سورۂ الم نشرح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو مشکلات آئیں، ان سے جو مقاصد اللہ تعالیٰ نے حاصل کیے، ان میں سے ایک ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ’اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ‘، ’’کیا ہم نے حق کے لیے تمھارا سینہ نہیں کھولا۔‘‘ (الم نشرح ۹۴: ۱)
حق پر یہ اطمینان جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا، ان مشکلات کے بغیر ناممکن تھا، جن کا پچھلے دس بارہ برسوں میںآپ نے ہلا دینے والے روز وشب میں سامناکیاتھا۔ نمرود کی آگ میں جھونکے جانے سے پہلے خدا کی نصرت پر یقین ویسا کبھی نہیں ہو سکتا جو اس میں جھونکے جانے کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو ملا ہو گا۔
ٹھیک اسی اصول پر اللہ اپنے عام بندوں پر مشکلات نازل کرتا ، انھیں اپنی طرف راغب کرتا اورحق کے حق ہونے پر ان کے دلوں کو اطمینان سے بھر دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجیدمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آیا ہے کہ جب ان پر کوئی مشکل بات اترتی ہے تو ان کے ایمان او ر بڑھ جاتے ہیں۔
سورۂ فتح (۴۸: ۴۔۷) میں اللہ تعالیٰ نے آزمایشوں خواہ وہ مشکلات کی صورت میں ہوں یا آسانیوں کی صورت میں ان کی وجہ یہی بتائی ہے کہ اللہ اہل ایمان کے ایمان کو بڑھائے اور ان کا اس بات پر پورا یقین ہو جائے کہ کائنات اللہ ہی کے کنٹرول میں ہے، سارے کے سارے لشکر اس کے ہیں:
ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.(۴۸: ۴)
’’وہ ذات ایسی ہے کہ (مشکل مواقع پر) مومنین کے دل میں سکون نازل کرتی ہے تاکہ ان کے ایمان پر مزید ایمان بڑھ جائے۔ اور انھیں اس بات پر اطمینا ن ہو کہ زمین و آسمان کے لشکر اللہ ہی کے ہیں اور وہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘
انسان تجربات اور حوادث سے سیکھتا ہے۔ ایک صحیح مزاج والے آدمی کے اندر حوادث ایسے داعیات اور جذبات پیدا کردیتے ہیں کہ آدمی ایک پہاڑ کی طرح مضبوط بن کر ابھرتا اور وہ اپنی مشکلات پر دکھی اور رنجیدہ ہونے کے بجائے ایک حوصلہ مند آدمی کی طرح ابھر کر سامنے آتا ہے۔
سورۂ آل عمران میں اسی اصول کو بیان کیا گیا ہے کہ:
فَاَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّکَیْْلاَ تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ مَآ اَصَابَکُمْ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ.(۳: ۱۵۳)
’’تمھیں غم پر غم لاحق ہو ا تاکہ تم نقصان پر غم زدہ نہ ہوا کرو اور نہ کسی مصیبت پر دل گرفتہ ہوا کرو اور جو تم عمل کرتے ہو، اسے اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔‘‘
سورۂ حدید میں یہی اصول اللہ تعالیٰ نے مزید کھول کر بیان کیا ہے:
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ. لِّکَیْلاَ تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ(۵۷: ۲۲۔۲۳)
’’تمھیں کوئی مصیبت ایسی نہیں پہنچتی، نہ زمین کینہ تمھاری جانوں کی، مگروہ وجود میں آنے سے پہلے ہی ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ اور یہ اللہ کے لیے نہایت آسان بات ہے۔ یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جا رہی ہے کہ تمھاری جو چیز جاتی رہے، اس پر غم نہ کرو اور نہ اس چیز پر اتراؤ جو اس نے تمھیں بخشی ہے۔ اور یاد رکھو اللہ اکڑنے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں:
’’اس موقع پر تمھیں اس حقیقت کی یاددہانی اس لیے کرائی جا رہی ہے کہ نہ تم کسی چیز کے فوت(ضائع) ہونے پر غم کرو اور نہ کسی چیز پر جو تمھیں ملے اتراؤ اور فخر کرو،بلکہ اس عقیدے (ایمان بالقدر)کی روشنی میں تمھارا کردار یہ ہونا چاہیے کہ تمھیں کوئی مالی یا جانی نقصان پہنچے تو اس پر صبر کرو کہ یہ نوشتۂ تقدیر کے مطابق پہنچا ہے اور اسی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور اگرکوئی نفع پہنچے تو اس پر اپنے رب کے شکر گزار بنو کہ اسی نے تمھیں اپنے فضل سے نوازا ہے۔ اس گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اترانے نہ لگو کہ یہ تمھاری تدبیرو قابلیت کا ثمرہ اور تمھارے استحقاق کا کرشمہ ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۲۲۴(
مشکلات میں مضمر یہ مقصد پوری کائنات میں جاری و ساری ہے۔ آدمی اگر تلمذ کی ’’ذلت‘‘ برداشت نہ کرے تو وہ صاحب علم نہیں بن سکتا۔ بچہ اگر گرنے کی صعوبت نہ اٹھائے تو چل نہیں سکتا۔ آدمی اگر چھوٹی مشکلات پر صبر نہ کرے تو بڑی مشکلات کے مقابلے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ آدمی اگر مصائب کا سامنا نہ کرے تو وہ اس دانش اور حلاوت سے محروم رہتا ہے جو مصائب سے گزرنے والے پالیتے ہیں۔
بچوں کو بالعموم دیکھا گیا ہے کہ وہ بیماری کے بعد سیانے ہو جاتے ہیں۔ طالبِ علم مشکل قسم کے کورسز کے بعد زیادہ صاحب علم ہو جاتے ہیں۔ آسانیاں تلاش کرنے والے طالب علم ہمیشہ نالائق رہتے ہیں۔ اس کتاب کے پہلے باب میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ مشکلات کا یہ فیض صرف اسی کو حاصل ہوتا ہے جو ان مشکلات کے آنے پر صحیح طرز عمل اختیار کرے گا۔ اور ان کو ایک امتحان سمجھتے ہوئے ان میں کامیاب ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس طرز عمل کا نام صبر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ’وَجَدْنَا خَیْرَ عَیْشِنَا بِالصَّبْرِ‘ ، ’’ہم نے اپنی زندگیوں کی بڑھیا چیزیں مشکلات میں صبر کرکے ہی پائیں۔‘‘(بخاری(
سورۂ آل عمران میں احد کی ناکامی اور اصحاب رسول کی شہادت کو اللہ تعالیٰ نے دلوں کی کھوٹ کو پرکھنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ . وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ.(۳: ۱۵۴(
’’یہ اس لیے ہوا کہ جو کچھ تمھارے سینوں میں ہے اللہ اسے پرکھے۔ اورجو خرابی تمھارے دلوں میں ہے اللہ اسے صاف کردے۔ اور اللہ دل کے داخلی امور سے بھی خوب واقف ہے۔‘‘
مراد یہ ہے کہ دلوں کی کھوٹ کو پرکھنے کے لیے بھی اللہ ہمیں امتحان میں ڈالتا ہے۔ اس عمل سے ایک طرف تو ہمارا امتحان ہو رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف ہمارا ضمیر اور ہمارے ارد گرد کا ماحول ایسے مواقع پر ہماری غلطیوں کی نشاندہی(point out)کر تا ہے۔ اس سے ہمارے لیے یہ راستہ کھلتا ہے کہ ہم آزمایش کے دنوں میں اپنی خامیوں سے واقف ہو کر ان کے دور کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔جو لوگ ہمیں بتائیں، اس پر بھی دھیان دیں اور جس خرابی سے ہمارا دل ہمیں آگاہ کرے، اس کی اصلاح کے لیے بھی آمادہ ہو جائیں۔
قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مشکلات اتار کر ان کے درجات بلند کرتا ہے۔ اللہ ان مشکلات میں اپنے بندوں کو ڈال کر ان کو جنتی بناتا ہے۔ اور وہ جس جذبۂ ایمانی سے اپنے رب کی کسی آزمایش سے کامیاب نکلے گا اللہ اس کے اتنے ہی درجات بلند کریں گے۔
اوپر ہم پڑھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں لوگوں کی ترقی کے لیے انھیں مشکلات میں ڈالتا ہے۔ یہاں یہ جان لیجیے کہ اللہ ان آزمایشوں کو اس لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ اپنے درجات کی بلندی کا سامان کر سکیں۔ چنانچہ دنیا میں مشکلات کی گھاٹی چڑھ کر ایک آدمی جنت کے چھوٹے درجے سے بڑے درجوں کی طرف چڑھ سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو آزمایش ہمارے سر پر آئی ہے، وہ اصل میں ہماری کامیابی اور خدا کے قریب سے قریب تر جانے کا زینہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو یوں بیان کیا ہے:
ان عِظم الجزاء مع عِظم البلاء. )ترمذی، رقم۲۳۹۶(
’’بلاشبہ بڑا انعام بڑی آزمایش ہی پر ملے گا۔‘‘
ہم نے مشکلات کی اقسام بتاتے وقت یہ عرض کیا تھا کہ اللہ کے سخت احکام اور بڑی بڑی ذمہ داریاں بھی دراصل ایسی ہی مشکلات ہیں۔ غزوۂ بدر کی مشکل سب شرکا ے جنگ کے لیے جنتی ہونے کا مژدہ لے کر آئی۔ اور شہداے جنگ کی زندگی کا سبب بن گئی۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی ان کی قوم کے لیے ایک بڑی مشکل آزمایش تھی، جس میں سے جو جس قدر کامیابی سے گزرا، وہ اسی قدر درجہ پا گیا۔
قرآن مجید میں یہ بات بھی متعدد جگہ پر آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بعض اوقات اس لیے بھی مشکلات نازل کرتے ہیں کہ انھیں بالترتیب اسوہ، موعظت اور عبرت بنا دیں۔ مثلاً معذور لوگ ہماری عبرت و موعظت کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں۔
اللہ انبیا و صالحین پر مشکلات کے پہاڑ توڑ کر ان کی سیرتوں کو آنے والوں کے لیے اسوۂ حسنہ بنا دیتے ہیں۔ قریش کی بدتمیزیاں،شعب ابی طالب کی قید اور بھوک، طائف کی وادی کی سنگ باری، احد کے زخم اور اس میں ایک گونہ شکست، اور ان سب مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال کردار ہمارے لیے اسوہ بنا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری، سیدنا ابراہیم کا اسماعیل کو مکہ میں چھوڑنا ، سیدنا یوسف کا قیدہونا اور رہائی کے وقت کی استقامت سب اسی اسوۂ حسنہ کی بے مثال داستانیں ہیں۔
معذور لوگوں کی مشکلات ہمارے لیے موعظت ہیں۔ اللہ کسی کو پیدایشی اندھا بنا دیتا ہے۔ کسی کو پاگل، کسی کو لنگڑا اور کسی کو اپاہج، یہ سب ہمارے لیے نصیحت کی چیزیں ہیں۔ اللہ ہمیں بھی ایسا بنا سکتا ہے۔
برے لوگوں پر جو سزائیں نازل ہوتی ہیں، خواہ وہ اجتماعی صورت میں ہوں یا انفرادی صورت میں، ان کو عبرت بنا دیا جاتا ہے۔قرآن ان عذابوں کو ’نکال‘ یعنی عبرت کہتا ہے۔ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو بندر بنا کر انھیں بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت بنایا:
فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ. فَجَعَلْنٰہَا نَکَالاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہَا وَمَا خَلْفَہَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ.(البقرہ ۲: ۶۵۔۶۶)
’’ہم نے ان سے کہا کہ نامرادبندر بن جاؤ، تو یوں ہم نے ان کو عبرت بنا دیا، اس وقت کے اور بعد کے لوگوں کے لیے۔ اور متقی لوگوں کے لیے اس میں سامان نصیحت۔‘‘
دینونت کے معنی ہیں کسی قوم کی طرف رسول بھیج کر اس کے بارے میں فیصلہ کردینا۔ اور یوں اسے ایک نشانی بنا دینا کہ اللہ ہے اور اس کے یہ رسول سچے ہیں۔ مزید یہ کہ ان پر ایمان لانے والے ہی نجات پائیں گے اور ان کا انکارکرنے والے عذاب میں پڑیں گے ۔ اس مقصد کے لیے انبیا میں سے بعض لوگوں کو رسول بنایا گیا تاکہ ان کے ذریعے سے دینونت کی جائے۔اسی مقصد کے لیے قدیم اقوام کے لیے بار بار قرآن مجید میں آیا ہے کہ:
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ. ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ. (آل عمران ۳: ۱۳۷۔۱۳۸)
’’تم سے پہلے بھی قوموں میں رسولوں والی یہ سنت پوری ہوئی ہے تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ (رسولوں کو) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا، یہ لوگوں کے لیے کھلی بات اور ہدایت ہے اور متقین کے لیے نصیحت۔‘‘
اسی سنت اور اصول پرفرعون کو اللہ نے رہتی دنیا کے لیے اپنے ہونے کی نشانی بنایا ہے:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.(یونس ۱۰: ۹۲)
’’تو آج ہم تیرے بدن کو (دریا میں سے) بچا لیں گے تاکہ تو بعد والوں کے لیے (ہماری طرف سے) ایک نشانی بنے، بے شک بہت سے لوگ ہماری ایسی نشانیوں سے غافل ہیں۔‘‘
بعثت عیسوی کے بعد یہود کو قوموں کے لیے عبرت بنایا کہ وہ کس طرح بار بار ابھریں گے اور بار بارپیٹے جائیں گے:
ضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْْنَ مَا ثُقِفُوْا اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآءُ و بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْْرِ حَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ.(آل عمران۳: ۱۱۲)
’’یہ (یہود)جہاں کہیں بھی رہیں،ان پر ذلت تھوپ دی گئی،سوائے ان مواقع کے جب اللہ کے کسی عہد کے تحت انھیں سہارا مل جائے یا لوگوں سے کسی عہد معاہدے سے انھیں کوئی سہارا حاصل ہو اور وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوئے۔ ان پر مسکنت (پستی) مسلّط کر دی گئی۔ یہ اس لیے کہ یہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے ہیں، نبیوں کو بلا وجہ قتل کرتے رہے ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ انھوں نے ہماری معصیت اختیار کی اور حدود سے تجاوز کیا۔‘‘
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے ساتھ یہ صورت حال ہوئی کہ انھیں ہمیشہ کے لیے حضرت عیسیٰ کے پیرو کاروں کے آگے کمزور کردیا گیا:
وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.(آل عمران ۳: ۵۵)
’’اور (اے عیسیٰ) تیرے پیرو کاروں کو قیامت تک کے لیے تیرا انکار کرنے والوں پر غالب کردوں گا۔‘‘
یوں قوموں کے عذابوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسالت اور آخرت کے حق میں بطور ایک حسی دلیل کے پیش کیا ہے کہ قوموں کا رسولوں کے آنے کے بعد عذاب اس بات کا پتا دیتا ہے کہ کل قیامت برپا ہو گی اور خیر و شر کا اسی طرح فیصلہ کیا جائے گا،جس طرح رسولوں کے دور میں ان قوموں کے بارے میں کیا گیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی کا ایک اصول بیان کیا ہے کہ ہم نے تمھارے درمیان دنیا کی چیزوں کو برابر نہیں بانٹا، بلکہ کسی کو کم دی ہیں، کسی کو زیادہ اور کسی کوان سے محروم رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم سب کو برابر چیزیں عطا کردیتے تو دنیا میں ہم ایک دوسرے سے کام نہ کراسکتے ۔کوئی موچی ،جولاہا یا کسان بننے کو تیار نہ ہوتا۔ ہر شخص بیٹھ کرکھانے کی سوچتا اور یہ کوئی بھی نہ چاہتا کہ بھاری اور مشکل کام کرے۔
اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا انتخاب غربت کے لیے اور بعض کا امارت کے لیے، بعض کے لیے اعلیٰ صلاحیتوں کا اور بعض کے لیے کم تر صلاحیتوں کا، بعض کے لیے عزت و شرف کا، بعض کے لیے رسوائی اور کمی کمین ہونے کا ۔ اور پھر ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں بھی بے شمار درجے ہیں، جن کی وجہ سے معاشرے میں ان کے درجات مختلف ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ پھرمختلف درجے کے کام ان سے لینے ممکن ہو جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ محض آزمایش کے لیے ہے ۔ نہ جس کو عزت ملی ہے ، وہ کوئی حقیقی عزت ہے اور نہ جس کو ذلت ملی ہے، اس کی ذلت کوئی حقیقی ذلت ہے۔ یہ سب کچھ لوگوں کو ان کے پروردگار نے ان کے امتحان کے لیے دیا ہے۔ اس امتحان کے لیے جب وہ غربت کا کسی کے لیے فیصلہ کرتا ہے تو اپنے علم و حکمت کے تحت لوگوں کو خود چنتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھیے کہ یہ کیا مبارک پہلو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اسکیم میں مجھے بھی چنا ہے۔ اگر میں متوسط آمدنی والا ہوں تو اس وقت خدا نے مجھے اسی لیے چنا ہے اور اگر میں غریب ہوں تو اس وقت اسی مقصد کے لیے اس نے میرا انتخاب کرکے اپنی مخلوقات کے لیے مسخر کر لیا ہے۔
یہ میرے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ اس نے مجھے اس طبقے کے لیے چنا ہے۔ مجھے اللہ کے فیصلے پر شاکی ہونے کے بجائے اطمینان قلب کے ساتھ محنت کر کے زندگی گزارنی چاہیے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جن کو دولت ملی ہے، وہ کوئی انعام یافتہ ہیں وہ بھی آزمایش میں سے گزر رہے ہیں۔ مال داروں کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انھیں یہ مال امتحان کے لیے ملاہے اوران کے مالوں میں غریبوں کا بھی حصہ ہے ۔یہاں یہ بات بھی موجب تسلی ہو سکتی ہے کہ یہ ناممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی ایک طبقے سے نکل کر دوسرے طبقے میں چلا جائے، اس لیے کہ کسی وقت میں ایک شخص کی ضرورت ایک طبقے اور اسی کی کسی وقت دوسرے طبقے میں ہو سکتی ہے۔
بہرحال آدمی جس طبقے میں بھی ہو، اسے ’رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا‘ کے مقام پر رہنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس لیے کہ اس وقت کے حالات خواہ اچھے ہوں یا برے وہ اللہ کے فیصلے کی بنا پر ہیں، جس فیصلے میں میرے بارے میں موجودہ صورت حال میں رکھنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔
رسولوں کے زمانے میں بالخصوص ، یہ سبب بہت زیادہ روبہ عمل ہوتا ہے کہ ان کی جماعت میں جو لوگ دنیوی مقاصد سے شریک ہو جاتے ہیں، جماعت صحابہ کو ان سے پاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ آزمایشیں بھیجتے ہیں تاکہ صحابہ اور مخلص مسلمان چھانٹ کر الگ کر لیے جائیں اور منافقین الگ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے غزوات کو بھی آزمایش کے طور پر استعمال کیا۔ اور ہر جنگ کے موقع پر منافقین اپنے آپ کو نمایاں کرنے پر نادانستہ طور پر مجبور ہوتے رہے۔رسولوں کے بعد بھی اجتماعی کام کرنے والے اس تجربے سے گزرتے ہیں، لیکن اس کی شدت اتنی نہیں ہوتی اور نہ کیفیت اتنی واضح ہوتی ہے کہ اسے منافقت کہا جاسکے۔
عام زندگی میں یہ اصول بہرحال چلتا رہتا ہے، اس لیے کہ اس دنیا ہی کی آزمایش سے جنتی اور دوزخیوں کو چنا جاتا ہے۔
پچھلی فصل میں ہم نے ان اسباب کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ ان اسباب کی نوعیت مشکلات کے مقاصد کی سی ہے، یعنی پچھلے باب میں مشکلات کے آنے کے مقاصد زیر بحث تھے۔اب اس فصل میں ہم ان اسباب کا ذکر کریں گے، جن کی وجہ منفی ہے۔ یعنی وہ اسباب یہاں زیر بحث آئیں گی جن میں ہماری کوتاہیاں ،غلطیاں اور نقائص شامل ہیں۔
بندۂ مومن اگر گناہ کرے مثلاًجھوٹ بولے یا دھوکا دے تو اللہ تعالیٰ اس کی گرفت کرتے ہیں، اس گرفت کے مقاصد ہم اوپر پڑھ چکے ہیں: کبھی ہمیں بیدار کرنا ،کبھی توبہ کرنے کی توفیق دینا اور کبھی ہمارے گناہوں کا کفارہ بنانا، وغیرہ، لیکن ان کی اصل سزا قیامت کے دن ملے گی، اگر وہ گناہ توبہ یا اللہ کی کسی آزمایش کی وجہ سے جھڑجائے تو پھر قیامت کے دن آدمی اس کی سزا سے بچا رہے گا۔ البتہ چونکہ اس دنیا میں بھی گناہوں کی وجہ سے مصائب آتے ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کسی مثال سے سمجھ لیا جائے۔
مثلاً جھوٹ کو لیجیے اگر آدمی کاروبار کی بنیاد جھوٹ پررکھ دے تو جلد یا بدیر ا س کا جھوٹ اس کے کاروبار کے لیے نقصان کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اس کے گاہکوں کااعتماد اس پر سے اٹھ جائے گا۔ چنانچہ کاروبارکے مندے کی صورت میں اس پرایک افتاد آسکتی ہے۔
البتہ غلطی کا معاملہ الگ ہے۔ غلطی سے ہماری مراد دنیوی امر کو سر انجام دینے میں خامی چھوڑ جانا ہے۔مثلاً، معاملہ کو سمجھے بغیر اقدام کردینا، تدبیر کا صحیح نہ ہونا، انسانی معاملات میں بے حکمتی ، مطلوبہ محنت نہ کرنا، نرمی یا سختی میں غلو، معاملات میں عدم توازن ، سنجیدہ امور میں لا پروائی اور ٹا ل مٹول، لین دین میں بد دیانتی ، وقت کی پابندی اور عہد کی پاسداری نہ کرناوغیرہ ۔
اللہ تعالیٰ نے دینی اور اخلاقی جرائم کی سزا اصلاًآخرت میں رکھی ہے اور دنیوی امور میں تدبیر کی غلطی یا محنت میں کمی کی سزا اس دنیا میں ۔ دنیوی امور میں مادی اصولوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصول بھی چلتے ہیں، جن کا اثر دنیوی امورپر جو پڑتا ہے، سو پڑتا ہے، مگر آخرت میں ان کی وجہ سے پکڑ ہو گی۔
مادی اور اخلاقی اصولوں کے فرق کو بھی سمجھ لینا چاہیے تاکہ ہماری باقی گفتگو کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اخلاقی اصولوں سے مراد دیانت داری ، خوش اخلاقی جیسے امور ہیں اور مادی اصولوں سے مراد اچھی طرح سوچنا، عمدہ تدبیرکرنا، کاموں کی شرائط پوری کرنا وغیرہ۔
اب ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ جس سے مادی و اخلاقی اصولوں کے سمجھنے میں بھی مدد ملے گی اور یہ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس چیز کابدلہ اسی دنیا میں ہے اور کس چیز کا آخرت میں ۔
فرض کریں کہ آپ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو دونوں پہلوؤں سے معاملات کرنا پڑیں گے۔مثلاً اگر آپ دیانت داری سے معاملہ کریں، تول پورا تولیں تو ان کا بھی ایک مثبت اثر کاروبار پر پڑے گا اور اگر آپ دیانت داری نہیں کریں گے، ناپ اور تول میں کمی کریں گے تو اس کے بھی منفی اثرات کاروبار پر پڑیں گے، لیکن ان کی معصیت اتنی زیادہ ہے کہ کاروبار پر منفی اثرات ان کی حقیقی سزا نہیں ہے ۔ اس لیے ان کی سزا اگر توبہ نہیں کی گئی تو آخرت میں بھی ملے گی۔
اسی کاروبار کے لیے اگر آپ تدبیر کرنے میں غلطی کریں، مثلاً آپ نے جوتوں کی دکان کھولنی تھی اورآپ نے ایک چلتے ہوئے بازار میں دکان کھولی ہے ، سودا صحیح ڈالا ہے تو کاروبار چل نکلے گا۔ یعنی آپ کے حسن تدبیر کا بدلہ آپ کو مل گیا، لیکن اگر آپ نے دکان ایسی جگہ پر کھول لی کہ جہاں لوگوں کا آنا جانا کم ہے، صرف محلے والے آتے جاتے ہیں تو ظاہر ہے یہ کاروبار نہیں چل سکے گا۔ گویا آپ کو آپ کی غلطی کی سزا اسی دنیا میں مل گئی، لیکن اس غلطی کی سزا آخرت میں نہیں ملے گی۔ اس لیے کہ یہ محض تدبیری غلطی تھی، دینی اور اخلاقی غلطی نہیں تھی۔
چنانچہ اس طرح کے معاملات میں جو مشکلات آتی ہیں تو وہ ہمارے اپنے کیے کی سزا ہوتی ہے۔ ان پر شکوہ شکایت کرنے کے بجائے اپنے کیے پر نگاہ ڈالنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا کچھ کر آئے ہیں۔
شاکلہ سے مراد ہمارا و ہ مزاج اور رویہ ہے، جسے ہم نے اپنی افتاد طبع، ماحول اور حادثات کے زیر اثر تربیت کرکے اپنایا ہے۔ مثلاً، ایک آدمی نے اپنی تربیت یہ کر لی ہے کہ وہ نقصانات میں ردعمل کا شکار ہو کراپنی چیزیں توڑ لیتا ہے۔ ایک آدمی نے اپنے جذبۂ جنس کو بڑھا کر اس کا توازن بگاڑ لیا ہے۔ایک آدمی نے گھر کی چیزوں کو قرینے سے رکھنے کا جذبہ اتنا بڑھا لیا ہے کہ اب اپنے بیوی بچوں کو ذرا ذرا سی خرابی پر ڈانٹتا رہتا ہے۔کسی نے اپنی حساسیت کو بہت بڑھا لیا ہے اور کوئی بے حس ہو چکا ہے، یہ سب مختلف شاکلہ ہیں جو انسان دنیا میں آکر اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اس شاکلہ کا لحاظ کرتے ہیں۔
مثلاً، ایک آدمی بہت اچھا ہے، اپنے ارادے اور نیت میں بہت صالح ہے ، مگر اسے حالات ایسے ملے ہیں کہ اس کا جذبۂ جنس اس کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ اب دوسری طرف وہ کاروبار میں بھی بہت دیانت دار ہے، مگر کاروبار اس کی دو وقت کی روٹی سے زیادہ نہیں دیتا۔ تو یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کے ساتھ ساتھ اس کی اس خامی سے واقف ہیں اور نہیں چاہتے کہ پیسا ہاتھ آنے کے بعدجنسی آوارگی کی راہ میں اپنی شرافت کھو بیٹھے۔ اس لیے وہ اس کے کاروبار کو کھل کر چلنے نہیں دیتے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ہمارے بھلے ہی کی خاطر ایک مشکل میں ہمیں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ اصل میں اسی سبب کا دوسرا پہلو ہے جسے ہم ’’ اللہ کی طرف کے اسباب‘‘ کے تحت ’’بڑی مشکلات سے نجات‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
جیسا کہ ہم اوپربیان کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرمشکلات انھیں بیدار کرنے اور توبہ کا موقع فراہم کرنے کے لیے نازل کرتے ہیں، لیکن اگر آدمی ان پر بیدار نہ ہو تو ا ور بھی مصائب نازل ہوسکتے ہیں۔
اس کی مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں منافقین کے ساتھ اللہ کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ میں ان کو باربار برہنہ کرتا رہا تاکہ وہ اپنی حرکت سے باز آجائیں، لیکن یہ پھر بھی توبہ نہیں کرتے۔سورۂ توبہ میں یہ بات یوں بیان کی گئی ہے:
اَوَلاَ یَرَوْنَ اَنَّہُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْْنِ ثُمَّ لاَ یَتُوْبُوْنَ وَلاَ ہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ.(۹: ۱۲۶)
’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ یہ منافق سال میں ایک یا دو مرتبہ ضرور ہماری آزمایش کی پکڑ میں آتے ہیں ، مگر یہ پھر بھی توبہ نہیں کرتے ، اور نہ نصیحت ہی پکڑتے ہیں۔‘‘
قرآن مجید نے یہ اصول صریح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک لوگوں کی حالت تبدیل نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اس چیزکے تارک نہ ہو جائیں، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر خیر نازل کیا تھا ۔
یہ اصلاً اجتماعی اصول ہے، یعنی جن اسباب خیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عروج دیتا ہے، اگر وہ قوم انھی چیزوں کو اپنے اندر سے ختم کردے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو زوال کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ قوموں کے عروج وزوال میں بنیادی اصول یہی کارفرما ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک قوم پر جن اصولوں کی وجہ سے مہربان ہوا ہوتا ہے ، اگر وہ قوم اس خوبی کو ترک کردے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کو واپس لے لیتا ہے، اور اس پر برے حالات آنے لگتے ہیں۔
یہ سبب بھی اجتماعی زندگی سے متعلق ہے ۔ جب تک امت تفرقے کا شکار نہیں ہوتی، وہ بنیادی دین پر متفق علیہ رہتے ہوئے فروعات کے اختلافات کو کفر و زندقہ سے تعبیر نہیں کرتی، اس وقت تک افتراق و انتشار کی مشکل امت پر نہیں آتی۔
لیکن جب امت بنیادی دین کو اہمیت دینا چھوڑ دے اورلوگ اپنے جزئی اور فروعی اختلافات کو بنیادی دین قرار دے کر ان اختلافات کی بنیاد پر کفر و زندیقی کے فتوے ایک دوسرے پر لگانے لگیں تو اس وقت امت پر افتراق اور انتشار کی سخت آزمایش نازل ہوتی ہے۔ اگر امت اس پر قابو نہ پائے تو یہ آزمایش خون خرابے کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہے۔ پھر مذہب کے نام پر وہ خونچکاں تاریخ رقم ہوتی ہے کہ غیر مذہبی اقوام ان کے مقابلے میں زیادہ مہذب اور متمدن نظر آتی ہیں۔
قرآن مجید میں سورۂ شوریٰ میں اس کی یہ سزا بھی بیان کی گئی ہے کہ اس کے بعد لوگ دور نہ ہونے والے شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہم پاکستان میں عامۃ الناس میں ایسے لوگ بکثرت دیکھ سکتے ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کس کی بات مانیں؟ دین میں شکوک اور اس پربے اعتمادی ، کسی بھی مذہبی امت کے لیے انتشار و افتراق کا واحد سبب بن سکتے ہیں۔
یہ سبب رسول کی قوم کے ساتھ خاص ہے، ایک پہلو سے یہ اجتماعی ہے اور دوسرے پہلو سے انفرادی۔ اب چونکہ رسالت ونبوت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہو چکا ہے، اس لیے یہ سبب اب قیامت تک کے لیے ختم ہو چکا ہے، لیکن ختم نبوت سے پہلے کے دور میں یہ سبب ہمیں پوری طرح کارفرمانظر آتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ رسول کے اتمام حجت کے بعد اس کی قوم کے کفر کے بعد جو عذاب یا مشکلات آتی ہیں، وہ سزا ہوتی ہیں نہ کہ تربیت واصلاح والی آزمایش۔ اس بات کو ہم ’’آزمایش میں کامیابی کا طریقہ ‘‘والی فصل میں واضح کریں گے کہ آزمایش اور عذاب میں کیا فرق ہوتا ہے۔
___________________