HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مشکلات اور ان کے اسباب (حصہ اول)

 

باب دوم

 

اب ہم ان اسباب و وجوہ کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ ہمیں مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں۔ مشکلات دو قسم کی ہیں: ایک انفرادی اور دوسرے اجتماعی۔ اجتماعی اور انفرادی دونوں طرح کی آزمایشیں کبھی ہماری کوتاہیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہیں اور کبھی محض اللہ تعالیٰ کے پیش نظر مقاصد کی وجہ سے۔ ہم یہا ں انفرادی اور اجتماعی اسباب کو الگ الگ نہیں کریں گے، مگر اللہ کے مقاصد اور ہماری طرف کے اسباب کو الگ الگ بیان کریں گے تاکہ ہم اسباب کو منفی اور مثبت پہلو سے سمجھ سکیں۔ ہماری کوتاہیوں کے بغیرمحض اللہ کی طرف سے آزمایش آنامثبت پہلو ہے اور ہماری کرتوتوں کی وجہ سے آنا منفی ۔

مشکلات ہمیں پریشان کرتی ہیں، لیکن اگر ہم ان کے اسباب اور وجوہ سے واقف ہوں تو ہم ان مشکلات کی توجیہ (determination of reasons or objectives) کر کے ان کے مقابلے میں مطلوب رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اس لیے مشکلات کی آمد و شد کے ان حقیقی اسباب کا علم ایک مفید علم ہے ۔ یہ علم نہ صرف ہمیں دنیا میں قلب مطمئن عطا کرتا ہے ، بلکہ دلوں میں تقویٰ کی آبیاری بھی کرتا ہے۔ خدا کی اس زمیں پر اس کے قانون و حکمت کے تحت جینے کے لیے یہ علم ازحد ضروری ہے۔ اسی سے تقرب کی بلند منازل طے ہوتی ہیں اور اسی کے ہمراہ وہ نعمتیں ہمارے دامن میں آ گرتی ہیں کہ جنھیں ہم توشۂ آخرت بنا کر اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔

قرآن مجید نے مشکلات کو ایک آیت میں یوں بیان کیا ہے:

وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ. (البقرہ ۲: ۱۷۷)

’’اور صبر کرنے والے سختیوں اور تکلیفوں میں اور جنگ کے میدان میں، یہی اپنے ایمان میں سچے ہیں اور یہی حقیقت میں متقی ہیں۔‘‘

اس آیت کی روشنی میں مشکلات سے ہماری مراد درج ذیل چیزیں ہیں:

۱۔ مالی تنگ حالی،

۲۔ جسم و جان کی تکلیف اور ضیاع،

۳۔ تذلیل و رسوائی ،

۴۔ ذہنی پریشانیاں ، جیسے خوف و ہراس اور اضطراب و بے چینی ،

۵۔ شریعت کی ذمہ داریاں ،

۶۔ ایمان کے تقاضوں کی سختی، جیسے دینی و ملی تقاضے، جہاد میں شمولیت، ناگہانی آفات میں قوم کی اپنی کمائی سے مدد کرنا وغیرہ۔

اسی طرح آسانی سے مراد ہے:

۱۔ مالی خوش حالی،

۲۔ جسم و جان کی راحت ،

۳۔ جاہ و جلال اور عزت و نام وری،

۴۔ ذہنی آسودگی، جیسے خوف و ہراس اور اضطراب و بے چینی سے آزادی،

۵۔ شریعت کی ذمہ داریوں کو آسانی سے نباہ پانا،

۶۔ ایمان کے تقاضوں کی سختی، جیسے دینی و ملی تقاضے، جہاد میں شمولیت، ناگہانی آفات میں قوم کی اپنی کمائی سے مدد کرنا وغیرہ سے سرخ روئی یا نجات۔

 

اللہ کی طرف کے اسباب

 

مشکلات آنے میں اللہ تعالیٰ کے مقاصد اصلاً ہماری آزمایش پر مبنی ہیں۔ اس آزمایش کے ساتھ کچھ دیگر مقاصد بھی ہیں ،جن کے لیے اللہ تعالیٰ ہم پر مشکلات نازل کر تے ہیں۔ اگر ہم آزمایش میں ناکام ہو جائیں تو وہ فوائد بھی ہمیں پوری طرح حاصل نہیں ہوتے، جو آزمایش کے ساتھ ان مشکلات سے اللہ کے ہاں پیش نظرہوتے ہیں۔

مثلاً، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی مشکل اس لیے نازل کی ہو کہ امتحان کے ساتھ ساتھ اس میں سے گزرنے کی وجہ سے ہمار ا ایمان بھی مضبوط ہو ۔ چنانچہ اگر ہم صحیح رویہ اختیار کریں گے اور اس آزمایش میں کامیاب ہو جائیں گے تو یقیناًہمارا ایمان بھی مضبوط ہو گا۔جبکہ اگر ہم آزمایش میں ناکام ہوئے تو امتحان میں ناکامی کے ساتھ ساتھ ایمان کی مضبوطی سے بھی محروم رہیں گے۔

ناکام ہونے والے سے ہماری مراد یہ ہے کہ جیسے ہی اس پر وہ مشکل آتی ہے، وہ اس پر صبر نہیں کرتا۔ وہ یہ سوچتا ہی نہیں ہے کہ یہ آزمایش اللہ نے مجھ پر میرے امتحان کے لیے بھیجی ہے ۔ چنانچہ جب وہ اسے آزمایش خیال نہیں کرتا تواس میں غلط رویہ اختیار کر لیتا ہے، یعنی اگر صبر مطلوب تھا تو وہ صبر نہیں کرتا ، اگر دعواے ایمان کی جانچ مقصود تھی تو وہ اپنے ایمان کے دعوے میں سچا ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ اس مشکل کو ایک امتحان سمجھنے کے بجائے مایوسی کا شکار ہو بیٹھتا ہے، جس سے وہ اس امتحان میں ناکام ہوجاتا ہے۔ اگر وہ اس کو اپنا امتحان سمجھتا توپھر اس کا رویہ مختلف ہوتا، وہ صبر سے کام لیتا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی تک پہنچنے کی کوشش کرتا تو یقیناًوہ کامیاب ہوتا اور اس کا ایمان بھی اس سے مضبوطی پاتا۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر یہ آزمایش آئی کہ انھیں نمرود نے آگ میں پھنکوا دیا ۔ اگر ابراہیم علیہ السلام اس آزمایش کے آنے پر خدا سے مایوس ہو جاتے، اور آگ میں پڑنے سے بچنے کے لیے نمرود کی بات تسلیم کر لیتے تو خدا پر اس اعتماد، توکل اور یقین سے محروم رہ جاتے جو آگ میں پڑکر بچ جانے پر انھیں حاصل ہوا۔ نہ وہ مقام ہی انھیں ملتا کہ جس میں اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں وہ لازوال تبصرہ فرمایا ہے کہ ’وَاِذِ ابْتَلٰی اِبْرٰہِیْمَ رَبُّہٗبِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ‘، ’’جب ابراہیم کے رب نے اسے کچھ باتوں میں آزمایاتواس نے ان باتوں کو پورا کر دکھایا۔‘‘(البقرہ ۲: ۱۲۴(

اس بات کو سمجھنے کے بعد کہ آزمایش میں کامیابی کے بعد ہی مشکلات کے وہ فوائد ہمیں حاصل ہوں گے جو مشکلات میں اللہ تعالیٰ نے مضمر رکھے ہوتے ہیں، آئیے ان مقاصد و اسباب پر ایک ایک کرکے نظر ڈال لیں۔

 

سبب1: آزمایش

چونکہ یہ دنیا ہمارے امتحان کے لیے بنی ہے، اس لیے ہرمشکل کی بنیادی وجہ اصل میں ہماری آزمایش ہے۔ کائنات کے اس مقصد پر اس کائنات کی تخلیق اور ساخت و بناوٹ ہی گواہ ہے:

الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.(آل عمران۳: ۱۹۱(

’’وہ لوگ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے اللہ کو یاد رکھتے ہیں، اور کائنات کی تخلیق میں غور کرتے ہیں، (وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ) اے اللہ، تو نے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی، (بلکہ امتحان کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے کہ تو لغو اور بے مقصدکام کرنے سے) پاک ہے۔ (اس لیے ہمیں اس امتحان کے برے نتیجے سے بچا اور)دوزخ کی آگ سے نجات دے۔‘‘

ہماری مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس اصول پرمنظم کی ہے کہ وہ ہر ہر قدم پر ہماری آزمایش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً.)الملک۶۷: ۲(

’’یہ وہ ذات ہے جس نے موت اور زندگی اس لیے بنائی ہے تاکہ وہ تمھیں آزمائے (اور دیکھے کہ)تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے اچھا ہے۔‘‘

اس لیے یہ بات اصولی طور پر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ موت اور زندگی کا یہ سارا نظام اصل میں ہمارے آزمانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہم اسی بات کو آگے بڑھا سکتے ہیں کہ غموں اور خوشیوں اور عسر و یسر کا یہ سارا سلسلہ اصل میں ہمارے امتحان کی بساط ہے ،جو ازل سے قیامت تک کے لیے بچھا دی گئی ہے ۔ کسی آزمایش کا مقصد ہمیں تنگ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہمارے امتحان کے لیے آتی ہے۔ 

دنیا میں آنے والا ہر شخص آزمایا جائے گا۔ انبیا سے لے کر عام آدمی تک کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے، جسے آزمایش سے دو چار نہ ہونا پڑے۔ 

آزمایش دونوں طرح سے ہوتی ہے۔ جس طرح خوشیوں سے آزمایا جاتا ہے، اسی طرح غموں اور تکلیفوں سے بھی آزمایا جاتاہے۔ بلکہ غموں اور مشکلوں والی یہ آزمایش زیادہ عام ہے، اس لیے کہ سچے اور کھرے میں امتیاز کرنے کے لیے یہ زیادہ مؤثر ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی جب آزمایش کی بات کرتے ہیں تو تکلیفوں والی آزمایش کو زیادہ اہمیت سے بیان کرتے ہیں۔ مثلًا، دیکھیے صحابہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آنے والی آزمایش کو جب بیان کیا ہے توان میں بھی مشکلات ہی کو بیان کیا ہے ۔ اس لیے کہ کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کے لیے مشکلیں ہی زیادہ بہتر امتحان ہیں:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمَوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمٰرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ)البقرہ۲: ۱۵۵(

’’اور ہم یقیناًتمھیں آزمائیں گے، کچھ خوف سے کچھ بھوک سے ، اورکچھ مال میں کمی کرکے، کچھ جانیں چھین کراور کچھ منفعت میں نقصان سے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجیے۔‘‘

رسولوں کی زندگی میں مشکلات والی آزمایشیں ہمیں اسی لیے زیادہ ملتی ہیں کہ یہ منافقین اور ثابت قدموں کو ایک ہی مرحلے میں الگ الگ کر دیتی ہیں۔ اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قدم قدم پر مشکلات آزمانے آتی ہیں کہ کون ہے جو الٹے پاؤں واپس مڑ جائے گا اور کون ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

یہ مشکلات جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا جانی و مالی نقصان اور بھوک اور ننگ کی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہیں، اور ذہنی پریشانیاں بھی جیسے خوف و ہراس اور اضطراب و بے چینی ،آیات متشابہات بھی اور سخت قسم کے حکم وغیرہ بھی۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ان مشکلات اورآزمایشوں سے اللہ کے مقرب رسول بھی گزرے ہیں ۔ یہاں یہ خیال نہ کریں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کرتا ہے، بلکہ رسولوں اور مقربوں کی آزمایشیں بسا اوقات ہم عامیوں کے مقابلے میں کہیں سخت ہوتی ہیں:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗمَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ؟...(البقرہ ۲: ۲۱۴)

’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یوں ہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے، اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی طرح کی مشکلیں تو پیش ہی نہیں آئیں۔ ان کو ایسی ایسی تکالیف اور سختیاں پہنچیں اور وہ ان سختیوں سے ہلا کر رکھ دیے گئے، صورت حال یہاں تک پہنچتی رہی کہ اللہ کے رسول اوران کے ساتھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟...‘‘

ان آزمایشوں میں اصل چیز یہ ہے کہ آدمی اس کوشش میں رہے کہ وہ اس آزمایش میں کامیاب ہو۔ ہمیں آزمایشوں میں کامیابی کے لیے جن معلومات کی ضرورت ہے، ہم انھیں ’’مشکلات میں مطلوب رویے ‘‘کے عنوان کے تحت ،اس کتاب کے آخر میں ،ایک مستقل باب میں عرض کریں گے۔ یہاں ہمارا مقصود صرف ان باتوں کو بیان کرنا ہے جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی آزمایشیں آتی ہیں۔

 

سبب2: تذکیر و تنبیہ

ان مشکلات کا دوسر ا سبب جو آزمایشوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ مشکلات اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاددہانی بن کر آتی ہیں:

وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ.(الاعراف ۷: ۱۶۸)

’’اور ہم نے انھیں اچھے اور برے حالات سے آزمایا تاکہ وہ واپس (صحیح راہ پر) آ جائیں۔‘‘

یعنی ہم نے ان آزمایشوں کے ذریعے سے اپنی یاددہانی ان کے دل میں ڈالی تاکہ وہ ہم سے روگردانی چھوڑ کر ہماری طرف واپسی کی راہ اختیار کریں۔

یہاں بھی یہ اصول یاد رکھیں کہ وہ مشکل جو آزمانے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل میں یاددہانی ڈالنے کے لیے آتی ہے، وہ اسی صورت میں یاددہانی کرے گی جب ہم اس آزمایش میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں گے ۔یہ اصول ہم اوپر بھی بیان کر آئے ہیں کہ ہر مشکل اسی وقت اپنے تمام اثرات ہم پر ظاہر کر ے گی جب ہم اس مشکل میں صحیح رویہ ظاہر کریں گے۔

 

واپسی کی دعوت

اوپر کی آیت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ جب آدمی کسی غلطی میں پڑ جائے اور ابھی اللہ کے قانون ہدایت کی وجہ سے اس کے دل پر مہر نہ لگی ہو تو مشکلات آدمی پر اس لیے بھی آتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو برے راستے سے روکنے کے لیے مشکلات میں مبتلا کر دیتے ہیں تاکہ وہ واپس آ جائیں۔ 

اس معاملے میں بھی عامی و عارف اور نبی و امتی سب برابر ہیں۔ قرآن مجید میں سیدنا یونس علیہ السلام کا قصہ اختصار کے ساتھ بیان ہوا ہے، لیکن اس میں دیکھیے کہ سیدنا یونس جیسے ہی مقررہ وقت سے پہلے اپنی قوم کو چھوڑ کر آئے ہیں تو کس طرح مچھلی کا پیٹ ان کے لیے خدائی قید خانہ بن گیا اور انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے توبہ کی۔

 

سبب3: توبہ و اصلاح کا موقع

اوپر ہم نے جو سبب بیان کیا ہے، مشکلات کایہ تیسرا سبب اسی کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ بندوں کوآخرت میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ،اس لیے ان کے لیے یاددہانی کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ وہ توبہ کرکے اپنے گناہوں کو دھو لیں،اور وہ کل قیامت کے دن صالحین کے زمرہ میں شامل ہوں۔ 

سیدنا یونس کا قصہ اوپر ہم نے ذکر کیا ہے ، اس میں جس طرح یاددہانی کی گئی ہے، اس سے آپ کو توبہ کا موقع نصیب ہوا، اور ان کے منہ سے توبہ کے لیے وہ لاثانی جملہ نکلا جسے قرآن کی آیت بن جانے کا شرف حاصل ہوا: ’لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘، یعنی میں اس مشکل میں تیرے الٰہ ہونے سے ہر گز انکار نہیں کرتا، الٰہ بس تو ہی ہے۔اور تو اس سے پاک ہے کہ بلا وجہ آزمایش نازل کرے، بلاشبہ میں ہی ظالموں میں سے تھا کہ اس آفت کا مستحق ٹھہرا۔

قرآن مجید میں حضرت یوسف کے بھائیوں کا قصہ بھی نقل ہوا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کے بھائیوں کے جھوٹ اور ظلم کو ان کے بھائی ہی کے سامنے فاش کرکے ایک مشکل ان پر ڈالی تاکہ انھیں توبہ کاموقع میسر آئے اور وہ توبہ کرلیں، جیسا کہ انھوں نے اعترافِ گناہ کر کے کی۔(سورۂ یوسف۱۲: ۹۷)

دیکھیے، یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی عنایت ہے کہ وہ ہمیں گناہ کے بعد یاددہانی کراتا اور گناہوں کی بخشش کے لیے توبہ کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ٹھیک ایسا ہی واقعہ سیدنا آدم کا نقل ہوا ہے کہ شجرممنوعہ کے چکھ لینے کے بعد جب زمین پر اترنے کا حکم ہوا تو اس سے انھیں تنبہ ہوا اور انھوں نے توبہ کی جسے اللہ نے قبول فرمایا:

وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ. فَتَلَقّٰے اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖکَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ اِنَّہٗہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.(البقرہ ۲: ۳۶۔۳۷)

’’اور ہم نے کہاکہ اس جگہ سے نکل جاؤ، تم (آدم و ابلیس) ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ تمھارے لیے زمین میں رہنے کی جگہ ہے ۔ اور وہیں پر زندگی کی ضروریات کا سامان بھی، ایک مقررہ مدت تک کے لیے موجود ہے۔ تو (اس حکم کے بعد) آدم نے اپنے رب سے توبہ کے لیے الفاظ سیکھے (اور توبہ کی) تو اللہ نے اس پر رحم کیا، اس لیے کہ اللہ نہایت مہربان اور توبہ قبول کرنے والاہے۔‘‘

 

سبب4: گناہوں کا کفارہ

مشکلات اور آزمایشوں کا چوتھا سبب جو قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندۂ مومن کے لیے،اگر وہ ثابت قدم رہے تو ان مشکلات و مصائب کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتے ہیں۔ 

سورۂ آل عمران (۳: ۱۹۵) میں ہے کہ مسلمانوں کو ہجرت وغیرہ کی صورت میں جو اذیتیں سہنا پڑی ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے ان کے گناہوں کو دھو ڈالے گا۔ اور ان کو جنت میں داخل کرے گا۔

حدیث میں بھی کئی واقعات ایسے ہیں کہ جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری وغیرہ کو گناہ کا کفارہ قرار دیا ہے کہ بندۂ مومن کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس سے اس کے گناہ جھڑتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی بعض دعائیں بھی ہم تک اس معنی کی منقول ہوئی ہیں کہ اے اللہ، میرے گناہ کو سرد و گرم حالات سے دھو دے، ثلج و برد سے دھو ڈال۔یہ دعا مصائب کی طلب کی نہیں، بلکہ اس معنی کی ہے کہ جو مصائب ہم پر آتے ہیں، ان کو ہمارے لیے کفارہ بنا دے۔ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

ما من مصیبۃ تصیب المسلم الا کفر اللہ بہا عنہ، حتی الشوکۃ یشاکہا.(بخاری، رقم ۵۳۱۷)

’’مسلمان کو کوئی مصیبت نہیں پہنچتی، مگر یہ کہ اللہ اس کو اس کے لیے کفارہ بنا دیتے ہیں، (یہ چھوٹی بڑی سب مشکلوں میں ہوتا ہے) حتیٰ کہ کانٹے کے چبھنے پر بھی۔‘‘

 

سبب 5: آفتوں سے نجات

قرآن مجید میں قصۂ موسیٰ و خضر میں تین میں سے دو واقعات میں اسی حقیقت کو بیان کیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مشکلات کیوں نازل کرتے ہیں۔

ایک واقعہ یوں ہے کہ خضر علیہ السلام نیک نام ماں باپ کے اکلوتے بیٹے کو جان سے مار ڈالتے ہیں۔ دوسرے واقعے میں وہ ایک غریب ملاح کی اس صحیح و سالم کشتی میں شگاف ڈال کر عیب دار کر دیتے ہیں، جس پر اس کے روز گار کا انحصار ہوتا ہے ۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ان کے یہ دونوں کام خلاف عدل اور خلاف حکمت محسوس ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ ان سے پوچھتے ہیں تو وہ حضرت موسیٰ کو بتاتے ہیں کہ جس نوجوان کو انھوں نے مار ڈالا ہے، وہ بڑا ہو کر اپنے مومن والدین کا نافرمان بننے والا تھا، اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ وہ ان کو کفر و سرکشی میں پھنسا دے۔ اس لیے اسے ہم نے مار ڈالا ہے ۔ اس کا نعم البدل ہم انھیں عطا کریں گے۔

کشتی کو انھوں نے اس لیے توڑا کہ ملک کے بادشاہ نے کسی غرض سے ملاحوں کی اچھی اچھی کشتیاں ضبط کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ انھوں نے یہ شگاف اس میں اس لیے ڈال دیا کہ بادشاہ کی ضبطی سے بچ جائے اور اس ملاح کا روزگارچلتا رہے:

اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَآءَ ہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا. وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنِیْْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا. فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا.(الکہف۱۸: ۷۹۔۸۱)

’’جہاں تک کشتی کا معاملہ ہے تو وہ مساکین کی تھی، اور اس پر وہ دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ تو میں نے چاہا کہ میں اس کو عیب دار کردوں،کیونکہ ان کے اس طرف ایک بادشاہ لوگوں کی (ہر بے عیب) کشتی کو زبردستی چھین رہا تھا۔ رہا وہ لڑکا جسے ہم نے مار ڈالا تو اس کے والدین مومن تھے، اور ہمیں اندیشہ ہو ا کہ وہ لڑکاان کو کفر و سرکشی میں نہ پھنسا دے۔تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار انھیں نیکی اور محبت میں اس سے بڑھ کر بیٹا عطا کرے۔‘‘

یعنی اولاد کے چھن جانے کا غم بوڑھے والدین کے لیے اس کفر و سرکشی سے یقیناکم تھا جس میں وہ بیٹے کی وجہ سے پھنسنے والے تھے۔ اسی طرح کشتی کے شگاف کی پریشانی اس تکلیف کے مقابلے میں بہت کم تھی، جو اس کے چھن جانے کے بعد بے روزگاری کی صورت میں ان مسکینوں کو جھیلنی پڑتی۔

اس سے ہم اپنی مشکلات کے بارے میں سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس مشکل میں مبتلا کیا ہے، وہ دراصل ہمارے لیے کسی بڑی آفت سے نجات کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں یہ نعمتیں حاصل نہیں ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کا نہ ہونا ہی ہمارے لیے مفید ہو گا، اس لیے کہ ان کے ہونے سے ہم کسی بڑی آفت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ 

مثلاً، ایک آدمی اس دکھ میں مبتلا رہتا ہے کہ میرے پاس رہنے کو مکان نہیں ہے، کھانے کو کھلا رزق نہیں ہے ۔ پہننے کو عمدہ کپڑے نہیں ہیں۔ عیش و عشرت کے لیے پیسے نہیں ہیں تو وہ اپنے مالک و آقا سے مایوس ہو جاتا ہے۔ اس سے شکوہ کرتا ہے۔ اس کو چھوڑ کر استھانوں پر جاتاہے۔ حالانکہ اسے سوچنا چاہیے کہ اللہ علیم و خبیر اور عزیز و حکیم نے مجھے ان نعمتوں سے محروم رکھا ہے تو اس کی وجہ میری بھلائی کے سوا کچھ نہیں ہو گی۔ 

واقعۂ موسیٰ و خضر علیہما السلام سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم یہ جانیں کہ دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ ہمیں اس لیے ایک مشکل میں ڈال دیتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہم ایک بڑے حادثے سے بچ جاتے ہیں۔

میں اپنے طلبہ کو اکثر یہ مثال دیا کرتا ہوں کہ کبھی یہ ہو تا ہے کہ تم موٹر سائیکل یا گاڑی پر کہیں تیزی میں جانا چاہتے ہو، گھرسے اس خیال سے نکلتے ہو کہ بس ایک آدھ گھنٹے میں وہاں پہنچ جاؤں گا، لیکن گھر سے نکلتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ گاڑی پنکچر ہو گئی ہے۔اس موقع پر تم بڑی تکلیف محسوس کرتے ہو اور اگر غصہ آجائے تو کبھی اپنی گاڑی کو موٹی سی گالی بھی دے دیتے ہو، لیکن تم یہ نہیں سوچتے کہ شاید اللہ نے تمھیں کسی حادثے سے بچایا ہو ۔ ہو سکتا تھا کہ اگر تم اسی تیزی سے چلتے رہتے تو اگلے چوراہے میں تیزی سے آنے والی کوئی گاڑی تمھیں کچل کے رکھ دیتی یا تم یہ نہیں سوچتے کہ جس کام کے لیے تم جارہے تھے، وہ اس پنکچر کی وجہ سے ہونے سے رہ گیا ہے تو یقیناًاس وقت اس کاہونااللہ کی نگاہ میں تمھارے لیے نقصان دہ تھا۔

 

سبب 6: دوسروں کے کسی اہم امر کی حفاظت

ان مشکلات میں ڈال کر اللہ تعالیٰ بعض اوقات ہم سے ایسے کام کرا رہے ہوتے ہیں جن میں ہماری آزمایش اور فائدوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے کچھ اہم امور سرانجام دیے جا رہے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے، ہماری ایک مشکل کسی دوسرے کے لیے سامان فتح بن جائے۔ ہماری تنگی کسی کے لیے فاقہ سے نجات بن رہی ہو۔ اور ہمارا فاقہ کسی کے لیے زندگی بھر کے سرمایے کی نوید بن کر آرہا ہو۔ یہ بات بھی موسیٰ و خضر علیہما السلام کے قصے سے کھلتی ہے۔ سیدنا موسیٰ اور خضر اسی سفر میں ایک بستی میں سے گزرتے ہیں ، وہاں وہ ان سے کھانا طلب کرتے ہیں، مگر کھانا نہیں ملتا، پھر دیکھتے ہیں کہ ایک دیوار گرنے والی ہے، حضرت خضر وہ دیوار مرمت کردیتے ہیں اور اسے اپنی بنیاد پر سیدھا کھڑا کر دیتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ کے پوچھنے پر حضرت خضر یہ بتاتے ہیں کہ:

وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْْنِ یَتِیْمَیْْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗکَنْزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ وَمَا فَعَلْتُہٗعَنْ اَمْرِیْ ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْْہِ صَبْرًا.(الکہف ۱۸: ۸۲)

’’وہ جو دیوار تھی تو اس کی حقیقت یہ تھی کہ وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی، جو اسی شہر میں مقیم تھے۔اس دیوار کی بنیاد میں ان کا خزانہ دبا تھا، ان کا باپ بہت نیک آدمی تھا، تیرے رب کا ارادہ یہ تھا کہ وہ بڑے ہو کر اس خزانے کو خود ہی نکالیں، یہ تیرے رب کی رحمت کی غرض سے ہوا۔ یہ سب کام میں نے خود سے نہیں کیے، بلکہ خدا کے حکم ہی سے کیے۔ یہ ہے میرے سب کاموں کی حقیقت جن پر تو صبر نہیں کرسکا تھا۔‘‘

 

سبب 7: ترقی اور بڑھوتری

مشکلات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی کبھی مشکلات میں اس لیے بھی ڈالتے ہیں کہ وہ دنیا میں ان کے حالات درست کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انھیں ترقی دے کر گداسے اٹھا کر شاہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ان کی غربت کو امارت میں بدلنے کے لیے انھیں ایک مشکل یا ایک طویل سلسلۂ مشکلات کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مثلاً، اسے شہرت دینے کے لیے کسی مشکل کا شکار کردیں گے۔

اس کی نہایت ہی عمدہ مثال سیدنا یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے۔ ان کے بھائی انھیں مارنے کے لیے کنویں کی تاریکی کے حوالے کردیتے ہیں۔ قافلے والے ان کی زندگی بچا کر انھیں غلام بنا کرفروخت کر دیتے ہیں۔ اور زلیخا اپنی شکست کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انھیں قید کرادیتی ہے۔ اور یہ تینوںیہ نہیں جانتے کہ وہ سیدنا یوسف پر یہ مشکلات جو ڈال رہے ہیں تو اس طرح وہ اصل میں کل انھیں عزیزِمصر بنانے کی اسکیم کا حصہ بن رہے ہیں۔ 

ٹھیک ایسی ہی داستان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی ہمیں ملتی ہے کہ ان کے بھائیوں (قریش) نے انھیں اپنے گھر سے نکالا، اور آپ اپنے مصر(مدینہ) میں آکر فاتح مکہ اور عربوں کے حاکم و آقا بنے۔ 

اسی بات کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی تسلی کے لیے انشراح صدر اور آپ کی شہرت کو سامنے لا کریہ فرمایا کہ ’فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا‘، (الم نشرح۹۴:۵)یعنی تم پر جو یہ مشکلات آئی ہیں تو اپنے جلو میں آسانیاں اور نعمتیں لے کر آئی ہیں اورکچھ آسانیاں تمھاری منتظر ہیں۔ تنگی اس لیے آتی ہے کہ تمھاری ترقی کا سبب بنے۔ اور یہ تنگیاں دراصل جلبِ نعمت کا سبب ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جو فرمایا گیاکہ ’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘، (الم نشرح۹۴:۴)یعنی کیا ہم نے تمھارا بول بالا نہیں کیا؟ (یعنی تمھاری بات عربوں میں نہیں پھیلی؟)۔ ایک طرف یہ جملہ اللہ کی عنایت کی طرف توجہ مبذول کرارہا ہے کہ اب جن مشکلات میں سے آپ گزر رہے ہیں توان میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ جس اللہ نے یہ مشکلات پیدا کی ہیں، وہ وہی ہے جس نے پہلے آپ پر عنایات بھی کیں ہیں، تو وہ ان دنوں کی طرح اس مشکل کے بعد بھی آسانی لے آئے گا۔ 

دوسری طرف یہ کلام یہ بھی بتا رہا ہے کہ پچھلے دس بارہ برسوں میں جن مشکلات سے آپ گزرے ہیں، انھی کے طفیل یہ چیزیں بھی آپ کو حاصل ہوئی ہیں کہ آپ کو انشراح صدر(یعنی دین پر اطمینان اور ذہنی سکون)ہواہے، آپ کا بول بالا ہوا ہے(شہرت ہوئی ہے)، آپ کی ذمہ داری کا بوجھ ہلکا ہوا ہے، اس لیے کہ مشکل کے ساتھ آسانی لگی ہوئی ہے۔ آپ کو جو شہرت حاصل ہوئی، قرآن نے اسے رفع ذکر کہا ہے۔

یہ رفع ذکر آپ کو ان مشکلات میں سے گزرے بغیر حاصل نہ ہوتا، اس لیے کہ مشکلات میں آپ کی بلند کردار ی روز بروز نمایاں ہوتی گئی۔ آپ کی ذات والا صفات کی سچائی ہرگھڑی پوری قوت سے سامنے آنے لگی، اور وہ لوگ جو آپ کو نہیں جانتے تھے، ان کے لیے وہ ایک روشن دلیل بننے لگی۔

ہرقل اور ابو سفیان کی گفتگو کو یاد کیجیے کہ اس موقع پر اگر ابو سفیان ہرقل کو یہ خبر دیتے کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولتے ہیں۔ آپ جنگ جیتنے کے لیے دغا اور فریب سے کام لے لیتے ہیں تو ہرقل یہ نہ کہہ سکتا کہ بلاشبہ آپ سچے نبی ہیں۔ رفع ذکر یہی ہے کہ عرب اور عرب سے باہر بھی آپ کو نیک نامی مل چکی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اس پہلو سے ہمارے لیے بھی یہ اصول سامنے آتا ہے کہ مشکلات اور آسانیاں ہماری زندگی میں اس لیے بھی آتی ہیں کہ ہمیں آگے بڑھائیں، ہمارے لیے ترقی کا زینہ بنیں اور قدم قدم ہمیں آگے بڑھاتی رہیں۔

 

سبب 8: تزکیۂ قلوب

قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے انھیں مشکلات میں ڈالتے ہیں تاکہ ان کے سینوں کامیل دھل جائے اور ان کے نفوس ان کمزوریوں سے پاک صاف ہو جائیں۔ سورۂ آل عمران میں اسی حقیقت کو احد کی شکست کی مشکل کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ ’وَلِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ‘،’’تاکہ اللہ جو کچھ تمھارے دلوں میں کجی ہے ، اسے صاف کردے۔‘‘(۳: ۱۵۴)

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عنایتوں میں سے ایک عنایت ہے کہ وہ ہمیں ایسی مشکلات میں ڈالتا ہے کہ ہمارے سینے خامیوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔

مولاناامین احسن صاحب اصلاحی مرحوم اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:

’’عذاب کا مقصد کفار کو مٹانا ہوتا ہے اور ابتلا کا مقصد اہل ایمان کو عقلی و اخلاقی کمزوریوں سے پاک کرنا۔ ایک موت ہے دوسرا زندگی۔ قانون الٰہی یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کسی قوم کو باقی رکھنا چاہتا ہے، اس وقت تک وہ اس کے جرموں پر اس طرح کی سزا نہیں دیتا جس طرح کی سزا مجرموں اور باغیوں کو دی جاتی ہے، بلکہ مختلف آزمایشوں اور امتحانوں کے ذریعہ سے اس کے اندر پیدا ہونے والی بیماریوں کو وہ دور فرماتا رہتا ہے۔ ہلاکت کے حوالہ وہ کسی قوم کو اسی وقت کرتا ہے جب وہ زندگی کے اصلی اوصاف سے بالکل خالی ہوجاتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۱۹۴)

____________

 

B