رسول کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مقدر کر دیا گیا تھا کہ آپ کو جزیرہ نماے عرب میں سیاسی غلبہ حاصل ہو۔ اس غلبے کے حصول کے لیے شرک کے علم برداروں سے جنگ ناگزیر تھی، لیکن جنگ رسول کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کر دیتی ہے۔ وہ یہ کہ اس سے پیدا ہونے والی نفسیات انسان کے لیے قبول اصلاح کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناگزیر جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انتقامی نفسیات کو محبت، خیر اور بھلائی کے جذبوں میں بدل دینے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس سلسلے میں آپ نے عربوں کی معاشرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ہر وہ اقدام کیا جس سے آپ کو ذرا بھی اصلاح کی توقع ہوئی۔
آپ کی انھی کوششوں میں یہ تدبیر بھی شامل تھی کہ آپ مختلف قبائل میں نکاح کے ساتھ ان کے ساتھ رشتہ داری پیدا کرلیں۔ یہ تدبیر، دراصل، آپ نے عرب کی مخصوص معاشرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیار کی۔ آپ جس ملک میں غلبۂ دین کی یہ جدوجہد کر رہے تھے، وہاں قبائلی طرز کی معاشرت، اپنی خاص روایات کے ساتھ موجود تھی۔ ان روایات میں جہاں بہت کچھ غلط تھا، وہاں بعض ایسے پہلو بھی تھے، جو اپنے اندر بہت خیر رکھتے تھے۔ انھی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ عرب رشتۂ مصاہرت کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کے ہاں دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے مابین قربت و محبت کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا تھا۔ داماد سے جنگ کرنا اور محاذ آرائی کرنا ان کے ہاں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تدبیر ممکن تھی کہ آپ مختلف خاندانوں میں نکاح کرکے عداوتوں کو ختم کر دیں اور ان سے پختہ تعلقات قائم کرلیں۔ ظاہر ہے کہ اس غرض کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نکاح کیے، وہ محض سیاسی اور ملی مصالح کے تحت کیے تھے۔ ان سے نکاح کے عام مقاصد آپ کے پیش نظر ہی نہ تھے۔
آپ کی ازدواجی زندگی کے مطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ سیاسی اور ملی مصالح کے پیش نظر آپ نے چار خواتین حضرت جویریہ، حضرت ام حبیبہ، حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہن سے نکاح کیا۔ ان خواتین کے ساتھ آپ کے نکاح کرنے کی تفصیل اس طرح سے ہے:
ان میں سے پہلی خاتون حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہیں، جو ۵ہجری میں امہات المومنین میں شامل ہوئیں۔ یہ قبیلۂ بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔ اس قبیلے کا پیشہ راہ زنی تھا۔ انھوں نے وہ حق قبول کرنے سے انکار کر دیا، جو خدا کا رسول لایا تھا۔ ۵ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلۂ بنو مصطلق کے لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ ان سے مقابلے کے لیے صحابہ کو لے کر نکلے۔ جنگ ہوئی، اللہ اور اس کا رسول غالب رہے۔ بنو مصطلق کی ایک کثیر تعداد گرفتار ہوئی۔ ان اسیران جنگ میں جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ یہ جس صحابی کے حصے میں آئیں، ان سے انھوں نے مکاتبت۱۱کر لی، لیکن آزادی کے لیے جورقم چاہیے تھی، وہ میسر نہ تھی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اس رقم کے لیے آپ کے در سخاوت پر دستک دی۔ میدان جنگ میں غالب رہنے والا میدان سخاوت میں غالب تر تھا۔ آپ نے نہ صرف زرمکاتبت ادا کر دیا، بلکہ انھیں اپنی طرف سے پیغام نکاح بھی دیا۔ جو یریہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کر لیا اور آزاد ہونے کے بعد آپ کی زوجیت میں آگئیں۔
پیغمبر کی نگاہ بہت دور رس ہوتی ہے۔ جویریہ حریم رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوئیں۔ مسلمانوں نے بنو مصطلق کے سب قیدی آزاد کر دیے اور یہ کہا کہ یہ اب رسول اللہ کے سسرالی رشتہ دارہیں۔انھیں کوئی قیدی بنائے تو کیسے، یہ لوگ تو قابل احترام ہیں۔ اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ قبیلۂ بنو مصطلق کے سبھی لوگ مسلمان ہو گئے۔ رسول اللہ کی تلوار نے جس سرکش مدمقابل کو مغلوب کر دیا تھا، آپ کے اخلاق نے اسے آپ کا ہم رکاب بنا دیا۔
۶ہجری میں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا آپ کی زوجیت میں آئیں۔ یہ رشتے میں آپ کے چچا کی پوتی تھیں اور اسلام لانے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھیں۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت یہ بھی اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ ہجرت کر گئیں۔ وہاں ان کے شوہر نے عیسائیت اختیار کر لی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ میں پڑی ہوئی اس بے سہارا خاتون کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حبشہ کے حکمران نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ام حبیبہ سے کر دیا۔ ان کا والد ابو سفیان ایک عرصے سے مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنی زوجیت میں لے آئے تو عرب معاشرے کی اس اخلاقی خوبی نے اپنا کام دکھایا اور ابو سفیان کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا۔ اب وہ اپنے داماد کے مقابل میں آنے سے گریز کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا مدمقابل حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ جہاں دلیل اور استدلال کارگر نہیں ہوا، وہاں نبی کی وہ سیاسی تدبیر جو ا س نے اخلاقی برتری کے ساتھ اختیار کی ، کامیاب رہی۔
۷ہجری میں حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما امہات المومنین میں شامل ہوئیں۔
مسلمانوں کے ساتھ کفار کی جتنی جنگیں بھی ہوئیں، ان سب میں یہود خفیہ یا علانیہ شامل ہوتے رہے۔ حالانکہ قرآن مجید کے مطابق، یہود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پہچانتے تھے جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ مگر کدورت اور حسد جب حد سے بڑھ جاتے ہیں تو پھر استدلال بے کار ہو جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ہجری میں یہود کی شرارتوں کا قلع قمع کرنے کی غرض سے خیبر کا رخ کیا۔ خدا کا رسول ، جس کے لیے غلبہ مقدر تھا، اس نے خیبر فتح کر لیا۔ یہودی مغلوب ہو گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ تلوار جسم کو مغلوب کرتی ہے، دل کو نہیں۔
حضرت صفیہ خیبر کے اسیران جنگ میں شامل تھیں اور یہود کے ایک بڑے سردار کی بیٹی تھیں۔ جب قیدی تقسیم کیے گئے تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئیں۔ آپ نے اس بات کو خلاف احسان و مروت سمجھا کہ سردار کی بیٹی کو لونڈی بنا کر رکھا جائے۔ چنانچہ آپ نے انھیں آزاد کر دیا اور ان کی مرضی سے ان کے ساتھ نکاح کر لیا۔ آپ چاہتے تو انھیں زندگی بھر لونڈی کی حیثیت سے رکھ سکتے تھے، لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں کیا، بلکہ انھیں نہایت عزت کا مقام دیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ گئیں تو اس کے بعد یہود مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا وہ خاتون ہیں، جنھوں نے اپنے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ ان کی پہلی شادی حویطب بن عبدالعزیٰ سے ہوئی تھی۔انھوں نے انھیں طلاق دے دی۔ پھر ان کی شادی ابورہم بن عبدالعزیٰ سے ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا اور یہ بیوہ ہو گئیں۔ ان کی ایک بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت میمونہ اپنی بہن ام الفضل کے پاس آ گئیں اور اپنے آیندہ نکاح کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اختیار دے دیا کہ جہاں مناسب سمجھیں، ان کا نکاح کر دیں۔ ۷ہجری میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سفارش کی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی زوجیت میں قبول کر لیا۔
اس نکاح میں فریضۂ رسالت کے حوالے سے کیا حکمت مضمر تھی، اسے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ۷ہجری کے اس دور کو ذہن میں لایا جائے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کی پیش کش کو قبول فرمایا تھا۔ یہ وہ دور تھا، جب قریش مکہ کا زور اصلاً ٹوٹ چکا تھا، لوگوں کے اسلام لانے میں اب ایک ہی رکاوٹ باقی رہ گئی تھی اور یہ رکاوٹ وہ بدگمانیاں تھیں، جو قریش کے سرداروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں ایک عرصے سے لوگوں میں پھیلا رکھی تھیں۔اب یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کو باہم اختلاط اور میل جول کا کچھ بھی موقع مل گیا تو ان کی وہ بدگمانیاں ختم ہو جائیں گی۔ قریش ہر اعتبار سے اس بات کے خواہاں تھے کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کے مابین کوئی ربط و ضبط پیدا نہ ہو۔ انھوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط میں خاص طور پر یہ لکھوایا تھا کہ مکہ کا کوئی رہنے والا اگر بھاگ کر مدینہ چلا گیا تو مسلمان اسے لازماً واپس کر دیں گے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال یہ چاہتے تھے کہ اہل مکہ اور مسلمانوں میں ربط و ضبط کی صورت پیدا ہو۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے خاندان والے مکہ کے با اثر لوگوں میں سے تھے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آپ کے بھانجے تھے۔ اہل نجد کا سردار زیاد بن مالک الہلالی آپ کا بہنوئی تھا۔ یہ وہ صورت حال تھی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ ازواج مطہرات میں داخل ہوئیں تو کچھ ہی عرصہ بعد خالد بن ولید بھی اسلام لے آئے اور اہل نجد جنھوں نے ایک زمانے میں اتنا سنگین جرم کیا تھا کہ ستر مسلمان مبلغین کو اپنے علاقے میں دعوت دین کے لیے بلا کر دھوکے سے قتل کر دیا تھا، ان کے لیے اب اپنی دشمنی اور مخالفت پر قائم رہنا مشکل ہو گیا۔ وہ اب رسول اللہ کے قرابت دار تھے۔ پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ انھوں نے اپنی وفاداریاں اسلام اور اہل اسلام کے لیے خاص کر دیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آنے والی آخری خاتون تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے علاوہ، ایک لونڈی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
۷ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلاطین عرب و عجم کو اسلام کی دعوت دی۔ مقوقش شاہ مصر نے آپ کے نامۂ مبارک کے جواب میں غور و فکر کا وعدہ کیا اور آپ کی خدمت میں کچھ تحائف بھیجے۔ حضرت ماریہ قبطیہ انھی تحائف میں شامل تھیں۔ روایات میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں بھیجنے کے لیے مقوقس شاہ مصر کا خاص انتخاب تھیں۔ مصر سے مدینہ آتے ہوئے راستے ہی میں جب انھوں نے اسلام کی تعلیمات سنیں تو مسلمان ہو گئیں۔
تاریخ و سیرت کی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دن تک آپ کے پاس لونڈی کے طور پر رہیں۔ آپ نے انھیں آزاد نہیں کیا۔
ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ کئی سوالات پیدا کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ نے انھیں آزاد کیوں نہیں کیا، حالانکہ آپ نے لوگوں کو ’فک رقبۃ‘ (لونڈی غلاموں کو آزاد کرو)کی تعلیم دی ہے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس رویے سے غلامی کے ادارے کی ایک گونہ حمایت ثابت نہیں ہوتی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی انصاف پسند، مہربان، نرم دل اور فیاض شخصیت نے یہ کیسے گوارا کر لیا کہ ایک عورت آپ کے پاس لونڈی کے طور پر رہے؟ نو بیویوں کی موجودگی میں اس ایک لونڈی کو رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر اپنے پاس رکھنا ایسا ضروری تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں آزاد کرکے اپنے نکاح میں بھی تو لا سکتے تھے، آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟
ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے اور ایک لونڈی کی حیثیت سے رہنے کے بارے میں آج جتنے اشکالات بھی پیدا ہوتے ہیں، وہ آج کے اس دور کی پیداوار ہیں، اب جبکہ غلامی کو ختم ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اور انسان اس کے خلاف ایک ردعمل کی نفسیات میں ہے۔ ردعمل کی نفسیات زاویۂ نگاہ کو حقیقت پسندانہ نہیں رہنے دیتی۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج کے انسان کے لیے علمی سطح پر بھی اس دور کی حقیقی صورت حال کا اندازہ کرنا اور اس دور کے مسائل کو سمجھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اب یہ بات اس کے حلق سے نیچے اترتی ہی نہیں کہ خدا کے نبی کے گھر میں کسی لونڈی کا ایک لمحے کے لیے موجود ہونا بھی درست ہو سکتا ہے اور اس میں بھی کوئی حکمت ہو سکتی ہے، لیکن اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے، اس دور کی حقیقی صورت حال، اس دور کے مسائل اور وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری، ان سب کا صحیح اندازہ لگایا جائے اور انھیں سمجھا جائے تو آدمی بخوبی یہ جان لیتا ہے کہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں لونڈی کی حیثیت سے موجود رہنے میں کتنی بڑی حکمت پنہاں تھی اور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی کا کوئی فیصلہ بھی حکمت سے خالی اور اس کی شان سے فروتر نہیں ہوتا۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ عربوں کے ہاں غلامی کی صورت حال کیا تھی اور اسلام نے اس کے خاتمے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی ہے۔
غلامی کا تصور عرب معاشرے کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔ گھر گھر میں غلام موجود تھے۔ غلاموں کی آزادانہ تجارت ہوتی تھی۔ جس طرح اونٹ اور بھیڑ بکریاں رکھنا اس معاشرے میں پایا جاتا تھا، اسی طرح وہاں غلام بھی رکھے جاتے تھے۔ غلام رکھنا کسی درجے میں بھی کوئی برائی نہ سمجھی جاتی تھی۔ پورا معاشی اور معاشرتی نظام غلاموں کے سر پر چل رہا تھا۔ یہ صورت حال صرف عرب ہی کی نہ تھی، بلکہ پوری دنیا کی فضا یہی تھی۔
اسلام نے غلامی کے اس ادارے کو ختم کرنے کے لیے ترغیب اور تدریج۱۲کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلامی کی اصل جڑ غلاموں میں نہیں، بلکہ معاشرے کے ہر اس فرد میں تھی، جسے انسان کا آقا بننا بھاتا تھا۔ اور وہاں پوری کی پوری سوسائٹی اسی طرح کی تھی۔ جب ساری سوسائٹی بگڑ جائے تو پھر قوت اور جبر سے اصلاح ناممکن ہوتی ہے۔
چنانچہ اسلام نے غلامی کی جڑ پر اس طرح ضرب لگائی کہ اس نے غلاموں کو اخلاقی اعتبار سے آزادآدمی کے بالکل برابر کھڑا کر دیا اور بہت شدت سے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دی اور پھر یہ کہا کہ جو خود کھاؤ، وہی انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو، وہی انھیں پہناؤ۔ معاشرے میں ان کے رتبے کو ہر ممکن طریق سے بلند کیا۔ اس صورت حال میں جبکہ صرف ترغیب اور تدریج ہی سے غلامی کو ختم کیا جا سکتا تھا، اسلام کے سامنے دو ہدف تھے۔ ایک یہ کہ غلامی کی اصل جڑ اکھاڑ دی جائے اور دوسرے یہ کہ جب تک غلام معاشرے میں موجود رہیں، انھیں ہر ممکن طریق سے بہتر سے بہتر حالات مہیا کیے جائیں۔
ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ یہ تھا کہ یہ ان خواتین کے دائرے میں آتی ہی نہیں تھیں، جن سے نکاح کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھا۔ آپ صرف اس لونڈی کو آزاد کرکے نکاح کر سکتے تھے جو مال فے میں سے ہو اور وہ آپ کے حصے میں آئی ہو، ماریہ قبطیہ کا معاملہ یہ نہ تھا۔ یہ ایک حکمران کی طرف سے آپ کو تحفے کے طور پر ملی تھیں۔ اور سورۂ احزاب میں بیان کردہ قانون کے تحت یہ آپ کے لیے صرف لونڈی ہی کی حیثیت میں جائز تھیں۔۱۳
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو لونڈی ہی کی حیثیت سے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔
نبی اپنے معاشرے میں موجود مسائل کے بارے میں بہت بیدار مغز ہوتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے صرف ایک پیغام بر بن کر ہی نہیں آتا کہ اس کے ذمہ دعوت کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہ ہو، وہ اپنے ماننے والوں کے لیے معلم اور مربی بھی ہوتا ہے۔ وہ ان کا تزکیہ بھی کرتا ہے اور ان کی تربیت بھی۔ اس کا کردار اپنے پیروکاروں کے لیے اسوہ ہوتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توحید کی دعوت دی ’فک رقبہ‘ کی ترغیب دی، غلاموں کی آزادی کو بعض گناہوں کا کفارہ قرار دیا، ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ انھیں مخاطب کرنے کے لیے معاشرے کو باوقار اسلوب سکھایا اور پھر یہاں تک کیا کہ انھیں حق مکاتبت دے دیا تو بے شک اس کے نتیجے میں بتدریج غلامی کی اصل بنیادیں ڈھیتی چلی گئیں، لیکن ظاہر ہے کہ تدریج کے اس دور میں لونڈی اور غلام معاشرے میں بہرحال موجود رہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے حسن سلوک اور برابری کا برتاؤ کرنے کی مسلسل ترغیب دیا کرتے تھے۔ اس معاملے میں آپ کا رویہ ایک ناصح اور مصلح کا تھا۔ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے وجود نے آپ کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ آپ غلامی کے اس عبوری دور میں غلاموں کے ساتھ جس حسن سلوک کا مطالبہ دوسروں سے کرتے ہیں، خود اس کا نمونہ بن کر دکھائیں۔ حسن سلوک کا یہ مطالبہ محض ایک مطالبہ نہ تھا، بلکہ انسانوں کے ذہن سے اس نفسیات کو کھرچ کھرچ کر نکالنے کا عمل تھا، جس کی بنا پر کوئی انسان، اپنے ہی جیسے ایک انسان کو غلام بنانے پر تیار ہو جاتا ہے۔ ماریہ قبطیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لونڈی کی حیثیت سے رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس تعلق نے ایک لونڈی کی تحریم کو اسی مقام پر فائز کر دیا جس پر امہات المومنین فائز تھیں۔ ا ب امت کے لیے اس لونڈی کی تکریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم ہے۔
حضرت ماریہ قبطیہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک وہ اسوۂ حسنہ قرار پایا جس نے لونڈیوں اور غلاموں کے لیے سبھی اعلیٰ اخلاقی رویوں کا استحقاق عملاً ثابت کر دیا۔ خدا کے رسول نے اپنی تعلیم، اخلاق اور عمل سے ابن آدم کو مجبور کر دیا کہ اگر گردش زمانہ نے اس کے پاس اس کے اپنے ہی باپ کی اولاد کو غلام بنا کرلا کھڑاکیا ہے تو بہرحال، یہ اس پر لازم ہے کہ جو خود پہنے وہی اسے پہنائے، جو خود کھائے وہی اسے کھلائے اور جیسا رویہ وہ اپنے مالک حقیقی سے خود اپنے لیے چاہتا ہے، ویسا ہی رویہ وہ اس غلام کے ساتھ اختیار کرے جو آج اس کے ماتحت ہے۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے نکاح بھی کیے، وہ مختلف حیثیتوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے کیے۔
آپ نے پچیس (۲۵) سال سے تریپن (۵۳) سال کی عمر تک کا زمانہ ایک ہی زوجۂ محترمہ کی رفاقت میں گزارا پھر چون (۵۴) سال کی عمر میں جو کہولت کی انتہا اور بڑھاپے کی ابتدا ہوتی ہے، محض معاشرتی ، ملی اور دینی مصالح کے پیش نظر آپ کے ہاں تعدد ازواج کا یہ سلسلہ شروع ہوا اور پانچ ہی سال میں آپ نے اوپر تلے نو نکاح کیے۔
کوئی شخص بھی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تعدد ازواج کے حوالے سے قرآن مجید اور حدیث و سیرت کا بغور مطالعہ کرے گا تو وہ ان سب حکمتوں کو آسانی سے جان لے گا جنھیں ہم نے اس مضمون میں بیان کیا ہے۔ ہر شخص خود یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ’’خلق عظیم‘‘ پر فائز اس رسول کی زندگی کیسی شریفانہ اور پاکیزہ گزری ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار کیا بھی کیسے جا سکتا ہے، یہ وہی نبی ہیں، جن سے کہا گیا تھا کہ اپنی دعوت میں کچھ مصالحانہ رویہ اختیار کر لیں، ہم آپ کو عرب کی سب سے حسین خاتون جو آپ کو پسند ہو، اس سے بیاہ دیتے ہیں۔ آپ کے قدموں میں دولت کا اتنا ڈھیر لگا دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے امیر آدمی بن جائیں، آپ کو اپنا بادشاہ مان لیتے ہیں، حالانکہ ہم کسی کو بادشاہ ماننے والے نہیں ہیں، لیکن خدا ے بے نیاز کے اس نیاز مند کی دنیا سے بے نیازی کا یہ حال تھا کہ زندگی بھر اپنی زبان ہی سے نہیں اپنے عمل سے بھی کہتے رہے کہ میرا مسئلہ دنیا کے بادشاہوں کی طرح دولت، حسن اور اقتدار نہیں۔ میں تو اپنے خدا کی طرف رواں دواں ایک مسافر ہوں، اس دنیا میں میری ذمہ داری بس یہی ہے کہ میں تمھارے رب کی طرف جانے والی راہ سے تمھیں آگاہ کر دوں اور میرے پروردگار نے میرے ذمے جو کام لگائے ہیں، انھیں انجام دے دوں۔
جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تعدد ازواج پر اعتراض کیا ہے، ان کا معاملہ یہ رہا ہے کہ انھیں حقیقی صورت حال جاننے سے کبھی دل چسپی نہیں رہی، بلکہ اس سے انھوں نے ہمیشہ اپنی آنکھ اور اپنے دماغ کو بند ہی رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ حق پر طعن و تشنیع اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے کہ آدمی دیکھنے کے موقعے پر آنکھ اور سمجھنے کے موقعے پر دماغ بند کرلے۔
_________
۱۱ مکاتبت سے مراد یہ ہے کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنے آقا سے خود ہی اپنی قیمت ادا کرکے آزادی حاصل کرلینے کا معاہدہ کر لے۔
۱۲ اسلام نے غلاموں کو یک قلم آزاد کرنے کا حکم نہیں دیا۔ آج جبکہ دنیا سے دور غلامی ختم ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے، انسان یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس دور میں کیا کیا مسائل در پیش تھے۔ اب اس دور اور اس ماحول میں بیٹھ کر بعض لوگ ہمیں یہ بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ زیادہ اچھا ہوتا اگر اسلام پہلے ہی دن غلاموں کو یک قلم آزاد کرنے کا حکم دے دیتا۔ ان کا خیال ہے کہ اگر اس طرح کا حکم دیا جاتا تو ہم پورے فخر سے یہ کہہ سکتے کہ اسلام نے غلامی کو ایک دن بھی گوارا نہیں کیا۔ اب ہمیں کم از کم یہ ضرور ماننا پڑتا ہے کہ اسلام نے غلامی کو گوارا کیا ہے، بلکہ کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اسلام غلامی کو ساتھ ساتھ لے کر چلا ہے۔
یہ خیال اور یہ تصور جو بعض لوگوں نے قائم کر رکھا ہے، بس حقائق سے ناواقفیت ہی کی بنا پر قائم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام اگر اس دور میں جبکہ غلامی انسان کی نفسیات کا ایک اہم جزتھی، کوئی معاشرہ غلامی کے ادارے کے بغیر قائم ہی نہ رہ سکتا تھاجبکہ ساری معیشت غلاموں کے سر پر چلتی تھی اور غلاموں کے بغیر کسی معاشرتی’set up‘کا کوئی تصور ہی نہ تھا، ایسی صورت میں اسلام اگر غلاموں کو یک قلم آزادی کا حکم دے دیتاتو نہ صرف انسان کا معاشی اور معاشرتی’set up‘تباہ ہو کر رہ جاتا، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار غلاموں اور لونڈیوں کے ہاتھوں سے جن کی اخلاقی تربیت کبھی بھی کسی معاشرے کا مسئلہ نہ رہی تھی، جرائم کی دنیا میں جو کچھ وجود میں آتا، اس کا آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کسی معاشی اور معاشرتی’ set up‘کو یک قلم توڑ دینے کا خیال شاید دنیا کا سب سے احمقانہ خیال ہے۔ معلوم نہیں کہ اسلام جو سرتاسر دانائی کا مذہب ہے، اس سے ایسی توقع کیوں کی جاتی ہے۔
۱۳ اس قانون نکاح میں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نازل ہوا تھا، ماریہ قبطیہ’الا ما ملکت یمینک‘ کے تحت آتی ہیں۔ پروردگار عالم نے خود اس ماحول اور اس معاشرے میں موجود بعض حقیقی مسائل اور بعض حقیقی ضرورتوں کے پیش نظر لونڈیوں کو جائز قرار دیا تھا۔لہٰذا اس بات کا تو کوئی سوال ہی نہیں کہ لونڈی رکھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی عار کی بات ہو یا یہ آپ کی شان سے فروتر ہو۔
____________