HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مسئلۂ خیر و شر (حصہ دوم)

ساتواں نقطۂ نظر: فطرت کا معیار

خیر و شر کے بارے میں ساتواں نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کا معیار انسان کے داخل میں موجود ہے۔ یعنی اخلاقی قوانین کا شعور انسان میں ازل سے ودیعت ہے۔ اس کی فطرت خیر کے سب امور کو بھی جانتی ہے اور شر کے سب کام بھی اس پر واضح ہیں، البتہ اس دنیا میں بعض اوقات اس پر ذہول طاری ہو جاتا ہے، لہٰذا اسے تذکیرکی ضرورت رہتی ہے۔

 

تجزیہ

اس نقطۂ نظر پر ان اعتراضات میں سے تو کوئی وارد نہیں ہوتا، جو اس سے پہلے بیان کردہ نقطہ ہاے نظر پر کیے گئے ہیں، کیونکہ اگر خیر و شر کا شعور ہر انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ فرد اور اجتماعیت اس معاملے میں مختلف نہیں ہو سکتے، دنیا کی کوئی قوم بھی اس کے بارے میں دوسری قوم سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ ایک انسان کے اخلاقی مفاد اور پوری نوع انسانی کے اخلاقی مفاد میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہو سکتا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نقطۂ نظر واقعی درست ہے ؟ اگر یہ درست ہے تو پھر اقوام ہی نہیں، افراد کے باہمی طور پر اس سے مختلف اور متضاد رویے اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا کوئی واضح اور تسلی بخش جواب ان لوگوں کی طرف سے نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان جذبات سے مغلوب ہو کر بدی کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن انسان جذبات سے مغلوب کیوں ہوتا ہے؟ اور پھر کیا پوری قوم اور پورا معاشرہ ہی جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے؟ کیا انسان اپنی فطرت ہی میں جذبات سے مغلوب ہونے والا ہے؟ اگر انسان اپنی فطرت ہی میں جذبات سے مغلوب ہونے والا ہے تو کیا انسان خیر کو صرف اسی وقت اپنا سکتا ہے جب وہ جذبات سے عاری ہو؟

ان فلاسفہ نے فرد کے شر کو اختیار کر لینے کی کچھ وضاحت تو ضرور کی ہے، لیکن بہت سے سوالات کا جواب باقی ہے۔ ان سوالات کو حل کیے بغیر، اس بات کو ماننا مشکل ہے، تاہم یہ بات ضرور ہے کہ ان فلاسفہ نے ایسا نقطۂ نظر پیش کیا ہے، جس پر اٹھنے والے تمام سوالات کا جواب اگر مل جائے تو یہ ایک بہترین نقطۂ نظر ہو گا۔

خیر و شر کے بارے میں جو کچھ اہل فلسفہ اور اہل مذہب کے ہاں سوچا گیا، اس کا مختصر بیان اور تجزیہ ہم نے پیش کر دیا ہے۔ اب، اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن مجید اس سلسلے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔

 

قرآن مجید کا نقطۂ نظر

 

الہام فطرت

خیر و شر کے بارے میں قرآن مجید بہت واضح اور صریح الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ اس کا پورا شعور انسان کی فطرت (Nature) میں الہام کیا گیا ہے۔ جن آیات میں یہ بات بیان ہوئی ہے، ان کا ترجمہ درج ذیل ہے:

’’اور نفس گواہی دیتا ہے اور جیسا اسے سنوارا۔ پھر اس (نفس) کی نیکی اور بدی اسے سجھا دی۔‘‘ (الشمس ۹۱: ۷۔۸)
’’ہم نے اسے (نیکی اور بدی کی) راہ سجھا دی۔ چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘ (الدہر ۷۶: ۳)
’’کیا ہم نے اس (انسان) کو دو آنکھیں نہیں دیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور اس کو (نیکی اور بدی کی)دونوں راہیں نہیں سجھا دیں؟‘‘ (البلد ۹۰: ۸۔۱۰) 
’’پس تم اپنا رخ یک سو ہو کر دین حنیفی کی طرف کرو۔ اس دین فطرت کی پیروی کرو جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘ (الروم۳۰: ۳۰)
’’بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے۔ اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔‘‘(القیامہ ۷۵: ۱۴۔۱۵) 

 

قرآن مجید کے ان مقامات سے، بہت واضح طور پر، پانچ باتیں معلوم ہوتی ہیں:

ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں نیکی اور بدی، یعنی خیر اور شر کا واضح شعور دے کر بھیجا ہے۔

دوسری یہ کہ اس نے انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا ہے۔

تیسری یہ کہ نیکی اور بدی کا یہ شعور فطرت انسانی ہی کا ایک حصہ ہے۔

چوتھی یہ کہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو بدلنا، خود انسان کے لیے جائز نہیں ہے۔

اور پانچویں یہ کہ انسان اپنی فطرت میں اور اپنے داخل میں پائے جانے والے حقائق کو خوب جانتا ہے۔

آپ غور کریں کہ ان آیات میں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھا اور برا بنایا ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس نے انسان کو نیکی اور بدی، دونوں کا شعور دے دیا ہے۔ اب وہ ان میں سے جسے چاہے اختیار کرے۔

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر و شر کا شعور انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔ اس کے نزدیک نہ یہ بات درست ہے کہ خیر و شر کوئی اضافی اقدار ہیں اور نہ وہ نیت و ارادہ، لذت و مسرت یا سود مندی وغیر ہ ہی کو ان کی بنیاد مانتا ہے۔ قرآن کے مطابق یہ وہ چیز ہے، جسے انسان سیکھ کر اس دنیا میں آیا ہے۔ انسان ان سب حقیقتوں کو خوب جانتا ہے، جو اس کے داخل میں پائی جاتی ہیں، خواہ زبان سے وہ ان کا انکار ہی کرے۔

قرآن مجید کی یہ بات، کیا ایک ناقابل انکار حقیقت نہیں ہے؟ آپ دیکھیے کہ انسان جب بدی کرتا ہے تو وہ اس لیے نہیں کرتا کہ یہ اس کی عقل کا تقاضا تھی اور کوئی استدلال اسے اس طرف لے گیا ہے یا یہ اس کی کوئی ذمہ داری تھی، جسے وہ اگر پورا نہ کرتا تو اپنے دل میں شرمندہ ہوتا۔ ہم جانتے ہیں کہ بدی کو اختیار کرنے کی وجوہ ایسی کبھی نہیں ہوتیں۔ وہ جب بھی کسی شر کو اپناتاہے تو اس کی وجہ کسی مرغوب شے کی طرف اس کی اندھی بہری لپک ہوتی ہے یا وہ کسی باطل استدلال کے نتیجے میں، کسی شر کو خیر گمان کرنے لگتا ہے اور اسے خیر سمجھ کر اپنا لیتا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ کسی شر پر کبھی کسی دلیل کی بنا پر آمادہ نہیں ہوا۔ انسان، خواہ کسی دور کا ہو اور خواہ کسی علاقے کا رہنے والا ہو، اس کے ہاں خیر و شر کا شعور ہمیشہ بہت واضح رہا ہے۔ اس دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسان نے کسی شر کو اپنے لیے پسند کیا ہو۔ ہر آدمی، خواہ وہ دوسرے کو فائدہ پہنچائے یا نقصان، یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی دوسرا اسے نقصان پہنچائے۔ کوئی چور کبھی اپنے گھر میں ایسا ملازم رکھنا پسند نہیں کرتا، جسے چوری کی عادت ہو۔ کوئی بے انصافی کرنے والا جب خود کبھی مظلوم کی جگہ پر آن کھڑا ہو تو قطعاً یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنا مقدمہ کسی بے انصاف قاضی کی عدالت میں لے جائے۔ کوئی خود غرض، جب اسے کسی سے غرض لاحق ہو تو کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی غرض پوری کرنے کے بجائے، خود غرضی کا مظاہرہ کیا جائے۔

آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے لیے، دوسروں سے ہمیشہ سچ، ہمدردی، انصاف، ایثار اور ایسے ہی دوسرے اخلاقی رویے چاہتا ہے؟ وہ خود دوسرے کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرے یا نہ کرے، لیکن اپنے لیے وہ ہمیشہ یہی پسند کرتا ہے۔ انسانوں کی دنیا میں اس کی خلاف ورزی کبھی نہیں کی گئی۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا کے افراد، ہر دور میں مل بیٹھ کر، یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں رویے کو ہمیشہ پسند اور فلاں فلاں کو نا پسند کریں گے اور وہ اس بات کا بھی پختہ عہد کر لیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی اس کی خلاف ورزی نہ کرے گا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ہر زمانے میں اور ہر علاقے میں، بنی نوع انسان کے اس متفق علیہ طرز عمل کی وجہ آخر کیا ہے؟

کچھ ذہین لوگوں نے اس کا یہ جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ دراصل، انسان کو اس کا ماحول کچھ متعین افکار و نظریات پر ڈھال دیتا، یعنی'Condition'کر دیتا ہے۔ انسان، جس سوچ اور جس فکر پر ڈھل جائے، اس میں وہ مجبور محض ہوتا ہے۔ وہ لازماً اسی کے مطابق عمل کرتا ہے، چونکہ انسان کو اس کے کئی ہزار سالہ سماج نے اخلاقیات کے معاملے میں بہت کچھ سکھا پڑھا رکھا ہے، لہٰذا ہم اس کے ہاں اخلاقیات میں اس طرح کا کامل اتفاق، بلکہ جمود پاتے ہیں، ورنہ یہ بات نہیں ہے کہ انسان پیدایشی طور پر کچھ متعین اقدار رکھتا ہے۔

اس نقطۂ نظر میں بھی ایک الجھن موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان، فی الواقع اپنے اندر کوئی متعین اقدار نہیں رکھتا اور اس کے پاس جو کچھ ہے، اس کے سماج کا سکھایا ہوا ہے تو پھر سماج میں وہ اقدار اور اصول کہاں سے آئے ہیں، جن کے مطابق وہ افراد کو ڈھالتا ہے؟ سماج خود بھی تو انسانوں ہی کے مجموعے کا نام ہے۔ اگر انسان کوئی فطرت (Nature)، ضمیر (Conscience) اور وجدان (Intuition) نہیں رکھتا تو پھر سماج جو اسی طرح کے بہت سے انسانوں کا مجموعہ ہے، اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ افراد کو کچھ خاص اصولوں اور کچھ خاص قواعد پر ڈھالے؟

قرآن مجید انسان میں اس اخلاقی یگانگی کی وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ سب انسان ایک فطرت پر بنائے گئے ہیں۔ یہ ہر انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اخلاقی رویوں کو اپنے لیے پسند کرے اور غیراخلاقی رویوں کو نا پسند کرے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو انسان کے دل میں بستی ہے۔ ہر انسان اس سے واقف ہے۔ ہر ایک کو اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ ان بدیہی باتوں میں سے ہے، جن کا اگر انکار کر دیا جائے تو یہ کائنات اندھیر ہو جاتی ہے۔ انسان کے پاس غور و فکر کی کوئی بنیاد ہی باقی نہیں رہتی۔ وہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ کوئی اظہار خیال بھی نہیں کر سکتا اور نہ کسی کے ساتھ وہ دو قدم چل ہی سکتا ہے۔

 

مخفی زاجر (انسانی ضمیر)

اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کے معاملے میں بات صرف یہاں تک ہی نہیں رکھی کہ اس کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے، بلکہ اس نے انسان کے اندر ایک مخفی زاجر بھی بٹھا رکھا ہے جو اسے خیر پر ابھارتا اور شر سے منع کرتا ہے۔ قرآن مجید اس زاجر کو نفس ملامت گر کہتا ہے۔ ارشادباری ہے:

’’نہیں، میں قسم کھاتا ہوں روز محشر کی، اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی۔ کیا انسان نے گمان کر رکھا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟ ہاں، ہم جمع کریں گے، اس طرح کہ ہم اس کے پور پور کو ٹھیک کر دیں گے، بلکہ انسان اپنے (ضمیر کے) آگے شرارت کرنا چاہتا ہے، پوچھتا ہے، قیامت کب ہو گی۔‘‘ (القیامہ ۷۵: ۲)

نفس ملامت گر ایک بہت بڑی حقیقت ہے، جس کے وجود سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ زاجر ہر انسان کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ دنیا کا ہر شخص اس سے واقف ہے۔ یہ انسان کے داخل کی وہ آواز ہے جو اسے برائی سے روکتی او رنیکی پر ابھارتی ہے، فساد سے منع کرتی اور اصلاح پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ مخفی زاجر، جسے دنیا انسانی ضمیر کے نام سے جانتی ہے، اس بات پر ایک دلیل مزید ہے کہ خیر وشر کا شعور انسان کی فطرت ہی میں پایا جاتا ہے۔ جہاں سے یہ زاجر آیا ہے، وہیں سے انسان نے خیر و شر کا شعور پایا ہے۔

بات یوں نہیں ہے کہ انسان کا داخلی وجود فطرت سے تو عاری ہے، لیکن ضمیر سے آراستہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر ضمیر انسان کو کس پیمانے اور کس اصول پر ملامت کرتا؟ کیا اس اصول پر کہ آدمی کا نفع کس چیز میں ہے اور نقصان کس چیز میں؟ اگر یہ بات ہوتی تو یہ تحصیل حاصل کہلاتی۔ انسان اپنے نفع و نقصان کے بارے میں ویسے ہی بہت حساس ہے۔ کیا ضمیر اس بات پر ملامت کرتا ہے کہ انسان ان باتوں کو ملحوظ کیوں نہیں رکھتا، جو معاشرے نے اسے سجھا رکھی ہیں؟ اگر یہ بات ہو تو یہ بھی درست نہیں، کیونکہ یہ معاشرے کا مسئلہ ہے، انسان کے داخل کا نہیں۔

اگر حقیقت سے انکار پیش نظر نہ ہو تو یہ سادہ سی بات مانی جا سکتی ہے کہ انسان ضمیر کے ساتھ خیر و شر کا شعور بھی لے کر پیدا ہوا ہے۔

 

دنیا کا اجتماعی ضمیر

کسی قوم کے رہنما، چاہے اپنی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر خیر کو شر او رشر کو خیر بتایا کریں یا عوام کو خطاب کرتے ہوئے یہ سمجھائیں کہ فلاں چیز حقیقت میں شر نہیں اور فلاں شر ہے، ان کے اور مخاطبین کے مابین یہ حقیقت، بہر صورت، طے پا جائے گی کہ انسان کی دنیا میں خیر و شر ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں، جسے بذات خود، ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ انسان ان سے خوب واقف ہے، بلکہ ان سے اس کی واقفیت کا یہ عالم ہے کہ بنی نوع انسان نے اجتماعی طور پر ان کے خلاف کبھی کسی چیز کو وقعت نہیں دی۔ گویا، پوری دنیا کا ضمیر بھی قرآن مجید ہی کی اس بات پر گواہ ہے کہ خیر و شر کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے، جس سے انکار کے لیے آدمی کا بصارت اور بصیرت، دونوں سے محروم ہونا ضروری ہے۔

دنیا کے وحشی قبائل کو دیکھیں یا متمدن اقوام کو، دور قدیم کی کسی سادہ معاشرت کا مطالعہ کریں یا دور جدید کی چمکتی دمکتی تہذیب پر نگاہ ڈالیں، انسانوں کی ایسی کوئی اجتماعیت دکھائی نہیں دیتی، جس میں عدالت، عدل و انصاف کے لیے نہیں، ظلم و جور کے لیے قائم کی گئی ہو، جس میں قانون ظالم پر نہیں، مظلوم پر سزا نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا ہو، جس میں قسم خود کو سچا نہیں، جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کھائی جاتی ہو، جس میں کوتوال رہزن کو پکڑنے کے لیے نہیں، اس کی مدد کے لیے رکھا گیا ہو، جس میں عہد و میثاق وفاداری کے لیے نہیں، بے وفائی کے لیے باندھا جاتا ہو۔ کیا ساری ہی دنیا کے لوگ، سب قبائل، سب معاشرے، سب قومیں، ان کی سب حکومتیں، ان کے سب نظام، ان کے سب قوانین، ان کے سب عہد، سب میثاق، ان کی تعلیم، ان کا علم، ہمیں یہی نہیں بتاتے کہ اس دنیا میں انسان نے ہمیشہ عدل، سچائی، وفا اور ایثار ہی کو پسند کیا ہے؟ وہ خاندان بناتا ہے تو انھی بنیادوں پر، معاشرت تعمیر کرتا ہے تو انھی بنیادوں پر اور حکومت قائم کرتا ہے تو انھی اصولوں پر۔ ان کے خلاف وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس بات پر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ انسان ان کے خلاف کیوں نہیں سوچ سکتا۔ آخر عرب کے بعض قبائل اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، سپارٹا والے کمزور بچوں کو قتل کر دیتے تھے۔ ہندو قوم میں بیوہ عورت کے لیے ستی (زندہ جل مرنے) کی رسم تھی۔ اگر اجتماعی ضمیر کوئی ایسی حقیقت ہے تو پھر اس دنیا میں مختلف اقوام میں اجتماعی سطح پر ایسا کیوں ہوا؟

ان اقوام کے حالات پر غور کیجیے تو یہ بات آسانی سے واضح ہو جاتی ہے کہ ان اقوام میں ان سب چیزوں کے رواج پا جانے کی وجہ کچھ بے بنیاد عقائد و نظریات اور انسان کا اپنے ہی بھائی بندوں پر ظلم و جبر تھا۔ اگر یہ سب چیزیں، فی الواقع، خیر ہوتیں اور انسان نے انھیں خیر جان کر اپنایا ہوتا تو پھر ہم یہ ہرگز نہ دیکھتے کہ ان سب چیزوں کے رواج پا جانے کی وجوہ سراسر خارجی ہیں۔ عربوں کے ہاں بیٹیوں کے زندہ دفن کرنے کے رواج ہی کو دیکھیے۔ ان کے ہاں اس کی دو بنیادی وجوہ تھیں: ایک یہ کہ عرب معاشرے میں آئے دن غارت گری کے واقعات ہوتے رہتے تھے۔ اس غارت گری میں حملہ آور مال مویشی تو لوٹتے ہی تھے، لیکن ان کی دل چسپی کی اصل چیز قبیلے کی نوخیز لڑکیاں ہوتیں، جنھیں وہ نہ صرف رسوا کرتے، بلکہ قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے جاتے اور لونڈیوں کے طور پر فروخت کر دیتے۔ یہ چیز ظاہر ہے کہ کسی قبیلے کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بعض عربوں میں یہ معاشرتی قباحت پیدا ہو گئی تھی کہ وہ کسی کو اپنا داماد بنانے میں بہت عار محسوس کرتے تھے۔ انھیں کسی صورت میں بھی یہ گوارا نہ ہوتا کہ کوئی شخص ان کا داماد کہلائے۔ چنانچہ، کچھ عرب قبائل میں غارت گری کا وہ خوف اور کسی کو داماد بنانے میں یہ عار، دونوں اس حد تک بڑھ گئے کہ انھیں بیٹیوں کے وجود ہی سے نفرت ہو گئی۔ چنانچہ، بعض شقی القلب بیٹی کے پیدا ہوتے ہی، اسے مارنے کے لیے زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔

اسی طرح سپارٹا والوں کو دیکھیے۔ یہ ایک جنگ جو قوم تھی۔ اس کے جنگی جنون نے یہ نظریہ عام کر دیا کہ قوم کے سب افراد کا صحت مند اور طاقت ور ہونا ضروری ہے، کیونکہ برتری اور عزت ہمیشہ قوت اور طاقت ہی کا مقدر ہوتی ہے۔ کسی قوم میں کمزور اور اپاہج افراد کا موجود ہونا، دشمن کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوتا اور اس کے حملہ آور ہونے کا ذریعہ بنتا ہے۔ چنانچہ، ان کے ایک برتر جنگ جو قوم بننے کے جنون نے انھیں یہاں تک پہنچا دیا کہ وہ کمزور اور اپاہج بچوں کو مار ڈالیں۔

ہندووں کے ہاں ستی کی رسم پائی جاتی تھی۔ یہ بھی، دراصل عورت پر ہونے والا ایک معاشرتی جبر تھا۔ جو ان کے بعض غلط نظریات و عقائد کی بنا پر ان کے ہاں پیدا ہو گیا تھا۔ ہندووں میں عورت کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ وہ بس مرد کی خدمت ہی کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ ایک دفعہ وہ جس مرد سے وابستہ ہو جاتی ہے، اس کے ساتھ محبت اور وفا کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو کسی اور مرد کے حوالے نہ کرے اور باقی ساری زندگی تنہا گزارے۔ مرد کے ساتھ اس کی وفاداری کا بلند ترین مقام یہ تھا کہ اس کے مرنے کے بعد، وہ بھی اس کی لاش کے ساتھ جل مرے۔ اپنے فلسفے کے اعتبار سے تو یہ گمراہی ، بس ترغیب ہی کے انداز میں تھی، لیکن پھر آہستہ آہستہ، مرنے والے شخص کے رشتہ داروں نے خصوصاً اور باقی معاشرے کے لوگوں نے عموماً بیوہ عورت کو ایسی نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا کہ اسے اپنی وفاداری ثابت کرنے اور معاشرے کی ان قہر آلود نگاہوں سے بچنے کی بس یہی ایک صورت نظر آئی کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ہی جل مرے۔

چنانچہ، اگر بیٹیوں کو غارت گری کا خوف دفن نہ کرتا، کمزور بچوں کو ایک برتر جنگ جو قوم بننے کا جنون قتل نہ کرتا اور بیوہ عورت کو مرد کا معاشرتی جبر ستی نہ کرتا تو انسان کی تاریخ ان بھیانک رسوم و رواج سے یکسر خالی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی غارت گری کا خوف دور ہوا، عقائد و نظریات کی اصلاح ہوئی اور معاشرتی جبر کی قوت کمزور پڑی تو بیٹی نے زندہ دفن ہونے سے، کمزور بچے نے قتل ہونے سے اور بیوہ نے ستی ہونے سے انکار کر دیا اور یہ سب معاشرے بھی انسانی فطرت پر آ گئے۔

 

شر کے خالق کا مسئلہ

انسانی اعمال کے بارے میں یہ بات تو واضح ہے کہ وہ اچھے ہوں یا برے ، ان کی ذمہ داری خود انسان ہی پر آتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اعمال شر کا خالق، یعنی ان کا اصل منبع کون ہے؟ کیا ان کا منبع پروردگار عالم ہی کی ذات اقدس ہے؟ کیا خود اللہ تعالیٰ انسان کی دنیا میں شر تخلیق کرتا ہے؟ یا اس نے انسان میں شر کا وہ مادہ پیدا کر رکھا ہے، جس سے ہمیشہ شر ہی جنم لیتا ہے؟ یا حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے؟

قرآن مجید نے یہ بات بھی اچھی طرح واضح کر دی ہے کہ خدا خالق شر نہیں، نہ براہ راست اور نہ بالواسطہ، بلکہ یہ بات تو اس کی شان ہی کے خلاف ہے کہ وہ خالق شر ہو۔

قرآن مجید نے خدا کا تعارف ہی یہ کرایا ہے کہ وہ صرف اچھی صفات کا حامل ہے، اس میں کوئی بری صفت نہیں پائی جاتی اور وہ لوگوں کو بھی اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ خیر ہی کے داعی بنیں۔ سورۂ اعراف میں فرمایا:

’’اللہ کے لیے تو صرف اچھی ہی صفتیں ہیں تو انھی سے اس کو پکارو۔‘‘ (۷: ۱۸۰)

اور سورۂ آل عمران میں فرمایا:

’’اور چاہیے کہ تم میں ایک ایسا گروہ ہو جو خیر (نیکی) کی طرف بلائے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (۳: ۱۰۴)

ان آیات میں قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سب صفات اچھی ہیں۔ اس سے صرف اچھائی او رخیر ہی کا صدور ہوتا ہے۔ چنانچہ، اس کے ساتھ کسی شر کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس سے بہت بلند و برتر ہے کہ وہ انسانوں میں، براہ راست یا بالواسطہ، شر تخلیق کرے۔ اس کے اپنے سب کام بھی خیر کے کام ہیں اور وہ انسانوں کو بھی خیر ہی کے کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ خدا کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے انسان میں شر یا مادۂ شر تخلیق کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اس اعلیٰ صفتوں والے پروردگار کے شایان شان ہی نہیں۔

لیکن اس بات کو مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اگر خدا خالق شر نہیں ہے اور اس نے انسان میں شر کا مادہ بھی پیدا نہیں کیا تو پھر اس دنیا میں شر کیسے وجود میں آتا ہے؟ قرآن مجید نے اس عقدے کو بھی وا کیا ہے۔

 

وجود شر کے اسباب

اس دنیا میں شر کے وجود میں آنے کے اسباب کیا ہیں، یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسان کے بارے میں خدا کی اس اسکیم کا مطالعہ کریں، جس کی بنا پر اس نے انسان کو کچھ صلاحیتیں دیں اور ایک خاص مقصد کے تحت اس دنیا میں بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں، ان کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں ہوا ہے:

’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (ایک صاحب اقتدار مخلوق) بنانے والا ہوں، انھوں نے کہا: تو زمین میں ایسی مخلوق بنائے گا جو اس میں (ارادہ و اختیار کی آزادی رکھنے کی وجہ سے) فساد مچائے اور خوں ریزی کرے اور ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں۔ اس نے کہا: میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۳۰)

یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ اور اختیار کی آزادی دی اور اس آزادی کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے اسے جذبات و خواہشات کی ایک دنیا بھی عطا کی۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:

’’لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبا دی گئیں۔ یہ دنیوی زندگی کے سروسامان ہیں۔‘‘(آل عمران ۳: ۱۴) 

اسی بات کو ایک دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا:

’’واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی (انسان کو لبھانے والی) زینت بنایا ہے۔‘‘ (الکہف ۱۸: ۷)

جس خاص مقصد کے تحت انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا، اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’بڑی ہی عظیم اور بافیض ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں اس کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تاکہ تمھارا امتحان کرے کہ تم میں سے کون سب سے اچھے عمل والا بنتا ہے، اور وہ غالب بھی ہے او رمغفرت فرمانے والا بھی۔‘‘ (الملک ۶۷: ۱۔۲)

یعنی یہ بتا دیا کہ اس دنیا میں انسانوں کی موت و حیات کا سلسلہ اس لیے جاری کیا گیا ہے، تاکہ انھیں جانچا جائے کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرنے والا بنتا ہے اور کون برے عمل کرتا ہے، پھر آزمایش کے اس گھر کے بارے میں بھی جس میں انسان کو پیدا کیا گیا ہے، یہ حقیقت واضح فرما دی کہ اس میں موجود ساز و سامان، درحقیقت، ایک متاع قلیل ہے۔ ارشاد باری ہے:

’’کہہ دو، اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے۔‘‘ (النساء ۴: ۷۷)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار سے نوازا، متاع قلیل کی اس دنیا میں خیر و شر کی آزمایش میں ڈالا اور پھر اس میں کامیاب ٹھہرنے والوں کے لیے اچھا انجام اور ناکام ہونے والوں کے لیے برا انجام مقدر کیا۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بیان ہوئی ہے۔ ان میں سے دو مقامات درج ذیل ہیں:

’’ہم نے اس کو (نیکی اور بدی کی) راہ سجھا دی ہے، وہ چاہے شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ ہم نے کفر کرنے والوں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ہاں، وفادار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے، جس میں چشمۂ کافور کی آمیزش ہو گی۔‘‘ (الدہر ۷۶: ۳۔ ۵)
’’اور کہہ دو یہی حق ہے تمھارے رب کی جانب سے تو جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی دیواریں ان کو اپنے گھیرے میں لے لیں گی۔‘‘ (الکہف ۱۸: ۲۹۔۳۰)

 

ان سب آیات سے انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی وہ اسکیم سامنے آ جاتی ہے، جس کی بنا پر وہ خیر و شر کی اس آزمایش میں ڈالا گیا ہے۔ اس آزمایش کے لیے بنیادی چیز جو انسان کو دی گئی ہے وہ ارادہ و اختیار کی آزادی ہے۔ اس آزادی کے بعدانسان پوری طرح با اختیار ہے کہ وہ اپنی عقل کی روشنی میں چلے یا اس سے رو گردانی کرے۔ ہزاروں پردوں میں چھپے ہوئے حق کو اپنی بصیرت سے پہچان لے یا آنکھوں کے سامنے موجود حق کا پوری ڈھٹائی سے انکار کر دے۔ مہربان پروردگار کے احکام بجا لائے یا اس کی نافرمانی کو اپنا شیوہ بنا لے۔ خدا نے انسان کے لیے یہ بالکل ممکن بنا دیا کہ وہ چاہے تو اپنی فطرت ہی سے انکار کر دے، اور حق، عدل، ایثار، وفا، محبت اور ہمدردی جیسے اعلیٰ اصولوں اور اعلیٰ اقدار کو ناگوار قرار دے دے، جس کائنات کے اندر وہ کھاتا پیتا اور جیتا بستا ہے، چاہے تو اس کو وہم و خیال قرار دے اور اپنی سب ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جائے۔ بہر حال، اچھی یا بری، جو راہ بھی وہ اختیار کرے گا، اس کا انجام اسی کے مطابق ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، اسے ایک صالح فطرت سے نوازا، اس میں بے شمار خواہشات پیدا کردیں، دنیا کو اس کی مرغوبات سے بھر دیا، پھر اس سب کے ساتھ دنیا کو محدود بنایا۔ نتیجۃً، اس ساری صورت حال سے، انسان ایک بہت بڑی آزمایش میں پڑ گیا۔ اس دنیا میں کوئی شخص بھی اپنی تمام خواہشات کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ وہ اگر اپنی فطرت پر قائم رہتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو محدود کرے اور جذبات کو لگام دے۔ اگر وہ اپنے جذبات او رخواہشات کو بے لگام چھوڑتا ہے تو پھر وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی عقل و فطرت کو کچلتا ہے۔

بہرحال، انسان نے اس دنیا میں اس آزادی کو استعمال کیا اور خوب کیا۔ کبھی فطرت کے مطابق اور کبھی اس کے خلاف، کبھی عقل و دانش کی راہ میں اور کبھی اس سے ہٹ کر، کبھی پروردگار عالم کی اطاعت میں اور کبھی اس کی نافرمانی میں۔ پس جب جب انسان نے عقل و فطرت کے مطابق اپنے اختیار کو استعمال کیا، خیر وجود میں آیا اور جب جب وہ اس راہ سے ہٹا اور اپنے اختیار کو عقل و فطرت کے خلاف استعمال کیا، شر وجود میں آیا۔

اس ساری بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی دنیا میں شر صرف اس کے ارادہ و اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔

 

تصورات خیر و شر کی آفاقیت

 

اس کے بعد آخری بات یہ رہ جاتی ہے کہ اگر خیر و شر کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت ہے، تو پھر اس کے بارے میں اقوام و ملل میں اختلاف کیوں ہے؟

یہ بات، دراصل، صحیح نہیں کہ مختلف قومیں اور ملتیں خیر و شر کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ البتہ، یہ بات ضرور ہے کہ ان میں مذاہب کا اختلاف ہے، عقائد و نظریات کا اختلاف ہے، تہذیب و تمدن کا اختلاف ہے، رسوم و رواج کا اختلاف ہے، داخلی اور خارجی حالات کا اختلاف ہے، اور اس کی بنا پر بعض خطوں میں کچھ ایسے امور رواج پا گئے، جن کے حق میں نہ عقل انسانی کے پاس کوئی استدلال تھا اور نہ دنیا نے کبھی ان کو خیر کی نظر سے دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غلط رسوم و رواج بالآخر ان قوموں میں بھی مفقود ہو گئے ۔ دنیا کے اجتماعی ضمیر نے ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا کہ یہ امور کسی درجے میں بھی خیر نہیں ہیں۔ کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی اقوام و ملل میں خیر و شر کے تصورات کے بارے میں کوئی عقلی اور علمی سطح پر اختلاف رہا ہے؟ کیا دنیا کی یہ صورت حال رہی ہے کہ مشرق کے طبیب کے لیے جو اخلاقیات مانی گئیں؟ مغرب نے ان سے انکار کر دیا؟ کیا زخمی اور بیمار سے مغرب نے جس حسن سلوک کو خیر قرار دیا، مشرق نے اسے شر سمجھا ہے؟ کیا ایفاے عہد کے بارے میں دنیا مختلف الخیال رہی ہے؟ کیا دنیا نے کبھی عدل پر کسی اور چیز کو بھی ترجیح دی ہے؟ کیا مشرق و مغرب میں کبھی سچائی سے بھی بڑی کوئی قدر مانی گئی ہے؟کیا اقوام و ملل ایثار اور ہمدردی، وفا اور محبت کے بارے میں، اپنے اصول ہی میں، ایک دوسرے سے مختلف رہی ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ مشرق و مغرب کی اقوام و ملل میں خیر و شر کے بارے میں کبھی اختلاف نہیں رہا، البتہ اس دنیا میں کچھ ایسے فلسفی ضرور ہوئے ہیں، جو ان کے بارے میں مختلف فیہ رہے ہیں۔ ان فلسفیوں کو دیکھیے، ان کا معاملہ بھی بہت عجیب اور دل چسپ ہے۔ انھوں نے جب ثابت شدہ حقائق کو ثابت کرنا چاہا، حاصل شدہ نتائج کو حاصل کرنا چاہا، بدیہات کی اساس، انسانی وجدان میں نہیں، خارج میں تلاش کرنا چاہی، موجود کو معدوم کہنا چاہا، معدوم کو موجود جاننا چاہا، عقل کو خیال اور احساس کے تابع کرنا چاہا، فطرت کی آواز سے بھاگنا اور خدا کی بات سے گریز کرنا چاہا تو انھوں نے بہت کچھ کہا اور ایک دوسرے سے بہت مختلف کہا۔ اس دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیا میں خیر و شر کے بارے میں کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔ دنیا کے بعض خطوں میں، ان کے اندرونی حالات کی بنا پر کچھ چیزیں اگر وقتی طور پر رواج پا بھی گئی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں میں وہ چیزیں، فی نفسہٖ، خیر جانی بھی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان خطوں سے جونہی سماج کا خوف، حالات کا جبر اور عقائد کی گمراہی ختم ہوئی تو وہاں بھی انسانی معاشرہ فوراً اپنی فطرت پر واپس آ گیا۔ پروردگار نے خیر و شر کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کیا، اس پر نفس ملامت گر کا پہرا بٹھایا، بنی نوع انسان کو اس اجتماعی ضمیر سے نوازا، جو خیر و شر کے فطری شعور سے انسان کو غافل نہ ہونے دے۔ پھر اس سب کے باوجود، اگر کوئی معاشرہ اخلاقی خرابی کی اس آخری حد سے بھی گزر گیا، جس کے بعد اس کی اصلاح ممکن نہ رہی تو فاطر فطرت کا ہاتھ غیب سے نمودار ہوا اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا تاکہ انسان اس معاشرے کو مثال بنا کر خیر و شر کے بارے میں کسی گمراہی کا شکار نہ ہو۔ اگر خیر و شر انسان کی فطرت میں ودیعت نہ ہوتے تو ہم بنی نوع انسان کو اس معاملے میں مختلف حصوں میں بٹا ہوا دیکھتے اور پھر ایسا ہوتا کہ ایک قوم دوسرے پر حملہ کرتی، اس کے مال و متاع لوٹتی، اس کے افراد کو قیدی بناتی اور اگر اس پر کوئی احتجاج سامنے آتا تو صاف یہ جواب دیتی کہ دوسروں کولوٹنا اور انھیں قیدی بنانا، ہمارے نزدیک خیر اور بھلائی ہے۔ ہم سے شکایت کیسی؟ آخر جب درندے چیرتے پھاڑتے ہیں تو کیا ان پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ کیوں چیرتے پھاڑتے ہیں؟

 

خلاصہ

 

خیر و شر کے معاملے میں انسان کبھی کسی ابہام کا شکار نہیں رہا۔ فاطر فطرت نے اس کا شعور اس کی فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ اس شعور سے عامی بھی واقف ہے اور عارف بھی۔ مشرق کا رہنے والا بھی اسے جانتا ہے اور مغرب کا رہنے والا بھی۔ دور قدیم کا شخص بھی اس سے آشنا ہے اور دور جدید کا فرد بھی اس سے پوری طرح مانوس ہے۔ انسان ، فطرتاً نیکی اور خیر ہی کو پسند کرتاہے۔ شر اس دنیا میں اپنا کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا۔ یہاں انسان کو ارادہ و اختیار کی جو آزادی دی گئی ہے، شر اس کے سوء استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔

خیر و شر کے بارے میں، دنیا کبھی مختلف فیہ نہیں رہی، بلکہ یہ وہ واحد اساس ہے، جس پر کھڑے ہو کر مشرق اور مغرب کی اقوام، مختلف رنگ و نسل کے لوگ اور مختلف دین و مذہب کی ملتیں، آج بھی اور ماضی میں بھی، باہم معاملہ کرتی،معیشت و معاشرت میں ایک دوسرے سے مدد لیتی اور آفات و امن میں ایک دوسرے کا سہارا بنتی رہی ہیں۔

[۱۹۹۶ء]

___________________

 

B