رائے جو ان آیات کی تاویل میں پیش کی گئی ہے، وہ امام رازی کی رائے ہے۔ اس میں انھوں نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ بات بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوف یا متوقع مصیبت کا احساس مسلط کر دیا ہو اور اس نے انھیں ایک بے جان لاشہ بنا دیا ہو۔

اس رائے کے مطابق سوالوں کے درج ذیل جواب سامنے آتے ہیں: 

۱۔ جسد سے مراد خود حضرت سلیمان علیہ السلام کا وجود ہے۔

۲۔ کرسی پر ڈالنے سے مراد آپ کا شدید خوف کی بنا پر اپنی کرسی پر ایک بے جان دھڑ کی طرح پڑے رہنا ہے۔

۳۔ شدید خوف اور متوقع مصیبت وہ فتنہ تھا جس میں آپ ڈالے گئے۔

۴۔ اس موقع پر بے مثل بادشاہی کیوں مانگی گئی؟ اس سوال کا کوئی جواب سامنے نہیں آتا۔

اس رائے میں بھی چوتھی رائے کی طرح ’جسداً‘ سے مراد خود سلیمان علیہ السلام ہی ہیں یعنی آیت میں ’جسداً‘ حال واقع ہو رہا ہے۔ اس پر تو خیر کوئی بحث نہیں، البتہ یہ رائے امام رازی رحمہ اللہ نے اپنے قیاس سے پیش کی ہے۔

’’تفسیر کبیر‘‘ میں آپ کے الفاظ یہ ہیں:

اقول لا یبعد ایضاً ان یقال انہ ابتلاء اللّٰہ تعالٰی بتسلیط خوف او توقع بلاء.
’’میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی بعید نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی خوف یا متوقع مصیبت کو غالب کر کے آپ کو آزمایا ہو۔‘‘

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ آیات کے اجمال کی کوئی واضح تفصیل نہیں کر رہے، بس ایک امکان ظاہر کر رہے ہیں جو درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔

دوسرا اعتراض اس رائے پر وہی ہے جو اس سے پچھلی رائے پر کیا گیا ہے کہ اس میں انابت سے مراد اللہ تعالیٰ کا آپ کے احوال کو درست کر دینا ہے۔ حالانکہ اگلی آیت میں سلیمان علیہ السلام کی اپنی انابت کا بیان ہے۔ اگر ’ثم اناب‘ سے اللہ تعالیٰ کا حالات کو درست کرنا مراد لیا جائے تو پھر ’قال رب اغفرلی‘ کے الفاظ دوران فتنہ میں آپ کے رویے کو ظاہر نہیں کرتے، بلکہ اس کے بعد آپ کے عمل کا بیان قرار پاتے ہیں۔

حالانکہ جیسے پچھلے صفحات میں بھی ذکر کیا گیا ہے، یہ ضروری ہے کہ یہ انابت دور فتنہ ہی میں ہو۔ جبکہ اس سے متصل قبل بھی سلیمان علیہ السلام کی انابت ہی کا ایک شان دار واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ 

تیسرا اعتراض بھی وہی ہے یعنی یہ کہ بے مثل بادشاہی ہی کی دعا کیوں مانگی گئی۔ یہ اس دعا کا کیا موقع و محل تھا۔ اس بات کا کوئی جواب ہمیں اس رائے میں نہیں ملتا۔

چنانچہ یہ رائے بھی اپنی ان خامیوں کی بنا پر قبول نہیں کی جا سکتی۔

 

مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے

دور حاضر میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ میں ان آیات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس پر اٹھنے والے سب سوالوں کا جواب دیا ہے۔ آپ کا طریقۂ تفسیر چونکہ روایتی تفاسیر سے بالکل مختلف ۵؂ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس رائے کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ان آیات کا ترجمہ یہ کیا ہے:

’’اور ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ہم نے اس کے تخت پر ایک دھڑ کی طرح ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا۔ اس نے دعا کی: میرے رب، مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی سلطنت بخش جو میرے سوا کسی کے لیے زیبا نہیں۔ تو بڑا ہی بخشنے والا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۶/ ۵۲۹۔۵۳۰)

وہ اپنی تفسیر’’تدبر قرآن‘‘ میں ان آیات کے تحت لکھتے ہیں:

’’یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت کا دوسرا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۶؂... تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ سخت امتحان پیش آیا کہ دشمنوں نے یورش کر کے ان کے بیش تر علاقے چھین لیے اور باقی علاقوں میں بھی ایسی گڑ بڑ پھیلا دی کہ نظم حکومت عملاً بالکل درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ ان کی تاخت سے صرف مرکز بچا جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام بالکل مجبور و محصور ہو کر رہ گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان تھا، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام ایک خدا ترس بادشاہ تھے، اس وجہ سے انھوں نے یہ گمان فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی غلطی کی سزا دی ہے۔ اس احساس نے ان کے غم کو دوبالا کر دیا اور وہ اس غم اور بے بسی کی حالت میں اپنے تخت حکومت پر ایک جسد بے جان ہو کر رہ گئے۔ اس وقت انھوں نے نہایت تضرع کے ساتھ اپنے رب سے دعا کی کہ اے رب، میرے گناہ معاف کر اور اگرچہ میں تیرے فضل و انعام کا حق دار نہیں رہ گیا ہوں، لیکن تو بڑا بخشنے والا ہے، اس وجہ سے میرے عدم استحقاق کے باوجود مجھے ایسی بادشاہی دے جس کے سزاوار اس طرح کے گناہ کے ساتھ دوسرے نہ ہوتے ہیں، نہ ہوں گے۔‘‘ ( ۶/ ۵۳۳) 

 

مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اس اجمالی گفتگو کے بعد ’ولقد فتنا سلیمان‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یعنی ہم نے سلیمان کو امتحان میں ڈالا۔ یہ امتحان اللہ کی سنت ہے۔ ضروری نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کسی جرم ہی کی سزا کے طور پر امتحان میں ڈالے گئے ہوں۔ امتحان تمام نبیوں اور رسولوں کو پیش آئے ہیں جس سے ان کے صبر یا شکر کی آزمایش ہوئی ہے۔ اسی طرح کے ایک امتحان میں حضرت سلیمان علیہ السلام بھی ڈالے گئے۔ اور چونکہ وہ ایک بادشاہ تھے، اس وجہ سے ان کو یہ امتحان ان کی بادشاہی کی راہ سے پیش آیا۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۳۔ ۵۳۴)

قرآن مجید نے سلیمان علیہ السلام پر آنے والے اس امتحان کو ’والقینا علی کرسیہ جسداً‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ ان الفاظ کی شرح کرتے ہوئے مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’یہ نہایت مختصر،لیکن نہایت جامع لفظوں میں اس امتحان کا بیان ہے کہ کہاں تو وہ ایک وسیع الاطراف حکومت کے نہایت طاقت ور اور صاحب اقتدار بادشاہ تھے یا ہم نے ان کو ان کے تخت پر ایک بالکل جسد بے جان بناکر ڈال دیا۔ لفظ ’جسد‘ یہاں بطور کنایہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بے بسی اور ان کے غم و الم کی تصویر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی حکومت سمٹ سمٹا کر مرکز تک محدود رہ گئی اور حالات نے ان کو اس قدر بے بس اور غم زدہ بنا دیا کہ گویا صرف جسم رہ گیا، روح غائب ہو گئی۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ایک بے بس اور غم زدہ بادشاہ کی جو اپنے مرکز میں محصور ہو کر رہ گیا ہو، اس سے بہتر تصویر نہیں ہو سکتی۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۴)

سلیمان علیہ السلام خدا کے پیغمبر تھے۔ ان پر خدا کی طرف سے یہ مصیبت آئی تو انھوں نے اس موقع پر جو رویہ اختیار کیا، وہ واقعی ایک پیغمبر کا رویہ ہے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے اسے ’ثم اناب‘کی شرح کرتے ہوئے بیان کیا ہے:

’’...یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام ایسے حالات میں بھی اپنے رب سے مایوس نہیں ہوئے، بلکہ ان کو احساس ہوا کہ یہ ان کی کسی غلطی پر ان کی پکڑ ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ اسی کی طرف توبہ و استغفار کے لیے متوجہ ہوئے۔‘‘ (تدبر قرآن۶/ ۵۳۴)

انابت کی اس حالت میں انھوں نے خدا سے کیا دعا کی مولانا اسے ’قال رب اغفرلی وہب لی ملکا لا ینبغی لا حد من بعدی، انک انت الوہاب‘ کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

’’(اس نے دعا کی: میرے رب، مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی سلطنت بخش جو میرے سوا کسی کے لیے زیبا نہیں۔) اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تو مجھے ایسی بادشاہی دے، جیسی بادشاہی میرے بعد کسی اور کو نہ ملے، بلکہ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ اگرچہ میں اپنے گناہ کے سبب سے کسی حکومت کا اہل تو نہیں رہ گیا ہوں، تاہم تو اپنے فضل سے مجھے ایسی بادشاہی دے جس کا سزاوار نہ میں ہوں، نہ میرے بعد کوئی اور ہو گا۔
....تو بڑا بخشنے والا ہے، اس وجہ سے میں بھی اپنی غلطیوں کے باوجود امیدوار ہوں کہ تو مجھے محروم نہیں فرمائے گا۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۴)

 

دعا میں موجود الفاظ ’لا ینبغی لاحد‘کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس دعا میں اصلی زور بادشاہی کی بے مثال عظمت و شوکت پر نہیں، بلکہ بلا استحقاق بادشاہی دیے جانے پر ہے کہ مجھے میرے گناہوں کے باوجود بادشاہی دے جبکہ میرے بعد کوئی اور اس کا سزاوار نہیں ٹھیرے گا۔ اس دعا میں اپنے گناہ کا جو شدید احساس ہے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی غایت خشیت و انابت کی دلیل ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۴)

 

مولانا اصلاحی کی رائے کا تجزیہ 

تاویل کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو ان کے اقتدار کے حوالے سے آزمایش میں ڈالا۔ وہ اس آزمایش میں انتہائی بے بس و مجبور ہو گئے۔ انھوں نے ان حالات میں گھر جانے کو اپنی ہی کسی کوتاہی اور غلطی کا نتیجہ سمجھا، لیکن وہ ان حالات میں مایوس نہیں ہوئے، بلکہ پوری انابت کے ساتھ خدا کی طرف پلٹے، اس سے معافی مانگی اور اپنی غلطی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اور خود کو کسی بادشاہی کا مستحق نہ گردانتے ہوئے بھی خدا سے محض اس کے فضل و کرم کی بنا پر اپنے لیے اقتدار کی دعا کی۔ اور اس سے وہ بادشاہی مانگی جو ان کے بعد کسی کو بھی ایسی صورت میں نہ ملنے والی ہو۔

اس تاویل کے مطابق آیات سے متعلق زیر بحث چار سوالوں کے جواب یہ بنتے ہیں:

۱۔ جسد سے مراد خود سلیمان علیہ السلام ہیں۔

۲۔ کرسی پر ڈالنے کا مطلب سلیمان علیہ السلام کا ملک میں اپنے اختیارات کے حوالے سے بے بس ہو جانا ہے۔

۳۔ اقتدار کو قائم رکھنے کے حوالے سے آپ کو جو مشکلات پیش آئیں، یہی وہ فتنہ اور آزمایش تھیں جس میں آپ مبتلا کیے گئے تھے۔

۴۔ چونکہ آپ کو اقتدار ہی کی راہ میں مشکلات پیش آئی تھیں، لہٰذا آپ نے مغفرت طلب کرنے کے بعد اس کے اسی فضل کے لیے دست سوال دراز کیا۔

ان جوابات کے حوالے سے اس تاویل پر غور کیا جائے تو بجا طور پر مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی یہ تاویل ایک پوری بات ہے۔ اس میں انھوں نے ان آیات کا جو مدعا بیان کیا ہے، وہ ایک طرف خدا کی اس حکمت کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے صالح بندوں کو آزماتا ہے تو دوسری طرف وہ اس شان نبوت کو سامنے لاتا ہے کہ انبیا پر جب آزمایش آتی ہے تو پھر ان کا رویہ کیا ہوتا ہے، ان کے ہاں پھر عجز و انکسار کے کیا رنگ نمودار ہوتے ہیں اور خدا کے ساتھ ان کے تعلق کی شدت کیسی نیاز مندی میں ڈھلتی ہے۔

پچھلی ساری بحث کے تناظر میں، اگر ہم مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی اس تاویل کا دقت نظر سے مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ وہ واحد تاویل ہے جو قرآن مجید کے اس مشکل مقام کو واضح طور پر حل کر دیتی ہے اور اس پر اس نوعیت کے اعتراض بھی وارد نہیں ہوتے جو اس کے علاوہ دوسری تاویلات پر وارد ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیے، ان پر ایک اعتراض یہ تھا کہ ان میں سے بعض تاویلات ۷؂میں قرآن مجید کے اپنے الفاظ کی صحیح رعایت ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ جبکہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ان آیات کا جو مفہوم بیان کیا ہے، اس میں افعال کے باہم عطف و معطوف کا معاملہ ہو، ’جسداً‘ کے لفظ کی بحث ہو یا ’اناب‘کے مفہوم کا بیان، ہر حرف اور ہر لفظ ٹھیک اپنے مدعا ہی کو بیان کر رہا ہے۔ چنانچہ دیکھیے ’ولقد فتنا سلیمان‘میں فتنہ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا بتاتے ہیں کہ یہ امتحان اللہ کی سنت ہے۔ تمام نبیوں اور رسولوں کو امتحان پیش آئے ہیں، چنانچہ ضروری نہیں کہ حضرت سلیمان کسی جرم ہی کی سزا کے طور پر امتحان میں ڈالے گئے ہوں، یعنی دوسری تاویلات میں فتنہ ہی کے لفظ کی وضاحت میں جس طرح کی رکیک باتیں سلیمان علیہ السلام سے منسوب کی گئیں، مولانا نے ان سب کی یکسر نفی کر دی اور یہ بتایا کہ یہ تو خدا کا طریقہ ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کو آزماتا ہے۔ اس کے بعد ’القینا علی کرسیہ جسداً‘ کے تحت آپ نے اس القا کو اس فتنے کا بیان قرار دیا ہے جس میں سلیمان علیہ السلام ڈالے گئے تھے۔ جبکہ دوسری اکثر تاویلات میں اسے کسی آزمایش میں ناکام ہونے پر خدا کی طرف سے دی جانے والی سزا قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہ دوسرا جملہ واضح طور پر پہلے جملے ’ولقد فتنا سلیمان‘ کا بیان ہے ۔’ثم اناب‘ کے الفاظ سے مولانا نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت مراد لی ہے جبکہ بعض دوسری تاویلات میں اسے خدا کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد آیت ۳۵یعنی ’قال رب اغفرلی وہب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی‘ کے دونوں جملوں کو مولانا نے انابت ہی کی تفصیل قرار دیا ہے۔ آیت کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے ’ثم اناب‘ کی تفصیل ہونا چاہیے، البتہ ’وہب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی‘ کا ٹکڑا کیسے اناب کی تفصیل قرار پا سکتا ہے، فہم کے پہلو سے اس میں ضرور مشکل محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دوسرے مفسر نے اسے ’اناب‘ کی تفصیل قرارنہیں دیا، ۸؂لیکن مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ یہ خدا سے مغفرت طلب کرنے کے بعد کسی دنیوی جاہ وحشمت کی حرص کا اظہار نہیں، بلکہ یہ بھی ایک منکسر عاجز نبی کا خدا کے در سخاوت پر دستک دینا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کا یہ مطلب نہیں کہ تو مجھے ایسی بادشاہی دے جیسی بادشاہی میرے بعد کسی اور کو نہ ملے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ اگرچہ میں اپنے گناہ کے سبب سے کسی حکومت کا اہل تو نہیں رہ گیا ہوں، تاہم تو اپنے فضل سے مجھے ایسی بادشاہی دے جس کا سزاوار نہ میں ہوں نہ میرے بعد کوئی اور ہو گا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اصلی زور بادشاہی کی بے مثال عظمت و شوکت پر نہیں، بلکہ بلا استحقاق بادشاہی دیے جانے پر ہے کہ مجھے میرے گناہوں کے باوجود بادشاہی دے اور ایسی بادشاہی جس کا میرے بعد کوئی اور سزاوار نہیں ٹھیرے گا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اپنے گناہ کا جو شدید احساس ہے، وہ حضرت سلیمان کی غایت خشیت و انابت کی دلیل ہے۔ خشیت و انابت کے بھی کئی درجات ہیں۔ ان درجات میں یہ مقام بھی آتا ہے جب توبہ و انابت کرنے والا خدا کے ساتھ قرب وتعلق کی وہ منزلیں طے کرلیتا اور اس کے سامنے عجزوتذلل اختیار کرنے میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کے اپنے ہاں احساس خطا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے اعتمادی اعتماد میں بدلتی اور ہچکچاہٹ اقدام میں ڈھلتی ہے۔ بندے میں اس سارے انقلاب کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی پوری ذات کو بالکل خدا کے قدموں میں لا کرڈال دیتا اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس خداے فیاض کے سامنے اس کا کوئی بندہ جب یوں سارے دل اور ساری روح کے ساتھ آن کھڑا ہوتا ہے تو پھر اس کے در رحمت سے پہلی عطا جو اسے ملتی ہے وہ اپنی ذات پر اعتماد و یقین اور ہچکچاہٹ کے بجائے اقدام کی یہ دولت ہے۔ پھر خدا اس کے دل میں احساس ندامت کے بجائے یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور خدا اس کا ہے۔ چنانچہ پھر محتاج اپنے داتا سے مانگتا اور فقیر اپنے غنی سے سوال کرتا ہے۔ وہ سوال جو اس کے دل میں آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ’ہب لی ملکا لا ینبغی لا حد من بعدی‘ کی جو وضاحت کر دی ہے، بس اس سے آیت کا یہ حصہ بھی ’ثم اناب‘ ہی کی تفصیل قرار پاتا ہے، ورنہ اس کے فہم میں علما بہت کوشش کے باوجودبھی یہ گوہرمقصود نہ پا سکے تھے۔

اس کے بعد آپ دیکھیں کہ سابقہ تاویلات میں سے بعض ۹؂تاویلات پر یہ شدید اعتراض پیدا ہوتا تھا کہ ان سے اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کی شان نبوت شدید مجروح ہوتی ہے، لیکن اس کے برعکس مولانا کی یہ تاویل حضرت سلیمان علیہ السلام کی شان نبوت کو پوری قوت سے سامنے لاتی ہے۔ چنانچہ دیکھیے، اس تاویل کی ابتدا ہی میں مولانا فرماتے ہیں کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس کے بعد ان آیات کی ساری شرح جو انھوں نے بیان کی ہے، وہ واقعتہً حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت ہی کی داستان ہے۔ پھر اپنی ساری تاویل بیان کرنے کے بعد حضرت سلیمان کی دعا کو بھی جس خاص زاویے سے آپ نے سمجھا اور بیان کیا ہے، اس سے بھی حضرت سلیمان کی غایت خشیت و انابت ہی کا اظہار ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ شدید خشیت و انابت ہی پیغمبر کی اصل شان ہوتی ہے۔

چنانچہ حضرت سلیمان کی شان نبوت کا یہ اظہار مولانا کی اس تاویل کی دوسری بڑی خوبی ہے۔ سابقہ تاویلات میں سے بعض ۱۰؂تاویلات پر یہ اعتراض ہوا تھا کہ ان میں بیان کردہ مضمون ما قبل اور مابعد کی آیات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس حوالے سے آپ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی تاویل کو دیکھیے تو یہ ماقبل اور مابعد سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ سورۂ ص میں یہ سلسلۂ کلام دراصل متعدد انبیا کی اوابیت اور ان کی انابت کا بیان ہے۔ چنانچہ اسی حوالے سے ان آیات سے ماقبل سلیمان علیہ السلام ہی کی انابت کا ایک اور واقعہ بیان ہوا ہے، جس میں آپ کے جہاد کے گھوڑوں کا معاینہ کرتے ہوئے نماز عصر کے قضا ہو جانے اور شدید تاثر کی حالت میں آپ کے گھوڑوں پر تلوار چلانے کا ذکر ہے۔ مولانا اصلاحی نے اس واقعے کو اور زیر بحث آیات میں بیان کردہ واقعے کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں آنے والے انابت و اوابیت کے دو یادگار واقعات کے طور پر لیا ہے۔ ماقبل کی آیات سے تو آپ ان آیات کو اس طرح سے مربوط کرتے ہیں اور مابعد کی آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا اور جنات کے تسخیر کر دیے جانے کا ذکر ہے، ان کی شرح کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ مذکورہ بالا امتحان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام پر آپ کی دعا کے نتیجے میں اللہ کا یہ فضل ہوا کہ اس نے آپ کو ہوا اور جنات پر کنٹرول بخشا۔ چنانچہ آپ کی یہ بیان کردہ تاویل ماقبل و مابعد کی آیات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہ اس تاویل کی تیسری خوبی ہے۔

اس کے بعد آپ یہ دیکھیں کہ سابقہ تاویلات میں سے بعض ۱۱؂تاویلات محض بے بنیاد قصے کہانیوں پر مشتمل روایات پر مبنی ہیں، لیکن اس کے برعکس مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی بیان کردہ یہ تاویل ایک تاریخی واقعے پر مبنی ہے۔ بائیبل میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:

’’اور خداوند نے سلیمان کا ایک مخالف برپا کیا۔ ہدد ادومی جو ادوم کے بادشاہوں کی نسل سے تھا... اور خداوند نے سلیمان کا ایک دوسرا مخالف رزوں بن الی یاداع برپا کیا۔ وہ اپنے آقا صوبہ کے بادشاہ ہددعازر سے بھاگا تھا۔ تو اس کے پاس آدمی جمع ہوئے اور وہ ڈاکووں کا سردار بنا۔ جس وقت کہ داؤد نے ان کو ہلاک کیا تو وہ دمشق کو گئے اور وہاں رہے اور انھوں نے اس کو دمشق میں بادشاہ بنایا اور وہ ہدد کی شرارت سے بڑھ کر سلیمان کے سارے ایام میں اسرائیل کا مخالف رہا اور اس نے اسرائیل سے نفرت کی اور ادوام کا حاکم رہا۔‘‘ (کلام مقدس۱۔ ملوک ۱۱: ۱۴، ۲۳۔۲۵)

کلام مقدس (بائیبل) کی ان آیات میں سلیمان علیہ السلام کے خلاف یورش برپا کرنے والوں کا ذکر جس طرح سے کیا گیا ہے، وہ خاص طور پر قابل غور ہے، یعنی خود خداوند نے سلیمان کے دو مخالف برپا کیے۔ یہ الفاظ بالکل واضح طور پر ’ولقد فتنا سلیمان‘ کی شرح کرتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام کے مخالفین نے جن علاقوں میں یورش برپا کی تھی وہ کتنی شدید تھی، کب وہ کنٹرول سے باہر ہو گئی تھی اور کب اس کو کنٹرول کر لیا گیا، اس کی تفصیل گو یہود کے ہاں پوری طرح محفوظ نہیں رہی، لیکن اسرائیلی تاریخ سے انھیں پیش آنے والی مشکلات کا ایک حد تک اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔

John Brightاپنی کتاب ''A History of Israel'' میں ’’سلیمان اور اس کی سلطنت‘‘ کے زیرعنوان یہ لکھتا ہے کہ: ہداد نے سلیمان کے لیے ایک عرصہ تک یورش برپا کیے ر کھی اور اس نے کچھ عرصہ کے لیے بعض علاقے اسرائیلیوں سے چھین بھی لیے۔ شام کے اندر سلیمان کے لیے صورت حال زیادہ تشویش ناک تھی، رزوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے دمشق پر قبضہ کر لیا اور وہاں کا حکمران بن گیا، اس نے سلیمان کی پوزیشن کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہم پر یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس کے جواب میں سلیمان نے کیا کیا اقدامات کیے اور ہم یہ بھی تعیین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس دور کی بات ہے، اسی طرح سلیمان کو شام میں پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔

بائیبل اور یہ اسرائیلی تاریخ گو اس صورت حال کی تفصیلات تو ہمارے سامنے نہیں رکھتی، مگر قرآن مجید کے اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہمارے سامنے وہ خاطر خواہ مواد ضرور رکھ دیتی ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سلیمان علیہ السلام اپنے دور حکومت میں اقتدار کے حوالے سے بعض سنگین مشکلات کا شکار ہوئے تھے۔

چنانچہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی اس تاویل کی یہ چوتھی خوبی ہے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت پر مبنی ہے۔

بلا شبہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی اس تاویل کی ان امتیازی خوبیوں کی بنا پر اس کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ یہ وہ واحد تاویل ہے جو سورۂ ص کی زیر بحث آیات کے مدعا کو واضح طور پر بیان کر دیتی ہے۔ ھذا ما عندی والعلم عند اللّٰہ۔

[۱۹۹۹ء]

_________

 

۵؂مولانا اصلاحی رحمہ اللہ قرآن مجید کی تفسیر میں قرآن کے اپنے الفاظ اور آیات کے نظم کو آخری درجے میں فیصلہ کن قرار دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ متن کو شرح اور اصل کو فرع پر حاکم قرار دیتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: مقدمۂ تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ از مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ۔

۶؂پہلا واقعہ ان آیات سے ما قبل کی متصل آیات میں بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ دراصل سلطنت کے کاموں میں آپ کی مشغولیت کی بنا پر نماز عصر قضا ہو جانے کے بعد آپ کی انابت کا ایک یاد گار واقعہ ہے۔

۷؂دیکھیے، دوسری اور تیسری تاویل کے تجزیے میں ’فتنا‘ اور ’القینا‘ کے باہم عطف و معطوف ہونے کی بحث، پہلی تاویل کے تجزیے میں ’جسداً ‘کے لفظ پر بحث اور چوتھی اور پانچویں تاویل میں ’اناب‘ کے لفظ پر بحث۔

۸؂آیت کے اس ٹکڑے سے عموماً سات باتیں مراد لی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے لیے معجزہ طلب کیا۔ دوسری یہ کہ انھوں نے ایسی سلطنت کو اپنے ساتھ اس لیے خاص کیا کہ آپ کے خیال میں آپ تو اسے سنبھال سکتے تھے اور دوسروں کے بس کی یہ چیز نہ تھی۔ تیسری یہ کہ آپ نے چاہا کہ پہلے کی طرح مجھ سے کوئی سلطنت چھین نہ سکے۔ چوتھی یہ کہ آپ نے چاہا کہ آپ کو دنیا اپنی آخری حد تک حاصل ہو جائے تاکہ آپ کا دل اس کے لیے کبھی بھی نہ ترسے۔ پانچویں یہ کہ آپ لوگوں کے لیے اتنے بڑے اقتدار کے ساتھ بہترین اسوہ بنیں۔ چھٹی یہ کہ آپ اپنی فضیلت کے خواہاں تھے۔ ساتویں یہ کہ مرض سے شفا یاب ہونے کے بعد آپ نے جب یہ جان لیا کہ دنیا کی نعمتیں زوال پذیر ہیں تو خدا سے اپنے لیے لازوال بادشاہی مانگی۔

۹؂دیکھیے، پہلی تاویل پر امام رازی کی تنقید حاشیہ ۴میں اور تیسری تاویل کے تجزیے میں مولانا مودودی کی متعلقہ حدیث پر درایت کے حوالے سے تنقید۔

۱۰؂دیکھیے، پہلی اور دوسری تاویل کا تجزیہ۔

۱۱؂دیکھیے، پہلی، دوسری اور چوتھی تاویل کا تجزیہ۔

___________________

B