باب سوم
پہلے دونوں ابواب میں یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ یہ دنیا آزمایش اور امتحان کے لیے بنی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں جو کام کرنا ہے، وہ یہ کہ ہم اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں۔اس کامیابی میں اولین چیز یہ ہے کہ ہم ہر آزمایش کی آمدپر اپنے ذہن کو فوراً تیار کریں کہ اب ہم امتحان میں ہیں۔ ہمارا ممتحن اللہ ہے۔ ہم نے ایسا رویہ یا ردعمل اختیار کرنا ہے، جو ہمارے ممتحن کو خوش کردے تاکہ وہ ہمیں اس ٹیسٹ میں کامیاب قرار دے دے۔
اگر ہم مشکلات اور آسانیوں کو امتحان کے رنگ میں نہیں لیں گے تو ہم ان حالات میں صحیح رویہ اختیار نہیں کرسکیں گے اور غلطی کا شکار ہو کر آزمایش میں ناکام ہو جائیں گے۔اس لیے پہلا کام یہ ہے کہ ہم مشکل ہو یا آسانی، اسے امتحان قرار دیں ۔ پھر اس میں کامیاب ہونے کے لیے صحیح سے صحیح عمل جوہمیں سمجھ میں آرہا ہو، اسے اختیار کریں۔
ہرطرح کی آزمایش میں صحیح رویے اور عمل کو اختیار کرنا صبر کہلاتاہے۔ صبر کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ہر صورت میں صحیح موقف پر قائم رہے۔ اللہ اسے دے تو وہ شکر گزار رہے، فرعون و قارون نہ بنے اور اللہ چھینے تو وہ صا بر رہے، کفر و شرک اختیار نہ کرے ، اللہ کے دروازے سے مایوس نہ ہو۔ صحیح موقف سے مراد یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے اخلاق سے نہ گرے۔ اپنے عزیزوں اوراپنے ساتھ برائی کرنے والے لوگوں سے بالخصوص اپنارویہ صحیح رکھے۔ ان کے حقوق پورے کرے، ان کی عزت قائم رکھے۔ ان سے اگر سہو ونسیان ہوا ہے تو بالخصوص ان سے درگزر کا رویہ اختیار کرے۔ اور اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی چیز سرزد ہوئی ہے توسزا دینے میں حدسے تجاوز نہ کرے۔ یہاں بھی پسندیدہ یہی ہے کہ اگر ہو سکے توانھیں معاف کردے:
وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَ لاَ السَّیْءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ. فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗعَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗوَلِیٌّ حَمِیْمٌ. وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلاَّ ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ.(حٰم السجدہ ۴۱: ۳۴۔۳۵)
’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتیں۔ تم برائی کا احسن چیزسے دفاع کرو تو تم دیکھو گے کہ جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی، وہی تمھارا گرم جوش دوست ہو گا،مگر یہ (وہ دانش مندی ہے) جو صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے۔ اور یہ صرف ان کوملتی ہے جو بڑے نصیبے والے ہوتے ہیں۔‘‘
خدا کی طرف سے آنے والی مشکلات میں بھی صبر ضروری ہے۔ ان چیزوں میں آدمی اگر صبر نہ کرے تو وہ مایوس ہو کر کفر و شرک تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کو ہم اپنے معاشرے کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب کسی کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور وہ علاج معالجہ کراتا ہے ، دعائیں کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی جب اولاد نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہو جاتا ہے تو پھر وہ لوگوں کے درباروں اور استھانوں کے چکر لگاتا ہے۔ ان کو خدا کی ایک صفت میں شریک و سہیم بنا دیتا ہے۔ چنانچہ اچھا خاصا آدمی محض اولاد سے محرومی کے دکھ میں شرک کر بیٹھتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ صبر و استقامت سے کام لیا جائے۔
آزمایشوں کے ثمرات حاصل کرنا ایک بڑے نصیبے اور خوش قسمتی کی بات ہے، لیکن یہ اس صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم نے صبر نہ کیا تو مشکلات کے ساتھ آنے والے انعامات سے محروم رہ جائیں گے۔ قرآن مجید کا فرمان اوپر گزر چکا ہے جس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ آزمایش اور مشکلات سے جوبصیرت اور دانش حاصل ہوتی ہے، وہ صرف انھی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔
مشکلات میں جو کچھ مطلوب ہے، وہ صرف اور صرف صبر ہے اور صبر ہر حالت میں توحید، اعلیٰ اخلاق، ایمان ، عدل ،حق پرستی اور حوصلے مندی کا نام ہے ۔صبر چونکہ ایک اہم موضوع ہے، اس پر ہم نے ’’صبر کیا ہے، اسے کیسے حاصل کریں‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔ جو اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کے بعد آپ کے ہاتھ میں موجود اس ایڈیشن سے پہلے لکھی گئی ہے، مگر ابھی تک طبع نہیں ہو سکی۔
اگر آدمی پر کوئی مصیبت آئے تو سب سے پہلے آزمایش تصور کرتے ہوئے اس کو قبول کر کے صبرسے کام لینا چاہیے۔اس کے بعداسے اپنے پچھلے بالخصوص ماضی قریب کے گناہوں کو یاد کرکے ان پر توبہ کرنی چاہیے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرمادیں گے ، بلکہ وہ ان مشکلات کو ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی بنا دیں گے۔ حقوق العباد میں البتہ توبہ کے ساتھ متعلقہ لوگوں سے اپنی غلطی اور گناہوں کو معاف کرانا بھی لازم ہے تاکہ توبہ قبول ہو جائے۔ اس لیے ان لوگوں کے سامنے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا، ان کو پہنچائے ہوئے نقصان کی تلافی کرنالازم ہے۔ ورنہ اس کے بغیر یہ توبہ قبول نہیں ہوگی۔
آزمایش کے دوران میں اگر بے صبری ہوئی ہے یا کوئی اور لغزش ہوئی ہے، اس پر توبہ کرنا بھی ضرور ی ہے۔ اس موضوع پر بھی ایک کتابچہ پیش نظر ہے۔ عنقریب جلد ہی سامنے آجائے گا۔
جو مشکلات ہمارے اوپر آتی ہیں، ان کے آنے کے بعد ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم نے اس کام کوکرنے میں جو تدبیر اور حکمت عملی اختیار کی تھی اور جو اقدامات کیے تھے، آیا وہ صحیح تھے یا نہیں۔ اگر ان میں غلطی معلوم ہو اور آپ کے امکان میں ہو تو ضرور درست کرلیں۔
آدمی ان مشکلات میں شان دار رویہ اختیار کرکے بلنددرجے کے حصول کی کوشش بھی کرسکتا ہے، یعنی ایک آدمی ان مشکلات میں روتے دھوتے کامیاب ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آدمی اس مشکل کو درجات کی بلندی کا ذریعہ بنا لے۔جب مشکل آئے تو وہ اس کا سامنا ایسے کرے جیسا کہ اسے کرنے کا حق ہے ۔ وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آزمایش پر کوئی آہ کھینچے بغیر اس پر پورا اترے۔ اس میں سنت ابراہیمی و مصطفوی صلی اللہ علیہما وسلم کو اپنا اسوہ بنانا چاہیے۔
ہم نے اوپر ’’اللہ تعالیٰ کی طرف کے اسباب‘‘ کے تحت یہ مقصد بھی جانا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کی کھوٹ کو نمایاں کرنے کے لیے بھی ہمیں مشکلات میں ڈالتے ہیں۔ جب ایسا عمل ہوتا ہے تو خود ہمارے سامنے بھی ہماری کھوٹ نمایاں ہو کر آتی ہے تو اس وقت ہمیں ان کو نوٹ کر لینا چاہیے اور ان کے دور کرنے میں اللہ سے طالب مدد ہونا چاہیے اور ان کے صحیح کرنے میں لگ جانا چاہیے۔
___________________