HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

خلافت راشدہ میں پیداوار کی زکوٰۃ

سوال: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت سے محکمے وجود میں آ گئے تھے تو کیا انھوں نے کرایے اور معالجوں کی فیسوں پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد کی تھی، جیسا کہ غامدی صاحب کے خیال میں یہ عائد ہونی چاہیے؟ (اے کے فریدی)

جواب: اس زمانے میں تنخواہ پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد نہیں کی جاتی تھی۔ اگر بعض چیزوں پر زکوٰۃ عائد کرنا اور بعض کو اس سے مستثنیٰ قرار دینا امیر ریاست کا کام ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے تو پھر یہ لازم نہیں رہتا کہ جو کچھ وہاں موجود نہیں تھا، وہ یہاں بھی موجود نہ ہو۔ وقت اور زمانے کی تبدیلی سے حالات بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہو جاتاہے کہ نئے حالات میں شریعت کے اطلاقات کو از سر نو متعین کیا جائے۔ شریعت کے اسی اطلاق کی تعیین کے حوالے سے استاذ محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں:

’’...جو کچھ صنعتیں اِس زمانے میں وجود میں لاتیں اوراہل فن اپنے فن کے ذریعے سے پیدا کرتے اورجو کچھ کرایے ، فیس اورمعاوضۂ خدمات کی صورت میں حاصل ہوتا ہے ، وہ بھی اگر مناط حکم کی رعایت ملحوظ رہے تو پیداوار ہی ہے۔ اِس وجہ سے اِس کا الحاق اموال تجارت کے بجاے مزروعات سے ہونا چاہیے اوراِس معاملے میں وہی ضابطہ اختیار کرنا چاہیے جوشریعت نے زمین کی پیداوار کے لیے متعین کیا ہے ۔‘‘ (میزان ۳۵۳)
’’... اِس اصول کے مطابق کرایے کے مکان ، جائدادیں اوردوسری اشیا اگر کرایے پراٹھی ہوں تو مزروعات کی اوراگر نہ اٹھی ہوں تواُن پرمال کی زکوٰۃعائد کرنی چاہیے۔‘‘ (میزان ۳۵۴)

یہ درج بالا نقطۂ نظر غامدی صاحب کا اجتہاد ہے جسے وہ اپنے استدلال کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، ان کے نزدیک یہ صحیح ہے، لیکن اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔

____________

B