انسان کے انفرادی پہلو کے حوالے سے ایمان کا بس ایک ہی تقاضا ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنی زندگی میں عمل صالح اختیار کرے، لیکن انسان کی شخصیت صرف انفرادی پہلو ہی نہیں رکھتی، اس کا ایک سماجی اور معاشرتی پہلو بھی ہے۔ انسان کی زندگی میں جس طرح اس کا انفرادی پہلو اہم ہے، اسی طر ح اس کا معاشرتی اور سماجی پہلو بھی اہم ہے۔
انسان فطری اور طبعی طور پر سماج او رمعاشرے میں رہنے والا وجود ہے۔ وہ جہاں بھی پایا جاتا ہے کسی خاندان کے ایک رکن اور معاشرے کے ایک فردہی کی حیثیت سے پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے خاندان اور اپنے ماحول سے کٹ کر، زندگی بسر کرے۔ وہ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ اپنے ماحول ہی کے ساتھ تعامل میں بسر کرتا ہے۔ پھر یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سماج یا معاشرہ اس پر کوئی خارج سے مسلط کی جانے والی چیز نہیں، انسان نے خود اسے جنم دیا ہے۔ خاندان کی ابتدا ایک فرد سے ہوئی، پھر اس خاندان کے افراد نے بہت سے خاندانوں کو جنم دیا اور ان بہت سے خاندانوں نے ایک سماج اور ایک معاشرے کو وجود بخشا۔ انسان کا وہ ماحول، جس کے ساتھ اسے صبح و شام واسطہ پڑتا ہے، وہ اس کا خاندان اور اس کا معاشرہ ہے۔ اس کے ساتھ اس کے تعلق کو دیکھیے، کتنا پختہ اور کتنا گہرا ہے۔
انسان کا اپنے کنبے اور خاندان کے ساتھ تعلق اتنا گہرا ہے کہ وہ اسے بالکل اپنا ہی وجود سمجھتا ہے۔ ہر باپ اپنی زندگی میں، جس طرح اولاد کی پرورش کرتا اور پھر اپنے مرنے پر، جس طرح اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر جاتا ہے، یہ چیز بتاتی ہے کہ انسان کا خاندان اس کے اپنے ہی وجود کا دوسرا نام ہے۔خاندان سے آگے بڑھیے، قبیلہ یا برادری کو دیکھیے، یہ بھی کوئی معمولی تعلق کی چیز نہیں، بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ یہ بھی دراصل، ایک خاندان ہی ہوتا ہے، جو اپنے اندر کسی خاص شخص کی اولا د ہونے کی عصبیت رکھتا ہے۔ یہ عصبیت کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی، یہ اس قبیلے اور برادری پر بہت گہرے اثرات رکھتی ہے۔ اسے اگر دیکھنا ہو تو اس برادری کو زندگی کی کسی مشکل گھاٹی میں دیکھیے، پوری برادری بالکل جسد واحد ہوتی ہے۔ ان کا نفع بھی ایک ہوتا ہے اور نقصان بھی ایک۔ وہ جیتے ہیں تو ایک ساتھ اور مرتے ہیں تو ایک ساتھ۔ قبیلے اور برادری سے آگے بڑھیے، قوم کے ساتھ بھی انسان کا تعلق انتہائی گہرا نظر آتا ہے۔ ایک خطۂ ارض کے حوالے سے جو قوم وجود میں آتی ہے، وہ سیکڑوں خاندانوں پر مشتمل ہونے کے باوجود بھی آپس میں گہرا تعلق رکھتی ہے۔ انسان جس سرزمین میں رہتا ہے، اسے مادر وطن کا نام دیتا اور اپنے ہم وطن افراد کو اس ایک ماں کے بیٹے قرار دیتا ہے۔ یہ تعلق ان میں قومی عصبیت، قومی مزاج اور قومی اقدار کو جنم دیتا ہے۔ مادروطن کا اشتراک پوری قوم میں یک رنگی و ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ یہ بات یہیں تک محدود نہیں، مذہب نے انسان کو جن حقیقتوں سے متعارف کرایا ہے، ان میں سے ایک وحدت آدم بھی ہے۔ سب انسان ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ اس حقیقت کو اگر مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے ماحول اور اپنے معاشرے میں جس شخص سے بھی ملتا ہے، وہ محض ابن آدم ہونے کے ناتے سے اس کے بھائی چارے، محبت، ہمدردی اور اس کی خیر خواہی کا حق دار ہوتا ہے۔ پھریہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے خاندان اور معاشرے سے محض یہ فطری تعلق ہی نہیں رکھتا، بلکہ وہ قدم قدم پر اور طرح طرح سے، اس کا محتاج بھی ہے۔ ماں باپ اور اولاد کی صورت میں انسان کو دیکھیے یا میاں اور بیوی کے رشتے میں اس پر نظر ڈالیے، رشتہ داری کے تعلق میں اس کو بندھا دیکھیے یا رشتۂ الفت و دوستی کے اس اسیر پر نگاہ دوڑایے، ہم سایے اور پڑوسی کے تعلق میں اسے وابستہ دیکھیے یا رفقائے معاش کے ہم رکاب اسے پایے۔ انسان اپنے کس تعلق اور کس بندھن کو نظر انداز کر سکتا ہے، وہ کس قید اور کس رشتے سے بے نیاز ہو سکتا ہے۔کسی سے بھی نہیں، یقینا، کسی سے بھی نہیں۔ الغرض آپ انسان کو جس وقت بھی دیکھیں اور جس جگہ پر بھی دیکھیں، وہ اپنے کچھ متعلقین کے درمیان گھرا ہوتا ہے۔ کبھی اسے ان کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور کبھی انھیں اس کے ساتھ۔ آدمی کسی صورت میں بھی ان سے بے نیاز ہو کر زندگی بسر نہیں کر سکتا ، بلکہ اس کی زندگی کا بہت بڑا حصہ ان کے ساتھ لین دین، میل ملاقات اور تعاون و تناصر ہی میں گزرتا ہے۔ اپنے خاندان اور اپنے ماحول کے ساتھ اس کا یہ تعلق یقیناً فطر ی اور طبعی ہے، وہ اپنی مادی زندگی کی تعمیر و ترقی میں بھی انھی کا سہارا لیتا ہے اور اپنی اخلاقی زندگی میں بھی انھی سے غذا پاتا ہے۔ فرد اور اس کے ماحول کے مابین یہ گہرا تعلق، مذہب کی نظر میں، اس پر ماحول کا ایک حق قائم کرتا ہے، جسے ادا کرنا، اس کی ذمہ داری ہے۔ ماحول کا حق کیا ہے اور انسان کی ذمہ داری کیا ہے؟ اب ہم اس کی طرف بڑھتے ہیں، لیکن اس کی طرف بڑھنے سے پہلے ہم اس سے متعلق انسانی فطرت کے بعض پہلووں پر روشنی ڈالیں گے۔
یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اگر کوئی چیز ناپسند ہو تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اگر ناپسندیدگی کچھ زیادہ ہو جائے تو انسان اس چیز کا ذکر بھی پسند نہیں کرتا، پھر اگر یہ نا پسندیدگی، دشمنی تک جا پہنچے تو آدمی اس چیز کو مٹانے کے درپے ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب اسے کوئی چیز پسند آتی ہے اور اس کا دل اس کی طرف لپکتا ہے تو اسے اختیار کر لیتا ہے، جب یہ پسند ایک حد سے آگے بڑھتی ہے تو وہ اس کی بقا اور اس کی خوبی و خوش نمائی کے لیے کوشاں ہوتا ہے اور جب پسندیدگی کا معاملہ ہر حد سے گزر جاتا ہے تو پھر آدمی اپنی جان اور مال، اپنا عیش اور آرام، سب اس کے لیے قربان کر دیتا ہے۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا باطن اگر زندہ و بیدار ہو، وہ اگر کسی حرص اور لالچ کا شکار نہ ہو تو اپنی فطرت میں وہ حق کا شیدائی اور باطل کا دشمن ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اس کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ اپنے بنی نوع کے ساتھ بے پناہ ہمدردی رکھتا ہے، خاندان اور اپنے ماحول کے دوسرے لوگوں کے ساتھ اس کا تعلق، جس کا ہم نے ابھی مطالعہ کیا ہے، وہ سب اسی بات کی گواہی دیتا ہے۔ انسان کی یہ فطرت اسے پوری قوت سے اپنے ماحول کا حق ادا کرنے کی طرف دھکیلتی ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی فطری ذمہ داری کو بہترین سطح پر ادا کرے۔
عقل و فطرت اور دین و شریعت، ۱ہر چیز اس پر شاہد ہے کہ انسان پر اس کے ماحول کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے ساتھ حقیقی نصح و خیر خواہی کا بھر پور تعلق رکھے۔ ماحول کے اس استحقاق ہی کی بنا پر قرآن مجید اس پر ’تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر‘ یعنی ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ قرآن مجید کے نزدیک یہ ذمہ داری ادا کرنا انسان کے ایمان کا دوسرا لازمی تقاضا ہے۔
ارشاد باری ہے:
وَالْعَصْرِ. إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ. إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.(العصر ۱۰۳)
’’زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے، اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی۔‘‘
یہ سورہ بتاتی ہے کہ ایک صاحب ایمان کے لیے عمل صالح کے ساتھ دوسری جو چیز لازم ہے، وہ اپنے ماحول میں حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرتے رہنا ہے۔ یہ نصح و خیر خواہی دراصل، اس ماحول کا حق ہے، جس میں وہ صاحب ایمان ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے رہتا ہے۔
تواصی یعنی ’’باہمی نصح و خیر خواہی‘‘ درحقیقت عمل صالح ہی کی ایک شاخ ہے۔ لیکن ایک خاص وجہ سے قرآن مجید اسے عمل صالح سے الگ بیان کرتا اور ایمان کا دوسرا لازمی تقاضا قرار دیتا ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ یہ تقاضا انسان کی شخصیت کے انفرادی پہلو سے نہیں، اس کے اجتماعی پہلو سے اس پر لازم آتا ہے۔ اس دنیا میں جس طرح انسان کو اس کے انفرادی پہلو میں جانچا جا رہا ہے، اسی طرح اس کے اجتماعی پہلو میں بھی اسے آزمایا جا رہا ہے۔ انسانی شخصیت کا انفرادی پہلو اور اجتماعی پہلو، دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی ایک میں بھی اس کی ناکامی دراصل، اس کی پوری ناکامی ہے۔ چنانچہ جس طرح انسان کی شخصیت کے انفرادی پہلو میں ایمان کا اظہار عمل صالح کی شکل میں ہوتا ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی شخصیت کے اجتماعی پہلو میں ایمان کا اظہار تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی شکل میں ہو۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے اس لازمی تقاضے سے کیا مراد ہے؟
تواصی بالحق او رتواصی بالصبر کی وضاحت کرتے ہوئے استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:
’’’تواصی بالحق‘ اور ’تواصی بالصبر‘ کے معنی اپنے ماحول میں ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کے ہیں۔ یہ حق کو ماننے کا بدیہی تقاضا ہے، جسے قرآن نے ’’امر بالمعروف‘ ‘اور ’’نہی عن المنکر‘‘سے بھی تعبیر کیا ہے، یعنی وہ باتیں جو عقل و فطرت کی رو سے معروف ہیں، اپنے قریبی ماحول میں لوگوں کو ان کی تلقین کی جائے اور جو منکر ہیں ان سے لوگوں کو روکا جائے۔‘‘(دین حق ۱۹)
تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے مراد اپنے ماحول میں ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرنا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں کبھی کبھار ، نصیحت کی کوئی ایک آدھ بات دوسرے سے کہہ دی جائے، بلکہ یہ زندگی بھر کا ایک عمل ہے۔ سورۂ عصر کی اس آیت کو دیکھیے، جس میں یہ ہدایت دی گئی ہے۔ اس کے الفاظ اپنے اندر زندگی بھر ایک دوسرے کو، سبھی اچھی اور معروف باتوں کی نصیحت کرتے رہنے کا مفہوم رکھتے ہیں۔ ’تواصوا‘ کے لفظ پر غور کیجیے، اس لفظ کا مطلب ہے:’’باہم نصیحت کرنا‘‘۔ انسان باہمی طور پرجس عمل کا بھی مکلف ٹھہرایا جائے گا، اس میں لازماً مداومت اور تسلسل پایا جائے گا۔ یعنی باہمی طور پر جب جب نصیحت کی ضرورت ہو گی،نصیحت کی جائے گی۔ پھر مزید یہ کہ ’تواصوا‘ کا فعل ’آمنوا‘ اور ’عملوا الصالحات‘ پر عطف ہے، یہ دونوں عمل اپنے اندر مداومت اور تسلسل کا مفہوم رکھتے ہیں۔ یعنی، ضروری ہے کہ انسان زندگی بھر کے لیے انھیں اختیار کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے عارضی طور پر ایمان لانے اور وقتی طور پر عمل صالح اختیار کرنے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ ’تواصوا‘ بھی مداومت کے ساتھ ہو۔ اس کے بعد آپ ’حق‘ کے لفظ کو دیکھیے۔ حق کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے، جو صحیح اور ثابت ہو۔ چنانچہ جو بات عالم واقعہ میں صحیح اور ثابت ہے، وہ حق ہے۔ جو عقلاً صحیح اور ثابت ہے، وہ حق ہے اور جو اخلاقاً صحیح اور ثابت ہے، وہ حق ہے۔ حق کا لفظ ایک اور مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی کسی دوسرے کا حق۔ یہ اس لفظ کا کوئی نیا معنی نہیں ہے۔ دوسرے کا حق دراصل وہ چیز ہے جو اس کے لیے ہمارے ذمے صحیح اور ثابت ہے۔ دین کیا ہے؟یہ علم کے پہلو سے کچھ حقائق کو ماننے کا نام ہے او رعمل کے پہلو سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کا نام ہے۔ لہٰذا، لفظ ’حق‘ میں وہ سب باتیں بھی شامل ہیں جو عقل اور اخلاق، دین اور شریعت کی رو سے حقائق کہلاتی ہیں اور وہ سب بھی شامل ہیں جو حقوق کہلاتی ہیں۔ چنانچہ ’ تواصوا بالحق‘ سے مراد زندگی بھر ایک دوسرے کو سب حقائق ماننے اور سب حقوق ادا کرنے کی نصیحت کرتے رہنا ہے۔انسان کے لیے حق کو صرف ماننا ہی کافی نہیں، ہر طرح کے حالات میں اس پر ثابت قدم رہنا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا، فرمایا: ’تواصوا بالصبر‘ یعنی حقائق کو ماننے اور حقوق ادا کرنے کا یہ عمل ہر طرح کے حالات میں جاری رہنا چاہیے۔
قرآن مجید نے بعض دوسرے مقامات پر حق اور حق پر ثابت قدمی کی اسی نصیحت کو ’امربالمعروف‘، یعنی’ ’نیکی کا حکم دینا‘‘ اور ’نہی عن المنکر‘ یعنی ’ ’برائی سے روکنا‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ دراصل منفی اور مثبت، دونوں پہلووں سے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ہی کا بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب باتیں جو عقل و فطرت اور دین و شریعت کی رو سے معروف ہیں، یعنی جن باتوں کا نیکی ہونا، عقل و فطرت یا دین و شریعت میں مسلم ہے، ان پر استقلال کے ساتھ خود عمل کرتے ہوئے اپنے ماحول میں موجود دوسرے لوگوں کو ان کی تلقین کی جائے اور وہ سب باتیں جو عقل و فطرت یا دین و شریعت کی رو سے بری ہیں ، ان سے مستقلاً بچتے ہوئے اپنے ماحول میں موجود دوسرے لوگوں کو ان سے بچتے رہنے کی تلقین کی جائے۔ یہ دراصل، ایک دوسرے اسلوب میں تواصی بالحق اورتواصی بالصبر ہی کا بیان ہے۔
حق اور حق پر ثابت قدمی کی یہ تلقین، حق کو ماننے اور اس پر ایمان لانے کا بدیہی تقاضا ہے اور یہی دراصل، دوسروں کی وہ حقیقی نصح و خیر خواہی ہے، جسے زندگی بھر کرتے رہنا ہر صاحب ایمان پر لازم ہے۔
سورۂ عصر کی انھی آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تواصی ان تین شرائط میں سے ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے جو آخرت کے خسارے سے یقینی طور پر بچنے کے لیے ضروری ہیں۔ انسان اگر کسی ماحول اور معاشرے میں کھڑا ہے تو اس کی نجات کے لیے صرف اس کا ایمان لے آنا اور اپنی انفرادی زندگی میں صالح ہو جانا ہی کافی نہیں، یہ بھی لازم ہے کہ وہ دوسروں کو ہمیشہ حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرتا رہے، انھیں بھی اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ دوسروں کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی یہ نصیحت کرنا، ایمان کا وہ تقاضا ہے ، جس سے انسان کسی حال میں بھی گریز نہیں کر سکتا۔ اپنے ماحول میں نصح و خیر خواہی کا یہ کام ہر شخص کے لیے، ہر جگہ اور ہر حالت میں، اس کی استطاعت کی حد تک بہر حال لازم ہے۔ استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی اسی پہلو کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’(سورۂ عصر کی) ان آیتوں میں ’ تواصوا بالحق‘اور ’ تواصوا بالصبر‘کی جو تعبیر اللہ تعالیٰ نے دعوت کی ذمہ داری کو بیان کرنے کے لیے اختیار فرمائی ہے اور جس سیاق میں اسے لایا گیا ہے ، اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ہم عارف ہوں یا عامی ،ہمارا قیام کسی بستی میں ہو یا جنگل میں ، ہم غیرمسلموں کے ملک میں رہتے ہوں یا مسلمانوں کی کسی منظم ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہوں، ہر حال میں اس کے مکلف ہیں ۔ یہ ہر فرد کی ذمہ داری اور ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے ۔ بندۂ مومن نیک عمل کرے اور ایمان کا یہ تقاضا بھی پورا کر دے تو قرآن نے یہاں ضمانت دی ہے کہ دنیا اور آخرت میں خدا کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور جنت کی ابدی بادشاہی اسے حاصل ہو جائے گی ۔ ‘‘ (قانون دعوت ۱۰۔۱۱)
تواصوا بالحق اور تواصوا بالصبر کا یہ کام اس نوعیت کا نہیں کہ اس میں نصیحت کرنے والا اور سننے والا مستقلاً الگ الگ ہوں۔وہی آدمی جو ایک موقع پر دوسرے کو نصیحت کر رہا ہے، اگلے ہی لمحے وہ اپنے مدعو کی دعوت کا محتاج ہو سکتا ہے۔ باہم نصح و خیر خواہی کا یہ کام ہر آدمی دوسرے کے لیے کر سکتا ہے۔ استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی اپنی کتاب ’’قانون دعوت‘‘ میں دعوت کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے، سورۂ عصر کے حوالے سے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اس کام کی جو نوعیت (سورۂ عصر کی) ان آیتوں میں بیان ہوئی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہے کہ دعوت کی اس صورت میں داعی اور مدعو الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ہر شخص ہر وقت جس طرح داعی ہے، اسی طرح مدعو بھی ہے۔ قرآن مجید نے اس کے لیے ’ تواصوا‘ یعنی ایک دوسرے کو نصیحت کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فرض باپ کو بیٹے کے لیے اور بیٹے کو باپ کے لیے، بیوی کو شوہر کے لیے اور شوہر کو بیوی کے لیے، بھائی کو بہن کے لیے اور بہن کو بھائی کے لیے، دوست کو دوست کے لیے اور پڑوسی کو پڑوسی کے لیے، غرض یہ کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ متعلق ہر شخص کے لیے ادا کرنا چاہیے۔ وہ جہاں یہ دیکھے کہ اس کے متعلقین میں سے کسی نے کوئی خلاف حق طریقہ اختیار کیا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے علم اور اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق اسے راستی کی روش اپنانے کی نصیحت کرے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ صبح ہم کسی شخص کو کوئی حق پہنچائیں اور شام کے وقت وہ ہمارے لیے یہ خدمت انجام دے۔ آج ہم کسی کو کوئی نصیحت کریں اور کل وہ ہمیں کسی حق کی تلقین کرے۔‘‘ (قانون دعوت۴۴)
دین کے وہ احکام جو اجتماعیت میں مسلمان کے کردار اور اس کے رویے سے متعلق ہیں، ان میں تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ دین کے ان احکام پر غور کرنے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا حقیقی ہمدرد اور حقیقی خیر خواہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک مسلمان اس دنیا میں صرف اپنی ہی ذات کے حوالے سے نہ جیے، بلکہ وہ جن کے درمیان رہتا ہو، ان کی ہدایت اور فلاح کے لیے بھی مسلسل کوشش کرتا رہے۔ اس کوشش کو قرآن مجید کہیں تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے الفاظ سے اور کہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اس رویے اور اس عمل کو سچے اہل ایمان کی ایک مستقل صفت قرار دیتا ہے، جو کسی حال میں بھی ان سے منفک نہیں ہوتی۔
ارشاد باری ہے:
اَلتَّآءِبُوْنَ الْعَابِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرَّاکِعُوْنَ السَّاجِدوْنَالْآمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحَافِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ.(التوبہ ۹: ۱۱۲)
’’یہ توبہ کرتے رہنے والے، عبادت گزار، شکر کرنے والے، اپنے رب کی خوشنودیکے لیے دوڑ دھوپ کرنے والے، رکوع و سجود کرنے والے، نیکی کی تلقین کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والے (یہی درحقیقت اہل ایمان ہیں) اور ان اہل ایمان کو خوش خبری سنا دو۔‘‘
اس آیت میں اہل ایمان کی ان صفات کا ذکر کیا گیا ہے، جو بحیثیت مومن ان میں لازماً، موجود ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک آدمی صاحب ایمان بھی ہو اور پھر یہ صفات اس میں اصلاً، مفقود ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آدمی خدا پر ایمان بھی رکھتا ہو اور خدا کی جناب میں توبہ کرنے سے اسے کوئی دل چسپی ہی نہ ہو۔ اس کی بندگی سے اسے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔اس کا شکر ادا کرنا، اس کا طریقہ ہی نہ ہو۔ اس کی خوشنودی کے لیے دوڑ دھوپ، اس کی آرزو ہی نہ ہو۔ اس کے حضور میں رکوع و سجود، اس کی تمنا ہی نہ ہو۔ اس کے حدود کی پابندی، اس کا مسئلہ ہی نہ ہو۔نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ انسان خدا پر ایمان بھی رکھتا ہو اور اسے بندگان خدا کے خیر و شر سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو، ان سے وہ بالکل ہی بے تعلق رہ کر زندگی بسر کرے۔ ان کی اصلاح و تربیت کے لیے ان کے اندر کوئی تڑپ ہی نہ ہو۔ اگر وہ فی الواقع مومن ہے تو لازماً اس میں دوسروں کی اصلاح کے لیے تڑپ ہو گی۔ یہ وہ صفت ہے، جو ایمان کے ساتھ ہی انسان میں جنم لیتی ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗأُولٰٓءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.(التوبہ۹: ۷۱)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کی نصیحت کرتے اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔یہی لوگ ہیں کہ اللہ انھیں اپنی رحمت سے نوازے گا،بے شک اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘
ایمان اور عمل صالح کا یہ خاصہ ہے کہ یہ انسانوں کے مابین محبت پیدا کرتے ہیں۔ یہ محبت اہل ایمان کو ایک دوسرے کا حقیقی رفیق بنا دیتی ہے، چنانچہ فرمایا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ ان کی رفاقت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بھلائی کی نصیحت کرتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ وہ صرف اپنے اعمال ہی کی فکر نہیں کرتے، دوسروں کے بارے میں بھی فکر مند رہتے ہیں۔ ان کے ہر فرد کا یہ حال ہے کہ وہ نہ صرف خود نیکی کی راہ اختیار کرتا، بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کی طرف کھینچتا ہے۔ خود بھی برائی سے بچتا اور دوسروں کو بھی برائی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ کی رحمت اسی پر ہو گی، جو خود بھی نیکی کی راہ اختیار کرے گا اور دوسروں کی خیر خواہی میں انھیں بھی نیکی کی طرف بلائے گا۔جو خود بھی برائی سے بچے گا اور دوسروں کے ساتھ اپنی محبت اور اخلاص کی وجہ سے، انھیں بھی برائی سے بچانے کی کوشش کرے گا۔ ان لوگوں کی اس سوچ اور اس رویے نے انھیں ایک دوسرے کا سچا غم خوار اور حقیقی رفیق بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی یہ دنیا جس اصول پر بنائی ہے، اس کے مطابق اپنی، اپنے خاندان، اپنے ماحول اور اپنے معاشرے کی سچی ہمدردی اور حقیقی خیر خواہی صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب ہم ہر ایک سے حق کہیں اور حق کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوں اور اس معاملے میں ہم کسی ملامت گر کی ہرگز پروا نہ کریں۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے یہ عہد لیا کرتے تھے کہ وہ ہمیشہ کلمۂ حق کہیں گے اور اس معاملے میں کسی کی پروا نہ کریں گے۔
راوی بیان کرتے ہیں:
و علی ان نقول بالحق اینما کنا، لا نخاف فی اللّٰہ لومۃ لائم.(مسلم، کتاب الامارہ)
’’اور( ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے) اس بات پر( بیعت کی) کہ ہم جہاں کہیں ہوں گے، ہمیشہ حق کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی کوئی پروا نہ کریں گے۔‘‘
جہاں تک اس دعوت کے دائرۂ عمل کا تعلق ہے، اس کے بارے میں یہ اصول ملحوظ رہنا چاہیے کہ نصح و خیر خواہی کی یہ ذمہ داری، دراصل، انسانوں کے باہمی تعلق و رشتہ کی بنا پر وجود میں آئی ہے۔ لہٰذا، اس کا دائرۂ عمل اصلاً انسان کا اپنا ماحول ہے۔ استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی اس دعوت کے دائرۂ عمل کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’اس دعوت کا اصل دائرہ عمل، جس طرح کہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کے الفاظ سے واضح ہے، ہر شخص کا اپنا ماحول ہے۔ اس کو یہ کام اپنے گھر، اپنے اعزہ و اقارب اور اپنے احباب ہی میں کرنا چاہیے۔ وہ جس خاندان میں رہتاہے، جس ماحول میں زندگی بسر کرتاہے، جن لوگوں میں کام کرتا اور اپنی مختلف ذمہ داریوں اور مشاغل کے لحاظ سے جن لوگوں سے متعلق ہوتا ہے، حق اور حق پر ثابت قدمی کی یہ نصیحت بھی اس پر اصلاً انھی کا حق ہے جو اگر ادا ہو گا تو لامحالہ انھی کو ادا کرنے سے ادا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے یہ اصل حق دار تو محروم رہیں اور وہ روم و ایران اور مصر و شام میں جا کر یہ دولت ان لوگوں کو بانٹنا شروع کر دے جن کا کوئی حق اللہ اور اس کے پیغمبر نے اس معاملے میں، سرے سے اس پرقائم ہی نہیں کیا۔‘‘ (قانون دعوت ۴۵)
تواصی کا دائرۂ عمل انسان کا اپنا ماحول ہے۔ البتہ اس دائرۂ عمل میں ہر آدمی کا ایک دائرۂ اختیار بھی ہوتا ہے۔ باپ کی حیثیت سے اولادانسان کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے اور شوہر کی حیثیت سے بیوی۔ ان کے معاملے میں تواصی کی نوعیت ذرا مختلف ہے۔
انسان اپنے دائرۂ اختیار کے افراد کے افعال و اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ان کے معاملے میں وہ ایک حد تک سختی بھی کر سکتا ہے اور اسی بنا پر وہ ان کے بارے میں مسؤل قرار دیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الا، کلکم راع وکلکم مسؤلعن رعیتہ.(مسلم، کتاب الامارہ)
’’آگاہ رہو، تم میں سے ہر شخص چرواہا بنا دیا گیا ہے اور ہر ایک سے اس کے گلے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نہ صرف اس حقیقت کا پتا دیتے ہیں کہ خدا کے نزدیک انسان اپنے خاندان میں کیا حیثیت رکھتا ہے، بلکہ یہ اس طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ انفرادی حیثیت سے انسان کی ذمہ داریاں کسی طرح بھی معاشرتی حیثیت سے اس کی ذمہ داریوں سے کم نہیں ہیں۔ وہ جس طرح اپنی ذات کے بارے میں مسؤل ہے، اسی طرح اپنے خاندان کے بارے میں بھی مسؤل ہے۔ چنانچہ انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک اپنے اس دائرۂ اختیار میں ہرگز کوئی منکر نہ ہونے دے، اور اگر وہ کوئی برائی دیکھے تو قوت کے ساتھ اسے مٹانے کی کوشش کرے۔ استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی اسی چیز کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’... اسی ’تواصوا بالحق‘ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اگر کوئی منکر دیکھیں تو اپنے دائرۂ اختیار میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کا ارشاد ہے:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، وذلک اضعف الایمان.(مسلم، رقم۴۹)
’’تم میں سے کوئی شخص (اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کرے۔ پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے ناگوار سمجھے۔ اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔‘‘
’ان لم یستطع‘ کے الفاظ یہاں اس استطاعت کے لیے استعمال نہیں ہوئے جو آدمی کو کسی چیز کا مکلف ٹھیراتی ہے، بلکہ ہمت اور حوصلے کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں جو ایمان کی قوت اور کمزوری سے کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کے دائرۂ اختیار میں اس کا پہلا کام یہی ہے کہ خود دین ہی کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو قوت سے منکر کو مٹا دے۔ زبان سے روکنے کا درجہ اس دائرے میں دوسرا ہے اور دل کی نفرت وہ آخری درجہ ہے کہ آدمی اگر اس پر بھی قائم نہ رہا تو اس کے معنی پھر یہی ہیں کہ ایمان کا کوئی ذرہ بھی اس میں باقی نہیں رہ گیا ہے۔‘‘(قانون دعوت ۴۶)
ہر آدمی کے اہل و عیال ہی اس کے دائرۂ اختیار کے اصل لوگ ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خصوصی ہدایت دی ہے۔
تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا عمل ہر شخص کو اپنے ماحول کا اخلاقی نگران بنادیتا ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اس نگرانی کے سب سے زیادہ حق دار اس کے اپنے کنبے اور خاندان کے افراد ہیں۔ یہی اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ انھی کے ساتھ اس کا تعلق باقی سب کی نسبت گہرا ہوتا ہے اور انھی کی اخلاقی نگرانی وہ بہترین سطح پر کر سکتا ہے۔ قرآن مجید نے اہل ایمان کو آخرت کی تیاری کرنے کی طرف توجہ دلائی تو اس کے ساتھ ہی انھیں ان کے اہل و عیال کے بارے میں بھی خصوصی ہدایت دی کہ وہ انھیں بھی (تلقین و نصیحت کر کے) آخرت کے عذاب سے بچانے کی فکر کریں۔
ارشاد باری ہے:
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ.(التحریم ۶۶: ۶)
’’اے ایما ن والو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن (یہ) انسان اور (ان کے وہ) پتھر ہوں گے، (جنھیں یہ پوجتے ہیں)۔‘‘
خدا نے دوزخ کی آگ حق سے گریز کرنے والے سرکش اور نافرمان لوگوں کے لیے بھڑکائی ہے۔ اس سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ انسان حق کے سامنے جھک جائے، اسے دل سے مانے، اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے، اپنے اس رویے پر استقلال کے ساتھ قائم رہے اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرے۔ چنانچہ اس آیت کی رو سے دراصل، اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ دوزخ کی آگ سے بچنے کے لیے حق کو مانیں، اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالیں، پھر اس پر استقلال کے ساتھ قائم رہیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس آگ سے بچانے کے لیے یہی رویہ اپنانے کی نصیحت کریں۔
قرآن مجید نے مومنین کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے، اہل و عیال کے بارے میں ان کی جس دعا کا خصوصاً ذکر کیا ہے، اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک صاحب ایمان کا رویہ اپنے اہل و عیال کے بارے میں کیا ہوتا ہے۔
فرمایا:
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَامًا.(الفرقان ۲۵: ۷۴)
’’اور (خداے رحمان کے بندے وہ ہیں) جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم کو، ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی جانب سے آنکھوں کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو پرہیزگاروں کا سردار بنا۔‘‘
مولانا امین احسن صاحب اصلاحی اس آیت کی شرح میں ’’تدبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ یہ لوگ اپنی عاقبت کی فکر کے ساتھ اپنے اہل و عیال اور اپنی آل واولاد کی عاقبت کی بھی برابر فکر رکھتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ‘ ہر شخص اپنے اہل و عیال کا چرواہا بنایا گیا ہے اور قیامت کے روز ہر شخص سے اس کے گلہ کے خیر و شر سے متعلق پرسش ہونی ہے۔ اس ذمہ داری کا کماحقہ احساس رکھنے کی وجہ سے وہ اپنے اہل و عیال کے اندر ان لا ابالی لوگوں کی طرح زندگی نہیں گزارتے جن کو صرف اپنے عیش دنیا کی فکر ہوتی ہے، اس امر سے انھیں کوئی بحث نہیں ہوتی کہ ان کے اہل و عیال نیکی کی راہ پر چل رہے ہیں یا بدی کی ... اللہ کے بندوں کا حال اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ان کو دنیا سے زیادہ اپنے متعلقین کی آخرت کی فکر رہتی ہے کہ ان میں سے کوئی شیطان کی راہ نہ اختیار کرے... اس اندیشے کی وجہ سے وہ برابر اپنے رب سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے رب، ہم کو ہمارے اہل و عیال کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کر، ان کے اعمال و اخلاق تیری پسند اور ہماری تمناؤں کے مطابق ہوں اور ہم اس دنیا میں صالحین و متقین کے سربراہ ہوں اور آخرت میں بھی صالحین و متقین کے سربراہ کی حیثیت سے اٹھیں، فساق و فجار کے امام کی حیثیت سے نہ اٹھیں۔‘‘ ( ۵/ ۴۹۰)
ایک اور مقام پر قرآن مجید نے جنتیوں کی وہ گفتگو بیان کی ہے، جس میں وہ اپنے اہل و عیال کے بارے میں اپنی اس تشویش کا ذکر کریں گے ، جو دنیا میں انھیں لاحق رہی۔
فرمایا:
وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ أَلَتْنَآہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّنْ شَیْْءٍ کُلُّ امْرِیئ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ... وَأَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَتَسَآءَ لُوْنَ. قَالُوْٓا إِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ أَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ. فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ . إِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْہٗإِنَّہٗہُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ. (الطور ۵۲: ۲۱، ۲۵۔۲۸)
’’اور جو لوگ ایمان لائے، اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ، (جنت میں) ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی جمع کردیں گے اور ان کے عمل میں سے ذرا بھی کمی نہ کریں گے... وہ (جنت میں) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے، دریافت حال کرتے ہوئے، کہیں گے: ہم اس سے پہلے اپنے اہل و عیال کے باب میں بڑے ہی چوکنے رہے ہیں تو اللہ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا اور ہمیں عذاب دوزخ سے محفوظ رکھا۔ ہم اس سے پہلے اسی کو پکارتے رہے تھے، بے شک وہ بڑا ہی باوفا اور مہربان ہے۔‘‘
تواصی بالحق کی یہ دعوت ہر انسان پر، ہر حال میں، واجب ہے۔ کوئی حقیقی اضطرار یا مجبوری تو اس میں رکاوٹ بن سکتی ہے، لیکن اس سے گریز اور اس کے بارے میں لاپروائی کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ انفال میں اس دعوت سے گریز کا نتیجہ بیان کیا ہے اور مومنین کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی یہ دعوت برپا کرنے کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی :
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُوْٓا أَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(۸: ۲۵)
’’بچو اس فتنے سے جوصرف انھی لوگوں کو لا حق نہیں ہو گا، جنھوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہو گا اور جان رکھو کہ اللہ سخت پاداش والا ہے۔‘‘
فرمایا کہ ان فتنوں سے بچو، جو صرف فتنہ پردازوں ہی کو لاحق نہیں ہوتے، بلکہ ان کا وبال عام ہوتا ہے۔ یہ محض فتنہ برپا کرنے والوں ہی کو لاحق نہیں ہوتے، بلکہ یہ ان لوگوں تک بھی جا پہنچتے ہیں، جن کا ان سے کوئی دور کا تعلق بھی نہ ہو۔ جب کسی معاشرے میں اصلاح کا رجحان بالکل نہ ہو یا اس کے صالحین اپنے آپ کو بس انفرادی اصلاح تک محدود کر لیں تو پھر اس میں جو فتنے اٹھتے ہیں، وہ ایسے نہیں ہوتے کہ ان کے نتائج صرف مجرم تک محدود رہیں۔ پھر ایک کی لگائی ہوئی آگ لازماً دوسرے کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو حق کو مان تو لیتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی میں عمل بھی کرنے لگتے ہیں، لیکن بس اپنی حد تک۔ وہ حق کے ساتھ ایسا لگاؤ نہیں رکھتے کہ اس کی خاطر دوسروں کی ناراضی مول لے لیں۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کو اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ معاشرے میں جب برائی پھیلے گی تو اس کے نتائج بدسے بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ اسی حقیقت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاز کے مسافروں کی ایک خوب صورت تمثیل سے سمجھایا ہے:
قال مثل القائم علی حدود اللّٰہ والواقع فیہا کمثل قوم استہموا علی سفینۃ فاصاب بعضہم اعلاہاو بعضہم اسفلہا فکان الذین فی اسفلھا اذاستقوا من الماء مروا علی من فوقہم فقالوا لو انا خرقنا فی نصیبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا فان یترکوہم وما ارادوا ہلکوا جمیعا و ان اخذوا علی ایدیھم نجوا و نجواجمیعا. (بخاری، کتاب الشرکہ)
’’آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی مثال، جو اللہ کی حدود پر قائم ہے اور اس شخص کی جو اللہ کی حدود میں پڑنے والا ہے، ان لوگوں کی سی ہے، جو ایک جہاز میں اس طرح بیٹھے ہیں کہ ان میں سے کچھ اوپر کی منزل میں ہیں اور کچھ نچلی منزل میں۔ جب نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جہاز کی اوپر کی منزل میں آ کر پانی لے لیتے ہیں۔ پھر اگر وہ یہ خیال کر کے کہ پانی کے لیے ہمارے باربار اوپر جانے سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی ہے، یہ فیصلہ کریں کہ ہم کیوں نہ جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کر کے سمندر سے پانی لے لیا کریں اور اوپروالوں کو نہ ستایا کریں۔ اس صورت میں، اگر اوپر والے یہ سوچ کر کہ یہ لوگ اپنے حصے میں سوراخ کرتے ہیں، ہمیں اس سے کیا سروکار، اس پر خاموش رہتے ہیں تو نیچے والوں کے اس فعل کے نتیجے میں جب جہاز ڈوبے گا تو اوپر والوں اور نیچے والوں، دونوں کو لے کر ڈوبے گا۔ اور وہ ان کو روک دیں گے تو دونوں فریق ڈوبنے سے بچ جائیں گے۔‘‘
ایک امت یا ایک قوم کی مثال واقعۃً کسی جہاز کے مسافروں کی سی ہوتی ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک کی غلطی نتیجے کے اعتبار سے دوسرے کے لیے کوئی اثر ہی نہ رکھتی ہو۔ خدا نے انسان کو اس کے سماج کے ساتھ جس طرح متعلق کر دیا ہے، اس کے بعد یہ ممکن نہیں کہ ایک کا خیرو شر دوسرے کے لیے بے معنی ہو۔ ایک معاشرہ بالکل جسد واحد کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے ایک حصے کا بگاڑ دوسرے کو لازماً متاثر کرتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند رہتے تھے۔ آپ نے انسانوں کی اصلاح کا جو بہت بڑا کام کیا تھا، اسے بگاڑسے بچانے کے لیے آپ اپنی امت کو تواصی کی بہت تلقین کیا کرتے۔ ایک موقع پر آپ نے یہ سمجھانے کے لیے کہ کسی قوم میں بگاڑ کیسے آتا ہے، بنی اسرائیل کے بگاڑ کی مثال دی، فرمایا:
ان اول ما دخل النقص علی بنی اسرائیل انہ کان الرجل یلقی الرجل فیقول: یا ھذا اتق اللّٰہ ودع ما تصنع فانہ لا یحل لک، ثم یلقأ من الغد و ہو علی حالہ، فلا یمنعہ ذلک ان یکون اکیلہ و شریبہ وقعیدہ، فلما فعلوا ذلک ضرب اللّٰہ قلوب بعضہم ببعض. ثم قال: کلا، واللّٰہ لتامرن بالمعروف، ولتنہون عن المنکر. (ابوداؤد، کتاب الملاحم)
’’بنی اسرائیل میں تنزل کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ ان میں سے کوئی آدمی جب دوسرے سے ملتا(اور اسے کسی برے کام میں ملوث پاتا)تو وہ اس سے کہتا: اے اللہ کے بندے، اللہ سے ڈرو اور جو کام تو کر رہا ہے اسے چھوڑ دے،کیونکہ یہ تیرے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر وہ اسے جب آیندہ ملتا اور اسے اسی برے کام میں ملوث پاتا تو یہ چیز اِس کو اُس کے ساتھ کھانے پینے اور نشست و برخاست سے نہ روکتی۔ جب عام طور پر ایسا ہونے لگا، تو اللہ تعالیٰ نے (برائی کے بارے میں ان کا احساس یکساں ہونے کی بنا پر) ان کے دلوں کو ایک جیسا کردیا۔ اس کے بعد آپ نے بڑی تاکید سے یہ حکم فرمایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو۔‘‘
اگر صالحین اپنی قوم کے بدکاروں کے ساتھ، ان کی بدی پر، صلح کرلیں اور اپنا اختلاف ان پر ظاہر کرنا چھوڑ دیں۔ ان کے ساتھ اپنے تعلق اور اپنی محبت کو ان کے کردار سے آزاد رکھیں، حتیٰ کہ صالحین اپنے رویے سے قوم کے کارپردازوں کے لیے ان کی غلطیوں اور ان کے گناہوں پر بس تسلی ہی کا ذریعہ بنیں تو پھر اس قوم میں پیدا ہونے والے ذرا سے بگاڑ کو بھی پوری قوم تک پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ خرابی پھر اس حد تک بڑھتی ہے کہ بالآخر اس قوم میں خیر کا کوئی ایک شمہ بھی باقی نہیں رہتا۔
سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ نے ہلاک کی جانے والی رسولوں کی مخاطب قوموں کی سرگزشت بیان کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان میں باہمی اصلاح کا کوئی رجحان ہی باقی نہ رہا تھا، وہ خدا کے عذاب سے بچتے بھی تو کیسے؟
ارشاد باری ہے:
فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّنْ أَنْجَیْْنَا مِنْہُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ أُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ.( ۱۱: ۱۱۶)
’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسے اہل خیر موجود رہے، جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انھی مزوں کے پیچھے پڑے رہے، جن کے سامان انھیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔‘‘
اس کے بعد فرمایا:
وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّأَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَ.( ۱۱: ۱۱۷)
’’اور تیرا رب ایسا نہیں کہ وہ بستیوں کو ہلاک کر دے، کسی ظلم کی پاداش میں جبکہ ان کے باشندے اصلاح میں سرگرم ہوں۔‘‘
رسولوں کی مخاطب قوم پر خدا کی طرف سے جو عذاب آتا ہے، وہ کس بنیاد پر آتا ہے؟ اس میں کیا اصول اور کیا قانون کار فرما ہوتا ہے؟ اس آیت میں اسے واضح کیا کہ اپنے ظلم کی پاداش میں سزا پانے والوں میں، ایسے لوگ ہی باقی نہ رہے تھے جو انھیں خدا کی زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے۔ ایسے لوگ اگر ان میں موجود ہوتے تو پھر خدا کے بارے میں یہ گمان نہ رکھو کہ وہ ان لوگوں کو بھی تباہ کر دینے والا ہے، جن میں ایک دوسرے کی اصلاح کرنے والے موجود ہوں۔ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ کسی بستی کو اس کے ظلم کی پاداش میں ہلاک کر دے، جبکہ اس کے باشندے بحیثیت مجموعی اصلاح کرنے والے ہوں۔ چنانچہ آج خدا کی طرف سے متنبہ کرنے والا عذاب بھی کسی قوم پر اس وقت آتا ہے ، جب اس کا مزاج بحیثیت مجموعی بگڑ جاتا ہے اور اس میں اصلاح کرنے والے بالکل ہی مفقود ہو جاتے ہیں یا ان کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے اور وہ اس میں بہت اجنبی لوگ ہوتے ہیں۔ انسانوں سے اصلاً، جو چیز مطلوب ہے، وہ حق اور خیر ہے۔ لوگوں کے شر کو اللہ تعالیٰ اگر برداشت بھی کرتا ہے تو اس خیر کی بنا پر کرتا ہے، جو ان کے اندر موجود ہوتا ہے اور اس کا یہ برداشت کرنا، اسی وقت تک ہوتا ہے، جب تک ان میں خیر کا امکان موجود ہو۔ انسانوں کا کوئی گروہ جب حق کی حمایت کرنے والوں سے خالی ہو جائے، صرف شریر لوگ ہی اس میں رہ جائیں اور پوری قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے تو پھر وہ خدا کے عذاب کی حق دار ٹھہرتی اور وہ دنیا میں بھی اس کی زد میں آ سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں مسلمانوں کو اس عدم تواصی ہی کے نتیجے پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
ولتاخذن علی یدی الظالم، ولتاطرنہ علی الحق اطرا، ولتقصرنہ علی الحق قصرا، او لیضربن اللّٰہ بقلوب بعضکم علی بعض، ثم لیلعنکم کما لعنہم.(ابو داؤد، کتاب الملاحم)
’’ظالم کو ظلم سے روکتے رہو اور اس کو حق بات کی طرف کھینچ کر لاتے رہو اور اس کو حق پر زبردستی ٹھہراؤ، ورنہ تمھارے دل بھی اسی طرح ان کے ساتھ خلط ملط ہو جائیں گے، جیسے (اس سے گریز کے نتیجے میں)بنی اسرائیل کے ہوئے تھے اور تم پر بھی اسی طرح لعنت ہو گی، جیسے بنی اسرائیل پر ہوئی تھی۔‘‘
جب کسی قوم میں حق کی طرف بلانے والے اہل خیر کا فقدان ہو جائے (جب حق تنہا رہ جائے، جب اس کا کوئی حمایتی نہ ہو) جو اس سے غافل ہو، وہ تو غافل ہو اور جو اس کو جانتا ہو، وہ بھی غافل بن جائے، جب گھر میں بیٹھ کر حق پر عمل کرنے والے، گلی اور بازار میں اس کے لیے اجنبی ہو جائیں، جب صالح لوگ تنہائی میں حق کا اور میدان میں باطل کا ساتھ دیں اور انھیں اپنے اس رویے پر کوئی رنج کیا، تعجب بھی نہ ہو تو اس قوم میں پیدا ہونے والی یہ روش کوئی عام روش نہیں ہوتی۔ اس قوم کے حق میں یہ صورت حال کوئی عام صورت حال نہیں ہوتی۔ اس کے کچھ لازمی نتائج پھر اس قوم کا مقدر بنتے ہیں۔ پھر فرشتے آسمان سے اس کے لیے خیر و برکت کا پیغام نہیں بدحالی اور بے برکتی کا حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔ اور خدا کہتا ہے کہ اگر ہم یہ دیکھتے کہ اس قوم کے باشندے خود اپنی اصلاح میں سرگرم ہیں تو برے اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورت حال سے ہماری رحمت ضرور ان کو بچا لیتی۔
_______
۱’الدین النصیحۃ ‘’’دین سراپا خیر خواہی ہے۔‘‘(بخاری،کتاب الایمان)
____________