HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

آزمایش میں کامیابی کے ذرائع (حصہ اول)

 

باب چہارم

 

صبر

آزمایش میں کامیابی کے معنی یہ ہیں کہ مشکلوں میں بھی اور آسانیوں میں بھی آدمی صحیح رویے، صحیح عمل اور صحیح رد عمل کا اظہار کرے، اسے ہم نے صبر کا نام دیا تھا۔ امتحان میں وہی آدمی ناکام ہو گا، جو اس صبر پر قائم نہ رہے اور وہی آدمی کامیاب ہو گا جو صبر کے ساتھ صحیح عمل اور رویے کو قائم رکھ سکے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم صبر کے حصول کے لیے کچھ چیزوں کا ذکر کردیں تاکہ ہم آزمایشوں میں کامیاب ہوتے رہیں۔مشکلوں میں صبر ایک نہایت مفید چیز ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ صبر سے مدد لو (البقرہ ۲: ۴۵)۔ اس کے معنی یہی ہیں کہ ہر آزمایش میں صبر سے کام لو، صحیح رویے پر کھڑے رہو اور صحیح طرز عمل اختیار کرکے آزمایش میں کامیابی حاصل کرو۔

 

آزمایش کی حکمتوں کا علم

قرآن مجید نے آزمایشوں کے آنے کے جو اسباب بیان کیے ہیں، جن کا اوپر ہم اپنے علم کی حدتک ذکر کر آئے ہیں، ان کے علم سے بھی آدمی کو صبر حاصل ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ علم آدمی کو وجوہات بتا کر تسلی دیتا اور تسلی کی وجہ سے اسے صبر آجاتا ہے۔ 

چنانچہ یہ علم اگر ذہن سے اتر جائے تو اس کو تازہ رکھنا چاہیے اور اس مقصد سے قرآن مجید کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔ اسی طرح اس موضوع پر اہل علم کی تحریروں کا مطالعہ بھی ایک حد تک مفید رہے گا۔البتہ قرآن مجید کے مطالعے سے ہماری مراد اس کی تلاوت نہیں ہے، بلکہ اس کو سمجھ کر پڑھنا مطلوب ہے، اس لیے کہ سمجھے بغیر اس کی تعلیمات سے آگاہی نا ممکن ہے۔

 

نماز(بالخصوص تہجد)

قرآن مجیدکے مختلف مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز آزمایش میں کامیابی کے لیے حصول صبر کا سب سے کامیاب ذریعہ ہے ۔ قرآن مجید نے بے شمار مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے وقت یہ بتایا ہے کہ تسبیح وتحمید کرو۔ مثلاً سورۂ حجر کی یہ آیات دیکھیے:

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ. فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ.(۱۵: ۹۷۔۹۸) 

’’ہم جانتے ہیں کہ تمھارے دل میں ان کی باتوں سے تنگی پیدا ہوتی ہے تو اس موقع پر تم اپنے رب کی تحمید کے ساتھ تسبیح کرو۔ اور سجدہ ریز رہا کرو۔‘‘

ان آیتوں میں دیکھیے کہ تسبیح، تحمید اورسجدہ ریزی کا حکم نماز ہی کی تعبیرہے، لیکن یہ نمازطوطے کی طرح رٹی رٹائی نماز نہیں ہے، بلکہ شعور ی معنی میں تسبیح و تحمید پر مبنی نماز ہے۔ایسی نماز ہی سے تسلی اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ تسبیح و تحمید دراصل ایک بامعنی عمل ہے۔ تسبیح کے معنی ہیں: اللہ کو غلطی سے پاک قراردینا اور تحمید کے معنی ہیں: اللہ کو اعلیٰ اور قابل تعریف صفات سے متصف ماننا۔ جب بندہ یہ بات دل میں لائے کہ اس وقت میں مشکل میں ہوں، مگر میں اس رب کی دنیا میں جی رہا ہوں جو غلط کام نہیں کرتا، جس کے کسی کام میں کوئی خطا نہیں ہے، جس کے ہر فیصلے میں حکمت و دانائی ہے۔ اس وقت کی مشکل جو میرے اوپر آئی ہے اس میں خدا کا حکیمانہ فیصلہ کارفرما ہے جو یقیناًدرست ہے۔ مشکل میں ڈالنے والی ذات کے بارے میں یہ تسبیح اور تحمید دراصل خدا کے بارے میں اطمینا ن پیدا کردیتی ہے۔جب خدا کے بارے میں یہ اطمینان پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کا یہ فیصلہ بھی درست فیصلہ ہے اورخدا اس فیصلے کے پیچھے ہے نہ کہ میرا کوئی دشمن تو یہ ایسی تسلی کا سامان کرتا ہے کہ آدمی ہر مشکل آسانی سے سہ لیتا ہے۔ نہ اس کے اندر منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور نہ منفی ردعمل۔اسی لیے قرآن مجید نے یہ کہا ہے کہ ’وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ‘، ’’نماز اور صبر کے ذریعے سے مدد حاصل کرو۔‘‘ (البقرہ ۲: ۴۵) 

اس مقصدکے لیے بالخصوص تہجد کی نمازحصول صبر کا ایک نہایت مفید ذریعہ ہے۔ سورۂ مزمل میںآیا ہے کہ تہجد کی نماز دل جمعی اور قول کی پختگی کے لیے بہت مفید ہے۔ یعنی تہجد کی نماز پانچ وقت کی نماز سے زیادہ موثر ہے، اس لیے کہ زیادہ گہرائی اور توجہ سے پڑھی جاتی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا کہ قرآن ٹھہر ٹھہر کر، یعنی اسے سمجھ سمجھ کر پڑھا جائے، تاکہ تہجد اپنا کام اپنی کامل صورت میں کر سکے۔

سورۂ مزمل میں قرآن مجید نے نماز کی حقیقت دو لفظوں میں بیان کی ہے:

وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً. (۷۳ : ۸) 

’’اپنے رب کا ذکر کر اور اس کی طرف خلق سے کٹ کر گوشہ گیر ہو جا۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تہجد ادا کرنے کے لیے فرمایا گیا تھا تو اس کے جو آداب آپ کو سکھائے گئے تھے، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ اسے یاددہانی اور ذکر کا ذریعہ بنائیں اور اس کے ذریعے سے خدا کے دامن رحمت میں گوشہ گیر ہو جایا کریں۔

مولانا امین احسن اصلاحی اس حکم کے اثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’...یہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طریقہ بتایا اس بات کا کہ جب جب لوگوں کی حق بے زاری اور دل آزاری سے دل آزردہ ہو تو تم ان ناقدروں سے کٹ کر اپنے رب کے دامن رحمت میں گوشہ گیر ہو جایا کرو اور اس کے لیے تمھیں اس کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اس کے نام کو یاد کرو۔ جب تم اس کے نام کے ساتھ اس کو یاد کرو گے تو وہ خود تمھیں اپنی پناہ میں لے لے گا۔

یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام اس کی صفات کی تعبیر ہیں اور ان صفات ہی پر تمام دین و شریعت اور سارے ایمان و عقیدہ کی بنیاد ہے۔ ان صفات کا صحیح علم مستحضر رہے تو آدمی کی پشت پر ایک ایسا لشکر گراں اس کے محافظ کی حیثیت سے موجود رہتا ہے کہ شیطان کی ساری فوجیں اس کی نگاہوں میں پرِ کاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ وہ اپنے آپ کو پہاڑوں سے بھی زیادہ مستحکم محسوس کرتا ہے۔ اور اگر خدا کی صفات کی صحیح یادداشت اس کے اندر باقی نہ رہے یا کمزور ہو جائے تو پھر اس کا عقیدہ بے بنیاد یا کمزور ہو جاتا ہے، جس کے سبب سے اس کو منافقین کی طرح ہر بجلی اپنے ہی خرمن پر گرتی نظر آتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۹/ ۲۷۔ ۲۸)

یہی وہ ذکر ہے جس سے خدا کے دامن رحمت میں گوشہ گیری کی راہ کھلتی ہے۔ ان صفات کی یاد ایک حصار کی طرح ہمارے گرد محافظ بن کر موجود رہتی ہے۔ جیسے ایک بچہ کسی خوفناک چیز سے ڈر کر اپنی ماں کی گود میں پناہ گیر ہو کر ساری دنیا کے خوف و دہشت سے بے نیاز ہو جاتا ہے، ٹھیک ویسے ہی ایک بندہ اس یاد کے تازہ ہونے کے بعد خدا کے دامن رحمت میں چھپ کر سارے غم بھول جاتا ہے۔طرح طرح کے حملوں سے اپنے آپ کو مامون خیال کرتا ہے۔

نماز کا یہی وہ پہلو ہے کہ اگر اسے نماز میں پیدا نہ کیا جائے تو نماز اپنے اثرات پیدا نہیں کرتی۔ پھر اس کے بعد آدمی طرح طرح کے مصنوعی سہارے تلاش کرتا ہے، اسے ان کا نشہ تو لگ جاتا ہے، مگر مسئلے حل نہیں ہوتے اور غم دور نہیں ہوتے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ (المستدرک، رقم ۲۶۷۶) آپ حضرت بلال کو کہا کرتے: ’’اے بلال، نماز سے ہمیں راحت پہنچاؤ۔‘‘ (احمد بن حنبل، رقم۲۲۰۰۹)

 

یہ دنیا شیطان کی نہیں

نماز دراصل ہمیں اللہ کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں یہ شعور دلاتی ہے کہ ہم اللہ کے سہارے پر ہیں جو ہمارا پروردگار ہے۔ ہمارا آقا و مالک ہے۔ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے تو ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ 

جبکہ اگر ہمارا یہ خیال بن جائے جیسا کہ توہم پرستوں کا عقیدہ ہوتاہے کہ اس دنیا میں کچھ شیطانی قوتیں کار فرماہیں۔ ایسے لوگ مشکلات میں ایسے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ مشکلات ان کے لیے مایوسی لے کر آتی ہیں اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اب وہ اس سے نکل ہی نہیں سکتے۔اگر نکلنا ہے تو پھر ان شیطانی قوتوں کو دے دلا کر راضی کرنا پڑے گا، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ہمارے نہایت کریم اور نہایت محبت کرنے والے خدا کی دنیا ہے۔ جس کے ہاں صرف توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔اوروہ کسی ایسی مشقت میں ڈالنے والا نہیں ہے جس میں شیطانوں کے چکر اور بھول بھلیاں ہوں۔جس کی آزمایشوں میں تاریکیاں اور نہ ٹلنے والی مشکلیں ہوں۔ ہاں، اس کی دنیامیں مہلک بیماری بھی ہے ، اس کی دنیا میں جان لیوا حادثات بھی وجود پذیر ہوتے ہیں۔ زندگی بھر کی معذوریاں بھی اس کی اس دنیا میں سامنے آتی ہیں، لیکن یہ سب کی سب اعلیٰ مقاصد کے لیے ہیں۔ اگر ہم ان مشکلات میں صابر رہے تو اس کے بعد ہمیں وہ کامیابی ملنے والی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ’الفوز الکبیر‘ (بڑی کامیابی)کا نام دیا ہے۔

بعض لوگ لمبی آزمایش سے گزرتے ہیں۔ سال ہا سال کی آزمایشیں ان کا حوصلہ ختم کر دیتی ہیں اور وہ مایوسی کے قریب جا پہنچتے ہیں، لیکن اگر وہ حقیقت کا جائزہ لیں تو وہ صرف اتنی ہوتی ہے کہ ان کی تمنائیں پوری نہیں ہو رہی ہوتیں، لیکن دوسری خوشیاں ان کے گھر میں ہرروز آتی ہیں، مگر وہ صرف اس لیے خوشی نہیں بن پاتیں کہ ان کی خاص تمنائیں پوری نہیں ہو ئی ہوتیں، جس وجہ سے وہ غم زدہ رہتے ہیں۔

ہونا یہ چاہیے کہ وہ ہر خوشی کو خوشی مانیں ، اس سے حوصلہ پائیں اور اپنی خاص تمنا کا چراغ سینے میں ضرور جلائے رکھیں۔ ایک لطیفہ نما کہانی سنائی جاتی ہے: ایک گاؤں میں نہایت ہی نیک بزرگ رہتے تھے۔ انھوں نے ساری زندگی عبادت میں گزاری تھی۔ گاؤں کے کسی آدمی کو کبھی کوئی تکلیف ان سے نہیں پہنچی تھی۔ ان کی نیکی کا ارد گرد کے علاقوں میں خوب چرچا تھا۔ اس بزرگ کے بارے میں ایک اور بات یہ بتائی جاتی تھی کہ انھوں نے کبھی بھی خدا سے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا تھا۔ دوسروں کے لیے دعائیں تو کرتے تھے، مگر اپنے لیے نہیں۔

ایک دفعہ یوں ہوا کہ اس گاؤں میں سیلاب آگیا۔ لوگ گاؤں چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ سب لوگ ان کے پاس آئے اور کہا: بابا جی، چلیے گاؤں ڈوب رہا ہے، مگر بابا جی نے کہا: نہیں، میں نہیں جاؤں گا۔ دوسری طرف انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ، میں نے آج تک تجھ سے کچھ نہیں مانگا۔ آج بھی اپنے لیے صرف ایک ہی چیز مانگ رہا ہو ں کہ توخود آکر مجھے بچا۔

سیلاب کا پانی چڑھتا گیا۔ جب ان کے گھٹنوں تک پانی آگیا تو فوج کے جوان ان کے پاس آئے، انھوں نے بابا جی سے کہا کہ آئیے، ہم آپ کو محفوظ جگہ لے چلتے ہیں۔ باباجی نے کہا: نہیں، تم لوگ جاؤ، مجھے اللہ بچا لے گا۔فوجیوں نے کچھ اصرا ر کیا، مگر پھر چلے گئے۔ پانی ان کے دھڑ تک آگیا، پھر گاؤں کے کچھ لوگ ایک کشتی میں سوار ہو کر جا رہے تھے تو انھوں نے باباجی سے کہا کہ آجائیں۔ بابا جی نے کہا: نہیں، تم لوگ جاؤ اللہ مجھے بچا لے گا۔ لوگوں نے اصرار کیا، بابا جی نہیں مانے۔ سو یہ لوگ بھی چلے گے۔ پانی چڑھتے چڑھتے ٹھوڑی تک آگیا ، پھر فوجیوں کا ایک گروپ آیا مگر باباجی نے وہی کہا۔ پانی ناک تک آگیا، بابا جی نے دیکھا کہ ایک شہتیر بہتا ہوا آرہا ہے۔ خیال ہوا کہ اس کو پکڑ کر ڈوبنے سے بچ جاؤں ، لیکن پھر یہ سوچ کر کہ نہیں مجھے اللہ خود آکر بچائے گا، اس شہتیر کو بھی نہیں پکڑا۔ پانی نے بابا جی کے پاؤں اکھاڑ دیے، وہ ڈوبنے والے تھے کہ ایک درخت بہتا ہوا آیا۔ وہ اسے پکڑ کر بھی بچ سکتے تھے، لیکن انھوں نے پھر کہا کہ مجھے تو اللہ بچائے گا۔ میں غیر اللہ کا سہارا کیوں لوں۔ اور بالآخر وہ ڈوب کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

ان کی جب پیشی ہوئی تو انھوں نے اللہ سے شکوہ کیا کہ اے اللہ، تو نے مجھے بچایا ہی نہیں، میں نے تو آپ سے زندگی بھر میں ایک چیز اپنے لیے مانگی، مگر وہ بھی آپ نے نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تمھاری دعا سن لی تھی اور قبول بھی کی۔ میں نے دو دفعہ تمھیں بچانے کے لیے فوجی بھیجے ، دو دفعہ گاؤں والے لوگ تمھارے لیے بھیجے، لکڑی کا شہتیر بھیجا، بہتا ہو ا درخت بھیجا، لیکن تم نے خود میرا کوئی سہارا قبول نہیں کیا۔ اب مجھ سے شکوہ کیوں کرتے ہو۔

یہ کہانی میں نے اس لیے سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی خوشیاں ہمیں مل رہی ہوتی ہیں، مگر ہم اپنی کسی خاص خوشی کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خوشی کو ہمارے لیے مناسب نہ پا رہے ہوں، لیکن ہم اسی خوشی کے انتظار میں ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں ، جبکہ دوسری خوشیاں ایک کے بعد دوسری ہمارے پاس سے ہو کر گزر جاتی ہیں۔

 

خوشی اور غم کی آفات

خوشی کی بھی ایک آفت ہے،جسے قرآن ’فرح فخور‘کے الفاظ سے بیان کرتا ہے اور غم کی بھی ایک آفت ہے جسے قرآن ’یَءُوْس کفور‘کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔ خوشی کی آفت کو قرآن مجید نے سورۂ ہود میں یوں بیان کیا ہے:

وَلَءِنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَہَبَ السَّیِّاٰتِ عَنِّیْ اِنَّہٗلَفَرِحٌ فَخُوْرٌ.(۱۱: ۱۰)

’’اور اگر ہم انسان کو لاحق ہونے والی مشکل کے بعد نعمتوں کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ کہتا ہے: لو اب میری مشکلیں دور ہوگئیں، اور یوں وہ ’فرح فخور‘ (خوشی میں مگن اور مغرور)بن جاتا ہے۔‘‘

اور غم کی آفت کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

وَلَءِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰہَا مِنْہُ اِنَّہٗلَیَءُوْسٌ کَفُوْرٌ.(ہود۱۱: ۹) 

’’اور اگر ہم انسان کو اپنی خاص رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں ، پھر وہ رحمت اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ ’یَءُوْس و کفور‘ (مایوس اور ناشکرا) بن جاتا ہے۔‘‘

یہ مایوسی اور ناشکرا پن نتیجہ ہے، دو اور آفات کا جن کو قرآن مجید نے ’’وہن‘‘ اور ’’حزن‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ جب آدمی پر کوئی مشکل آتی ہے یا اس کا نقصان ہوتا ہے تو اس پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے، جس کو وہن ، بے دلی یا بے ہمتی کہہ سکتے ہیں، یہ بے دلی حزن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ حزن اپنی ابتدائی شکل میں تو محض دکھ کے احساس کا نام ہے، مگر اپنی اصل صورت میں یہ نہایت مہلک چیز ہے، اس لیے کہ اس کو اگر انسان اپنے اوپر طاری کرلے تو انسان نہ صرف دنیوی کاموں میں بالکل ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے ، بلکہ دینی معاملات میں بھی وہ حزن سے آگے بڑھ کر ناشکرا اور بالآخر الحاد و کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ قرآن مجید نے صحابہ کو جنگوں کی حالتوں میں پہنچنے والے غم و غصے میں فرمایا کہ ’وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا‘،’’نہ بے دل ہونا اور نہ غم کرنا۔‘‘ (آل عمران ۳: ۱۳۹) 

حزن دراصل شیطانی حربوں میں سے ہے۔ شیطان اپنے حربوں سے مسلمانوں کے دلوں میں حزن کی حالت پیدا کرتا ہے۔ جس سے نہ صرف انسان قلق و اضطراب (Frustration and depression)کی حالت میں چلا جاتا ہے، بلکہ ردعمل کی منفی نفسیات میں پڑ کر دین، رشتہ داروں اور حتیٰ کہ اللہ و رسول کے خلاف بھی بھڑک اٹھتا ہے۔ اور اگر ان کے خلاف نہ بھی بھڑکے تو دشمن ہی کے خلاف بھڑک کر بے حکمتی کے ساتھ معاملہ کرگزرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی صفوں میں آ کر منافقین اپنی چالوں سے مسلمانوں کے دلوں میں غم اور حزن پیدا کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا:

اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا.(المجادلہ ۵۸: ۱۰)

’’یہ سرگوشیاں شیطانی ہیں، اس لیے کی جاتی ہیں کہ اہل ایمان کو غم زدہ کردیں۔‘‘

چنانچہ یہ واضح ہے کہ شیاطین مختلف حربوں سے مسلمانوں کو غم زدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا خدا پر توکل اور بھروسا کمزور پڑ جائے، اس لیے کہ حزن حلم اور تحمل کا قاتل ہے۔ حلم اور تحمل ہمارے اندر وہ قوت پیدا کرتے ہیں کہ ہم مشقتوں کو برداشت کرسکیں، مگر حزن ہمارے اندر ایسا وہن اور کمزوری پیدا کردیتا ہے کہ ہم مشکلات کے تحمل کے قابل نہیں رہتے، جس کے بعد ہر منفی کام شیطان ہم سے کرا سکتا ہے۔

 

مشکلات عمل صالح ہیں

قرآن مجید نے صحابہ کو ایک نہایت ہی دل پذیر بات جنگوں میں پہنچنے والے مصائب کے بارے میں یہ کہی کہ جتنی مشقت اور چوٹ تم میرے راستے میں سہتے ہو، اس کے بدلے میں تمھارے لیے ایک عمل صالح لکھ دیا جاتا ہے:

لاَ یُصِیْبُہُمْ ظَمَاٌ وَّلاَ نَصَبٌ وَّلاَ مَخْمَصَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَطَءُوْنَ مَوْطِءًا یَغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلاَ یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْْلاً اِلاَّ کُتِبَ لَہُمْ بِہٖعَمَلٌ صَالِحٌ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ.(التوبہ ۹: ۱۲۰)

’’ان (مسلمانوں) کو اللہ کی راہ میں نہ کوئی پیاس کی تکلیف آتی ہے ، نہ کوئی تھکن لاحق ہوتی ہے، نہ بھوک کی گھڑی آتی ہے ، یا وہ دشمن کے لیے تکلیف دہ جگہوں کو طے کرتے ہیں ، نہ دشمن سے کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں، مگر یہ کہ اللہ اس کے بدلے میں ان کے لیے ایک عمل صالح لکھ دیتے ہیں اور اللہ ان نیکو کاروں کا اجر بالکل ضائع نہیں کریں گے۔‘‘

یعنی جب اللہ کی خاطر ، کوئی بندہ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عمل کرتا ہے اور اس عمل کے دوران میں وہ کسی مشقت اور تکلیف سے گزرتا ہے تو ہر تکلیف کے بدلے میں اس کے لیے ایک ویسا ہی عمل صالح لکھ دیا جاتا ہے۔ 

 

مشکلات عذاب نہیں

ہم بالعموم ، اپنے اوپر آنے والی آزمایشوں کو غلط رنگ دے لیتے ہیں۔ کبھی انھیں اللہ کی ناراضی سمجھ کر مایوس ہوجاتے ہیں۔ کبھی اسے معمولی سا حادثہ سمجھ کر بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ اگر ہم خدا کے بندے ہیں اور ہمارے سینوں میں ذرا سا بھی خدا کا تصور موجود ہے تو ہمیں خدا کے بارے میں ایسی بدگمانی نہیں کرنی چاہیے۔

عذاب اللہ تعالیٰ کی سزا ہے جو کافروں پر آتا اور انھیں ہلاک کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہ بالعموم رسولوں کے زمانے میں آتا ہے۔ رسولوں کے زمانے کا یہ عذاب جو نوح ، صالح، شعیب اور لوط علیہم السلام جیسے پیغمبروں کی قوموں پر آیا، اصل میں کفار کو جہنم واصل کرنے کا عذاب تھا۔ اس کا تعلق آزمایش سے قطعاً نہیں ہے۔

جبکہ مشکلات ہمیں ہلاک کرنے کے لیے نہیں آتیں، یہ ہمیں اوپر بیان کردہ مقاصد کے تحت اونچا اڑانے کے لیے آتی ہیں۔ یہ مارنے نہیں، زندگی عطا کرنے آتی ہیں۔ یہ مشکلات نہیں ، بلکہ ہمارے لیے ہادی و رہنما ہیں۔ یہ ہماری ہم راہی ہیں ، اگر ان کا ساتھ نہ ملے تو نہ ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم غلط چل رہے تھے اور نہ ہمیں یہ علم ہو سکتا ہے کہ خدا دیکھتا اور جانتا ہے۔

ہم اندھے ہیں اور یہ ہماری لاٹھی ہیں جو ہمیں قدم قدم پر بتاتی ہیں کہ اب چڑھائی ہے اور اب اترائی۔ اب راستہ ہموار ہے اور اب دشوار۔ یہ اگر آئیں تو سمجھیں خدا نے ابھی ہمیں بھلایا نہیں، یہ نہ آئیں تو فکر ہونی چاہیے کہ کہیں خدا نے ہمیں بھلا تو نہیں دیا۔

جوشخص مشکلات کو عذاب سمجھتا ہے، وہ خدا سے مایوس ہونے میں تیزی دکھائے گا۔ اور جو شخص ان مشکلات کو امتحان اور اپنا مفید زاد راہ سمجھے گا ، وہ ان کے اندربھی خدا کو جیتا جاگتا پائے گا۔ اور قدم قدم پر اپنے لیے اور اپنے ایمان کے لیے تازگی کا سامان پائے گا، اس لیے کہ ایسا شخص ہمیشہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ دنیا چونکہ ایک باقاعدہ مقصد سے بنی ہے، اس لیے یہاں پر ہر خوشی اور غم اسی مقصد کے تحت آتی اور جاتی ہے، اس لیے جب اس کی نگاہ اس مقصد پر ہو گی، اسے غم اور حزن نہیں ستائیں گے۔

دنیا، جیسا کہ ہم نے پیچھے جانا ہے، آزمایش کے لیے بنی ہے، اس لیے عام طور پر مشکلیں سزا کے لیے نہیں، اسی آزمایش ہی کے لیے آتی ہیں، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب وہ ہماری کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہوں۔ عذاب صرف اس وقت آتا ہے جب اللہ کا رسول آکر حق کو بالکل واضح کردیتا ہے اور لوگ پھر بھی اس کا انکار کردیں۔ اس سے پہلے ہر حادثہ اور ہر مشکل محض آزمایش ہے۔ 

پاکستا ن میں ایک شدید زلزلہ ۲۰۰۵ء میں آیا۔ اس زلزلے نے وادئ کشمیر کے ہزاروں لوگوں کو موت کی نیند سلادیا۔اس کے بارے میں بھی ہمارے ہاں سوال پیدا ہوا کہ آیا یہ اللہ کا عذاب ہے یا نہیں۔ مذہب سے گریزاں لوگوں نے کہا کہ یہ ایک ارضیاتی مسئلہ ہے ، ہر چیز میں خدا کو نہ گھسیٹا کرو۔ ایسے زلزلے انسانوں کے دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے بھی آتے رہے ہیں ۔ اور اب بھی آرہے ہیں۔ اس وقت بھی یہ ارضیاتی مسئلہ تھا اور اب بھی۔ اگر یہ انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے آتا ہے تو انسانوں سے پہلے نہیں آنا چاہیے تھا۔

مذہبی لوگوں کے دو گروہ تھے: ایک کا کہنا تھا کہ یہ عذاب ہے اور دوسرے گروہ کا یہ کہنا تھا کہ یہ آزمایش ہے، عذاب نہیں ہے۔جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ یہ عذاب ہے، وہ پرانی قوموں کے عذابوں کے مماثل انھیں سمجھ رہے تھے۔ اور جو لوگ اسے محض مشکل گھڑی اور آزمایش سمجھ رہے تھے، وہ اس آیت سے استدلال کررہے تھے کہ ’وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً‘، ’’ہم ہرگز عذاب نہیں دینے والے جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دیں۔‘‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۱۵)

یہ بات درست ہے کہ یہ عذاب نہیں تھا، اس لیے کہ اس سے پہلے کشمیریوں کے لیے کوئی رسول نہیں آیا تھا، لیکن پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بڑے عذاب کی نوعیت کے یہ زلزلے اور طوفان آخر کیوں آتے ہیں۔ اس کا جواب قرآن مجید کی سورۂ مرسلٰت میں مختصر مگر جامع طریقے سے دیا گیا ہے:

وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا. فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا. وَالنّٰشِرٰتِ نَشْرًا. فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا. فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا. عُذْرًا اَوْ نُذْرًا. اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ.(۷۷: ۱۔۷) 

’’وہ ہوائیں جن کی باگ کھلی چھوڑ دی جاتی ہے، پھر وہ تند ہو کر طوفان بنتی ہیں، پھر بادلوں کو بکھیر تی ہیں، پھر الگ الگ (علاقوں سے) الگ الگ معاملہ کرتی ہیں۔ چنانچہ دلوں میں یاددہانی ڈالتی ہیں، کبھی قطع عذر کے لیے اور کبھی محض ڈرانے کے لیے۔ یہ ہوائیں اس بات پر گواہ ہیں کہ قیامت ہونے والی ہے۔‘‘

یہاں دیکھیے کہ ہواؤں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کے طوفان مختلف طرح سے آتے ہیں۔ کسی قوم پر ’عُذْرًا‘ یعنی قطع عذر کے لیے اور کسی پر ’نذرًا‘ یعنی ڈرانے کے لیے۔ قطع عذرکے معنی اتمام حجت کے ہیں ۔ یہ معاملہ بلاشبہ رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔ اس لیے کہ انھی کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کے آنے کے بعد دلیل کی گنجایش نہیں رہتی۔ (النساء ۴: ۱۶۵)رہا معاملہ نذر کایعنی ڈرانے کا تو یہ عام انسانوں کے ساتھ بھی ہے اور رسول کی قوم کے ساتھ بھی۔

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عام حالات میں بھی اور رسولوں کی زندگی میں بھی اس طرح کے طوفان ڈرانے اور خدا کی یاددہانی دلوں میں ڈالنے کے لیے آتے ہیں ۔ یہ یاد اس طرح دلوں میں ڈالی جاتی ہے کہ بہت سی اموات ایک ہی وقت میں اکٹھی کردی جاتی ہیں۔ عذاب والے طوفان صرف عذاب یا قطع عذر کے لیے رسولوں ہی کے زمانے میں آتے ہیں۔

چنانچہ ہمارے اوپر جو بھی مشکلیں آتی ہیں، وہ یاددہانی کے لیے آتی ہیں یا دوسرے مقاصد کے لیے جن کا ذکر ہم اس کتاب کے پچھلے ابواب میں کر آئے ہیں۔

 

تقدیر پر ایمان

قرآن مجید کا فرمان ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کی تقدیر ٹھہرائی اور پھر اسے اس کی تقدیر کے راستے پر چلا دیا۔گویا آدمی نیکی اوربدی جو کماتا ہے وہ تواپنی آزادی اور اختیار سے کماتا ہے ، لیکن جو مقام اورمرتبہ اسے حاصل ہوتا ہے اور جو مال و دولت اسے حاصل ہوتی ہے وہ اس کی تقدیر کا لکھا ہوا اسے ملتا ہے۔ اس لیے نہ اسے غربت پر کڑھنا چاہیے اور نہ اپنی دولت و عزت پر نازاں ہونا چاہیے ۔ 

یہ سب کچھ ایسے ہی ہے، جیسے اچھی اور بری صورت والا ہونا۔ نہ اچھی صورت تکبر و غرور کی وجہ ہے اور نہ بڑی سے بڑی دولت ۔ یہ سب کچھ اللہ کی تقدیر ہے جو اس نے اپنی خاص حکمتوں کے ساتھ ٹھہرائی ہے۔ جن میں کچھ حکمتوں کو ہم نے اوپر سیکھا ہے۔ آدمی کی شکل و صورت، اس کی صلاحیتیں، اس کا مال و دولت ، سب کا تعلق اس کی قسمت سے ہے نہ کہ اس کے ذاتی استحقاق اور اس کی قابلیت کا صلہ اورحق، اس لیے ان کا ہونا یا نہ ہونا منشاے الٰہی ہے جس کا مقابلہ حوصلہ اور دانش مندی سے کرنا چاہیے۔

 

پائی ہوئی نعمتوں کا تذکرہ

اگر کوئی مشکل آدمی پر آئے تو آدمی کو اچھے دنوں کو یاد کرنا چاہیے جن میں اللہ نے اس پر عنایتیں کی ہوتی ہیں۔ اور یہ خیال کرنا چاہیے کہ اگر اللہ نے وہ دن دکھائے تھے اور گزر گئے تو یہ دن بھی باقی نہیں رہیں گے، یقیناًاچھے حالات نصیب ہوں گے۔ اس سے بھی آدمی کو صبر اور تسلی حاصل ہوتی ہے۔ سورۂ الم نشرح میں یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے۔

اوپر بیان کردہ حصول صبر کے یہ تینوں طریقے اصل میں خدا کے ساتھ آدمی کے تعلق کی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔آدمی کا یہ شعور جتنا گہرا ہوگا، اتناہی اس کا خدا سے تعلق گہرا اور مستحکم ہوگا۔ اور جتنا اس کا تعلق اس سے گہرا ہوگا، اسی قدر وہ مشکلات میں صبر کر سکے گا۔

لیکن ہم ان نعمتوں سے حقیقی معنی میں فائدہ نہیں اٹھا سکتے، اگر ہم ان مشکلات میں اللہ سے طالب مدد نہ ہوں۔ بعض تصورات کو صحیح کیے بغیر اللہ سے مدد طلب کرنا بسا اوقات ناممکن ہوتا ہے اور بسا اوقات بے معنی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان تصورات کو صحیح کر لیا جائے۔

 

اللہ کی صفات اور سنن کا علم

اس امتحان کی سختی اور نرمی کے اصول کو جا ن لینے کے بعد،یہ جان لینا بھی ازحد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو سمجھا جائے کہ جن کو جاننے سے ہمیں نہ صرف یہ کہ تسلی حاصل ہو، بلکہ وہ حکمت بھی سامنے آئے جو ہمارے لیے مشکلات سہنے میں ممد و معاون ہو۔اللہ کی صفات کاعلم ہمارے ذہن میں وہ تصورات بٹھا دیتا ہے، جن کی روشنی میں ہم بہت سے امور کی حکمت کو جان لیتے ہیں۔ جس کے جان لینے کے بعد مشکلات کی تلخی اور شدت میں کمی آجاتی ہے۔ اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی صفات کے اس علم کی وجہ سے ہمارے اندر خدا کی طرف سے امید اور سہارا ملنے کی توقع پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ چیز بھی ہمارے لیے مشکل وقت میں حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے۔ان صفات میں سے ایک صفت علیم ہے۔ 

علیم 

اللہ صاحب علم ہے ۔ دنیا میں ہونے والا ہر واقعہ ازل سے اس کے علم میں ہے۔ اس کے لیے کوئی چیز حادثہ نہیں ہے۔ وہ غیب اور ظاہر دونوں کو جانتا ہے۔ یہاں ایک بات ضمناً عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اس سے کسی بھی حالت میں جدا نہیں ہوتیں۔ ٹھیک اسی طرح اس کی صفت علم بھی ہر وقت اس میں موجود رہتی ہے۔ چنانچہ جب ہم پر کوئی مصیبت اتری ہو، تو یہ ہرگز خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ اس سے بے خبر ہو گا یایہ کہ اسے تو اس کا علم نہیں تھا ۔ 

اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا یہ نظریہ کہ وہ ہر واقعے کو جانتا ہے، ہمارے لیے باعث تسلی و اطمینان بننا چاہیے اور ہمارے لیے سہارا بننا چاہیے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جب ہمارے اوپر کوئی مصیبت آئے تو یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ہمارا مالک وآقا اس سے بے خبر ہے۔ اب ہمارا پرسان حال کوئی نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس یہ خیال کرنا چاہیے کہ دنیا ہماری اس مصیبت سے بے خبر ہے، مگر وہ کارساز اس سے واقف ہے ،جس نے اسے اس مصیبت سے نکالنا ہے۔

جب آدمی کو مصیبت کے وقت یہ یاد رہے کہ اس کی مشکلات دور کرنے والا اس کی مصیبت سے باخبر ہے تو یہ اس کے لیے ایک بڑا سہارا ہے جو اسے بلامعاوضہ اور بلا انقطاع میسر رہتا ہے۔

پھر یہ بھی دیکھیے کہ وہ ہماری صلاحیتوں،ہماری افتاد طبع، ہماری دلی خواہشات اور ہمارے حالات کا نہایت باریکی سے علم رکھتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ ہمیں کسی مشکل میں ڈالے گا تو ان تمام پہلوؤں سے وہ مشکل آزمایش نہایت نپی تلی اور متوازن ہو گی۔ اگر ہم صحیح ذہن کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو ہم بلا شبہ آزمایش کی اس بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔

حکیم 

اللہ صاحب حکمت ہے ۔دنیا میں ہونے والا ہر واقعہ اس کی دانائی ، بصیرت اور اس کے حکیمانہ مقاصد کا حامل ہوتا ہے۔ ہماری نگاہ اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مصیبت کتنی بڑی ہے، بلکہ اس پر ہونی چاہیے کہ یہ کیوں آئی ہے، اس لیے کہ اس حکیم و خبیر سے یہ توقع نہیں کہ وہ بلا وجہ ہمیں کسی ابتلا میں ڈال دے گا۔ وہ یقیناًدرج بالا مقاصد ہی کے لیے ہمیں آزماتا ہے۔ اس کے حکیم ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے ہر کام کو حکمت پر مبنی سمجھا جا ئے، اس لیے کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ اس کی یہ صفات اس سے کسی حالت میں بھی الگ نہیں ہوتیں، اس لیے یہ جان لینا چاہیے کہ اگر وہ کسی کو سزا بھی دے رہا ہو تو وہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔

اس کو ہم ایک ادنیٰ درجے پر ماں کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں، جو اپنے بچے کو بدتمیزی کرنے یا محنت نہ کرنے پر صرف اس لیے سزا دیتی ہے کہ اس کی عادتوں کا بگاڑ اس سے دور ہو یا اس کا مستقبل تاریک نہ ہو۔ ماں کے ذہن کی یہ حکمت بعض اوقات بیٹے سے اوجھل ہوتی ہے اور وہ ماں سے باغی ہو جاتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔ اگر ماں اپنے بیٹے پر یہ ستم اس لیے توڑتی ہے کہ وہ سدھر جائے، اس کا مستقبل سنور جائے، وہ آنے والے دنوں میں پریشان نہ ہو تو کیا خدا ماں سے زیادہ حکیم نہیں ہے؟ اور وہ اس سے زیادہ مستقبل سے باخبر نہیں ہے؟ یہی اس کا علیم و حکیم ہونا ہے جو ہمارے لیے باعث اطمینان ہے۔

اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ بسا اوقات ہم یہ خیال کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا کاروبار چل جانا چاہیے، ہمیں ملازمت مل جانی چاہیے، ہمارے ہاں اولاد ہونی چاہیے ۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس رہتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ کا علم یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے لیے مستقبل میں نقصان کا باعث ہو گا۔ وہ ہمیں اس نقصان سے بچانے کے لیے اس سب کچھ سے محروم رکھتا ہے۔اوپر ہم واقعۂ موسیٰ و خضر کو تفصیل سے بیان کر آئے ہیں۔ ایک نگاہ اس بحث پر دوبارہ ڈال لیجیے۔

 

رؤف و رحیم 

مشکلات میں اللہ کی جو صفات ہمیں بدرقہ و سہارافراہم کرتی ہیں، وہ رؤف و رحیم کی صفات ہیں۔ 

رؤف

رؤف اس ذات کو کہتے ہیں جو دوسروں کی مشکلات دور کرنے والی، ان کو کلفتوں سے نکالنے کا اہتمام کرنے والی ہو۔ جبکہ رحیم اس ذات کو کہتے ہیں جو عنایت و مہربانی کرنے والی ہو۔ لوگوں کے لیے استحقاق یا بلا استحقاق نعمتیں نازل کرنے والی ہو۔گویا رحمت عام ہے اور رافت خاص جو اس وقت متحرک ہوتی ہے،جب آدمی مشکل میں گھرا ہوا ہو۔

اس صفت کے تذکرے سے جو باتیں میں سامنے لانا چاہتا ہوں، ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت یہ تو ہے کہ وہ مشکلات میں سے نکالتا ہے،لیکن یہ نہیں ہے کہ وہ مشکلات میں ڈالتا ہے۔ البتہ اس نے یہ بتایا ہے کہ وہ بھوک،جان جانے کے خوف اورنقص اموال سے ہماری آزمایش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم ایسی ذات کے بارے میں جو رؤف و رحیم ہے،ہر گز یہ خیال نہ کریں کہ وہ خواہ مخواہ ہمارے او پر مصائب نازل کرتا رہتا ہے۔ 

اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ جب بھی ہمیں مشکل میں ڈالتا ہے تو وہ محض مشکل میں ڈالنے کے لیے ایسا نہیں کرتا،بلکہ اس کا مقصد جیسا کہ اوپر واضح ہو چکا ہماری بھلائی ہوتی ہے ۔ دیکھا جائے تو حقیقت میں رافت کا تقاضایہی ہے۔

قرآن مجید میں سورۂ بقرہ کی آیت ۲۰۷میں یہ صفت ’وَ اللّٰہُ رَءُ وْفٌ بِالْعِبَادِ‘ (اللہ اپنے بندوں کے لیے رؤف ہے) کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب نہایت درجہ دل نواز ہے۔ اسی طرح یہ صفت سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۳میں ’اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ‘ کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔ یہ صفت جہاں آئی ہے، وہ مقام اس صفت کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہے، اس لیے ایک نظر اس مقام پر ڈال لینا بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے تبدیلی قبلہ کا حکم دے کر اس متوقع ردعمل کا ذکر کیا ہے جو بالخصوص یہود کی طرف سے سامنے آنے والا تھا۔ وہ صدیوں سے بیت المقدس کو قبلہ بنائے ہوئے تھے۔ اب اس قبلہ سے ہٹنا ان کے لیے بہرحال ایک دشوار کام تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیتے ہی فرمایا ہے کہ اللہ نے یہ حکم امت مسلمہ کو کاملاً دین ابراہیمی پر قائم کرنے کے لیے دیا ہے اور اس لیے دیا ہے کہ وہ یہ پرکھے کہ کون رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں واپس چلا جاتا ہے۔ 

اس حکم کے یہ دونوں مقصد بتانے کے بعد فرمایا کہ بلا شبہ یہ کام مشکل ہے، لیکن ہم نے یہ حکم اس لیے نہیں دیا کہ ہم تمھارا ایمان ضائع کردیں۔ اللہ تو لوگوں کے ساتھ رؤف و رحیم ہے۔

یہاں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ قبلہ کی تبدیلی جیسی ایک بڑی آزمایش میں ڈالنے کے بعد جس کے مشکل ہونے کوخود رؤف و رحیم نے تسلیم کیا ہے،اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ میں رؤف ہوں، اس لیے تم پر ایسی آزمایش نہیں ڈالوں گا جس کی وجہ سے تم ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھو۔ اسی اصول کو اس نے ایک عمومی اصول کے طور پر بھی بیان کیا ہے کہ ’لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا‘ (اللہ کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ آزمایش کا بوجھ نہیں ڈالتا) ۔یہاں اس وسعت سے مراد آزمایش کے لیے قوت برداشت ہے، یعنی آدمی پر ایسی آزمایش نہیں ڈالی جائے گی کہ اس کی قوت برداشت سے زیادہ ہو جائے اور وہ کفر پر مجبور ہو کر ایمان سے محروم ہوجائے۔ اگر اللہ ایسی آزمایش آدمی پر ڈال دیں تو یہ اس کے نزدیک قرین انصاف نہیں ہے کہ وہ اس پر گرفت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی طرح، پاگل اور بے ہوش آدمی کے جرائم کا مؤاخذہ نہیں ہے۔

____________

 

B