HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

آفات صبر

 

اس باب میں ہم وہ اہم چیزیں زیر بحث لائیں گے جو ہمیں صبر کرنے میں ہمارے لیے مانع ہوتی ہیں۔

 

توکل سے محرومی 

توکل اللہ پر اپنے معاملات کو ڈال کر اس کے فیصلوں پر مطمئن رہنے کا نام ہے۔جس آدمی میں توکل نہیں ہو گا ، وہ صبر نہیں کرسکے گا۔ اس لیے کہ خدا پر بھروسا ہی وہ سہارا ہے ، جس سے نفس مشکلات میں مطمئن رہتا ہے۔ ’رضیت باللّٰہ ربا‘ کی منزل جس نے پا لی ہو وہ مشکلات میں گھبراتا نہیں ۔ اس نے دراصل ایسی مضبوط چیز کوتھام رکھا ہے کہ جو اسے ہر اس وقت تھامے رکھتی ہے جب اس کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔

اللہ ہمارے بارے میں فیصلہ کرتے وقت کبھی ہمیں مشکل سے دو چار کرتے ہیں اور کبھی آسانی سے۔ ان دونوں طرح کے فیصلوں میں اپنے معاملات کا والی وارث اللہ کو سمجھنا اور اس کی رضا پر قائم رہنے کی کوشش کرنا ہی وہ چیز ہے جس کوہم توکل کہتے ہیں۔ یہی چیز دراصل صبر کی سب سے بڑی مویدو معاون ہے۔ کیونکہ ایمان باللہ میں اصلاً مطلوب یہ ہے کہ: ’قل آمنت باللّٰہ ثم استقیم‘، ’’اس بات کے قائل ہو جاؤ کہ میں ایمان لایا اور پھر اس پر قائم رہو۔‘‘

 

خدا پر عدم اعتماد

خدا کی ذات ا س دنیا میں ہر نیکی کے لیے ایک بڑاسہارا ہے ۔اس کے انکار اور اس پر بے اعتمادی کی بنا پر شاید ہی کوئی شخص نیکی پر قائم رہ سکے۔ خدا پر اعتماد دراصل بے عقلی اور اندھے اعتقاد سے پیدا نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے لیے خدا پر سوچا سمجھا ایمان اس کی ذات کاتعارف ، اس کی صفات و سنن کا علم ناگزیر ہے۔اگر یہاں پر غلطی ہو گئی تو آدمی وقتاً فوقتاً صبر سے محروم ہوتا رہے گا۔ مثلاً بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ نیکی کریں گے تو ہم پر مصیبت نہیں آئے گی۔ یہ خدا کے بارے میں اس کی سنن کا غلط علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا انعام کے لیے نہیں بنائی ، بلکہ آزمایش کے لیے بنائی ہے۔ اس میں کسی نیکی کا لازماً اجر دینا نیکی کے بارے میں ایسی دلیل بن جانا ہے کہ جس کے بعد آزمایش آزمایش نہیں رہتی۔ خدا نے نیکی کو بس ایک عمومی سا غلبہ دے رکھا ہے، جو اس کائنات کے قائم بالخیر ہونے کی دلیل ہے ، مگر یہ لازم نہیں ہے کہ کسی فرد کی نیکی کے بعد اس پر کوئی آزمایش نہیں آئے گی ۔ انبیا کی زندگی اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ لوگ معصوم عن الخطا تھے ، مگر ان پر مصیبت کے ایسے ایسے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ قرآن کے مطابق رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھتے رہے کہ مدد کب آئے گی ؟ (البقرہ ۲: ۲۱۴)

وہ آدمی جو نیکی اس لیے کر رہا تھا کہ اس پر کوئی مصیبت نہیں آئے گی۔ جب اس پر خدا کی کوئی آزمایش آئے گی تو وہ ایک طرف تو یہ کہ خدا سے مایوس ہوگا اور دوسری طرف نیکیوں کو بھی فضول سمجھتے ہوئے ترک کردے گا۔صبر تو دور کی بات ہے ، نیکی کا نام بھی شاید اس کے لیے فضول ہوگا۔ اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں بہت ہیں جنھوں نے کاروبار کی بہتری کے لیے نماز روزہ شروع کیا، مگر فائدہ نہ پا کردین سے بددل ہوئے۔ 

اس لیے لازم ہے کہ قرآن کی روشنی میں اللہ کی صفات کو سمجھا جائے اور اس کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے۔ یہ لازم ہے وگرنہ آہستہ آہستہ آپ کے دل سے ایمان نکلتا جائے گا۔ 

ان لوگوں کو عموماً بے صبر اور جذباتی دیکھا گیا ہے ، جو خدا کو صحیح تصور کے ساتھ نہیں جانتے ۔ مثلاً بعض خدا کو یوں سمجھتے ہیں جیسے نعوذ باللہ کوئی رشوت لینے والا ہو ، ادھر آپ نے نیکی کی رشوت دی ادھر وہ رام ہو گیا۔حالانکہ خدا بے نیاز اور غیر محتاج ہے۔ اسے اگر (نعوذ باللہ) ضرورت ہو بھی تو وہ خودہر شے بنا سکتا ہے ۔ اسے ہماری عبادت و ریاضت کی ضرورت نہیں ہے۔ہم ان شاء اللہ اسی سلسلۂ معالم السبیل کے ضمن میں ایک کتاب ’اللہ کون ہے ؟‘کے نام سے تحریر کریں گے۔ جس میں پاکستانی مسلمانوں کے خدا کے بارے میں غلط خیالات کی اصلاح ہو گی اور ان کو وہ معلومات ملیں گی جو زندگی کو صحیح معنی میں گزارنے کے لیے ضروری ہیں ۔

خدا اس دنیا میں اجتماعیت کو نیکی کا اجر لازماً دیتا ہے ۔ مثلاً اگر کوئی قوم اپنے اندر اجتماعی سطح پرحق کو قائم کرلیتی ہے تو اس سے اس میں خدا کی نعمتیں وافر ملنے لگیں گی اور دوسری اقوام میں اس کا سر اونچا ہو گا۔ لیکن ایک فرد کے ساتھ اللہ کا معاملہ یوں نہیں ہے ۔ اس کی نیکیوں کا اجر اسے صرف آخرت میں ملے گا۔ یہاں بس اللہ اسے اتنا ہی دیں گے جتنا اس نے اس کے لیے لکھ رکھا ہے۔ نیکی کرنے سے دنیا میں اجر صرف یہ ہے کہ اس سے معاشرت میں خیر زندہ رہتا اور پنپتا ہے،لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ اسے دنیا میں اجرملنے لگے۔ یہ اسی صورت میں لازم ہوتا ہے ، جب آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو۔ 

 

عدم ابتغاے رب 

اللہ کی رضا کے بجائے ہمارا مطمح نظر اگر یہ بن جائے کہ ہم نے دنیا والوں کو خوش کرنا ہے ، اور ہم نیکی کریں تو لوگ بھی اس کے جواب میں ہمارے ساتھ نیکی کریں ، یہ چیز بھی ہادم صبر ہے۔اس لیے کہ آپ ہر وقت نیکی پر قائم نہ رہ سکیں گے جب لوگ آپ کے ساتھ آپ کی توقع کے مطابق پیش نہیں آئیں گے۔ خود یہ چیز بھی کوئی نیکی نہیں ہے کہ آپ دنیا میں صلہ و اجر کے لیے نیکی کریں۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ آپ اللہ کی رضا کے لیے نیکی کریں، تاکہ آپ آگے کی توقع میں دنیا سے بے نیاز رہیں۔اور یہ بے نیازی یقیناًزیادہ باعث اجر اور حوصلہ و تقویت کے لیے بہت مفید ہے ۔

قرآن مجیدنے حج کو جانے والے دو گروہوں کا ذکر کیا ہے ،ایک وہ جو دنیا کے لیے ہی سفر کرتے ہیں، اور دوسرے وہ جو آخرت کی فلاح کے لیے سفر کرتے ہیں اور اللہ سے دنیا میں خیر اور بھلائی کے طالب رہتے ہیں۔ یہی دوسرے لوگ ہی اصل میں ثابت قدم لوگ ہیں۔انھیں دنیا میں اجر پانے کی توقع چونکہ نہیں ہو تی ، وہ آخرت کے لیے عمل کررہے ہوتے ہیں، اس لیے اگر کہیں غربت و تنگ دستی ستاتی بھی ہے تو ان کی نیکیوں میں ازدیاد ہی کا باعث بنتی ہے۔ 

صحابہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب جنگ کا موقع آتا تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا، مگر منافقین جن کی نظر دنیوی منفعت پر لگی رہتی ہے ، وہ اس سے گھبرا تے اور اس ظاہری ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے، جس کے سہارے پر وہ مسلمانوں کی صف میں شامل ہوئے ہوتے تھے۔ ٹھیک یہی حالت دنیا میں طالب اجر کی ہے ، جیسے ہی منفعت ختم ہوتی ہے تو وہ نیکی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ہم آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ ہمیشہ اپنے اندر اس محرک عمل کو زندہ رکھیں کہ ہمیں اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا ہے ۔ یہی چیز عند اللہ باعث اجر ہے، اور اسی سے ایما ن و عمل میں صبر و استقامت آتی ہے۔

 

عجلت پسندی

قرآن مجید میں بے شمار مواقع پر صبر عجلت کے متضادمعنی میں آیا ہے ۔ ہم جن مواقع پر عجلت کا شکار ہو جاتے ہیں ، وہاں بالعموم بے صبری دکھاتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ادھر ہم دعا کریں اور ادھر پوری ہو جائے۔اسی طرح کسی سے کوئی تقاضا ہو، کوئی کام نکالنا ہو، جب ہم جلدی میں پڑ جائیں تو بے صبری کی خطا سرزد ہو تی ہے۔ مثلاً ہمارے کسی بھائی نے کوئی غلط بات ہم سے منسوب کردی تو ہم فوراً اس سے انتقام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ پہلے لازم ہے کہ ہم یہ جانیں کہ بات کیا ہے ، کس نے کہی ہے ، ہمیں غلط بات تو نہیں پہنچی۔ یا اسی طرح خدا کی طرف سے جو مصیبت اور غم نازل ہوا ہے وہ جلدی نہ ٹلنے پر ہم مایوس ہو جاتے ہیں، حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں ہمارا ہی قصور رہا ہو۔ پرہیز اور حفظان صحت کا ہم خیال نہ رکھیں اور خیال کریں کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے ۔ اس نے مجھے ہی اس مصیبت کے لیے چن لیا ہے وغیرہ۔

اپنے اندر سے ایسے داعیات کو قابو میں رکھنا چاہیے ، جو ہمیں عجلت میں مبتلا کرتے ہیں۔مثلاً حرص، طمع ، غصہ ، نفرت اور غیرمتوازن محبت وغیرہ ان داعیات میں سے ہیں جو انسان کو عجلت میں ڈال دیتے ہیں ۔ چنانچہ یہ عجلت ہم سے ایسے اقداما ت کرادیتی ہے کہ ہم موقف خیر و حق سے ہٹ جاتے ہیں۔کسی کو مارنا، ظلم کرنا، خدا کی حدود سے متجاوز ہونا ، یہ سب پھر وجود میں آتا ہے۔

 

بے خبری

صبر کو نقصان پہنچانے والے امور میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر معاملہ کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا۔ ہم اس کے بہت سارے پہلووں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم غصہ میں آسکتے ہیں اگر ہمیں اس کی حقیقت کا علم ہو جائے تو ہمیں نہ اتنا دکھ ہواور نہ اتنی بے صبری ہی پیدا ہو۔ یہ عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی اتنہائی تکلیف کے بعد وفات پاتا ہے تو لوگ بالعموم یہ کہتے ہیں شکر ہے کہ اس کی تکلیف سے جا ن چھوٹ گئی۔ حالانکہ وہی آدمی اگر حالت صحت میں دنیا سے رخصت ہوتاتو انھی لوگوں کا بین کئی دن جاری رہتا۔

وفات پانے والے بیمار کی اس تکلیف کا ہمیں علم ہوتا ہے ، مگر ایسی بہت سی تکالیف ، مشکلات اور معاملات ہوتے ہیں جو ہمارے لیے پردۂ غیب میں ہوتے ہیں۔ ان کا پوشیدہ رہنا خود ہمارے بھلے کے لیے ہوتا ہے ۔ جیسے واقعۂ موسیٰ و خضر میں کچھ چیزیں غیب کی آپ علیہ السلام پر کھول دی گئی ہیں، جو ہم پر بالعموم غیب میں رہتی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ مرنے والے کو کس عذاب سے بچا لیا گیا ہے۔ وہ کون سی مشکل میں پڑنے والا تھا یا وہ کیا کر گزرنے والا تھا وغیرہ ۔

قرآن نے قصۂ خضر سنا کر ہمیں یہی بات سکھائی ہے کہ حادثات بھی اپنے بطن میں خیر کے حامل ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی چیز بھی الل ٹپ نہیں ہو رہی ہوتی ۔ ہر چیز ایک قاعدے ضابطے اور حکمت الٰہی کے تحت اور اسی کے اذن سے ہورہی ہوتی ہے۔ وہ جس چیزکو وجود بخشتا ہے ، وہ آزمایش سمیت کئی قسم کے خیر وجود پذیر کرتی ہے۔

اسی کی روشنی میں ہمیں یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ خدا کے معاملات کی طرح دنیا میں انسانوں کے معاملات میں سے بھی بیش تر پردۂ غیب میں ہوتے ہیں۔ کسی کے دل کے خیالات، اس کے محرکات اور دبے جذبات کا صحیح ادراک ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ہم اٹھتے ہیں اور ناراض ہوجاتے ہیں، حالانکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ معاملہ کیسا ہے ، کیوں ہوا ہے۔ میرے ساتھ ایک معاملہ ایسا ہوا کہ جس سے مجھ پر زندگی کی کئی گرہیں کھلیں۔ مجھ سے میرے ایک شاگرد نے میری ایک کتاب کے بارے میں پوچھا کہ کہاں سے لی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ مجھے کسی نے تحفہ دیا ہے۔ ایک اور شاگر د نے اسی کتاب کے بارے میں پوچھا کہ یہ کتاب کتنے کی لی ہے۔میں نے کہا پانچ سو روپے کی۔ دوسرے جواب سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید یہ کتاب میں نے خود خریدی ہے۔ ان دونوں شاگردوں سے کسی موقع پر جب بات ہوئی تو انھیں لگا کہ شاید میں نے جھوٹ بولا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک یہ بات ان کے دلوں میں چھپی رہی، مگر کسی موقع پر انھوں نے اس کی وضاحت طلب کرلی تو میں ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔ اس لیے کہ دونوں جملے سچ بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ پوچھنے کا عمل تم نے بہت اچھا کیا ہے۔ دراصل میں اور میرا ایک دوست بازار میں تھے کہ یہ کتاب اس نے مجھے خرید کرتحفۃً دی۔ اب چونکہ میرے سامنے ہی خریدی گئی تھی، اس لیے مجھے قیمت کا بھی علم تھا۔ اس لیے جس نے مجھ سے قیمت پوچھی اس کو میں نے قیمت بتادی۔ لیکن قیمت بتانے سے ان کو یہ لگا کہ شاید میں نے خود خریدی ہے۔ جبکہ میں نے دوسرے شاگرد کو بتایا تھا کہ مجھے یہ تحفہ میں ملی ہے۔ 

اس واقعہ سے یہ حقیقت مجھ پر کھلی کہ دنیا میں کتنے ہی ایسے سچ ہوں گے ، جن پر جھوٹ کا گمان ہوا ہو گا، جن سے لڑائیاں اور ناچاقیاں وجود میں آئی ہوں گی۔کتنے ہی کام نیکی کی نیت سے کیے گئے ہوں گے ، مگر برے لگنے کی وجہ سے برائی شمار کر لیے گئے ہوں گے۔ کتنے ہی محبت کے بول ہوں گے جن میں نفرت کو محسوس کیا گیا ہوگا، کتنے ہی نصیحت کے جملے ہوں گے جن کو محض نقد و اعتراض کے معنی میں لیا گیا ہوگا۔ کتنی ہی امداد کی کوششیں ہوں گی جن کو احسان کرنے کے مفہوم میں لیا گیا ہوگا۔ کتنے ہی منصفانہ فیصلے ہوں گے جن کو جانب داری کے معنی میں لیا گیا ہو گا۔ غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ دنیا غیب ہاے گونا گوں کا مجموعہ ہے۔ جس کی حقیقت قیامت ہی کو کھلے گی۔یا کچھ ان لوگوں پر جو قرآن میں سورۂ حجرات کے حکم کے مطابق کوئی اقدام کرنے سے پہلے تحقیق کرلیا کرتے ہیں۔ 

اس تفصیل سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ بے صبرے ہونے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ جن معاملات سے ہمیں رنج و تکلیف پہنچی ہے ، ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں۔ شایدوہ حادثہ حادثہ نہ ہو ، بلکہ ایک خوش گوار عمل ہو جو ہمارے لیے بہت سے خیر اپنے ہمراہ لا رہا ہو۔

 

دوسرے کا حق

دنیا میں معاملات کرتے وقت ہمیں صبر سے ہٹانے والی ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کے حقوق کا صحیح شعور نہیں رکھتے اور ان کو اہمیت دیتے ہیں۔ دوسرے بھی انسان ہیں، ان کے بھی احساسات و جذبات ہیں ، وہ بھی غلطی کرسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی دنیوی ضروریات لگی ہیں۔ ان کے بھی بیوی بچے اور مشکلات ہیں ، ان کے اندر بھی تمناؤں کے سمندر حدود شکنی کو بے تاب ہیں۔ دوسرے سے معاملہ کرتے وقت ہمیشہ ان امور کا خیال رکھیں کہ وہ بھی ہماری طرح ان چیزوں سے دوچار ہیں۔ 

نقد و اصلاح اور تادیب و تنبیہ میں ہمیشہ اس بات کو خیال میں رکھیں کہ ہمیں ایک انسان سے معاملہ ہے۔ بعض لوگ اپنے ملازمین اور ماتحتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جیسے بھلے لوگ جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔

اسی طرح لین دین اور دوسرے معاملات میں بھی ہم ہمیشہ حدود سے نا آشنا رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ اوپر گزر چکا ہے ، جس میں آپ نے قرض دینے والے کا یہ حق تسلیم کیا کہ جس کا کچھ لینا بنتا ہے ، اسے کچھ کہنے کا حق ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حق بھی حق کے دائرے ہی میں ہو ناچاہیے۔ اس آدمی نے حدود سے تجاوز کیا ، مگر آپ نے اس کے باوجود یہ کہا کہ ایسا کرنے و کہنے کا اسے حق تھا۔اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جگہ پر ہوتے تو یقیناً مانگنے ہی نہ جاتے ، لیکن جو مانگنے آگیا ہے ، اسے مانگنے کا تو حق ضرور ہے ، مگر اذیت دینے اور تنگ کرنے کا نہیں ہے۔آپ نے چونکہ اس کے پیسے دینے تھے ، اس لیے آپ نے اس کی اس اذیت کو بھی معاف کردیا۔

 

نیکی کو حقیر جاننا

تجربہ اس بات پر گواہ ہے کہ جو لوگ نیکیوں کو بے پروائی سے لے لیتے ہیں ، وہ شروع میں تو چھوٹی چھوٹی نیکیوں سے بے پروائی کرتے ہیں ، مگر آہستہ آہستہ وہ بڑ ی نیکیوں سے بھی بے پروا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ان میں نیکی کا رجحان اور اس کی طرف میلان کا خاتمہ غالب آتا چلا جاتا ہے۔ پھر آدمی کا ذہن کچھ اور طرح سے سوچنے لگ جاتا ہے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آجاتاہے کہ ہر نیکی اسے اس کے راستے کی رکاوٹ دکھائی دیتی ہے۔ اور ہر چیز کو وہ حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ پھر نیکی کی جگہ بدی آتی چلی جاتی ہے اور ہر چیز کو وہ الٹ نگاہ سے دیکھنے لگ جاتا ہے۔ کسی منصب پر ہو تو فرعون بن جاتا ہے اور عوام میں سے ہوتو غنڈہ و بدمعاش بن جاتا ہے۔ اس سب کچھ کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب اس نے پہلے پہل کسی نیکی کو حقیر خیال کیا تھا۔

دراصل جب آدمی ایک نیکی چھوڑتا ہے تو ’خانۂ خالی را دیو می گیرد‘ کے اصول پر برائی اس کی جگہ لیتی چلی جاتی ہے۔آدمی کے سینے میں اللہ نے ہر نیکی کے لیے ایک غیرت(نفس لوامہ) رکھی ہے۔یہ غیرت پہلے پہل بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مگر بار بار برائی کرنے سے یہ غیرت آہستہ آہستہ کم موثرہوتی چلی جاتی ہے۔یہاں تک کہ ہم ضمیر کی سرزنش کا بالکل اثر قبول نہیں کرتے۔اس غیرت کی بے تاثیری دراصل ساری برائیوں کی جڑ ہے۔اسی سے بعد ازاں صبر میں کمی آتی ہے اور آدمی ویسابن جاتا ہے جیسا ہم نے لکھا ہے ۔ 

اگر آدمی کچھ نیکیوں کے بارے میں غیور رہے اور کچھ کے بارے میں غیرت میں کمی آجائے تو اس صورت میں وہ ایک غیر متوازن آدمی بن کر رہ جاتاہے۔جوبعض معاملات میں صابر نظر آئے گا اور بعض میں غیر صابر۔

____________________

 

B