قرآن مجید نے آزمایشوں کے آنے کے جو اسباب بیان کیے ہیں، ان کے علم سے بھی آدمی کو صبر حاصل ہوتا۔ اس لیے کہ یہ علم آدمی کو وجوہات بتا کر تسلی دیتا ہے اور تسلی کی وجہ سے اسے صبر آجاتا ہے۔ (اس موضوع پر ہم نے الگ سے ایک رسالہ بعنوان ’ہم پر مشکلیں کیوں آتی ہیں‘ تحریر کیا ہے۔ جسے آپ دیکھ سکتے ہیں۔) یہ علم اللہ تعالیٰ کی سنت ابتلا سے متعلق ہے۔ اور ابتلا یا آزمایش اس دنیا کی حقیقت ہے۔ جس کے صحیح تصور کے بغیر یہ دنیا نہ سمجھ میں آنے والا معما ہے۔
چنانچہ یہ علم اگر ذہن سے اتر جائے تو اس کو تازہ رکھنا چاہیے اور اس مقصد سے قرآن مجید کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔ اسی طرح اس موضوع پر اہل علم کی تحریروں کا مطالعہ بھی ایک حد تک مفید رہے گا۔البتہ قرآن مجید کے مطالعے سے ہماری مراد اس کی تلاوت نہیں ہے ،بلکہ اس کو سمجھ کر پڑھنا مطلوب ہے، اس لیے کہ سمجھے بغیر اس کی تعلیمات سے آگاہی نا ممکن ہے۔
قرآن مجیدکے مختلف مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ،بالخصوص تہجد کی نماز،حصول صبر کا ایک نہایت مفید ذریعہ ہے۔ سورۂ مزمل میںآیا ہے کہ تہجد کی نماز دل جمعی اور قول کی پختگی کے لیے بہت مفید ہے۔ یعنی تہجد کی نماز پانچ وقت کی نماز سے زیادہ موثر ہے، اس لیے کہ زیادہ گہرائی اور توجہ سے پڑھی جاتی تھی۔ اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا کہ قرآن ٹھہر ٹھہر کر،یعنی اسے سمجھ سمجھ کر پڑھا جائے تاکہ تہجد اپنا کام اپنی کامل صورت میں کر سکے۔
سورۂ مزمل میں قرآن مجید نے اس نماز کی حقیقت دو لفظوں میں بیان کی ہے:
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً.(۷۳ : ۸)
’’اپنے رب کا ذکر کر اور اس کی طرف خلق سے کٹ کر گوشہ گیر ہو جا۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تہجد ادا کرنے کے لیے فرمایا گیا تھا تو اس کے جو آداب آپ کو سکھائے گئے تھے، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ اسے یاددہانی اور ذکر کا ذریعہ بنائیں اور اس کے ذریعے سے خدا کے دامن رحمت میں گوشہ گیر ہو جایا کریں۔
مولانا امین احسن اصلاحی اس حکم کی تفسیرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’...یہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کا طریقہ بتایا کہ جب جب لوگوں کی دل آزاری سے دل آزردہ ہو تو تم ان ناقدروں سے کٹ کر اپنے رب کے دامن رحمت میں گوشہ گیر ہو جایا کرو۔ اور اس کے لیے تمھیں اس کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم اس کے نام کو یاد کیا کرو۔تو وہ خود تمھیں اپنی پناہ میں لے لے گا۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام اس کی صفات ہی کی تعبیر ہیں اور ان صفات ہی پر تمام دین و شریعت اور سارے ایمان و عقیدہ کی بنیاد ہے۔ ان صفات کا صحیح علم مستحضر رہے تو آدمی کی پشت پر ایک ایسا لشکر گراں اس کے محافظ کی حیثیت سے موجود رہتا ہے کہ شیطان کی ساری فوجیں اس کی نگاہوں میں پر کاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ وہ اپنے آپ کو پہاڑوں سے بھی زیادہ مستحکم محسوس کرتا ہے۔
اور اگر خدا کی صفات کی صحیح یادداشت اس کے اندر باقی نہ رہے یا کمزور ہو جائے تو پھر اس کا عقیدہ بے بنیاد یا کمزور ہو جاتا ہے، جس کے سبب سے اس کو منافقین کی طرح ہر بجلی اپنے ہی خرمن پر گرتی نظر آتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۹ /۲۷۔ ۲۸)
یہی وہ ذکر ہے جس سے خدا کے دامن رحمت میں گوشہ گیری کی راہ کھلتی ہے۔ ان صفات کی یاد ایک حصار کی طرح ہمارے گرد محافظ بن کر موجود رہتی ہے۔ جیسے ایک بچہ کسی خوف ناک چیز سے ڈر کر اپنی ماں کی گود میں پناہ گیر ہو کر ساری دنیا کے خوف و دہشت سے بے نیاز ہو جاتا ہے ،ٹھیک ویسے ہی ایک بندہ اس یاد کے تازہ ہونے کے بعد خدا کے دامن رحمت میں چھپ کر سارے غم بھول جاتا ہے۔طرح طرح کے حملوں سے اپنے آپ کو مامون خیال کرتا ہے۔
نماز کا یہی پہلو ہے کہ اگر اسے نماز میں پیدا نہ کیا جائے تو نماز اپنے اثرات پیدا نہیں کرتی۔ پھر اس کے بعد آدمی طرح طرح کے مصنوعی سہارے تلاش کرتا ہے ، اسے ان کا نشہ تو لگ جاتا ہے، مگر مسئلے حل اور غم دور نہیں ہوتے۔
نماز عہد عبودیت کی یاد ہے، جو صبر کو تقویت دیتی ہے۔ قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ ’اقم الصلوٰۃ لذکرٰی‘ ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘خداکی یاد عہد بندگی کی یاد کو تازہ کرتی ہے۔یہ آدمی کو بتاتی ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے جو آزمایشوں میں اس لیے ڈالا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک صالح بندۂ خدا ثابت کرے۔یہ چیز اس کی غفلت و نسیان کو دور کرتی ہے، جس میں پڑ کر وہ بے صبرا ہورہا تھا۔ اس یاد کے تازہ ہونے سے وہ ایک حقیقت شناس بن کر اٹھتاہے۔حقیقت اس پر روشن ہوتی اور اس ادراک حقیقت سے اس پر اپنا مقام کھلتا اور وہ ایک تازہ دم سپاہی کی طرح میدان عمل میں دوبارہ کود جاتا ہے۔
قیام ، رکوع اور سجدہ بتدریج آدمی کی غفلت کو دور کرتے ہیں۔قیام میں خدا کا کلام اسے کچھ حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ رکوع اسی بندگی و سرفگندگی کے جذبے کا اولین اظہار ہے ، جس کے بعد سجدہ اس کی آخری شکل ہے۔یہ تینوں اعمال ہم نمازوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ کرتے ہیں۔ جو ہمیں یاد دلاتے اور حقیقت شناس بناتے ہیں۔
اوپر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تہجد خدا کی رحمت میں گوشہ گیری کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ گوشہ گیری دراصل خدا سے تعلق کا ایک پہلو ہے۔ نماز خدا کے ساتھ تقرب کا تعلق پیدا کرتی ہے۔سورۂ علق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’واسجد واقترب‘، ’’سجدہ کر واور خدا کے قریب ہوجاؤ‘‘۔یہ قربت اگر چہ غیر محسوس ہے اور ہم اس کی کیفیت و ماہیت کو سمجھ نہیں سکتے، لیکن یہ قرب یقیناخدا کی پناہ کے لیے ایک استعارہ ہے۔ اس قرب کے معنی یہ بھی ہیں کہ نماز حصول صبر میں استعانت کرتی ہے ۔
قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکلات کے وقت کئی بارحصول صبر کے لیے نماز کا حکم تسبیح و تحمید کے الفاظ میں دیا ہے۔ اگرچہ یہاں نماز ہی کا حکم دیا گیا ہے،مگر یہ بات واضح ہے کہ نمازکا یہ حکم اس کی دو خاصیتوں کو سامنے رکھ کر دیا گیا ہے۔نماز کے یہ دو پہلو ایسے ہیں کہ جو معنوی یا ذہنی اثرات رکھتے ہیں۔ اگر ہم نماز میں تسبیح و تحمید کو سوچ سمجھ کر اختیار کریں تو اس کے کچھ نتائج نکلتے ہیں۔ یہ نتائج ہمارے لیے صبر کرنے میں ممدو معاون ہیں۔ان دونوں خاصیتوں کے معنی اور اثرات کا جائزہ ہم اگلی سطور میں لیں گے۔
جس کے معنی یہ ہیں کہ خداے واحد کی پاکی بیان کی جائے۔پاکی بیان کرنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ مانا جائے کہ اللہ کے کسی فعل اور فیصلے میں کوئی غلطی نہیں ہے۔جب اللہ کے فیصلے میں کوئی غلطی نہیں ہے توپھریہ سوال پیدا ہو گا کہ ہمیں پھر یہ تکلیف میں کیوں ڈالا گیا ہے۔ ہمیں بھوک، خوف اور موت کی کسی آزمایش میں ڈالا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے ۔ جب اس کا فیصلہ غلط نہیں ہے ، اور وہ ہمارے اوپر مصیبت نازل کررہا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ پھر اس کے پیش نظر کوئی مقصد ہو گا۔اور وہ مقصد یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں آزمانے کے لیے یہ مشکل بھیجی ہے۔
تسبیح کا یہ تصور ہمارے زاویۂ نگاہ کو بدلتاہے۔ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تم یہاں کچھ پانے کے لیے آئے ہو، اس لیے اللہ ہمیں آزماتاہے۔ اور آزمانے کے لیے جیسی آزمایش ہونی چاہیے، ویسی وہ نازل کرتا ہے۔میرا آپ کا ہر عمل خدا کی منشا و اذن سے دوسروں کے لیے آزمایش بنتا ہے۔ اسی طرح دوسروں کا ہر عمل ہمارے لیے آزمایش بنتا ہے۔اسی وجہ سے دین کا مطالبہ دوسروں کی برائی پر یہی ہے کہ ہم صبر کریں۔جو آدمی ایسے مواقع پر صبر نہیں کرتا اور انتقام لے لیتا ہے تو اگر اس نے انصاف سے انتقام لیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے مواخذہ تو نہیں کریں گے، مگر درحقیقت اس نے دنیاداری والا معاملہ کیا ہے۔ دین کا تقاضا پورا نہیں کیا، اس لیے وہ بڑے خیر سے محروم رہ جائے گا۔
حمد تسبیح کا دوسرا رخ ہے۔تسبیح یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی عیب نہیں ہے اور حمدیہ بتاتی ہے کہ ساری اچھی صفات اس میں ہیں۔اس کے تمام افعال اوراوصاف خیر ہیں۔اس سے جو بھی عمل، چیز اور خیال وجود میں آتا ہے ،وہ خیر ہے۔ ہمارے اوپر آنے والی آزمایش ، مصیبت، ظلم سب خیر ہی کی ایک قسم ہیں۔ اس لیے کہ ایک پہلو سے وہ آپ کے لیے ایک مشکل سوال ہے، جس کا امتحان میں آپ کو جواب دینا ہے اور دوسری طرف وہ ایک نرسری ہے، جس کی پنیری سے خالق کائنات خیر کی پرورش کرتا ہے۔ مثلاًجس آدمی کا بیٹا سرکش و بدقماش ہو، اس کی موت ماں باپ کے لیے مصیبت ہے ، مگر معاشرے کے لیے خیر ہے۔ اس اصول سے ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کائنات جس اصول پر بنی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر چیز دوہرے رخ کی ہے۔ اس کاایک رخ اچھا ہے اور دوسرا بظاہر برا،مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں پہلو اپنے نتائج کے اعتبار سے اچھے ہیں۔
خالق کائنات شرکی کوکھ سے خیر پیدا کرتا ہے۔ سورۂ کہف میں مذکور ایک نوجوان کی کشتی کا ٹوٹنا بظاہر ایک برا حادثہ ہے ، مگر حقیقت میں وہ ایک خیر کو وجود میں لاتا ہے۔ہر حادثہ ، خواہ اس کا خیر ہمیں فوراً نظر آئے یا نہ آئے ، دراصل خیر کو پیدا کرنے کے لیے ہوتاہے۔ ایک آدمی کا مرنا، کاروبار میں کساد کا آنا، بیماری کا لاحق ہونا، ذہنی اذیت سے دو چار ہونا، گھر سے نکالا جانا، غرض سب حادثات ہیں۔ان کا ظاہر برا ہے،مگر ان سب سے خیر برآمد ہوتا ہے۔
اسے ہم ایک حقیقی مثال سے سمجھتے ہیں ۔میرے پاس ایک قضیہ آیا کہ ایک گھر میں چار پانچ بھائی اکٹھے رہتے تھے۔ان کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ ایک بھائی ان میں سے بیاہا ہوا تھا۔باقی سب کنوارے تھے۔جو بیاہا ہوا تھا بس وہی کماتا تھا۔باقی سب پڑھے لکھے تھے ،مگر آرام طلبی کی بنا پر کمانے نہ جاتے تھے ۔ یاپھر کوئی وجہ تھی ۔ ان کی بھابھی سب کے کام بھی کرتی اور ان کی جلی کٹی بھی سنتی تھی۔کوئی تیسرے چوتھے سال اس کی بیوی نے انصاف کا تقاضا کیا۔ دونوں میاں بیوی کے خیال میں مسئلہ کا حل صرف یہ تھا کہ وہ الگ ہو جائیں،مگر وہ بھائیوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے تھے۔ اس لیے کہ ایک تو کماتے نہیں تھے، دوسرے ان کے گھر سنبھالنے کے لیے بیویاں بھی نہیں تھیں۔
کسی کے کہنے پروہ میرے پاس آئے تو میں نے کہا کہ بھائیوں کو بھی بلاؤ۔ پہلے تو راضی نہیں ہوئے، مگر میرے اصرار پر ان کو لایا گیا۔میں نے سب لڑکوں کو مختلف ذمہ داریاں سونپیں اور بڑے بھائی کو الگ ہو جانے کا مشورہ دیا۔ یہ ان لڑکوں کے لیے ایک ناگہانی مصیبت ضرور تھی، مگر میں نے انھیں بتایا کہ تمھارے لیے بالآخر باعث خیر ہو گی۔ ان کے لیے بڑے بھائی سے ایک ماہ کا خرچہ بھی دلا دیا، یوں انھیں ایک مہینے کے اندر اپنے لیے روزگار بھی حاصل کرنا تھا اور گھرکے سار ے کام بھی۔ چنانچہ وہ بھائی اور بھابھی جس کو انھوں نے اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا تھا، وہ ایک نعمت گم گشتہ بن گئے۔ ایک مہینے کے اندر ہی ان بھائیوں میں سے ایک کو ملازمت تومل گئی، مگر گھر کے کام کرکے انھیں احساس ہوا کہ ان کی بھابھی نے کیا بوجھ اٹھا رکھا تھا۔ غرض انھیں اندازہ نہیں تھا کہ کس نعمت کو پاکر وہ ناشکرے بنے رہے۔ ان کے دلوں میں بھائی اور بھابھی کی محبت جاگنے لگی، ان کا احترام پیدا ہوا اور سال ڈیڑھ سال کے اندر ہی وہ سب کمانے لگ گئے۔ ان کی آرام طلبی آہستہ آہستہ رخصت ہو گئی۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہوئی کہ بھائیوں کے لیے بڑے بھائی کا چھوڑ کر چلے جانا ان کے لیے اصلاح کا باعث بنا۔ یعنی ایک مصیبت بظاہر مصیبت تھی، مگر ان کے مستقبل کے لیے ایک نوید تھی، جس نے انھیں نکمے انسانوں کے بجائے کام کرنے والے لوگ بنایا۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا ، اس لیے کہ انھوں نے ایک ڈیڑھ سال ہی مجھ سے رابطہ رکھا۔ اس لیے کہ پہلے وہ مجھ سے شاکی تھے پھر مطمئن ہوئے، تو ظاہر ہے، اطمینان کے بعد لوگ سب بھول جاتے ہیں۔
یہ مثال خدا کے سزاوار حمدہونے کی طرف رہنمائی کرتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں شر کے پیدا ہونے کا جو امکان رکھا ہے ، وہ بھی اس لیے کہ اس سے خیر برآمد ہو۔ قرآن مجید میں جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں صاحب اقتدار بنانے کا اعلان کیا تو فرشتوں کے سامنے اس اقتدار کا منفی رخ آیا تو انھوں نے خدا سے کہا کہ ہم تو آپ کو سزاوارتسبیح و تقدیس سمجھتے ہیں، پھر آپ کے شایان شان یہ نہیں کہ آپ اس دنیا میں کوئی ایسا کام کریں کہ جو شر کو وجود بخشے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو سمجھایا کہ میں جس صاحب اقتدار کو وجود بخش رہا ہوں صرف شر ہی پیدا نہیں کرے گا ،بلکہ اس کی نسل میں بہت زیادہ اخیار اور صالحین بھی ہوں گے۔
اس قصے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خدا کی تقدیس اور خطا سے اس کا منزہ و پاک ہونا اس سے ختم نہیں ہوتا کہ وہ شر کو کسی خیر کے لیے وجود میں آنے دے۔اس لیے ہمیں صرف اس وجہ سے پریشان نہیں ہو نا چاہیے کہ ہمیں مصیبت لاحق ہو گئی ہے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سے ہمارے لیے خیر برآمد ہو گا۔ اس خیال کے ساتھ بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی امید قائم رہتی ہے۔ آدمی کے حوصلے قائم رہتے ہیں۔
قرآن مجید کا فرمان ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کی تقدیر ٹھہرائی اور پھر اسے اس کی تقدیر کے راستے پر چلا دیا۔گویا آدمی نیکی اوربدی جو کماتا ہے وہ تواپنی آزادی اور اختیار سے کماتا ہے ، لیکن جو مقام اورمرتبہ اسے حاصل ہوتا ہے، جو مال و دولت اسے حاصل ہوتی ہے، وہ اس کی تقدیر کا لکھا ہوا اسے ملا ہے ۔ اس لیے نہ اسے غربت پر کڑھنا چاہیے اور نہ اپنی دولت و عزت پر نازاں ہونا چاہیے ۔
یہ سب کچھ ایسا ہی ہے، جیسے اچھی اور بری صورت والا ہونا۔ نہ اچھی صورت تکبر و غرورکی وجہ ہے اور نہ بڑی سے بڑی مشکل مایوسیوں کا باعث۔ یہ سب کچھ اللہ کی تقدیر ہے جو اس نے اپنی خاص حکمتوں کے ساتھ ٹھہرائی ہے، جن میں کچھ حکمتوں کو ہم نے اوپر سیکھا ہے۔ آدمی کی شکل و صورت، اس کی صلاحیتیں، اس کا مال و دولت ، سب کا تعلق اس کی قسمت سے ہے نہ کہ اس کے ذاتی استحقاق اور اس کی قابلیت کا صلہ اورحق۔ اس لیے ان کا ہونا یا نہ ہونا منشاے الٰہی ہے ،جس کا مقابلہ حوصلہ اوردانش مندی سے کرنا چاہیے۔
اگر کوئی مشکل آدمی پر آئے تو آدمی کو اچھے دنوں کو یاد کرنا چاہیے جن میں اللہ نے اس پر عنایتیں کی ہوتی ہیں۔ اور یہ خیال کرنا چاہیے کہ اگر اللہ نے وہ دن دکھائے تھے اور گزر گئے تو یہ دن بھی باقی نہیں رہیں گے ،یقیناًاچھے حالات نصیب ہوں گے۔ اس سے بھی آدمی کو صبر اور تسلی حاصل ہوتی ہے۔ سورۂ الم نشرح میں یہی طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔
حصول صبر کے اوپر بیان کردہ یہ تینوں طریقے اصل میں خدا کے ساتھ آدمی کے تعلق کی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔آدمی کا یہ شعور جتنا گہرا ہوگا اتناہی اس کا خدا سے تعلق گہرا اور مستحکم ہوگا۔ اور جتنا اس کا تعلق اس سے گہرا ہوگا اسی قدر وہ مشکلات میں صبر کر سکے گا۔
لیکن ہم ان نعمتوں سے حقیقی معنی میں فائدہ نہیں اٹھا سکتے، اگر ہم ان مشکلات میں اللہ سے طالب مدد نہ ہوں۔ اللہ سے مدد، بعض تصورات کے صحیح کیے بغیر، طلب کرنا بسا اوقات ناممکن ہوتا ہے اور بسا اوقات بے معنی ہے ،اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان تصورات کو صحیح کر لیا جائے۔
صبر پیدا کرنے والے امور میں یہ بھی ہے کہ آدمی کا ایمان آخرت پر بہت پختہ اور یقین کی حد تک ہونا چاہیے۔آخرت پر ایمان صبر پیدا کرنے والے امور میں سب سے بڑا امر ہے۔ آخرت کا عقیدہ ہمیں وہ نظر عطا کرتاہے ، جس سے ہم چیزوں کو ایک اورہی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ یعنی اس نگاہ سے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے ۔ یہ نظریہ کئی کاموں سے ہمیں روکتا اور کئی کاموں پر ابھارتا ہے۔اسی طرح ہماری آزمایش کو قدرے آسان کرتا ہے۔ہم چونکہ غم و راحت اور نفع و نقصان کو ایک امتحانی سوال کی طرح دیکھنے لگ جاتے ہیں، اس لیے ان کی کیفیت کچھ اور ہی ہوجاتی ہے۔آخرت کو نہ ماننے والاجہاں رو رہا ہوتاہے، آخرت کو ماننے والا وہاں سے کامیابی کے راستے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔اس کی نظر اگلے منافعوں پر ہوتی ہے، جبکہ آخرت کے منکر کی نگاہ وقتی فائدوں پر۔
آخرت ایک ابدی بادشاہی کا نام ہے(طہٰ ۲۰: ۲۰) جس میں نعمتوں کو زوال نہیں ہے ۔ جو مل گیاوہ ہمیشہ کے لیے مل گیا ۔ ہم آپ کو اسی منزل کا سچا راہی بننا چاہیے ۔ اور جب کبھی اس منزل کو بھولنے لگیں تو فوراً یاد دہانی حاصل کریں، اپنے ارد گرد تواصی بالحق کا ماحول بنائیں، جہاں آپ دوسروں کو اور دوسرے آپ کو حق بات کی نصیحت کریں کہ کل تم قیامت کے دن کیا کرو گے۔ اسی نصیحت سے صبر حاصل ہو گا۔
قرآن مجید نے سور ۂ عصر میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ ایک دوسرے کو نصیحت کریں حق کی اور اس پر قائم رہنے ،یعنی صبر کی۔ اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے استاد گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:
’’اس کام (تواصی بالحق و بالصبر) کی جو نوعیت ان آیتوں میں بیان ہوئی ہے ، اس سے یہ واضح ہے کہ دعوت کی اس صورت میں داعی اور مدعو الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ہر شخص جس طرح داعی ہے ،اسی طرح مدعو بھی ہے۔قرآن مجید نے اس کے لیے ’تواصوا‘ یعنی ایک دوسرے کو نصیحت کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔یہ فرض باپ کو بیٹے کے لیے اور بیٹے کو باپ کے لیے، بیوی کو شوہر کے لیے اور شوہرکو بیوی کے لیے، بھائی کو بہن کے لیے اور بہن کو بھائی کے لیے، دوست کو دوست کے لیے اور پڑوسی کو پڑوسی کے لیے ، غرض یہ کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ متعلق ہر شخص کے لیے ادا کرنا چاہیے۔ وہ جہاں یہ دیکھے کہ اس کے متعلقین میں سے کسی نے کوئی خلاف حق طریقہ اختیار کیا ہے ، اسے چاہیے کہ اپنے علم اور اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق اسے راستی کی روش اپنانے کی نصیحت کرے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ صبح ہم کسی کو کوئی حق پہنچائیں اور شام کے وقت وہ ہمارے لیے یہ خدمت انجام دے۔ آج ہم کسی کو کوئی نصیحت کریں اور کل وہ ہمیں کسی حق کی تلقین کرے ۔ غرض یہ کہ جب موقع میسر آئے ، ہر مسلمان کو اپنے دائرۂ عمل میں یہ کام لازماً انجام دیتے رہنا چاہیے۔‘‘(میزان ۲۱۳۔۲۱۴)
یہ عمل اگر ہمارے ماحول میں عام ہو جائے تو ہمیں ہر وقت یاددہانی کرانے والے میسر رہیں گے ۔ یاددہانی دراصل ہمیں آخرت کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے۔ آخر ت کا سبق اگر ہمیں ہر وقت یاد رہے تو یہ ہمارے لیے حصول صبر کا باعث ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے ’تواصی بالحق‘ کے فوراً بعد’تواصی بالصبر‘کا ذکر کیا ہے کہ اس ’تواصی بالحق‘ والے فرض کی ادائیگی کے ساتھ ہی یہ عمل بھی وجود پذیر ہو گا۔جس طرح نماز کی یاددہانی فحشا و منکر سے روکتی ہے اسی طرح حق بات اور آخرت کی یاددہانی ہمیں منکر ات سے روکتی ہے ۔منکرات سے رکے رہنا ہی صبر ہے۔ چنانچہ حصول صبر کے خواہش مند اپنے ماحول میں تواصی کو زندہ کریں، اس سے حصول صبر میں بہت مدد ملے گی۔
نیکیوں پر قائم رہنے میں معاونت کرنے والی چیز اللہ کی راہ میں انفاق بھی ہے۔یہ انفاق زکوٰۃ اور فطرانہ وغیرہ کی صورت میں تو ہر مسلمان کرتاہی ہے،مگرکچھ اس کی لازم صورتیں عام مسلمانوں کو معلوم ہی نہیں ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ دینے کے بعد ان کی اصل ذمہ داری پوری ہو گئی ۔ اب جو بھی وہ خرچ کریں گے، وہ نفلی ہے۔ اس پر ہمارا مواخذہ نہیں ہو گا۔
یہ علم کی کمی ہے۔ دراصل زکوٰۃ کے علاوہ بھی انفاق کی کچھ شکلیں ایسی ہیں کہ جو ہم پر لازم ہیں۔ ان میں مقدار اور وقت متعین نہیں ہے،لیکن یہ بات لازم ہے کہ اس میں دینا ناگزیر ہے۔
زکوٰۃ کے علاوہ انفاق کا ایک سادہ اصول ہے کہ ہمارے مال میں اللہ تعالیٰ نے محروم اور سائل کا حق رکھا ہے۔ جو لوگ محروم ہوں ان کی مدد کرنا اور جو دروازے پر آجائیں ان کو دینا ،ہمارے مالوں میں سے حق مقرر کیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو رزق اللہ تعالیٰ ہمیں دیتے ہیں، وہ دراصل صرف ہمارا نہیں ہے ، بلکہ اس میں کچھ دوسرے سائل و محروم بھی حصہ دار ہیں۔ اس مقصد سے ایسے لوگوں کے لیے اپنے مال میں سے کچھ حصہ ضرور مقرر کرنا چاہیے۔
دوسرا اصول نصرت دین کا ہے۔جب دین کا وجود خطرے میں ہوتو اس کی مدد کرنا لازم ہے ۔ اس سلسلے میں اگر ضرورت مقتضی ہو،دین پر ابتلا ایسی شدید ہو کہ اپنی ضرورت سے بڑھ کر سب کچھ دینا پڑے تو دینا ہوگا۔لوگ اسے نفلی چیز سمجھتے ہیں ، حالانکہ یہ لازم ہے ۔
اسی اصول پر معاشرے ، ملک اور قوم کی ابتلامیں مدد کرنا بھی حتی المقدور لازم ہے ۔ایسا کرنے سے انسان میں اوصاف حمیدہ وجود میں آتے ہیں، جن کے ذریعے سے انسان میں صبر پیدا ہوتا ہے۔
اللہ کی راہ میں خرچ ایسا ہی اثر رکھتا ہے جیسے نماز۔سورۂ توبہ میں انفاق کو قرب الٰہی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ (۹: ۹۹) اسی طرح نماز کوقرب الٰہی کا سبب قرار دیا ہے۔( العلق۹۶: ۱۹) اللہ سے یہ تعلق انسان میں نیکیوں کی طرف میلان اور برائیوں سے اجتناب کا وصف پیدا کرتا ہے۔نیکی پر قائم رہنا اور برائیوں سے مجتنب رہنا ہی صبر ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ اسے سمجھ کر کرنا بھی حصول صبر کے لیے بہت اہم ہے۔یہ دل کی صفائی اور بصیرت افروزی میں سب سے بڑھ کر ہے۔اسی سے خدا کی صفات کا علم حاصل ہوتا اور اسی سے وہ نوربصیرت ملتا ہے ،جس سے اگر ہم دنیا کو دیکھنے لگیں تو ہمیں صبر و استقامت کے حصول میں بہت رہنمائی ملے گی۔قرآن مجید میں تعلیم کتاب و حکمت اور تلاوت آیات کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے تزکیۂ نفس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تزکیۂ نفس ہی وہ چیز ہے جس سے نیکیاں دلوں میں گھر کرتی اور برائیاں رخصت ہوتی ہیں۔
روزانہ قرآن کا ایک اتنا حصہ، جس سے خدا کا کوئی پیغام حاصل ہوتا ہو، پڑھنا اپنے لیے لازم کرلینا چاہیے۔اسے کسی اچھی تفسیر کی روشنی میں نہ بھی سمجھا جائے تو قرآن مجید کی تکرارا ور تصریف آیات سے اس کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں اور بات عام قاری کو بھی سمجھ آجاتی ہے۔
اس میں بعض طالب علموں کو میں نے یہ مشورہ دیا کہ وہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی تفسیر’’تدبر قرآن‘‘ اگر تین سے پانچ ماہ میں ختم کرسکیں تو انھیں قرآن کے مجموعی پیغامات کا قدرے بہتر فہم حاصل ہوگا۔ جب انھوں نے ایسا کیا تو انھیں میں نے بھی اپنے نظریات اور رویوں میں مختلف محسوس کیا ہے، اس لیے کہ قرآن تربیت کرتا ہے۔
جو لوگ طالب علم نہیں ہیں اور اتنی مقدار میں نہیں پڑھ سکتے تو اگر وہ کوئی اچھا ترجمہ ہی دو تین ماہ میں پڑھ لیا کریں تو اس سے وہی نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ، اگر چہ وہ آہستہ ہوں گے اور کئی دفعہ کے ایسے مطالعہ کے بعد حاصل ہوں گے۔ آدمی اگر ترجمۂ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا معمول بنا لے اور ہر تین چار ماہ میں قرآن کا ترجمہ ختم کرلیا کرے تو خود اسے بھی ان حیرت انگیز اثرات کا احساس ہوگا۔
اس میں ترجمہ کوئی بھی لیا جا سکتا ہے، مگر فرقہ دارانہ تعصبات کی بنا پر تراجم کے حواشی میں اور بعض اوقات تراجم کے وسط میں ایسے اضافے کردیے جاتے ہیں کہ جس سے ترجمہ اپنا اصل رنگ کھو دیتا ہے۔ اگر یہ ممکن ہو کہ کوئی ایسا ترجمہ جسے لکھنے والے کسی فرقے کے مبلغ و نمائند ہ نہ ہوں تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ میرے خیال میں مولاناامین احسن صاحب اصلاحی رحمہ اللہ کا ترجمہ جو الگ بھی چھپ گیا ہے ،وہ اس مقصد کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
لیکن اگر اس رفتار سے پڑھنا ممکن نہ ہو تو نہ پڑھنے سے بہتر ہے کہ آدمی اتنا پڑھے جو ہم نے سب سے پہلے ذکر کیا کہ جس سے روزانہ ایک پیغام سا آپ کو مل جائے۔
لوگوں نے قرآن کو جادوئی کلمات کی طرح سمجھ رکھا ہے، یعنی اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں، وہ اثر ضرور کرتا ہے۔یہ نظریہ غلط ہے ۔ قرآن ہدایت و ضلالت کے قانون کے مطابق بس اتنا ہی فیض یاب کرتا ہے ، جتنی ہماری آپ کی سعی ہوگی۔
انبیا کی زندگی حصول صبر کے لیے ہمارے لیے اسوہ ہے۔ ان کی داستان ہاے حیات اپنے اندر ہمارے لیے ایسی مثالیں رکھتی ہیں کہ جن سے ہمیں حوصلہ حاصل ہوتا اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں ایسا موقع نہیں کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں، طالب اس کے لیے ان سیرتوں کے مطالعہ کو پیش نظر رکھے۔
ان کی تاثیر قرآن کے جیسی تو نہیں ہے ، مگرہمیں یہ فائدہ ضرور دیتی ہے کہ ان سے ہمیں انسانی زندگی کی مثالیں اور اس میں صبر کے اطلاقات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انبیا سے ہماری محبت ہمارے دلوں میں چونکہ ایک تقدس سا پیدا کرتی ہے ، جس وجہ سے ان کے واقعات اگر صحیح ہوں تو وہ بہت ہی زیادہ موثر بن جاتے ہیں۔ مگر یہاں ایک بات واضح کردوں کہ واقعات سے دین اخذ نہیں کرنا چاہیے بس یہ چیز دیکھنی چاہیے کہ نیکی کرنے میں ان کا رویہ کیا تھا۔ دین کا ماخذ قرآن اور سنت ہیں ۔ قصے کہانیاں نہیں ۔ اس لیے کہ قصے کہانیاں محفوظ ہاتھوں سے ہم تک نہیں پہنچے ۔ ان میں لوگوں نے بہت کچھ اپنی طرف سے ملا دیا ہے۔ اس لیے اب وہ حق اور باطل ، دونوں کا مجموعہ ہیں۔
قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بدووں میں منافقت کو ختم کرنے کے لیے انھیں یہ مشورہ دیا کہ ’کونوا مع الصادقین‘کہ ان لوگوں کے ساتھ رہا کرو جو قول و فعل میں سچے اور اپنے ایمان و عمل میں پختہ ہیں۔ان کی صحبت اٹھانے سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ ان کا فہم دین ہمیں حاصل ہوتا ہے۔
۲۔ ان کا لگاؤ ، ہمارے اندر منتقل ہوتا ہے۔
۳۔ان کی دنیا میں رہنے اور عمل کرنے کی بصیرت ہمیں حاصل ہوتی ہے۔
یہاں ، البتہ ایک امکان اس بات کا ہے کہ آپ ایسے آدمی کا انتخاب کرلیں کہ جو صادق نہ ہو۔ اس چیز سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے قرآن کے ساتھ اوپر بیان کردہ تعلق مطالعہ قائم کرچکے ہوں۔وگرنہ ہر آنے والا آپ کو اپنے بہاؤ میں بہا لے جائے گا۔ اس لیے کہ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں، والی حالت آپ کو ہر راہ رو کے پیچھے لگا دے گی۔ قرآن کا ترجمہ باربار پڑھنے سے وہ ذہن بن جائے گا کہ وہ آپ کو اس مشقت سے بچالے گا کہ آپ ہر آدمی کی بات کے پیچھے لگ جائیں۔
صبر کے حوالے سے ہر طبقہ میں مختلف پہلووں سے بے صبری یا برداشت پائی جاتی ہے۔ مثلاً متوسط طبقے کی عورت گھر کے کام کاج نہ کرے تو یہ ناقابل برداشت ہے۔ اور ایلیٹ کلاس کی عورت کام کرنا عار سمجھتی ہے اور اگر وہ کرلے تو یہ بڑا کارنامہ ہے۔اس تربیت سے ، جو ہر طبقہ اپنے لوگوں کی کرتا ہے ، مختلف طبقات میں مختلف رویے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ ایک دیہاتی غریب خاندان کے لوگ شاید ایک روٹی کے ٹکڑے پر لڑپڑیں، مگر وہ ہو سکتا ہے کہ طوفان آنے پر آرام سے اپنے گھر کو گرتے ہوئے دیکھتے رہیں۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بڑے پیمانے پر ایسی تربیت صبر کے پیداکرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ہر خاندان کے سربراہ کو اپنے گھر میں تربیت کا ماحول بنانا چاہیے ۔ جذبات کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ان کا اظہار کب ہونا چاہیے وغیرہ جیسی باتیں ہر گھر کو اپنے ماحول میں تازہ رکھنی چاہییں۔
مثال کے طور پر ، ہمارے اکثرلوگوں کی یہ تربیت ہی نہیں کی جاتی کہ کسی کا مذاق اڑا دینا، اس پر کوئی تبصرہ سا کر دینا کتنی بری بات ہے۔ ہمارے ہاں عام طور سے یہ بیماری ہر جگہ دیکھنے کو ملے گی۔ لوگوں کی معذوری پر ان کے نام تک پڑ جائیں گے۔ اس طرح کی چیزیں ہادم صبر ہیں۔ اس لیے کہ ان کا عام ہونا تکلیف کا باعث ہے۔ یہ تکلیف انتقام پر ابھارتی ہے اور معاشر ے میں پھر تلخیاں وجود پذیر ہوتی ہیں۔ یہ تلخیاں چغلی، غیبت وغیرہ پر ابھارتی ہیں اور انسان آہستہ آہستہ حق کے جادۂ مستقیم سے ہٹتا جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہمارے پیش نظر ایک تربیت گاہ کا قیام بھی ہے۔ جس میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایک بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایسی تعلیم سے گزارا جائے کہ ان کے غلط بت ٹوٹ جائیں اور صحیح عقائد اور نظریات وجود میں آئیں۔ان کو مہذب انسان بنایا جائے۔ان کے کردار و سیرت کو سنوارا جائے۔
____________