اس باب میں ہم ان چیزوں سے بحث کریں گے ، جو ہمیں صبر کرنے میں ممد و معاون ہیں:
صبر کے بارے میں ہم اوپر یہ پڑھ آئے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ تعلق جتنا صحیح ہوگا، صبر کے حصول میں اتنا ہی ممد و معاون ہوگا۔ صحیح ہونے کے معنی یہ ہیں کہ یہ تعلق صحیح رخ میں اور پورے شعور کے ساتھ ہو۔ صحیح رخ کے معنی یہ ہیں کہ ہم خدا کو اچھی طرح جان کر اس کے ساتھ تعلق بنائیں۔ جیسے دنیا میں اگر ہم انسانوں کو صحیح نہ پہچانیں تو ہم ان سے بسا اوقات نقصان اٹھا بیٹھتے ہیں۔ ٹھیک ایسے ہی اگر ہم نے خدا کو صحیح نہ پہچانا تو ہم خدا سے ایسی غلط توقعات پر بیٹھے رہیں گے جنھیں پورا کرنا، اللہ تعالیٰ کی صفا ت اور حکمتوں کے خلاف ہو۔ اس لیے ہمارے خدا کے ساتھ صحت مندانہ تعلق کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کی صفات اور سنن کو جان کر اس کے ساتھ تعلق استوار کریں۔ تاکہ غلط توقعات اور غلط نظریات کی بنا پر ہمارا تعلق ناقص بنے اور عین اس وقت شکستہ ہو جائے جس وقت ہمیں اس تعلق کی سب سے زیادہ ضرورت ہو۔
اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ایک بزرگ ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔ اور اپنے تصورات کے مطابق اس زعم میں رہے کہ ایسی ریاضت کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد اسی طرح آتی ہے جس طرح ابراہیم پر آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے اللہ کی مدد آئی۔اور اس طویل ریاضت کے دوران میں انھوں نے خدا سے کوئی چیز طلب نہیں کی، تاکہ وہ ایسے کسی موقع پر اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے مدد مانگ سکیں۔
چنانچہ ایک دفعہ یوں ہوا کہ باد و باراں کا نہایت سخت طوفان آیا، جس کے نتیجے میں سیلاب آگیا۔ سارا گاؤں غرقاب ہوگیا۔ لوگ بچنے کے لیے لکڑی ، شہتیر اور ہر طرح کی چیزوں سے مدد لینے لگے ،مگر ان بزرگوں کے نزدیک یہی موقع تھا کہ وہ اپنی ریاضت کا فائدہ حاصل کریں۔ چنانچہ انھوں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور پکارے کہ اے اللہ، آج تو خود مجھے آکر بچائے گا ۔ میں کسی چیز کی مدد حاصل نہیں کروں گا۔بارش ہوتی رہی اور وہ بزرگ پانی میں خدا کے ہاتھ کا انتظار کرتے رہے۔ ایک شہتیر تیرتا ہوا ان کے پاس سے گزرا، مگر انھوں نے یہ کہہ کر اسے نہ روکا کہ آج اللہ مجھے بچائے گا۔میں اس کی مدد نہیں لوں گا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بھینس تیرتی ہوئی آئی۔ وہ اس پر بیٹھ کر بھی بچ سکتے تھے، مگر انھوں نے کہا: آج اللہ مجھے بچائے گا۔ اتنے میں پانی ان کی گردن تک آگیا۔ تھوڑی دیر بعد گاؤں کے کچھ لوگ کسی تختے پر تیرتے ہوئے آئے ،انھوں نے کہا: بابا جی آجاؤ، مرجاؤ گے، مگر باباجی نے مسکرا کر سوچا، آج مجھے اللہ بچائے گا۔ پھر انھوں نے تختے پر تیرنے والوں کو ان کی مدد لینے سے انکار کردیا۔ اتنے میں پانی ان کے سر تک پہنچ گیا۔ پھر فوجیوں کی ایک کشتی تیرتی آئی۔ انھوں نے باباجی کی لاش کو اٹھایا اور پانی سے باہر لے آئے۔ اس قصہ سے بات واضح ہوئی کے خدا کے ساتھ تعلق ایسی توقعات پر وابستہ کرکے بنایا گیا کہ جو اس کی سنت اور صفات کے خلاف تھا۔ کیونکہ وہ اس دنیا کو پردۂ غیب میں رہ کر چلا رہا ہے،اس لیے وہ کسی کی اپنے ہاتھ ظاہر کرکے مدد نہیں کرتا ، نہ کرے گا۔ وہ تختہ ، شہتیر، تیرتی ہوئی بھینس ہی ’’اللہ کے ہاتھ‘‘ تھے جن کو تھام کر باہر آنا چاہیے تھا۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سارے کام اس کے علم و حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ جذبات کے تحت نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی شکل و صورت اور حسب و نسب دیکھ کرفیصلے نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنے علم اور حکمت کے پیش نظر یہ سب کررہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس کے کسی رسول کی امت میں سے ہونا یا کسی کی اولاد ہونا ،اس بات کا کسی کو مستحق نہیں بناتی کہ وہ ہمارے ساتھ ان چیزوں کی بنا پر کوئی معاملہ کرے۔ ایساوہ اپنے علم ، حکمت اور دانائی کی بنا پر کرتا ہے۔
علیم
اللہ صاحب علم ہے ۔ دنیا میں ہونے والا ہر واقعہ ازل سے اس کے علم میں ہے۔ اس کے لیے کوئی چیز حادثہ نہیں ہے۔ وہ غیب اور ظاہر، دونوں کو جانتا ہے۔ یہاں ایک بات ضمناً عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اس سے کسی بھی حالت میں جدا نہیں ہوتیں۔ ٹھیک اسی طرح اس کی صفت علم بھی ہر وقت اس میں موجود رہتی ہے۔ چنانچہ جب ہم پر کوئی مصیبت اتری ہو تو یہ ہر گز خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ اس سے بے خبر ہو گایایہ کہ اسے تو اس کا علم نہیں تھا ۔
اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا یہ نظریہ کہ وہ ہر واقعے کو جانتا ہے ،ہمارے لیے باعث تسلی و اطمینان اور سہارا بننا چاہیے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جب ہمارے اوپر کوئی مصیبت و مشکل آئے تو یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ہمارا مالک وآقا اس سے بے خبر ہے۔ اب ہمارا پرسان حال کوئی نہیں ہے،بلکہ اس کے برعکس یہ خیال کرنا چاہیے کہ دنیا ہماری اس مصیبت سے بے خبر ہے، مگر وہ کارساز اس سے واقف ہے جس نے اسے اس مصیبت سے نکالنا ہے۔
جب آدمی کو مصیبت کے وقت یہ یاد رہے کہ اس کی مشکلات دور کرنے والا اس کی مصیبت سے باخبر ہے تو یہ اس کے لیے ایک بڑا سہارا ہے جو اسے بلامعاوضہ اور بلا انقطاع میسر رہتا ہے۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ وہ ہماری صلاحیتوں، ہماری افتادطبع، ہماری دلی خواہشات اور ہمارے حالات کا نہایت باریکی سے علم رکھتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ ہمیں کسی مشکل میں ڈالے گا تو ان تمام پہلووں سے وہ مشکل آزمایش نہایت نپی تلی اور متوازن ہو گی۔ اگر ہم صحیح ذہن کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو ہم بلا شبہ آزمایش کی اس بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔اور صبر بھی ہمارے لیے آسان تر ہوگا۔
یہ دنیا اللہ نے بنائی ہے، وہ اسے چلا رہا ہے۔اس کی نگاہ مسلسل اس کی نگرانی کر رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی مصیبت زدہ ہو اور اللہ اس سے واقف نہ ہو۔ (۵۲: ۴۸) نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی ظلم کررہا ہو اور اللہ اس سے بے خبر ہو۔ اس لیے اس بات سے پریشان نہیں ہو نا چاہیے کہ اگر ہم مظلوم ہیں تو ہماری داد رسی نہیں ہو گی یا ہو گی تو حاکم کی بے خبری کی وجہ سے پوری پوری داد رسی نہ ہو سکے گی ، کوئی کمی رہ جائے گی۔بے صبر ا تو اس کو ہونا چاہیے جسے داد رسی کی امید نہ ہو یا جو بے انصافی کی توقع رکھتا ہو۔ مثلاً اگر کسی نے میرے بھائی کو قتل کردیا ہے تو وہ آج تو قانون کی گرفت سے بچ سکتا ہے ، لیکن خدا کی پکڑ سے کیسے بچ سکتا ہے۔
قرآن نے کہا کہ اس زمین و آسمان کی حدود سے بھاگ کر کیسے نکل جاؤ گے۔آخر تم سب آہستہ آہستہ اپنے رب کی طرف کھنچے جا رہے ہواور ایک دن اس کے سامنے کھڑے ہو گے۔ اس دن خدا کا سامنا ہر کسی نے کرنا ہے۔ آدم و حوا کے زمانے سے لے کر قیامت سے پہلے پیدا ہونے والے آخری آدمی تک نے یہ دن دیکھنا ہے اور اس میں جو کچھ اس نے کیا ہے ،اسے بھگتنا ہے۔اس دنیا میں اگر آپ کے ساتھ کوئی ظلم ونا انصافی ہو، خواہ اس کی کمیت و اہمیت ذرہ برابر ہو،وہ بھی سامنے آئے گی۔ اور اس پر آپ کو پورا پورا بدلہ ملے گا۔ قیامت کے بارے میں قرآن کی یہ تصریح کہ اس دن خیرو شر میں اگر کسی نے ایک ذرہ برابر عمل بھی کیا ہے تو اسے دیکھے گا۔ (سورۂ زلزال ۹۹) یعنی اس سے اجر و گناہ پائے گا۔ ہر مظلوم کے لیے خو ش خبری ہے اور ہر ظالم کے لیے ایک وعید و دھمکی۔ جس مظلوم پر یہ حقیقت منکشف ہو، وہ اپنے ظالموں سے بدلہ لینے کے لیے کیوں کر حدود سے تجاوز کرے گا اور اسے بدلہ لینے کی ایسی جلدی بھی نہیں ہو گی کہ ماوراے عدالت انتقام لیتا پھرے۔ غرض یہ احساس کہ میں اللہ کی نگاہوں میں ہوں، وہ ہر وقت میری ہر حالت سے واقف ہے، یہ چیز ہمیں ایک نوعیت کا اطمینان عطا کرتی اور ہمیں بے صبری سے روکے رکھتی ہے۔
حکیم
اللہ صاحب حکمت ہے ۔دنیا میں ہونے والا ہر واقعہ اس کی دانائی ، بصیرت اور اس کے حکیمانہ مقاصد کا حامل ہوتا ہے۔ ہماری نگاہ اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مصیبت کتنی بڑی ہے ،بلکہ اس پر ہونی چاہیے کہ یہ کیوں آئی ہے۔ اس لیے کہ اس حکیم و خبیر سے یہ توقع نہیں کہ وہ بلا وجہ ہمیں کسی ابتلا میں ڈال دے گا،وہ یقیناًدر ج بالا مقاصد ہی کے لیے ہمیں آزماتا ہے۔ اس کے حکیم ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے ہر کام کو حکمت پر مبنی سمجھا جا ئے، اس لیے کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ اس کی یہ صفات اس سے کسی حالت میں بھی الگ نہیں ہوتیں۔ اس لیے یہ جان لینا چاہیے کہ اگر وہ کسی کو سزا بھی دے رہا ہو تو وہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔
اس کو ہم ایک ادنیٰ درجے پر ماں کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں، جو اپنے بچے کو بدتمیزی کرنے یا محنت نہ کرنے پر صرف اس لیے سزا دیتی ہے کہ اس کی عادتوں کا بگاڑ اس سے دور ہو یا اس کا مستقبل تاریک نہ ہو۔ ماں کے ذہن کی یہ حکمت بعض اوقات بیٹے سے اوجھل ہوتی ہے اور وہ ماں سے باغی ہو جاتا ہے، جو کہ جائز نہیں ہے۔ اگر ماں اپنے بیٹے پر یہ ستم اس لیے توڑتی ہے کہ وہ سدھر جائے، اس کا مستقبل سنور جائے، وہ آنے والے دنوں میں پریشان نہ ہو تو کیا خدا ماں سے زیادہ حکیم نہیں ہے؟ اور وہ اس سے زیادہ مستقبل سے باخبر نہیں ہے؟ یہی اس کا علیم و حکیم ہونا ہے جو ہمارے لیے باعث اطمینان ہے۔
اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ بسا اوقات ہم یہ خیال کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا کاروبار چل جانا چاہیے، ہمیں ملازمت مل جانی چاہیے، ہمارے اولاد ہونی چاہیے ، لیکن معاملہ اس کے برعکس رہتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ کا علم یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے لیے مستقبل میں نقصان کا باعث ہو گا۔ وہ ہمیں اس نقصان سے بچانے کے لیے اس سب کچھ سے محروم رکھتا ہے۔
مشکلات میں ہمیں جو چیز یں صبر کے لیے بدرقہ فراہم کرتی ہیں ان میں سے اللہ کی دو صفات رؤف و رحیم ہیں۔
رؤف
’رؤف‘اس ذات کو کہتے ہیں، جو دوسروں کی مشکلات دور کرنے والی، ان کو کلفتوں سے نکالنے کا اہتمام کرنے والی ہو۔ جبکہ ’رحیم ‘ اس ذات کو کہتے ہیں ،جو عنایت و مہربانی کرنے والی ہو،لوگوں کے لیے استحقاق یا بلا استحقاق نعمتیں نازل کرنے والی ہو۔گویا رحمت عام ہے اور رافت خاص ، جو اس وقت متحرک ہوتی ہے، جب آدمی مشکل میں گھرا ہوا ہو۔
اس صفت کے تذکرے سے جو باتیں میں سامنے لانا چاہتا ہوں، ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت یہ تو ہے کہ وہ مشکلات میں سے نکالتا ہے ،لیکن یہ نہیں ہے کہ وہ مشکلات میں ڈالتا ہے۔ البتہ اس نے یہ بتایا ہے کہ وہ بھوک، جان جانے کے خوف اورنقص اموال سے ہماری آزمایش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم ایسی ذات کے بارے میں جو رؤف و رحیم ہے، ہر گز یہ خیال نہ کریں کہ وہ خواہ مخواہ ہمارے او پر مصائب نازل کرتا رہتا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ جب بھی ہمیں مشکل میں ڈالتا ہے تو وہ محض مشکل میں ڈالنے کے لیے ایسا نہیں کرتا،بلکہ اس کا مقصد، جیسا کہ اوپر واضح ہو چکا ہے، ہماری بھلائی ہوتی ہے ۔ دیکھا جائے تو حقیقت میں رافت کا تقاضایہی ہے۔
قرآن مجید میںیہ صفت ’واللّٰہ رؤف بالعباد‘ (اللہ اپنے بندوں کے لیے رؤف ہے)کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب نہایت درجہ دل نواز ہے۔ اسی طرح یہ صفت ’ان اللّٰہ بالناس لرؤف الرحیم‘ کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔ سورۂ بقرہ (آیت ۱۴۳) میں یہ صفت جہاں آئی ہے ،وہ مقام اس صفت کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس لیے ایک نظر اس مقام پر ڈال لینا بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے تبدیلئ قبلہ کا حکم دے کر اس متوقع رد عمل کا ذکر کیا ہے ،جو بالخصوص یہود کی طرف سے سامنے آنے والا تھا۔ وہ صدیوں سے بیت المقدس کو قبلہ بنائے ہوئے تھے۔ اب اس قبلہ سے ہٹنا ان کے لیے بہرحال ایک دشوار کام تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیتے ہی فرمایا ہے کہ اللہ نے یہ حکم امت مسلمہ کو کاملاً دین ابراہیمی پر قائم کرنے کے لیے دیا ہے اور اس لیے دیا ہے کہ وہ یہ پرکھے کہ کون رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں واپس چلا جاتا ہے۔
اس حکم کے یہ دونوں مقصد بتانے کے بعد فرمایا کہ بلا شبہ یہ کام مشکل ہے ،لیکن ہم نے یہ حکم اس لیے نہیں دیا کہ ہم تمھارا ایمان ضائع کردیں۔ اللہ تو لوگوں کے ساتھ رؤف و رحیم ہے۔
یہاں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ تبدیلئ قبلہ جیسی ایک بڑی آزمایش میں ڈالنے کے بعد، جس کے مشکل ہونے کوخود رؤف و رحیمنے تسلیم کیا ہے، ا للہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ میں رؤف ہوں، اس لیے تم پر ایسی آزمایش نہیں ڈالوں گا جس کی وجہ سے تم ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھو۔ اسی اصول کو ایک عمومی اصول کے طور پر بھی بیان کیا گیاہے کہ ’لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا‘ (اللہ کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ آزمایش کا بوجھ نہیں ڈالتا) ۔یہاں اس وسعت سے مراد قوت برداشت ہے، یعنی آدمی پر ایسی آزمایش نہیں ڈالی جائے گی کہ اس کی قوت برداشت سے زیادہ ہو جائے اور وہ کفر پر مجبور ہو کر ایمان سے محروم ہوجائے۔ اگر اللہ ایسی آزمایش آدمی پر ڈال دیں تو یہ اس کے نزدیک قرین انصاف نہیں ہے کہ وہ اس پر گرفت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی طرح پاگل اور بے ہوش آدمی کے جرائم کا مواخذہ نہیں ہے۔
دوسری بات رافت کے پہلو سے سمجھنے کی یہ بھی ہے کہ رؤف و رحیم کی نظر تخلیق آدم کے اس مقصد پر رہتی ہے کہ اس نے اسے آزمایش کے لیے پیدا کیا ہے، نہ کہ اس دنیا میں ہمیشہ کی زندگی گزارنے کے لیے، جبکہ ہم اکثر اوقات اس حقیقت کو فراموش کیے رہتے ہیں۔
وہ ایک ہمدرد ماں کی طرح ہے جواپنے نالائق بچے کے مستقبل سے پریشان رہتی ہے ،اسے کبھی ڈانٹتی ہے، کبھی کوستی ہے، کبھی پیار سے بہلاتی پھسلاتی ہے، کبھی لالچ دیتی اور کبھی سزا کی وعید سناتی ہے۔ ذرا اس نگاہ سے ان آزمایشوں کو دیکھیے اور سوچیے کہ وہ کتنا پیار کرنے والا ، کتنا خیر خواہ اور کس قدر مشکلات سے نکالنے والا ہے۔
وہ اس نادان ماں کی طرح (نعوذ باللہ) نہیں ہے، جو اپنے بچے کو اس لیے چلنانہیں سکھاتی کہ کہیں گر کر اسے چوٹ نہ آجائے ۔وہ جہاں جاتی ہے، اسے گود لیے رہتی ہے۔ بظاہر وہ بیٹے کی ہمدرد ہے ، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ اپنے بیٹے کی دشمن ہے۔ اسے بیٹے کے ان دنوں کی پروا نہیں ہے ،جب وہ اسے گود میں اٹھا کر کہیں نہ لے جاسکے گی۔ پھر یہی بیٹا اسے گالیاں دے گا کہ تو نے مجھے چلنا کیوں نہیں سکھایا؟ تم نے میر ے ساتھ یہ دشمنی کیوں کی؟ اور وہ اسے یہ نہ کہہ سکے گی کہ میں نے تو تمھاری ہمدردی کی تھی۔
جس ماں نے اپنے بیٹے کو پاؤں پرچلنے کے لیے مشکلات میں نہیں ڈالا ، وہ اس وقت ہمدرد نظر آتی تھی ،مگر وہ حقیقت میں ’’رؤف‘‘ نہیں تھی اور جس نے اپنے بیٹے کو بچپن میں مشکل میں ڈالا ، وہ اس وقت سخت نظر آتی تھی، مگر حقیقت میں وہ ’’رؤف‘‘ و ہمدرد تھی۔
ہم چونکہ بچوں کی طرح اپنے’’ مستقبل ‘‘ کو اکثر فراموش کیے رہتے ہیں ،اس لیے ہمیں وہ ’’ماں‘‘اچھی لگتی ہے، جو ہماری ’’آج ‘‘کی راحت کا خیال رکھتی ہے، جبکہ دوراندیش آدمی کو وہ ’’ماں‘‘اچھی لگے گی ،جو اس کے ’’کل ‘‘کی راحت کو بھی ملحوظ رکھے۔ اللہ ایسی ہزار ماؤں سے بھی زیاد ہ ہمدرد ہے۔ اس لیے مشکل سے مشکل وقت میں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ یقیناً ہمیں ’’پاؤں پرچلنا ‘‘ سکھا رہے ہیں، اورسیکھنے کے دوران میں ٹھوکریں تو ہمیں لگیں گی۔
رحیم
ایک نظر اب ’رحیم‘کی صفت پر بھی ڈال لیجیے۔ ’رحیم‘ اس ذات کو کہتے ہیں جو عنایت و مہربانی کرنے والی ہو، لوگوں کے لیے استحقاق یا بلا استحقاق نعمتیں نازل کرنے والی ہو۔ رحمت کے چند اہم پہلو سمجھنا حصو ل صبر کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت ہے کہ اس سے بعض مکاتب فکر نے عجیب و غریب فلسفے تراش رکھے ہیں ، جس کی وجہ سے بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کی نفی ہو جاتی ہے کہ وہ کوئی بااصول ذات ہے بھی یا نہیں؟ آیئے، اب رحمت کے حوالے سے چند باتیں سمجھ لیں:
رحمت کو ایک اور پہلو سے بھی سمجھ لینا چاہیے ۔عام تصور اس کے بارے میں یہ ہے کہ اس میں صرف عنایت و شفقت ہی شامل ہے، لیکن قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سزا بھی رحمت کا لازمی حصہ ہے۔ اس کے بغیر رحمت کا تصور تکمیل نہیں پاتا۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کریں ،ایک ماں کے دو بیٹے ہیں۔ ایک شرارتی ہے اور دوسرا شریف اور سیدھا سادھا ہے۔ شریر بچہ کسی موقع پر شریف کو تنگ کرتا ہے تو ماں جو دونوں بیٹوں کی یکساں ماں ہے ، وہ اس طرح کے موقع پر ہمیشہ یہ نہیں کرسکتی کہ اپنے شریف بچے کو دلاسا دے کر چپ کرادے، بلکہ اسے شریر بچے کو سزا بھی دینا پڑتی ہے تاکہ شریف بچے کا دل ٹھنڈا ہو اور اسے محسوس ہو کہ جو اس کی شرارت سے اس نے تکلیف اٹھائی تھی، اس کی سزا اسے مل گئی۔ اگر وہ ماں ایسا نہ کرے تو وہ شفیق ماں نہیں ہے۔ ماں کے اس رویے سے معلوم ہوا کہ شفقت ایک بچے کی سزا کے بغیر تکمیل نہیں پاتی۔
ٹھیک اسی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ. (الانعام ۶: ۱۲)
’’اللہ نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے، اس لیے وہ ضرور قیامت کے دن تمھیں جمع کرے گا۔‘‘
ناانصافی رحمت کے خلاف ہے
یہاں دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اکٹھاکر کے حساب کتاب کو اپنی رحمت کا تقاضا قرار دیا ہے۔ رحمت کا یہی وہ اصول ہے،جس سے عدل پھوٹتا ہے۔ چنانچہ ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ معاشرے میں ہونے والے جرائم کی سزا دی جائے تاکہ مجرمین کے لیے عبرت کے ساتھ ساتھ ،مظلو م کی داد رسی بھی ہو۔ قرآن مجید نے قوم قریش کے انجام بد کی خبر دی تو فرمایا :
قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَ یُخْزِہِمْ وَ یَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ.(التوبہ ۹ :۱۴)
’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دینا چاہتا ہے، وہ انھیں شکست و رسوائی سے دو چارکرے گا اورتمھیں غلبہ و نصرت سے۔ اوراس طرح مومنین کے سینےٹھنڈے کرے گا۔‘‘
مراد یہ ہے کہ سزا کی تکمیل صحابہ کے سینوں کی ٹھنڈک کے بغیر نامکمل ہے۔ سورۂ انعام میںیہی وجہ ہے کہ کفار کی جڑکٹنے پراللہ کا شکر ادا کیا گیاہے:
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ. (الانعام ۶ : ۴۵)
’’سو، اللہ پروردگارِعالم کا شکر ہے کہ ظلم کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔‘‘
ظاہر ہے کہ شکر کا حقیقی موقع رحمت و عنایت ہے، اسی لیے یہاں اس عنایت پر خدا کا شکر کیا گیا ہے کہ دنیا ان لاخیروں سے پاک کر دی گئی۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ جب ہم پر کوئی مشکل نازل ہو تو اسے رحمت الٰہی کے خلاف نہ سمجھیں۔ اس موقع پر وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو بیماری کے موقع پر تجویز فرمایا تھاکہ اس بیماری کو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھو ۔
جیسے ہم نے عرض کیا کہ اللہ کی کوئی صفت کسی وقت بھی اس سے جدا نہیں ہوتی، اس لیے خیال رہنا چاہیے کہ اس کی صفت ’رحمۃ ‘اس کی صفت ’قائم بالقسط‘ سے جدا ہو کر عمل نہیں کرتی، بلکہ وہ جب رحم کرتا ہے تو کبھی بھی انصاف اور قسط کے خلاف نہیں ہوتا۔
اس کو ایک تمثیل سے سمجھیے: ایک آدمی پر اللہ کی ہر عنایت، لگتا ہے کہ آسمان سے براہ راست برس رہی ہے۔ دنیا کی کوئی نعمت نہیں جو اس کے گھر میں نہ ہو،مگر اس کا کرداراور اس کا عمل نہایت سرکشی اور نہایت دین ناپسندی ،بلکہ کفرکا ہے تو کیا اس پر اللہ کی رحمت قرین انصاف ہے؟
ہر آدمی جو اس دنیا میں آیا ہے، اسے فطرت ودیعت ہوئی ہے۔ جس میں نیکی کا شعوراوراس کی حلاوت اس کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ اس لیے یہ دنیاطلب آدمی بھی نیکی کرتا ہے۔ اگرچہ وہ دنیا میں شہرت پانے یا محض قلبی تسکین کے لیے کرتا ہے۔ تو ’انما الأعمال بالنیات‘کے اصول پر اسے دنیا میں اس کا اجر ملنا چاہیے۔ اگر اسے دنیا میں اجر نہ ملے اور آخرت میں بھی اس کی ان نیکیوں کا اجر نہ ملے تو یہ ناانصافی ہو گی۔
اس لیے اسے یہ اجر مختلف صورتوں میں دے دیا جاتا ہے۔ کسی کو معاشرے میں بلند منصب عطا کر کے، کسی کو شہرت یادولت دے کر اور کسی کو گرو اور پیشوا بنا کر ،کسی کو مقتدر اور فرعون بنا کر، غرض جو صورتیں اس دنیا کے تنگ نائے میں ممکن ہیں ، ان سب صورتوں میں کسی کی نیکی کے مطابق اسے اجر مل جاتاہے۔ اس طرح ایک نیکی گویا ایک تدبیر کا درجہ پا کر آخرت تک جانے سے محروم ہو جاتی ہے۔
اس لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ نیکی اس طرح کرتے ہیں کہ انھیں دنیا ہی میں اجر مل جائے تو انھیں یہ اجر دنیا ہی میں مل جائے گا۔ البتہ آخرت میں ان کے حصے کچھ نہیں آئے گا۔ اس لیے دیکھیے کہ ایک بے انصافی والی ’’رحمت ‘‘ کتنا بڑا انصاف ہے۔
یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنائی ہے، وہ دراصل جوڑے کے اصول پر بنائی ہے۔ یہاں ہر چیز ناقص ہے اور اسے اس کا جوڑا مکمل کرتا ہے۔ مثلاً ہم رات میں آرام کر سکتے ہیں ،مگر کام پوری طرح نہیں کرسکتے ۔ دن میں کام بھرپور طریقے سے کر سکتے ہیں ،مگر آرام نہیں کرسکتے ۔چنانچہ رات دن ،مرد وعورت، زمین وآسمان، خوشی وغم ، آرام و تکلیف غرض ہر ہر پہلو سے دیکھیں تو خدا کی یہ کاری گری ہمیں نظر آئے گی کہ اس نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے ،جو ایک دوسرے کے نقص کوپورا کرتے ہیں۔اسی طرح اللہ نے خیر و شر کا جوڑا بھی بنایا ہے ۔ یعنی نیکی بھی ہے اور بدی بھی ، غم بھی ہے اورخوشی بھی۔ یہ چاروں چیزیں ہماری آزمایش ہی کے لیے بنائی گئی ہیں ۔اس دنیا میں غم ، مصیبت، نقصان، موت اور دیگر تکالیف ایسی آزمایش ہیں کہ ہمیں ان پر صبر کرنا ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں بھی راحت ، چین، نفع ، زندگی اور خوشیوں کا جوڑا ہیں۔ جس طرح ہم نے اوپر جانا کہ ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر مکمل ہو تی ہے ،اسی طرح خوشی اور غم بھی ایک دوسرے کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔
یہ دنیا چونکہ آزمایش کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے نہ اکیلا غم اس آزمایش کو صحیح معنی میں آزمایش بناتا ہے اور نہ اکیلی خوشیاں۔ یعنی اگر یہاں غم ہی غم ہوتااور خوشی کا تصور ہی نہ ہوتا تو انسان کے لیے غم کی آزمایش بے معنی ہو جاتی۔ اسے تکلیف ضرور رہتی ،مگرراحت کے نہ ہونے کی وجہ سے اس آزمایش میں ایسا نقص آجاتا ہے کہ غم کی حالت وہی ہو جاتی ہے، جواس وقت ہماری محدودیت کی ہے ۔ یعنی ،مثلاً ہم اڑ نہیں سکتے تو اس کی نہ ہمیں کوئی آزمایش محسوس ہوتی ہے اور نہ اس کا غم و قلق ہمیں ستاتا ہے ۔ تکلیف اگر لازمی حصہ ہو جائے ،راحت نہ رہے تو اتنا بڑا خلل واقعہ ہوتا ہے کہ کائنات ہی نامکمل سی دکھائی دیتی ہے۔
اس لیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ غم ورنج کا آنا شکوہ و شکایت کے لیے نہیں ہے ،بلکہ نعمتوں کے احساس ، ان کی اہمیت جتلانے اور ہمیں آزمانے کے لیے ہے ۔ تمام مصائب کو اسی رنگ میں دیکھنا چاہیے۔مصیبت میں گم ہو جانے کے بجائے اسے سمجھ کر اس میں کامیاب ہو کر نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم اس دنیا میں عرصۂ دراز سے ہیں۔ اور ہم صدیوں کے اس سفرمیں یہاں رہنے کے ایسے عادی ہوئے ہیں کہ اسے ہم نے اپنی منزل ہی سمجھ لیا ہے۔ چنانچہ ہم یہاں ہمیشہ جینا چاہتے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کی ہر شے کو زوال ہے اور خود ان زمین و آسمان کو جو محکم و ثابت نظر آتے ہیں، ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ اس لمبے عرصہ میں ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہمیں آخرت میں خدا کے حضور میں پیش ہونا ہے۔
چنانچہ انسان اس نسیان کی وجہ سے اپنی منزل کو بھول کر راستے ہی کو منزل سمجھ لیتا ہے۔ جبکہ اسے آخرت کی تیاری کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اپنی ساری مساعی اسی دنیا کو بنانے میں صرف کردیتا ہے۔ اس کے برعکس چونکہ اللہ تعالیٰ کو نسیان لاحق نہیں ہوتا،اس لیے وہ مسلسل ہماری آخرت کے لیے تیار ی کے اسباب پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایک مشکل ،جوبلاشبہ سنگین ہوسکتی ہے،پر روتے رہتے ہیں، جبکہ آخرت کی ناکامی سے بڑی مصیبت کوئی نہیں ہے۔ ہمیں اگر وہ پریشانی یاد ہو تو ہمیں دنیا کی مشکلات کبھی اتنا پریشان نہ کریں، اگر ہم انھیں اپنا زادسفر بنا لیں۔
اس لیے اللہ کے نزدیک اس دنیا کی بڑی سے بڑی تنگی بھی دوزخ کی تنگی سے بڑی نہیں ہے ۔ کسی عورت پر ظلم ہونا، اسے طلاق ہو جانا،کسی عورت کا بے اولادی کی وجہ سے بے گھر کیا جانا، ساس اور بہو کے جھگڑوں میں اس پر الزام لگنا، کسی کا کاروبار ٹھپ ہو جانا، اگر کسی کو ان میں سے گزر کر جنت ملنے والی ہوتو اللہ کے نزدیک یہ معمولی باتیں ہیں ۔
وہ جانتا ہے کہ ایک بیوہ، ایک مطلقہ یا ایک الزام زدہ عورت یا ظلم و ستم کا ستایا ہو اکوئی آدمی ،جو بھی ان آزمایشوں میں کامیاب ہو کر جنت میں آجائے گا، وہ ان مشکلات کو اپنے لیے نعمت سمجھے گا، کیونکہ اگر وہ مشکلات اس پر نہ آتیں تو وہ دوزخ کی مصیبت سے نجات نہ پاسکتا۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جس ماں کے تین بچے مر گئے اوروہ صابروشاکر رہی تو یہ غم اس کے جنت میں جانے کا سبب بن جائیں گے۔
اس کو بھی ماں ہی کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ ماں جب اپنے بچے کو چھری چاقو سے کھیلتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس سے وہ چاقو چھین لیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ جانتی ہے کہ اس وقت چھری سے محروم ہونا اتنی بڑی تکلیف نہیں ہے ،جتنی بڑی تکلیف اسے اس چھری سے ہاتھ کٹ جانے کی وجہ سے ہو گی۔ اس لیے وہ بچے کے چیخنے اور چلانے کے باوجود اس سے چھری چھین لیتی ہے۔ اور اگر وہ چپ نہ کرے تو وہ اسے مزید ڈانٹ بھی دیتی ہے ۔
اس سے ہمیں اللہ کی پے در پے آزمایشوں کا بھی ایک سبب معلوم ہو جاتا ہے کہ جب ہم اللہ کی کسی آزمایش پر صحیح رویہ اختیار نہیں کرتے تو وہ ہمیں مزید ڈانٹتا ہے تاکہ ہم سنبھل جائیں۔
ہم بالعموم ان مشکلات پر زیادہ غضب ناک ہوتے ہیں ، جو ہمارے دوستوں یا عزیز رشتہ داروں کے کسی اقدام کی وجہ سے ہم پر آتی ہیں ۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں چغلی ،غیبت ، ٹانگ کھینچنا، دھوکا دہی، زر اور زمین کے جھگڑے ایسے عام جرائم ہیں کہ آدمی ان سے پریشان ہو کر دوستوں سے جھگڑ پڑتا، بہن بھائیوں سے قطع تعلق کرلیتا،ان کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیوں کا شکار ہو جاتا، ماں باپ کو گھر سے نکال دیتا ، حتیٰ کہ بعض اوقات انھیں یا اپنے آپ کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان سارے جھگڑوں کو آزمایش کے طور پر نہیں لیتا۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ سب کچھ وہ اپنی پوری آزادی سے کررہے ہیں، اس لیے اگر میں انھیں ختم کردوں ، ان سے ناتا توڑ لوں،ان کو گالیاں دے لوں ،ان کو ماروں پیٹوں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ چنانچہ وہ ایسے اقدامات کے بعد مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایسا شخص اصل میں اللہ کی ربوبیت اور اس کی حکمت کا انکار کرتا ہے۔قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی کام اس کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر اور اس کے حکیمانہ فیصلوں کے خلاف روبہ عمل نہیں ہوتا۔ جب صورت حال ایسی ہے تو کیا یہ رشتہ دار ، یہ غیبت و چغلی کرنے والے جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں، آیاخدا کی مہلت کے بغیر کر رہے ہیں؟
اگر ہم یہ انکار کردیں کہ وہ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے بغیر ایسا کررہے ہیں تو یہ خدا کی الوہیت و حکیمانہ کنٹرول کا انکار ہے ،اور اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ انھیں اللہ ہی نے مہلت دی ہے توپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اللہ کی یہ مہلت بلاوجہ نہیں ہوگی۔اس کے پیچھے مذکورہ مقاصد میں سے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور پیش نظر ہو گا،یعنی ہماری اصلاح، ہمارے گناہوں کو جھاڑنا وغیرہ ۔ چنانچہ اس نقطۂ نظر سے اب اپنے ان ساتھیوں کی کارگزاری کو دیکھیے تو جو گناہ و خطا وہ کر رہے ہیں، وہ اگرچہ اپنی مرضی سے کررہے ہیں، اس سے وہ یقیناًگناہ کما رہے ہیں،لیکن مہلت چونکہ اللہ نے دی ہے، اس لیے وہ ہماری تربیت اور آزمایش کا سامان بھی کررہے ہیں۔
وہ ہمارے اوپر ظلم ڈھا نے جیسا کبیرہ گناہ کر رہے ہیں، مگر ہمارے لیے صبر کرنے کی صورت میں جنت کی راہ کھول رہے ہیں۔ ابو لہب اور ابو جہل کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں نے ایک طرف ان کے لیے دوزخ تعمیر کی تو دوسری طرف صحابہ رضوان اللہ علیہم کے کردار کی تعمیر کی ۔ وہ جیسے جیسے یہ حرکتیں کرتے گئے، صحابہ کا ایمان مضبوط ہوتا گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام ایسی حکمت اور تدبیر سے بنایا ہے کہ ایک شر بھی وجود میں آتا ہے تو سو خیر اپنے دامن میں لے کر آتاہے۔
اس نکتہ کے حل ہونے کے بعد جب میں اپنے گرد و نواح میں لوگوں کو اپنے اوپر الزام دیتے ، طعنے دیتے ، طرح طرح کی سازشیں کرتے دیکھوں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں انھیں اپنا دشمن قرار دوں ، میرے تو وہ محسن ہیں، دشمن تو وہ اپنے ہیں۔ وہ میری تربیت کا سامان اپنا نقصان کرکے کررہے ہیں۔ چنانچہ ان کو طعنے کا جواب دینے کے بجائے مجھے ان کی اصلاح کا سوچنا چاہیے۔ ان پر ترس آنا چاہیے کہ وہ اپنی تباہی کے گڑھے کھود کر مجھے ان میں اترنا اور اتر کر نکلنا سکھا رہے ہیں۔
لیکن مجھے یہ فائدہ بس اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ جب میں ان کی ان حرکات کو اللہ کی آزمایش سمجھ کر اسے اپنی تربیت و اصلاح کا ذریعہ بناؤں۔اگر میں نے ان کی اینٹ کے جواب میں پتھر اٹھا کے دے مارا تو میں بھی ان جیسا ہوں۔ میں نے بھی غلطی کا ارتکاب کر ڈالا ہے۔اس کے بعد خیر کا دروازہ میرے لیے بند ہو جائے گا۔
حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ملتا ہے کہ کوئی صاحب ان کو گالیاں دیتے رہے اور کچھ دیر تک ابوبکر چپ رہے، لیکن کچھ دیر بعد انھوں نے بھی جواب دینا شروع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا ۔ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر آپ نے انھیں بتایا کہ جب تک تم خاموش رہے تو فرشتے جواب دیتے رہے اور جب تم جواب دینے لگے تو وہ چلے گئے۔ایک طرح سے اللہ ان کی طرف سے دفاع کرتا رہا۔ فرشتوں کا جواب دینا غیر مسموع تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ گالیوں کے جواب میں کیا جواب دیتے رہے ہوں گے،لیکن وہ جو کچھ تھا، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے ایک خیر تھا ، جس سے وہ جواب دینے کے بعد محروم ہو گئے۔
ٹھیک اسی طرح کی محرومی کا شکار ہم ہوجاتے ہیں، جب ہم برائی کے جواب میں برائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کی برائی کا ان سے بدلہ جائز اور عادلانہ طریقوں سے لے سکتے ہیں،لیکن انھیں معاف کرنا ’حظ عظیم ‘ کا پانا ہے۔
قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ تم کسی کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو ۔ اس کے الفاظ ہیں کہ تم کسی کی برائی کو نیکی سے دھکیل کر ہٹا دو۔ بجائے اس کے کہ تم بدی کو دھکیلنے میں بدی ہی کی راہ اختیار کرو تو یہ تمھیں اللہ کی عنایتوں سے محروم کردے گا ۔ اگر تم اس کی راہ میں زندگی بسر کرو اور لوگوں کی برائی کا دفاع نیکی سے کرو تو اس سے نہ صرف یہ کہ تمھارا دشمن تمھارا عزیز دوست بن سکتا ہے، بلکہ تم بھی وہ خوش قسمت بن جاؤ گے جنھیں خدا اپنی حکمتوں سے نوازتاہے۔ دیکھیے، قرآن مجید نے اس رویہ کو ایک بڑی خوش بختی قرار دیا ہے اور اسے صبر کا ثمرہ قرار دیا ہے:
وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ. فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗعَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗوَلِیٌّ حَمِیْمٌ. وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ مَا یُلَقَّٰہَآ اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ. (حم السجدہ ۴۱ : ۳۴۔۳۵)
’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتیں۔تم برائی کا احسن چیزوں سے دفاع کرو ، تو تم دیکھو گے کہ وہ جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی، وہی تمھارا گرم جوش دوست ہو گا۔مگر یہ وہ دانش مندی ہے، جو صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے۔ اور یہ صرف ان کو ملتی ہے جو بڑے نصیبے والے ہوتے ہیں۔‘‘
حصول صبر کے لیے ایک بنیادی چیز یہ بھی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھیں۔ جس طرح ہم نے صفات الٰہی میں جانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفا ت ہمارے لیے صبر کے حصول کا ذریعہ ہیں، اسی طرح اللہ کے وعدے بھی ہمارے لیے ایک سہارا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ وعدے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہیں، کچھ وعدے صرف صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کیے ہیں اور کچھ وعدے بنی نوع آدم سے کیے گئے ہیں۔ جیسے نیکی کرنے اور برائی سے بچنے پر جنت کا وعدہ،آزمایشوں میں ثابت قدم رہنے پر ایمان ضائع ہونے سے بچانے کا وعدہ ، کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنے کا وعدہ ، اسی طرح برائی کرنے پر دوزخ کی سزا کا وعدہ وغیرہ۔
’وما صبرک الا باللّٰہ‘ میں اللہ کے یہ وعدے بھی شامل ہیں جو ہمیں صبر کا حوصلہ بخشتے ہیں۔قرآن مجید جب یہ کہتا ہے کہ اللہ کے بغیر صبر نہیں کرسکتے تو جس طرح اس کی ذات ، اس کی صفات ،جیسا کہ ہم اوپر پڑھ آئے ہیں، ہمارے لیے ایک سہارا ہیں ،ٹھیک ویسے ہی یہ اس کے وعدے بھی ہمارے لیے سہارا ہیں۔
یہ وعدے مشکلات اور آزمایشوں میں ہمارے لیے اس لیے سہارا ہیں کہ جب ہمیں مشکل کام کرنا پڑے تو ہم انھی وعدوں کے بل پر مشکل کے باوجود نیکی کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔اگر ہمیں خدا کی طرف سے داد رسی اور انعام کی توقع نہ ہو تو شاید ہر قدم پر نیکی سے ہاتھ دھوبیٹھیں، بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ اگر جنت اور دوزخ کا تصور نہ ہو تو شاید انسانوں کی نہایت ہی قلیل تعداددنیا میں نیکی پر قائم رہے ۔ اس لیے کہ انسان اپنی طبیعت میں مقصد کے لیے جینے والا ہے۔ اگرچہ اکثر وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے۔
انسان امید کے سہارے بہت کچھ کر لیتا ہے۔ نیکی کے میدان میں یہ امید خدا کے وعدوں سے وجود پذیر ہوتی ہے۔ ان سہاروں سے جو امید پیدا ہوتی ہے وہ شب و روز کی کلفتوں میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح ہماری ’تیمارداری ‘کرتی ہے۔مسیحا بن کر ہمارا علاج کرتی ہے۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ اطمینان عطا کرتی ہے۔اور ہم اس اطمینان کے سہارے راہ حیات پر چلتے چلے جاتے ہیں۔جو لوگ اس ایمانی قوت سے محروم ہیں، وہ اس امید اور ان سہاروں سے بے خبر ہونے کی وجہ سے کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے اور کچھ لوگ خود کشی تک کرلیتے ہیں اور کچھ دوسروں کو قتل کر بیٹھتے اور بعض نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر بے موت مر جاتے ہیں۔یہ بے امیدی، ذہنی دباؤ، غم و غصے اور مایوسی (depression) کے ساتھ ساتھ بے چینی، بے صبری،بے اطمینانی و بے کلی (frustration) کا شکار کردیتی ہے۔
____________