سوال: نفع و نقصان میں شراکت کے تصور سے کی گئی سرمایہ کاری پر ملنے والا منافع اگر سود نہیں تو بنک میں جمع شدہ رقم پر ملنے والے منافع کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے، جبکہ بنک کے دیوالیہ ہو جانے کا امکان ہوتا ہے اور ایسی صورت میں رقوم جمع کرانے والوں کو بنک کے ساتھ نقصان میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر بنک کے ڈپازٹ ایک خاص حد سے کم ہو جائیں، تب بھی اکاؤنٹ ہولڈرز کو کچھ گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس صورت میں یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ اکاؤنٹ ہولڈرز بنک کے نفع و نقصان میں شریک ہیں اور انھیں ملنے والا منافع سود نہیں ہے؟ (محمد عامر چوہدری)
جواب: بنک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے کاروبار میں نفع و نقصان کی شرائط پر شریک نہیں کرتا، بلکہ وہ انھیں اُن کی جمع شدہ رقوم پر متعین مدت میں، متعین اضافہ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اسی کو سود اور ربا کہتے ہیں۔
بنک کے دیوالیہ ہو جانے پر اکاؤنٹ ہولڈرز کی رقموں کا ٹوٹ جانا یا ان کو نقصان ہو جانا یا اس طرح کی بعض دوسری صورتوں میں انھیں گھاٹا پڑنا، کاروبار کا نفع و نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ بنک سے متعلق افراد پر آفات و حوادث کی صورت میں ہونے والے اثرات ہیں۔ بنک بہرحال، سودی نظام پر مبنی ادارہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کیا ہوتی ہے۔ وہ نفع و نقصان کی شرائط پر لوگوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا، بلکہ سود کے اصول پر ان سے رقوم لیتا اور انھیں دیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے خود کو دھوکا نہیں دینا چاہیے۔
اسی طرح وہ سب نیشنل سیونگ اسکیمیں جو متعین رقم پر متعین مدت میں متعین اضافہ دیتی ہیں، وہ بھی ظاہر ہے کہ سود ہی دیتی ہیں۔ اسلام میں ایسی اسکیموں سے فائدہ اٹھانا حرام ہے۔ رہا کسی کا انفرادی مسئلہ کہ اس کے پاس اس حرام سے فائدہ اٹھانے کا عذر موجود ہے تو بے شک معذور اور مجبور آدمی اپنی ضرورت کی حد تک دل کے گریز اور ناپسندیدگی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
____________