سوال: کیا کسی مسلمان کے لیے دین میں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی غیر مسلم ریاست میں اپنی ملازمت یا اپنے کاروبار کے لیے مستقل اقامت اختیار کرے؟ (فیاض احمد)
جواب: ہمارے نزدیک دینی اعتبار سے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ اپنی ملازمت یا اپنے کاروبار کے لیے کسی غیرمسلم ریاست میں مستقل طور پر قیام پذیر ہوں، سوائے اس کے کہ آپ کے لیے وہاں اپنے دین پر قائم رہنا ہی مشکل ہو جائے۔
غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمے ’’دین حق‘‘ میں اسی مسئلے کو اس طرح سے بیان کیا ہے:
’’بندۂ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے، اُسے دین کے لیے ستایا جائے ، یہاں تک کہ اپنے اسلام کو ظاہر کرناہی اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو اُس کا یہ ایمان اُس سے تقاضا کرتا ہے کہ اُس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہو جائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن اِسے ’’ہجرت‘‘ کہتا ہے۔ زمانۂ رسالت میں جب اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے براہ راست اِس کی دعوت دی گئی تو اِس سے گریز کرنے والوں کوقرآن نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ سورۂ نساء میں ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ، قَالُوْا: فِیْمَ کُنْتُمْ ؟ قَالُوْا: کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ. قَالُوْٓا:اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا، فَاُولٰٓءِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا.( ۴: ۹۷)
’’جن لوگوں کی روحیں فرشتے اس حال میں نکالیں گے کہ (دوسروں کے ڈر سے اپنے ایمان و اسلام کو چھپا کر) وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ہوئے تھے،اُن سے وہ پوچھیں گے: یہ تم کس حال میں پڑے رہے ؟ وہ جواب دیں گے: ہم اِس ملک میں مجبور اور بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے : کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘‘‘(۷۵)
____________