HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

وقوع طلاق کے بارے میں اختلاف

سوال: میں نے اپنی بیوی کو غصے میں دی ہوئی تین طلاقوں کے بارے میں علما سے فتویٰ طلب کیا تھا۔ انھوں نے مجھے یہ فتویٰ دیا کہ آپ اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے چکے ہیں، لہٰذا اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ حلالۂ شرعی کو اختیار کیا جائے۔ (عبداللہ)

جواب: آپ نے اپنے طلاق کے معاملے میں جو فتویٰ حاصل کیا ہے، وہ احناف کے نقطۂ نظر کے مطابق ہے۔ چنانچہ اس کے مطابق آپ کی بیان کردہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور آپ کی بیوی ہمیشہ کے لیے آپ پر حرام ہو چکی ہے حتیٰ کہ حلالۂ شرعی کے بعد وہ آپ سے دوبارہ نکاح کر لے۔

علماے احناف طلاق کے صریح الفاظ بولے جانے کی صورت میں آدمی کی نیت کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ بہرحال، یہ ان کا نقطۂ نظر ہے۔

استاذ محترم غامدی صاحب غصے سے مغلوب ہو کر دی گئی طلاق کو طلاق شمار نہیں کرتے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا طلاق ولا عتاق فی غلاق.(ابوداؤد،رقم۲۱۹۳)
’’غصے سے مغلوب ہو کر دی ہوئی طلاق موثر ہوتی ہے اور نہ غلام کی آزادی کا فیصلہ۔‘‘

نیز ان کے خیال میں طلاق کا لفظ بولتے وقت آدمی کی نیت طلاق کی تھی بھی یا نہیں یا یہ کہ وہ طلاق کے بارے میں کیا معلومات رکھتا ہے، یہ سب باتیں ان کے نزدیک طلاق کے کسی مقدمے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔

بہرحال، علما کے درمیان آراکایہ اختلاف موجود ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بے معنی چیز ہے۔ امید ہے یہ آپ کا مقصود بھی نہیں ہو گا۔

موجودہ صورت حال میں یہ فیصلہ آپ ہی کے ذمے ہے کہ آپ کو کس فقیہ کی راے کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر آپ ہماری راے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ دیکھ لیجیے کہ طلاق دینے والا ،طلاق دیتے وقت کیا واقعۃً غصے سے مغلوب تھا، اگر آپ اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ اس کے مطابق عمل کریں، ورنہ نہیں۔

____________

B