کیا یہ سوال انسان کے وجود سے اٹھا ہے؟ اس سوال کا جواب اس کے وجود میں ہے۔ کیا یہ سوال ہمہ جہت پھیلی ہوئی کائنات کو دیکھنے کے بعد پیدا ہوا ہے؟ اس کا جواب ہمہ جہت پھیلی ہوئی کائنات میں ہے۔ کیا یہ سوال عالم موجودات کے وجود ہاے رنگا رنگ سے پیدا ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب عالم موجودات کے وجود ہاے رنگارنگ میں ہے۔
انسان تخلیق کیا گیا،کائنات تخلیق کی گئی، یہ موجودات تخلیق کی گئیں۔ کیا ان موجودات کے وجود سے، اس کائنات کے وجود سے، انسان کے اپنے وجود سے، اس نقش گر ازل کے نقش ہاے دیر پا مٹ گئے یا انسان کی چشم بینا بس آمادۂ سوال ٹھہری ہے؟
انسان اگر اپنے وجود پر غور کرے، اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات اور اس میں موجود اشیا کا بغور مشاہدہ کرے تو بہت آسانی سے یہ حقیقت جان لے گا کہ وہ خود، یہ کائنات اور اس میں موجود اشیا سبھی ایک تخلیقی عمل سے وجود میں آئی ہیں۔
ان سب کا خالق کون ہے؟ کیا انسان اس کائنات کے اندر کوئی ایسی چیز یا ایسا مظہر پاتا ہے، جسے وہ اپنا خالق کہہ سکے؟ آئیے، اس سوال کے حوالے سے ہم کائنات پر غور کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا خالق کون ہو سکتا ہے۔
اس عالم موجودات کی ہر شے صفات ہی کی زبان سے اپنی حقیقت کا پتا دیتی ہے۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ ہم اشیا پر سارا غورو فکر ان کی صفات ہی کے حوالے سے کریں۔
اس کائنات میں جو چیز انسان کے سب سے زیادہ قریب ہے، وہ خود انسان کا اپنا وجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے بارے میں انسان کا مشاہدہ، اس کے دوسرے سب مشاہدات سے زیادہ یقینی اورقطعی ہوتا ہے ۔
انسان اپنے بارے میں بخوبی جانتا ہے کہ وہ خود کسی چیز کا خالق ہے، نہ اس کے آبا و اجداد اپنے اندر خالق ہونے کی صفت رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اولاد کے معاملے میں بھی انسان اس حقیقت سے خوب آگاہ ہے کہ وہ ان کے وجود میں آنے کا ذریعہ تو ہے، لیکن ان کا خالق نہیں۔ ایک بچے کی تخلیق میں انسان کا کردار کس قدر ہے اور اس کی حدود کیا ہیں، انھیں جان لینے کے بعد کسی حق شناس آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ انسان ہی انسان کا خالق ہے، وہی اسے پیدا کرتا اور وہی اسے مارتا ہے۔
اس کے بعد انسان سے آگے بڑھیے اور کائنات پر نگاہ ڈالیے، کیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے، جو انسان کو زندہ کرنے اور اسے مارنے کے عمل میں اپنا کوئی ارادہ و اختیار رکھتی ہو، وہ اس پر حکومت کر رہی ہو، انسان اس سے خوف زدہ رہتا ہو اور اس کے احکام ماننے پر مجبور ہو؟ ایسی کوئی چیز بھی اس دنیا میں دکھائی نہیں دیتی، بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ انسان دنیا کا سردار ہے اور دنیا اس کے آگے سرافگندہ ہے۔ چنانچہ دیکھیے کہ چٹانوں کو ان کے اندر اگنے والی کونپلیں پھاڑ دیتی ہیں، حیوان کونپلوں کو کھا جاتے ہیں، درندے حیوانوں کو چیر پھاڑ دیتے ہیں اور یہی درندے سرکس میں انسان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔
عالم جمادات، عالم نباتات سے کم تر ہے اور عالم نباتات ، عالم حیوانات سے کم تر اور کوئی حیوان ایسا نہیں جسے انسانوں سے افضل شمار کیا جا سکے۔
کائنات کی دوسری چیزوں کی طرف آئیے، طوفانی ہوائیں انسانوں کی بستیاں اجاڑ دیتی ہیں، سمندر انھیں ڈبو دیتے ہیں، آگ انھیں جلا دیتی ہے... اور ہوا ہی انسان کے جہازوں کو اپنے دوش پر بادلوں سے بھی اونچا اڑائے لیے پھرتی ہے۔ انسان کے سفینے سمندر کے سینے پر تیرتے ہیں اور اس کائنات کی شاید ہی کوئی چیز ایسی ہو جو آگ سے زیادہ انسان کی خدمت کرتی ہو۔
کائنات میں موجود قوتوں کو دیکھیے، زمین کے اندر موجود آتش فشانی مادہ جب زمین کو پھاڑتے ہوئے باہر نکلتا ہے تو ایک قیامت برپا کر دیتا ہے۔ ہزاروں گھر چشم زدن میں زمین بوس ہو جاتے اور لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ انسان نے جوہری بم بنایا۔ اس کی قوت معلوم کرنے کے لیے، ایک تجرباتی دھماکا کیا... ایک نہایت تیز روشنی نمودار ہوئی، ایک عظیم دھماکا ہوا، ایک شدید زلزلہ آیا، فضا میں آگ ایک بڑے بگولے کی شکل میں بلند ہوئی، زمین کا قریبی حصہ بخارات بن کر اڑ گیا، چاروں طرف سے شدیدآندھیاں چلیں، دھویں اور گردو غبار کی ایک بہت بڑی چھتری نے اس پورے علاقے کو ڈھانپ لیا ۔
آسمانوں سے بے قابو بجلیاں گرتی ہیں لیکن گرتے ہوئے پانیوں سے انسان بجلی حاصل کرتا ہے ۔
کون سی چیز ہے جو مسخر نہیں؟
راکٹ زمین سے اٹھے، ہواؤں سے گزرے، فضاؤں سے گزرے، ہوائیں مسخر، فضائیں مسخر اور چاند پہ پہنچے تو چاند مسخر، واپس آئے اور اگلی منزلوں کے نقشے بنائے، معلوم ہوا کہ یہ کائنات وسیع ہے اور بہت وسیع ہے۔ کتنے ہی نوری سالوں کے فاصلے، ان فاصلوں پر کہکشائیں ان کہکشاؤں کے ستارے۔ یہ ستارے جب ہماری دوربینوں میں سمٹ آئے اور لامحدود پہنائیوں کی خبر لائے تو یہ جانا کہ اس شہر کائنات میں کوئی گھر بھی ایسا نہیں اور کوئی در بھی ایسا نہیں جس میں قانون وہ نہ ہو، جس میں دستور وہ نہ ہو، جو انسان کی اس دنیا کا قانون اور اس دنیا کا دستور ہے۔ جبھی تو ہمارا راکٹ زمین پر بنتا ہے اور آسمان پر چلتا ہے۔
چاند زمین کا طواف کرتا ہے، زمین سورج کا اورسورج اپنا یہ سارا خاندان لیے دامن کہکشاں میں سرگرداں ہے اور پھر کتنی ہی کہکشائیں ہیں جو اس فراخی افلاک میں خوار و زبوں ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی یہ خواری و زبونی شریانوں میں بے روک دوڑتے ہوئے، اس بے اختیار خون کی طرح ہے جو بہر حال کچھ مقدر راہوں ہی پر چلتا ہے۔
اس عالم موجودات میں ایک قانون ہے، ایک قاعدہ ہے، جس سے کسی کو بھی مجال انحراف نہیں۔
ساری ہی کائنات اسی اصول اور اسی قانون، اسی دستور اور اسی ضابطے میں بندھی ہوئی ہے۔ جس میں ہم اس کرۂ ارضی کو بندھا ہوا دیکھتے ہیں۔ کیا خالق قانون کی زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے؟
گلیلیو نے دور بین ایجاد کی اور آفتاب کو دور بین سے دیکھا تو اس کے چہرے پر داغ نظر آئے، آفتاب پرست چیخ اٹھے کہ: ’’خدا داغ دار نہیں ہوتا، یہ دوربین توڑ دو۔‘‘
چاند روشنی کا محتاج ہے، سورج ماند پڑ رہا ہے، ستارے پھٹتے ہیں، فضا میں جل جاتے ہیں، سمٹ جاتے اور معدوم ہو جاتے ہیں۔
ہم کس کو خالق کہیں؟
ابراہیم نے کہا :میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔... اور اس نے کہا:میں نے یکسو ہو کراپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔۱
[۱۹۹۷ء]
_________
۱قَالَ: لآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ.... اِنّیْ وَ جَّہْتُ وَ جْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضَ حَنِیْفًا.
___________________