HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تخت سلیمان کے دھڑ کی حقیقت (حصہ اول)

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ خدا کی طرف سے پیش آنے والی یہ آزمایش جہاں عام انسانوں میں سے کھرے اور کھوٹے کو ممیز کر دیتی ہے، وہاں یہ انبیا و صالحین کے لیے ان کی تربیت، درجات کی بلندی اور خدا کے قرب کا باعث ہوتی ہے۔ سورۂ ص (۳۸) کی آیات ۳۴ اور ۳۵ میں اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام پر آنے والی ایک آزمایش کا ذکر ہے۔ قرآن مجید کا یہ مقام تاویل کے اعتبار سے مشکل ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ مفسرین نے اس کی تاویل میں بڑی محنت کی ہے۔ ذیل میں ہم اس کی تاویل میں پیش کی جانے والی مختلف آرا اور ان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ وما توفیقنا الا باللّٰہ۔

سورۂ ص کی زیر مطالعہ آیات حسب ذیل ہیں:

وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْْمَانَ وَأَلْقَیْْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖجَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکاً لَّا یَنبَغِیْ لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ.

ان آیات کا سادہ ترجمہ یہ ہے:

’’اور ہم نے سلیمان کو جانچا اور اس کی کرسی پر جسد (یعنی ایک دھڑ ۱؂) ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا اور دعا کی: اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی سلطنت بخش جو میرے سوا کسی کے لیے زیبا نہ ہو۔ تو بڑا ہی بخشنے والا ہے۔‘‘

ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایک ایسی آزمایش آئی تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کے تخت پر کسی دھڑ کو ڈال دیا تھا۔ وہ اس صورت حال کو دیکھنے کے بعد مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا، اس سے معافی مانگی اور مزید یہ کہ اس سے اپنے لیے ایک بے مثل بادشاہی کی دعا کی۔

مذکورہ آیات میں تاویل کی حسب ذیل مشکلات ہیں:

۱۔ جسد سے کیا مراد ہے ؟ 

۲۔ جسد کے کرسی پر ڈالنے کا کیا مطلب ہے ؟ 

۳۔ اس میں آزمایش کس پہلو سے تھی ؟ 

۴۔ اس موقع پر آپ نے اپنے لیے بے مثل بادشاہت ہی کی درخواست کیوں کی ؟ 

ان آیات کی تاویل میں درج ذیل آرا پیش کی گئی ہیں:

 

پہلی رائے 

پہلی رائے یہ کہ ان آیات میں ’جسد‘ سے مراد ایک شیطان ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک غفلت کے نتیجے میں آپ کے تخت پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ آپ اس کی وجہ سے ایک سخت فتنے سے دوچار ہوئے۔ آپ کی وہ غفلت کیا تھی۔ اس کی تفصیل اس طرح سے ہے کہ آپ کو کسی جزیرہ میں واقع شہر صیدون کے بادشاہ کے متعلق بعض ایسی خبریں پہنچیں، جن کے نتیجے میں آپ نے اس پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آپ اپنے لاؤ لشکر سمیت دوش ہوا پر اس شہر میں جا پہنچے۔ اس بادشاہ سے جنگ کی اور اسے قتل کر دیا۔ مال غنیمت میں آپ کے ہاتھ اس کی بیٹی بھی آئی۔ یہ مسلمان ہو گئی۔ آپ نے اس سے شادی کر لی۔ چنانچہ یہ آپ کے حرم میں داخل ہو گئی۔ شادی کے کافی عرصہ بعد تک بھی یہ اپنے مرنے والے باپ کو نہ بھول سکی۔ اسے یہ یاد کرتی اور روتی رہتی۔ اس صورت حال کو دیکھ کر سلیمان علیہ السلام کے حکم پر جنات نے اس کے لیے اس کے باپ کا ہم شکل ایک بت بنا دیا اور اسے وہی لباس پہنا دیا جو وہ پہنا کرتا تھا۔ یہ ملکہ اسے دیکھ کر اپنا دل مطمئن کر لیتی، لیکن جلد ہی اس نے اور اس کی کنیزوں نے جو اس کی قوم سے تعلق رکھتی تھیں، اس بت کی پرستش شروع کر دی۔ پرستش کا یہ سلسلہ چالیس دن تک جاری رہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اس سے یکسر بے خبر تھے۔ بالآخر آپ کے وزیر اعظم آصف بن برخیا نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کے محل میں بت کی پرستش کی جا رہی ہے۔ آپ نہایت برہم ہوئے اور اس بت کو توڑ دیا، ملکہ کو سزا دی اور اپنی طرف سے توبہ کے لیے یہ کیا کہ تن تنہا بیابان میں نکل گئے، راکھ کا فرش بچھایا اور اس پربیٹھ کر اللہ کے سامنے گڑگڑائے اور اپنی اس غفلت پر خدا سے معافی کے خواست گار ہوئے، لیکن آپ کے مقدر میں اس غفلت کی بنا پر ایک سخت فتنے میں مبتلا ہونا لکھا تھا۔ چنانچہ آپ اس فتنے میں مبتلا ہوئے۔ ۲؂ 

اس ابتلا کا واقعہ یوں ہے کہ آپ کا سارا اقتدار ایک انگشتری میں تھا، جسے آپ ہر وقت پہنے رکھتے اور صرف قضاے حاجت یا بیویوں سے ملاقات ہی کے وقت اپنے سے الگ کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام وہ انگشتری اپنی ایک کنیز امینہ کے سپرد کر دیتے تھے۔ جب وہ وقت آ گیا، جس میں اس فتنے کا وقوع مقدر تھا تو رفع حاجت کے لیے جاتے ہوئے، جونہی آپ نے وہ انگشتری امینہ کو دی، ایک جن امینہ پر آپ کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس سے وہ انگشتری لے لی۔ انگشتری کا اس جن کے ہاتھ میں کیا آنا تھا کہ سب اقتدار اس کے قبضے میں آ گیا۔

سلیمان علیہ السلام کو اب کوئی پہچانتا بھی نہ تھا۔ ان کی شکل و صورت بدل چکی تھی جب وہ اپنے بارے میں بتاتے کہ اصل سلیمان میں ہوں تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے، انھیں گالیاں دیتے اور ان پر مٹی پھینکتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر سلیمان علیہ السلام نے جان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمایش ہے۔ چنانچہ آپ نے خدا کی رضا پر راضی ہوتے ہوئے، اقتدار اور تخت و تاج کی طرف سے اپنا دھیان ہٹایا اور نان جویں کی تلاش میں لگ گئے۔ آپ کو ماہی گیروں کے ہاں کچھ کام مل گیا۔ آپ ان کی مچھلیاں ڈھوتے تھے اور وہ آپ کو اس محنت کے عوض روزانہ دو مچھلیاں دے دیتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام اس آزمایش میں چالیس دن یعنی اتنا ہی عرصہ مبتلا رہے، جتنا عرصہ آپ کے محل میں غیر اللہ کی پرستش کی گئی تھی۔ ۳؂پھر خداے کریم نے آپ پر دوبارہ نظر کرم فرمائی۔ چنانچہ اس نے اہل دربار کو اس شک میں مبتلا کر دیا کہ سلیمان کی کرسی پر اس وقت جوشخص براجمان ہے، وہ سلیمان نہیں ہے، بلکہ ان کے روپ میں کوئی اور ہے۔ اس شک کے بعد صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لیے انھوں نے اسے آزمانا چاہا اور اس کے سامنے تورات کھولی تاکہ وہ اس میں سے پڑھ کر انھیں کچھ بتائے، لیکن وہ بھاگ گیا اور جاتے جاتے حضرت سلیمان کی انگوٹھی سمندر میں پھینک گیا تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے گم ہو جائے، لیکن خدا کی قدرت کہ اس انگوٹھی کو ایک مچھلی نے نگل لیا۔ پھر وہی مچھلی حضرت سلیمان کو ماہی گیروں سے مزدوری میں مل گئی۔ حضرت سلیمان نے اس مچھلی کو پکانے کے لیے تیار کرتے ہوئے جونہی اس کا پیٹ چاک کیا تو اس میں سے اپنی انگشتری پالی۔ انگشتری کا پہننا تھا کہ کیا وحوش و طیور اور کیا جن و انس، سب سلام کرتے ہوئے، حاضر ہو گئے۔ اور یوں وہ سخت آزمایش اپنے اختتام کو پہنچی۔ چنانچہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈالنے سے مرادیہی شیطان ہے۔ جو ان کی کرسی پر قابض ہوگیا تھا اور چالیس دن سلیمان بن کرحکومت کرتا رہا۔

یہاں تک آیت ۳۴کے اجمال کی تفصیل تھی۔ آیت ۳۵کے بارے میں اس رائے کے حاملین کا یہ کہنا ہے کہ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے گناہ کی معافی مانگنے کے بعد خدا سے ایسی بادشاہی مانگی جس پر جنات یا شیاطین قادر نہ ہو سکیں۔ یہ رائے ابن عباس رضی اللہ عنہ، مجاہد رحمہ اللہ، سعید بن جبیر رحمہ اللہ، حسن رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ سے روایت کی گئی ہے۔ ابن کثیر اس رائے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قوی سند کے ساتھ مروی ہے۔

 

دوسری رائے 

دوسری رائے یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیس سال کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا۔ شیاطین نے یہ دیکھ کر کہا کہ اگر یہ لڑکا زندہ رہا اور سلیمان کے بعد تخت پر بیٹھ گیا تو ہم سلیمان کے بعد پھر اس کی غلامی میں گرفتار رہیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اسے قتل کرنے کی سازش کی۔ سلیمان علیہ السلام کو اس سازش کا پتا چل گیا تو انھوں نے اس لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا تاکہ جنات کو اس کی خبر ہی نہ ہو۔ سلیمان علیہ السلام کا یہ اقدام ہی وہ فتنہ تھا جس میں وہ مبتلا ہوئے، یعنی انھوں نے خدا پر توکل نہیں کیا، بلکہ خود سے ایک اقدام کرکے لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا۔ خدا کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ چنانچہ ایک موقع پر جبکہ آپ اپنی جنگی مہمات میں مصروف تھے، وہ لڑکا مردہ حالت میں آپ کے تخت پر آن گرا۔ تب سلیمان علیہ السلام کو تنبہ ہوا کہ انھوں نے خدا پر توکل نہیں کیا۔ لہٰذا انھوں نے خدا سے بہت توبہ کی۔ پس ان آیات میں جسد سے مراد وہ مردہ لڑکا ہے جو تخت پر آن گرا تھا اور سلیمان علیہ السلام کا خدا پر توکل کرنے کے بجائے بادلوں پر اعتماد کرنا وہ فتنہ تھا جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے۔

یہ رائے طبرانی ’’الاوسط‘‘ میں لائے ہیں۔ ابن مردویہ نے اسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند ۴؂سے روایت کیا ہے۔ الامامیہ نے اس رائے کو ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے اور یہی رائے شعبی سے بھی روایت کی گئی ہے۔

 

تیسری رائے 

تیسری رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ایک واقعہ مروی ہے کہ انھوں نے ایک دن یہ قسم کھائی کہ میں آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا جو بڑا ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو گا۔ اس موقع پر آپ نے ان شاء اللہ نہ کہا، حالانکہ فرشتے نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی بھی کہ آپ ان شاء اللہ کہیں، لیکن آپ اس وقت کی اپنی خاص کیفیت کی وجہ سے یہ بھول گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی بیویوں میں سوائے ایک کے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی جو بچہ جنا وہ آدھے دھڑکا تھا۔ یعنی اس کا ایک ہی بازو، ایک ہی پہلو اور ایک ہی ٹانگ تھی۔ یہاں تک کا مضمون تو حدیث میں موجود ہے، لیکن اس کے بعد تفاسیر یہ کہتی ہیں کہ دائی نے یہی بچہ لا کر سلیمان علیہ السلام کے تخت پر ڈال دیا۔ چنانچہ یہ بچہ ہی وہ دھڑ ہے جس کے آپ کی کرسی پر ڈالنے کا ذکر ’والقینا علی کرسیہ جسداً‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا ان شاء اللہ نہ کہنا وہ فتنہ تھا جس میں آپ مبتلا ہوئے۔ اس عجیب الخلقت بچے کو دیکھ کر آپ نے توبہ و انابت اختیار کی۔

ان آیات کی یہ تفسیر’’ صحیح بخاری‘‘ اور’’ مسلم‘‘ کی ان متفق علیہ روایات کے حوالے سے بیان کی گئی ہے جنھیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ سند کے پہلو سے اس پر بحث کرنا مشکل ہے۔

 

چوتھی رائے

چوتھی رائے ان آیات کے بارے میں یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کسی سخت مرض میں مبتلا ہو گئے تھے اور اس مرض کی وجہ سے وہ بالکل ایک بے جان لاشہ بن کر رہ گئے، چنانچہ آپ اپنی کرسی پر بیٹھتے تو ایسے محسوس ہوتا جیسے ایک دھڑ سا پڑا ہوا ہے۔ اس رائے کے مطابق ’القینا علی کرسیہ جسداً‘ اصل میں ’القیناہ علی کرسیہ جسداً‘ ہو گا۔ ’جسداً ‘اس میں مفعولی ضمیر غائب سے حال واقع ہو رہا ہے یعنی یہ لفظ سلیمان علیہ السلام کی حالت بیان کر رہا ہے۔ اس کے بعد وہ ’ثم اناب‘ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حالت صحت کی طرف لوٹے۔ چنانچہ جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انھوں نے مغفرت کی دعا کی۔ آیت ۳۵کی شرح کرتے ہوئے اس رائے کے قائلین کہتے ہیں کہ مرض کی وجہ سے آپ نے دنیا کی نعمتوں کا زوال پذیر ہونا جان لیا تو اپنے لیے دنیا میں ایسی سلطنت مانگی جو چھن کر دوسروں کے پاس نہ جائے۔ ان آیات کی یہ تاویل تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں ابومسلم اور بعض دوسرے لوگوں کی رائے کی حیثیت سے بیان کی گئی ہے۔ امام رازی نے اس رائے کو محقق علما کے ایک گروہ کی طرف سے بیان کردہ رائے کے طور پر پیش کیا ہے۔

 

پانچویں رائے

پانچویں رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس طرح آزمایا کہ آپ پر شدید خوف یا بعض اطراف سے متوقع خطرے کا احساس مسلط کر دیا۔ آپ اس شدید خوف یا خطرے کی وجہ سے بالکل کمزور ہو گئے۔ چنانچہ آپ اپنے تخت پر یوں پڑے رہتے جیسے کوئی دھڑ پڑا ہو۔ پھر اللہ نے آپ کو اس خوف سے نجات دی اور آپ کو دوبارہ صحت عطا فرمائی۔ اس رائے کے مطابق بھی ’جسداً‘ کا لفظ خود سلیمان علیہ السلام کی حالت بیان کر رہا ہے۔ یہ رائے امام رازی رحمہ اللہ کی ہے اور اسے انھوں نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔

 

آرا کا تجزیہ

زیربحث آیات کی تاویل میں عموماً یہی پانچ آرا پیش کی گئی ہیں۔ اب ہم ان آرا کا تجزیہ کرتے اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی رائے ہمیں آیات کی صحیح تاویل تک پہنچاتی ہے یا نہیں اور کیا کوئی رائے ان سب سوالوں کا تسلی بخش جواب دیتی ہے جو ان آیات کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں (آیات کے بارے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کا ذکر ہم نے ابتدا میں کر دیا ہے، انھیں وہاں دیکھا جا سکتا ہے۔)

 

پہلی رائے کا تجزیہ

جہاں تک پہلی رائے کا تعلق ہے جس میں سلیمان علیہ السلام کی انگشتری چھن جانے اور آپ کے تخت پر ایک جن کے قابض ہو جانے کا ذکر ہے، اس کے مطابق سوالات کے جواب یہ بنتے ہیں:

۱۔ جسداً سے مراد وہ شریر جن ہے جس نے دھوکے سے سلیمان علیہ السلام کی انگشتری حاصل کر لی تھی۔

۲۔ کرسی پر جسد ڈالنے کا مطلب اس جن کا آپ کے تخت پر قابض ہو جانا ہے۔

۳۔ سلیمان علیہ السلام جس آزمایش میں ڈالے گئے تھے، وہ یہ تھی کہ آپ عرش سے یک دم فرش پر پھینک دیے گئے۔

۴۔ آپ سے چونکہ سلطنت چھن گئی تھی، لہٰذا آپ نے خدا سے سلطنت ہی کے حصول کی دعا کی اور ساتھ ہی یہ شرط لگا دی کہ یہ سلطنت میرے علاوہ کسی اور کو نہ ملے، یعنی کوئی پہلے کی طرح میری حکومت پر قابض نہ ہو جائے۔

اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے امام رازی نے اپنی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں چار نکات بیان کیے ہیں: پہلا یہ کہ اگر شیاطین انبیا کی شکلیں اختیار کرنے پر قادر ہوں تو پھر نبوت کا سارا سلسلہ ہی مشتبہ ہو جاتا ہے۔ شرائع پر اعتماد کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی اور سارے کا سارا دین جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ چنانچہ کیا معلوم کہ حضرت محمد، حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی شکل میں شیاطین ہی لوگوں سے ہم کلام ہوئے ہوں۔ دوسرا یہ کہ اگر شیطان اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام سے اس طرح کا معاملہ کر سکتا ہے تو پھر علما اور صلحا تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے، انھیں تو وہ قتل بھی کردیتا، ان کی تصانیف ضائع کر دیتا اور ان کے گھر بار تباہ کر دیتا۔ چونکہ شیطان کی طرف سے اس طرح کا معاملہ کسی ایک عالم کے ساتھ بھی پیش نہیں آیا، لہٰذا انبیا کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ تیسرا یہ کہ یہ بات اللہ کی حکمت کے بالکل منافی ہے کہ وہ اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کی بیویوں پر شیطان کو تسلط دے دے۔ یہ تو بڑی ہی قبیح بات ہے، اس کا وقوع کیسے ممکن ہے۔ اور چوتھا نکتہ انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر یہ مانا جائے کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی بیوی کو اس بت پرستی کی اجازت دی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اس نبی نے کفر کیا، یہ کیسے ممکن ہے اور اگر آپ کی بے خبری میں بت پرستی ہوئی تو پھر اس پر آپ کا مواخذہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس تنقید کی رو سے یہ واقعہ نہ صرف خدا کی حکمت کے خلاف ہے، بلکہ شان نبوت کے بھی سراسر منافی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اس رائے کو کسی صورت بھی قبول نہیں کرتے۔ اس میں ’جسداً‘ سے وہ جن مراد لیا گیا ہے جو آپ کے تخت پر قابض ہو گیا تھا اور چالیس دن تک حاکم بنا رہا۔ حالانکہ ’جسداً‘ کا لفظ تو اپنے اندر اس کی کوئی گنجایش نہیں رکھتا کہ اس سے ایک بھرپور فعال وجود مراد لیا جائے۔ ’جسداً‘ کا لفظ تو اس موقع استعمال میں اپنے اندر بے حس و حرکت اور جامد ہونے کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی ایک واضح نظیر بھی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی لفظ سونے کے اس بچھڑے کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جسے سامری نے بنا کر بنی اسرائیل کے سامنے کھڑا کر دیا اور کہا کہ یہ تمھارا خدا ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید نے ’جسداً لہ خوار‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کا مطلب ہے ’’ایک دھڑ ڈکرانے والا‘‘۔ قرآن مجید یہاں ’جسداً‘ کے لفظ سے اس کا بے جان اور بے حس و حرکت ہونا بیان کر رہا ہے۔ چنانچہ اس لفظ کا اطلاق ایک ایسے وجود پر نہیں کیا جا سکتا جس میں بھرپور فعالیت پائی جائے اور جو صاحب اقتدار بن کر بیٹھ گیا ہو۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان آیات سے متصل اگلی آیات یہ بتا رہی ہیں کہ اس آزمایش سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کے بعد ہی سلیمان علیہ السلام کو ہواؤں اور شیاطین پر اقتدار دیا گیا تھا۔ قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں:

فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِأَمْرِہٖرُخَآءً حَیْْثُ أَصَابَ. وَالشَّیَاطِیْنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍ. وَّآخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِیْ الْأَصْفَادِ.(ص ۳۸: ۳۶۔۳۸) 
’’(سلیمان نے بے مثل بادشاہی مانگی) تو ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے سازگار ہو کر چلتی تھی، جہاں کہیں کا وہ قصد کرتا اور سرکش جنوں کو بھی اس کے لیے مسخر کر دیا۔ نہایت ماہر معماروں اور غوطہ خوروں کو اور دوسرے جنوں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے رہتے۔‘‘

قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس آزمایش کے بعد سلیمان علیہ السلام کو ہواؤں اور جنوں پر کنٹرول دیا گیا تھا، لیکن زیر بحث رائے اس بات پر مبنی ہے کہ سلیمان علیہ السلام پہلے سے جنات اور ہواؤں پر کنٹرول رکھتے تھے۔ پس یہ رائے قرآن کی صریح نصوص سے متصادم ہے۔

چوتھی اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ سارا واقعہ محض ایک من گھڑت کہانی ہے جسے ان آیات کے اجمال کی تفصیل میں پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ بات ہی خلاف حقیقت ہے کہ سلیمان علیہ السلام کا اقتدار کسی انگشتری میں تھا اور وہ کبھی گم ہوئی تھی اور اس کے گم ہونے کے نتیجے میں سلیمان علیہ السلام کو حکومت سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ نہ قرآن و حدیث آپ کی کسی ایسی انگشتری کا پتا دیتے ہیں اور نہ بائیبل ہی اس کی خبر رکھتی ہے، البتہ افسانوی نوعیت کی اسرائیلی روایت میں ضرور اس کا ذکر آتا ہے۔

مولانا مودوی رحمہ اللہ اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ پورا افسانہ از سرتاپا خرافات پر مشتمل ہے جنھیں نومسلم اہل کتاب نے تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے اخذ کر کے مسلمانوں میں پھیلا دیا ہے اور حیرت ہے کہ ہمارے ہاں کے بڑے بڑے لوگوں نے ان کو قرآن کے مجملات کی تفصیلات سمجھ کر اپنی زبان میں نقل کر دیا۔ حالانکہ نہ انگشتری سلیمانی کی کوئی حقیقت ہے، نہ حضرت سلیمان کے کمالات کسی انگشتری کے کرشمے تھے، نہ شیاطین کو اللہ نے یہ قدرت دی ہے کہ انبیا کی شکلیں بنا کر آئیں اور خلق خدا کو گمراہ کریں اور نہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی نبی کے قصور کی سزا ایسی فتنہ انگیز شکل میں دے۔ جس سے شیطان نبی بن کر ایک پوری امت کا ستیاناس کر دے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن خود اس تفسیر کی تردید کر رہا ہے۔ آگے کی آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب یہ آزمایش سلیمان کو پیش آئی اور انھوں نے ہم سے معافی مانگ لی تب ہم نے ہوا اور شیاطین کو ان کے لیے مسخر کر دیا، لیکن یہ تفسیر اس کے برعکس یہ بتا رہی ہے کہ شیاطین پہلے ہی انگشتری کے طفیل حضرت سلیمان کے تابع فرمان تھے۔ تعجب ہے جن بزرگوں نے یہ تفسیر بیان کی انھوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بعد کی آیات کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘(تفہیم القرآن ۴/ ۳۳۶۔۳۳۷)

 

 

دوسری رائے کا تجزیہ 

دوسری رائے کے مطابق جس میں سلیمان علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو بادلوں میں چھپانے کا ذکر ہے، آیات کے اجمال کی تفصیل یہ بنتی ہے:

۱۔ ’جسداً‘ سے مراد وہ لڑکا ہے جو بادلوں سے مردہ حالت میں سلیمان علیہ السلام کی کرسی پرگرا تھا۔

۲۔ کرسی پر ڈالنے کا مطلب لڑکے کو بادلوں سے کرسی پر گرا دینا ہے۔

۳۔ فتنہ یہ تھا کہ سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے کی جان کو خطرہ محسوس کیا تو خدا پر توکل کرنے کے بجائے اسے موت سے بچانے کی تدابیر کرنے لگ پڑے۔

۴۔ اس موقع پر بے مثل بادشاہی مانگنے کی وجہ اس رائے میں بیان نہیں کی گئی۔

اس تاویل میں بھی بنیادی غلطی یہی ہے کہ یہ متصل بعد کی آیات سے متضاد ہے۔ حضرت سلیمان کو ہواؤں پر تصرف اس فتنے سے پہلے نہیں، بلکہ اس کے بعد دیا گیا تھا۔ دوسری غلطی اس تاویل میں یہ ہے کہ اس میں القاے جسد (کرسی پر دھڑ ڈالنے) کو آزمایش کا حصہ قرار نہیں دیا گیا، بلکہ اسے خدا پر توکل نہ کرنے کی سزا قرار دیا جا رہا ہے، یعنی اس تاویل کے مطابق ان آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم نے سلیمان کو اس کے بیٹے کے حوالے سے آزمایا، وہ اس آزمایش میں ناکام ہو گیا تو ہم نے سزا کے طور پر اس کے بیٹے کو اس کے تخت پر مردہ حالت میں پھینک دیا، پھر اس نے توبہ کی اور کہا...۔ ان آیات کا اگر یہ مطلب ہوتا تو ضروری تھا کہ ’ولقد فتنا‘ پر ’القینا‘ کا عطف واؤ کے بجائے ’فا‘ وغیرہ سے ہوتا، چنانچہ آیت کے الفاظ کے مطابق یہ ضروری ہے کہ القاے جسد ہی اصل فتنہ یا فتنے کا اصل قرار پائے، تیسری بات یہ بھی ہے کہ اس میں پہلی آیت کا جو مفہوم بھی لیا جا رہا ہے، وہ دوسری آیت میں موجود بے مثل بادشاہی کی دعا سے بالکل غیر متعلق ہے چنانچہ اس صورت میں دونوں آیات بالکل بے ربط محسوس ہوتی ہیں، پس یہ رائے بھی کسی طرح قبول نہیں کی جا سکتی۔

 

تیسری رائے کا تجزیہ 

تیسری رائے میں سلیمان علیہ السلام کے ایک ہی رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جانے کا ذکر ہے، اس رائے کے مطابق سوالوں کے جواب ترتیب سے یہ بنتے ہیں:

۱۔ جسد سے مراد وہ ادھورا بچہ ہے جو سلیمان علیہ السلام کے ہاں پید اہوا تھا۔

۲۔ کرسی پر القاے جسد سے مراد دائی کا اس ادھورے بچے کو آپ کے تخت پر لا کر ڈال دینا ہے۔

۳۔ آپ نے مستقبل کے پردے سے رونما ہونے والی چیز کے بارے میں بات کی، مگر خدا کی مرضی کے ساتھ اس کا مشروط قرار دینا آپ بھول گئے۔ یہ بھولنا ہی وہ فتنہ تھا جس میں آپ گرفتار ہوئے۔

۴۔ اس موقع پربے مثل بادشاہی کیوں مانگی؟ اس سوال کا جواب اس رائے میں بھی سامنے نہیں آتا۔ 

کہنے کو تو یہ رائے ’’بخاری‘‘ و’’مسلم‘‘ کی متفق علیہ روایت پر مبنی ہے، لیکن آپ روایت کو دیکھیں تو قطع نظر اس بات کے کہ وہ درایت کی کسوٹی پر پوری اترتی بھی ہے یا نہیں، اس میں جس ادھورے بچے کے پیدا ہونے کا ذکر ہے، اس کے بارے میں اس حدیث میں یہ بالکل نہیں بتایا گیا کہ یہی وہ جسد ہے، جسے خدا نے ان کی کرسی پر ڈالا تھا پھر مزید یہ کہ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم نہیں ہوتی ہے کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی شرح کے طور پر بیان فرمائی تھی۔

حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

عن ابی ہریرۃ قال: قال سلیمان لاطوفن اللیلۃ علی تسعین امراۃ. کل تلد غلاما یقاتل فی سبیل اللّٰہ فقال لہ صاحبہ قال سفیان یعنی الملک قل ان شاء اللّٰہ فنسی فطاف بہن فلم تات امراۃ منہن بولد الا واحدۃ بشق غلام فقال ابوہریرہ یرویہ قال لو قال ان شاء اللّٰہ لم یحنث وکان درکا فی حاجتہ.(بخاری، کتاب کفارات الایمان) 
’’ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلیمان نے قسم کھائی کہ میں ضرور آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ ان میں سے ہر بیوی ایک لڑکا جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو گا۔ سفیان راوی بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھی یعنی فرشتے نے کہا: ان شاء اللہ کہیے، تو وہ بھول گئے۔ پھر آپ اپنی بیویوں کے پاس گئے بھی، لیکن ان میں سے صرف ایک عورت کے ہاں لڑکے کا آدھا جسم پیدا ہوا۔ پھر ابوہریرہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو ان کی قسم رائگاں نہ جاتی، بلکہ یہ (ان شاء اللہ کہنا) ان کے مقصد کے حصول (کا ذریعہ) ہوتا۔‘‘

اس حدیث کو دیکھ لیجیے، اس میں بس ایک ادھورے بچے کے پیدا ہونے کا ذکر تو ہے، لیکن یہ ادھورا بچہ ہی وہ جسد ہے جسے تخت پر ڈالا گیا تھا، حدیث اس سے بالکل ہی غیرمتعلق ہے اور نہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان آیات کے اجمال کی تفصیل کر رہی ہے۔

خود امام بخاری اس حدیث کو کتاب الجہاد، کتاب الانبیا اور کتاب الایمان و النذور وغیرہ میں تو لائے ہیں، لیکن کتاب التفسیر میں سورۂ ص کی تفسیر کے تحت اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، بلکہ آیت ’وہب لی ملکا‘ کے تحت ایک اور ہی روایت نقل کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں بھی وہ نقص ہے کہ فتنے اور القاے جسد کو الگ الگ قرار دیا گیا ہے اور دوسری چیز کو پہلے کی سزا مانا گیا ہے۔ حالانکہ آیت سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ القاے جسد یعنی دھڑ کا ڈالنا فتنے کا اصل حصہ بالکل اصل فتنہ تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس رائے کے قائل حضرات کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان شاء اللہ نہ کہنے پر اس وقت تنبہ ہوا جب انھوں نے دیکھا کہ جو کچھ میں نے چاہا تھا، وہ بالکل نہیں ہوا۔ میرا تو خیال یہ تھا کہ میرے ہاں ایسے نوے بچے ضرور پیدا ہوں گے جو بڑے ہو کر جہاد کریں گے، لیکن ان کی جگہ یہ ایک ادھورا بچہ پیدا ہو گیا ہے۔ یقیناًیہ میرے ان شاء اللہ نہ کہنے کا نتیجہ ہے۔ اس رائے میں یہ عجیب بات سامنے آتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس ادھورے بچے کی پیدایش تک اپنی باقی۸۹بیویوں کے حاملہ نہ ہونے کے باوجود نوے بچوں کی امید میں مبتلا رہے اور جب یہ ادھورا بچہ سامنے آ گیا تو ان کو تنبہ ہوا کہ میری وہ خواہش ان شاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے پوری نہیں ہوئی۔ حالانکہ یہ تنبہ انھیں اس وقت ہو جانا چاہیے تھا، جب انھیں معلوم ہوا ہو گا کہ میری ۸۹بیویاں تو حاملہ ہی نہیں ہوئیں۔

مولانا مودودی رحمہ اللہ اس حدیث پر درایتہً بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ حدیث حضرت ابوہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے اور اسے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے۔ خود’’بخاری‘‘ میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ان میں سے کسی میں بیویوں کی تعداد ۶۰بیان کی گئی ہے، کسی میں ۷۰، کسی میں ۹۰، کسی میں ۹۹اور کسی میں ۱۰۰۔ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے، ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے اور باعتبار روایت اس کی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا، لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ہرگز نہ فرمائی ہوگی، جس طرح وہ نقل ہوئی ہے، بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یاوہ گویوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر بطور مثال بیان فرمایا ہو گا۔ اور سامع کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ اس بات کو حضور خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔ ایسی روایت کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے۔ ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشا اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد ۶۰ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ ۶بیوی کے حساب سے مسلسل دس گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے۔ کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضور نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی۔ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی کہ قرآن مجید میں جس جسد کے ڈالنے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے۔ اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حضور نے یہ واقعہ اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا تھا۔ علاوہ بریں اس بچے کی پیدایش پر حضرت سلیمان کا استغفار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انھوں نے استغفار کے ساتھ یہ دعا کیوں مانگی کہ ’’مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن۴/ ۳۳۷۔۳۳۸)

چنانچہ زیر بحث آیات کی تاویل میں یہ رائے بھی اس ساری تنقید کے بعد قابل قبول نہیں رہتی۔

_______

 

۱؂بعض مفسرین نے ’جسدا‘ کو ’القینا‘ کے مفعول محذوف سے حال مانا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’ایک دھڑ ڈال دیا‘‘ کے بجائے اسے ’’ایک دھڑ کی طرح ڈال دیا‘‘ بنتا ہے۔

۲؂فتنے میں پڑنے کی وجوہ اس سے مختلف بھی بیان کی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ آپ نے کاروبار سلطنت سے مسلسل تین دن گریز کیا جس کی سزا کے طور پر آپ فتنے میں ڈال دیے گئے۔ دوسری یہ کہ آپ نے ایک شیطان سے پوچھا: تم لوگوں کو کس طرح فتنے میں مبتلا کرتے ہو۔ تو اس نے کہا: میں آپ کو بتاتا ہوں، آپ ذرا مجھے اپنی بادشاہت کی انگشتری دے دیں۔

۳؂بعض لوگوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ اس سارے عرصے میں سلیمان علیہ السلام کی ازواج مطہرات کی عصمت بھی اس شیطان سے محفوظ نہ رہی، لیکن بہت سے دوسرے علما نے اس کا انکار کیا ہے۔

۴؂اس کی سند ضعیف ہے، لیکن مفسرین نے اسے ایک رائے ہی کے طور پر بیان کیا ہے۔

____________

 

B