سوال: آپ نے میرے کتابچے ’’کائنات کے پانچ راز‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ قرآن مجید کی واضح آیات کے مطابق موت کے بعد عالم برزخ سے کسی شخص کا دنیا میں واپس آنا ممکن نہیں ہے، لیکن درج ذیل آیات قرآن مجید کے بیان کردہ عمومی اصول میں موجود استثنا کو بیان کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ موت کے بعد عالم برزخ سے کسی شخص کا دنیا میں واپس آنا ممکن ہے، ارشاد باری ہے:
۱۔ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ. ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ. (البقرہ ۲: ۵۵۔ ۵۶)
۲۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ. (البقرہ ۲: ۲۴۳)
۳۔ اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِاءَۃَ. (البقرہ ۲: ۲۵۹)
آپ برائے مہربانی اس معاملے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کریں۔ (ڈاکٹر میاں عبدالغنی فاروق)
جواب: آپ نے برمودا مثلث سے متعلق اپنی تحقیق کی صحت پر اصرار کیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ جیسے قرآن مجید کی بعض آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ برزخ میں جانے والا کوئی شخص اس دنیا میں واپس نہیں آتا، اسی طرح بعض دوسری آیات سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس میں استثنا موجود ہے اور پھر اس استثنا کے ثبوت کے لیے آپ نے سورۂ بقرہ کی بعض آیات پیش کی ہیں۔
ہمیں آپ کے اس سارے استدلال سے اختلاف ہے۔
چنانچہ ہم انسان کے عالم برزخ سے واپس نہ آنے سے متعلق آیات اور وہ آیات جو آپ کے خیال میں اس میں استثنا کو بیان کرتی ہیں، ان سب کو ایک ترتیب سے بیان کرتے اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ ان سے کیا حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ.
عالم برزخ سے انسان کے واپس نہ آنے سے متعلق آیات درج ذیل ہیں:
حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ. لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآءِلُہَا وَمِنْ وَّرَآءِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ.(المؤمنون۲۳: ۹۹۔۱۰۰)
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کماؤں! ہرگز نہیں! یہ محض ایک بات ہے، جو وہ کہہ رہا ہے، اور ان کے آگے اُس دن تک کے لیے ایک پردہ ہو گا، جس دن وہ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘
نیز ارشاد باری ہے:
وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ.(المنافقون۶۳: ۱۱)
’’اور اللہ تعالیٰ ہرگز کسی جان کو ڈھیل دینے والا نہیں ہے، جبکہ اس (کے لیے اعمال کرنے) کی مقررہ مدت (اپنے اختتام کو) آ پہنچے۔‘‘
ان آیات میں موجود درج ذیل الفاظ:
’’جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کماؤں! ہرگز نہیں!‘‘
اور :
’’اللہ تعالیٰ ہرگز کسی جان کو ڈھیل دینے والا نہیں ہے، جبکہ اس (کے لیے اعمال کرنے) کی مقررہ مدت (اپنے اختتام کو) آ پہنچے۔ ‘‘
یہ بتاتے ہیں کہ موت کے بعد اس دنیا میں انسان کی باقاعدہ واپسی کا کوئی امکان نہیں اور اس حوالے سے اللہ نے جو قانون بنایا ہے، اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔
لیکن آپ نے اپنے خط میں فرمایا ہے کہ بے شک ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسان عالم برزخ میں جا کر واپس نہیں آ سکتا، لیکن خود قرآن مجید ہی کی بعض آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں استثنا موجود ہے اور کئی لوگوں کو موت دے کر، یعنی عالم برزخ میں لے جا کر دوبارہ اس دنیا میں واپس لایا گیا ہے اور ان میں سے ایک ہزار تو وہ ہیں جن سے ڈاکٹر ریمونڈ اے موڈی براہ راست مل چکے ہیں۔
بہرحال، اب ہم ان آیات کو دیکھتے ہیں ، جو آپ کے خیال میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہ آنے کے اصول میں استثنا پیدا کر رہی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ. ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ. (البقرہ ۲: ۵۵۔ ۵۶)
’’ اور یاد کرو جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ، ہم تمھاری بات کا ہر گز یقین نہ کریں گے، جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں۔ پھر تم کو کڑک نے آ لیا اورتم دیکھتے رہ گئے ۔ پھر تمھاری اِس موت کے بعد ہم نے تمھیں اٹھا کھڑا کیا، اِس لیے کہ تم شکر گزار بن کر رہو۔ ‘‘
ان آیات میں موجود زیر بحث مسئلے کی شرح جاوید احمد صاحب غامدی نے درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
’’... بنی اسرائیل کے مطالبے پر اللہ تعالیٰ کی تجلی ’صاعقۃ‘کی صورت میں ظاہر ہوئی اور اس نے سارے پہاڑ میں ایسا زلزلہ ڈال دیا کہ وہ بالکل بدحواس ہو کر گر پڑے ۔
عربی زبان میں موت کا لفظ ، اگر قرینہ موجود ہو تو نیند اور بے ہوشی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں جس موقع پر یہ لفظ آیا ہے اور جس طرح آیا ہے ،اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ بے ہوشی ہی کے معنی میں ہے ۔بنی اسرائیل اگرچہ اپنی سرکشی کے باعث اس کے مستحق تو نہ تھے کہ اس موت سے پھر زندگی کی طرف لوٹتے ، لیکن سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۵۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس موقع پر اس دل سوزی سے ان کے لیے معافی کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرما لیا۔‘‘(ماہنامہ اشراق، ستمبر ۱۹۹۹، ۱۲۔۱۳)
بعض دوسرے مفسرین بنی اسرائیل کے ان افراد کی موت کو حقیقی معنوں میں لینے کی گنجایش مانتے ہیں، لیکن ان کی بھی یہ مراد ہر گز نہیں ہوتی کہ ان افراد پر جب یہ موت آئی تھی تو ان کے لیے عالم آخرت کے پردے اسی طرح اٹھا دیے گئے تھے، جیسا کہ کسی بھی مرنے والے کے لیے اٹھائے جاتے ہیں، یعنی وہ فرشتوں کو دیکھ لیتا اور عالم برزخ کے احوال مثلاً، علیین اور سجیین کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
دوسری آیت کو دیکھیں:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۲۴۳)
’’کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھاجو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑکر اُن سے نکل کھڑے ہوئے ۔اِس پر اللہ نے فرمایا کہ مردے ہوکر جیو۔ (وہ برسوں اِسی حالت میں رہے) پھر اللہ نے اُنھیں دوبارہ زندگی عطا فرمائی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے ، مگر لوگوں میں زیادہ ہیں جو (اُس کے) شکر گزار نہیں ہوتے۔‘‘
ان آیات میں موجود زیر بحث مسئلے کی شرح جاوید احمد صاحب غامدی نے درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
’’اصل میں لفظ ’موتوا‘ آیا ہے ، یعنی مر جاؤ۔ یہ قومی حیثیت سے ذلت اور نامرادی کی تعبیر ہے۔ ذریت ابراہیم کے معاملے میں اللہ کا قانون یہی تھا کہ ان کے جرائم کی سزا انھیں دنیا ہی میں دی جائے گی ۔ چنانچہ جب ایمان اور عمل صالح کے بجاے انھوں نے اخلاقی بے راہ روی اور خوف و بز دلی کی زندگی اختیار کی اور اس طرح اللہ کے ساتھ نقض عہد کے مرتکب ہوئے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے بھی انھیں ذلت و نامرادی کے حوالے کر دیا۔
سموئیل میں ہے کہ بنی اسرائیل پر یہ حالت پورے بیس سال تک طاری رہی :
’’اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا ، تب سے ایک مدت ہوگئی ، یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا ۔ ‘‘ (۷: ۲)
یہ زندگی اسی قانون کے مطابق دی گئی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ بنی اسرائیل نے توبہ استغفار کرکے ازسرنو ایمان واسلام کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے صلے میں انھیں قومی حیثیت سے از سر نو زندہ کردیا اور دشمنوں کے مقابلے میں عزت اور سربلندی عطا فرمائی۔ ‘‘ (ماہنامہ اشراق، مئی ۲۰۰۳، ۶)
چنانچہ یہ زندگی اور موت قومی حیثیت سے ان کی زندگی اور موت تھی۔
بعض مفسرین نے اس موت کو حقیقی معنوں میں لیا ہے، لیکن انھوں نے اس پر کوئی بات نہیں کی کہ یہ لوگ عالم آخرت کے احوال (علیین اور سجیین) سے خبردار ہو چکے تھے اور پھر انھوں نے باقی زندگی ایمان بالغیب پر نہیں، بلکہ ایمان بالمشاہدہ پر گزاری تھی۔ اگر کسی کے لیے ایسا ہو جائے تو اس کے لیے خدا کی آزمایش کی ساری اسکیم ہی باطل ہو جاتی ہے۔
تیسری آیت کو دیکھیں:
اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِاءَۃَ. (البقرہ ۲: ۲۵۹)
’’یا اُس شخص کی مثال ہے جس کا گزر ایک بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ اُس نے حیرت سے کہا : اِس طرح فنا ہو جانے کے بعد اللہ اِسے کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا ؟ اِس پر اللہ نے اُسے سو سال کی موت دی، پھر اُٹھایا۔ (وہ اٹھا تو) پوچھا : کتنی مدت پڑے رہے؟ اُس نے جواب دیا : ایک دن یا اُس سے کچھ کم ۔فرمایا : نہیں ، بلکہ سو سال اِسی حالت میں گزر گئے۔ ‘‘
یہ ایک پیغمبر کا تجربہ ہے، لیکن اس میں بھی کہیں یہ ذکر نہیں کہ اس پیغمبر نے اس سو سالہ وفات کے دوران عالم آخرت کے مشاہدات کیے تھے، حالانکہ پیغمبر کو تو اس کی دنیوی زندگی ہی میں عالم آخرت سے متعلق بعض چیزوں کے مشاہدات کرائے جاتے ہیں۔ بہرحال، یہ آیات ان کے کسی اخروی مشاہدے کو بیان نہیں کرتیں۔
چنانچہ ہمیں اس بات پر اصرار ہے کہ قرآن مجید سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کوئی شخص مرنے کے بعد عالم آخرت کا مشاہدہ کرکے اس دنیا میں واپس آیا ہو اور اس نے عام آدمی کی طرح دنیا میں پھر سے زندگی بسر کی ہو۔
____________