HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

غیر مسلم اقوام میں روزہ (حصہ دوم)

یہودیت

ابراہیم علیہ السلام کی جو نسل ان کے پوتے یعقوب علیہ السلام سے آگے چلی وہ بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ بنی اسرائیل میں آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو اپنی شریعت سے نوازا۔ موسیٰ علیہ السلام خدا سے ملاقات کے لیے کوہ طور پر گئے تو وہاں انھوں نے چالیس دن کا روزہ رکھا تھا۔ تورات میں موسیٰ علیہ السلام کے اس روزے کا ذکر اس طرح سے آیا ہے:

’’اور موسیٰ خداوند کے پاس چالیس دن اور چالیس رات رہا۔ نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔ اور اس نے عہد کا کلام، دس احکام دو لوحوں پر لکھے۔‘‘ (خروج ۳۴: ۲۸)

تورات میں یہودیوں پر عاشورے کے روزے کا ذکر ان الفاظ میں ہے:

’’یہ تمھارے لیے ابدی فرض ہو گا کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم میں سے ہر ایک، کیا دیسی کیا پردیسی، نفس کشی کرے (روزہ رکھے) اور کوئی کام نہ کرو۔ کیونکہ اس روز تمھاری پاکیزگی کے لیے تمھارے واسطے کفارہ دیا جائے گا۔ تب تم اپنے سارے گناہوں سے خداوند کے آگے پاک ہو جاؤ گے۔ یہ تمھارے لیے تعطیل کا سبت ہو گا۔ اس دن تم نفس کشی کرو (روزہ رکھنا) یہ ابدی فرض ہوگا۔‘‘ (الاحبار ۱۶: ۲۹۔۳۱)

بعض یہودیوں کے ہاں سال نیسان سے شروع ہوتا ہے اور بعض کے ہاں تشری مہینے سے۔ عاشورہ کا یہ روزہ اس تشری مہینے کی دس تاریخ کو رکھا جاتا ہے۔ یہ ستمبر کے آخری ایام بنتے ہیں۔ یہ روزہ غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور تقریباً ۲۵گھنٹے بعد اگلے روز رات کے شروع ہونے تک رہتا ہے۔ اس روزے کے دوران میں کھانے پینے سے اور میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق سے مکمل پرہیز کیا جاتا ہے۔ چمڑے کے جوتے جو آرام اور آسایش کی علامت ہیں، ان کا پہننا بھی اس روزے میں ممنوع ہے۔ یہودی اپنا بیش تر وقت صومعہ میں گزارتے ہیں اور دن کے آخر پر خاص کر خدا سے توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ روزے کے دوران میں خمسہ موسیٰ، یونس کی کتاب اور دیگر احوال و واقعات پڑھے جاتے ہیں۔ ۵۵؂

یہودیوں پر موسوی شریعت میں فرض روزہ صرف ایک ہی تھا، یعنی کفارے کا روزہ، جس کا اوپر ذکر آ گیا ہے، لیکن بنی اسرائیل میں پے در پے اللہ کے نبی آتے رہے ہیں، انھوں نے کئی روزے خود بھی رکھے اور عوام کو بھی ان کی ترغیب دی۔ چنانچہ یہودیوں کے ہاں یوم کفارہ کے روزے کے علاوہ ہم بہت سے دوسرے روزے بھی دیکھتے ہیں۔ مثلاً زکریا علیہ السلام یوں فرماتے ہیں:

’’اور میں نے رب الافواج کا کلمہ پایا۔ اس نے کہا کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے۔ چوتھے مہینے کا روزہ اور پانچویں کا روزہ اور ساتویں کا روزہ اور دسویں کا روزہ یہودہ کے گھرانے کے لیے خوشی اور خرمی کا موقع اور شادمانی کی عید ہو گا۔ تم فقط سچائی اور سلامتی کو عزیز جانو۔‘‘(زکریا ۸:۱۸۔۱۹) 

تورات میں یہ ان روزوں کا ذکر ہے جو بابل کی اسیری کے دوران میں مقرر کیے گئے تھے۔ یہود پر ٹوٹنے والی مصیبتوں کی یاد میں وقت کے ساتھ ان روزوں میں اور بھی بہت سے روزے شامل ہو گئے۔ لیکن چونکہ یہ روزے نفلی تھے، لہٰذا انھیں مقبولیت عام حاصل نہیں ہو سکی۔ ۵۶؂

یہودیوں کے ہاں وبا، قحط اور مصیبت کے موقع پر بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ مثلاً جب خزاں کی بارشیں بروقت شروع نہ ہوتیں اور فصلیں خراب ہونے کا خدشہ ہو جاتا تو فلسطین کے حکمران عوام کو روزہ رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ ۵۷؂

اس کے علاوہ یہود میں اپنے بڑے لوگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً آذار کے مہینے کی سات تاریخ کو موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ ۵۸؂اسی طرح نیسان مہینے کی چوبیس، ایار کی دسویں، سیواں کی پچیسویں اور آب کی پہلی تاریخوں میں یہود کے بڑے مذہبی پیشواؤں کا انتقال ہوا تھا۔ چنانچہ ان سب دنوں میں روزے رکھنے کا رواج ہے، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مذہبی پیشواؤں کے یوم وفات پر روزے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح ان کے ہاں اہم حوادث و واقعات کے دنوں میں روزے رکھے جاتے ہیں۔ ۵۹؂

یہود میں اس سب کے علاوہ بعض دوسرے نفلی روزے رکھنے کا بھی رواج ہے۔ مثلاً تہواروں کے موقع پر ہونے والے ہنگامے کی تلافی کے لیے بعض نیک یہودی روزہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح نئے سال اورکفارے کے دن تک کے درمیانی نو دنوں میں سے اکثر میں وہ روزہ رکھتے ہیں، لیکن کفارے سے ایک دن قبل کا روزہ رکھنے کی ممانعت ہے۔ ۶۰؂

بائیبل میں روزہ کی ترغیب ان الفاظ میں دی گئی ہے۔ یوایل نبی فرماتے ہیں:

’’یقیناًخداوند کا دن عظیم نہایت ہول ناک ہے۔ کون اس کی برداشت کر سکے گا۔ لیکن اب بھی خداوند کا فرمان ہے روزہ رکھ کر گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے سارے دل سے میری طرف رجوع لاؤ اپنے کپڑوں کو نہیں،بلکہ دلوں کو چاک کر کے خداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو، کیونکہ وہ رحیم اور مہربان ہے۔ وہ طویل الصبر اور نہایت شفیق ہے۔‘‘ (یو ایل۲: ۱۱۔۱۳) 

روزوں کے حوالے سے تورات کی اسی تعلیم کا عکس ہم بعض یہودی گروہوں میں دیکھتے ہیں۔ فیلوجوڈیس کے مطابق یہودی مفکرین کا ایک گروہ اپنی روحوں کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے روزے رکھتا تھا تاکہ یہ لوگ اپنے آپ کو مطالعہ اور تحقیق جیسی روحانی سرگرمیوں کی طرف بہتر طور پر مائل کر سکیں۔ اسی طرح 'Essences'نامی یہودیوں کا وہ گروہ جو اپنے پارسا استاد کے نقش قدم پر بیابانوں کی طرف چلا گیا تھا، اس کی کتاب"Manual of Discipline"میں گناہوں سے پاکیزگی اور یوم آخرت کی تیاری کے لیے روزے پر زور دیا گیا ہے۔ ۶۱؂

 

عیسائیت

یہود کے بعد اب نصاریٰ کو دیکھیے تو یہاں بھی ہمیں روزے کا وجود پوری شان سے ملتا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس دن کا روزہ رکھا تھا۔ متی کی انجیل بتاتی ہے کہ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے بھی چالیس دن رات کا روزہ رکھا تھا۔

متی میں لکھا ہے:

’’اور جب وہ چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھ چکا، آخر کار بھوکا ہوا۔‘‘(متی۴: ۲) 

عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو یہ ہدایت دی ہے:

’’اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی مانند اپنا چہرہ اداس نہ بناؤ، کیونکہ وہ منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ انھیں روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ لیکن جب تو روزہ رکھے۔ سر پر تیل لگا اور منہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں، بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے۔ تجھے روزہ دارجانے اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔‘‘(متی ۶: ۱۶۔۱۸) 

ایک موقع پر جب حواری ایک بد روح نہ نکال سکے تو انھوں نے پوچھا:

’’اس کے شاگردوں نے پوشیدگی میں اس سے پوچھا کہ ہم اسے کیوں نہ نکال سکے۔ اس نے ان سے کہا کہ یہ جنس سوائے دعا اور روزہ کے کسی طرح سے نہیں نکل سکتی۔‘‘ (مرقس۹: ۲۷۔۲۸)

عیسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کیا گیا کہ تمھارے شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے تو اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا:

’’اور یوحنا کے شاگرد اور فریسی روزہ سے تھے۔ انھوں نے آ کر اس سے کہا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ یوحنا کے شاگرد اور فریسیوں کے شاگرد تو روزہ رکھتے ہیں، لیکن تیرے شاگرد روزہ نہیں رکھتے۔ یسوع نے ان سے کہا کہ کیا براتی جب تک کہ دولہا ان کے ساتھ ہے، روزہ رکھ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ دولہا کے ساتھ ہیں، وہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ دن آئیں گے جب دولہا ان سے جدا کیا جائے گا۔ اس وقت وہ روزہ رکھیں گے۔‘‘ (مرقس ۲: ۱۸۔۲۰)

روزے کے حوالے سے یہ وہ تعلیم تھی جو عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں نے ابتداءً پائی۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیت میں روزے کو جو اہمیت ملی ہے وہ شاید کسی بھی دوسری قوم میں نہیں ملی۔ پہلی اور دوسری صدی میں عیسائیوں کے ہاں روزے کا شمار ان متعدد رسوم میں عملاً ہونے لگا تھا جن کا مقصد تقویٰ اور پرہیز گاری کا حصول تھا۔ بعد ازاں اس پر ازمنۂ وسطیٰ (Middle Age)تک عمل ہوتا رہا۔'Asectics movements'کے عروج کے زمانے میں جب یونانی عقیدۂ ثنویت بھی ان کے فکری سانچے میں ڈھلنے لگا تو اس وقت انسان کو مادی خوشیوں اور دنیوی مال و متاع سے بچا کر نیکی کی راہ پر چلانے کے لیے اور عیسیٰ علیہ السلام کی محبت کے حصول اور ان کی تعلیمات کی پیروی کے لیے روزے کو بہت مفیدسمجھا گیا اور اسے ان مقاصد کے لیے ایک اہم ذریعے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔

عیسائیت کے بعض گروہوں میں روزہ مقصد حیات تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہونے کے بجائے خود مقصد حیات بنا دیا گیا تھا۔ اس روش کو اعتدال پر لانے کے لیے بیش تر راہبانہ کتابوں میں راہبوں کو ضرورت سے زیادہ روزے رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔

آج کل عیسائیوں کے مختلف فرقے روزے کے بارے میں مختلف نقطۂ نظر کے حامل ہیں اور اس پر عمل کا طریقہ بھی ان کے ہاں مختلف ہے۔ پروٹسٹنٹ فرقے میں سوائے ان ایک دو گروہوں کے جن کا رجحان عمل سے زیادہ ایمان کی طرف ہے، روزے کو انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ رومن کیتھولک اور آرتھوڈاکس تحریک کے گرجوں میں اگرچہ انفرادی اوراجتماعی مذہبی رسوم کے ضمن میں روزے پر بہت زور دیا گیا ہے، لیکن عملی طور پر روزے کی سخت رسوم کو خیرباد کہہ دیا گیا۔ رومن کیتھولک کے ہاں 'Good Friday' اور'Ash Wednesday'کے موقعوں پر جزوی روزے رکھنے کا رجحان اب بھی پایا جاتا ہے۔ ۶۲؂

بدھ اور جمعہ کے ان روزوں کا پس منظر یہ ہے کہ عیسائی روایات کے مطابق بدھ کے دن صبح عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کیا گیا تھا اور جمعے کے دن سولی پر لٹکایا گیا تھا۔

عیسائیوں کے ہاں اور روزے بھی پائے جاتے تھے۔ مثلاً ایسٹر سے قبل وہ چالیس دنوں کے روزے رکھتے تھے۔ بہار کے موسم میں اچھی فصل کے لیے بھی روزے رکھے جاتے تھے۔ چاروں موسموں میں'Ember'کے نام سے دعا اور روزے مخصوص کیے گئے تھے۔ اسی طرح فرد یا قوم کی زندگی کے اہم مواقع، بپتسمہ، پادریوں کا تقرر، سر کا خطاب اور مقدس عشاے ربانی کو منانے کے لیے روزے رکھنے کا رجحان بھی ان میں پایا جاتا تھا۔

 

عربوں کا دور جاہلی 

اب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اہل عرب کو دیکھتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی روزے کا واضح تصور ہمیں ملتا ہے۔

’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ میں’’صوم‘‘ کے تحت مضمون نگار لکھتا ہے:

’’عربوں سے متعلق روایات میں یہ ہے کہ قریش یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس دن وہ جمع ہوتے، عید مناتے اور کعبہ کو غلاف پہناتے تھے۔ اس روزے کی توجیہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ قریش اپنے دور جاہلیت میں کوئی بڑا گناہ کر بیٹھے تھے۔ اس گناہ کا انھوں نے بڑا بوجھ محسوس کیا تو انھوں نے اس گناہ کا کفارہ دینے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے لیے یوم عاشورہ کا روزہ مقرر کیا۔ وہ اس دن یہ روزہ اس بات پر شکرانے کے طور پر رکھتے تھے کہ خدا نے ان کو اس گناہ کے نتائج بد سے بچا لیا۔ یہ بات بھی روایت کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔
ایک دوسری روایت میں اس روزے کی توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ قریش کو ایک زمانے میں قحط نے آ لیا پھر اللہ نے اس قحط سے انھیں نکال لیا تو انھوں نے خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھنا شروع کیا۔
عربوں میں روزے کے رواج ہی سے متعلق ایک واقعہ یہ روایت کیا گیا ہے کہ دور اسلام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ احمس قبیلہ کی ایک عورت زینب کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات چیت نہیں کر رہی تو آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے، یہ بات کیوں نہیں کرتی تو لوگوں نے بتایا کہ اس نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ ۶۳؂تو آپ نے اس سے کہا کہ گفتگو کر،کیونکہ یہ جائز نہیں یہ تو دور جاہلیت کا عمل ہے تو اس نے بات چیت شروع کر دی۔‘‘( ۳۳۸۔ ۳۳۹) 

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل عرب بھی روزے سے مانوس تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل وہ روزے رکھا کرتے تھے۔

اس تفصیلی مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ روزہ یعنی مذہبی بنیادوں پر کھانے پینے سے اجتناب ایک ایسا آفاقی عمل ہے جس سے مشرق و مغرب کی سب تہذیبیں اور سب مذہب متعارف رہے ہیں۔ کسی کے ہاں یہ جزوی شکل میں ہے اور کسی کے ہاں مکمل شکل میں۔ کوئی اس میں حد اعتدال سے بڑھا ہوا ہے اور اس نے عام آدمی کے لیے اسے ناممکن بنا دیا ہے اور کسی نے اسے بہت آسان بنا رکھا ہے۔ بہرحال سبھی لوگ اس مذہبی عمل سے متعارف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس مادی دنیا میں کیا ہوا۔ یہ عمل اپنے کچھ خاص غیر مادی اثرات رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری دنیا اس پر کیسے متفق ہو گئی کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا ایک مذہبی عمل قرار پا جائے۔ اس سوال کا جواب ہمیں مختلف مفکرین کے ہاں مختلف ملتا ہے۔

'Jewish Encyclopedia' میں ’’روزہ اورروزہ کے ایام‘‘ کے تحت مضمون نگار لکھتا ہے کہ روزے کی ابتدا کے بارے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ تبصرہ نگار مثلاً 'Herbert Spencer'اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ روزے کا آغاز مردوں کو کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرنے کی رسم سے پیدا ہوا ہے۔ کچھ دوسرے لوگ مثلاً 'W.R Smith'کا خیال ہے کہ یہ قربانی کا کھانا کھانے کی تیاری ہے۔ 'Smend'کے خیال میں یہ خدا کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اس کے سامنے عاجز و منکسر بن کر پیش ہونے کی ایک مذہبی رسم ہے۔ کچھ دوسرے تبصرہ نگاروں کے خیال میں اس کا آغاز اس خواہش کے تحت ہوا کہ انسان روحانی دنیا کے ساتھ رابطہ پیدا کرے۔

لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یَآاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ. لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳) 
’’ اے ایمان والو، تم پر بھی روزے فرض کیے گئے۔ جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔‘‘

یعنی روزے کا حکم سب سابقہ شریعتوں میں موجود تھا۔ چنانچہ یہ پھر انسان کا اپنا عمل ہے کہ اس نے ان شریعتوں کوبگاڑ کر ان کی شکل کچھ سے کچھ بنا دی۔

[۱۹۹۸ء]

_________

۵۵؂A Hand Book of Living Religions Under Judaism.

۵۶؂The Jewish Encyclopedia, Under Fast and Fastdays.

۵۷؂Judaism In First Centuries of Christian Era, Vol.2 Under Public Fast.

۵۸؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۵۹؂The Jewish Encyclopedia, Under Fast and Fastdays.

۶۰؂Judaism in First Centuries of Christian Era, Vol.2 Under Public Fast.

۶۱؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۶۲؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۶۳؂دور جاہلیت میں روزہ کی حالت میں عرب بات چیت سے بھی پرہیز کرتے تھے۔

___________________

B