سوال: میں نے اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑے کے دو مختلف موقعوں میں سے ہر موقع پر محض اسے دبانے اور چپ کرانے کے لیے دو بار طلاق طلاق کے الفاظ بولے ہیں، جس کے نتیجے میں اس وقت وہ جھگڑا ختم ہو گیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں جبکہ میں نے طلاق دینے کی نیت سے طلاق کے الفاظ بولے ہی نہیں تھے تو کیا میرے ان الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی تھی؟ (عبد اللہ،جاپان)
جواب: آپ نے جو بات لکھی ہے، اگر وہ واقعۃً ایسے ہی ہے تو پھر ہمارے نزدیک ان الفاظ سے کوئی ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ ان الفاظ کا اس طرح بولنا شدید غلطی ہے۔ یہی الفاظ اگر آپ قاضی کی عدالت میں کھڑے ہو کر بولیں گے تو وہ آپ سے نیت پوچھے بغیر طلاق واقع کر دے گا، کیونکہ ان الفاظ کا ایک سنجیدہ مطلب اور طے شدہ مقصد ہے۔ اس مقصد کے بغیر انھیں بولنا ہرگز درست نہیں۔
بہرحال، ہمارے خیال میں آپ کے طلاق کی نیت کے بغیر یہ الفاظ بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آپ کو اپنی اس غلطی پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔ طلاق کے لفظ کی، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے، ایک قانونی حیثیت ہے۔ چنانچہ ان الفاظ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا کسی صورت بھی درست نہیں، لہٰذا آپ یہ عہد کریں کہ آپ آیندہ ان الفاظ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔
____________