تقدیر پر ایمان در اصل، اللہ کی دو صفات پر ایمان کا نتیجہ ہے۔ ان صفات میں سے ایک صفت علم اور دوسری صفت قدرت ہے۔ اگر اللہ کا علم اور اس کی قدرت کامل ہے تو پھر تقدیر کا وجود لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث نبوی میں تقدیر پر ایمان ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کئی پہلووں سے گفتگو فرمائی ہے۔ آپ کی بیش تر احادیث اس مسئلے کو بہت عمدہ طریقے سے واضح کرتی ہیں۔ البتہ بعض احادیث اگر بادی النظر سے دیکھی جائیں تو اس معاملے میں سخت علمی اشکال کا باعث بنتی ہیں۔ درج ذیل حدیث بھی انھی میں سے ایک ہے۔ اس تحریر میں ہمارے پیش نظر اس حدیث کی صحیح تاویل معلوم کرنا ہے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔
و عن علی رضی اللّٰہ عنہ، قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ما منکم من احد الا و قد کتب مقعدہ من النار و مقعدہ من الجنۃ ، قالوا: یا رسول اللّٰہ، افلا نتکل علی کتابنا و ندع العمل؟ قال: اعملوا فکل میسر لما خلق لہ؛ فاما من کان من اہل السعادۃ فسییسر لعمل السعادۃ ، واما من کان من اہل الشقاوۃ فسییسر لعمل الشقاوۃ، ثم قرا : (و اما من اعطی و اتقی و صدق بالحسنی فسنیسرہ للیسری و اما من بخل و استغنی و کذب بالحسنی فسنیسرہ للعسری)(بخاری، کتاب التفسیر۔مسلم، کتاب القدر)
’’علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس کا ٹھکانا دوزخ یا جنت میں لکھ نہ دیا گیا ہو۔لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ،کیاہم اپنے بارے میں خدا کے لکھے ہوئے پر بھروسا کر کے، عمل کی تگ و دو سے بے نیاز نہ ہو جائیں؟آپ نے فرمایا: عمل کرتے رہو۔ ہر آدمی کو اُسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے، جس کے لیے اُسے تخلیق کیا گیا ہے ، چنانچہ اہلِ سعادت (جنتیوں)کو اعمالِ سعادت ہی کی توفیق دی جاتی ہے اور اہلِ شقاوت (دوزخیوں) کو اعمالِ شقاوت ہی کی توفیق دی جاتی ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سورۂ لیل کی یہ آیت ) پڑھی ’’سو جس نے انفاق کیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اچھے انجام کو سچ مانا تو اُسے ہم راحت کی منزل (جنت)کا اہل بنائیں گے، اور جس نے بخل کیا اور بے پروا ہوا اور اچھے انجام کو جھٹلایا، اُس کو ہم کٹھن منزل (دوزخ)کی طرف بڑھنے کے لیے ڈھیل دیں گے‘‘۔‘‘
حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ ہر آدمی کا ٹھکانا جنت یا دوزخ میں پہلے سے لکھ دیا گیا ہے۔
۲۔ ہر آدمی کو اسی قسم کے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جس قسم کے اعمال کے لیے وہ تخلیق کیا گیا ہے۔ اگر وہ اہل سعادت (جنتیوں) میں سے ہے تو اسے نیک اعمال کی توفیق دی جاتی ہے اور اگر وہ اہل شقاوت(دوزخیوں) میں سے ہے تو اسے اعمال بد کی توفیق دی جاتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بات کے ثبوت کے لیے جو آیت پڑھی ہے ، اس میں بیان کردہ باتیں یہ ہیں:
۱۔ جس نے انفاق کیا،پرہیزگاری اختیار کی اور اچھے انجام کو سچ مانا تو اسے اللہ تعالیٰ راحت کی منزل (جنت)کا اہل بنائیں گے۔ یعنی آدمی اپنے صحیح عقیدے اور نیک اعمال ہی کی بنا پر جنت میں جائے گا۔
۲۔جس نے بخل کیا،بے پروا ہوا اور اچھے انجام کو جھٹلایا، اس کو اللہ تعالیٰ کٹھن منزل (دوزخ) کی طرف بڑھنے کے لیے ڈھیل دیں گے۔ یعنی آدمی اپنے باطل عقیدے اور بد اعمال ہی کی بنا پر دوزخ میں جائے گا۔
اس حدیث پر جواعتراضات وارد ہوتے ہیں،وہ یہ ہیں:
پہلا یہ کہ اگر ہر آدمی کا ٹھکانا جنت یا دوزخ میں پہلے سے لکھا جا چکا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی سے یہ طے کیے ہوئے ہے کہ فلاں فلاں کو میں نے دوزخ میں ڈالنا ہے ، خواہ وہ اس کا حق دار ہو یا نہ ہو۔اور فلاں فلاں کو میں نے جنت میں لے جانا ہے، خواہ وہ حق دار ہو یا نہ ہو۔ ظاہر ہے، یہ سراسر بے انصافی ہے کہ خدا انسان کے اچھا یا برا عمل کرنے سے پہلے خود ہی اس کے لیے جنت یاجہنم طے کر دے۔
دوسرا اعتراض یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اسی عمل کی توفیق دیتا ہے جس کے لیے خود خدا نے اسے تخلیق کیا ہو تو اس کا بھی صاف مطلب یہی ہے کہ خدا نے انسان کو اختیار و ارادہ کی جو آزادی دے رکھی ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کے معاملے میں خدا صرف اور صرف اپنی مرضی نافذ کرتا ہے۔مرضی نافذ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسان کو صرف اسی منزل (جنت یا دوزخ) کی طرف بڑھنے کی توفیق دیتا ہے ،جس کے لیے خود اس نے اسے تخلیق کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نعوذ باللہ ’مالک یوم الدین‘ (انصاف کے دن کے مالک)کے پاس انصاف اور عدل نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اس کے پاس اگر کچھ ہے تو بس جبر ہی جبر ہے۔
تیسرا اعتراض یہ کہ اس حدیث میں جس آیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کے حق میں بطور ثبوت پیش کیا ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ بات سے واضح طور پر ٹکرا رہی ہے۔ آیت کا مفہوم تو یہ ہے کہ آدمی اپنے صحیح عقیدے اور نیک اعمال کی بنا پر جنت میں جائے گا اور اپنے باطل عقیدے اور بد اعمال کی بنا پر وہ دوزخ میں جائے گا جبکہ اس حدیث میں سراسر ا س کے منافی بات بیان ہوئی ہے۔
تقدیر پر ایمان اگر خدا کے علم کامل (ان اللّٰہ بکل شیء علیم) اور اس کی قدرت کاملہ (ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر) پر ایمان کا لازمی نتیجہ ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس پر غور بھی بنیادی طور پر انھی دو صفات کے حوالے سے کیا جائے۔
چنانچہ ضروری ہے کہ پہلے اس مسئلے کو حل کر لیا جائے کہ خدا کی صفت علم اور صفت قدرت کے حوالے سے آدمی کو اشکال کیوں اور کیسے پیدا ہوتا ہے ۔ اس اشکال کی و جہ دراصل یہ ہے کہ آدمی خدا کی صفت علم کو اپنی صفت علم پر قیاس کرتا اور خدا کے عالم ہونے کو اپنے عالم ہونے پر قیاس کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس کی صفت قدرت کو بھی انسانی محدودیتوں کا شکارخیال کرتا ہے۔ گو انسان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کی قوتیں اس کی قوتوں سے بہت بڑی ہیں، لیکن بہرحال وہ انھیں انسانی نوعیت ہی کی قوتیں گمان کرتا ہے،حالانکہ اس ذات کا معاملہ ’لیس کمثلہ شیء‘( کوئی چیز اس کی مثل نہیں)ہے ۔ اس غلطی کی و جہ سے بے پناہ اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانی صفات سے منزہ اور خدائی صفات سے متصف قرار دیا جائے اوراس ’جل جلالہ‘ کے بارے میں انھی صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے، جو اس کے شایان شان ہیں۔
اللہ ’عالِمُ الغیبِ وَ الشھادۃِ‘ ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کا علم یکساں طور پر رکھتا ہے۔ ہمارا علم ہمارے حواس کا محتاج ہوتا ہے ۔خدا کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ وہ بے شک ’سمیع و بصیر‘ بھی ہے، لیکن اس کا ’عالِمُ الغیبِ وَالشھادۃِ ‘ہونا ، اس کے ’سمیع و بصیر‘ ہونے کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا ’سمیع وبصیر‘ہونا اپنی جگہ پر ہے اور ’عالم الغیب‘ ہونا اپنی جگہ پر۔ انسان کو غلطی یہاں سے لگتی ہے کہ وہ خدا کے بارے میں یہ سمجھتا ہے کہ جیسے میں سماعت و بصارت یا اپنے دوسرے حواس کے ذریعے سے علم حاصل کرتا ہوں، اسی طرح وہ ذات حق بھی اپنے ’سمیع و بصیر‘ہونے کی بنا پر مستقبل کو کہیں موجود دیکھ کر جان لیتی ہو گی۔ مستقبل اگر پہلے سے کہیں موجود ہے تو لازم ہے کہ وہ خدا کے جبر ہی سے قائم ہوا ہو۔...نہیں، بات ایسے نہیں ہے، یہ خیال بالکل باطل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ غیب کو اپنی ایک ایسی صفت کے ذریعے سے جان لیتا ہے، جس کا انسان کو کوئی تجربہ نہیں ہے۔ یہ صفت اس کا ’عالمُ الغیب‘ہونا ہے۔ چنانچہ یہ فرض کرنا ہی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل کو پہلے کہیں حقیقتہً قائم کرتا ہے اور پھر اسے دیکھ دیکھ کر وہ جانتا رہتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب ہم بہت آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ’ما کان و ما یکون‘ (جو (ماضی میں) ہو چکا اور جو آیندہ ہو گا)کا علم رکھتا ہے اور اس سے کوئی بھی جبر لازم نہیں آتا، کیونکہ اس نے غیر موجود مستقبل کو اپنے کمال علم سے جانا ہوتا ہے۔
اس کے بعد اب آپ حدیث کی طرف آئیے۔ اس میں پہلی با ت یہ بیان ہوئی ہے کہ ’’ہر آدمی کا ٹھکانا جنت یا دوزخ میں لکھا جا چکا ہے‘‘ ۔
جنت یا دوزخ میں انسان کے ٹھکانے کا یہ لکھا جانا ، محض خدا کے علم کامل کا ظہور ہے۔ اگر انسان کو خدا کے کامل علم یعنی اس کے ’عالمُ الغیب والشہادۃ‘ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر اس کے کامل علم کے ظہور پر بھی انسان کے لیے اصولاً کسی اعتراض کی گنجایش نہیں ہے۔ نہ خدا کا وہ علم کامل کسی جبر کو مستلزم ہے اور نہ اس کا یہ ظہور کسی جبر کو لازم ٹھہراتا ہے۔
دوسری بات جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، وہ صحابہ کا یہ قول ہے کہ ’’اے اللہ کے رسول، کیا ہم اپنے بارے میں خدا کے اس لکھے ہوئے پر بھروسا کر کے، عمل کی تگ و دو سے بے نیاز نہ ہو جائیں۔‘‘
اس کی وضاحت یہ ہے کہ خدا کا یہ لکھا ہوا، اگر اس کا کوئی جبری فیصلہ ہوتا ،یعنی ( نعوذ باللہ) خدا نے اگر بغیر کسی اصول اور قانون کے اور بغیر کسی معیار کے، خالص اندھے پن سے لوگوں کے بارے میں یہ فیصلہ کیا ہوتا، تو وہ بات بالکل ہی ٹھیک تھی، جس کے لیے صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب فرمائی تھی،یعنی یہ کہ ہم کیوں نہ خدا کے لکھے ہوئے پر بھروسا کریں اور عمل کرنا چھوڑ دیں۔ اس لیے کہ اگر معاملہ خدائی جبر کا ہے تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ سعی عمل ایک کار بے کار ہے اور اس کا نتیجہ تحصیل حاصل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ پھر انسان عمل کی تکلیف کاہے کو اٹھائے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس کی بالکل اجازت نہیں دی کہ وہ عمل چھوڑ دیں،بلکہ آپ نے فرمایا : عمل کرتے رہو۔
تیسری بات جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی بات سن کر فرمایا : ’’ ہر آدمی کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے ، جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا ہے ، چنانچہ اہل سعادت (جنتیوں)کو اعمال سعادت ہی کی توفیق دی جاتی ہے اور اہل شقاوت (دوزخیوں) کو اعمال شقاوت ہی کی توفیق دی جاتی ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب سے دو اشکال پیدا ہوتے ہیں:
۱۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھے یا برے اعمال کی بنا پر جنت یا جہنم میں نہیں ڈالنا، بلکہ اعمال سے قطع نظر انسان کی تخلیق اپنی ابتدا ہی سے جنت کے لیے ہوئی ہے یا جہنم کے لیے۔
۲۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جس انسان کو جنت کے لیے بنایا ہے، اسے وہ اپنے جبری فیصلے سے نیک کاموں کی توفیق دیتا اور جنت میں لے جاتا ہے اور جسے دوزخ کے لیے بنایا گیا ہے،اسے اپنے جبری فیصلے سے برے کاموں کی توفیق دیتا اور دوزخ میں لے جاتا ہے۔ انسان اصلاً بے بس ہے۔
یہ دونوں اشکالات صرف اس صورت میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس حدیث کے الفا ظ ’لما خلق لہ‘ (جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیاہے) کا مفہوم غلط طے کر لیا جائے۔’لما خلق لہ‘ کا مفہوم یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اللہ نے ہر انسان کو اپنے جبری فیصلے سے جنت یا جہنم میں سے کسی ایک کے لیے پیدا کیا ہے، حالانکہ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے۔ اگر اس مفہوم کو مان لیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ان سب صفات عالیہ اور اس کے ان سب اسماے حسنیٰ کا انکار کرنا پڑتا ہے، جنھیں قرآن مجید بڑی شان کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی عدل باقی رہتا ہے اور نہ انصاف ، نہ رحمت کی توقع کی جا سکتی ہے، نہ مغفرت کی امید۔ اس صورت میں تو قیامت کی گھڑی، یقینا، انسان کے دور ظلم کی انتہا اور اللہ کے ’دور ظلم ‘کی ابتدا قرار پاتی ہے۔
زیر بحث حدیث کا مفہوم اگر یہ نہیں ہے جو اس سے سمجھا جا رہا ہے تو پھر کیا ہے ؟ آئیے حدیث کے الفاظ کی اس مشکل کا حل قرآن مجید سے معلوم کرتے ہیں، کیونکہ وہ موضوعات جن پر قرآن مجید نے کلام کیا ہے، ان میں مہیمن بھی وہی ہے، فرقان بھی وہی ہے اور میزان بھی وہی۔
زیر بحث حدیث کے الفاظ ’لما خلق لہ‘ ( یعنی جنت یا جہنم ،جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا ہے ) میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے ، اسی کو سورۂ اعراف کی آیت ۷۹امیں بھی بیان کیا گیا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس آیت ہی کی روشنی میں اس حدیث کو حل کیا جائے۔ فرمایا:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ، لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا، وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ، اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ.
’’اور ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہت سوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے دل ہیں، جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں، جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں، جن سے وہ سنتے نہیں۔یہ چوپایوں کے مانند ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ ہیں جو بالکلبے خبر ہیں۔‘‘
آپ دیکھیے، اس آیت کا اسلوب وہی ہے، جو اسلوب زیر بحث حدیث میں اختیار کیا گیا ہے۔ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو جنت یا جہنم، جس کے لیے بھی وہ تخلیق کیا گیا ہو، اسی کے مطابق اعمال کی تو فیق دی جاتی ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے ، اس سے یہ بات تو خود بخود ظاہر ہے کہ ان بہت سوں کے علاوہ کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اس آیت میں بھی وہی اسلوب اختیار کرتے ہوئے پوری بات کی گئی ہے، جو اسلوب حدیث میں اختیار کیا گیا ہے۔ اللہ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آیت میں اس کا جواب بھی واضح طور پر دے دیا گیا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے انھیں جہنم کے لیے اس وجہ سے پیدا کیا ہے کہ وہ سوچنے کی صلاحیت کے باوجود سوچتے نہیں، دیکھنے کی صلاحیت کے باوجود دیکھتے نہیں اور سننے کی صلاحیت کے باوجود سنتے نہیں۔ دل، آنکھوں اور کانوں کی صلاحیتوں سے کام نہ لینے سے مراد یہی ہے کہ یہ لوگ حق و باطل اور خیر و شر میں کوئی تمیز نہیں کرتے، ورنہ ظاہر ہے کہ بازار اور گھر کا راستہ تو ہر نیک و بد دیکھ کر ہی چلتا ہے۔اصل مسئلہ حق و باطل اور خیر و شر میں تمیز ہی کا ہے۔ درج بالا آیت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا جہنم کے سپرد انھی لوگوں کو کرے گا جو خدا کی طرف سے سمجھنے والا دل ، دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان تو لے کر آئیں گے ، مگر وہ اپنی خواہشات اور اپنے مفادات کی و جہ سے حق و باطل اور خیر و شر کے معاملے میں بالکل اندھے بن کر جئیں گے۔ وہ دیکھنے کے موقع پر دیکھیں گے نہیں ، سننے کے موقع پر سنیں گے نہیں اور سمجھنے کے موقع پر سمجھیں گے نہیں، پس یہ خدا کے غضب کا شکار ہوں گے اور جہنم میں جا پڑیں گے۔
اب آپ حدیث کے الفاظ سے پیدا ہونے والے اشکالات کی طرف آئیے اور دیکھیے کہ وہ اس آیت کی روشنی میں بالکل حل ہو جاتے ہیں۔
پہلی بات یعنی یہ کہ ہر آدمی کا ٹھکانا جنت یا جہنم میں لکھا جا چکا ہے۔
یہ لوگوں کے بارے میں اللہ کے ارادے کا نہیں،بلکہ اس کے علم کامل کا ظہور ہے۔ اس نے جنت یا جہنم میں ٹھکانا لکھنے کا یہ معاملہ کسی بے جان پتھر، جو نہ ارادہ رکھتا ہواور نہ اختیار، کے بارے میں نہیں کیا، بلکہ یہ لکھا جانا ایک ایسی مخلوق کے بارے میں ہے ،جسے اس نے اختیار و ارادہ کی آزادی سے نوازا تھا، اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن میں رہے کہ خدا انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی دینے میں ناکام نہیں رہا ، اس نے فی الواقع یہ آزادی اسے عطا فرما دی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ انسان اس آزادی کو خوب’Exercise‘کرتا ہے۔ اسی بنا پر دنیا بھر کی عدالتیں اسے جرم پر سزا دیتی ہیں اور اسی کی بنا پر اللہ نے انسان کو شریعت پر عمل کا مکلف ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ خدا کے علم کامل کا یہ ظہور کسی جبر کو مستلزم نہیں،یہ انسان کے بارے میں خدا کے کسی ارادے کا بیان نہیں ہے، بلکہ محض علم کا بیان ہے کہ کون خدا کی عطا کردہ اختیار و ارادہ کی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے، اعمال سعادت اختیار کرے گا اور جنت میں جائے گا اور کون خدا کی عطا کردہ اختیار و ارادہ کی اس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے، اعمال شقاوت اختیار کرے گا اور دوزخ میں جائے گا ۔ خدا کا یہ علم ظاہر ہے، کسی طرح بھی کسی جبر کو لازم نہیں کرتا،جیسا کہ درج بالا آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے انھیں جہنم کے لیے اس وجہ سے پیدا کیا ہے کہ یہ (خیر و شر کے معاملے میں) سوچنے کی صلاحیت کے باوجود سوچتے نہیں، دیکھنے کی صلاحیت کے باوجود دیکھتے نہیں اور سننے کی صلاحیت کے باوجود سنتے نہیں۔
دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ خود ہی جنتی شخص کو اعمال سعادت کی توفیق دیتا اور خود ہی جہنمی شخص کو اعمال شقاوت کی توفیق دیتا ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص اپنے اختیار و ارادہ کی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے ، جنت میں جانے کا ارادہ کرتا اور اس کے لیے نیک اعمال اختیار کرنا چاہتا ہے، اسے اللہ نیک اعمال کی توفیق دیتااور جو آخرت سے لاپروا ہو کر اعمال بد کو اختیار کرنا چاہتا ہے،اسے اللہ اعمال بد کی توفیق دیتا ہے ۔ اسی بات کو اگر درج بالا آیت کے الفاظ میں بیان کیا جائے تو ہم یہ کہیں گے کہ جو شخص اپنی سمع و بصر اور قلب کی صلاحیتوں کو خیر و شر میں تمیز کرنے اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پھر صحیح راہ اپنانا چاہتا ہے ،وہی وہ شخص ہوتا ہے جسے اللہ نے جنت کے لیے پیدا کیا تھا ، کیونکہ اس کے بارے میں اللہ نے اپنے علم کامل کے ذریعے سے یہ جان لیا تھا کہ وہ اپنے اختیار و ارادہ کو اپنی آزاد مرضی سے صحیح استعمال کرے گا اور نیک اعمال اختیار کر کے جنت میں جانا چاہے گا، چنانچہ یہ شخص دنیا میں جیسے جیسے اعمال صالحہ کو عملاً اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے، اللہ اسے اعمال صالحہ کی توفیق دیتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی سمع و بصر اور قلب کی صلاحیتوں کو خیر و شر میں تمیز اور حق و باطل میں فرق کرنے لیے استعمال نہیں کرتا اور صحیح راستے کو نہیں اپناتا، وہ یقیناًوہی شخص ہوتا ہے ،جس کے بارے میں اللہ نے اپنے علم کامل کے ذریعے سے جان لیا تھاکہ یہ اپنے اختیار و ارادہ کو اپنی آزاد مرضی سے غلط استعمال کرے گا اور بد اعمال اختیار کرتے ہوئے دوزخ کی راہ پر چلنا چاہے گا، چنانچہ اس کو اللہ نے دوزخ ہی کے لیے پیدا کیا تھا ، پھر دنیا میں جیسے جیسے اس کی طرف سے اعمال بد اختیار کرنے کا ارادہ نظر آتا چلا جاتا ہے ، اللہ اسے اعمال بد کی توفیق دیتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ظاہر ہے کہ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا، ورنہ ا س کی طرف سے انسان کے معاملے میں جبر لازم آتا، کیونکہ اختیار و ارادہ کی آزادی کے بعد صحیح اور حق بات یہی تھی کہ خدا ایسا ہی کرے۔
تیسرا اشکال یہ بیان کیا گیا ہے کہ ا س حدیث میں جس آیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کے حق میں بطور ثبوت پیش کیا ہے، وہ آپ کی بیان کردہ بات سے واضح طور پر ٹکرا رہی ہے۔ آیت کا مفہوم تو یہ ہے کہ آدمی اپنے صحیح عقیدے اور نیک اعمال کی بنا پر جنت میں جائے گا اور اپنے باطل عقیدے اور بد اعمال کی بنا پر دوزخ میں جائے گاجبکہ اس حدیث میں سراسراس کے منافی بات بیان ہوئی ہے۔
اوپر ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ حدیثمیں بیان کردہ بات بالکل وہی ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے، یعنی آدمی اپنے صحیح عقیدے اور نیک اعمال ہی کی بنا پر جنت میں جائے گا اور اپنے باطل عقیدے اور بد اعمال ہی کی بنا پر وہ دوزخ میں جائے گا۔
اب ہم زیر بحث حدیث کو اس کے ان سب محذوفات و مقدرات کے ساتھ بیان کرتے ہیں،جنھیں ہم نے اس ساری بحث میں کھولا ہے،اس لیے کہ یہی خلاصۂ بحث ہے۔
’’ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس کا ٹھکانا ( اللہ کے علم کامل کی بنا پر) دوزخ یا جنت میں لکھ نہ دیا گیا ہو۔لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ، کیا ہم اپنے بارے میں خدا کے لکھے ہوئے پر بھروسا کر کے، عمل کی تگ و دو سے بے نیاز نہ ہو جائیں۔آپ نے فرمایا : عمل کرتے رہو ( خدا کا یہ لکھنا اس کی طرف سے کوئی جبر نہیں ہے کہ تمھارا عمل سے گریز کرنا درست فیصلہ قرار پائے)۔ (دیکھو،)ہر آدمی کو (جبکہ وہ اس دنیا میں خالص اپنی مرضی سے آزادی اختیار و ارادہ کو استعمال کرتے ہوئے کسی عمل کو اختیار کرنا چاہتا ہے تو) اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے ، جس کے لیے (خدا کے علم کامل کی بنا پر)اسے تخلیق کیا گیا ہے (ظاہر ہے، یہ وہی عمل ہوتا ہے جسے اس نے اپنے اختیار و ارادہ کو اپنی آزاد مرضی سے استعمال کرتے ہوئے اختیار کرنا تھا،) چنانچہ اہل سعادت (جنتیوں) کو اعمال سعادت ہی کی توفیق دی جاتی ہے (کیونکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے انھی اعمال کو اختیار کرتے ہیں)اور اہل شقاوت (دوزخیوں) کو اعمال شقاوت ہی کی توفیق دی جاتی ہے (کیونکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے انھی اعمال کو اختیار کرتے ہیں)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس بات پر قرآن سے دلیل لاتے ہوئے سورۂ لیل کی یہ آیت ) پڑھی: ’’سو جس نے انفاق کیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اچھے انجام کو سچ مانا تو اسے ہم راحت کی منزل (جنت)کا اہل بنائیں گے (اسی طرح کے لوگوں کا ٹھکانا اللہ نے اپنے علم کامل کی بنا پر جنت میں لکھا ہوا ہے،) اور جس نے بخل کیا اور بے پروا ہوا اور اچھے انجام کو جھٹلایا، اس کو ہم کٹھن منزل (دوزخ)کی طرف بڑھنے کے لیے ڈھیل دیں گے( اسی طرح کے لوگوں کا ٹھکانا اللہ نے اپنے علم کامل کی بنا پر دوزخ میں لکھا ہوا ہے)۔‘‘
یہاں مزید ایک بات کی وضاحت کر دینا موزوں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تخلیق کرنے کے بعد آزمایش کے اس عمل میں کیوں ڈالا ہے، اس سے خدا کے پیش نظر کیا ہے۔
سورۂ یونس کی آیت ۴میں اس بات کو اس طرح سے واضح کیا گیا ہے:
اِنَّہٗیَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗلِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ، وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ.
’’بے شک وہی خلق کا آغاز کرتا ہے، پھر وہی اِس کا اعادہ کرے گا، تا کہ جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک کام کیے اُن کو عدل کے ساتھ بدلہ دے اور جنھوں نے کفر کیا،اُن کے لیے اُن کے کفر کی پاداش میں کھولتا پانی اور درد ناک عذاب ہے۔‘‘
اس آیت میں یہ بات بہت واضح الفاظ میں بتا دی گئی ہے کہ اللہ نے انسانوں کی تخلیق اور اس کے بعد انھیں آزمایش سے گزارنے کا یہ سارا عمل کیا ہی اس لیے ہے کہ اہل ایمان کو نیک اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ یعنی خدا نے آزمایش کی یہ دنیا بنائی ہی اس لیے ہے تاکہ وہ اہل ایمان کو جنت میں لے جائے۔ یہ اس لیے نہیں بنائی گئی تاکہ کچھ لوگوں سے دوزخ کو آباد کیا جائے اور کچھ لوگوں سے جنت کو۔ البتہ چونکہ آزادی اختیار و ارادہ کے نتیجے میں کفر کرنے والے لوگ بھی ہوں گے، لہٰذاانھیں ان کی بد عملی کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ انھیں دوزخ میں بھیجنا خدا کے مقاصد میں سے کوئی مقصد نہیں تھا، بلکہ اہل کفر کی یہ سزا اہل ایمان کی جزا کے لوازم و توابع میں سے ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بے شک اسکول بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے کھولے جاتے ہیں۔ بچے ان میں تعلیم پاتے اور امتحان دیتے ہیں۔ نتیجۃً کچھ بچے کامیاب ہوتے اور کچھ ناکام ہوتے ہیں۔ اسکول کا وجود اور امتحانی نظام گو کچھ بچوں کی کامیابی اور کچھ کی ناکامی کا ذریعہ بنتا ہے ، لیکن کسی صورت میں بھی اسکول کا مقصد یہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس سے ہمارے پیش نظر قوم کے کچھ بچوں کو کامیاب بنانا اور کچھ کو ناکام بنانا ہے۔ اسکول کا مقصد ہمیشہ یہی بیان کیا جاتا ہے اور صحیح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ قوم کے افراد کو تربیت دینے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے تاکہ بچے اس میں تعلیم پائیں اور کامیاب ہوں۔
چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو آزمایش کی اس دنیا میں بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دے۔ اس لیے نہیں بھیجا گیاکہ اللہ کچھ لوگوں سے جنت کو آباد کرے اور کچھ لوگوں سے دوزخ کو۔ دوزخ کو آباد کرنا خدا کے پیش نظر مقاصد میں سے ہے ہی نہیں ۔ کفر کرنے والے تو محض اپنی بدعملی کی پاداش میں دوزخ میں جا گرتے ہیں۔
ہذا ما عندی و العلم عند اللّٰہ۔
[۲۰۰۰ء]
___________________