سوال: کسی قوم میں رسول کے عدالت بن کر آنے کا صحیح مطلب کیا ہے؟ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں بعض جگہ یہ کہتے ہیں کہ کسی رسول کا قتل ہونا ثابت نہیں اور بعض جگہ یہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے رسولوں کی تکذیب اور قتل کے جرائم کیے تھے۔یہ متضاد بیان ذہن کو اس معاملے میں الجھا دیتا ہے۔ یہ الجھن ان کی تفسیر میں موجود درج ذیل مقامات پر پیش آتی ہے:
۱۔ ’’...رسولوں کی اس امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کو یہ مہلت نہیں دیتا کہ وہ ان کو قتل کر دیں۔ چنانچہ رسولوں میں سے کسی کا قتل ہونا ثابت نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲ / ۱۰۶)
۲۔ ’’... اللہ نے یکے بعد دیگرے اپنے بہت سے رسول اور نبی بھی بھیجے، اس عہد کو انھوں نے توڑ دیا اور جو رسول اس کی تجدید اور یاددہانی کے لیے آئے ، ان کی باتوں کو اپنی خواہشات کے خلاف پا کر یا تو ان کی تکذیب کر دی یا ان کو قتل کر دیا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
۳۔ ’’...بنی اسرائیل نے رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل کے جو جرائم کیے ان پر ان کی فوری پکڑ نہیں ہوئی تو وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب کوئی پکڑ ہو گی ہی نہیں، حالانکہ اللہ کی سنت یہ نہیں ہے کہ وہ لازماً ہر جرم کی سزا فوراً ہی دے۔ بلکہ وہ مجرموں کو ڈھیل دیتا ہے تا کہ وہ توبہ و اصلاح کر لیں اگر چاہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
(افتخار احمد)
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید ہی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نبی اور رسول کے الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ درجِ ذیل آیت اس پر نصِ قاطع ہے:
ارشاد باری ہے :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ . ( الحج۲۲: ۵۲)
’’اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی۔‘‘
اس آیت میں ’’نبی ‘‘اور’’ رسول‘‘ کے الگ الگ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ رسول الگ ہے اور نبی الگ ہے، تبھی تو دونوں کا الگ الگ ذکر کیا جا رہا ہے۔
’’رسول‘‘ اور ’’نبی‘‘ کے الفاظ جب اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں تو اس وقت ان کا کیا مفہوم ہوتا ہے اور رسول کے خدا کی عدالت ہونے کا کیا مطلب ہے، اسے واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمے’’دین حق‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’...قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن (پیغمبروں) میں سے بعض ’’نبوت‘‘کے ساتھ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر بھی فائز ہوئے تھے۔
’’نبوت‘‘ یہ ہے کہ بنی آدم میں سے کوئی شخص آسمان سے وحی پا کر لوگوں کو حق بتائے اور اُس کے ماننے والوں کو قیامت میں اچھے انجام کی خوش خبری دے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرے ۔ قرآن اِسے ’’انذار‘‘ اور ’’بشارت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے :
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ، مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ . (البقرہ۲ : ۲۱۳)
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ (اُنھوں نے اختلاف کیا ) تو اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے۔‘‘
’’رسالت‘‘ یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر فائز کوئی شخص اپنی قوم کے لیے اِس طرح خدا کی عدالت بن کر آئے کہ اُس کی قوم اگر اُسے جھٹلا دے تو اُس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اِسی دنیا میں اُس پر نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملاً اُس پر قائم کر دے :
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ ، فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُہُمْ قُضِیَ بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْطِ، وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ.(یونس۱۰: ۴۷)
’’اور ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا وہ رسول آجائے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗٓ، اُولٰٓءِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ، اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.(المجادلہ ۵۸: ۲۰۔۲۱)
’’بے شک ،وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں ، وہی ذلیل ہوں گے ۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک، اللہ قوی ہے ، بڑا زبردست ہے ۔‘‘
رسالت کا یہی قانون ہے جس کے مطابق خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے :
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ، وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ.(الصف ۶۱: ۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا کہ اُسے وہ (سرزمین عرب کے) تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ یہ بات (عرب کے) اِن مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘
اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دیتے ہیں ۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور اِس سے انحراف کریں گے تو اِس کی سزا انھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیا جاتا ہے کہ حق کی جو نشانیاں خوداُنھوں نے بچشم سر دیکھ لی ہیں، اُن کی بنیاد پر اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیں ۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ ’’شہادت‘‘ ہے ۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت ، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے اوراِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں ۔‘‘(میزان ۶۹۔۷۰)
دوسری بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ’’نبی‘‘ اور’’ رسول‘‘ کے الفاظ اپنے اصطلاحی معنوں سے ہٹ کر محض خدا کا فرستادہ، ایلچی اور پیغمبر کے معنوں میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ درج ذیل آیات اس پر نص قاطع ہیں:
’’ میں تیرے رب ہی کا پیغام بر ہوں تا کہ تمھیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں۔‘‘ (مریم۱۹: ۱۹)
اور:
’’یہ سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر،ان کا اقرار ہے کہ ہم خدا کے رسولوں میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔‘‘ (البقرہ۲: ۲۸۵)
ان دونوں آیات میں ’’رسول‘‘ کا لفظ فرستادہ ، ایلچی اور پیغمبر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ جب ’’رسول‘‘ یا ’’نبی‘‘ کا لفظ اپنے غیر اصطلاحی مفہوم میں آتا ہے تو پھر قرآن میں نبی کے لیے’’ رسول‘‘ اور رسول کے لیے ’’نبی‘‘ کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ رسولوں کے قتل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کی قوم ان کی تکذیب کر کے ان پر غلبہ پا لے اور انھیں قتل کر دے۔
اب ہم ’’تدبر قرآن‘‘ کے درج ذیل ان تینوں اقتباسات کو دیکھتے ہیں، جن میں آپ نے تضاد محسوس کیا ہے:
۱۔ ’’...رسولوں کی اس امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کو یہ مہلت نہیں دیتا کہ وہ ان کو قتل کر دیں۔ چنانچہ رسولوں میں سے کسی کا قتل ہونا ثابت نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۰۶)
۲۔ ’’... اللہ نے یکے بعد دیگرے اپنے بہت سے رسول اور نبی بھی بھیجے، اس عہد کو انھوں نے توڑ دیا اور جو رسول اس کی تجدید اور یاددہانی کے لیے آئے ان کی باتوں کو اپنی خواہشات کے خلاف پا کر یا تو ان کی تکذیب کر دی یا ان کو قتل کر دیا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
۳۔ ’’...بنی اسرائیل نے رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل کے جو جرائم کیے ان پر ان کی فوری پکڑ نہیں ہوئی تو وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب کوئی پکڑ ہو گی ہی نہیں، حالانکہ اللہ کی سنت یہ نہیں ہے کہ وہ لازماً ہر جرم کی سزا فوراً ہی دے۔ بلکہ وہ مجرموں کو ڈھیل دیتا ہے تا کہ وہ توبہ و اصلاح کر لیں اگر چاہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
ان تینوں اقتباسات میں سے پہلے میں رسالت کے بارے میں قانون کے حوالے سے بات ہوئی ہے کہ وہ قوم جس میں رسول آتا ہے، وہ اگر اس کی تکذیب کرکے اسے قتل کرنا چاہے تو خدا انھیں اس کی مہلت نہیں دیتا۔
دوسرا اقتباس جس آیت کے تحت لکھا گیا ہے، اُس میں صرف ’’رسول‘‘ کا لفظ موجود ہے اور وہ بھی غیر اصطلاحی، یعنی ایلچی اور پیغمبر کے معنوں میں ہے۔ چنانچہ مولانا اصلاحی نے بھی اس آیت کے تحت ’’رسول‘‘ اور’’ نبی‘‘ کے الفاظ مترادفات کے طور پر استعمال کیے ہیں، یعنی یہاں ’’رسول‘‘ کا لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔
تیسرے اقتباس کا معاملہ بھی یہی ہے کہ یہاں ’’رسول‘‘ کا لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔ چنانچہ اس میں موجود ’’رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل ‘‘کے الفاظ سے ان کی مراد بنی اسرائیل کے انبیا کی تکذیب اور ان کا قتل ہے، کیونکہ جس آیت کے تحت یہ شرح لکھی گئی ہے، اس میں ’’رسول‘‘ کا لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں، بلکہ خدا کے فرستادہ اور ایلچی کے معنی میں ہے۔ ہماری اس بات کی دلیل اس آیت ہی میں موجود ہے۔ ارشاد باری ہے:
’’جب بھی ان کے پاس کوئی رسول ایسی بات لے کر آیا جو ان کی خواہش کے خلاف ہوئی تو ایک گروہ کی انھوں نے تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔ ‘‘ (المائدہ ۵: ۷۰)
اس آیت میں رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کی بات بنی اسرائیل کی خواہش کے خلاف ہوتی تھی۔ظاہر ہے کہ یہ محض رسولوں ہی کا معاملہ نہیں ہوتا کہ ان کی بات انسان کی خواہش کے خلاف ہوتی ہے، بلکہ نبیوں کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ آیت میں موجود ’’رسول‘‘ کے لفظ میں رسول اور نبی دونوں کو شامل سمجھا جائے۔
____________