HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

سنت کی بنیاد

سوال: ’نومولود کے دائیں کان میں اذان بائیں میں اقامت‘ کیسے سنت ہو گئی، جبکہ اس سے متعلق احادیث تو بہت ضعیف ہیں؟ (جنید احمد)

جواب: نومولود کے کان میں اذان و اقامت سے متعلق کوئی احادیث اگر موجود ہی نہ ہوتیں تب بھی یہ عمل اگرصحابہ کے اجماع اور تواتر سے بطور سنت ثابت ہوتا تو یہ سنت ہی قرار پاتا۔ احادیث کا کسی بھی عمل کو سنت قرار دینے میں کوئی لازمی کردار نہیں ہے۔ اگر ہمارا مجموعی علمی ذخیرہ کسی عمل کو سنت قرار دے رہا ہے اور اس بات کی کوئی مخالفت اس ریکارڈ میں کہیں بھی موجود نہیں ہے، یعنی سبھی علما، سبھی فقہا، سبھی مفسر غرض جس نے بھی (اپنی کسی کتاب وغیرہ میں) اس عمل پر بات کی ہے، اس نے اس کے سنت ہونے ہی کی بات کی ہے تو اب وہ سنت ہے، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے۔

اگر ہم آپ کی یہ بات مان لیں کہ جب احادیث کی کتب مرتب ہو گئیں تو اب وہ سنت کا ماخذ بن گئیں تو اس سے ایک مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ چیز جو پہلے یقینی ذریعۂ علم، یعنی تواتر پر کھڑی تھی، وہ کتب حدیث کے وجود میں آنے کے بعد ظنی ذریعۂ علم پر کھڑی ہو گئی اور اب اس میں غلطی ہونے کا احتمال پیدا ہو گیا، جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا اور دوسرا مسئلہ یہ کہ کتب حدیث کے وجود میں آنے کے بعد امت میں موجود وہ عملی تواتر کہاں گیا، جو کہ علم کا یقینی ذریعہ تھا۔ قولی یا عملی تواتر وہ ذریعۂ علم ہے جو ہمارے سامنے یقینی حقائق کو لاتا ہے، جبکہ خبر واحد ہمیں ظن غالب دیتی ہے اور بس۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ جو کہ غامدی صاحب کی بیان کردہ اصطلاح کے مطابق سنت کے دائرے میں نہیں آتا، وہ زیادہ تر احادیث ہی کے ذریعے سے ہمیں معلوم ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سے ہمیں یقین کے درجے کا علم حاصل نہیں ہوتا۔

____________

B