سوال: سنت کا ماخذ کیا ہے؟ کیا احادیث و آثار اور روایات ہی سنت کے مآخذ نہیں ہیں؟ (جنید احمد)
جواب: سنت کا ماخذ صحابہ کا اجماع اور عملی تواتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب صحابہ نے مجموعی طور پربغیر کسی اختلاف کے فلاں فلاں عمل نبی کی جاری کردہ سنت کے طور پر امت کو دیا ہے، پھر ہر زمانے کے لوگوں نے مجموعی اتفاق سے وہی سب اعمال نبی کی جاری کردہ سنت کے طور پر اگلے زمانے کے لوگوں کو دیے ہیں۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ فلاں فلاں عمل ہر زمانے کے لوگوں نے مجموعی اتفاق سے اگلے زمانے کے لوگوں کو دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم ان سب اعمال کے بارے امت کے مجموعی علمی ذخیرے (تاریخ، حدیث، تفسیر، فقہ ، مناظرے، علمی مباحثے ، وعظ و نصیحت کی کتب غرض ہر ہر جگہ) میں یہی بات لکھی ہوئی پاتے ہیں کہ یہ اعمال نبی کی جاری کردہ سنن ہیں اور ان کے بارے میں کسی ایک زمانے میں کسی ایک دن کے لیے بھی دو مختلف آرا نہیں رہیں، ہمیشہ سے (ہر زمانے کے) سبھی لوگ اس پر متفق رہے ہیں کہ یہ سب اعمال تو سنت ہی ہیں۔ یہ معاملہ نبی کی وفات کے فوراً بعد شروع ہوا اور حیران کن بات ہے کہ آج بھی لوگ انھیں پورے تیقن کے ساتھ ایسا ہی سمجھتے ہیں، بالکل اسی طرح، جیسے وہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھتے ہیں۔
نبی کی وفات سے دو تین صدیاں بعد جب احادیث کی کتب بڑی تحقیق کے ساتھ مرتب ہوئیں اور جھوٹی احادیث کو صحیح سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ ان کتب میں ان اعمال کا ذکر نہ آتا، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کتب حدیث میں بھی ان اعمال کا ذکر آ گیا جن اعمال پر یہ امت ان کتب کے وجود میں آنے سے پہلے ہی کھڑی تھی، بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ نبی کی وفات کے فوراً بعد سے لے کر اس وقت تک کھڑی تھی، جب یہ کتب وجود میں آ رہی تھیں۔ چنانچہ یہ اعمال اپنے وجود کے لیے ان کتب حدیث کے نہ اس وقت محتاج تھے اور نہ آج محتاج ہیں۔
____________