HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

آزمایش میں کامیابی کے ذرائع (حصہ دوم)

مقصد تخلیق 

دوسری بات رافت کے پہلو سے سمجھنے کی یہ بھی ہے کہ رؤف و رحیم کی نظر تخلیق آدم کے اس مقصد پر رہتی ہے کہ اس نے اسے آزمایش کے لیے پیدا کیا ہے، نہ کہ اس دنیا میں ہمیشہ کی زندگی گزارنے کے لیے، جبکہ ہم اکثر اوقات اس حقیقت کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ 

وہ ایک ہمدرد ماں کی طرح جواپنے نالائق بچے کے مستقبل سے پریشان رہتی ہے، اسے کبھی ڈانٹتی ہے کبھی کوستی ہے،کبھی پیار سے بہلاتی پھسلاتی ہے،کبھی لالچ دیتی اور کبھی سزا کی وعید سناتی ہے۔ ذرا اس نگاہ سے ان آزمایشوں کو دیکھیے اور سوچیے کہ وہ کتنا پیار کرنے والا، کتنا خیر خواہ اور کس قدر مشکلات سے نکالنے والا ہے۔

وہ اس احمق ماں کی طرح (نعوذ باللہ) نہیں ہے جو اپنے بچے کو اس لیے چلنانہیں سکھاتی کہ کہیں گر کر اسے چوٹ نہ آجائے ۔وہ جہاں جاتی ہے، اسے گود میں لیے رہتی ہے۔ بظاہر وہ بیٹے کی ہمدرد ہے، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ اپنے بیٹے کی دشمن ہے۔ اسے بیٹے کے ان دنوں کی پروا نہیں ہے جب وہ اسے گود میں اٹھا کر کہیں نہ لے جاسکے گی۔ پھر یہی بیٹا اسے گالیاں دے گا کہ تو نے مجھے چلنا کیوں نہیں سکھایا؟ تم نے میر ے ساتھ یہ دشمنی کیوں کی؟ اور وہ اسے یہ نہ کہہ سکے گی کہ میں نے تو تمھاری ہمدردی کی تھی۔

جس ماں نے اپنے بیٹے کو پاؤں چلنے کے لیے مشکلات میں نہیں ڈالا، وہ اس وقت ہمدرد نظر آتی تھی، مگر وہ حقیقت میں ’’رؤف‘‘ نہیں تھی اور جس نے اپنے بیٹے کو بچپن میں مشکل میں ڈالا ، وہ اُس وقت سخت نظر آتی تھی ،مگر حقیقت میں وہ رؤف و ہمدرد تھی۔

ہم چونکہ بچوں کی طرح اپنے’’ مستقبل ‘‘ کو اکثر فراموش کیے رہتے ہیں، اس لیے ہمیں وہ ’’ماں‘‘ اچھی لگتی ہے، جو ہماری ’’آج ‘‘کی راحت کا خیال رکھتی ہے، جبکہ دوراندیش آدمی کو وہ ’’ماں ‘‘اچھی لگے گی ،جو اس کے ’’کل ‘‘کی راحت کو بھی ملحوظ رکھے۔ اللہ ایسی ہزار ماؤں سے بھی زیاد ہ ہمدرد ہے، اس لیے مشکل سے مشکل وقت میں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ یقیناً ہمیں ’’پاؤں چلنا ‘‘ سکھا رہے ہیں اورسیکھنے کے دوران میں ٹھوکریں تو ہمیں لگیں گی۔

رحیم

ایک نظر اب ’رحیم‘ کی صفت پر بھی ڈال لیجیے۔ رحیم اس ذات کو کہتے ہیں جو عنایت و مہربانی کرنے والی ہو۔ لوگوں کے لیے استحقاق یا بلا استحقاق نعمتیں نازل کرنے والی ہو۔ رحمت کے چند اہم پہلو سمجھنا حصو ل صبر کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت ہے کہ اس سے بعض مکاتب فکر نے عجیب و غریب فلسفے تراش رکھے ہیں ، جس کی وجہ سے بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کی نفی ہو جاتی ہے، کہ وہ کوئی بااصول ذات ہے بھی یا نہیں؟ آیئے اب رحمت کے حوالے سے چند باتیں سمجھ لیں:

سزا اور مشکلات رحمت کا حصہ ہیں

رحمت کو ایک اور پہلو سے بھی سمجھ لینا چاہیے ، عام تصور اس کے بارے میں یہ ہے کہ اس میں صرف عنایت و شفقت ہی شامل ہے، لیکن قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سزا بھی رحمت کا لازمی حصہ ہے، اس کے بغیر رحمت کا تصور تکمیل نہیں پاتا۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک ماں کے دو بیٹے ہیں۔ ایک شرارتی ہے اور دوسرا شریف اور سیدھا سادھا ہے۔ شریر بچہ کسی موقع پر شریف کو تنگ کرتا ہے تو ماں جو دونوں بیٹوں کی یکساں ماں ہے ، وہ اس طرح کے موقع پر ہمیشہ یہ نہیں کرسکتی کہ اپنے شریف بچے کو دلاسا دے کر چپ کرادے، بلکہ اسے شریر بچے کو سزا بھی دینا پڑتی ہے تاکہ شریف بچے کا دل ٹھنڈا ہو اور اسے محسوس ہو کہ دوسرے کی شرارت سے جو تکلیف اس نے اٹھائی تھی، اس کی سزا اب دوسرے کومل گئی۔ اگر وہ ماں ایسا نہ کرے تو وہ شفیق ماں نہیں ہے۔ ماں کے اس رویے سے معلوم ہوا کہ شفقت ایک بچہ کی سزا کے بغیر تکمیل نہیں پاتی۔

ٹھیک اسی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.(الانعام ۶: ۱۲) 

’’اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے، اس لیے وہ ضرور قیامت کے دن تمھیں جمع کرے گا۔‘‘

ناانصافی رحمت کے خلاف ہے

یہاں دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اکٹھا کر کے حساب کتاب کو اپنی رحمت کا تقاضا قرار دیا ہے۔ رحمت کا یہی وہ اصول ہے،جس سے عدل پھوٹتا ہے۔ چنانچہ ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ معاشرے میں ہونے والے جرائم کی سزا دی جائے تاکہ مجرمین کے لیے عبرت کے ساتھ ساتھ ،مظلو م کی داد رسی بھی ہو، اس لیے ساری دنیا اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں میں ثالثی، پنچائت، جرگہ اور عدالتیں قائم کرتی ہے تاکہ معاشرے میں عدل قائم ہو۔ اور یہ ایک ظالم معاشرہ بن کر نہ رہ جائے۔ گویا عدالتی نظام ایک رحمت ہے جس کی ساری دنیا طالب ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ قاتل اور چور کو ان کے کیے کی سزا دراصل رحمت اور تسلی کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے قوم قریش کے انجام بد کی خبر دی تو فرمایا :

قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَ یُخْزِہِمْ وَ یَنْصُرُکُمْ عَلَیْہِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ.(التوبہ ۹: ۱۴) 

’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دینا چاہتا ہے، وہ انھیں شکست و رسوائی سے دو چارکرے گا اورتمھیں ان پر غلبہ و نصرت عطا کرے گا اور اس طرح مومنین کے سینے ٹھنڈے کرے گا۔‘‘

مراد یہ ہے کہ سزا کی تکمیل صحابہ کے سینوں کی ٹھنڈک کے بغیر نامکمل ہے۔ سورۂ انعام میںیہی وجہ ہے کہ کفا ر کی جڑ کٹنے پراللہ کا شکر ادا کیا گیاہے:

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. (۶: ۴۵) 

’’سو ، اللہ پروردگار عالم کا شکر ہے کہ ظلم کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔‘‘

ظاہر ہے کہ شکر کا حقیقی موقع رحمت و عنایت ہے، اسی لیے یہاں اس عنایت پر خدا کا شکر کیا گیا ہے کہ دنیا ان لاخیروں سے پاک کر دی گئی اور اس سے مظلوموں کی داد رسی ہوئی۔

اس لیے ہمیں چاہیے کہ جب ہم پر کوئی مشکل نازل ہو تو اسے رحمت الٰہی کے خلاف نہ سمجھیں۔ اس موقع پر وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو بیماری کے موقع پر تجویز فرمایا تھاکہ اس بیماری کو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھو ۔ 

جیسا ہم نے عرض کیا کہ اللہ کی کوئی صفت کسی وقت بھی اس سے جدا نہیں ہوتی، اس لیے خیال رہنا چاہیے کہ اس کی صفت ’رحمۃ‘ اس کی صفت ’قائم بالقسط‘ سے جدا ہو کر عمل نہیں کرتی، بلکہ وہ جب رحم کرتا ہے تو کبھی بھی انصاف اور قسط کے خلاف نہیں ہوتا۔

اس کو ایک تمثیل سے سمجھیے: ایک آدمی پر اللہ کی ہر عنایت لگتا ہے کہ آسمان سے براہ راست برس رہی ہے۔ دنیا کی کوئی نعمت نہیں جو اس کے گھر میں نہ ہو، مگر اس کا کرداراور اس کا عمل نہایت سرکشی اور نہایت دین ناپسندی، بلکہ کفرکا ہے تو کیا اس پر اللہ کی رحمت قرین انصاف ہے؟

ہر آدمی جو اس دنیا میں آیا ہے، اسے فطرت ودیعت ہوئی ہے، جس میں نیکی کا شعور اس کی حلاوت اس کے لیے اجنبی نہیں ہے، اس لیے یہ دنیاطلب آدمی بھی نیکی کرتا ہے۔ اگرچہ وہ دنیا میں شہرت پانے یا محض قلبی تسکین کے لیے کرتا ہے۔ تو ’انما الأعمال بالنیات‘ (اعمال کا دورومدار نیتوں پر ہے) کے اصول پر اسے دنیا میں اس کا اجر ملنا چاہیے۔ اگر انھیں دنیا میں اجر نہ ملے اور آخرت میں بھی ان کی ان نیکیوں کا اجر نہ ملے تو یہ ناانصافی ہو گی۔ 

اس لیے اسے یہ اجر مختلف صورتوں میں دے دیا جاتا ہے : کسی کو معاشرے میں بلند منصب عطا کر کے، کسی کو شہرت یادولت دے کر کسی کو گرُو اور پیشوا بنا کر اور کسی کو مقتدر اور فرعون بنا کر، غرض جو صورتیں اس دنیا کے تنگ نائے میں ممکن ہیں ، ان سب صورتوں میں کسی کی نیکی کے مطابق اسے اجر مل جاتاہے۔ اس طرح ایک نیکی گویا ایک تدبیر کا درجہ پا کر آخرت تک جانے سے محروم ہو جاتی ہے۔

اس لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ نیکی اس طرح کرتے ہیں کہ انھیں دنیا ہی میں اجر مل جائے تو انھیں یہ اجر دنیا ہی میں مل جائے گا۔ البتہ آخرت میں ان کے حصے کچھ نہیں آئے گا۔ اس لیے دیکھیے کہ ایک بے انصافی والی ’’رحمت ‘‘ کتنا بڑا انصاف ہے۔

 

اصل مسئلہ:آخرت 

انسان ہر وقت نسیان کی وجہ سے اپنی منزل کو بھول کر راستے ہی کو منزل سمجھ لیتا ہے۔ اسے آخرت کی تیاری کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اپنی ساری مساعی اسی دنیا کو بنانے میں صرف کردیتا ہے۔ اس کے برعکس چونکہ اللہ تعالیٰ کو نسیان لاحق نہیں ہوتا، اس لیے وہ مسلسل ہماری آخرت کے لیے تیار ی کے اسباب پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایک مشکل جو بلاشبہ سنگین ہوسکتی ہے، اس پر روتے رہتے ہیں، جبکہ آخرت کی ناکامی سے بڑی مصیبت کوئی نہیں ہے۔ ہمیں اگر وہ پریشانی یاد ہو تو ہمیں دنیا کی مشکلات کبھی اتنا پریشان نہ کریں، اگر ہم انھیں اپنا زادسفر بنا لیں۔

اس لیے اللہ کے نزدیک اس دنیا کی بڑی سے بڑی تنگی بھی دوزخ کی تنگی سے بڑی نہیں ہے ۔ کسی عورت پر ظلم ہونا، اسے طلاق ہو جانا،کسی عورت کا بے اولادی کی وجہ سے بے گھر کیا جانا، ساس اور بہو کے جھگڑوں میں اس پر الزام لگنا، کسی کا کاروبار ٹھپ ہو جانا، اگر کسی کو ان میں سے گزر کر جنت ملنے والی ہو تو اللہ کے نزدیک یہ معمولی باتیں ہیں ۔ 

وہ جانتا ہے کہ ایک بیوہ، ایک مطلقہ یا ایک الزام زدہ عورت یا ظلم و ستم کا ستایا ہوا کوئی آدمی جو بھی ان آزمایشوں میں کامیاب ہو کر جنت میں آجائے گا، وہ ان مشکلات کو اپنے لیے نعمت سمجھے گا، کیونکہ اگر وہ مشکلات اس پر نہ آتیں تو وہ دوزخ کی مصیبت سے نجات نہ پاسکتا۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے: جس ماں کے تین بچے مر گئے اوروہ صابروشاکر رہی تو یہ غم اس کے جنت میں جانے کا سبب بن جائیں گے۔

اس کو بھی ماں ہی کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ ماں جب اپنے بچے کو چھری چاقو سے کھیلتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس سے وہ چاقو چھین لیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ جانتی ہے کہ اس وقت چھری سے محروم ہونا اتنی بڑی تکلیف نہیں ہے، جتنی بڑی تکلیف اس چھری سے اسے ہاتھ کٹ جانے کی وجہ سے ہو گی۔ اس لیے وہ بچے کے چیخنے اور چلانے کے باوجود اس سے چھری چھین لیتی ہے۔ اور اگر وہ چپ نہ کرے تو وہ اسے مزید ڈانٹ بھی دیتی ہے۔

اس سے ہمیں اللہ کی پے در پے آزمایشوں کا بھی ایک سبب معلوم ہو جاتا ہے کہ جب ہم اللہ کی کسی آزمایش پر صحیح رویہ اختیار نہیں کرتے تو وہ ہمیں مزید ڈانٹتا ہے تاکہ ہم سنبھل جائیں۔

 

جنت کی یاد

آخرت اگر اصل مسئلہ ہے تو پھر مشکلات اور تنگیوں میں جنت کو یاد کرنا چاہیے ۔قرآن مجید نے باربار جنت کا تذکرہ اس لیے کیا ہے کہ اس کی بشارت سے دل مطمئن ہوتے اور اس کی وجہ سے حوصلہ مندی پیدا ہوتی ہے جو مشکل وقت میں بھی نیکی پر قائم رہنے میں مدد دیتی ہے۔

 

خدا کی ربوبیت اور اس کا حکیمانہ کنٹرول

ہم بالعموم ان مشکلات پر زیادہ غضب ناک ہوتے ہیں جو ہمارے دوستوں یا عزیز رشتہ داروں کے کسی اقدام کی وجہ سے ہم پر آتی ہیں ۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں چغلی، غیبت، ٹانگ کھینچنا، دھوکا دہی، زر اور زمین کے جھگڑے ایسے عام جرائم ہیں کہ آدمی ان سے پریشان ہو کر دوستوں سے جھگڑ پڑتا، بہن بھائیوں سے قطع تعلق کرلیتا،ان کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیوں کا شکار ہو جاتا، ماں باپ کو گھر سے نکال دیتا ، حتیٰ کہ بعض اوقات انھیں یا اپنے آپ کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان سارے جھگڑوں کو آزمایش کے طور پر نہیں لیتا۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ سب کچھ وہ اپنی پوری آزادی سے کررہے ہیں، اس لیے اگر میں انھیں ختم کردوں ، ان سے ناتا توڑ لوں،ان کو گالیاں دے لوں ،ان کو ماروں پیٹوں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ چنانچہ وہ ایسے اقدامات کے بعد مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایسا شخص اصل میں اللہ کی ربوبیت اور اس کی حکمت کا انکار کرتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی کام اس کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر اور اس کے حکیمانہ فیصلوں کے خلاف روبہ عمل نہیں ہوتا۔ جب صورت حال ایسی ہے تو کیا یہ رشتہ دار ، یہ غیبت و چغلی کرنے والے جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں آیاخدا کی اجازت و مہلت کے بغیر کر رہے ہیں؟

اگر ہم یہ انکار کردیں کہ وہ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے بغیر ایسا کررہے ہیں تو یہ خدا کی الوہیت و حکیمانہ کنٹرول کا انکار ہے اور اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ انھیں اللہ ہی نے مہلت دی ہے توپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اللہ کی یہ مہلت بلاوجہ نہیں ہوگی۔اس کے پیچھے درج بالا مقاصد میں سے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور پیش نظر ہو گا،یعنی ہماری اصلاح، ہمارے گناہوں کو جھاڑنا وغیرہ ۔ چنانچہ اس نقطۂ نظر سے اب اپنے ان ساتھیوں کی کارگزاری کو دیکھیے تو جو گناہ و خطا وہ کر رہے ہیں ، وہ اگرچہ اپنی مرضی سے کررہے اور اس سے وہ یقیناً گناہ کما رہے ہیں، لیکن مہلت چونکہ اللہ نے دی ہے، اس لیے وہ ہماری تربیت اور آزمایش کا سامان بھی کررہے ہیں۔ 

وہ ہمارے اوپر ظلم ڈھا نے جیسا کبیرہ گناہ کر رہے ہیں، مگر ہمارے لیے صبر کرنے کی صورت میں جنت کی راہ کھول رہے ہیں۔ ابو لہب اور ابو جہل کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں نے ایک طرف ان کے لیے دوزخ تعمیر کی تو دوسری طرف صحابہ رضوان اللہ علیہم کے کردار کی تعمیر کی ۔ وہ جیسے جیسے یہ حرکتیں کرتے گئے، صحابہ کا ایمان مضبوط ہوتا گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام ایسی حکمت اور تدبیر سے بنایا ہے کہ ایک شر بھی وجود میں آتا ہے تو سو خیر اپنے دامن میں لے کر آتاہے۔

اس نقطہ کے حل ہونے کے بعد جب میں اپنے گرد و نواح میں لوگوں کو اپنے اوپر الزام دیتے، طعنے دیتے ، طرح طرح کی سازشیں کرتے دیکھوں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں انھیں اپنا دشمن قرار دوں، میرے تو وہ محسن ہیں دشمن تو وہ اپنے ہیں۔ وہ میری تربیت کا سامان اپنا نقصان کرکے کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان کو طعنے کا جواب دینے کے بجائے مجھے ان کی اصلاح کا سوچنا چاہیے، ان پر ترس آنا چاہیے کہ وہ اپنی تباہی کے گڑھے کھود کر مجھے ان میں اترنا اور اتر کر نکلنا سکھا رہے ہیں۔ 

لیکن مجھے یہ فائدہ بس اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ جب میں ان کی ان حرکات کو اللہ کی آزمایش سمجھ کر اسے اپنی تربیت و اصلاح کا ذریعہ بناؤں۔اگر میں نے ان کی اینٹ کے جواب میں پتھر اٹھا کے دے مارا تو میں بھی ان جیسا ہوں۔ میں نے بھی غلطی کا ارتکاب کر ڈالا ہے۔اس کے بعد خیر کا دروازہ میرے لیے بند ہو جائے گا۔ 

حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ملتا ہے کہ کوئی صاحب ان کو گالیاں دیتے رہے اور کچھ دیر تک ابوبکر چپ رہے، لیکن کچھ دیر بعد انھوں نے بھی جواب دینا شروع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھر لیا ۔ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر آپ نے انھیں بتایا کہ جب تک تم خاموش رہے تو فرشتے جواب دیتے رہے اور جب تم جواب دینے لگے تو وہ چلے گئے ۔ایک طرح سے اللہ ان کی طرف سے دفاع کرتا رہا۔ فرشتوں کا جواب دینا غیر مسموع تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ گالیوں کے جواب میں کیا جواب دیتے رہے ہوں گے، لیکن وہ جو کچھ تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے ایک خیر تھا ، جس سے وہ جواب دینے کے بعد محروم ہو گئے۔

ٹھیک اسی طرح کی محرومی کا شکار ہم ہوجاتے ہیں، جب ہم برائی کے جواب میں برائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کی برائی کا ان سے بدلہ جائز اور عادلانہ طریقوں سے لے سکتے ہیں۔ لیکن انھیں معاف کرنا ’حظِ عظیم ‘ کا پانا ہے۔ 

قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ تم کسی کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو ۔ اس کے الفاظ ہیں کہ تم کسی کی برائی کو نیکی سے دھکیل کر ہٹا دو۔ بجائے اس کے کہ تم بدی کو دھکیلنے میں بدی ہی کی راہ اختیار کرو تو یہ تمھیں اللہ کی عنایتوں سے محروم کردے گا ۔ اگر تم اس کی راہ میں زندگی بسر کرو اور لوگوں کی برائی کا دفاع نیکی سے کرو تو اس سے نہ صرف یہ کہ تمھارا دشمن تمھارا عزیز دوست بن سکتا ہے، بلکہ تم بھی وہ خوش قسمت بن جاؤ گے جنھیں خدا اپنی حکمتوں سے نوازتا ہے۔ دیکھیے قرآن مجید نے اس رویہ کو ایک بڑی خوش بختی قرار دیا ہے اور اسے صبر کا ثمرہ قرار دیا ہے :

وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَ لاَ السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ. فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗعَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗوَلِیٌّ حَمِیْمٌ. وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ.(حٰم السجدہ ۴۱: ۳۴۔۳۵) 

’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتیں۔تم برائی کا احسن چیزوں سے دفاع کرو تو تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی، وہی تمھارا گرم جوش دوست ہو گا، مگر یہ وہ دانش مندی ہے، جو صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے۔ اور یہ صرف ان کو ملتی ہے جو بڑے نصیبے والے ہوتے ہیں۔‘‘

آیے اب ہم مشکلات کی آزمایش میں سے کامیاب ہونے کے لیے جن باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے، ان کو اپنے سامنے رکھیں تاکہ ہم پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے کہ اس آزمایش میں کامیابی کیا ہے، اور ناکامی کیاہے۔

 

کامیابی کے چند پہلو

 

نیکی پر قائم رہنا

اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں تمام نیکیوں اور تمام برائیوں کی اصل کو بیان کیا ہے۔اس آیت کو میں یہاں اس لیے بیان کررہاہوں کہ اس آیت کو یاد کرلیا جائے تو وہ تمام نیکیوں کی بنیاد ہے۔ اس پر اگرہم تمام امور کو پرکھیں تو ہمیں آسانی سے برائیاں بھی سمجھ میں آجائیں گی اور نیکیاں بھی، وہ آیت یہ ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْن.(النحل ۱۶: ۹۰)

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتہ داروں کو اپنے مال میں سے دینے کا۔ اور اللہ تعالیٰ روکتا ہے فحاشی و بے حیائی سے اور منکر(حق تلفی سے) اور دوسروں کے خلاف تعدّی اور بغاوت سے، اللہ تمھیں اس کی نصیحت اس لیے کرتا ہے، تاکہ تمھیں یاددہانی ہو۔‘‘

اس آیت کی بعض باتوں کی وضاحت ذیل کی آیت سے ہوتی ہے:

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖسُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ.(الاعراف ۷: ۳۳)

ان آیات سے گناہوں اور نیکیوں کی ایک بنیادی فہرست ہمارے سامنے آتی ہے۔ جن کے تحت پھر تمام نیکیاں اور برائیاں آجاتی ہیں۔ اب ہم ان نیکیوں اور برائیوں کو ایک ایک کرکے مختصر طور پر سمجھتے ہیں۔

 

عدل

یہ پہلی نیکی ہے، جسے اللہ نے اس آیت میں بیا ن کیا ہے۔عدل کے معنی یہ ہیں کہ ہر کسی کا جو حق ہے، وہ اسے دیا جائے۔ جو اللہ کے حق ہیں ، وہ بھی پورے کیے جائیں اور جو بندوں کے حق ہیں، وہ بھی ان کو دیے جائیں۔ اللہ کے حقوق میں توحید، بندگی اور اطاعت کے حقوق قائم ہوتے ہیں، جن کی خلاف ورزی سے شرک اورگناہ پیدا ہوتا ہے، ان کو ہم منکر کہہ سکتے ہیں۔بندوں کے حقوق میں ان کی عزت، مال اور جان کے پہلو سے بہت سے حقوق قائم ہوتے ہیں۔ ان کی خلاف ورزی سے بھی گناہ پیدا ہوتا ہے، ان کو بھی ہم اوپر کی آیات کی روشنی میں منکر کہہ سکتے ہیں۔ جب ہم پر اللہ کی طرف سے یا بندوں کی طرف سے کوئی مشکل آئے تو ہم نے کوشش کرنی ہے کہ اللہ کے حقوق بھی اس صورت میں پامال نہ ہوں اور نہ بندوں کے حقوق میں خرابی پیدا ہو۔

 

احسان

اس آیت میں دوسری نیکی احسان کے لفظ سے بیان ہوئی ہے۔ احسان کے معنی حسن سلوک کے ہیں، حسن سلوک بندوں کے ساتھ بھی اور عملوں کے ساتھ بھی۔ بندوں کے ساتھ حسن سلوک کے معنی یہ ہیں کہ ان کی برائی پر ہم ان سے بدلہ لے سکتے ہیں، مگر بدلہ لینے کے بجائے ان کو معاف کر دیں یا یہ ہوسکتا ہے کہ مثلاً ہم سے کوئی نیکی کرے تو ہم اس سے بڑھ کر اس کے ساتھ نیکی کردیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ سلام کا جواب اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسا ضرور دیا کرو۔

اعمال کے ساتھ حسن سلوک کے معنی یہ ہیں کہ نیک عمل کرتے وقت پورے خلوص اور محنت سے اچھی طرح کیا جائے۔ اسی کو حدیث جبر یل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا کہ تم اللہ کی بندگی یوں کرو، گویا کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو یا یہ کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ جب تم یہ خیال کرو گے کہ اللہ کو تم دیکھ رہے ہو یا اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے تو تم نہایت توجہ اور محنت سے وہ نیکی کرو گے۔ قرآن مجید میں احسان انھی دو معنی میںآیا ہے۔ یہاں اس تفصیل کی گنجایش نہیں ہے۔ بس یہاں یہ بات کہنا پیش نظر ہے کہ کسی کی برائی پر ہم بدلہ ضرور لے سکتے ہیں۔ اس کی اسلام نے اجازت دی ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ اس کے بدلے میں ہم دوسرے کو اتنی ہی تکلیف دیں جتنی اس نے ہمیں دی ہے۔ لیکن احسان کی نیکی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم بدلہ لینے کے بجائے اس کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گالی کے جواب میں دعا دیتے اور برے سلوک کے بدلے میں حسن سلوک کرتے تھے۔کسی نعت خواں نے خوب کہا ہے کہ:

رسول پاک کی سیرت کا یہ کتنا حسین رخ ہے!

خدائے پاک سے دشمن کے حق میں بھی دعا کرنا

احسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک پہلو سے یوں سمجھایا ہے:

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ. (آل عمران ۳: ۱۳۴) 

’’وہ لوگ جو تنگی اور خوشحالی دونوں حالتوں میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں۔ اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ اللہ ایسے احسان کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔‘‘

 

ایتاء ذی القربیٰ

اس آیت میں تیسری نیکی یہ بیان کی گئی ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو ان کی ضرورت کے وقت اپنے مال سے دیں۔یہ ایک مانی ہوئی نیکی ہے، لیکن یہ اس وقت نا ممکن ہوجاتی ہے جب یہ عزیز اور رشتہ دار ہمارے ساتھ کوئی برائی کردیتے ہیں۔ پھر ہم اپنی جیب میں سے ایک روپیہ بھی ان کے لیے نہیں نکالتے۔ مشکلات میں نیکی پر قائم رہنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم رشتہ داروں کی یہ مدد ان کی برائی کے باوجود بھی ترک نہ کریں۔ 

 

فحشاء

اس آیت میں برائیوں کی فہرست میں سب سے پہلی برائی ’فحشاء‘ہے۔فحشاء بے حیائی کا مترادف ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم فحش حرکات سے لے کر زنا تک کی ہر جنسی برائی سے بچیں۔

 

منکر

اس آیت میں دوسری برائی منکر ہے۔ منکر عدل کا الٹ ہے، یعنی دوسروں کے حق مار لینا۔ حق مارنے میں کچھ امور تو واضح ہیں ، جیسے کسی کے پیسے بٹورنا، کسی کو دھوکا دینا، ان کے بارے میں بری باتیں معاشرے میں چغلی و غیبت کے ذریعے سے پھیلانا، ان پر بہتان لگانا، انھیں رسوا کرنا وغیرہ، مگر کچھ چیزیں منکرات کی نوعیت کی واضح نہیں ہوتیں، ان کو ہم یہاں بیان کررہے ہیں:

بد ظن نہ ہونا

جب ہم پر مشکل آتی ہے تو ہم اللہ کے بارے میں بھی اور لوگوں کے بارے میں بھی بد ظنی کا شکار ہو سکتے ہیں، اس لیے جب آدمی پر مشکلات آجائیں اور وہ گردشوں میں گھرجائے تو اسے سب سے زیادہ جس بات کا دھیان رکھنا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے یقیناً میرا بھلا چاہتے ہیں۔ یہ بات ہم اوپر کی بحث میں اچھی طرح سمجھ آئے ہیں کہ مشکلات سے اللہ ہمارا بھلا کس طرح چاہتے ہیں۔ مشکلات آئیں تو ہمیں اللہ کے اور قریب لے جائیں ۔اسی بات کو احادیث مبارکہ میں’رضیت باللّٰہ ربا‘ (میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہوں) کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔

اسی طرح لوگوں کی غلطی پر بھی ان کی طرف بدگمانی نہیں ہونی چاہیے ۔ اس موضوع پر ہم نے الگ سے ایک کتابچہ بھی تحریر کیا ہے ۔ اسے دیکھا جاسکتاہے۔ اس کا نام ہے : ’’بدگمانی کیا ہے، اس سے کیسے بچیں؟‘‘۔

جب ہمیں کوئی تکلیف اپنے قریب رہنے والے لوگوں سے ملتی ہے توہم ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سوچنے لگتے ہیں، حالانکہ بعض اوقات دوسرے لوگ ہماری بھلائی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں، مگر ان کی بھلائی ہمارے لیے نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ تو ایسے موقع پر ہمیں ان کے بارے میں برا گمان نہیں کرنا چاہیے۔ صرف اسی حد تک ہمیں ان کے بارے میں رائے بنانی چاہیے، جتنی معلومات ہمارے پاس ہوں۔

قرآن مجید نے اس بارے میں ہمیں یہ فرمایا ہے :

وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً.(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۶) 

’’وہ موقف مت اختیار کرو جس کا تمھارے پاس نہ علم ہو(اور نہ بنیاد)،اس لیے کہ کان، آنکھ اور دل سب سے باز پرس ہو نی ہے۔‘‘

دوسرے موقع پرقرآن مجید نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رائے ان معلومات پر مبنی ہونی چاہیے جو تحقیق شدہ ہوں، سنی سنائی باتوں پر عمل نہیں ہونا چاہیے۔

شرک نہ کرنا 

اللہ کے حوالے سے منکرات میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے ۔اللہ کی سب سے بڑی حق تلفی ہے۔ مشکلات میں کبھی کبھی آدمی پر یہ وقت آجاتا ہے کہ جب لوگ اسے یہ بتاتے ہیں کہ فلاں شخص ہر مراد پوری کردیتا ہے اورفلاں ’’بابا جی ‘‘ ہر مشکل حل کردیتے ہیں تو آدمی یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ شاید اللہ تو یہ نہیں کرے گا تو یہ بزرگ یقیناًایسا کردیں گے۔ یہیں سے شرک کا وہ سارا بازار گرم ہوتا ہے جس سے حق کی شاہ راہ سے ضلالت کی پگڈنڈیاں نکلتی ہیں۔

شرک کے بارے میں بھی یہاں اصولی بات کو جان لیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘،’’ سن رکھو کہ تخلیق بھی اللہ نے کی ہے اور اس خلق کا کنٹرول اور تدبیر بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو عالمین کا پروردگار ہے۔‘‘ (الاعراف۷: ۵۴) مراد یہ ہے کہ دنیا کو جس طرح اللہ ہی نے پیدا کیا ہے، اسی طر ح اس کے چلانے میں جن فیصلوں کی اور جن احکامات کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی اللہ ہی صادر کرتا ہے، اس لیے اگر کسی کے گھر میں بیٹا نہیں ہوا تو یہ اللہ رب العزت ہی کا فیصلہ ہے، اس میں کوئی یہ مانے کہ اس کا حکم نہیں چلتا یا کوئی دوسرا اس کے حکم کو تبدیل کر سکتا ہے یا اس کے حکم کے ہوتے ہوئے کسی اور کا جادو چل سکتا ہے تو یہ سب کچھ شرک ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ ہماری امت میں یہی شرک عام ہے۔ اللہ ہمیں اس سے بچائے۔

مایوس نہ ہونا

قرآن مجید میں مایوس ہونے کو کفر کرنے والوں کا عمل بتایا گیا ہے۔ اور مصائب و مشکلات میں کفر وہی شخص کرتا ہے، جسے خدا کے بارے میں صحیح علم نہ ہو۔ وہ جذبات میں آکر بھول جائے کہ اللہ اس سے کیا چاہتا ہے۔ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی مصائب میں اللہ کے اگلے فیصلے کا مایوس ہوئے بغیر انتظار کرے۔ آج وہ جس مصیبت میں مبتلا کیا گیا ہے کل ہوسکتا ہے کہ وہ اس کے لیے ایک روشن مستقبل لے کر آرہی ہو۔مایوسی اللہ کی ذات کی نفی ہے۔ بندۂ مومن اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّہٗلاَ یَایْْءَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ.(یوسف ۱۲: ۸۷)

’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘

اللّٰہ پر افترا

منکرات میں سے یہ بھی ایک منکر ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ اللہ کے نام پر جب بھی کوئی بات کہی جائے تو ضروری ہے کہ وہ کسی ثبوت کے ساتھ ہو۔ اگر آپ نے وہ بات خود سے گھڑ لی ہے تو یہ ایک بڑا گناہ ہے۔ مشکلات کے وقت غلط دینی تعبیریں اور غلط قسم کے فتووں کا حصول اسی ضمن میں آئے گا۔

 

بغی

نیکیوں اور برائیوں سے متعلق مذکورہ آیت میں اگلی برائی جو بیان کی گئی ہے، وہ ’بغی‘ ہے ۔ یہ لفظ وہی ہے جس سے بغاوت کا لفظ نکلتا ہے۔ بغاوت اللہ کے خلاف بھی ہوتی ہے اور انسانوں کے خلاف بھی۔ اللہ کے خلاف بغاوت خدا کے مقابلے میں سرکشی ہے، جس کی سب سے گھناؤنی مثال زمانۂ رسالت میں رسول کے خلاف ہونا ہے۔ دوسری صورت وہ ہے جسے قرآن فساد فی الارض کہتا ہے۔ آج کل بم رکھ کر دنیا میں دہشت گردی کرنے کا جوعمل چل رہا ہے، وہ یہی فساد فی الارض ہے ۔ یہ نہایت کبیرہ گناہ ہے ۔

انسانوں کے خلاف بغاوت ان کے حقوق پر غاصبانہ ڈاکا ہے۔ مثلاً منکر یہ ہے کہ آپ میرا مال چرا لیں۔ اور بغی یہ ہے کہ آپ مجھ سے تلوار یا بندوق کے زور پر میرا مال چھین لیں۔ منکر یہ ہے کہ آپ زنا کریں اور بغی یہ ہے کہ زنا بالجبر کریں۔ اس کی سنگین ترین صورت انسانوں کے اوپر ظالمانہ طرزکی حکومت ہے، جس میں لوگوں کی جان، مال اور آبرو سب ہر وقت خطرے میں ہو۔ان کو خدا کی دنیا میں خدا کے قانون اوردین کے مطابق جینے کا حق نہ دیا گیا ہو۔

 

حق پر ستی

مشکلات سے بارہا یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ہمارا موقف کسی بات کے بارے میں غلط تھا۔ اس کی غلطی واضح ہونے کے بعد آدمی کا صبر یہ ہے کہ حق پر قائم رہنے کے لیے غلط رائے کو ترک کردے۔ اور یہ خیال ہر گز نہ کرے کہ میں نے اتنے لوگوں کے سامنے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی ہے تو آیا اب میں اس سے رجوع کر لوں۔ نہ یہ کہے کہ ’’میں نے اتنی محنت سے یہ سلسلہ چلایا تھا‘‘ کیا اب اسے ختم کردوں یا یہ سوچے کہ میں نے سب کے سامنے یہ بات کہہ رکھی ہے، کیا اب سب کے سامنے غلطی کا اعتراف کرکے شرمندگی اٹھاؤں یایہ سوچے کہ اتنے لوگوں کو اس بات پر جمع کرلیا ہے تو حق کا اعتراف تو کر لوں ،لیکن یہ سب کچھ کہیں بکھر نہ جائے!

 

غلطی کا اعتراف اور توبہ

مشکلات میں بعض اوقات ایسی مشکل بھی سر پر آپڑتی ہے جیسی مشکل سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں پر آئی جب انھوں نے ان پر یہ ظاہر کیا کہ وہ ان کے بھائی یوسف ہیں۔ ایسے موقع پر صبر کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف متعلقہ لوگوں کے سامنے کرلیا جائے ۔

خدا کا معاملہ بھی ہو تو پھر خدا سے بھی توبہ کرلینی چاہیے۔ توبہ اور غلطی کااعتراف دراصل برائی کے راستے کو چھوڑ کر واپس نیکی پر آنا ہے۔ اگر آدمی ایسا نہ کرے تو وہ غلطی پر جما رہے گا۔ بعض لوگ لوگوں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔ یہ بھی ایک بڑی برائی ہے، اس لیے کہ آپ کا اعتراف نہ کرنا بعض اوقات دوسرے کے لیے اذیت یا ذلت کا سبب بن رہا ہوتا ہے۔

 

بداخلاق نہ ہونا

اگر آدمی یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی اس کو ضرر نہیں پہنچا سکتا، تو اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ دوسروں کے ہاتھوں زک پہنچنے پر آدمی اخلاقی رویوں میں کمزور نہ ہو۔

وہ دوسروں کی صریح غلطی کے باوجود غم و غصہ کا اظہار بھی کرے تو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے کرے اور وہ آداب کو ملحوظ رکھے ، دین و شریعت کا پابند رہے، عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔

اس ضمن میں درج ذیل باتوں کو سمجھ لینا چاہیے:

غصہ

ہم لوگوں کے ساتھ بداخلاقی سے اس وقت پیش آتے ہیں جب ہمیں ان پر غصہ ہو۔غصہ نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کی برائی کے جواب میں غصہ میں نہیں آنا چاہیے، بلکہ جیسے ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ فوراً ان کی برائی کے جواب میں سوچیں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس سوال کا ایک جواب تو ہمیشہ یہی ہے کہ یہ سب میری آزمایش کے لیے ہے۔ تو جیسے ہی آپ کا یہ شعور بلند ہو گا تو آپ کو جذبات کی رو سے نکال کر سنجیدہ سوچ کی طرف لے جائے گا۔ 

غصہ آگ کی مانند ہے۔ یہ بھڑکانے سے مزید بھڑکتا ہے، نہ بھڑکایا جائے تو ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جب غصہ میں آؤ تو کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ ۔ یہ اصل میں غصہ کا ایک مجرب علاج ہے۔ اب سائنسی تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ غصہ کا آناصرف پندرہ سیکنڈ کے لیے ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کو نہ بھڑکائیں تو وہ پندرہ سیکنڈ کے بعد ختم ہو جائے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تم بیٹھ جاؤ تو اس سے وہ پندرہ سیکنڈ کا وقت بیت جائے گا۔ اور اندر سے غصہ ختم ہو جائے گا۔ جس کے بعد اپنے جذبات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

غصہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ ’الغضب جمرۃ من النار... وانما تطفأ النار بالماء‘، ’’غصہ آگ کی ایک چنگاری ہے... اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔‘‘ (الآحاد والمثانی، رقم ۱۲۶۷) غصہ میں پانی پینا بھی وہی عمل کرتا ہے جس کی وضاحت ہم نے اوپر کی ہے۔

غصہ کو قابو میں کرلینا دراصل یہ نہیں ہے کہ ہم نے غصہ تو ظاہر نہیں کیا، لیکن موقع آنے پر خوب انتقام لیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ ہے کہ غصہ بھی پی جاؤ اور انھیں معاف بھی کردو:

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.(آل عمران ۳: ۱۳۴) 

’’وہ لوگ جو تنگی اور خوشحالی، دونوں حالتوں میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں۔ اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ ایسے احسان کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔‘‘

دوسرے موقع پر یوں فرمایا ہے کہ لوگوں کی برائی کا جواب بھلائی سے دو:

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّءَۃَ.(المومنون۲۳: ۹۶) 

’’ان کی برائی کا مقابلہ اس چیز سے کرو جو سب سے بھلی ہو۔‘‘

نرمی 

نرمی ایک ایسا وصف ہے جو صرف اسی شخص میں پیدا ہو سکتا ہے جو دوسروں کی نیت کے بارے میں برا خیال نہ رکھتا ہو اور ان کے بارے میں بری باتیں نہ سوچتا رہتا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ :

لا تبلغونی عن اصحابی شیئا، انی أحب أن اخرج الیکم وانا سلیم الصدر.(مصنف عبد الرزاق)

’’مجھے میرے ساتھیوں کے بارے میں کوئی (بری)بات آکر نہ بتایا کرو۔ میں چاہتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں کے پاس آؤں تو میرا دل تمھارے بارے میں صاف ہو۔‘‘

یہ چیز دوسروں کے بارے میں رفق و محبت کو پیدا کرتی ہے۔ جو شخص رفق و نرمی سے محروم رکھا گیا ہے، وہ گویا تمام خیر سے محروم ہے، اس لیے کہ درشتی جو کہ نرمی کا الٹ ہے، آدمی کے لیے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی کے سارے راستے بند کردیتی ہے۔ اور خود آدمی اپنی درشتی کی وجہ سے حسن اخلاق پر قائم نہیں رہ سکتا۔

مغرور نہ ہونا

آدمی کو اللہ تعالیٰ اگر نعمتیں عطا کریں، اچھی شکل و صورت اسے ملی ہو، اعلیٰ صلاحیتوں سے اللہ نے اسے نوازا ہو تو وہ مغرور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ کسی مشکل میں صحیح رویہ اختیار کرلے اور اسے محسوس ہو کہ وہ آزمایش میں کامیاب ہوا ہے، تو یہ چیز بھی باعث تکبر وغرور ہو سکتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے موقعوں پر ہوشیاری سے اپنی حفاظت کرے۔

غرور و تکبر کا مطلب صرف اکڑ کر چلنا ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد دوسروں کو حقیر سمجھنا بھی ہے۔ مثلاً، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر آدمی اس شخص کو حقیر سمجھے جس کو اللہ ہی نے ان نعمتوں سے محروم رکھا ہے، تو یہ بات ایسی سنگین ہے کہ آدمی کو دوزخی بھی بنا دیتی ہے۔

 

غموں سے نجات:چند اچھی عادتیں

۱۔نماز کی عادت پختہ کریں۔ اس کی حکمت ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں۔ اسے اپنے دل کا سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا لو۔

۲۔ قرآن کی تلاوت سمجھ کر کریں۔ ( النساء۴: ۸۲)

۳۔ صبح کا استغفار (تہجد یا فجر میں)، گناہوں کا اعتراف و توبہ۔ (الذّٰریٰت۵۱: ۱۸)

۴۔غوروفکر اللہ کی دنیا میں ہونے والے واقعات اور حادثات پر غور و فکر کرکے قرآن کی روشنی میں توجیہ۔(آل عمران ۳: ۱۹۱)

۵۔اچھے لوگوں کے ساتھ دوستی۔ (الکہف۱۸: ۲۸)

۶۔ذکر الٰہی( مشکلات و غم میں مسلسل اللہ کی طرف رجوع کے لیے)۔(الاحزاب ۳۳: ۴۱) 

۷۔مشکلات میں دوسروں کی مدد۔

۸۔اپنے آپ کو دوسروں کے لیے خیر و برکت بناؤ۔ (مریم ۱۹: ۳۱)

___________________

B