قرآن مجید کی جو آیات اس کی تفسیر کرنے والوں کے لیے خاص طور پرمحل غور رہی ہیں، ان میں سے ایک سورۂ حجر کی آیت ۸۷ہے۔
آیت میں سے زیر مطالعہ حصے کے الفاظ یہ ہیں:
وَلَقَدْ آتَیْْنَاکَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ.
ان الفاظ کا سادہ ترجمہ یہ ہے:
’’اور ہم نے تمھیں مثانی میں سے سات اور قرآن عظیم عطا کیاہے۔‘‘
اس آیت میں بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دو چیزیں عطا کیے جانے کا ذکر ہے، ایک مثانی میں سے سات اور دوسری قرآن عظیم۔
پہلی مشکل یہ ہے کہ ’سبعاً‘ سے کیا مراد ہے، یعنی وہ سات چیزیں کیا ہیں، جن کے دیے جانے کا ذکر اس میں کیا گیا ہے۔
دوسری مشکل یہ ہے کہ’ مثانی‘ سے کیا مراد ہے۔
اس آیت کی تاویل میں اسلاف سے درج ذیل آرا منقول ہیں۔
پہلی رائے یہ ہے کہ ’سبعاً‘ سے مراد سات طوال سورتیں ہیں۔ یہ رائے ابن مسعود، ابن عمر، ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب ہے۔ ان کے علاوہ مجاہد، سعید بن جبیر، ضحاک رحمہم اللہ اور بعض دوسرے علما سے بھی یہی رائے منسوب ہے۔ یہ سات طوال سورتیں کون سی ہیں، ان میں سے چھ کے بارے میں تو سبھی متفق ہیں کہ یہ بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام اور اعراف ہیں۔ البتہ ساتویں سورہ کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ سورۂ یونس ہے اور بعض کے نزدیک یہ سورۂ کہف ہے۔ کچھ دوسرے علماکا یہ کہنا ہے کہ سورۂ انفال اور سورۂ توبہ مل کر ساتویں سورت کے قائم مقام ہیں۔ ان دو سورتوں کو ایک قرار دینے کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ ان کے مابین چونکہ کلمۂ ’’بسم اللہ‘‘ سے فصل نہیں کیا گیا، لہٰذا یہ دونوں مل کر ایک ہی سورت بنتی ہیں۔ ان طوال سورتوں کو مثانی کیوں کہا گیا ہے، اس کے جواب میں اس رائے کے بعض قائلین یہ کہتے ہیں کہ ان میں فرائض، حدود، قصص اور احکام کو بار بار بیان کیا گیا ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ ان میں امثال، اخبار امم اور نصائح کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال، ان کا کہنا ہے کہ اپنے ان مضامین کی تکرار کی وجہ سے یہ مثانی ہیں۔ ۱
دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد طوال سورتوں اور مئین یعنی سو (۱۰۰) آیات والی سورتوں سے چھوٹی، لیکن مفصلات ۲سے بڑی سورتیں ہیں۔ اس رائے کے قائلین اپنے حق میں ثوبان رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ مجھے سات طوال سورتیں تورات کی جگہ پر دی گئیں، مئین یعنی سو آیات والی سورتیں انجیل کی جگہ پر دی گئیں، مثانی سورتیں زبور کی جگہ پر دی گئیں اور مفصلات سے اللہ تعالیٰ نے مجھے فضیلت دی ہے، یعنی ان کی مثل کوئی چیز کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔ اس حدیث میں چونکہ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سورتیں مثانی کیوں ہیں، لہٰذا اس رائے کے قائلین نے بھی اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی۔ ۳
تیسری رائے یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ سات امور ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیے گئے ہیں۔ یعنی امر، نہی، بشارات، انذار، ضرب الامثال، نعمتوں کابیان اور اخبار امم۔ چنانچہ آپ سے یہ تقاضا کیا گیا کہ آپ ان امور کو بجا لائیں۔ یعنی آپ حکم دیں، منع کریں، بشارت دیں، انذار کریں، ضرب الامثال بیان کریں، خدا کی نعمتوں کو یاد رکھیں اور اخبار امم سے عبرت حاصل کریں۔ اگر ’سبعاً‘ سے یہ امور مراد ہیں تو ان کے حوالے سے ’مثانی‘ کا مفہوم کیا ہے، اس کا جواب اس رائے کے قائلین نے براہ راست بیان نہیں کیا، لیکن یہ ان کی اس بیان کردہ رائے سے سمجھا ضرور جا سکتا ہے، یعنی یہ کہ یہ امور وہ ہیں، جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خود بھی انھیں بار بار بجا لانا ہے اور دوسروں کو بھی ان کی طرف بار بار متوجہ کرنا ہے، لہٰذا تکرار کے اس پہلو کی بنا پر یہ سات امور مثانی ہیں۔
یہ رائے زیاد ابن ابی مریم رحمہ اللہ کی ہے اور اسے ابن جریر رحمہ اللہ اور ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
چوتھی رائے یہ بیان کی گئی ہے کہ ’سبعاً من المثانی‘ سے مراد پورا قرآن ہے۔ یہ طاؤس رحمہ اللہ کی رائے ہے اور بعض روایات کے مطابق ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے بھی یہی ہے۔ اس رائے کے حق میں سورۂ زمرکی آیت۲۳ ’اللّٰہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابہا مثانی‘ (اللہ نے بہترین کلام اتارا ایک متشابہ مثانی کتاب کی صورت میں) پیش کی گئی ہے۔ اس آیت میں سارے قرآن ہی کو مثانی کہا گیا ہے۔ چنانچہ اس رائے کے قائلین کا کہنا ہے کہ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ مثانی کا مصداق پورا قرآن ہے۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کس پہلو سے مثانی ہے، یعنی قرآن مجید میں پائی جانے والی کون سی صفت اسے مثانی بناتی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے، اس رائے کے قائلین کہتے ہیں کہ اس میں چونکہ توحید، نبوت اور تکالیف (فرائض و واجبات) کے دلائل بار بار آئے ہیں، لہٰذا یہ مثانی ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ’سبعاً‘ سے کیا مراد ہے تو اس کے بارے میں اس رائے کے قائلین مختلف فیہ ہیں۔ چنانچہ ’سبعاً‘ کی وضاحت میں جو آرا بیان کی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن مجید برابر کے سات حصوں پر مشتمل ہے اور انھی سات حصوں کے لیے ’سبعاً‘ کا لفظ بولا گیا ہے۔ دوسری یہ ہے کہ قرآن سات قسم کے علوم پر مشتمل ہے۔ یعنی توحید، نبوت، معاد، قضا و قدر، احوال عالم، قصص اور تکالیف(فرائض و واجبات) اور تیسری یہ ہے کہ قرآن مجید سات امور، یعنی امر، نہی، خبر، استخبار (امتحان)، ندا، قسم اور امثال پر مشتمل ہے۔ چنانچہ ’سبعاً‘ کا لفظ ان سات علوم یا سات امور کے حوالے سے بولا گیا ہے۔ ۴
سبع مثانی کے بارے میں پانچویں رائے یہ ہے کہ اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے۔ یہ رائے حضرات علی، عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کی گئی ہے۔ سورۂ فاتحہ کی اپنی آیات چونکہ سات نہیں چھ ہیں، اس لیے اس کے ساتھ ہی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ رائے بھی نقل کی گئی کہ آیت ’بسم اللّٰہ‘ اس سورہ کی پہلی آیت ہے۔ چنانچہ اس رائے کے قائلین کہتے ہیں کہ ’سبعاً‘ کا لفظ فاتحہ پر اس لیے بولا گیا ہے کہ یہ سات آیات پر مشتمل ہے اور اس کے مثانی ہونے کی تو خیر کئی وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ سب نمازوں میں دہرائی جاتی ہے، لہٰذا اس کے بار بار دہرائے جانے کی بنا پر یہ مثانی ہے۔ ۵دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے بعد قرآن کا جو حصہ پڑھا جاتا ہے، وہ اس کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ قرآن کا حصہ ساتھ ملنے سے گویا یہ دہری ہو گئی ہے، چنانچہ اس دہرا ہونے کی بنا پر یہ مثانی کہلاتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ سورہ خدا اور بندے کے درمیان دو حصوں میں منقسم ہے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر لیا ہے، اس کا وہ حصہ جس میں خدا کی ثنا ہے، خدا کے لیے ہے اور وہ حصہ جس میں دعا ہے، وہ بندے کے لیے ہے۔ یہ سورہ اس طرح دو حصوں میں منقسم ہونے کی بنا پر ایک جوڑے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ چنانچہ اس کا یہ جوڑے کی شکل میں ہونا، اس کے مثانی کہلانے کی وجہ ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ سورہ اپنے مضمون کے پہلو سے دو قسموں پر مشتمل ہے، اس کا پہلا حصہ ثنا ہے اور دوسرا دعا۔ چنانچہ اس پہلو سے بھی یہ ایک جوڑے کی شکل میں ہے، لہٰذا یہ مثانی ہے۔ پانچویں یہ کہ یہ دو دفعہ نازل ہوئی ہے۔ ایک دفعہ مکے میں اور ایک دفعہ مدینے میں۔ چنانچہ نزول کے اس دہرائے جانے نے اسے مثانی بنا دیا ہے۔ چھٹی وجہ اس کے مثانی ہونے کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کے کلمات دہرے کیے ہوئے ہیں۔ یعنی ’الرحمٰن‘ ،’الرحیم‘ ،’نعبد ونستعین‘ ،’الصراط المستقیم‘ ،’صراط الذین‘ اور حضرت عمر رضی اللہ کی قراء ت میں ’غیر المغضوب‘ اور ’غیر الضالین‘۔ چنانچہ اس کے بعض الفاظ کا یہ جوڑوں کی شکل میں ہونا بھی اسے مثانی قرار دیے جانے کی ایک وجہ ہے۔ ساتویں وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مثانی اس چیز کو بھی کہتے ہیں، جس میں ثنا بیان کی گئی ہو اور اس میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی گئی ہے، لہٰذا یہ مثانی ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ بھی سورۂ فاتحہ ہی کے سبع مثانی ہونے کے قائل ہیں۔ انھوں نے اس کے حق میں ’’بخاری‘‘ کی دو مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ پہلی حدیث یہ ہے کہ ابو سعید بن المعلٰی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ ’الحمد للّٰہ رب العالمین‘ ہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے دیا گیا ہے۔ دوسری حدیث یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے دیا گیا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ بھی اس رائے کے حق میں انھی احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ کے سبع مثانی ہونے کے بارے میں بیان کی جانے والی یہ احادیث اس سلسلے میں نص قاطع ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ سبع طوال کا مثانی ہونے، یعنی بار بار دہرائے جانے کے وصف سے متصف ہونا، یہ مسئلہ پیدا نہیں کرتا کہ سورۂ فاتحہ کو سبع مثانی قرار نہ دیا جائے، کیونکہ قرآن مجید کی آیت ’اللّٰہ نزل احسن الحدیث کتاباً متشابہا مثانی‘ کے مطابق تو پورا قرآن ہی اس وصف سے متصف ہے۔ چنانچہ اگر سبع طوال کو مثانی کہہ دیا جاتا ہے یا پورے قرآن مجید ہی کو مثانی کہہ دیا جاتا ہے تو اس سے اس نقطۂ نظر پر کوئی زد نہیں پڑتی کہ زیر بحث آیت میں سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورۂ فاتحہ کی سات آیات ہی ہیں، کیونکہ حدیث میں انھی کو سبع مثانی اور قرآن عظیم قرار دیا گیا ہے۔
زیر بحث آیت میں جو مشکلات ہیں، انھیں اس مطالعہ کی ابتدا میں ہم نے دو سوالوں کی شکل میں واضح کیا تھا، یعنی پہلی مشکل یہ ہے کہ ’سبعاً‘ سے کیا مراد ہے، یعنی وہ سات چیزیں کیا ہیں، جن کے دیے جانے کا ذکر اس میں کیا گیا ہے؟ دوسری مشکل یہ ہے کہ ’مثانی‘ سے کیا مراد ہے؟
’سبعاً من المثانی‘ کے بارے میں درج بالا پانچ آرا کے مطالعے سے پہلے سوال کے یہ جوابات سامنے آتے ہیں:
۱۔ سات طوال سورتیں۔
۲۔ مئین سے چھوٹی اور مفصلات سے بڑی سورتیں۔
۳۔ سات امور۔
۴۔ پورا قرآن۔
۵۔ سورۂ فاتحہ۔
دوسرے سوال کے یہ جوابات سامنے آتے ہیں:
۱۔ بار بار دہرایا جانا۔
۲۔ دہرا ہونا۔
۳۔ جوڑوں پر مشتمل ہونا۔
۴۔ ثنا پر مشتمل ہونا۔
ان آرا کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس آیت میں موجود مثانی کے لفظ کو زبان کے پہلو سے دیکھ لیا جائے کہ اس کا اصل مفہوم کیا ہے تا کہ اس کی روشنی میں آرا کا تجزیہ کیا جا سکے۔
’مثانی‘ کا لفظ ’مثنٰی‘ کی جمع ہے، ’مثنٰی‘ کا مفہوم ہے کسی چیز کا دہرا ہونا یا دو دو کر کے ہونا۔
چنانچہ ’جاؤامثنٰی‘ کامطلب ہو گا، وہ دو دو کر کے آئے۔ لہٰذا مثانی اس چیز کو کہیں گے جس کے بہت سے اجزا دو دو کر کے ہوں، یعنی جوڑا جوڑا ہوں۔ ’مثانی‘ کا واحد ’مثناۃ‘ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس صورت میں بھی مفہوم بالکل یہی ہو گا۔ یعنی دہرا ہونا یا دو دو کر کے ہونا۔
امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت مثانی کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ’مثانی‘ ’مثناۃ‘ کی جمع ہے۔ اور پھر ’مثناۃ‘ کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ ’والمثناۃ کل شیء یثنی، ای یجعل اثنین‘ (مثناۃ ہر وہ چیز ہے، جسے دہرا کر دیا جائے، یعنی اسے دو بنا دیا جائے)۔
پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے عربوں کا قول ’ثنیت الشیء‘ دلیل کے طور پر نقل کیا ہے اور فرماتے ہیں: یہ بات تم اس وقت کہتے ہو، جب تم کسی چیز کو موڑ کر دہرا کرتے ہو یا اس کے ساتھ ایک دوسری چیز ملا دیتے ہو۔
اس کے بعد وہ ’سبعاً من المثانی‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’سبعۃ اشیاء من جنس الاشیاء التی تثنی‘ یعنی ان چیزوں میں سے سات جنھیں دو دو کا جوڑا بنا دیا جائے۔
امام رازی رحمہ اللہ کی یہ ساری بات بالکل وہی ہے، جو ابھی ہم نے اوپر بیان کی ہے۔
علامہ زمخشری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’کشاف‘‘ میں ’مثانی‘ کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ’تثنیہ‘ سے ہے اور اس سے مراد تکرار ہے۔ ایک دوسری رائے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ثنا سے ہے اور اس سے مراد ثنا والی آیات ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ’ثنی‘، ’یثنی‘، ’تثنیۃ‘ میں کسی چیز کو دہرا کر دینے یا اسے دو بنا دینے کے مفہوم کے علاوہ کسی کام کو بار بار کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، لیکن اس فعل سے جو اسم (مثنی یا مثناۃ) بنتا ہے، جس کی جمع ’مثانی‘ ہے، اس میں تکرار کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ یعنی ’جاؤا مثنی‘ کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ بار بار آئے۔ لہٰذا ’مثانی‘ کا مفہوم کسی کام کو بار بار کرنے کا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہم مثانی سے ثنا والی آیات بھی مراد نہیں لے سکتے، کیونکہ ’مثنی‘ یا ’مثناۃ‘ کا لفظ اس معنی میں مستعمل نہیں ہے۔ چنانچہ ’مثانی‘ کا مفہوم وہی ہے، جو امام رازی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور لغت جس کی تائید کرتی ہے۔
اب ہم سبع مثانی کے بارے میں ان آرا پر بحث کرتے ہیں۔
مثانی کا جو مفہوم اس کی لغوی بحث سے سامنے آتا ہے، یعنی وہ چیز جس کے اجزا جوڑا جوڑا ہوں یا دو دو کر کے ہوں، اس کے مطابق ’سبعاً من المثانی‘ کا مطلب ہو گا، جوڑا جوڑا کی ہوئی چیزوں میں سے سات یا جوڑا جوڑا کی ہوئی چیزوں کے سات۔ اس مفہوم کو ذہن میں رکھ کر اگر ہم درج بالا آرا کو دیکھیں تو ان میں سے کوئی بھی اس مفہوم پر پوری نہیں اترتی۔
پہلی رائے کے قائلین سبع طوال کو اس لیے سبع مثانی قرار دیتے ہیں کہ یہ وہ سات سورتیں ہیں جن میں فرائض، حدود، قصص اور احکام کو بار بار بیان کیا گیا ہے یا یہ کہ ان میں امثال، اخبار امم اور نصائح کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔
کسی چیز کا جوڑوں (Pairs) کی شکل میں ہونا اور بات ہے اور بار بار دہرایا جانااور بات ہے۔ اگر خدا کے پیش نظر ان اشیا کا ذکر کرنا ہوتا جوبار بار دہرائے جانے کی صفت سے متصف ہوں تو لازماً مثانی کی جگہ وہ لفظ ہوتا جو اس صفت کو ادا کرنے کے لیے عربوں میں معروف تھا۔ لہٰذا یہ رائے درست نہیں ہے۔
دوسری رائے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سر تا سر ثوبان رضی اللہ عنہ کی اس حدیث پر مبنی ہے، جس میں مئین سے چھوٹی اور مفصلات سے بڑی سورتوں کو مثانی قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ اس حدیث میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ ان سورتوں کو مثانی کس پہلو سے کہا جا رہا ہے، لہٰذا اس رائے کے قائلین بھی اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کرتے۔ اس رائے کے حق میں اگر یہ بات کہی جائے کہ یہ ایک حدیث پر مبنی ہے تو اس کے مقابل میں ایسی احادیث بھی پیش کی جا سکتی ہیں، جو اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کو مثانی قرار دیتی ہیں۔ یہ رائے چونکہ زیر بحث آیت کے اپنے الفاظ کے فہم پر مبنی نہیں ہے، لہٰذا اس میں نہ یہ بتایا گیا ہے کہ ’سبعاً‘ سے کیا مراد ہے، اور نہ ’مثانی‘ کا مفہوم ہی واضح کیا گیا ہے۔
تیسری رائے جس میں ’سبعاً‘ سے مراد قرآن مجید کے بیان کردہ سات امور یعنی امر، نہی، بشارت، انذار، ضرب الامثال، نعمتوں کابیان اور اخبار امم ہیں۔ اس رائے میں ان سات امور کی وجہ ترجیح بیان نہیں کی گئی۔ ان امور میں بعض اور چیزیں بھی شامل کی جا سکتی ہیں، مثلاً قرآن مجید کی بہت سی آیات تزکیہ و تربیت اور تعلیم سے متعلق ہیں اور رسول کو لوگوں کی تعلیم و تربیت اور ان کا تزکیہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تزکیہ و تربیت اور تعلیم کو ان امور میں شامل نہ کیا جائے اور بس ان بیان کردہ سات امور ہی تک محدود رہا جائے۔ قرآن مجید میں پند و نصائح بھی ہیں۔ وہ بھی ان میں شامل کیوں نہ کی جائیں۔ لہٰذا اگر قرآن مجید کے بیان کردہ امور کا معاملہ ہے تو پھر ان سات تک محدود رہنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ مثانی کا مفہوم اس رائے میں بھی جوڑا جوڑا ہونا نہیں ہے، بلکہ ان سات امور کا قرآن میں بار بار مذکور ہونا یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لوگوں سے بار بار ان کا ذکر کرنا ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ زبان کے پہلو سے مثانی کا یہ مفہوم درست نہیں ہے۔
چوتھی رائے جس میں پورے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے۔ اس کی دلیل میں جو آیت پیش کی گئی ہے، وہ بے شک ایک نص قاطع ہے۔ اس آیت میں سارے قرآن ہی کو مثانی کہا گیا ہے۔ چنانچہ اس رائے کے قائلین کا کہنا ہے کہ یہ آیت ہمیں یہ بتا دیتی ہے کہ مثانی کا مصداق پورا قرآن ہے، لیکن اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ قرآن کس پہلو سے مثانی ہے، اس کے جواب میں ان کا یہ کہنا کہ اس میں چونکہ توحید، نبوت اور تکالیف( فرائض و واجبات) کے دلائل بار بار آئے ہیں، لہٰذا یہ مثانی ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔ اس پر ہمیں وہی اعتراض ہے کہ مثانی کا یہ مفہوم زبان کے پہلو سے صحیح نہیں ہے۔ مثانی کے اصل مفہوم کے مطابق ضروری تھا کہ وہ سات علوم یا سات امور جن کا ذکر اس رائے میں کیا گیا ہے، وہ جوڑا جوڑا ہو کر آئے ہوتے۔
اس رائے کے قائلین نے ’سبعاً‘ کی وضاحت میں جو آرا بیان کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن مجید برابر کے سات حصوں پر مشتمل ہے۔ قرآن مجید کو ان سات حصوں میں کس اصول پرتقسیم کیا گیا ہے اور اس میں مفہوم ومعنی کے پہلو سے کیا حکمت ہے، اس بات کی کوئی وضاحت ہمیں ان کے ہاں نہیں ملتی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ قرآن سات قسم کے علوم پر مشتمل ہے۔ یعنی توحید، نبوت، معاد، قضا و قدر، احوال عالم، قصص اور تکالیف (فرائض و واجبات)۔ قرآن مجید میں تو ان کے علاوہ علوم بھی ہیں مثلاً سنن الٰہی اور اخلاقیات وغیرہ۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ان سات تک محدود کیوں رہا جائے؟ تیسری رائے یہ ہے کہ قرآن مجید جن سات امور پر مشتمل ہے، وہ امر، نہی، خبر، استخبار(امتحان)، ندا، قسم اور امثال ہیں۔ اس رائے میں بھی ان سات تک محدود رہنے کی وجہ کیا ہے جبکہ اس کے علاوہ اور چیزیں مثلاً پند و نصائح بھی ان میں شامل ہو سکتے ہیں۔
پانچویں رائے جس میں سبع مثانی سے سورۂ فاتحہ مراد لی گئی ہے، یہ رائے بھی درست نہیں ہے، کیونکہ فاتحہ کی آیات سات نہیں، چھ ہیں۔ بسم اللہ کی آیت کو اس کی پہلی آیت قرار دیناصاف طور پر ایک تکلف محسوس ہوتا ہے۔ اور پھر علما کے مابین اس کی آیات کا سات ہونا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔
اگر بالفرض سورۂ فاتحہ کی آیات سات ہی قرار دی جائیں اور یہی سبع مثانی ہو تو مثانی کے لغوی مفہوم کے اعتبار سے یہ ضروری ہے کہ اس کی ہر آیت دوہری کی ہوئی ہو یا دو دو کا جوڑا بنی ہوئی ہو۔ اس صورت میں پھر اس کی سات آیات سات جوڑوں پر مشتمل ہونی چاہیے تھیں۔ اس میں موجود بعض الفاظ کا جوڑا جوڑا ہونا یا اس سورہ کا اپنے اندر ثنا اور دعا پر مشتمل ایک جوڑا ہونا، اس کے مثانی کہلانے کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ پھر یہ ضروری تھا کہ اس کی سات آیات سات جوڑے ہوتیں۔ اس سورہ کی آیات کا جوڑا جوڑا نہ ہونا ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت نہ اس کے نمازوں میں دہرائے جانے سے بدلتی ہے، نہ نمازی کے اپنی نماز میں اس کی تلاوت کے بعد ایک اور سورہ ملا دینے سے یہ حقیقت بدلتی ہے، نہ اس سورہ کے خدا اور بندے کے درمیان منقسم ہونے سے یہ بدلتی ہے۔ نہ اس سورہ کا ثنا اور دعا پر مشتمل ہونا یا اس کا دو دفعہ نازل ہونا، اس کی آیات کو جوڑا جوڑا کر دے سکتا ہے۔ نہ اس کے اندر موجود کلمات کا ایک ہی مفہوم کے دو دو پہلووں کو بیان کرنا اس کی آیات کو جوڑا جوڑا بناتا ہے اور نہ اس کے خدا کی ثنا پر مشتمل ہونے ہی سے ہمارا یہ مسئلہ حل ہوتا ہے۔
آرا کے اس تجزیے کے بعد ہم اسی آیت کے بارے میں صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی رائے کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اس آیت کے تحت ’مثانی‘ کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’...’مثانی‘ ’مثنیٰ‘ کی جمع ہے۔ ’مثنیٰ‘ بار بار دہرائی جانے والی چیز کو نہیں کہتے، بلکہ اس چیز کو کہتے ہیں جو دو دو کر کے ہو۔ قرآن میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ اس کے معنی یہی ہیں۔ مثلاً:
فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ. (النساء ۴: ۳)
’’تو نکاح کرو اپنی پسندیدہ عورتوں میں سے دو دو ، تین تین، چار چار کر کے۔‘‘
اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا.(سبا ۳۴: ۴۶)
’’یہ کہ اٹھو اللہ کے لیے دو دو کر کے اور ایک ایک کر کے، پھر غور کرو۔‘‘ ‘‘(تدبر قرآن۴/ ۳۷۷)
سبع مثانی کے بارے میں مولانا اصلاحی رحمہ اللہ سلف سے منقول مختلف اقوال میں سے یہ قول کہ اس سے مراد پورا قرآن ہے، صحیح قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سب سے بڑی دلیل تو اس کے حق میں یہ ہے کہ قرآن میں خود یہ تصریح موجود ہے کہ پورا قرآن ’’مثانی‘‘ ہے۔
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ.(الزمر۳۹: ۲۳)
’’اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے ایک متشابہ مثانی کتاب کی صورت میں۔‘‘
’متشابہ‘ سے مراد ظاہر ہے کہ اس کے تمام اجزا کا باہم ہم آہنگ اور ہم رنگ ہونا ہے۔ یعنی اس میں کہیں کوئی تضاد و تناقض نہیں پایا جاتا۔‘‘(تدبر قرآن۴/ ۳۷۷)
اس کے بعد انھوں نے ’سبعاً من المثانی‘ میں موجود ’مثانی‘ کے لفظ اور ’سبعاً‘ کے لفظ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے اپنی اس تحقیق کا حوالہ دیا ہے، جسے انھوں نے ’’تدبر قرآن‘‘ کے مقدمے میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’رہا یہ سوال کہ اس کے ’’مثانی‘‘ ہونے کا کیا مفہوم ہے تو اس کا صحیح جواب ہمارے نزدیک وہی ہے، جس کی طرف ہم اس کتاب کے مقدمے میں اشارہ کر آئے ہیں کہ قرآن کی تمام سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔ ہر سورہ اپنے ساتھ اپنا ایک مثنی بھی رکھتی ہے۔ ہم نے بڑی سورتوں میں سے بقرہ اور آل عمران کو اور چھوٹی سورتوں میں سے معوذّتین کو اس کی مثال میں پیش کیا ہے۔ اور اپنی اس کتاب (تدبر قرآن) میں سورتوں کی تفسیر کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو برابر واضح کرتے آ رہے ہیں۔
ہم نے مقدمے میں نہایت تفصیل کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ قرآن میں سورتوں کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان کے الگ الگ سات گروپ یا سات مجموعے بن گئے ہیں۔ ہر گروپ ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر تمام ہوتا ہے۔ اس طرح قرآن گویا سات ابواب پرمشتمل ہے جن کے اندر سورتوں کی حیثیت فصلوں کی ہے۔ ان ابواب اور ان فصلوں میں مضامین مشترک بھی ہیں اور ہر باب اور ہر فصل کا ایک خاص امتیازی پہلو بھی ہے، جو ان کو ایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے۔ سورۂ فاتحہ کی حیثیت پورے قرآن کے دیباچہ کی ہے، جس میں اجمال کے ساتھ وہ تمام مطالب آ گئے ہیں جو پورے قرآن میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
اس روشنی میں زیر بحث آیت کی تاویل ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ہم نے تمھیں سات مثانی کا مجموعہ یعنی قرآن عظیم دیا۔ گویا حرف ’من‘ اضافت کو ظاہر کر رہا ہے اور حرف ’و‘ تفسیر کے لیے ہے۔ یہ ساتوں مجموعے احقاق حق اور ابطال باطل کے سات خدائی لشکر ہیں جو تمام باطل نظریات کے پرخچے اڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘(تدبر قرآن۴/ ۳۷۷۔۳۷۸)
آیت کی یہ تاویل بیان کرنے کے بعد مولانا اصلاحی رحمہ اللہ سبع مثانی کے بارے میں’’ صحیح بخاری‘‘ کی احادیث کا وہ خاص محل واضح کرتے ہیں، جس میں سورۂ فاتحہ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم کہا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بعض احادیث میں یہ جو آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ فاتحہ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم قرار دیا ہے تو اس کا بھی ایک خاص محل ہے۔ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ کی حیثیت پورے قرآن کے دیباچہ کی ہے اور اس میں وہ تمام مطالب بالاجمال سمٹ آئے ہیں جو پورے قرآن میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ گویا اس نگینہ کے اندر قرآن عظیم کا پورا شہرستان معانی بند ہے۔ اس پہلو سے یہ سبع مثانی بھی ہے اور قرآن عظیم بھی۔‘‘(تدبر قرآن۴/ ۳۷۸)
ابتداءً دو سوال جو ہم نے قائم کیے تھے، یعنی یہ کہ ’سبعاً‘ سے کیا مراد ہے اور’ مثانی‘ کا کیا مطلب ہے۔ ان دونوں سوالوں کے حوالے سے مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی بات بے شک ایک پوری بات ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ’مثانی‘ سے مراد پورا قرآن ہے، جیسا کہ اس نے خود اپنے بارے میں بیان کیا ہے۔ اور قرآن مجید کے مثانی ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔ پھر مزید یہ بھی بتایا کہ سارا قرآن باقاعدہ ایک اصول پر سات حصوں میں منقسم ہے۔ اس رائے کے مطابق آیت کا پورا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہو گا کہ ہم نے تمھیں ان سورتوں کے سات مجموعے دیے، جو جوڑا جوڑا کر کے ہیں، یعنی قرآن عظیم دیا۔
سبع مثانی کی اس ساری بحث کو سامنے رکھتے ہوئے، اگر ہم مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی رائے کا دقت نظر سے مطالعہ کریں تو اس کے بعض ایسے امتیازی پہلو سامنے آتے ہیں جو اسے تمام آرا سے ممتاز کر دیتے ہیں۔
پہلا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس رائے کے نتیجے میں یہ بنیادی مسئلہ حل ہوتا ہے کہ ’ سبعاً من المثانی‘ کے الفاظ زبان کے پہلو سے بالکل اپنی صحیح بنیاد پر استوار ہو جاتے ہیں۔ یعنی اس رائے میں ان الفاظ کا وہی مفہوم لیا گیا ہے، جس کی تائید زبان و بیان میں پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید خدا کا کلام ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بات اس کے اپنے منتخب کردہ لفظوں میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ خدا کی بات بالکل صحیح شکل میں سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے منتخب کردہ الفاظ کے اندر اتر کر ان کا مدعا و مفہوم سمجھیں۔ اگر ہم نے ذرا بھی الفاظ کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے دیا تو پھر کسی صورت میں بھی خدا کی بات سمجھنا ممکن نہ ہو گا۔ مولانا نے ان آیات پر غور کرتے ہوئے اسی بنیادی بات کو ملحوظ رکھا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی رائے کو بالکل زبان و بیان کے مطابق پاتے ہیں۔
دوسرا امتیازی پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ رائے قرآن مجید کی تفسیر کے ایک اہم اصول ’القرآن یفسر بعضہ بعضا‘ (قرآن کا بعض حصہ بعض کی تفسیر کرتا ہے)کے بالکل مطابق ہے۔ مولانا نے پہلے مثانی کا مفہوم قرآن مجید کی سورۂ نساء اور سورۂ سبا کی دو آیات سے طے کیا اور پھر اس کا مصداق بھی قرآن مجید ہی کی ایک آیت ’اللّٰہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابہا مثانی‘ کی بنا پر طے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے سبعاً کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے اس سے صرف وہی چیز مراد لی جو مثانی کے اس مفہوم کے بالکل مطابق تھی۔
بے شک اسلاف میں بھی بعض علما سورۂ زمر کی مذکورہ آیت کی بنا پر اس رائے کے قائل رہے ہیں کہ قرآن مجید ہی مثانی ہے۔ یہ محققین مثانی کا صحیح مصداق طے کرنے میں تو کامیاب ہو گئے، لیکن مثانی کا صحیح مفہوم کیا ہے، اس عقدے کو حل نہیں کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اس کی شرح میں بہت ابہام پایا جاتا ہے، جیسا کہ پیچھے ہم دیکھ چکے ہیں۔
تیسرا امتیازی پہلو یہ ہے کہ ’سبعاً من المثانی‘ کے بارے میں یہی وہ رائے ہے، جس کے سامنے آنے کے بعد آدمی صاف محسوس کرتا ہے کہ خدا کا وہ کیاعظیم احسان ہے، جس کا ذکر اس نے اس آیت میں کیا ہے اور اپنے مقصد کے اعتبار سے قرآن مجید کتنی عظیم نعمت ہے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے خود اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’...ہم نے تمھیں سات مثانی کا مجموعہ یعنی قرآن عظیم دیا...یہ ساتوں مجموعے احقاق حق اور ابطال باطل کے سات خدائی لشکر ہیں، جو تمام باطل نظریات کے پرخچے اڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘(تدبر قرآن۴/ ۳۷۸)
قرآن مجید فی الواقع ایسا ہی ہے۔ یہ خدا کی وہ تلوار ہے جس کے سامنے اس کا کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا۔
مولانا کی اس رائے کا چوتھا امتیازی پہلو یہ سامنے آتاہے کہ یہ وہ واحد رائے ہے، جس سے ان احادیث کی صحیح تاویل ہو جاتی ہے، جن میں سورۂ فاتحہ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم کہا گیا ہے اور اسی رائے کے نتیجے میں یہ عظیم اشکال دور ہو جاتا ہے کہ جب قرآن مجید خود کو مثانی کہہ رہا ہے تو پھر خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو قرآن کے سب سے بڑے عالم ہیں، انھوں نے کسی دوسری چیز کو کسی خاص پہلو سے مثانی قرار دیا ہے۔
ھذا ما عندی والعلم عنداللّٰہ۔
[۱۹۹۹ء]
_________
۱اس رائے پر بیہقی رحمہ اللہ نے ’’شعب الایمان‘‘ میں ربیع رحمہ اللہ کی یہ تنقید روایت کی ہے کہ سورۂ حجر، جس میں ’سبعاً من المثانی‘ کے دیے جانے کا ذکر ہے، وہ مکی ہے اور طوال سورتوں میں سے اکثر مدنی ہیں۔ لہٰذا ’سبعاً‘ سے مراد سات طوال سورتیں نہیں ہو سکتیں۔
اس تنقید کا جواب یہ دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کرنے کے لیے اسے سماے دنیا پر تو بیک دفعہ نازل کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ آپ پر تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا ہے۔ قرآن کا یہ سماے دنیا پر نازل کیا جانا، آپ کو عطا کر دیے جانے ہی کے مترادف ہے۔ لہٰذا کسی مکی سورہ میں مدنیات کے عطا کیے جانے کو بیان کرنا بالکل درست ہے، اگرچہ وہ ابھی آپ پر نازل نہ ہوئی ہوں۔
اس جواب پر پھر تنقید کی گئی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کا جو حصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ابھی نازل نہیں ہوا، اسے نازل شدہ حصے کے مماثل قرار دینا ظاہری حقیقت کے خلاف ہے۔
۲سورۂ حجرات سے لے کر آخر تک کی سورتیں۔
۳امام رازی رحمہ اللہ نے اس رائے پر یہ تنقید کی ہے کہ مثانی کا مسمیٰ سب سورتوں سے لازماً افضل ہونا چاہیے، لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جو سورتیں اس رائے کے مطابق مثانی قرار پار ہی ہیں، وہ باقی سورتوں سے افضل نہیں ہیں۔ امام صاحب کے خیال میں یہ بات ہمیں ان سورتوں کو سبع مثانی قرار دینے سے روکتی ہے۔
۴امام رازی رحمہ اللہ اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رائے بھی ضعیف ہے، کیونکہ اگر سبع مثانی سے مراد پورا قرآن ہے تو پھر ’’القرآن العظیم‘‘ کو اس پر عطف کرنا ایک شے کو اس کے اپنے اوپر عطف کر دینا ہے اور یہ چیز کسی طرح درست نہیں۔ اس تنقید کا یہ جواب دیا گیا کہ اگر ایک ہی شے کے دو نام ہوں تو ایک کو دوسرے پر عطف کرنا جائز ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس طرح عطف کرنا جائز تو ہے، لیکن درحقیقت یہ کوئی صحیح اصول نہیں ہے۔
۵اس کے مثانی ہونے کی اصل وجہ یہی قرار دی گئی ہے۔
___________________