HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مواقع صبر

 

اس دنیا میں ہم پر خوشی آئے یا غم ہم آزمایش میں ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ ہمیں ہر آزمایش میں صبر کرنا ہے، یعنی صحیح رائے و عمل اور اخلاق پر قائم رہنا ہے تو اصل بات یہی ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ آپ ہر لحظہ آزمایش میں ہیں، جب آپ پر خوشی آئے تو آپ نے اس خوشی میں بھی صحیح رائے و عمل اور اخلاق پر قائم رہنا ہے۔ اور جب آپ پر غم آئے تو تب بھی۔دنیا کی ساری آزمایشوں کا استقصا ممکن ہے ،مگر ہم اس کے چند اہم پہلووں کو آگے بیان کریں گے تاکہ آپ کے سامنے اس کے چند پہلو آجائیں۔ پہلے ہم عملی زندگی سے متعلق کچھ اہم آزمایشیں بیان کریں گے اور بعد میں ذہنی آزمایشوں سے متعلق۔

 

عملی آزمایشیں

 

صدمہ و مصیبت

 

صبر کے مواقع میں سب سے عام صدمہ کا موقع ہے۔صدمے کئی قسم کے ہو سکتے ہیں۔ جیسے قرآن نے ان کا احاطہ کیا ہے کہ ’نقص من الاموال و الانفس و الثمرات‘ (البقرہ۲: ۱۵۵) یعنی 

۱۔ مال 

۲۔ جان اور 

۳۔ ثمرات میں کمی کرکے۔

کمی کرنے کے دو پہلو ہیں۔ کم دینا اور دیے ہوئے میں سے چھین لینا۔ مثلاً مال میں کمی سے مراد چوری ڈاکے اور اس طرح کے کسی حادثے سے دو چار کرکے دیے ہوئے مال کو چھین لینابھی ہے اور غریب رکھنا بھی ہے۔ 

جان میں کمی سے مرادکسی عزیز کی جان لینا۔ جیسے ماں باپ ، بیوی بچوں یا بھائی بہنوں کی وفات بھی ہے اور اولاد وغیرہ سے محروم رکھنا بھی۔

اسی طرح ثمرات میں کمی سے مراد آدمی کی محنت کے پھل لانے میں توقع سے کم پھل لانا ہے یا بالکل ہی ضائع ہو جانا ہے۔جیسے سورۂ قلم میں ایک مثال میں یہ بتایا گیا ہے کہ چند دوستوں کے باغ کو رات کے وقت کسی آفت نے آلیا اور اسے راکھ کرکے رکھ دیاتھا۔ ثمرات میں تمام وہ چیزیں آجائیں گی جن میں محنت کے بعد کسی چیز کو حاصل کیاجانا مقصود ہو۔ جیسے فصل کی کاشت، کاروبار کا نفع، معاشرے میں کسی منصب و مقام کی طلب، میدان جنگ یا کھیل میں شکست وغیرہ۔صدمات کے بالعموم یہی تین پہلو ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سارے پہلو ہو سکتے ہیں، جیسے کسی خواہش کا پورا نہ ہونا جس کے حصول کے لیے محنت نہ کی گئی ہو وغیرہ۔ مگر ان کی حیثیت توابع کی سی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں میں ہمیں آزمانے کے لیے یا دوسرے کئی اور مقاصد کے لیے چھوٹے بڑے صدمات سے دو چار کرتے ہیں۔ہمیں ان صدمات میں کامیابی کے لیے صبر کرنا ہے۔ اور صبر میں بنیادی مطلوب یہی ہے کہ ہم ایمان و تقویٰ اور اخلاق پر قائم رہیں۔

احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان مروی ہے کہ ’الصبرعند صدمۃ الاولی‘، صدمات میں صبر یہ نہیں ہے کہ رونے پیٹنے اور خدا سے شکوہ شکایت کے بعد صبر کیا جائے، بلکہ صبر یہ ہے کہ صدمہ کے آغاز ہی میں صبر کیا جائے۔

اس منزل کو پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ یہ صدمات ہمارے لیے لکھی گئی تقدیر کا حصہ ہیں۔ یہ ہمارے بارے میں ہمارے رب کا فیصلہ ہے۔ اس کا فیصلہ جس نے ہمیں زندگی دی ہے۔ طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔مال و اولاد دی ہے ۔کاروبار اور کاشت میں برکت دی ہے، اس نے اگر آج کوئی چیز چھین لی ہے توکیا ہوا۔ اسی نے دیا تھا، اسی نے لے لیا۔ 

مصیبت سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ہمارے لیے باعث تکلیف ہے ۔ قرآن مجید نے سورۂ بقرہ میں ان کو دو جگہ بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ درج ذیل سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۵میں جس امتحان کا ذکر ہے، وہ اگر چہ براہ راست صحابہ رضوان اللہ علیہم سے متعلق ہے۔ہم یہاں صرف اس لیے اس کا ذکر کررہے ہیں کہ مصیبت کے پہلو ہمارے سامنے آجائیں:

 

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ، وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ.(البقرہ۲: ۱۵۵)

’’بے شک ہم تمھارا امتحان کریں گے، کسی قدر خوف، بھوک، اور مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدموں کو خوش خبری سنادو۔‘‘

 

دوسرے مقام پر یوں بیان آیا ہے:

 

وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ.(البقرہ۲: ۱۷۷) 

’’وہ لوگ جو فقر وفاقہ، جسمانی تکالیف اور جنگ میں ثابت قدم رہنے والے ہوں۔‘‘

 

یعنی مصیبت، خوف (اور ذہنی تکالیف)، بھوک (فقر وفاقہ)، مال و ثمرات میں کمی ، جان (اور جنگ و جہادکی سختی) اور جسمانی تکالیف مراد ہیں ۔ یہ بھی صدمات کی طرح آزمایش کے لیے آتی ہیں۔جو لوگ مصائب پر صبر کرتے ہیں، ان کے لیے اعلیٰ مقامات اور جنت کی خوش خبری ان آیات میں دی گئی ہے۔

 

برا رویہ سامنے آنا

بسا اوقات ہم لوگوں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں ، مگر وہ ہمارے ساتھ اچھے رویے سے پیش نہیں آتے۔ یا ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں کہ جان پہچان کے نہ ہونے کے باوجود نہایت برے طریقے سے ملیں گے۔ یا جن کے ساتھ ہماری واقفیت تو ہے ، مگر ان کا رویہ ہمارے ساتھ برا ہو۔ایسے مواقع پر صبر سے مراد حلم و بردباری سے کام لینا ہے۔

دوسروں کو معاف کرنا اورمناسب موقع پر ان کی اصلاح کرنا یہ آپ پر لازم ہے۔جن لوگوں کا رویہ آپ کی کسی غلطی یا رویے سے برا ہوا ہے، ان سے آپ کو معافی کا خواست گار ہونا چاہیے۔ اور جن لوگوں نے آپ کو بلاوجہ برے ہاتھوں لیا ہے، ان سے درگزر کا رویہ ضروری ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:

’’جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بے شک ایسا کرنا کارعزیمت ہے۔‘‘ (الشوریٰ۴۲: ۴۳)

اس آیت میں قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ یہ تسلیم کیا ہے کہ ایسا کرنا ایک نہایت مشکل کام ہے ، بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے ۔ گویا ایسا کرنے والا صاحب عزیمت ہے اور اسے اجر و ثواب بھی اتنا ہی زیادہ ملے گا۔

ہماری زندگی کے کئی دائرے ہیں، مثلاً گھر، بازار، دفتر، معاشرہ وغیرہ ان سب میں ہمیں مختلف مواقع پر برے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے گھر میں آپ کی حیثیت میاں کی ہو یا بیوی کی، ماں کی ہو یا باپ کی، ساس کی ہو یا بہو کی، والد کی ہو یا بیٹے کی ، والدہ کی ہو یا بیٹی کی ہر صورت میں کسی نہ کسی وقت ہمیں کسی غلط رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان غلط رویوں پر ہمارا معاملہ حکمت و دانائی کے ساتھ اصلاح کرنے کا ہے یا ضبط وحوصلہ کے ساتھ درگزر کرنے کا ہے۔

 

باطل کا ظہور

ہماری زندگیوں میں کبھی یہ صورت آسکتی ہے کہ حق پر قائم رہناممکن نہ ہو۔ ایسی صورت بالعموم فتنہ اور طوائف الملوکی کے زمانے میں پیدا ہوتی ہے۔ہمارے لیے اس میں دو اسوہ ہیں ۔ ایک انبیا کرام کا اور دوسرا اصحاب کہف کا (الکہف ۱۸ : ۸۔۱۶)۔

پہلا رویہ اصلاح کی کوشش کاہے۔ اور دوسرا اسوہ ان لوگوں کا ہے جن کے لیے نہ اصلاح کرنا ممکن رہا اور نہ اپنے فتنہ زدہ معاشرے میں قیام کے دوران میں حق پر قائم رہنا ممکن رہا۔حدیث میں بھی انھی دونوں رویوں کا پتا چلتاہے۔ 

 

مصلح کا رویہ

فتنہ زدہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس کی اصلاح کریں۔اس اصلاح کو ہمیں اپنی موت تک باقی رکھنا ہے ،الّایہ کہ اس معاشرے میں قیام کے معنی ہی یہ ہو جائیں کہ ہمیں ایمان اور نیکی کو ترک کرنا پڑے تو اس صورت میں بلاشبہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے کہ اصحاب کہف والا رویہ اختیار کیا جائے، مگر جب آپ آزادی سے ہر مذہبی عمل کرسکتے ہوں۔ اس وقت تک آپ پر معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری ہے۔نہ صرف یہ کہ آپ اپنے آپ کو صالح رکھیں، بلکہ اپنے ماحول میں تواصی بالحق کی ذمہ داری ادا کرکے اسے نیکی پر قائم رکھنے کی کوشش کریں۔یہ عام آدمی کی ذمہ داری ہے۔ علما اور حکومت کی ذمہ داری اس سے بڑھ کر ہے ،وہ انھیں ادا کرنی ہے۔

 

اصحاب کہف کا رویہ

اصحاب کہف نے اپنا ملک اس وقت چھوڑا اور غار میں پناہ لی جب ساری قوم ان کے درپے آزار ہو گئی تھی۔ ایسی صورت کے بغیر یا اس صورت کے بغیر جو احادیث میں بیان ہوئی ہے کہ آدمی کا ایمان پر قائم رہنا ہی ناممکن ہو جائے تو اس وقت اپنے ملک و علاقے کو چھوڑنا چاہیے، ورنہ جہاں اللہ نے پیدا کیا اور پالا پوسا ہے، اصل میں آپ کا مورچہ وہی ہے۔ اس میں خدا کے حضور جواب دہی میں سرخ روئی کے لیے جو ہوگا، کیا جائے ۔ 

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اس دور میں یہ فتنہ بہت زیادہ ہو گیا ہے کہ لوگ خداکے دین کی خدمت بھی اپنی مرضی سے کرنے لگے ہیں۔ دراصل خدا کے دین کی خدمت خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے کرنا ہوگی۔ اگر خدا نے اپنے دین کی خدمت کا کوئی طریقہ نہ بتایا ہوتا تو یقیناًہر آدمی کو اس بات کا حق تھا کہ وہ جس طرح سے چاہے دین کی خدمت کرے ،مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں ہدایت دے دی ہے تو ہمیں اسی طریقے سے اس کی خدمت کرنی چاہیے۔

 

حرص و طمع

انسان کی سرشت میں حرص کو رکھا گیا ہے ۔ یہ چیز اسے آزمانے کے لیے دی گئی ہے۔ یہ حرص روٹی کپڑے سے لے کر سلطنت کے حصول تک ہو سکتی ہے۔ایسی صورت میں صبر یہ ہے کہ آپ اپنے اخلاق اور دین کے دائرے سے نکلے بغیر اپنی منزل کو پاؤ۔ اس خواہش میں نہ اپنا وقار داؤ پر لگاؤ اور نہ کسی کی پگڑی پونجی۔ پوری ہوشیار ی اور دیانت داری کے ساتھ اپنی تمنا کے برلانے کی جدوجہد کرو۔ ظلم و ستم اور قتل و غارت اور دوسروں کے مال و دولت کے سہارے ایسا نہ کرو۔

ایک شان دار مومن برحق کی طرح ہر ہر قدم نہایت احتیاط سے اٹھاؤ اور نہایت احتیاط سے رکھو۔تمھاری نظر اگر سلیمان علیہ السلام کی طرح چیونٹیوں تک جاتی ہوتو ان کا بھی لحاظ کرو۔ ہر وقت انتہائی اقدام پر ہی نظر نہ ہو، اگر مسائل کا حل اور فتنوں کا سد باب کسی اور طریقے سے بھی ممکن ہو تو ذوالقرنین کی طرح دیوار بنانے جیسے راستے اختیار کرو۔

اپنی تمناؤں کو بھی حق پرستی سکھاؤ۔ تمنائیں جائز بناؤ۔ ان پر بھی اخلاق و شریعت کے پہر ے بٹھاؤ۔ اپنی نظر صرف چند روزہ خواہشات پر نہ رکھو ، بلکہ اپنا مطمح نظر جنت کو بناؤ۔ یہاں بڑی سے بڑی نعمت بھی عارضی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی خوشی بھی عارضی۔ اسی طرح بڑی سے بڑی ناکامی بھی عارضی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی ناکامی بھی۔ اس لیے یہاں کی ناکامیوں اور کامیابیوں کو اتنی اہمیت نہ دوکہ تم ایمان و راستی کو ترک کردو یا امید او ر خدا شناسی سے محروم ہو جاؤ۔

 

ترغیبات

اس دنیا کا نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ اس میں حق کی ترغیبات بھی رکھ دی گئی ہیں اور باطل کی بھی۔ ہر علاقے اور ملک و قوم میں حق کے داعی بھی مل جائیں گے اور باطل کے بھی۔تمھیں ہمیشہ داعیان حق کی بات پر لبیک کہناہے۔ باطل کے داعی رات کے پردوں میں چھپ کر اور دن کے اجالوں میں بھیس بدل بدل کر تمھاری طرف آئیں گے۔تمھیں سچی جھوٹی ترغیبات دیں گے، تمھارے نفس ان کی دعوت پر لبیک کہنے کے لیے وسوسوں سے متاثرہوں گے، مگر تمھیں اپنے ضمیر کو زندہ و بیدارر کھنا ہے۔ اس کے فیصلے کو ماننا ہے۔اس لیے کہ یہ بھی خدا کی ہدایت کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔

اس دنیامیں قدم قدم پر آزمایش کے لیے ترغیبا ت رکھ دی گئیں ہیں۔زندگی کے سفر میں ہر موڑ پر آپ دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک راہ دنیا کی طرف جاتی ہے اور دوسری آخرت کی طرف۔ ایک دامن پکڑ کر روک رہی ہوتی ہے اور دوسری اپنی کشش سے کھینچ رہی ہوتی ہے۔ ’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر ‘کی کیفیت ہر وقت آپ کے لیے آزمایش کا موقع پیدا کیے رکھتی ہے۔

ان ترغیبات کے جواب میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا اور اپنے اخلاق، عمل اور ایمان کو محکم رکھنا ہی صبر ہے۔کوئی ترغیب آپ کو یوں کھینچ کر حق سے دور نہ لے جائے کہ اس کی خاطر آپ غلط راہوں پر نکل جائیں۔ ترغیبات کی طرف بڑھتے ہوئے صرف یہ خیال رکھیے کہ میرے دین و اخلاق اور عقیدے کے لیے درست ہے۔ یہاں صبر کے یہی معنی ہیں کہ ترغیبات کو ضرور لبیک کہیں، نعمتوں اور رزق کے حصول کے لیے ضرور جدو جہد کریں اور بلند سے بلند مقاصد کے لیے دوڑ لگائیں ، مگر جو کچھ بھی کریں، وہ اس جگہ سے آپ کو ہلانے نہ پائے کہ آپ اچھے انسان نہ رہیں اور خدا کے بندوں کی صف سے نکل جائیں۔

 

نعمتوں کی تقسیم

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں آزمایش کے لیے نعمتیں دینے میں فرق رکھا ہے۔ کسی کو امیر بنایا ہے تو کسی کو غریب، کسی کو کم دیا ہے اور کسی کو زیادہ ، کسی کو ذہین بنایا ہے، مگر وسائل نہیں بخشے، کسی کو سادہ لوح بنایا ہے تو اسے ڈھیروں مال دے دیا ہے، کسی کو حسن بخشاہے تو کسی کو بدشکلی، کوئی صحت مند ہے تو کوئی معذور و بیمار، کوئی طاقت ور ہے تو کوئی کمزور ، کوئی نڈرہے تو کوئی بزدل ، کسی کو احساس کم تری ہے تو کسی کو احساس برتری۔اس سب کچھ کے خدا کی نظر میں ڈھیروں فائدے اور حکمتیں ہیں۔ کچھ کو ہم سمجھ سکتے ہیں اور کچھ کو نہیں، مگر اس سب کچھ کے ساتھ دراصل ہمیں صابر و شاکر رہنا ہے۔ 

اگر آپ کو کوئی نعمت ملی ہے تو اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں ہے۔اس پر تکبرو گھمنڈ بے جا ہے، اس لیے کہ اللہ نے آپ کو اس لیے یہ سب کچھ دیا ہے کہ وہ آپ کو آزمائے۔ اور اگر آپ کو کو ئی نعمت نہیں ملی یا آپ غریب ہیں اور پوری محنت اور لگن سے کام کرنے کے باوجو د خو ش حالی نصیب نہیں ہوئی تو اس میں یہ جان رکھیے کہ اللہ نے آپ کو اسی لیے چنا ہے کہ وہ آپ کو غریب رکھ کر آزمائے۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے ہم نے ایک چھوٹی سی کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے کہ ’’ہم پر مشکلیں کیوں آتی ہیں‘‘۔اس کا مطالعہ یقیناًآپ کو تسلی دے گا اور یہ بات آپ کو سمجھ آئے گی کہ ہم اس دنیا میں مختلف حالات میں کیوں رکھے جاتے ہیں۔

قرآن مجیدنے یہ با ت سمجھائی ہے کہ فقر و فاقہ اور مقام و مرتبہ میں بڑا چھوٹا ہونا سب آزمایش کے لیے ہے۔ اگر آپ اپنے گھر پر ہی نگاہ ڈالیں تو اس میں غریبی اور امیری کے بغیر بھی چھوٹے اوربڑے کا فرق رکھا گیا ہے۔باپ اور ماں گھر میں سب سے بڑے ہیں، بیٹے اور بیٹیاں ان سے چھوٹی ہیں ، حالانکہ یہاں امیری اور غریبی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سب فرق دراصل کسی کو استحقاق اور قابلیت کی بنا پر نہیں اور نہ اس وجہ سے ہیں کہ کوئی اللہ کا پسندیدہ بندہ ہے یا نا پسندیدہ ،بلکہ اس کی وجہ آزمایش ہے۔

اس لیے اگر آپ کو نعمتیں ملی ہیں تو صبر یہ ہے کہ آپ اللہ کے بندے رہیں ، اس کا شکر کریں، دوسروں کو حقیر نہ سمجھیں۔ اور اگر آپ کو نعمتیں اتنی نہیں ملیں تو مایوس نہ ہوں ، اللہ سے ناراض ہو کر اس کو چھوڑ نہ دیں۔ اور نہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں کہ جن کے بارے میں آپ کا خیال ہے کہ وہ شاید خدا کا فیصلہ تبدیل کرا کے آپ کو امیر بنادیں گے۔کھلے دل کے ساتھ اور دیانت داری سے محنت کریں، حلال روزی گھر کما کر لائیں اور وہ جنت کمائیں جس کا فیصلہ آپ کے استحقاق پر ہونا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں تو آپ کو بہت مل جائے ، مگر جہاں استحقاق کی بنا پر ملنا ہے اور جو آپ کی محنت کے ثمرہ کے طور پر آپ کو حاصل ہونا ہے، اس میں آپ پیچھے رہ جائیں۔ اور نہ ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کو یہاں کم ملا ہے اور اسی خیال اور شکوہ میں آپ اپنی زندگی کی اس مہلت کو ضائع کردیں اور آپ کو وہاں بھی محرومی ہو۔ اور اس میدان میں بھی آپ پیچھے رہ جائیں جہاں آپ کو محنت کا معاوضہ ملنا ہے اور جس پر آپ فخر بھی کر سکیں۔

آپ نے یہ زندگی ایسے گزارنی ہے کہ آپ اس میدان میں کامیاب ہو جائیں جس میں آپ کو آپ کے کیے کا پھل ملے گا۔اور وہ میدان آخرت کا میدان حشر ہے۔یہ واضح رہے کہ اس دنیا کا مقابلہ بے معنی ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا محنت کے اصول پر اصلاً نہیں بنی۔ اس میں اصل چیز آزمایش ہے۔ محنت اپنا رنگ ضرور لاتی ہے ،مگر آزمایش کے دائرے سے نکل نہیں سکتی۔اس میں ضرور وہ پہلو ہوں گے کہ آپ آزمایش میں مبتلا رہیں ، خواہ آپ ان کو محسوس کریں یا نہ کریں۔ غربت نہ سہی غریب آپ کے گھر کا دروازہ ضرور کھٹکھٹائے گا۔ وہ بھیک مانگنے آئے گا اور شریعت آپ کو پکارے گی کہ سائل کو اپنے مال میں سے اس کا حق ادا کرو۔دین پکارے گا کہ اس کی نصرت کرو ، ملت مدد کے لیے پکارے گی کہ اس کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھو۔اگر آپ اس کی پکار پر اٹھ گئے تو آپ کامیاب ٹھہرے۔

اگر آپ غریب ہوں تو ہو سکتا ہے کہ آپ محض اس خیال سے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے، آزمایش میں ناکام رہ جائیں۔یاد رکھیے، اگر آپ کو فاقے آئیں، آپ بھوکوں مر جائیں تو یہ بھی آپ پر ظلم نہیں ہے ۔ اس لیے کہ یہ آزمایش ہے، اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنا پر آپ پر اسی قدر بوجھ ڈالیں گے جو آپ اٹھاسکیں اور دوسرے یہ کہ ان چند روزہ فاقوں کے عوض ہو سکتا ہے آپ کو ایسی زندگی ملے جس سے آپ کے یہ سارے غم دھل جائیں۔جیسے ایک تکلیف دہ آپریشن کے بعد آپ کو آرام مل جائے۔ اس آپریشن کو کوئی ظلم قرار نہیں دے گا۔

 

عہد معاہدہ

صبر کے مواقع میں سے ایک اہم معاملہ عہد کے ایفا کرنے کا ہے۔عہد ہم لوگوں سے بھی کرتے ہیں اور خدا کے ساتھ بھی ہمارے معاہدے ہیں۔ہم سب انسانوں نے خدا سے کچھ معاہدات کیے ہیں ۔ جیسے:

۱۔ عہدالست: یہ عہدربوبیت ہے۔ جس میں ہم نے اللہ سے عہد باندھا تھا کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ہم زندگی بھر اس عہد پر قائم رہیں گے۔اچھے برے حالات میں ہم اس معاہدے کو نبھائیں گے۔ (الاعراف۷: ۱۷۲)

۲۔ دوسرا عہد عہدنبوت ہے۔ اس میں اللہ نے ہم سے عہد لیا تھا کہ میری طرف سے آنے والی ہدایت کو قبول کرنا۔اس کا ساتھ دینا اور اسے اپنا نا تو میں تمھیں ایسی زندگی دوں گا جس میں نہ کوئی غم ہو گا اور نہ کوئی حزن۔ (البقرہ۲: ۳۸)

۳۔ تیسرا عہد عہدامانت ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا کی خلافت بخشی ہے۔ ہمیں اس امانت کو سونپ کر ہمارا امتحان لیا جانا مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب کے آخر(۳۳: ۷۲) میں اس عہد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہم نے یہ عہد جب پہاڑوں اور دیگر مخلوقات کے سامنے رکھا تو وہ اس ذمہ داری کااحساس کر کے کانپ اٹھے۔

ان معاہدوں پر قائم رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے ان عہدوں کو وفا کیا تو یہی صبر ہے۔ 

اسی طرح اس دنیا میں کاروبار کرتے ہوئے، قومی و ملی کام سرانجام دیتے ہوئے، شادی بیاہ اور دیگر عائلی معاملات کرتے ہوئے ہم لوگوں کے ساتھ عہد باندھتے ہیں۔ مگر ان سب میں سے ایک بڑی اکثریت عہد پورے نہیں کرتی۔ شادی کے بعد بیوی پر ظلم اس عہد کی خلاف ورزی ہے جو ہم خدا کی آیات پڑھ کر باندھتے ہیں۔ اس کا حق مہرادا نہ کرنا، اسی عہد کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے کھانے پینے اور رہنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق گھر نہ لے کر دینا، اس عہد کی خلاف ورزی ہے۔ساس کے مظالم سے اسے نہ بچانا، شوہر کی طرف سے اس عہد کی خلاف ورزی ہے۔ 

ایک عہد ہمارے رشتہ سے بندھتا ہے۔ وہ ہمارے والدین کا حق ہے۔ یہ ایسا ہی حق ہے جیسا اللہ کا حق ہے، اس لیے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور والدین نے ہمیں جنم دیا ہے، بالخصوص والدہ کا حق ہے۔ (البقرہ ۲: ۸۳) یہ دونوں اگرچاہتے تو اس وقت ہمارا گلا دبا کر مار ڈالتے جب ہم ایک پانی کا قطرہ بھی اپنے منہ میں نہ ڈال سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ہمیں پالا پوسا ہے۔بڑا کیا ہے۔ اس تعلق کی بنا پر ان کے اور ہمارے درمیان ایک عزت و احترام کا رشتہ بنتا ہے۔ ہمیں چار وناچار ان کی عزت کرنی ہے۔ ان کے بارے میں قرآن نے یہ کہا ہے کہ ان کی سختیوں پر بھی انھیں اونہ تک نہ کہو۔(بنی اسرائیل۱۷: ۲۳)

انھی والدین کی طرف سے ہمار ے کچھ رشتے وجود میں آتے ہیں۔ ان سے بھی والدین کی خاطر ہی ہمارا تعلق حسن سلوک کا بنتا ہے۔ادب و احترام اور حسن سلوک میں والدین کے بعد ان کا درجہ آتا ہے۔ ان کے ساتھ ہمارا یہ تعلق صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ اس عہد کو بھی ہمیں پورا کرنا ہے۔

انھی والدین کے ذریعے سے ہمارا ایک رشتہ آدم و حوا سے بنتا ہے۔ اور ان کے رشتے سے ساری دنیا کے انسان ہمارے بھائی ہیں ۔قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ ان سب کے ساتھ اور کچھ نہیں تو بھلی بات کرو۔(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۳)

بنی نوع انسان کے ساتھ ہمارا ایک اور بہت ہی گہرا تعلق خدا کی مخلوق ہونے کے ناتے بنتا ہے۔ یہ تعلق یہ ہے کہ ساری دنیا کے انسان ہمارے رب ہی کی مخلوق ہیں اور ان کا پروردگار وہی ہے۔ اسی نے ان کو پیدا کیا ہے اور وہی ان کا نگران ہے۔ وہ ان میں کسی کے ساتھ ظلم کو برداشت نہیں کرتا۔ جس نے ایسا کیا وہ قیامت کے دن اس سے حساب لے گا۔

غرض یہ کہ بہت سارے عہد ہیں جو ہمارے ذمہ ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو ہم خود باندھتے ہیں، کچھ وہ ہیں جن میں ہم خدا سے اور لوگوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان سب کو پورا کرنا ہی صبر ہے۔خواہ حالات کیسے ہوں، ان سب کا رویہ ہمارے ساتھ کیسا ہی ہو۔

 

انسانوں کے ساتھ ہمارا تعلق

انسانوں کے ساتھ ہمارا تعلق یہ ہے کہ ہمیں ان کا ساتھ دینا ہے۔ یہ ساتھ دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ انھیں ہماری ضرورت ہو تو ہم ان کے کام آئیں، ان کے کچھ حقوق ہم پر عائد ہوتے ہوں تو وہ پورے کریں۔ (حدیث)دوسرے یہ کہ اگر وہ غلط چلنے لگیں تو ان کو روکیں، انھیں حق بات کی نصیحت کریں اور حق پر قائم رہنے کی نصیحت کریں۔ (سورۂ عصر )

 

عدل

ہماری اجتماعی زندگی میں عدل ایک نہایت ہی اہم چیز ہے۔اس پر قائم رہنا نہ صرف دینی فریضہ ہے، بلکہ انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں ایک نہایت ہی بڑی قدر (Value) ہے۔انسانوں کی بسائی ہوئی کوئی تہذیب ایسی نہیں ہے جس میں عدل کسی نہ کسی طرح موجود نہ رہا ہو۔ 

دین اسلام میں بھی یہ ایک بڑی قدرکی حیثیت رکھتا ہے۔ہمارے معاشرے میں اس کواتنی ہی کم حیثیت حاصل ہے، جتنی زیادہ اسلام میں اسے اہمیت دی جاتی ہے۔قرآن مجید نے سورۂ آل عمران (۳: ۱۸)کے آغاز میں اسے ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی مطالبہ کی طرح سے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے مقامات میں اس حکم کے مختلف پہلو واضح کیے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں عدل تقویٰ کی انتہا ہے۔ اگر آدمی اجتماعی زندگی میں عدل پر قائم نہیں ہے تو وہ جان لے کہ متقی نہیں ہے۔قرآن کہتا ہے کہ :

۱۔تم عدل کرو، خواہ اپنے عزیزوں کے خلاف ہی عدل کیوں نہ کرنا پڑے۔(الانعام ۶: ۱۵۲)

۲۔ کسی کی دشمنی بھی تمھیں عدل کرنے سے نہ روکے۔(المائدہ ۵: ۸)

۳۔ عدل کرو اس لیے کہ تقویٰ کا عمل یہی ہے۔ (المائدہ ۵: ۸)

۴۔ اللہ قائم بالقسط ہے۔(آل عمران۳: ۱۸)

۵۔اللہ نے ایک میزان قائم کر رکھی ہے۔او ر تم بھی اے لوگو، میزان کو سیدھا رکھو۔(الرحمن ۵۵: ۷۔۸)

ہماری گھریلو زندگی ہو یا گھر سے باہر کی ہر جگہ ہمیں عدل کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ہماری والدہ اور ہماری بیوی کے درمیان ،کبھی میاں اور بیوی کے درمیان ،کبھی بھائی اور بھائی کے درمیان ،کبھی ہمسایے اور ہمسایے کے درمیان ،کبھی ماں باپ اور اولاد کے درمیان اور کبھی بیٹے اور بیٹی کے درمیان، مگر ہم اس میں بہت کو تاہی کرتے ہیں۔

 

ایک عام کوتاہی

سب سے بڑی کوتاہی تو ہم سے یہ ہوتی ہے کہ بالعموم ایک فریق کی بات سن کر دوسرے کے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں اور پھر اسے عام کرتے پھرتے ہیں۔ یا اس کے لحاظ سے اس کے ساتھ معاملات کرنے لگ جاتے ہیں جو اصلاً غلط ہے۔کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے، خواہ وہ چہرے پرملال لانے کا عمل ہو ، محض سنی سنائی باتوں کی بنا پر نہیں ہونا چاہیے ۔

اس ضمن میں قرآن مجید نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ کسی کے خلاف اقدام کرنے سے پہلے ناگزیر ہے کہ تم تحقیق خبر کر لو۔ (سورۂ حجرات)کہیں ایسانہ ہو کہ تم ان کے خلاف اقدام کرو اور وہ بے قصور ہوں اور پھر تمھیں شرمندگی ہو یا کوئی اور نقصان اٹھانا پڑ جائے۔

عدل ہماری زندگی میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ ہماری تعمیر ملت میں نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ملت یا قوم دنیا کی اچھی اقوام میں شامل ہو۔ یا یہ ترقی کرے اور بام عروج کو پہنچے تو اس کے لیے لازمی شرط یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی معاملات میں عدل کریں۔

گھر میں بچوں سے لے کر حکومت میں دشمنوں سے معاملہ کرنے تک ہر ہر موقع پر ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم عدل کریں۔یہ ہم سے زندگی کے ہر موڑ پر، ہر طرح کے حالات میں مطلوب ہے۔ ایسا کرتے رہنا عدل کے مطالبے میں صبر ہے۔

 

اعلیٰ اخلاق 

اخلاقی رویہ میدان عمل کی طرح ایک ذہنی عمل بھی ہے۔اس کی مثال ایمان اور اسلام کی سی ہے۔ ایمان قلبی چیز ہے اور اسلام اس کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ اخلاق کا ہے۔ اس کا ایک حصہ ذہنی و فکری ہے اور دوسرا حصہ عملی ہے۔ عملی لحاظ سے شریعت کا تقاضا ہر شخص پرواضح ہے ۔ یعنی یہ کہ آدمی درج ذیل امور کا خیال رکھے:

۱۔ لین دین میں دیانت داری

۲۔ معاملات زندگی میں انصاف پسندی

۳۔ ملنے جلنے میں قول حسن پر عمل

ذہنی اخلاق کے معنی ہیں کہ :

۱۔ نیت کامثبت ہونا

۲۔ ہر چیز کو مثبت رخ سے دیکھنا

۳۔اپنی نگہ داری

پہلی دو چیزوں کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ، تیسری چیز جس کی وضاحت ہونی چاہیے ، وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ قول حسن اختیار کریں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ، وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.(البقرہ۲: ۸۳)

’’اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے، والدین کے ساتھ احسان کرو گے، قرابت داروں ،یتیموں اور مسکینوں کو (ان کا حق دوگے)اور (ان کے علاوہ ) لوگوں سے بھلی بات کرو۔‘‘ 

 

اس آیت سے درج ذیل اخلاقی احکام سامنے آتے ہیں:

۱۔ اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا۔

۲۔ اللہ کے اس حق کوادا کرنے کے بعد دوسری اہم چیز والدین سے حسن سلوک کرنا۔ 

۳۔ حق داروں کا حق ادا کرنا، جیسے رشتہ دار ، یتیم اورمسکین۔

۴۔ عام لوگ جو نہ رشتہ دار ہیں اور نہ یتیم و مسکین ہیں ، ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا۔

یہ اخلاقی تقاضے عملی ہیں۔ ان پر قائم رہنا نہایت ضرور ی ہے ۔ اور جو شخص ان پر اچھے برے حالات میں قائم رہے گا، وہ اس میدان میں صابر آدمی ہے ۔یہاں چونکہ ہم عملی اخلاقیات تک محدود رہیں گے، اس لیے دوسرے گروپ کے تینوں پہلو ہم آگے چل کر واضح کریں گے۔

____________________

B