HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ذہنی آزمایشیں

حق پرستی

 

ہمیشہ حق پر قائم رہنا صبر ہے ،بلکہ ہم نے یہ جانا کہ اصل صبر ہی یہی ہے۔ اسی بات کی وضاحت پیچھے سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ یہاں ہم اپنی بات کو رائے کی حد تک محدود کریں گے۔اس لیے کہ ہم ذہنی آزمایشوں کے پہلو سے صبر کو دیکھ رہے ہیں۔ذہنی اعتبارسے یہ سب سے بڑی آزمایش ہے کہ آدمی اپنی رائے میں حق پر قائم رہتا ہے یا نہیں۔

انسان غلطی کا شکار ہو سکتا ہے۔اگر اس میں حق پرستی کا وصف نہ ہو تو وہیں چپک کر رہ جاتا ہے۔صرف حق پرستی ہی کاوصف ایسا ہے کہ اس کی غلطیوں کو دور کرتا اور اس کی اصلاح کرتا رہتا ہے۔جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری رائے پختہ اور درست ہے، وہ سب سے بڑی غلطی کا شکار ہیں ۔یہی سب سے بڑی ناحق پرستی ہے۔انبیا کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے حق کے بارے میں غلطی نہ لگی ہو۔کوئی شخص بھی سوفی صدی درست نہیں ہے۔اس لیے ہر شخص کو ہر وقت اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ اس کی غلطی نکل سکتی ہے ،مگر ہماری قوم کی تربیت ایسی ہوئی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس ان کے پاس جو کچھ ہے وہی مستند اور درست ہے۔

اس امت میں انبیا کے بعد ائمہ کو ایک بڑا مقام ملاہے، انھیں امت کے بڑے بڑے گروہوں کی طرف سے قبولیت ملی ہے ، مگر ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ چاروں ایک بات نہیں کہتے ۔ یہ تو کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک وقت میں تین یا چار باتیں درست ہوں۔ لازمی بات ہے کہ اختلافی آرا میں چاروں میں سے ایک صحیح اور باقی غلط ہوں گی۔ اس بات سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آدمی ،خواہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو ،اگر وہ نبی نہیں ہے تو اسے غلطی لگ سکتی ہے۔اس لیے کہ نبی کو اپنی آرا میں اللہ کی وحی درست کرتی ہے ۔ 

جو لوگ خود سوچ کر اپنی عقل و قیاس سے کام لیتے ہیں انھیں غلطی لگتی ہے۔اس لیے لازم ہے کہ آپ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ہر بات کا دیانت داری سے جائزہ لیں۔ اسے پرکھیں، اس کے دلائل کا جائزہ لیں اور اگر اس میں غلطی نکل آئے تو اپنی رائے درست کرلیں ۔

 

ہمارے گروہ

ہمارے معاشرے میں اہل حدیث، دیوبندی ، بریلوی، تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی ، اہل تصوف ، شیعہ اور اس طرح کے کئی گروہ پائے جاتے ہیں جو دین کے بنیادی معاملات، جیسے شرک و توحید سے لے کر فقہی و فروعی معاملات تک میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتاکہ یہ سب درست ہوں گے۔ اگر یہ سب ہر مسئلے میں درست ہیں تو پھر دین اسلام نعوذ باللہ ایک چیستان ہوا۔ اور یہ بھی کہنا صحیح نہیں ہے کہ ان میں سے صرف ایک گروہ پوری طرح صحیح ہے اور باقی تین چار گروہ مکمل طور پرغلط ہیں۔ اس لیے کہ ان سب کو دین صدیوں کے تعامل سے ملا ہے جس میں علما کی آرا بھی شامل ہوئی ہیں، ائمہ و فقہا کے فتاویٰ بھی، غیرمسلموں کے نظریات بھی، جیسے فلسفۂ یونان وغیرہ اور ظنی و قطعی ذرائع سے ملنے والا دین بھی۔

اب سوال یہ ہے کہ آدمی کس کے ساتھ جڑے، کس کی بات مانے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے ہمیں کسی گروہ سے نہیں جڑنا، بلکہ ہمیں حق سے جڑنا ہے۔ جو انھی گروہوں کے پاس ہے ، مگر اس میں ان گروہوں کے اپنے نظریات شامل ہو چکے ہیں۔ کسی نے اپنے نظریات ڈال دیے ہیں، کسی نے اپنی فقہ اور کسی نے اپنے فلسفے تراش لیے ہیں،کسی نے نئے منہاج دریافت کرکے اس میں داخل کردیے ہیں اور کسی نے سارے دین کی مجموعی تعبیر ایسے کردی ہے کہ دیکھنے میں تو دین ہی لگتا ہے ،مگر وہ دین نہیں رہا۔

اس دور میں جبکہ باتیں ایک سے زیادہ ہو گئی ہیں اور گروہ بے شمار بن گئے ہیں تو اس میں صالح آدمی کے لیے اس کے سوا کچھ چارہ نہیں ہے کہ اس دین تک پہنچے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ بلاشبہ وہ انھی گروہوں کے پاس ہو گا، مگر سارا کسی ایک کے پاس نہیں۔ اس کا کچھ حصہ کسی کے پاس محفوظ ہے اور کچھ حصہ کسی اورکے پاس۔ 

 

مطلوب رویہ

دین کے اس دور میں ہمیں اپنے اپنائے ہوئے دین کو پرکھتے رہنا چاہیے۔ قرآن اور سنت متواترہ کو معیار بناتے ہوئے ایک ایک عمل کا جائزہ لے لیناچاہیے۔ایک ایک نظریے اور عقیدے کو پرکھ لینا چاہیے۔ہر ہر گروہ سے رائے لینی چاہیے ،ان کے دلائل کو جاننا چاہیے اور جس کی بات قرآن و سنت سے زیادہ قریب لگے، اسے اپنانا چاہیے۔ جو لوگ دین میں ایسی مشقت نہ کر سکتے ہوں انھیں کم از کم ایسا ضرور کرلینا چاہیے کہ وہ دو تین علما سے متعلق ہو جائیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہو کہ وہ قرآن و سنت کو سمجھنے والے ہیں اور دین کے ساتھ مخلص ہیں، مگر یہ فیصلہ محض جذبات اور اپنے کسی تعلق کی بنا پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ نہایت دیانت داری سے اچھی طرح تو ل پرکھ کر ہونا چاہیے۔

حق پرستی کے لیے درج ذیل چیزیں ضروری ہیں:

۱۔ اپنی آنکھیں اور دل و دماغ کو کھلا رکھنا چاہیے۔

۲۔ جب اپنی غلطی کا احساس ہو ، اسے اچھی طرح تحقیق و جستجو کے بعد درست کرنا، اپنی رائے کو چھوڑنا اور درست کو اپنا لینااور جو اس وقت درست رائے بنائی گئی ،اس آزمایش کے لیے بھی تیار رہنا کہ اس میں بھی غلطی نکل سکتی ہے۔ واضح رہے کہ اہل حق کی یہی سب سے بڑی آزمایش ہے۔

۳۔اس سب کچھ کے بعد اگر آپ نے غلط رائے بھی نیک نیتی سے اپنا لی ہے اور اس کی غلطی معلوم ہونے پر ہروقت اسے درست کرنے کے لیے تیار ہیں تو پھر اگر خدا کے سامنے آپ چلے گئے اور غلطی پر بھی ہوئے تو آپ کو سزا نہیں ملے گی، بلکہ اجر ملے گا، لیکن اگر آپ نے نیک نیتی سے ایسا نہیں کیا، بلکہ کسی تعصب اور بدنیتی کی وجہ سے آپ نے رائے بنائی ہے تو یہ واپس کر دی جائے گی، خواہ آپ کی رائے درست ہو۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ آپ بالکل درست طریقے سے نماز پڑھیں ، مگر ریا کاری کردیں تو ثواب کے بجائے الٹے عذاب کے مستحق بنیں گے۔

لیکن اگر آپ نیک نیتی سے کھڑے ہوئے ، جتنی نماز آپ کو آتی تھی صحیح پڑھی ،مگر کہیں کو ئی غلطی ہو گئی اور آپ کو پتا نہیں چلا ،ہاں اگر آپ کو پتا چل جاتا تو آپ درست کرنے کے لیے تیار ہوتے تو یہ غلطی والی نماز کا بھی آپ کو ثواب ملے گا۔اس لیے کہ خطا و نسیان پر اللہ تعالیٰ نے مواخذہ نہیں رکھا۔

 

اعلیٰ اخلاق 

ہم نے اخلاق کے چھ پہلو اوپر بیان کیے تھے:

۱۔ لین دین میں دیانت دار ی

۲۔ معاملات زندگی میں انصاف پسند ی

۳۔ ملنے جلنے میں قول حسن پر عمل

۴۔ نیت کامثبت ہونا

۵۔ ہر چیز کے مثبت رخ کو دیکھنا

۶۔اپنی نگہ داری

پہلی تینوں چیزوں کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ،اس لیے کہ ہم عملی آزمایشوں والے باب میں اسے بیان کر چکے ہیں۔ یہاں ہم ذہنی آزمایشوں والے حصے کو وضاحت سے بیان کریں گے۔

 

نیت کا مثبت ہونا

اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہر کام کے کرتے وقت اپنی نیت کو مثبت رکھیںیعنی صبر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ارادوں اور نیتوں میں ہمیشہ مثبت پہلو سے آگے بڑھیں، مثلاً:

۱۔کسی کے ساتھ معاملہ کریں تو اس میں خیر خواہی کی نیت ہو۔

۲۔ نیکی کا عمل کریں تو نیت آخرت کی کامیابی ہو۔

۳۔ دھوکے اور فریب کے لیے صبر اور درگزر نہ کریں کہ اب معاف کردیتے ہیں، کل اسے لوٹ لیں گے۔

۴۔ کسی کو بعد میں ستانے اور تنگ کرنے کے لیے اس کی مددنہ کریں وغیرہ۔

 

ہر چیز کے مثبت رخ کو دیکھنا

اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو دیکھنے کی نظر یہ بنانی چاہیے کہ وہ لوگ انسان ہیں اور جس طرح ہم سے غلطی ہو جاتی ہے ، ان سے بھی ہو سکتی ہے۔اس لیے ان کے ہر عمل کو اس وقت تک مثبت نگاہ ہی سے دیکھنا چاہیے، جب تک ان کا شر کھل کر سامنے آجائے۔ اگر آدمی کی یہ تربیت نہ ہوئی ہو تو اسے قرآن و حدیث بھی فائدہ نہیں دے سکتے ۔اس لیے کہ اس کی عادت باتوں کے غلط رخ کو دیکھنے لگ جاتی ہے۔ چنانچہ جب اس کا کوئی بھائی بند اس کے ساتھ نیکی بھی کرے تو اس میں سے بھی کسی ایسے پہلو کو نکال لیتا ہے جو منفی ہو۔ چنانچہ اس کے بارے میں قرآن کا حکم یہ ہے کہ لوگوں کے بارے میں بدگمانی نہ کی جائے (سورۂ حجرات)۔

قرآن مجید جیسی کتاب کو اگر غلط زاویۂ نگاہ سے دیکھیں گے تو وہ بھی ہماری گمراہی کا باعث بن جائے گی۔ جیسے قرآن مجید میںآنے والی مثالوں کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

 

یُضِلُّ بِہٖکَثِیْرًا وَّ یَہْدِیْ بِہٖکَثِیْرًا، وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ. (البقرہ۲: ۲۶) 

’’اس (مثال)سے اللہ بہتوں کو گمراہ کرتا اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے۔ گمراہ مگر ان فاسقین ہی کو کرتا ہے ۔‘‘

 

اس آیت میں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ قرآن جیسی کتاب کے بارے میں بھی یہ بات خود قرآن ہی کہہ رہا ہے کہ ایک فاسق کے لیے یہ کتاب یا اس میں مثالیں جو اصلاً ہدایت کے لیے آئی ہیں، وہ گمراہی کا باعث ہیں ۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر فاسق آدمی کے زاویۂ نگاہ سے بات کو سمجھا جائے تو قرآن کے نتائج اور ہیں اور اگر مومنانہ نگاہ سے قرآن کو سمجھا جائے تو اس کے ثمرات اور ہیں۔

یہی صبر کی آزمایش ہے کہ آپ اپنے زاویۂ نگاہ کو ہمیشہ درست رکھیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہر وقت اپنی نگہ داری کریں۔

 

اپنی نگہ داری

اپنی نگہ داری سے ہماری مراد یہ ہے کہ آپ ہر وقت اپنے افعال و افکار پر نگاہ رکھیں کہ کہیں وہ جادۂ مستقیم سے ہٹنے تو نہیں پار ہے ہیں۔ اگر کوئی فلسفیانہ بحث ، کوئی عملی مشکل ، کوئی معما آپ کو غلط راستے پر ڈال رہا ہے تو اس پرغور کریں کہ یہ بات کیا ہے ، جو میرے دل میں ابھر رہی ہے۔اسے دبایے نہیں ، بلکہ اسے ٹٹولیں ، کریدیں، اس کو سمجھیں اور سمجھ کر متعین کریں کہ یہ کیا بات ہے ۔ پھر اس کے سوال کا جواب تلاش کریں ۔ اگر خود نہ ڈھونڈ سکیں تو علما اور سمجھ دار لوگوں سے مدد لیں، جو دین میں بصیرت رکھتے ہوں ۔

اپنی نگہ داری کا دوسرا پہلو عمل سے متعلق ہے۔ ہم جو بھی عمل کرتے ہیں اس کے اثرات ہمارے دل ودماغ پر پڑتے ہیں۔ جو ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ اگر ہم اچھے کام کریں گے تو ہماری نفسیات مستحکم اور صحت مند بنے گی۔ اگر ہم غلط راہوں اور عملوں میں پڑ گئے تو اس سے ہماری نفسیات پر برے اثرات پڑیں گے۔یہ اعمال ہمارے تجربے کی صورت میں ہماری رائے پر بھی اثر انداز ہوتے اور ہماری عادات تخلیق کرتے ہیں۔ ایک آدمی گھر میں بیٹھ کر غلط سوچوں میں پڑا رہے تو باہر نکل کر اس کی نظر پاک نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح غلط عمل کرنے والے کا دماغ بھی صاف اور پاک باز نہیں ہو سکتا۔

آپ کو اپنی صحبت اور یاری دوستی کے لحاظ سے اپنی نگہ داری کرنی ہے۔ اچھی صحبت اچھے ذہن کو تخلیق کرتی ہے اور بری صحبت برے ذہن کو ۔ اسی لیے قرآن میں ان لوگوں کے پاس بیٹھنے سے روکا گیا ہے ، جو قرآن کی آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس لیے کہ اس سے وہی ذہن بنے گاجس کے اثرات ایمان و عمل ،دونوں پر پڑیں گے۔

اس زمانے میں بعض دینی لوگ بھی ذہنی عیاشیوں کے لیے بعض ایسے لوگوں کے پاس اٹھتے بیٹھے ہیں کہ جہاں وہ نقطۂ آفرینی اور بذلہ سنجی کے جوہر دکھاتے اور پھر آہستہ آہستہ غلط نظریات کے ایسے اسیر ہو جاتے ہیں کہ پھر بات سمجھائے نہیں بنتی۔ 

اسی لیے امت میں شروع سے یہ نظریہ موجود رہا ہے کہ ’صحبت صالح ترا صالح کنند ‘کہ اچھی صحبت تجھے اچھا بناتی ہے ۔ قرآن مجید نے جب بدووں کی طرف سے ایمان کی کمزوری دیکھی تو انھیں یہ مشورہ دیا کہ قول و فعل میں سچے لوگوں کی صحبت اٹھاؤ۔ چنانچہ فرمایا: ’کونوا مع الصادقین‘ (التوبہ ۹: ۱۱۹) ’’سچوں کی صحبت میں رہو۔‘‘تاکہ تمھارے اندر بھی وہی دینی بصیرت پیدا ہواور تم بھی ہر طرح کے حالات میں دین پر صبر و ثابت قدمی ظاہر کرسکو۔

 

صحیح عقیدہ 

صبر کے لحاظ سے ایک ذہنی آزمایش یہ ہے کہ ہم ہر حالت میں اپنے عقیدہ کو درست رکھیں۔ مثلاً توحیدیا خدا کی بندگی اور اسی سے استعانت طلبی ہمیشہ برقرار رہے۔اگر کسی کے اولاد نہ ہو تو عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ وہ خدا سے مایوس ہو کر پیروں فقیروں کے دروازے پر جاتے، درباروں پر نذرانے چڑھاتے ، ان کے نام کی نیازبانٹتے اور اگر ان سے بھی کام نہ بنے تو پھر ان کو چھوڑ کردوسروں کے دروازے پر دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ یہ سب بے صبر ی ہے ۔ اس سے آپ کا عقیدہ خراب ہو جاتاہے۔ یہ شرک ہے کہ آپ یہ مانیں کہ انسانوں میں سے کوئی ایساہے جو خدا کے فیصلوں کو تبدیل کرا سکتاہے۔یہ خدا کی صفات کا انکار اور اس کی ذات کی اہانت ہے۔

اسی طرح محبت رسول میں لوگوں کے ہاں غلو وجود میں آتا ہے اور وہ اللہ اور نبی میں فرق مٹادیتے ہیں۔ حالانکہ یہ عیسائیت کا نقطۂ نگاہ ہے۔ اسلام میں نبی کو اللہ یا اس کا بیٹا نہیں مانا جاتا،مگر ہمارے عقیدے اسی قدر خراب ہو چکے ہیں۔ہم انسانوں کو خدا کا تقدس دیتے اور یوں شرکاے خدا کی ایک لمبی فہرست پر ایمان رکھتے ہیں۔یہ نظریات ہماری اسی طرح کی ضرورتوں سے پھوٹے ہیں جن میں ایک اولاد کے نہ ہونے کا ہم نے ذکر کیا۔ اسی طرح ایک چیزدوزخ کا خوف اور ہماری بے عملی ہے ۔اس نے ان شرکا ے خدا کو وجود بخشاہے، جو ہمارے شفاعتی بنیں گے۔ چنانچہ جب وہ آخرت میں شفاعتی بنیں گے تو یہاں اس دنیا میں بھی یہ تصور وجود میں آیا کہ وہ دنیا میں بھی خدا کے فیصلوں کو بدل سکتے اور انھیں ہمارے حق میں تبدیل کراسکتے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو تصوف میں قطب و ابدال بنایا ،ان کے درباروں اور مزاروں پر ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ وہ پوجے گئے، ان سے استعانت طلب کی گئی اور خدا کی راہ میں انفاق کے بجائے ان کے نام کے نذرانے اور نیازیں بٹیں۔ یہ سب استقامت و صبر کے منافی ہے۔

آزمایش خواہ کیسی بھی کیوں نہ ہو، اس میں خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے(الحجر ۱۵: ۵۶)۔ خدا سے مایوس ہوئے بغیر اس کی رضا پر راضی رہنا اس معاملے میں صبر ہے۔

____________

 

B