نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت، چار مختلف حیثیتوں سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ آپ کی پہلی حیثیت ایک بشر کی ہے، دوسری نبی کی، تیسری خاتم النبیین کی اور چوتھی حیثیت رسول کی ہے۔ آپ پر ان سب حیثیتوں کے اعتبار سے ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں۔ یہ ذمہ داریاں آپ کی ازدواجی زندگی سے بھی ایک خاص تعلق رکھتی تھیں۔ قرآن مجید میں ان کا ذکر پوری وضاحت سے کیا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مختلف حیثیتوں کے حوالے سے آپ کی یہ ذمہ داریاں کیا تھیں۔
اس حیثیت سے آپ کی ذمہ داری بھی وہی تھی، جو کسی بھی فرد بشر کی ہوتی ہے اور آپ کی ضروریات بھی وہی تھیں، جو ہر بشر کی ہوتی ہیں۔ سب بشری تقاضے آپ کو بھی لاحق تھے۔ خورونوش، نکاح اور اولاد کی طبعی ضرورت، آپ بھی اسی طرح رکھتے تھے، جیسے سب انسان رکھتے ہیں۔
اس حیثیت سے آپ کو وہ ذمہ داری ادا کرنی تھی جو آپ سے پہلے آنے والے انبیا کی رہی ہے۔ انبیا کی یہ ذمہ داری سورۂ بقرہ میں بیان ہوئی ہے۔ ارشاد باری ہے:
کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَأَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ.(۲: ۲۱۳)
’’لوگ ایک ہی امت تھے (پھر جب انھوں نے دین کے بارے میں باہم اختلاف کیا) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا بھیجے، جو خوش خبری سناتے اور خبردار کرتے ہوئے آئے اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی، قول فیصل کے ساتھ تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں، ان میں فیصلہ کر دے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اس دنیا میں انبیا کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ لوگوں کو دین میں اختلاف کرنے کے نتائج بد سے آگاہ کریں اور حق پر قائم رہنے والوں کو کامیابی اور نجات کی خوش خبری سنائیں۔ وہ ان نبیوں کو کتابیں عطا فرماتا ہے۔ یہ کتابیں حق، یعنی قول فیصل کے ساتھ اترتی ہیں تاکہ وہ ان تمام نزاعات کا جو دین حق میں پیدا کر دی گئی ہیں، فیصلہ کرکے ازسر نو حق کو اجاگر کر دیں۔ اور اس طرح خدا کا دین پھر سے پوری طرح واضح ہو جائے۔ یہ سب کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انجام دینے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کو پوری طرح واضح کر دینے کی یہ ذمہ داری جو ڈالی گئی تھی، وہ اگر اس مرحلے میں پہنچ جاتی ہے کہ لوگوں کو باقاعدہ اس کی تعلیم دینے اور ان کی تربیت کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس موقع پر یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ خواتین، جو تعداد میں مردوں کے برابر ہی ہوتی ہیں اور انھی کی مانند خدا کی شریعت کی مکلف بھی ہوتی ہیں، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہتر سے بہتر کیا صورت ممکن ہے، کیونکہ عورتوں کے لیے ان معاملات میں جو عورتوں ہی کے ساتھ خاص ہیں کوئی مرد، درحقیقت اسوہ بن ہی نہیں سکتا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورتیں اپنی فطری شرم و حیا کی وجہ سے ، اپنے معاملات میں کسی مرد سے (خواہ وہ خدا کا رسول ہی ہو) آسانی کے ساتھ رہنمائی حاصل نہیں کر سکتیں۔ لہٰذا عورتوں کی تعلیم و تربیت کی یہی صورت ممکن نظر آتی ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ سے براہ راست تعلیم و تربیت حاصل کریں اور نبوت کی ذمہ داری میں آپ کی معاون بنیں۔ سورۂ احزاب میں ازواج نبی کو اسی بات کی طرف متوجہ کیا گیا۔ چنانچہ فرمایا:
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ.(الاحزاب۳۳: ۳۲)
’’اے نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو (بلکہ نبی کی بیویاں ہونے کی وجہ سے امت کی خواتین کے لیے نمونہ ہو)۔‘‘
اور اس کے بعد فرمایا:
وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ .(الاحزاب۳۳: ۳۴)
’’(اے نبی کی بیویو) تمھارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تعلیم ہوتی ہے، اس کا چرچا کرو۔‘‘
ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی کچھ ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ مختلف خواتین کے آپ کے نکاح میں آنے کی حکمتیں خواہ مختلف ہوں، لیکن نکاح کے بعد آپ کی سب ازواج مطہرات کا اصل کردار یہی تھا کہ وہ آپ کے مشن میں آپ کی معاون بنیں۔
خاتم النبیین ہونے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری تھی کہ آپ دین و شریعت کو ہر طرح سے مکمل کردیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول آنے والا نہ تھا۔ لہٰذا آپ پر نبوت کی ذمہ داری، اپنی آخری اور انتہائی شکل میں ڈالی گئی تھی۔ آپ کے لیے یہ ضروری تھا کہ آپ دین و شریعت کو ہر پہلو سے مکمل کر دیں۔ یہ تکمیل آپ کو علم کے اعتبار سے بھی کرنی تھی اور عمل کے اعتبار سے بھی۔ دین کے نام پر جو تصورات عرب معاشرے میں رائج تھے، ان کی اصلاح بھی آپ کے ذمہ تھی اور وہ باطل رسوم و رواج جو عربوں کے ہاں دینی اور اخلاقی اقدار بن چکے تھے، ان کا قلع قمع کرنا بھی آپ کا فرض تھا۔
کسی معاشرے میں غلط رسوم و رواج اور باطل تصورات ، جب معاشرتی اقدار بن جائیں تو لوگ ان کے خلاف سوچنے اور عمل کرنے میں نفسیاتی او رطبعی رکاوٹیں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے معاملات میں صرف زبانی احکام سے اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے۔ اور یہ ضروری ہوتا ہے کہ کوئی بڑی شخصیت، جس کے بارے میں کلام کی گنجایش نہ ہو، وہ آگے بڑھے اور ان غلط رسوم و رواج اور باطل تصورات کی بیخ کنی کر دے۔
رسول کی حیثیت سے آپ پر جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی، اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ نبی اور رسول، دونوں کی ذمہ داریوں کا فرق واضح کیا جائے۔ نبی کی ذمہ داری تو محض دین پہنچا دینا، حق واضح کر دینا اور اختلاف کا فیصلہ کر دینا ہے جبکہ رسول جس قوم میں مبعوث ہوتا ہے، اس میں وہ خدا کی عدالت بن کر آتا ہے۔ وہ پہلے ایک نبی کی طرح اپنی قوم پر حق واضح کرتا اور اس حق کی دعوت دیتا ہے ، پھر اس سے آگے بڑھ کر وہ اس قوم پر اتمام حجت بھی کرتا ہے۔ اگر اس کی قوم ایمان لے آئے تو وہ اس پر خدا کا دین نافذ کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کی تکذیب کر دے تو پھر اتمام حجت کے بعد، رسول اپنی قوم سے ہجرت کر جاتا ہے اور خدا کی طرف سے اس قوم پر موت کی سزا نافذ کر دی جاتی ہے۔ اس سزا کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی تکذیب کرنے والوں کے لیے دو حالتوں میں سے کوئی ایک حالت ضرور ظاہر ہوتی ہے۔ اگر رسول کے ساتھیوں کی تعداد قلیل ہو تو برا ء ت و ہجرت کے بعد، رسول کے بستی سے نکلتے ہی، آسمانی آفات اس بستی پر مسلط کر دی جاتی ہیں جو اسے بالکل تباہ کر دیتی ہیں۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود پر نازل ہونے والے عذاب، اسی قسم کے تھے، لیکن اگر رسول کے ساتھی مناسب تعداد میں ہوں اور اسے ہجرت کے بعدکسی جگہ سیاسی اقتدار بھی حاصل ہو جائے تو پھر رسول کی تکذیب کرنے والوں پر یہ عذاب اس کے ساتھیوں کی تلواروں کے ذریعے سے آتا ہے۔ یہ رسالت کا وہ قانون ہے ، جس کی طرف قرآن مجید نے ’لاغلبن انا ورسلی‘۱کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے۔
چنانچہ رسول ہونے کی حیثیت سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم پر اتمام حجت کرنا تھا اور آپ کی دعوت کو لازماً اس مرحلے پر پہنچنا تھا کہ آپ کی قوم آپ پر ایمان لے آئے یا آپ کی تکذیب کے نتیجے میں عذاب خداوندی کی مستحق ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق اپنے رسول کو اس کی قوم پر غالب کر دے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مشن سونپا گیا تھا، وہ محض اپنی قوم پر اتمام حجت کر دینے تک محدود نہ تھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر، آپ کو اپنی قوم پر سیاسی غلبے کی جدوجہد بھی کرنا تھی، آپ کے بارے میں یہ پیشین گوئی کر دی گئی تھی کہ آپ کو جزیرہ نماے عرب پر سیاسی اقتدارحاصل ہو گا۔قرآن مجید میں یہ پیشین گوئی ان الفاظ میں موجود ہے:
ہُوَ الَّذِیْٓ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗبِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗعَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.(الصف۶۱: ۹)
’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو (جزیرہ نماے عرب) کے تمام دینوں پر غالب کر دے۔‘‘
اس غلبے کے حصول کے لیے شرک کے علم برداروں سے جنگ ناگزیر تھی، لیکن جنگ رسول کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کر دیتی ہے۔ وہ یہ کہ اس سے پیدا ہونے والی نفسیات قبول اصلاح کے ذہن کو آخری حد تک مجروح کر دیتی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو ابن آدم کو فصل نہیں، وصل؛ قطع رحمی نہیں، صلۂ رحمی؛ تخریب نہیں، تعمیر اور فساد نہیں، اصلاح کا درس دینے کے لیے آئے تھے، انھوں نے اس ناگزیر جنگ کے نتیجے میں پید اہونے والی انتقامی نفسیات کو محبت، خیر اور بھلائی کے جذبوں میں بدل دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس سلسلے میں آپ نے عربوں کی خاص معاشرت اور ان کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر وہ اقدام کیا، جس سے آپ کو ذرا بھی اصلاح و خیر کی توقع ہوئی، کیونکہ آپ اصلاً ایک مصلح تھے، نہ کہ جنگجو۔
اب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان مختلف حیثیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، آپ کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔
_______
۱ المجادلہ ۵۸: ۲۱۔’’میں اور میرے رسول، لازماً غالب رہیں گے۔‘‘
____________