HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ ان الفاظ میں روایت کرتے ہیں:

کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا خطب احمرت عیناہ وعلا صوتہ واشتد غضبہ، حتی کأنہ منذرجیش یقول صبحکم و مساکم. ویقول بعثت أنا والساعۃ کھاتین ویقرن بین اصبعیہ ’السبابۃ والوسطی‘ ویقول: اما بعد، فان خیر الحدیث کتاب اللّٰہ وخیر الہدی ھدی محمد و شر الامور محدثاتہا وکل بدعۃ ضلالۃ ثم یقول انا اولی بکل مومن من نفسہ من ترک مالا فلاہلہ ومن ترک دینا او ضیاعا فالی وعلی.(مسلم ،کتاب الجمعہ) 
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آپ کی آواز بلند ہو جاتی اور آپ کے چہرۂ مبارک سے شدید غضب ظاہر ہوتا۔ یوں لگتا کہ آپ دشمن کے کسی لشکر سے ڈرانے والے ہیں۔آپ کہتے: وہ لشکر تم پر صبح آپڑے گا یا شام۔ اس موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی درمیانی انگلی اور انگشت شہادت کو ملاتے ہوئے فرماتے: میرا مبعوث ہونااور قیامت کا آنا، ان دو انگلیوں کی طرح (قریب)ہے۔ آپ ارشاد فرماتے: بے شک بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اوربہترین ہدایت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہدایت ہے،اور بدترین امور دین میں نئی نکالی ہوئی باتیں ہیں اور یہ بدعت گمراہی ہے۔ آپ مزید فرماتے : میں ہر مومن کے لیے اس کی جان سے زیادہ عزیز ہوں۔ جو شخص(اپنے مرنے کے بعد) کچھ مال چھوڑ جائے تو وہ مال اس کے اہلِ خانہ کے لیے ہے اور جو کوئی قرض یا بے سہارا اہل و عیال چھوڑ جائے تو وہ میرے ذمہ ہیں۔‘‘ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کی اس روایت میں پہلے اس انذار کا بیان ہے جو آپ نے برسوں اپنے مخاطبین پرکیا۔ راوی نے خصوصاً آپ کی اس کیفیت کا ذکر کیا ہے جو خطبے کے دوران میں آپ پر طاری ہو جاتی تھی۔ اس کے بعد اس میں بہت مختصر اور جامع الفاظ میں دین کے بعض بنیادی حقائق کا بیان ہے۔

 

پیغمبر بحیثیت منذر

پہلی چیز جو اس خطبے سے سامنے آتی ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک منذر کی حیثیت سے کردار ہے ۔ پیغمبر کا فرض منصبی اپنی قوم کو انذار کرنا ہے، یعنی انھیں آخرت کے عذاب سے خبر دار کرنا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید میں فرمایا گیا:

یَآ أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَأَنْذِرْ. (المدثر ۷۴: ۱۔۲)
’’اے چادر لپیٹے رکھنے والے، اُٹھ اور لوگوں کو ڈرا۔‘‘

انبیا و رسل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جس کام کی بھی ابتدا فرماتے ہیں، اسے اس کی بہترین صورت میں سر انجام دیتے ہیں۔وہ اخلاق و کردار ہی کے لحاظ سے اپنی قوم کے گل ہاے سر سبد نہیں ہوتے، بلکہ احساس ذمہ داری، معاملہ فہمی اور اہلیت کے اعتبار سے بھی اپنی قوم کے بہترین فرد ہوتے ہیں۔ انسانوں کی اصلاح اس دنیا کا سب سے مقدم فرض اور سب سے مقدس خدمت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، یہی دنیا کا سب سے مشکل اور سب سے نازک کام بھی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہمیشہ دنیا کے بہترین لوگوں کا انتخاب فرمایا۱؂اور پھر ان پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ اپنی قوم کو خبر دار کریں، یعنی اس آنے والے دن سے ڈرائیں۔ جس میں سب انسان اپنے رب کے حضور میں پیش کیے جائیں گے۔ اس دن ان کا پروردگار ان کے نیک و بد، سب اعمال ان کے سامنے رکھ دے گا۔

یہ خدا کی صفت رحمت ہی کا تقاضا تھا کہ اس نے ایک بہت نازک اور اہم ذمہ داری کے لیے اپنے انتہائی قابل ،حساس اور ذمہ دار بندوں کو منتخب کیا۔ چنانچہ زیر بحث روایت میں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اسی احساس ذمہ داری کی ایک جھلک دیکھتے ہیں، جس سے قرآن مجید کے مطابق ہر پیغمبر تمام عمر متصف رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم سورۂ نوح میں،نوح علیہ السلام کے ہاں یہی کیفیت دیکھتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

قَالَ رَبِّ إِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْْلاً وَّنَہَارًا، فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآءِ یْٓ إِلَّا فِرَارًا، وَإِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوْٓا أَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوْا اِسْتِکْبَارًا، ثُمَّ إِنِّیْٓ دَعَوْتُہُمْ جِہَارًا، ثُمَّ إِنِّیْٓ أَعْلَنْتُ لَہُمْ وَأَسْرَرْتُ لَہُمْ إِسْرَارًا، فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗکَانَ غَفَّارًا. (۷۱: ۵۔۱۰)
’’(نوح نے ) کہا: اے میرے رب، میں نے اپنی اس قوم کو شب و روز پکارا، لیکن میری پکار سے یہ اور زیادہ بھاگتے ہی رہے۔ اور میں نے جب بھی انھیں بلایا (کہ یہ توبہ کریں)،اس لیے کہ تو ان کو معاف فرمائے، تو انھوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں،اور اپنی چادریں لپیٹ لیں،اور اپنیضد پر اڑ گئے اور بڑے غرور میں اکڑ بیٹھے۔ پھر میں نے ان کو کھلم کھلا پکارا۔ پھر ظاہر اور پوشیدہ، ہرطرح سمجھایا۔میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگ لو،بے شک وہ بڑا معاف کر دینے والا ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس ذمہ داری کا احساس اور شعور بارہا حدمطلوب سے بڑھ جاتا تھا۔ چنانچہ خود پروردگار کائنات نے آپ کو تسلی دی کہ آپ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد، ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پراس قدر غمگین نہ ہوں،آپ نے تو اس معاملے میں خود کو اتنا پریشان کر لیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے،گویا آپ ان لوگوں کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے۔ چنانچہ فرمایا:

مَآ أَنْزَلْنَا عَلَیْْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقآی. (طہٰ ۲۰: ۲) 
’’ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑیں۔‘‘
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ .(الشعرا ء ۲۶: ۳)
’’شاید آپ اس پر اپنے تئیں ہلاک کر لیں گے کہ وہ ایمان نہیں لا رہے۔‘‘
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلآی آثَارِہِمْ إِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَسَفاً.(الکہف ۱۸: ۶)
’’تو شاید تم ان کے پیچھے اپنے آپ کو غم سے ہلاک کر دو گے اگر یہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘

آپ کے ہاں دعوت اور انذار کی جو لگن پائی جاتی تھی ، اس کی تصویر جابر رضی اللہ عنہ مذکورہ روایت میں یوں بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوتے تو شدت تاثر سے کچھ ہی دیر بعد آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آپ کی آواز بلند ہو جاتی اور یوں محسوس ہوتا جیسے آپ کسی لشکر کے منذر ہیں،گویا اپنے بے خبر بھائیوں کو کسی اچانک ٹوٹ پڑنے والے لشکر سے خبردار کر رہے ہیں۔

آپ خدا کے رسول تھے۔ آپ اخروی حقائق،یقین کی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ آپ کے انذار کا رنگ اس شخص کا ساہوتا تھا،جس نے کسی لشکر کو واقعۃً اپنے قبیلے کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ لیا ہو، اور اس کا قبیلہ اس صورت حال سے بالکل غافل پڑا سو رہا ہو تووہ شخص اپنے قبیلے کے بارے میں انتہائی فکر مند ہو کر، بہت تیزی سے اپنے قبیلے کی طرف آئے ۔ پھر انھیں بیدار کرنے کے لیے اونچی جگہ پر کھڑا ہو اور چیخ چیخ کر انھیں پکارے،ایک ایک کا نام لے کر انھیں آوازیں دے۔ پھر وہ ایک ایک فرد کے پاس جائے،اسے زور زور سے جھنجھوڑے تاکہ وہ متوجہ ہو اور اندیشہ محسوس کرے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالکل اسی منذر کی طرح،بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر اپنی قوم کو قیامت کے ہول ناک دن اور آخرت کے عذاب سے خبردار کیا کرتے تھے۔ آپ جب آخرت کا ذکر کرتے، پروردگار کائنات کے حضور لوگوں کے حاضر ہونے کا ذکر کرتے تو اس موقع پر یوں معلوم ہوتا کہ آپ لوگوں کے دلوں کی دنیا ہلا ڈالیں گے۔ آپ کے انذار کی نوعیت یہ ہوتی، گویا آپ لوگوں کے دروازو ں پر دستک دے رہے ہیں،کبھی ایک کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور کبھی دوسرے کا۔

آپ بات کی نزاکت اور سنگینی کو موکد کرنے کے لیے فرماتے کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں، جیسے یہ دو متصل انگلیاں۔ مراد یہ ہے کہ میرے بعد اب کوئی اورنبی آنے والا نہیں۔ میرے بعد بس اب قیامت آیا ہی چاہتی ہے، کچھ خبر نہیں کہ وہ کب آجائے۔اللہ تعالیٰ نے اس کا کوئی وقت نہیں بتایا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس کے بارے میں خبردار رہے اور ہر وقت اس کی تیاری میں لگا رہے ۔ انسان کامعاملہ یہ ہے کہ وہ قیامت کو بہت دورسمجھتا ہے،حالانکہ آدمی کے پاس بس موت تک کی مہلت ہے، جس میں اسے خدا سے ملاقات کی تیاری کرنی ہے۔

 

کلام اللہ کا مقام

دوسری بات اس خطبے میں یہ بیان ہوئی ہے کہ بے شک، بہترین کلام، اللہ کا کلام ہے۔ قرآن مجید میں خود اس کے اپنے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں،وہ ’القراٰن العظیم‘ (عظمت والا قرآن) ’القراٰن المجید‘(بزرگی والاقرآن) اور ’القراٰن الحکیم‘ (دانائی والا قرآن) کے ہیں۔

کلام، دراصل متکلم کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔یہ اس کی صفات کی عکاسی کرتا،اس کے مقام و مرتبے اور اس کی عظمت کو بیان کرتا اوراس کی دانش ،اس کی حکمت اور اس کے علم کا ترجمان ہوتاہے۔

قرآن مجید خدا کا کلام ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اسے بندوں کے کلام پر وہی فضیلت حاصل ہے ،جو فضیلت پروردگار کائنات بندوں پر رکھتا ہے۔‘‘ (ترمذی، ثواب القرآن)

یہ اس ذات کا کلام ہے ،جس کی کوئی مثال نہیں۔ یہ کائنات، جس کا ایک حکم ہے، حشر و نشر جس کا ایک فیصلہ ہے،ابدی جہنم جس کی ایک سزا ہے اور ابدی جنت جس کی ایک رحمت ہے۔ جس کا حکم جان لینا علم ہے اور جس کی بات مان لیناحکمت ہے ۔جس کے کلمات ۲؂لا محدود ہیں،جنھیں لکھنے کے لیے تمام سمندر،اگر سیاہی بنیں تو ناکافی،سارے درخت،اگر قلم بنیں تو کم اور سب آسمان اگر کاغذ بنیں تو تھوڑے ہو جائیں۔

کوئی شک نہیں کہ اس خدا کا کلام بہترین ہے۔ اس میں جو حکمت ہے، وہ بہترین حکمت؛ جو علم ہے، وہ بہترین علم ؛جو فیصلے ہیں،وہ بہترین فیصلے اور جو نصیحتیں ہیں،وہ بہترین نصیحتیں ہیں؛ جو اس کے مطابق بات کرتا ہے،وہ سچ کہتا ہے؛ جواس کے مطابق فیصلہ کرتاہے، عدل کرتاہے اور جس نے اسے اپنا ہادی بنا یا، اس نے ہدایت پالی۔

 

پیغمبر بحیثیت رہنما

تیسری بات جو اس خطبے میں بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ بہترین ہدایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت ہے۔

کون سی راہ انسان کے لیے ابدی فلاح و کامیابی کی راہ ہے؟ اس کے بارے میں مختلف نقطہ ہاے نظر ہو سکتے ہیں،لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا ہے کہ اب صرف آپ ہی وہ شخص ہیں،جن کی لائی ہوئی ہدایت، ہدایت ہے۔ چنانچہ اب صرف آپ ہی کے ذریعے سے ابدی فلاح و کامیابی ممکن ہے۔ باقی راہیں،اگردل کو بھاتی بھی ہوں تو بھی وہ منزل تک پہنچانے والی نہیں ہیں۔کوئی فکر ہو یا فلسفہ، کسی صوفی کا کشف ہو یا الہام،کسی قومی رہنما کے اقوال ہوں یا کسی فلسفی کے افکار،دنیا کی کوئی شے ایسی نہیں، جو خدا کے ہاں،رشد و ہدایت کے معاملے میں،ہادی برحق کی ہدایت کے مقابلے میں کوئی وقعت رکھتی ہو۔

خدا نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ طریقہ انبیا و رسل کے ذریعے سے،اپنی راہ کی طرف ہدایت دینا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ اس واحد خالص راستے سے، بظاہر مشابہت رکھنے والے، باقی سب راستوں کے بارے میں وضاحت کر دی جاتی کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔ چنانچہ یہ فرما دیا کہ بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے۔ لہٰذا ابدی فلاح و کامیابی کے لیے اب قیامت تک آں حضرت کے مقابلے میں جو شخص بھی اپنی بنیاد پر کوئی رہنمائی کرتا ہے، وہ یقیناًغلط ہے۔ قرآن مجید نے یہی بات ان الفاظ میں بیان کی ہے:

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْْرَ الإِْسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ.(آل عمران ۳: ۸۵)
’’اور جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب بنے گاتو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گااور وہ آخرت میں نامرادوں میں سے ہو گا۔‘‘

’خیر الہدی ہدی محمد‘ میں ’خیر‘ کا لفظ تقابل کا نہیں،مبالغے کا مفہوم رکھتا ہے اور مبالغے کایہ اسلوب ایک طرف تکمیل کا مفہوم دیتا ہے اور دوسری طرف صراحت سے اس بات کی بھی نفی کرتا ہے کہ کسی اور کی دی ہوئی ہدایت و رہنمائی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔

 

دین میں اضافہ

چوتھی بات جو اس خطبے میں بیان کی گئی ہے،یہ ہے کہ دین میں نئی نئی باتیں پیدا کرنا سب سے برا کام ہے۔ یہ بات، دراصل اوپر والی بات ہی کا لازمی نتیجہ ہے۔ یعنی اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا کی وہ بات جو نبی لے کر آیا ہے، ہدایت بس وہی ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس میں انسانی فکر و فلسفے کی دخل اندازی کی اسی شدت سے نفی کر دی جائے جس شدت سے خدا کے ہاں انسانی دخل اندازی کی نفی پائی جاتی ہے۔ یعنی جہاں پروردگار نے خود قانون سازی کر دی ہو، وہاں بندوں کے لیے قانون سازی کا حق ختم ہو جاتا ہے۔

دین میں کوئی نئی بات داخل کرنا، دراصل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہر خامی سے پاک اور ہر خوبی سے متصف خدا نے،معاذ اللہ،دین کے معاملے میں ناقص رہنمائی کی ہے۔ حالانکہ اس ذات کامل نے بتا دیا ہے: 

اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِیْناً.(المائدہ ۵: ۳) 
’’آج میں نے تمھاے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے، پسند فرمایا۔‘‘

دین ہم سے چاہتا ہے کہ جذبات و خواہشات، خواہ کیسی ہی اچھی ہوں، انھیں عقل و خرد کے تابع رکھیں اور عقل و خرد، خواہ کتنی ہی کامل دکھائی دے، اسے وحی الٰہی کے تابع رکھیں۔ جبکہ بدعت اختیار کرنے والا،اپنی عقل کو جذبات کے حوالے کر دیتا ہے،پھر اس صورت حال میں جب وحی کی رہنمائی اسے ناکافی معلوم ہوتی ہے تو وہ رہنمائی کی یہ کمی بدعت ایجاد کر کے پوری کرتاہے۔

جذبات کی مثال ایسے ہے جیسے آگ، عقل کی مثال ایسے ہے جیسے چولھا اور وحی کی مثال ایسے ہے جیسے آگ اور چولھے کا مالک۔ آگ اگر چولھے کی حدود میں رہے اور چولھا مالک کی نگرانی میں ہو تو سراپا خیر،لیکن اگر آگ چولھے پر غالب آجائے اور چولھا مالک کی نگرانی میں نہ ہوتو پورا گھر اس کی زد میں ہوتاہے۔

 

بدعت گمراہی ہے

پانچویں با ت جو اس خطبے میں بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ بدعت گمراہی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے ،کیونکہ اگر خدا کی رہنمائی کو صحیح اور مکمل مان لیا جائے تو لازم ہے کہ اس میں کیا جانے والا ہراضافہ غیر صحیح اور غیر ضروری ہو اور یہ اضافہ اس کے کسی صحیح اور لازمی جز کو نکالے بغیر اس میں نہ کیا جا سکے۔ قرآن مجید نے اس بات کو اصول میں یوں بیان کیا ہے:

فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ؟ (یونس۱۰: ۳۲) 
’’حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے؟‘‘

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدعت جب بھی دین میں داخل ہو گی، کسی سنت کی جگہ پر داخل ہو گی۔نتیجۃً وہ سنت لوگوں میں عملاً معطل ہو جائے گی اور بدعت اس کی جگہ جاری ہو جائے گی۔

بدعت،دراصل خدا کے نمائندے،یعنی اس کے رسول کی رہنمائی کے بجائے،عام انسان کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے۔بدعت کا داعی خدا پر افترا کرتا ہے اور پیغمبر کے مقابلے میں پیغمبر بننے کی کوشش کرتاہے۔

 

رسو ل اللہ سے اہل ایمان کا تعلق

چھٹی بات جو اس خطبے میں بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ تعلق و محبت اور حقوق کے اعتبار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر صاحب ایمان کے لیے،اس کی اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہیں۔

انسانوں کی دنیا میں کسی کے ساتھ تعلق،محبت اور اس کے حقوق، زندگی میں اس کی اہمیت اور اس کے کردار کے تناسب سے ہوتے ہیں۔ خدا کا رسول کسی صاحب ایمان کی زندگی میں کیا حیثیت اور کیا کردار رکھتا ہے،اسے اگر ایک ہی جملے میں بیان کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کے لیے خداے رحمان کی طرف اس کا واحد سہارا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعے سے اس نے اپنے مہربان پروردگار کی باتیں سنیں اور اس کی راہ جانی۔آپ ہی کے ذریعے سے اس راہ پر چلنا سیکھا۔ پھر آپ ہی کی رہنمائی میں، اس عزیز مقتدر کی طرف چل پڑا۔ آج بھی اگروہ غافل ہوتا ہے تو آپ ہی کی تعلیمات اسے بیدار کرتی ہیں۔ وہ غلطی میں پڑنے لگتا ہے تو آپ ہی کی تنبیہات اسے خداے منعم کا خوف دلاتی ہیں۔خداکی طرف زندگی کے اس سفر کی صعوبتیں جب اسے تھکا دیتی ہیں تو آپ ہی کی باتیں اسے نئے ولولوں سے آشنا کرتی ہیں۔ گویا، وہ آج بھی نیکی،بھلائی اورخیر کے کاموں کا جذبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے پاتا ہے۔

جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور آپ کی رکاب تھام لی،اس کے لیے سب کچھ ہے،دوزخ سے نجات بھی،جنت کی ابدی خوشیاں بھی، اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت بھی،اس کا قرب اور اس کی رضا بھی:

وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ أَکْبَرُ.(التوبہ ۹: ۷۲) 
’’اللہ کی خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’میری اور تمھاری مثال اس شخص کی ہے جس نے آگ جلائی اور ٹڈی اورپتنگے اس میں گرنے لگے اور وہ ان کو روکنے لگا۔ اسی طرح میں تمھیں تمھاری کمروں سے پکڑے کھڑا ہوں اور تم ہو کہ میرے ہاتھ سے نکل نکل جاتے ہو۔‘‘ (مسلم،کتاب الفضائل)

غرض، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان کے لیے خود اس کی اپنی ذات کی نسبت زیادہ خیر خواہ اور زیادہ ہمدرد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ایک مسلمان کے لیے اس کی زندگی میں اس کی جان سے بھی زیادہ حقوق رکھتے ہیں،چنانچہ قرآن مجید نے یہ بات واضح کر دی کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے، اپنی ذات کے بارے میں آپ کے کسی فیصلے کے خلاف کوئی خیال بھی دل میں لا سکے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً. (النساء ۴: ۶۵) 
’’پس نہیں تیرے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہیں جب تک اپنی نزاعات میں تمھی کو حکم نہ بنائیں اور جو کچھ تم فیصلہ کردو، اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس کیے بغیر، اس کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کر دیں۔‘‘

مومنین پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حق کہ آپ تعلق و محبت اور حقوق کے اعتبار سے، ہر صاحب ایمان کے لیے، اس کی اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہیں۔ قرآن مجید میں درج ذیل الفاظ میں بیان ہوا ہے:

اَلنَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ.(الاحزاب ۳۳: ۶)
’’اور نبی کا حق مومنوں پر، خود ان کے اپنے مقابل میں اولیٰ ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ تعلق و محبت،دراصل اس ایمان کا تقاضا ہے،جو ہر مسلمان کے دل میں موجود ہوتاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ تعلق اور محبت،جس نے ایمان کے بطن سے جنم لیا ہو، ہر دوسری محبت اور ہر دوسرے تعلق پر فائق ہوتا ہے۔

 

رسول اللہ پرمسلمان کا حق

ساتویں بات جو اس خطبے میں بیان ہوئی ہے،وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ترکہ چھوڑ جائے تو وہ ورثا کا حق ہے،لیکن اگر کوئی مسلمان قرض چھوڑ جائے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ میرے ذمے ہے۔

جہاں رشتہ و تعلق کی بات ہوتی ہے ،وہاں ایک دوسرے کے حقوق بھی زیر بحث آتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ بیان ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان پر کیا حق رکھتے ہیں اور اب یہ بیان ہو رہا ہے کہ ایک مسلمان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا حق ہے۔ قرآن مجید میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:

وَأَزْوَاجُہٓٗ أُمَّہَاتُہُمْ.(الاحزاب ۳۳: ۶) 
’’ اور ازواجِ نبی کی حیثیت مومنوں کی ماؤں کی ہے۔‘‘

یہ بات صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں امت کی مائیں ہیں اورامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام، اس کے دینی و روحانی باپ کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی مقروض مرنے والے کے قرض کو اپنے ذمہ قرار دینا،دراصل اسی تعلق کا ایک حق ہے، جسے آپ نے بیان فرمایا ہے۔

آپ کے اس رویے سے، مسلمانوں کے امیر کے لیے یہ اسوہ قائم ہو گیا کہ وہ بھی آپ کی نیابت میں ایسے مقروض مسلمان کا قرض بیت المال سے ادا کرے، جو زندگی میں کوشش کے باوجود خود اپنا قرض ادا نہ کر سکا ہو۔

چنانچہ آج بھی یہ مسلمانوں کاوہ حق ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذمے بیان کیا ہے۔ البتہ ،اب عملاً اس حق کا ادا کرنا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب،یعنی مسلمانوں کے امیر کے ذمے ہے۔

[۱۹۹۶ء]

_________

 

۱؂الانعام ۶: ۱۲۴۔ ’اَللّٰہُ اَعْلَمْ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ’’اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کس کو اپنی رسالت کا امین بنائے۔‘‘

۲؂اس کے بارے میں باتیں، یعنی اس کی نشانیوں کا بیان ، اس کے کمالات کا ذکر، اس کی رحمتوں کے تذکرے۔

___________________

B