HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مسئلۂ خیر و شر (حصہ اول)

 

[یہ مضمون مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کے ’’مسئلۂ خیر و شر‘‘ پر لیکچر کی تسہیل ہے۔]

 

فلسفہ و حکمت کے وہ مباحث جو انسان کے ہاں بہت غور و فکر کا موضوع رہے ہیں، ان میں سے ایک خیر و شر کا مسئلہ بھی ہے۔ اس پر ہر زمانے کے اہل فلسفہ نے رائے زنی کی اور اہل مذہب نے بھی ہر دور میں اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن غور و فکر کی اس راہ میں بھی عقل و خرد کی نارسائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اہل فلسفہ کے ہاں تو ہنوز خیر و شر کے تعین کا بنیادی سوال ہی حل طلب ہے اور اہل مذہب نے اس کا حل اگر کوئی پیش بھی کیا ہے تو اسے کوئی انسان عقل و فطرت کی سلامتی کے ساتھ قبول نہیں کر سکتا۔

پروردگار عالم نے انسان کو اس دنیا میں فکر و عمل کی جس آزمایش میں ڈالا ہے۔ اس میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انسان بس اندھیروں میں ٹھوکریں ہی کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو اور گم کردہ راہ ہونا اس کا مقدر بن گیا ہو، بلکہ آزمایش کے اس دور میں، وحی آسمانی ہمیشہ سے انسان کے لیے ہدایت کا وہ منارہ رہی ہے، جس کا طالب اپنے پہلے ہی قدم کو راہ ہدایت پر پاتا ہے۔ البتہ، یہ انسان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے یا نہیں۔ یہ آسمانی وحی اب انسان کے پاس جس واحد شکل میں محفوظ ہے، وہ قرآن مجید ہے۔ اس میں خدا نے جہاں اور بہت سے بنیادی معاملات میں انسان کی رہنمائی کی ہے،وہاں خیر و شر کے اس مسئلے میں بھی حق بات کو واضح کیا اور ان سب سوالوں کا جواب دیا ہے، جنھیں صدیوں کی کوشش کے باوجود انسان اپنی عقل سے حل نہیں کر سکا۔

اس تحریر میں ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ ہم خیر وشر کے بارے میں پیدا ہونے والے بنیادی سوالات کو جانیں، انھیں حل کرنے کے لیے انسان نے جو کاوش کی ہے، اس کا مطالعہ کریں اور اسے پرکھیں اور پھر قرآن مجید نے ان کا جو حل پیش کیا ہے، اسے دیکھیں اور سمجھیں۔ وما توفیقنا الا باللّٰہ۔

 

خیر وشر سے مراد

خیر و شر کی فلسفیانہ اصطلاح میں خیر سے مراد نیکی اور شر سے مراد بدی ہے۔ چنانچہ، کسی چیز کو انسان کا نیکی اور اچھائی قرار دینا، اسے معاشرے میں خیر بناتا اور کسی چیز کو اس کا بدی اور برائی قرار دینا، اسے معاشرے میں شر ٹھہراتا ہے۔

 

خیر و شر کے بار ے میں بنیادی سوالات

خیر و شر کے بارے میں وہ سوالات جو اہل فلسفہ اور اہل مذہب کے ہاں زیر بحث رہے ہیں، درج ذیل ہیں:

۱۔ کیا خیر اور شر دو الگ الگ، مستقل اور ممتاز چیزیں ہیں یاان کا وجود، محض اضافی اور نسبتی ہے؟

۲۔ یہ کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟

۳۔ کیا خیر اور شر کا تصور آسمانی صحیفوں کا پیدا کردہ ہے؟

۴۔ کیا خیر وشر کا تصور انسان کی فطرت میں لکھا ہوا ہے؟

۵۔ اگر خیر اور شر، دونوں الگ الگ وجود رکھتے ہیں تو ایک ہی ذات ان دونوں کی خالق ہے یا ان کے دو الگ الگ خالق ہیں؟

۶۔ اگر خیر و شر کا تصور انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے تو اس کے بارے میں مختلف لوگوں، قوموں اور ملتوں کے درمیان اختلاف کیوں ہے؟

 

مختلف نقطہ ہاے نظر 

ان سوالات پر ہر زمانے کے دانش وروں، حکما اور اہل مذہب نے غور کیا اور اپنی اپنی آرا پیش کی ہیں۔ ان سب آرا کو اکٹھا کیا جائے تو سات مختلف نقطہ ہاے نظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ذیل میں ان کے بارے میں مفصل بحث کریں گے۔

 

پہلا نقطۂ نظر: اضافی اقدار

خیر و شر کے بارے میں پہلا نقطۂ نظر اضافی اقدار کا نقطۂ نظر ہے۔ اس نقطۂ نظر کے قائلین کا کہنا ہے کہ خیر و شر کوئی مطلق اقدار نہیں، بلکہ یہ نسبتی اور اضافی اقدار ہیں۔ ایک ہی عمل ایک نوعیت کے حالات میں شرہوتا ہے اور دوسرے حالات میں وہی خیر ہوتا ہے۔ اس بات کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ خیر و شر کی مثال ایک نغمے کے زیر و بم کی سی ہے۔ جس طرح ایک نغمے میں کچھ اونچے اور کچھ نیچے سر ہوتے ہیں، اسی طرح اس دنیا میں خیر و شر اپنا وجود رکھتے ہیں۔ نغمے کے یہ سر اگر الگ الگ کر کے سنے جائیں تو کوئی خوش گوار تاثر دینے کے بجائے، محض سمع خراشی کا سبب بنتے ہیں، حالانکہ انھی سروں میں جب ایک مناسب امتزاج پیدا کر دیاجاتا ہے تو یہ ایک دل آویز نغمہ بن جاتے ہیں۔ اپنے نقطۂ نظر کو مزید واضح کرنے کے لیے وہ برف کے ٹھوس اور سخت ہونے کی اور پانی کے سیال اور نرم ہونے کی مثال بھی دیتے ہیں۔ برف ٹھوس اور سخت چیز ہے، اسے جب گرمی پہنچتی ہے تو یہ پگھل کر پانی بن جاتی ہے، جو سیال اور نرم ہوتا ہے۔ اس مثال سے وہ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح ایک ہی شے، اپنی دو مختلف حالتوں میں متضاد صفات کی حامل ہوتی ہے، اسی طرح افعال و اعمال بھی ایک نوعیت کے حالات میں خیر اور دوسری نوعیت کے حالات میں شر ہوتے ہیں۔ چنانچہ، ایک موقع پر جھوٹ نیکی اور دوسرے موقع پر برائی ہوتا ہے۔ مثلاً، اگر کوئی اوباش کسی شریف آدمی کے قتل کے درپے ہو تو اس موقع پر وہ جھوٹ جو اس شریف آدمی کی جان بچا لے، وہ خیر ہو گا۔ اور وہ سچ جو اس کی جان لینے کا باعث بنے، وہ شر ہو گا۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اگر خیر و شر کوئی مطلق اقدار ہوتیں تو پھر ایک خیر (سچ) ہر حال میں خیر ہوتا اور ایک شر (جھوٹ) ہر حال میں شر ہوتا، جبکہ مذکورہ مثال سے یہ واضح ہے کہ سچ اس طرح کے حالات میں خیر نہیں ہوتا اور جھوٹ شر نہیں ہوتا۔

اپنے اسی نقطۂ نظر کے بعض پہلو مزید واضح کرنے کے لیے وہ ایک ایسی تصویر کی مثال بھی دیتے ہیں، جو سیاہ او رسفید رنگ سے بنی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ایک خوب صورت تصویر میں سیاہ او رسفید، دونوں رنگ ہوتے ہیں، اسی طرح اس دنیا میں خیر اور شر، دونوں کا وجود ہے۔ اگر ہم سفیدی کو سیاہی سے الگ کر کے دیکھیں تو شاید ایک کواچھا اور دوسرے کو برا کہا جا سکتا ہے، لیکن تصویر کی مجموعی رنگینی اور حسن کے لیے سفید اور سیاہ، دونوں رنگوں کی ضرورت ہے۔ ان دونوں کے حسین امتزاج ہی سے تصویر اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ اسی طرح خیر و شر کا وہ امتزاج، جس کا مشاہدہ ہم اس دنیا میں کرتے ہیں، وہی اس دنیا کی رنگینی کا اصل باعث ہے۔ ان مثالوں سے وہ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ متضاد صفات والی اشیا کی طرح، وہ افعال و اعمال بھی جو ایک دوسرے سے متضاد نظر آتے ہیں، نہ صرف ایک دوسرے سے جنم لیتے، بلکہ بسا اوقات، وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ لہٰذا، یہ نقطۂ نظر بالکل درست ہے کہ خیر و شر اضافی اقدار ہیں۔

اس نقطۂ نظر کے بعض علم بردار یہ بھی کہتے ہیں کہ آدمی کی کیفیات کسی چیز کو اچھا اور کسی کو برا بنا دیتی ہیں۔ انسان خوش ہو تو اسے ایک موسیقی بھلی معلوم ہوتی ہے او رناخوش ہو تو وہی موسیقی اسے ناگوار محسوس ہوتی ہے۔

اس نقطۂ نظر کے قائلین کا کہنا ہے کہ خیر و شر اس دنیا کے حسن، اس کی رنگینی اور بو قلمونی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایک عمل کسی خاص فرد کے حوالے سے تو ہو سکتا ہے کہ شر ہو، لیکن وہی عمل ایک دوسرے فرد کے حوالے سے یا خصوصاً، اس کائنات کے مجموعی حسن کے حوالے سے، ایک ناگزیر اچھائی اور خیر ہوتا ہے۔ لہٰذا، ہر شر ایک خاص نوعیت کی اچھائی ہے۔ ہم چونکہ خیر و شر کو الگ الگ کر کے دیکھتے ہیں، اس لیے ہم ا ن کی اصل حقیقت اور حکمت کو نہیں سمجھ پاتے اور یہ اضافی اور نسبتی اقدار، ہمیں مستقل اور مطلق اقدار محسوس ہونے لگتی ہیں۔

 

تجزیہ

اس نقطۂ نظر کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے سب حاملین کے ہاں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے اخلاقیات کو اشیا پر قیاس کیا ہے، حالانکہ اشیا کا معاملہ اخلاقیات سے یکسر مختلف ہے۔ بے شک اشیا بھی ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا یہ تضاد اور اختلاف انھیں اچھی اور بری اشیا میں تقسیم نہیں کرتا، کیونکہ اشیا جس دائرے کی چیز ہیں، ان کے بارے میں بس یہی بحث کی جاتی ہے کہ وہ فلاں جگہ یا فلاں موقع پر کارآمد ہیں یا نہیں۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اس کائنات کی اشیا میں سے کوئی چیز بھی، اصلاً بے کار اور بے فائدہ نہیں ہے۔بس فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز، ایک جگہ کارآمد ہوتی ہے اور دوسری جگہ بے کار۔ چنانچہ، جب ہم کسی چیز کو پسند کرتے ہیں تو ہم دراصل یہ کہتے ہیں کہ وہ شے فلاں صورت حال میں موزوں اور سود مند ہے، یعنی وہاں وہ مطلوبہ نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ اور جب ہم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہیں تو یہ ایک خاص موقع کے اعتبار سے، اس کے ناموزوں اور بے سود ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔

اس کے برعکس، اخلاقیات کو کسی خارجی معیار پر جانچا ہی نہیں جا سکتا۔ انسان انھیں براہ راست پہچانتا ہے۔ سچ اور جھوٹ، انصاف اور بے انصافی، شفقت اور بے مہری، وفا اور بے وفائی، ایثار اور خود غرضی، یہ سب وہ چیزیں ہیں، جنھیں انسان خوب جانتا ہے۔ کوئی عامی ہو یا عارف، جاہل ہو یا عالم، ان سب رویوں سے ہر شخص واقف ہے۔ وہ خواہ کسی علاقے کا رہنے والا ہو، اور خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو، جب اس سے سچ بولا جائے، اس کے ساتھ انصاف اور مہربانی کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ کسی تعجب، کسی غصے اور کسی رنج کا اظہار نہیں کرتا، بلکہ اطمینان اور فرحت محسوس کرتا ہے، لہٰذا وہ اسی احساس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی انسان اپنے ساتھ یہ رویہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ خود غرضی برتی جائے، اس کے معاملے میں نا انصافی کی جائے یا اس کے ساتھ بے وفائی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ انسان طبعی طور پر اس طرح کا واقع ہوا ہے کہ وہ اپنے ساتھ یہ رویے پسند ہی نہیں کرسکتا۔ فرد سے آگے بڑھ کر معاشرے کو دیکھیے تو وہ بھی انھی اخلاقی بنیادوں پر قائم ہے۔ چنانچہ، ہر معاشرے میں موجود قانون، عدالتیں اور نظام حکومت اسی چیز کی گواہی دیتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا معاشرہ موجود نہیں نہ آج اور نہ ماضی میں کبھی اس سے پہلے جس نے سچائی، عدل اور امن کو ناگوار جانا ہو اور نتیجۃً قانون، عدالت اور حکومت کو بے کار شے قرار دیتے ہوئے، انسان کو زندگی کی اس سے بہتر کوئی راہ دکھائی ہو۔

اس کے برعکس، آپ اشیا کو دیکھیے، ان کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ انسان جب ان میں اپنا فائدہ دیکھتا یا انھیں اپنی تسکین کا ذریعہ جانتا ہے تو انھیں اختیار کر لیتا ہے اور جب ان میں اپنا نقصان دیکھتا ہے تو انھیں چھوڑ دیتا ہے۔

چنانچہ، اشیا کے بارے میں یہ بات اچھی طرح سے جان لینی چاہیے کہ وہ اپنی نوع اور اپنی کنہ یعنی حقیقت ہی میں اخلاقیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ لہٰذا، اشیا سے اخلاقیات پر اس طرح کا استدلال کرنا، کسی صورت میں بھی درست نہیں۔

اب، آئیے اوباش اور شریف آدمی کی اس مثال کی طرف،جس سے جھوٹ کو ایک اچھائی اور خیر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ، دراصل، ایک استثنائی صورت حال کی مثال ہے۔ اس میں انسان سے بیک وقت دو ایسے اخلاقی رویوں کا تقاضا کیا گیا ہے، جن میں سے آدمی اگر ایک کو نبھائے تو دوسرا لازماً مجروح ہوتا ہے۔ کسی صورت میں بھی ان دونوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تقاضا یہ ہے کہ انسان سچ بولے اور دوسرا یہ ہے کہ وہ ایک انسان کی جان بچانے میں اس کی مدد کرے۔ یہ دونوں ہی فطری تقاضے ہیں، لیکن اس خاص صورت حال میں انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ان دونوں کو بیک وقت پورا کر سکے۔ چنانچہ جب وہ ظالم کے ساتھ سچ بولنے کو ایک بڑے شر کا باعث سمجھتے ہوئے، ایسا جھوٹ بول دیتا ہے، جس سے مظلوم کو ظالم سے نجات مل جائے تو اس موقع کی مناسبت سے، ہر انسان اس جھوٹ بولنے کو، برائی جاننے کے باوجود، گوارا کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ صورت حال جب انسان کو پیش آتی ہے، تو اس وقت اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ سچ، جسے میں آج تک سراپا خیر سمجھتا رہا، وہ تو ایک اضافی چیز تھی، وہ ہر موقع پر خیر نہیں ہوتا۔ بعض مواقع پر وہ خالص شر ہوتا ہے۔ اگر معاملہ واقعی یوں ہوتا کہ مذکورہ صورت حال اس پر یہ بات ثابت کر دیتی کہ سچ اور جھوٹ اضافی اقدار ہیں تو وہ لوگوں کو بھی اس بات کی اجازت دیتا کہ خود اس کے ساتھ بھی وہ اگر سچ بولنے کو خیر جانیں تو سچ بولیں اور جھوٹ بولنے کو خیر جانیں تو جھوٹ بولیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے بارے میں دوسروں کو اس چیز کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ لہٰذا، یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ خیر اور شراضافی اقدار ہیں۔

 

دوسرا نقطۂ نظر: نیت اور ارادہ کا معیار

خیر اور شر کے بارے میں دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انسانی اعمال کے خیر یا شر ہونے کی بنیاد انسان کی نیت اور اس کے ارادے پر ہے۔ اس نقطۂ نظر کے حاملین کا کہنا ہے کہ اچھی نیت سے جو کام بھی انجام دیا جائے، وہ خیر ہوتا ہے، خواہ وہ چوری کرنا اور ڈاکا ڈالنا ہو یا کسی پر ظلم کرنا اور اسے جان سے مار ڈالنا ہو۔ یہ سب کام اگر کوئی شخص نیک نیتی سے کرے تو یہی کام اعمال خیر شمار ہوں گے۔ اس کے برعکس، اگر کوئی آدمی بری نیت سے کسی بیمار آدمی کی مدد کرتا، کسی غریب کی ضروریات پوری کرتا، اپنے بھائی بندوں کے ساتھ سچ بولتا اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرتا ہے تو اس کے یہ اعمال خیر، اس کی بری نیت کی وجہ سے اعمال شر کہلائیں گے۔ اس نقطۂ نظر کے حق میں یہ مثال دی جاتی ہے کہ سرجن کا نشتر بھی جسم کو چیرتا ہے اور قاتل کا خنجر بھی، لیکن سرجن کی نیت، چونکہ جسم کی اصلاح کر کے انسان کو زندہ رکھنے کی ہوتی ہے، اس لیے اس کا یہ عمل خیر ہے اور قاتل کی نیت، چونکہ جسم میں فساد برپا کر کے انسان کو ختم کرنے کی ہوتی ہے، لہٰذا اس کا یہ کام شر ہے۔ یعنی ان کے نزدیک کوئی عمل بھی، فی نفسہٖ، خیر یا شر نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کی نیت ہی ہے، جو کسی عمل کو خیر یا شر بناتی ہے۔

 

تجزیہ

اس نقطۂ نظر میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ خیر و شر کوطے کرنے کا معیار ہر آدمی کے اپنے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ چنانچہ اب کسی آدمی کے عمل یا رویے کے جائز، بلکہ خیر بن جانے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے عمل اور اپنے رویے کے پیچھے اچھی نیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے، جبکہ وہ شخص جس کے ساتھ کوئی رویہ یا عمل اختیار کیا جا رہا ہو، ا س کی خواہش اور اس کی مرضی کوئی حیثیت ہی نہ رکھتی ہو۔ ممکن ہے کہ اس کے نزدیک یہ کوئی خیر کا عمل ہی نہ ہو۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی آنکھیں اس کی مرضی کے بغیر اس نیت سے نکال لیتا ہے کہ وہ کسی غریب حاجت مند کو عطیے میں دے دے گا تو بے شک اس نقطۂ نظر کو ماننے والوں کے نزدیک یہ بھی ایک کار خیر ہی شمار ہو گا، لیکن کیا فی الواقع یہ خیر کا کام ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ یہ کسی بھی صورت میں خیر کا کام نہیں ہو سکتا۔ جسم انسانی پر سرجن اور قاتل کے تصرف کی جو مثال دی گئی ہے، اس میں دونوں کے درمیان ایک بنیادی فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، وہ یہ کہ سرجن جب کسی مریض کے جسم پر نشتر لگاتا ہے تو وہ خود اس مریض کی ضرورت اور خواہش پر اس کے جسم کی اصلاح کی خاطر یہ کام کرتا ہے۔ یعنی اس کا کام مریض کی صورت حال کے مطابق، فی نفسہٖ، خیر کا کام ہوتا ہے۔ اس کی اپنی نیت اور ارادہ، اصلاً، مریض کی خواہش کے تابع ہوتا ہے۔ جبکہ قاتل، مقتول کی مرضی کے خلاف، اپنی نیت اور اپنے ارادے سے اس کے جسم پر خنجر مارتا ہے۔ پھر مزید یہ بھی ہے کہ اس کی نیت سرجن کی نیت کے بر خلاف مقتول کی خواہش کے تابع نہیں ہوتی۔ اور نہ وہ جسم کی کوئی اصلاح ہی کرتا ہے، بلکہ اس کا کام، اصلاً، جسم میں فساد برپا کرنا ہے، لہٰذا وہ جسم کو اس طرح سے کاٹتا ہے کہ اس میں فساد برپا ہو اور نتیجۃً آدمی ختم ہو جائے۔ یعنی اس کا کام، فی نفسہٖ، شر کا کا م ہوتا ہے۔ اس مثال کو بڑی سطح پر لیجیے، اگر کوئی قوم فساد فی الارض پر اتر آئے تو اس کے ساتھ جنگ بھی بنی نوع انسان کے حوالے سے ایک سرجن کے عمل کی طرح ہوتی ہے، لیکن ایسی قوم کے ساتھ جنگ، جس میں اس طرح کی کوئی خرابی نہ ہو، ایک قاتل کا عمل ہے، جس کی اخلاقیات کی دنیا میں کوئی گنجایش نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی شخص یا قوم سے صادر ہونے والا خیر و شر صرف اسی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ لازماً اس کے ماحول کو متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر معاشرے میں، فرد کے شر سے بچنے کے لیے قانون، عدالت اور سزا کے ادارے قائم کیے جاتے ہیں اور دوسری قوم کے فساد سے بچنے کے لیے دفاع اور بین الاقوامی قانون کا پورا نظام ترتیب دیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس، معاشرے پر خیر کے اثرات کو دیکھیں تو انسانیت کے خادم اور محسن افراد ہی، سب قوموں کے ہیرو اور آئیڈیل قرار پاتے ہیں۔ لہٰذا، یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ کسی آدمی کی محض نیت ہی اس کے کسی کام کو خیر یا شر بنا دیتی ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ خیر کے کام وہی ہوتے ہیں جو فی نفسہٖخیر ہوں۔ کسی برے کام کے پیچھے خیر کی نیت ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ یہ کوئی معقول بات ہی نہیں۔ چنانچہ، یہ بات کسی صورت میں بھی نہیں مانی جا سکتی کہ خیر اور شر کی بنیاد نیت اور ارادے پر ہے۔

پچھلے صفحات میں اوباش آدمی سے جھوٹ بول کر کسی شریف آدمی کی جان بچانے کو درست قرار دیا گیاہے تو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس مثال میں ہم نے جھوٹ کو خیر قرار دے دیا ہے، کیونکہ اس کے پیچھے خیر کی، یعنی دوسرے کی جان بچانے کی نیت ہے۔ نہیں، ایسا نہیں، جھوٹ کسی حال میں بھی خیر نہیں ہوتا، البتہ بعض مواقع پر کسی دوسرے خیر کو حاصل کرنے کے لیے اسے گوارا کرنا، عقل و دانش کی عدالت میں درست قرار پاتا ہے۔

 

تیسرا نقطۂ نظر: لذت و مسرت کا معیار

تیسرے نقطۂ نظر کے مطابق، خیرو شر کی بنیاد لذت و مسرت کے حصول پر ہے۔ یعنی جس کام سے آدمی حقیقی اور پائدار لذت و مسرت حاصل کرتا ہے، وہ خیر کا کام ہے او رجس کام سے اسے ایسی کوئی لذت و مسرت حاصل نہیں ہوتی یا وہ کام اس کے لیے رنج و الم کا باعث ہوتا ہے، وہ شر ہے۔

اس نقطۂ نظر کے علم برداروں کا کہنا ہے کہ انسان کی زندگی کا واحد مقصد حقیقی اور پائدار مسرت کا حصول ہے، لہٰذا جو چیز انسان کو ایسی مسرت دے، وہ اچھی ہے اور جس سے یہ مقصد حاصل نہ ہو، لذت جس کا انجام انسان کے اپنے حق میں بالآخر دکھ ہو، وہ ان کے نزدیک حقیقی لذت نہیں ہے اور نہ جسمانی لذت ہی کو وہ حقیقی لذت قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ ذہنی مسرت او ر داخلی سکون و طمانیت جو پائدار بھی ہو، وہی حقیقی مسرت و سکون ہے۔ لہٰذا یہ ان تمام افعال و اعمال کو خیر قرار دیتے ہیں جو انسان کے لیے پائدار ذہنی مسرت اور دیر پا قلبی سکون کا باعث ہوں۔

 

تجزیہ

اس نقطۂ نظر کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس نے خیر و شر کا معیار ہر انسان کے اپنے احساسات کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ، اب ہر شخص آزاد ہے، وہ جس وقت جس چیز کو چاہے، اپنے لیے پائدار لذت کا ذریعہ بتائے اور خیر قرار دے دے، اور جس چیز کو چاہے، ابدی رنج و الم کا باعث کہے اور شر قرار دے دے۔ لذت و مسرت کے ساتھ، خواہ ذہنی، حقیقی اور قلبی یا پائدار اور دیر پا ہونے کی کتنی ہی شرطیں لگا دیں، بہرحال یہ ایک داخلی احساس ہے۔ اس میں ہر فرد، ہر معاشرہ، ہر قوم اور ہر ملت اپنے عقائد، اپنے تصورات اور ذوق و رجحان کی بنا پر دوسرے سے بہت کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک جو چیز قلبی لذت و مسرت کا باعث ہے، ہو سکتا ہے دوسرے کے نزدیک انسانیت کے لیے وہ ایک لعنت ہو۔

دنیا میں کتنے ہی مذاہب و مسالک اس قلبی اور حقیقی مسرت ہی کے نام پر پیدا ہوئے ہیں، اور پھر وہ نہ صرف عقل و دانش کی عدالت میں انسان کے لیے سراپا دکھ اور رنج قرار پائے، بلکہ حقیقت کی اس دنیا میں بھی وہ انسانیت کے لیے بہت رسوائی اور تذلیل کا باعث بنے، لیکن اس کے باوجود ان کے پیرو پورے یقین کے ساتھ انھی مذاہب میں اپنے لیے پائدار حقیقی لذت اور دیرپا قلبی مسرت تلاش کرتے ہیں۔

عیسائیوں کے ہاں رہبانیت کی تحریک کو دیکھیے۔ یہ اسی پائدار ذہنی مسرت اور قلبی اطمینان ہی کے لیے برپا ہوئی تھی، لیکن یہ انسان اور معاشرے کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث بنی۔ اس نے انسانوں کے باہمی تعلق اور محبت کو نام نہاد مذہبیت کی نذر کر دیا۔ ابتدا میں اس نے انسان کو اپنی فطرت سے جنگ کرنے کا درس دیا، او رپھر نتیجۃً اسے ایک انتہائی ظالم اور خود غرض وجود بننے پر مجبور کر دیا۔ بدھ نے اسی قلبی مسرت اور سکون کے لیے دنیا کو تج دینے کا فلسفہ ایجاد کیا جو بجائے خود، انسانیت کے لیے، خود کشی کی ایک تحریک تھا۔ دنیا میں کتنے ہی مذاہب ہوئے ہیں، جنھوں نے انسان کو یہی پائدار داخلی سکون اور دیرپا قلبی مسرت دینے کا دعویٰ کیا۔ پھر اس سے دیوتاؤں کے نام پر معصوم بچوں کی قربانی مانگی۔ اس کی خون پسینے کی کمائی، اس سے ایسے مذہبی ہتھکنڈوں کے ذریعے سے حاصل کی کہ وہ بالکل لٹ جانے کے بعد بھی، زندگی بھر، مذہبی پیشواؤ ں کا ممنون احسان رہا۔ تصوف بھی اس دائمی مسرت اور سکون کے لیے انسان کو آواز دیتا ہے۔ اس کا نقطۂ نظر اور اس کے عقائد اپنا لینے کے بعد، انسان ایک دوسرا انسان ہوتاہے، اس کے ہاں بھلائی اور برائی کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ اس کا جینا اور مرنا بدل جاتا ہے۔ وہ خدا کی وحی سے بھی آزاد ہوتا ہے اور دنیا کی عقل و دانش سے بھی۔ تصوف اپنا الگ فلسفہ اور اپنے الگ تصورات رکھتا ہے۔ وہ، دراصل، ان مشقتوں اور ریاضتوں کی دنیا ہے، جن سے انسان خدا کا وصال تلاش کرتا اور اس کے ساتھ اتصال کے نتیجے میں اس کیفیت کو پا لینا چاہتا ہے، جس سے بڑھ کر اس کے نزدیک کوئی کیفیت نہیں ہے۔ تصوف حق ہے یا باطل، یہ تو خیر مذہب کا مسئلہ ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ساری دنیا اس فلسفے پر لبیک کہے او ردنیا میں وصل خدا وندی کو اپنا مقصود بنا لے تو انسان کی اجتماعی خود کشی کے لیے شاید اس سے بہتر کوئی اور راستہ تلاش نہ کیا جا سکے۔

یہ سب کچھ انسان نے قلبی مسرت اور حقیقی لذت ہی کے حسین نام پر اختیار کیا ہے۔ لذت و مسرت کے بارے میں کسی سے کیا بات کی جا سکتی ہے؟ دوسرے کو اپنی رائے اور اپنا خیال کیسے بتایا جا سکتا ہے؟ کوئی خوش گمان یہ وعظ تو کر سکتا ہے کہ فلاں چیز سے حاصل ہونے والی لذت کو حقیقی لذت قرار نہیں دینا چاہیے اور فلاں لذت کو حقیقی لذت سمجھنا چاہیے، لیکن ہر انسان اپنا الگ تصور اور الگ عقیدہ رکھتا ہے، لہٰذا اس وعظ کو کون سنے گا اور کیوں سنے گا؟ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ ایک دفعہ جب آپ نے لذت کو معیار بنا لیا تو پھر خیر و شر کے بارے میں حتمی فیصلہ ہر شخص اپنے تصور اور اپنے داخلی احساس ہی کی بنا پر کرے گا۔ چنانچہ، جب حق اور باطل، صحیح اور غلط، خیر اور شر کا معیار عقل و فطرت نہیں، انسان کے اپنے احساسات اور اپنے جذبات ہوں گے تو پھر سب لوگوں سے کیسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسی چیز کو خیر کہیں جوفی الواقع، خیر ہو؟

آپ اس پر ایک اور زاویے سے بھی غور کیجیے کہ خیر و شر کے بارے میں اگر لذت و مسرت کا یہ تصور اپنا لیا جائے تو اس سے معاشرے کے اندرونی نظام میں ایک خلفشار وجود میں آئے گا۔ اجتماعی اور معاشرتی سطح پر کیا ہو گا، یہ تو خیر ایک بڑی بات ہے، ایک چھوٹے سے خاندان میں ماں جس چیز کو خیر قرار دے گی، باپ ہو سکتا ہے کہ اس میں رنج و الم محسوس کرتے ہوئے اسے ناگوار شر قرار دے دے۔ اولاد کی تربیت اگر اولاد اور والدین، دونوں کے لیے دائمی لذت و مسرت کا باعث ہے تو خیر ورنہ شر۔ جوان بیٹے کو بوڑھے اور بیمار باپ کے لیے رات دیر دیر تک جاگنے اور اس کی خدمت کرنے میں اگر پائدار اور حقیقی لذت دکھائی دے گئی تو والدین کی یہ خدمت خیر قرار پائے گی، ورنہ اس کے ایک تکلیف دہ شر ہونے میں کیا شبہ ہے۔ زندگی کے کسی ایک گوشے میں نہیں، جس طرف بھی نظر دوڑایئے، اس نقطۂ نظر کو مان کر انسان لمحہ بھر کے لیے بھی مطمئن اور خوش نہیں رہ سکتا۔ ہر ایک کے لیے لذت کا معیار اپنا اپنا ہوتا ہے۔ دنیا میں لذتیت کے ایسے مریض بھی پیدا ہوئے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کو ذبح کرنے میں بہت لذت محسوس کرتے ہیں۔ جنسی حوالے سے دیکھیے، انسان کے ہاں حصول لذت ہی کی خاطر، جسے یہ فلسفی خیر و شر کا معیار کہتے ہیں، خاندان کے وجود کو داؤپر لگا دیا گیا۔ چنانچہ، اس کے نتیجے میں والدین ناگوار بوجھ ٹھہرے اور بچے راہ عشرت کے کانٹے بن گئے۔

معاشرتی اور اجتماعی سطح پر غور کیجیے، کیا لذت و مسرت کو خیر و شر کا معیار ماننے کے بعد کسی معاشرے میں قانون، انصاف او رعدل کو قائم کرنے کی کوئی گنجایش باقی رہ جاتی ہے۔ سزا ایک شر ہے، کیونکہ وہ مجرم کے لیے رنج و الم کا باعث ہے۔ عدالت ایک شر ہے، کیونکہ وہ مقدمہ کرنے والوں میں سے ایک کے لیے، بہرحال،رنج ہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ حکومت لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کرے تو خیر اور جب وہ ان کاموں کے لیے ٹیکس مانگے تو شر ۔ کیا اس کے بعد معاشرے میں کہیں قانون اور اخلاق کا کوئی وجود ممکن بھی رہتا ہے؟ آپ اپنے بھائی کی خیر خواہی میں اسے کوئی نصیحت کرنا چاہیں اور وہ نصیحت اس پر گراں ہو تو صاف ظاہر ہے کہ وہ ایک شر ہے۔

پھر مزید ستم یہ ہے کہ انسانوں کی پسند و ناپسند کے معیار، وقت کے ساتھ، بدلتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا، جب ہندوستان میں ذات پات کے فرق کے بغیر کسی معاشرے کا کوئی وجود ممکن ہی نہ تھا اور آج کے دور میں یہ ایک احمقانہ بات سمجھی جاتی ہے۔ اس دنیا نے آدم کے بیٹوں کو آقا اور غلام کے روپ میں سینکڑوں برس تک دیکھا ہے۔ ایک دور میں غلامی کے بغیر کوئی معاشرہ قائم ہی نہ رہ سکتا تھا اور اب اس کے حق میں دو لفظ بولنا بھی ممکن نہیں رہا۔ لذت و مسرت کے معاملے میں انسان کی باطنی کیفیات کو بہت دخل ہوتا ہے۔ اس کا معاشرہ اور اس کا دور جس میں وہ پیدا ہوا ہو، وہ ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ہی چیز، ایک کیفیت میں رنج کا باعث ہوتی ہے اور دوسری میں مسرت کا۔ ایک ہی رویہ، ایک معاشرے میں خوشی کا باعث ہوتا ہے او ردوسرے میں شدید دکھ کا۔ اسی طرح ایک کام، ایک دور میں لوگوں کے لیے ناگوار ہوتا ہے او ردوسرے دور میں بہت خوش گوار۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں لذت و مسرت، خیر و شر کا معیار بن جائیں، اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ انسان کسی دوسرے کی خاطر جان کی قربانی دینے کو تیار ہو جائے، حالانکہ کسی کی خاطر جان قربان کر دینا، ظاہر ہے کہ بہت بڑا خیر ہے۔ اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ لذت و مسرت کوئی ایسی حتمی چیز ہی نہیں ہے کہ اسے بنی آدم کی پوری جمعیت کے لیے خیر و شر کامعیار بنا لیا جائے۔

 

چوتھا نقطۂ نظر: سودمندی کا معیار

خیر و شر کے بارے میں چوتھا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کا معیار فرد اور معاشرے کی سود مندی ہے۔ یعنی جس کام میں فرد اور معاشرہ، دونوں کا مفاد ہو، وہ خیر ہے او رجس میں دونوں کا نقصان ہو، وہ شر ہے۔ اگر فرد اور معاشرے کے مفاد میں کہیں ٹکراؤ واقع ہو جائے تو اس صورت میں وہ چیز خیر ہو گی جو معاشرے کے لیے خیر ہو۔ اس نقطۂ نظر کے علم برداروں کا کہنا کہ انسان خود غرض نہیں۔ وہ معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔اس لیے معاشرے کی بہبود و فلاح ہی وہ پیمانہ ہے، جس سے خیر و شر کو ناپا جا سکتا ہے۔ چنانچہ، اگر ہم کسی عمل کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خیر ہے یا نہیں تو ہم دیکھیں گے کہ اس عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں۔ عمل کرنے والے کا اپنا فائدہ تو اس کے ہر عمل میں، فطری طور پر موجود ہوتا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کوئی عمل دوسروں کے حق میں کیسا ہے؟ لہٰذا، ایک عمل اس وقت خیر کہلائے گا، جب وہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی، لازماً، فائدے کا باعث ہو۔

 

تجزیہ

بادی النظر میں دیکھا جائے تو اس نقطۂ نظر میں کوئی غلطی محسوس نہیں ہوتی، بلکہ یہ بات بالکل معقول اور قرین انصاف محسوس ہوتی ہے، لیکن تھوڑے سے غور و فکر کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ معیار بھی انسان کے حق میں کچھ کم خطرناک نہیں ہے اور یہ بھی اپنے اندر انفرادی اور اجتماعی، دونوں ہی سطحوں پر، انسان کی تباہی و بربادی کا پورا پورا سامان رکھتا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے، اس میں اور اس سے پہلے بیان کردہ نقطۂ نظر میں صرف اتنا فرق ہے کہ اس میں انسان کے داخلی احساسات کو معیار بنایا گیا تھا اور اس میں انھی معیارات کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ آپ خیر کے نام سے جو کام بھی کریں، اس میں اس معاشرے کا مفاد، لازماً، ملحوظ رہے، جس میں آپ جی بس رہے ہیں۔ یعنی پہلے جو معاملہ فرد کی سطح پر تھا، وہی اب معاشرے کی سطح پر ہے۔ اصولی اعتبار سے اس میں اور اس سے پہلے بیان کردہ نقطۂ نظر میں، کوئی فرق نہیں ہے۔ جو خرابی وہاں فرد اور فرد کے مابین تھی، وہی یہاں معاشرے اور معاشرے اور قوم اور قوم کے مابین ہو گی۔ پھر مزید یہ بھی ہے کہ اس نقطۂ نظر کو ماننے کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ خیر اس چیز کا نام قرار پائے گا، جسے پورا معاشرہ یا اس کی ایک بڑی اکثریت خیر قرار دے گی، پوری قوم اگر اس پر راضی ہے کہ نظام معیشت میں سود ہونا چاہیے تو پھر سود ایک خیر ہے، خواہ عقل انسانی اس کے نقصان دہ ہونے پر سینکڑوں دلائل دے دے اور صدیوں کے تجربات بھی یہ گواہی دیں کہ سود ایک لعنت ہے۔ معاشرہ اگر جنسی آزادی، بلکہ جنسی آوارگی کو خیر قرار دیتا اور اسے نفسیاتی آسودگی کا ذریعہ بتاتا ہے تو بے شک ہر فرد اس خیر کو بے دھڑک اپنا سکتا ہے۔ اگر سدومیت کو اپنانے میں قوم زیادہ جنسی آزادی محسوس کرتی، خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے بعض فوائد دیکھتی اور عزت و غیرت کے معاشرتی جھگڑوں سے نجات پاتی ہے تو پھر اس کے ایک اچھائی اور خیر ہونے میں شبہ ہی کیا ہے۔ چنانچہ، اگر سدومیت بھی ایک اچھائی اور خیر ہی ہے تو پھر اس کارخیر میں حصہ لینا بھی انسانیت کے لیے باعث خیر قرار پائے گا۔ اگر کوئی قوم دوسری قوم پر سرکشی اور ظلم و عدوان کی ٹھان لیتی ہے تو پھر وقت کی آواز یہی ہو گی کہ اس کار خیر میں بھر پورحصہ لیا جائے اور قومی مفادات کو، لازماً، ہر دوسرے مفاد پر ترجیح دی جائے۔ قومی مفاد سے اختلاف ظاہر کرنے یا قوم کو کوئی نصیحت کرنے کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے، کیونکہ یہ چیز قومی ارادوں اور قومی مفادات کے عین خلاف ہے۔ اس نقطۂ نظر کا مطلب، دراصل، یہ ہے کہ انسان جو جی چاہے کرے، سب کچھ اس کے لیے خیر ہے، بس شرط یہ ہے کہ اس کے کام، اس کی قوم اور اس کے معاشرے کے مفاد میں ہونے چاہییں۔ کیا اس صورت میں یہ مانا جا سکتا ہے کہ خیر و شر کے بارے میں یہ نقطۂ نظر انسانیت کے حق میں کسی درجے میں بھی کوئی خیر رکھتا ہے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نقطۂ نظر اقوام و ملل کے مابین ایک عظیم فتنے کی بنیاد نہیں بنے گا؟

 

پانچواں نقطۂ نظر: مادیت کا معیار

خیر و شر کے بارے میں پانچواں نقطۂ نظر یہ ہے کہ خدا خیر مجسم ہے، اس سے شر کا صدور ممکن نہیں۔ شر تو اس مادے سے وجود میں آتا ہے، جس سے انسان کا جسم بنایاِ گیا ہے۔ انسان جب مادے کی طرف میلان اختیار کرتا ہے تو وہ برائی میں جا پڑتا ہے۔ شیطان نے بھی انسان کو مادے کی طرف مائل کر کے پھسلایا تھا۔ اس نقطۂ نظر کے قائلین کے نزدیک خدا شر کا خالق تو نہیں، البتہ مادہ اور شیطان، جو شر کا اصل باعث ہیں، ان دونوں کا خالق وہی ہے۔

 

تجزیہ

اس نقطۂ نظر کو ماننے سے ایک بہت بڑی قباحت وجود میں آتی ہے۔ وہ یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کو ایسی چیزوں (مادہ اور شیطان) کا خالق ماننا پڑتا ہے، جو اپنے وجود میں (اس نقطۂ نظر کے حاملین کے نزدیک) سراپا شر ہیں۔ اس کے نتیجے میں شرکا بالواسطہ خالق، خدا ہی قرار پاتا ہے۔ چنانچہ، پھر اس دنیا میں شر کے موجود ہونے کا سارا الزام، بہرحال، اسی پر آتا ہے۔ اور اگر خدا کو براہ راست یا بالواسطہ، شر کا خالق مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں ساری بساط ہی الٹ جاتی ہے۔ پہلی چیز جس کے بارے میں اپنا خیال بدلنا لازم ٹھہرتا ہے، وہ عدل ہے۔ اس کے وجود سے انکار ضروری قرار پاتا ہے۔ اس کی طلب بے معنی ہو جاتی ہے۔حالانکہ، یہ وہ حقیقت ہے، جس کی بنا پر ساری کائنات کھڑی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، ظلم او راحسان، وفا اور بے وفائی، ایثار او رخود غرضی، غرض اخلاقیات کے دائرے کی ہر چیز، مکمل طور پر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ خدا کی ذات ہی تو وہ ذات ہے، جس کی اعلیٰ صفات کی روشنی سے یہ ساری کائنات روشن ہے۔ اس کے بارے میں انسان، وجدانی طور پر، صرف اچھائی کے تصور کو مان سکتا ہے۔ اگر وہ اس کے علاوہ کسی اور تصور کو مان لے تو وہ پاگل ہو جائے یا انتہا درجے کا مایوس شخص بن جائے۔ چنانچہ، وہ نقطۂ نظر مانا ہی نہیں جا سکتا، جس کے نتیجے میں شرکا سارا الزام، بلاواسطہ تو نہیں، لیکن بالواسطہ خدا ہی پر آتا ہے۔

 

چھٹا نقطۂ نظر: مسلمان متکلمین کا نقطۂ نظر

ان کا کہنا ہے کہ ہر وہ چیز خیر ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے خیر کہہ دیا ہے اور ہر وہ چیز شر ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے شر کہا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے، چونکہ عدل، احسان، ہمدردی اور سچ کو خیر کہا ہے، اس لیے یہ سب خیرہیں۔ اگر وہ ان کو شر قرار دے دیتے تو یہی سب چیزیں شر ہوتیں۔ خدا اور اس کے رسول کا فرمان ہی وہ چیز ہے، جس سے کسی عمل کے خیر یا شر ہونے کا پتا چل سکتا ہے۔ کوئی عمل، فی نفسہٖ، نہ خیر ہے اور نہ شر اور نہ انسان ان کے بارے میں خود کسی نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 

تجزیہ

یہ نقطۂ نظر بھی کسی صورت درست نہیں ہو سکتا، کیونکہ اسے درست ماننے کے نتیجے میں یہ لازم آتا ہے کہ انسان طبعی طور پر اچھائی کو پسند کرتا ہے نہ برائی کو، اس کے لیے یہ دونوں برابر ہیں، اسے نہ اچھائی سے طبعی رغبت ہے، نہ برائی سے نفرت۔ حالانکہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ انسان اپنے اندراچھائی کی طرف ایک طبعی میلان رکھتا اور برائی سے نفرت کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر سارا معاشرہ ظالم پر سزا کے نفاذ کو پسند کرتا اور مظلوم کے ساتھ ہمدردی کو ضروری قرار دیتا ہے۔ دنیا میں ہر معاشرے کا قانون، عدالت اور حکومت کے نظام کو اپنے لیے لازم قرار دینا اسی حقیقت کو ظاہرکرتا ہے کہ ساری ہی دنیا نا انصافی، ظلم، خود غرضی او رجھوٹ کو شر سمجھتی ہے۔

اس نقطۂ نظر کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خود قرآن مجید ، جس کے ماننے والوں نے یہ تصور پیش کیا ہے، اس کے نزدیک معاملہ یوں نہیں ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب دعوت ہی یہ بتا دیتا ہے کہ وہ خیر و شر کے تصور کو خارج سے سکھایا ہوا تصو ر قرار نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس تصور کی یاد دہانی تک محدود رکھتا ہے۔ وہ انسان کو مخاطب کر کے، بار بار یہی بات کہتا ہے کہ تم سمجھتے کیوں نہیں، تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے، تم کہاں بھٹک جاتے ہو؟ یعنی وہ چاہتا ہے کہ انسان غور و فکر کے ذریعے سے خود اپنی غلطی جان لے اور صحیح نتیجے تک جا پہنچے۔ اگر معاملہ وہ ہوتا، جو ان متکلمین نے خیال کیا ہے تو پھر ضروری تھا کہ قرآن مجید تحکم کا اسلوب اختیار کرتا، یعنی یہ کہ تم کیوں نہیں مانتے، جبکہ ہم (رب العٰلمین) تمھیں اس کا حکم دیتے ہیں؟ اس پر ایک اور اہم اعتراض یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ اس نقطۂ نظر کو ماننے سے مذہب کی وہ ساری بنیاد ہی الٹ جاتی ہے، جس پر وہ اپنا مقدمہ استوار کرتا ہے۔ مذہب کی بنیاد انسان کی عقل و فطرت پر ہے۔ وہ انسان سے کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں کرتا، جو اس کی فطرت میں نہ پایا جاتا ہو۔ اگر مذہب میں خیر و شر، خارج سے آنے والے کسی حکم ہی سے طے ہوتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کا بنیادی مقدمہ بالکل باطل ہے۔ لہٰذا، خیر و شر کے بارے میں یہ نقطۂ نظر بھی بالکل لغو ہے۔

____________

 

B