ایمان کا پہلا تقاضاعمل صالح ہے۔ قرآن مجید نے عمل صالح کو ایمان کے لازمی تقاضے کے طور پر بیان کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖفَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ أَحَدًا.(الکہف ۱۸: ۱۱۰)
’’جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘
یعنی خدا سے ملاقات کی توقع کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ آدمی عمل صالح اختیار کرے۔ قرآن مجید میں جن مقامات پر بھی ایمان کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ اس کا ثمر بیان کرنا، اصلاً پیش نظر ہے، ان جگہوں پر بالعموم، ایمان کے ساتھ عمل صالح کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن مجید نے ایمان اور عمل صالح کے اس تعلق کو بصراحت بیان بھی کیا ہے۔
ایمان اور عمل صالح کا تعلق
ارشاد باری ہے:
إِلَیْْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ.(فاطر ۳۵: ۱۰)
’’اس کی طرف صعود کرتا ہے پاکیزہ کلمہ اور عمل صالح اس کلمے کو سہارا دیتا ہے۔‘‘
اس آیت میں پاکیزہ کلمے سے مراد ایمان ہے۔ فرمایا کہ یہ ایمان خدا کے حضور میں عمل صالح ہی کے سہارے سے بلند ہوتا ہے۔ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی اس آیت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’...کلمۂ ایمان کو جو چیز سہارا دیتی اور رفعت بخشتی ہے وہ عمل صالح ہے۔ عمل صالح کے بغیر کلمۂ ایمان مرجھا کے رہ جاتا ہے۔ گویا کلمۂ ایمان کی مثال انگور کی بیل کی ہوئی جو ہے تو بجائے خود نہایت ثمربار، لیکن اس کی شادابی و ثمرباری کا تمام تر انحصار اس امر پر ہے کہ اس کو کوئی سہارا ملے جس پر وہ چڑھے، پھیلے اور پھولے پھلے۔ یہ سہارا اس کو عمل صالح سے حاصل ہوتا ہے۔ عمل صالح ہی اس کو پروان چڑھاتا اور مثمر و بار آور بناتا ہے۔ ورنہ جس طرح انگور کی بیل سہارے کے بغیر سکڑ کے رہ جاتی ہے اسی طرح ایمان بھی عمل صالح کے بدون مرجھا کے رہ جاتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۶/ ۳۶۳)
ایمان ایک ذہنی اور قلبی عمل ہے۔ذہنی اور قلبی اعمال کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ خارج میں ان کا ظہور ہی ان کی تقویت اور ان کی زندگی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اگروہ خارج میں اپنا ظہور نہ کر سکیں تو اپنی تقویت اور زندگی کا سامان ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ وہ خود بخود کمزور پڑنے لگتے اور بالآخر ختم ہو جاتے ہیں۔ ایمان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ خارج میں اس کا ظہور اعمال صالحہ ہی سے ہوتا ہے۔ یہی اس کا تقاضا اور یہی اس کا سہارا ہیں۔ چنانچہ ان کے بغیر ایمان کی بقا محال ہے۔ درج بالا آیت میں قرآن مجید نے ایمان اور عمل صالح کے اسی تعلق کو بیان کیا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کے اس تعلق کی وضاحت کے بعد، اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عمل صالح سے کیا مراد ہے؟ کون سا عمل، عمل صالح ہے او رکسے عمل صالح قرار نہیں دیا جا سکتا ؟
استاذ گرامی جاوید احمدصاحب غامدی عمل صالح کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’’’عمل صالح‘‘سے مراد ہر وہ عمل ہے جو تزکیۂ اخلاق کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ اس کی تمام اساسات عقل و فطرت میں ثابت ہیں اور خدا کی شریعت اسی عمل کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے ۔‘‘ (دین حق ۱۹)
خدا کا کوئی کام بے مقصد اور بغیر کسی حکمت کے نہیں ہوتا۔ وہ ’الحکیم‘ ہے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے اور حکمت بھی اس درجے اور اس شان کی جو درجہ اور شان خود اس ذات بے ہمتا کو حاصل ہے۔ کسی دانش مند انسان کے بارے میں بھی یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عبث اور بے حکمت کام کرنے والا ہے، پس اللہ رب العزت کے بارے میں یہ خیال کیونکر دل میں لایا جا سکتا ہے۔اس نے یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی، بلکہ اسے ایک خاص حکمت اور خاص نظام پر استوار کیا ہے۔ چنانچہ انسان کے وہ اعمال جو خدا کی حکمت اور اس کے نظام کے مطابق ہوں، وہی اعمال صالحہ ہیں۔ عمل صالح کا لفظ ہی بتاتا ہے کہ اس سے مراد درست عمل ہے۔ خدا کی اس دنیا میں درست عمل صرف وہی ہو سکتا ہے، جو خدا کے بنائے ہوئے پروگرام اور اس کی حکمت کے مطابق ہو۔ اس کے برعکس وہ عمل جو اس کی حکمت اور ا س کے نظام کے خلاف ہو، وہ کسی صورت میں بھی درست عمل نہیں کہلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات جس حکمت پر بنائی ہے، وہی حکمت اس نے انسان کی فطرت اور اس دین میں بھی ملحوظ رکھی ہے، جو اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ ہی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل ترجیح چیز ہونے چاہییں۔ چنانچہ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت جس چیز کو پسند کرتی اور اس کا دین جس چیز کا حکم دیتا ہے، وہ انسان کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے؟
اعمال صالحہ انسان کی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ انسان درحقیقت ایک اخلاقی وجود ہے۔ اخلاق کیا ہے؟ یہ دراصل، وہ صالح رویہ ہے، جو ہم دوسروں سے اپنے لیے چاہتے اور دوسرے ہم سے اپنے لیے چاہتے ہیں۔ یہی صالح رویہ ماحول اور معاشرے کے حوالے سے ہمارا صالح عمل ہے۔ چنانچہ اگر انسان اپنی زندگی میں صالح عمل اختیار کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اصلاً، اس کا اپنا اخلاقی وجود نشو و نما پاتا ہے۔ یہ صرف انسان کی اخلاقی نشو و نما ہی کا معاملہ نہیں، اس کے روحانی پہلو کو دیکھیے یا سماجی اور معاشرتی پہلو کو، ہر اعتبار سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں صالح اعمال ہی اختیار کرے۔ یہی اعمال اس کی روح کو بالیدگی عطا کرتے ہیں اور انھی کی بنا پر وہ حیوانی سطح سے بلند ہو کر ملکوتی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ یہی اسے سماجی اور معاشرتی پہلو سے ترقی دے کر ایک متمدن اور مہذب انسان بناتے ہیں۔ وہ اگر ان سے گریز کر کے اعمال بد اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے پورے ماحول ہی کے ساتھ جنگ نہیں کرتا، اپنے وجود اور اپنی ذات کے ساتھ بھی جنگ کرتا ہے اور جنگ بھی ایسی کہ جس کے نتیجے میں، محض اس کا معاشرہ ہی فتنہ و فساد میں مبتلا نہیں ہوتا، خود اس کی نفسیات بھی بگڑتی اور فطرت بھی مسخ ہوتی ہے۔ یہ اعمال بد ہی ہیں، جو ایک انسان کو حیوان اور درندہ بنا دیتے ہیں۔ پھر انسان شر کا پیکر اور بدی کا وجود بن جاتا ہے۔ جس طرح نیک اعمال ایمان کی نشو و نما کا باعث بنتے ہیں، اسی طرح برے اعمال بالآخر فطرت انسانی ہی کو بگاڑنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ صرف اعمال صالحہ ہیں، جو فطرت انسانی کی سلامتی کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہی اسے ان اعلیٰ مدارج تک پہنچاتے ہیں، جن کی تمنا انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے۔
فرد سے آگے بڑھ کر معاشرے اور اجتماعیت کو دیکھیے۔ اس دنیا میں اعلیٰ تہذیب و تمدن اور پرامن معاشرت کی واحد بنیاد یہی اعمال صالحہ ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی اعلیٰ تہذیب و تمدن اور پر امن معاشرت ان کے بغیر و جود میں آسکے۔ کسی تہذیب یا کسی معاشرت میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو وہ انسانوں کے اعمال ہی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ انسانوں کے اعمال اچھے ہوں گے تو اس میں خیر و صلاح ہو گی۔اور اگر ان کے اعمال برے ہوں گے تو اس میں فتنہ و فساد ہو گا۔ چنانچہ ہم اگر کسی معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے افراد کو صالح اعمال اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔
خدا کی وہ سنن جن کے مطابق وہ رسولوں کے مخاطبین کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، وہ بھی انسان سے یہی کہتی ہیں کہ اگر تم اچھائی اختیار کرو گے تو خدا کو اپنے حق میں مہربان پاؤ گے۔
فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗکَانَ غَفَّارًا. یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْْکُم مِّدْرَارًا. وَّیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہَارًا. مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا.(نوح ۷۱: ۱۰۔۱۳)
’’اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو (نیک عمل اختیار کرو)۔ بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے چھاجوں مینہ برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا اور تمھارے واسطے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔ تمھیں کیا ہو گیا ہے، تم اللہ کے لیے کسی شان کی توقع نہیں رکھتے۔‘‘
یہ اس دنیا میں خاص رسولوں کی قوموں کے بارے میں خدا کی سنت کا بیان ہے ۔ عام مسلمانوں کی کوئی اجتماعیت بھی اگر خدا سے اپنے لیے خیر اور بھلائی کی توقع کرنے کی حق دار ہوتی ہے تو اسی وقت جب وہ اجتماعی سطح پر نیک عمل اختیار کر کے خدا سے اپنے معاملے کو درست کر لیتی ہے۔
خدا نے اس کائنات کو اتنا جامع بنایا ہے کہ اس میں انسان کی فطرت، خدا کا دین اور انسان کے حوالے سے خدا کا نظام، تینوں ایک دوسرے سے بالکل ہم آہنگ ہیں۔ ان تینوں کو جس زاویے سے بھی دیکھیے، یہ انسان سے ایک ہی تقاضا کرتے ہیں کہ وہ عمل صالح اختیار کرے۔ اس کی فطرت کی آواز بھی اسے عمل صالح ہی کی طرف بلاتی ہے، اس کے ماحول اور معاشرے کا بھی اس سے یہی تقاضا ہے اور خدا کا دین، اس کی تو آواز ہی یہی ہے۔ چنانچہ اس کائنات میں ہرطرف اور ہر جانب سے ایک ہی تقاضا ہے، جو انسان سے کیاجا رہا ہے، یعنی یہ کہ وہ عمل صالح اختیار کرے۔
یہ سب باتیں تو عمل صالح کے فلسفہ و حکمت سے متعلق تھیں۔ اب ایک نظر، یہ بھی دیکھیے کہ پروردگار عالم نے انسان کی اخروی زندگی کے حوالے سے، عمل صالح کو کیا اہمیت دی اور کیسی اہمیت دی ہے؟
آخرت کے حوالے سے عمل صالح کی اہمیت
ارشاد باری ہے:
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖفَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا.(الکہف ۱۸: ۱۱۰)
’’جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے بہت سادہ اور واضح الفاظ میں یہ بتا دیا کہ اگر انسان قیامت کے دن خدا سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اور اپنے اندر اس کے سامنے جواب دہی کا احساس رکھتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک عمل اختیارکرے۔ وہاں پر یہی اس کے کام آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا انسان کی جس آزمایش کے لیے بنائی ہے، وہ یہی ہے کہ اس دنیا میں انسان خدا سے غیب میں رہتے ہوئے، جذبات و خواہشات میں گھر کر بھی اپنی فطرت کے مطابق، نیک عمل اختیار کرتا ہے یا نہیں۔ قرآن مجید نے یہ بات بھی واضح طور پر بتا دی ہے کہ خدا سے ملاقات کی تیاری یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی صالح اعمال میں گزارے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی صالح اعمال میں بسر نہیں کرتا تو گویا وہ خدا سے ملنے کی امید ہی نہیں رکھتا، کوئی شخص اگر خدا سے ملاقات ہی کی امید نہیں رکھتا تو گویا وہ ایک اندھا اور بہرا شخص ہے، جسے اتنی بڑی حقیقت ہی معلوم نہ ہو سکی۔ یہ شخص اندھا اور بہرا کیونکر ہوا، اسے حق کیوں دکھائی نہ دیا، اس کے اپنے دل نے بھی اس سے کوئی بات نہ کی اور اس اتنی بڑی کائنات نے بھی اسے کچھ نہ سمجھایا، اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اس پر ضرور غور ہونا چاہیے۔ مگر آپ یہ دیکھیے کہ حق کو مان کر عمل صالح اختیار کرنے والوں سے ان کا پروردگار کیا کہہ رہا ہے، وہ انھیں کیسے کیسے تسلی دیتا اور ان سے کیا کیا وعدے کرتا ہے۔انھیں کس کس بات کا یقین دلاتا اور کس کس طرح سے انھیں اپنی مہربانیوں کی طرف بلاتا ہے۔ وہ ان کا مالک ہے، قادر مطلق ہے، بے نیاز ہے، پر کتنا مہربان ہے۔ وہ انھیں اپنی بہت بڑی رحمت کی طرف بلاتا ہے۔
ارشادہوتا ہے:
کُلٌّ إِلَیْْنَا رَاجِعُوْنَ. فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖوَإِنَّا لَہٗکَاتِبُوْنَ. (الانبیاء ۲۱: ۹۳۔۹۴)
’’ہر ایک کو ہماری طرف لوٹنا ہے۔ پس جو عمل صالح اختیار کرے گا اور وہ مومن بھی ہو تو (وہ مطمئن رہے) اس کی کاوش کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور ہم اس کے نیک اعمال کو لکھ رہے ہیں۔‘‘
فرمایا:
وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخَافُ ظُلْماً وَّلَا ہَضْمًا.(طہٰ ۲۰: ۱۱۲)
’’اور جو شخص بھی نیک عمل کرے گا اور وہ مومن ہو تو اس کے لیے کسی ظلم اور زیادتی کا خوف نہ ہو گا۔‘‘
اس کائنات کا مقتدر شہنشاہ انسان کو یہ تسلی دیتا ہے کہ وہ اس دنیا میں جاری آزمایش کے اصول سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو، نیک عمل قیامت کے دن رائگاں نہیں جائیں گے۔ انھیں گن گن کر لکھا جا رہا ہے، یہ سب کچھ اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ ان کا بدلہ دینا مقصود ہے۔ کیا ہم آخرت کی ابدی مسرتیں حاصل کرنے کے لیے اپنی اس عارضی زندگی میں نیک اعمال اختیار نہیں کریں گے؟
نیک اعمال پر ملنے والا انعام کیا ہے۔ قرآن مجید میں اس مضمون کی کئی آیات ہیں، ان میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں:
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗحَیَاۃً طَیِّبَۃً.(النحل ۱۶: ۹۷)
’’جو کوئی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو اس کو ہم پاکیزہ زندگی بسرکرائیں گے۔‘‘
وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰٓءِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا.(النساء ۴: ۱۲۴)
’’اور جو نیک عمل کرے گا، مرد ہو یا عورت، اور وہ مومن ہو تو وہی ہیں، جو (ابدی) جنت میں داخل کیے جائیں گے اور ان کی ذرا بھیحق تلفی نہ ہوگی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے صورت حال کی تصویر کھینچتے ہوئے، قرآن مجید میں اپنا وہ خطاب بیان کیا ہے جو آخرت میں وہ جنتیوں سے فرمائیں گے:
یَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْْکُمُ الْیَوْمَ وَلَآ أَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ. اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا بِآیَاتِنَا وَکَانُوْا مُسْلِمِیْنَ. اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَ. یُطَافُ عَلَیْْہِم بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّأَکْوَابٍ وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْیُنُ وَأَنْتُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ. وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ أُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ. (الزخرف ۴۳: ۶۸۔۷۲)
’’اے میرے بندو، اب تم پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے، (تم) جو ایمان لائے ہماری آیتوں پر اور فرماں بردار رہے۔ جنت میں داخل ہو جاؤ، تم اورتمھارے ہم عقیدہ، تم شاد کیے جاؤگے۔ ان کے سامنے سونے کی تشتریاں اور سونے کے پیالے پیش کیے جائیں گے، اور ان میں وہ چیزیں ہوں گی جو دل کو پسند اور آنکھوں کے لیے لذت بخش ہوں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ اور یہ وہ جنت ہے، جس کے تم وارث بنائے گئے، اپنے اعمال کے صلے میں۔‘‘
پروردگار نے اپنے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے، کیا کیا انداز بیان اختیار نہیں کیا، وہ فرماتا ہے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۷)
’’پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان، ان کے اعمال کی جزا میں، ان کے لیے چھپا رکھا ہے، اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔‘‘
لا محدود قوتوں کا مالک، وسیع و عریض کائنات کا خالق، ہمارا خدا ہمیں ابدی جنتوں کی طرف بلاتا ہے۔ وہ انسانوں کو اپنی رحمتوں سے نوازنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کی یہ جنتیں اور یہ رحمتیں ضرور حاصل کریں۔ وہ انھیں یہ رحمتیں نیک اعمال کے صلے میں دے گا۔ وہ نیک اعمال جو انھوں نے دنیا کی اس مختصر اور تیزی سے گزرتی ہوئی زندگی میں کیے ہوں گے۔ خدا کی یہ بات انسان کے لیے کوئی اجنبی بات نہیں۔ اس دنیا میں بارہا یہ اس کے سامنے آئی ہے۔ جن لوگوں نے بھی اس پر سچے دل سے لبیک کہا۔ انھوں نے پھر اپنی زندگی اسی کے مطابق ڈھال لی۔
آج سے کئی صدیاں پہلے خدا کی اسی بات کا آوازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بلند کیا تھا۔ وہ لوگ جنھوں نے اسے قبول کیا، تاریخ نے انھیں اپنے حافظے میں صحابۂ رسول کے نام سے یاد رکھا۔
اعمال صالحہ کو اجزا میں تقسیم کیا جائے تو یہ تین بنتے ہیں۔ عبادات، اخلاق اور معاملات۔ خدا سے ملاقات کی تیاری کرنے والے یہ لوگ،جنھیں دنیا رسول اللہ کے صحابہ کہتی ہے، اعمال صالحہ کے ان تینوں اجزامیں، ہر اعتبار سے اور ہر پہلوسے، اتنا آگے بڑھے، اتنا آگے بڑھے کہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے عزیمت کا معیار بن گئے۔ وہ اس دنیا میں آسمان ہدایت کا ستارہ قرار پائے۔ انھیں دنیا ہی میں وہ چیز مل گئی، جو لوگوں کو آخرت میں ملے گی۔ اللہ نے اس دارالامتحان ہی میں انھیں مژدۂ کامیابی سنا دیا اور وہ ان سے راضی ہوا۱۔ ان کا احساس دیکھیے، سراپا نصیحت۔ ان کی فکر مندی دیکھیے، سراپا تذکیر۔ ان کا تذکرہ دلوں کو گرماتا ہے۔ ان کے واقعات عزائم کو بیدار کرتے ہیں۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لائے تھے۔ ایمان لانے کے بعد، پھر یہ کبھی شک میں نہیں پڑے۔ انھوں نے زندگی بھر اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیا کہ ان کا ایمان ایمان خالص ہے۔ اعمال صالحہ کو انھوں نے اپنی زندگی کی پہلی ترجیح بنا لیا۔ یہ اس راہ کی ہر آزمایش اور ہر امتحان میں پورے اترے۔ زندگی کے جس مرحلے پر بھی نظر ڈالیے، رسول اللہ کے یہ ساتھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر گھڑی اور ہر موقع پر ان نیک اعمال میں مصروف نظر آتے ہیں، جن کی طرف اللہ اور اس کے رسول نے دعوت دی ہے۔
ان کی عبادات کو دیکھیے، قرآن مجید ان کی عبادت کی مدح کرتا ہے:
تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ.(الفتح ۴۸: ۲۹)
’’تم جب دیکھو گے، انھیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں سرگرم پاؤ گے۔ سجدوں کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں، جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔‘‘
شدید نامساعد حالات میں صحابہ کے ایمان لانے پر اور دین کی راہ میں جاں گسل جد و جہد کرنے پر قرآن مجید ان کی تعریف کرتا ہے اور انھیں ملنے والے اجر کو بیان کرتا ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آوَوْا وَّنَصَرُوْٓا أُولٰٓءِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآءُ بَعْضٍ... أُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقّاً لَّہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ. (الانفال ۸: ۷۲۔۷۴)
’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے جان ومال سے جہاد کیااور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی، یہی لوگ باہم دگر ایک دوسرے کے حامی و مدد گار ہیں... یہی لوگ پکے مومن ہیں۔ ان کے لیے آخرت میں مغفرت اور باعزت روزی ہو گی۔‘‘
دوسروں پر اپنا مال خرچ کرنے میں ان کو دیکھیے۔ اس میں بھی وہ اس حد کو جا پہنچے، جو انسانی استطاعت کی آخری حد ہے۔ ہجرت کے موقع پر انصار مدینہ نے جس ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا، قرآن مجید اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے:
وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْوَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ أُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖفَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. (الحشر ۵۹: ۹)
’’اور جو لوگ پہلے سے ٹھکانے بنائے اور ایمان استوار کیے ہوئے ہیں، وہ ان لوگوں کو دوست رکھتے ہیں، جو ہجرت کر کے ان کی طرف آ رہے ہیں۔ اور جو کچھ انھیں دیا جا رہا ہے، اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں محسوس کر رہے ہیں اور وہ ان کو اپنے اوپر ترجیح دے رہے ہیں، اگرچہ انھیں خود بھی احتیاج ہو۔ اور جو خود غرضی سے محفوظ رکھے گئے تو درحقیقت، وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
تجارت میں ان کی دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ ان کی تجارت لوگوں کو ان کے دین کی طرف بلاتی تھی۔ ان کا کسی سے معاملہ کرنا، کسی سے لین دین کرنا، اسے بتا دیتا تھا کہ حق اور انصاف کسے کہتے ہیں، ایمان داری کیا ہوتی ہے، تقویٰ اور خدا خوفی کس چیز کا نام ہے اور تجارت اور لین دین میں خدا کو یاد رکھنا کیا ہوتا ہے۔ غرض زندگی کے جس میدان میں بھی دیکھیے اور جس شعبے پر بھی نظر ڈالیے، یہ ایمان والے ہر جگہ اور ہر موقع پر خدا کی خوشنودی کو اپنا واحد مقصد بنائے، اعمال صالحہ ہی کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔
صحابہ کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ زمانہ صالحین سے خالی ہو گیا تھا۔ گزری ہوئی ان چودہ صدیوں میں امت میں کتنے ہی ایسے لوگ پیدا ہوئے، جن کا سب سے بڑا مسئلہ صالح زندگی اختیار کرنا تھا۔ نیکی اور خیر کے راستے میں وہ دوسروں کے لیے چراغ راہ بنے۔ ان کے واقعات کو پڑھیے تو صحابہ کے دور کو یاد دلاتے ہیں۔ ہم طوالت سے گریز کے پیش نظر صرف صحابہ ہی کے تذکرے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ صالح اعمال ہر دور اور ہر زمانے کے لوگوں کے لیے، ان کی سب سے اہم ضرورت رہے ہیں، لیکن ان کی طرف وہی لوگ بڑھے جو خدا سے ملاقات کی امید رکھتے تھے۔ آج بھی جو خدا سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں، ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اس دنیا میں نیکی اور خیر کی زندگی اختیار کریں۔ خدا کی رحمتوں کے دروازے آج بھی کھلے ہیں، جس کا جی چاہے آگے بڑھے، وہ اپنے لیے کوئی راستہ بند نہیں پائے گا۔
انسان اگر خدا کی طرف نہیں بڑھتا، اس کی بات نہیں مانتا، اس غیور کی رحمت سے لا پروائی اختیار کرتا اور دنیا میں سرکش بن کر رہتا ہے تو کیا اسے بے فکر رہنا چاہیے، اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ کامل اور لازوال اقتدار والے خدا نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ انسانوں میں سے اپنے فرماں برداروں اور اپنے نافرمانوں کو ضرور الگ الگ کرے گا اور اس کے ہاں یہ طے ہے کہ وہ ان دونوں کے ساتھ ہرگز ایک جیسا سلوک نہیں کرے گا۔
قیامت کے دن ارشاد ہو گا:
وَامْتَازُوا الْیَوْمَ أَیُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ. (یٰسین ۳۶: ۵۹)
’’اور اے مجرمو، آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ۔‘‘
اور قیامت ہی کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
أَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَا یَسْتَوٗنَ. أَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوٰی نُزُلاً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. وَأَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَأْوَاہُمُ النَّارُ کُلَّمَآ أَرَادُوْٓا أَنْیَّخْرُجُوْا مِنْہَآ أُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖتُکَذِّبُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۸۔۲۰)
’’تو کیا وہ جو مومن ہے اس شخص کی مانند ہو جائے گا، جو نافرمان ہے! دونوں یکساں نہیں ہو سکتے! جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ان کے لیے راحت کے باغ ہیں، جو ان کو ان کے اعمال کے صلے میں اولین ضیافت کے طور پر حاصل ہوں گے۔رہے وہ جنھوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب جب وہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کریں گے، اسی میں دھکیلے جائیں گے۔ اور کہا جائے گا: اب اس دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھو، جس کی تم تکذیب کرتے رہے تھے۔‘‘
سچ بات ہے،خدا بہت مہربان ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی جناب میں اچھے اور برے برابر ہو جائیں۔ نیک اور بد یکساں قرار پائیں۔ فرماں برداروں اور نافرمانوں میں کوئی فرق ہی نہ ہو۔ یہ خدا کے عدل، اس کی حکمت اور اس کی رحمت، ہر چیز سے بعید ہے۔ خدا کا عدل ایسا نہیں کہ حق اور باطل میں فرق ہی نہ کرے، اس کی حکمت ایسی نہیں کہ خیر و شر میں امتیاز ہی نہ کرے اور اس کی رحمت ایسی نہیں کہ ظالم اور مظلوم میں تمیز ہی نہ کرے۔ یہ انسان کی غلط فہمی ہے اور بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ جب وہ ظالم ہوتا ہے تو خدا سے اپنے لیے اس نظر کرم کی توقع کرتا ہے، جو اس کے ہاتھوں ستم اٹھانے والے کا حق ہوتی ہے۔
پروردگار نے بات ہر طرح سے واضح کر دی ہے۔ اس نے انسان کا وہ پچھتاوا بھی بیان کر دیا جو اسے آخرت میں نیک اعمال سے لاپروائی کے نتیجے میں لا حق ہو گا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ضرور یہ جان لیں کہ آخرت میں اگر آدمی اعمال صالحہ کے ساتھ نہ گیا تو اس پر وہاں کیا بیتے گی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کی وہ بات، جو وہ قیامت کے دن کہیں گے، نقل کرتے ہوئے فرمایا:
نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ.(الاعراف ۷: ۵۳)
’’(ہے کوئی صورت کہ) ہم دوبارہ دنیا میں لوٹائے جائیں تاکہ اس سے مختلف عمل کریں جو پہلے کرتے رہے ہیں۔‘‘
ایک موقع پر فرمایا:
وَلَوْ تَرٰٓی إِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُ وْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً... فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا إِنَّا نَسِیْنَاکُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۲۔۱۴)
’’کاش، تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے:) اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، ہمیں اب یقین آ گیا ہے، اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں.. . (ان سے کہا جائے گا:) اب چکھو اس بات کا مزہ کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلائے رکھا، ہم نے بھی اب تمھیں نظرانداز کر دیا ہے۔ اب تم اپنے اعمال کی پاداش میں ہمیشگی کا عذاب چکھو۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً غَیْْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآءَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ.(الفاطر ۳۵: ۳۷)
’’وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہمیں یہاں (دوزخ) سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔ (انھیں جواب دیا جائے گا:) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی، جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو لے سکتا تھااور تمھارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔ اب مزہ چکھو، ظالموں کا یہاں کوئی مدد گار نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ یہ زندگی نصیحت پکڑنے کے لیے کافی ہے۔ جسے فی الواقع برائی سے باز آنا ہے اور نیک راہ اختیار کرنی ہے، اس کے لیے دنیوی زندگی کا یہ وقفہ بہت ہے۔ اگر اس میں اس نے نصیحت نہیں پکڑی اور نیک اعمال کی طرف نہیں لپکا تو گویااس نے اپنے بارے میں یہ فیصلہ دے دیا کہ وہ غیب میں رہتے ہوئے، خدا سے ڈرنے والا نہیں ہے، وہ آج اس کی تنبیہ سے خبردار ہونے والا نہیں ہے۔ وہ اس سے ملاقات کی تیاری میں اپنا وقت کیوں صرف کرے۔ اس کے لیے حق کوئی ماننے کی چیز نہیں۔ برائی کوئی نفرت کرنے کی چیز نہیں اور اچھائی کوئی اختیار کرنے کی چیز نہیں۔ وہ دوزخ میں چیخے گا، پر اس کی چیخ کی کوئی پروا نہ کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ دوزخ سے نکلے، دوبارہ دنیا میں آئے، نیک عمل کرے اور خدا سے ملاقات کی تیاری کرے، پر اس کی بات مانی نہ جائے گی۔ وہ اپنے بارے میں خدا کو یقین دلانا چاہے گا، لیکن اس کا خالق اور اس کا مالک اس کی بات نہیں مانے گا ،اور اس سے کہہ دے گا:
قَالَ اخْسَءُوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِ. (المومنون ۲۳: ۱۰۸)
’’وہ فرمائے گا: دفع ہو ، اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔‘‘
خدا نے ہر پیرایۂ بیان میں یاد دہانی کر دی ہے۔ ہر طرح سے بات سمجھا دی ہے۔ ہر انداز اور ہر اسلوب سے حقیقت واضح کر دی ہے۔ خدا مبہم بات نہیں کرتا۔ اس کی کوئی بات مبہم نہیں۔ اب یہ ہم پر ہے، سرتاسر ہم پر ہے کہ ہم کس فردا کی تلاش میں ہیں،کیا انجام چاہتے ہیں، کس مستقبل کی تمنا ہم جی میں پالتے اور عزائم میں ڈھالتے ہیں۔ آج نہ جنت کا راستہ بند ہے نہ دوزخ کا۔ دونوں کی راہیں کھلی ہیں۔ آج کسی پر کوئی روک نہیں۔ کل کسی کو کوئی دوش نہ دے۔ ہر ایک اپنا ہی کیا پائے گا۔ اپنا ہی بوجھ اٹھائے گا۔ اپنا ہی بویا کاٹے گا۔ آج خدا کی بات کے مخاطب ہم ہیں۔ آج یہ بات ہم سے ہو رہی ہے۔ آج قرآن ہم سے مخاطب ہے، آج حدیث رسول ہم سے بات کرتی ہے۔ گزرے ہوئے کل میں اس کا رخ ان لوگوں کی طرف تھا، جو کل موجود تھے، آج نہیں ہیں۔ وہ اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں۔ ان میں سے جن لوگوں نے خدا کی بات ہی نہ مانی، وہ نہ ایمان لائے، نہ نیک عمل اختیار کیا، وہ بھی اس کے پاس چلے گئے۔ ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ خدا کے پاس جانے سے انکار کر دیتے۔ وہ خدا کے پاس چلے گئے۔ کس لیے؟ اپنے گناہوں اور اپنی نافرمانیوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے۔ انھیں اب یہ بوجھ اٹھانا ہی ہو گا۔ اور جنھوں نے خدا کی بات مانی، ایمان لائے اور نیک عمل اختیار کیا، وہ بھی خدا کے پاس چلے گئے۔ کس لیے؟ اپنے عمل کا پھل کاٹنے کے لیے۔ خدا کی نعمتیں پانے کے لیے۔ کون اندازہ کر سکتا ہے، ان صالح اعمال والوں کی خوش نصیبی کا۔ اور کون خیال کر سکتا ہے، ان بد اعمال لوگوں کی بد نصیبی کا۔ زمین نے دونوں کو اپنی آغوش میں اور تاریخ نے اپنے اوراق میں سمیٹ لیا۔ تاریخ کے یہ اوراق ہم سے آج ان کی داستان کہتے ہیں۔ جو چاہتا ہے نصیحت حاصل کرلے۔ جو چاہتا ہے نصیحت حاصل کرلے۔ یہ زمین کل قیامت کے دن خداوند سے اپنی داستان کہے گی۔ جو نیکی اور بدی اس کی پشت پر کی گئی ہے، سب کہہ ڈالے گی۔ پھر لوگوں کا حساب ہو گا۔ وہ وقت دور نہیں، بہت جلد آنے والا ہے۔ اس کائنات کا مالک ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دینے کے لیے بلائے گا۔ جو اس وقت کی فکر کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ ہرگز دیر نہ کرے،اپنے آپ کو اپنے رب کے سپرد کر دے اور اس سے ملاقات کی تیاری کے لیے نیک اعمال میں لگ جائے۔
[۱۹۹۷ء]
__________
۱لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ. (الفتح ۴۸:۱۸)
____________________