یہ کائنات، جس میں ہم رہ رہے ہیں، خود اپنے وجود سے، اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ مخلوق ہے، اسے تخلیق کیا گیا ہے۔ کسی چیز کے مخلوق ہونے کی اصل دلیل یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا وجود پانے کے لیے عمل تخلیق کی مرہون منت ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی چیز کو مخلوق ہی ہونا چاہیے، جسے تخلیق کا عمل، عدم سے وجود میں لایا ہو۔
تخلیق کا عمل کیا ہے؟
عدم کی تاریکیوں میں پنہاں کوئی معدوم شے جب اپنے تکمیلی وجود کی تلاش میں دنیاے عدم سے عالم موجودات کی طرف عازم سفر ہوتی ہے، تو تخلیق کا وہ عمل شروع ہوتا ہے جس سے چیزیں وجود پذیر ہوتی ہیں۔
سائنس کی مختلف شاخوں میں سے فلکیات (Cosmology)،ارضیات(Geology) اور حیاتیات(Biology)و ہ شاخیں ہیں جو خصوصاً کائنات اور اس میں موجود اشیا کے بارے میں یہ بحث کرتی ہیں کہ یہ کیسے وجود میں آئیں۔
مثال کے طور پر فلکیات اس سے بحث کرتی ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی،کہکشائیں کیسے بنیں، ستارے کیسے وجود میں آئے، نظام شمسی کیسے وجود پذیر ہوا؟ آفتاب کہاں سے آ موجود ہوا، ماہتاب کیسے بن گیا؟ ارضیات اس سے بحث کرتی ہے کہ یہ زمین کیسے وجود میں آئی، اس پر موجود دریا اور پہاڑ ،سمندر اور صحرا، بیابان اور چشمے، اس کے نشیب اور اس کے فراز، یہ سب کیسے وجود میں آئے؟ اور حیاتیات اس سے بحث کرتی ہے کہ اس کرۂ ارض پر نباتات کیسے ظہور پذیر ہوئیں اور زندگی کیسے وجود میں آئی، وجود میں آنے کے بعد اس میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں؟ زندگی نے عالم نباتات سے عالم حیوانات میں کیوں کر قدم رکھا، خود انسان کیسے وجود میں آیا اور اب یہ سب چیزیں اپنی اپنی نوع کا وجود کیسے برقرار رکھتی ہیں؟
انسان نے ان سب سوالوں پر غور کیا ہے اور خوب غور کیا ہے۔ ان سب سوالوں کے ٹھوس علمی جواب دیے ہیں اور اس کائنات میں ہونے والے سب مظاہر(Phenomena)کی سائنسی توجیہات بیان کی ہیں۔ ان توجیہات میں گو غلطی کا امکان موجود ہے، کیونکہ یہ سب بہرحال انسانی کاوش ہیں،لیکن ایسا نہیں ہوا کہ انسان نے ان سوالوں سے بے اعتنائی اختیار کی ہو۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیجیے یا ان انسانی علوم کو دیکھیے جو انسان کی صدیوں کی ان تھک محنت کا نتیجہ ہیں،ہر جگہ یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان نے اس کائنات اور اس میں موجود اشیا کو جب بھی تحقیق کی نظر سے دیکھا ہے تو اس کے ذہن میں ہمیشہ کیوں؟ اور کیسے؟ یہی دو سوال پیدا ہوئے ہیں۔پہلے سوال نے فلسفے کو جنم دیا اور دوسرے نے سائنس کو۔
انسان کی سوچ کا ڈھنگ ہمیشہ یہی رہا ہے ۔ اس نے کبھی اس سے ہٹ کر نہیں سوچا۔آخر کیوں؟ اس لیے کہ یہ کائنات قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور کچھ اصولوں کے تحت تبدیلیوں کو قبول کرنے پر مجبور دکھائی دیتی ہے لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ کائنات مخلوق ہے۔ یہ بنی ہوئی ہے،اسے بنایا گیا ہے۔ لہٰذا اس کے ذہن میں کائنات اور اس کی اشیا کے بارے میں صرف یہی دو سوال پیدا ہوئے،ایک یہ کہ یہ کیسے وجود میں آئیں اور دوسرے یہ کہ کیوں وجود میں آئیں۔
سائنس کو اس سے تو دل چسپی نہیں رہی کہ بنانے والا کون تھا اور اس نے اسے کیوں بنایا ہے۔البتہ اس نے ماننے کی آخری حدتک اس حقیقت کو مانا ہے کہ یہ کائنات بھی بنی ہوئی ہے اور اس میں موجود اشیا بھی بنی ہوئی ہیں،کیونکہ اسے اس میں ہر ہر جگہ پر عمل تخلیق کے ایسے واضح نقوش ملے ہیں جن کا انکار، اسے اپنے وجودکا انکار محسوس ہوا ہے۔
کچھ مفکرین،جو خدا کے وجود کو ماننے پر اس لیے راضی نہ ہوئے کہ خدا کا وجود ان کے حواس کی گرفت میں نہ آتا تھا اور ان کے خیال میں یہ ضروری تھا کہ اس کائنات کا بنانے والا بھی،اس کے اجزا کی طرح ان کے حواس کی گرفت میں آئے۔ ان لوگوں نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ یہ کائنات بنی ہوئی ہے، بلکہ اس سے انکار کیا ہے کہ اسے بنانے والا اس کے خارج میں کوئی الگ وجود ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مادہ خود اپنے آپ کو تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یعنی یہ کائنات وہ چیز ہے،جس نے خود اپنے آپ کو بنایا ہے،بہرحال انھیں اس سے انکار نہیں کہ یہ ایک بنی ہوئی شے ہے۔ کیونکہ اگر وہ اس سے انکار کردیں تو پھر اس کائنات کے بارے میں وہ سب حقائق باطل ہو جاتے ہیں ،جن کی بنیاد پر سائنس معجزات کی ایک دنیا وجود میں لے آئی ہے۔ پھر انسان کا ذاتی مشاہدہ باطل ہو جاتا ہے اور اس کے پاس کسی چیز کی کوئی توجیہ باقی نہیں رہتی۔
چنانچہ کائنات اور اس کی اشیا کا مخلوق ہونا اتنا بدیہی ہے کہ انسان اس معاملے میں کبھی شک میں گرفتار نہیں ہوا۔ وہ خود فلسفے کے میدان میں کشف حقیقت کے درپے ہوا ہو یا سائنس کے میدان کو اس نے اپنی ہمتوں کی جولاں گاہ بنایا ہو، بہر حال اس حقیقت کو اس نے ہمیشہ تسلیم کیا ہے کہ وہ جس کائنات میں کھڑا ہے،وہ کائنات اور اس میں موجود اشیا عمل تخلیق ہی سے وجود میں آئی ہیں۔
[۱۹۹۵ء]
___________________