HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

انسانی سرشت اور صبر

 

انسانی سرشت میں اللہ تعالیٰ نے تمام اوصاف، خواہ وہ بظاہر منفی یا سلبی نظر آتے ہوں، سب دراصل مثبت اور ایجابی ہیں۔ مثلاً قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ’کان الانسان عجولا‘ (انسان اپنی سرشت میں جلدباز ہے)۔ جلدبازی اگرچہ ایک منفی چیز ہے ، مگر یہ بنی نوع انسان میں اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ وہ ان سب امور کی طرف سبقت کرنے والا بنے ، جن کو خیراور نیکی کہا جاتا ہے۔ مگر چونکہ اسے اس دنیا میں خلافت کی نوعیت کا اقتدار بھی ملا ہے، اس لیے وہ اپنے اس اختیار کی بنا پر ان تمام داعیات کو غلط جگہ پر استعمال کرلیتا ہے۔جس سے خرابی وجود میں آتی ہے۔

حصول خیر میں جلدبازی کا یہ جذبہ اس لیے انسان کو دیا گیا تھا کہ وہ نیکی کی طرف بڑھے اور اس میں سب سے سبقت کرنے کی سعی کرے ، مگر اس دنیا میں ہم دنیا کے بھلے کے لیے جلدبازی سے کام لینے لگ جاتے ہیں۔تو ہماری سرشت عجل حب عاجلہ کی صورت میں ظاہر ہو کر منفی بن جاتی ہے ۔ 

یعنی قرآن مجید نے جن منفی داعیات کا ذکر کیا ہے۔ وہ دراصل ان مثبت داعیات کے نمائندہ ہیں جن کو حق پر ستی ہی کے لیے ہماری سرشت میں ودیعت کیا گیاہے۔ ان کا وجود ان کے دوسرے رخ کا پتا دیتا ہے۔ قرآن میں مخاطب کے منفی داعیات کو زیربحث لا کر گویا ان کا تعارف کرایا گیا ہے کہ یہ چیزیں ان میں جلب خیر کے بجائے جلب شر کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ اس لیے ان کو قابو کرنا ضروری ہے۔ اور ان کے قابو کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ انھیں صحیح رخ پر ڈال دیا جائے۔

قرآن مجید نے ہماری سرشت میں موجود جن داعیات کا ذکر کیا ہے، وہ درج ذیل صفات کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں:

۱۔ عجول

۲۔ ظلوم

۳۔ جہول

۴۔ ضعیف

۵۔ قتور

۶۔ ہلوع

اب ہم سرشت انسانی کے ایک ایک پہلو کو سامنے رکھ کر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ صبر کا ان سے کیا تعلق ہے۔ اس تعلق کو سمجھنے سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ہم صبر کے لحاظ سے کن مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں اور یہ کہ ہماری سرشت کے ان پہلو وں کا اصل استعمال کیا ہے ، جس سے فائدہ اٹھا کر ہم صبر کے حصول کے قریب ہو سکتے ہیں۔

 

عجول ہونا اور صبر

عجول‘ جیسا کہ اس باب کی تمہید میں ہم نے جانا کہ جلد بازی سے تعبیر ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید نے اسے عاجل نہیں کہا۔ اس لیے کہ عاجل اگرچہ اسم صفت ہے ، مگر دوام کا مفہوم اور مبالغہ کا مفہوم ایسا نہیں ہے جیسا ’عجول‘ میں ہے۔قرآن مجید نے یہ صفات انسانی اس اسلوب میں بیان کی ہیں کہ ’خلق من عجل ، خلق الانسان عجول‘ یا ’کان الانسان عجولا‘ وغیرہ ۔ اس اسلوب سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ دراصل انسان کی سرشت بتائی جا رہی ہے۔

عجول‘ کے معنی، جیسا ہم نے بتایا کہ عجلت پسندی کے ہیں ، یعنی جو دل میں خیال آجائے اس کے لیے تیزی دکھانا۔یہ وصف درحقیقت حصول منفعت میں تیزی دکھانے کے لیے رکھا گیا تھا تاکہ انسان ’سابقون‘میں سے بنے۔ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں اس چیز کا مطالبہ کیاہے کہ ہم نیکیوں کی طرف سبقت کریں۔سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’فاستبقوا الی الخیرات‘، ’’تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔‘‘(۲: ۱۴۸) نیکیوں کی طرف یہ سبقت دراصل خدا سے انعام و مغفرت پانے کی طرف سبقت ہے ۔سورۂ حدیدمیں اسے یوں بیان کیا گیا ہے: ’سابقوا الی مغفرۃ ربکم‘ (۵۷: ۲۱)’’اپنے رب کی بخشش کی طرف سبقت کرو۔‘‘یہ دیکھیے کہ ان آیات میں کس طرح اس مزاج کو مخاطب کیا گیا ہے جو اسے ’عجول‘ ہونے کے لحاظ سے حاصل ہے۔اور اس کی انتہا سورۂ واقعہ کی اس آیت میں ہے کہ ’السابقون السابقون‘ دنیا میں نیکیوں میں سبقت کرنے والے آخرت کے اجر میں بھی سبقت پانے والے ہوں گے۔

چنانچہ یہ عجلت پسندی بظاہر صبر کے الٹ ہے ، مگر حقیقت میں یہ عین صبر کی موید ہے ۔ یعنی آپ اگر ہر مرحلے میں دنیا کے لالچ میں جلد بازی کے بجائے ، نیکی کی طرف بڑھنے کے لیے کوشاں ہوں تو یہ عین صبر کا تقاضا ہے، بلکہ صبر کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔آپ کو اپنے اندر کے اس جذبے کو مارنا نہیں ہے ، بلکہ اس کا رخ بدلنا ہے ۔ اسے دنیاداری سے ہٹا کر آخرت کا طالب بنانا ہے ۔ اس گھوڑے کی لگامیں تھامیں رکھیں اور اسے نیکیوں کے راستے پر سرپٹ دوڑایے ۔ اس لیے کہ ہمیں اسی کام کے لیے عجول بنایا گیا ہے۔ یعنی ’سابقوا الی مغفرۃ ربکم‘۔

 

ظلوم ہونا اور صبر

ظلوم‘ کے معنی ظلم کرنے والے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ اپنے سادہ معنی ہی میں استعمال ہوا ہے، لیکن سورۂ احزاب میں یہ جس سیاق وسباق میں آیا ہے اس سے اس کے اندر یہ معنی پیدا ہوگئے ہیں کہ انسان ذمہ اٹھانے میں حد سے بڑھ جانے والا ہے۔سورۂ احزاب آیت ۷۲ میں یہ اس سیاق میں آیا ہے کہ انسان نے خدا کی امانت کا بار اٹھا لیا اور باقی تمام مخلوقات نے اس بار کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔اس پر خدا نے یہ تبصرہ فرمایا کہ ’انہ کان ظلوما جہولا‘۔ یعنی انسان ظلوم اور جذباتی ہے۔ یہاں اس نے ظلم صرف یہ کیا ہے کہ وہ جذبات میں آکر اس بار امانت کو اٹھا بیٹھا۔گویا اس سیاق وسباق میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان نے اپنی ہمت سے بڑھ کر بوجھ اٹھا لیا۔

انسان کی سرشت کی یہ خوبی ہے ، جس نے اسے ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ دیا ہے۔ جس کی بنا پر وہ بار بار گر نے کے بعد بھی اٹھ کر سنبھل سکتا ہے۔ یہی وہ داعیہ ہے جس کے بل پر نہایت قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود بدر و حنین میں اتر جاتاہے ۔ راہ عشق میں انسان کی ساری قربانیاں اور وطن و قوم کے لیے اپنی جان تک کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوجانا اسی سرشت کی بنا پر ہے۔ 

انسان کو ’ظلوم‘اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ حق و انصاف کی خاطر بدر و احد کے میدان میں اتر سکے۔وہ عمر وبکر کی طرح اپنی قوم کی مخالفت مول لے سکے ۔ بلا ل وحارث کی طرح حق کی خاطر ستایا جائے اور پھر بھی وہ دین حق پر قائم رہنے کا اعلان کرتا رہے۔ 

انسان کی یہ سرشت اسے حق کی خاطر وہ ثبات قدم عطا کرتی ہے کہ وہ میدان بدر میں جام شہادت نوش کرتا ہے ۔ اسے موت اپنے سامنے رقصاں نظر آتی ہے ، مگر وہ ڈٹا رہتا ہے۔ انسان کی یہ صفت’ظلوم‘اس کا ایک اعلیٰ وصف ہے۔جو حق کے لیے ہو تو بے مثال داستانیں رقم کرتا ہے اور اگر بے گناہ معصوم لوگوں کے خلاف ہو تو تاریخ انسانی کی خونچکاں تاریخ رقم کرتاہے۔اور وہ ’ظلوم‘ کی صلاحیت کا غلط استعمال کرکے ظالم بن جاتا ہے۔افسوس ہے کہ انسان راہ حق میں ثابت قدمی کے لیے جس وصف سے نوازا گیا تھا ، وہ اسے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنے کے لیے صرف کرتا رہتا ہے۔ ’عجول‘ کی صفت کی طرح ہمیں اس سرشت کو بھی بس قابو کرکے راہ حق میں لگانا ہے۔ پھر یہ راہ حق میں ہمیں ایسا ثبات قدم عطا کرتی ہے کہ ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں۔

 

جہول ہونا اور صبر

جہول‘ کے معنی جذباتی ہونے کے ہیں۔انسان میں سے اگر جذبات نکال دیے جائیں تو وہ نامکمل ہو جاتا ہے ۔ جہول کا یہ داعیہ کئی جذبات کو متحرک کرتا ہے۔ جیسے محبت و شفقت، غیرت و عصبیت، غیظ و غضب، نفرت و حقارت، تنفرو اباوغیرہ۔ یہ تمام جذبات انسان کے لیے قوت محرکہ کا کام کرتے ہیں۔اگر یہ جذبات نہ ہوں تو انسان مٹی کے ڈھیر کی طرح ہوکر بیٹھ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام جذبات حق کے ساتھ دینے اور اس کے ساتھ چلنے کی قوت و تحریک کے لیے دیے تھے۔مگر ہم انھیں غلط طریقے پر استعمال کرتے ہوئے محض اپنی ذات یا قوم قبیلے کے مفادات کے لیے خاص کرلیتے ہیں۔بلاشبہ ان جذبات کے ظاہر ہونے کے مقامات میں ذات ، قبیلہ اور قوم و وطن بھی ہیں ،مگریہاں انھیں حق کے تابع ہونا چاہیے۔جب آدمی کے قدم جادۂ حق سے پھسلنے لگیں، ان میں کمزوری آنے لگے تو اس وقت حق کے ساتھ ہمارے یہ جذبات ہمیں واپس لاتے ہیں۔ کبھی حق کی خاطر ہی یہ جذبات ہماری ذات کے لیے دائرۂ حق کے اندر رہتے ہوئے ، ہمارے ساتھ خاص ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ذات یا قوم و قبیلہ کے ساتھ یہ جذبات حق کے دائرے میں رہتے ہوئے خاص ہو جائیں تو یہ بھی حق ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ جاہلیت ہے۔ لیکن اگر ذات کے مفادات کے ساتھ بھی ان کا تعلق بنے اور وہ دائرۂ حق میں ہو تو اس صورت میں بھی ہمارے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔ مثلاً ہو سکتا ہے کسی موقع پر ہمارے لیے جادۂ حق پر قائم رہنا ممکن نہ ہو ،مگر دوزخ کا خوف اور جنت کی طمع ہمیں اگر بچا لے تو یہ عین صبر اور ثابت قدمی ہے۔

یعنی اس سے یہ بات ہم پر واضح ہوئی کہ ہمارے سچے جذبات اگر حق شناس ہو جائیں تو ہمارے لیے صبر اختیار کرنے اور حق پر قائم رہنے کے لیے یہ جذبات معاون ہوتے ہیں۔ نہ صرف معاون ہوتے ہیں، بلکہ تحریک و انگیخت کا باعث ہوتے ہیں، جومنفعل طریقے سے ہمیں جادۂ حق پر رواں رکھنے سے بڑھ کر جوش و جذبے کے ساتھ گام زن رکھتے ہیں۔

قرآن مجید نے انذار و تبشیر کے ذریعے سے صحابہ کے انھی جذبات کوایسے متوازن طریقے سے حق کے لیے بیدار کیا کہ ان میں سے بعض اپنی زندگی ہی میں جنت کے مستحق قرار پائے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جب میدان جنگ میں ایک کافرنے تھوک دیا تو انھوں نے تلوار روک لی۔ اس لیے کہ اب انھیں اس پر ذاتی غصہ تھا۔ اب اس پر تلوار حق کی خاطر نہ اٹھتی۔یہ ضبط اپنے جذبات کو دراصل راہ حق کی طرف موڑنے سے حاصل ہوا تھا۔

 

ضعیف ہونا اور صبر

انسان دراصل ’ضعیف‘ بنایا گیا ہے۔ اس کے جسم اور اس کی روح کے اندر ضعف رکھا گیا ہے تاکہ وہ خدا کے سامنے سرافگندگی ظاہر کرے۔ اور خدا کے آگے سجدہ ریز ہوجائے۔ اور جب بھی اس پر مشکل آئے تو کسی مضبوط سہارے کو تلاش کرکے خدا تک پہنچے۔مگر اس انسانی سرشت نے بھی آزادی و اختیار کی بنا پرغلط راستہ اختیار کیا۔چنانچہ کبھی تو انسان نے اپنی کمزور ی کو اپنے’ظلوم‘ ہونے کے زور پر دبایا اور خدا بن بیٹھا اور انسانوں پر ظلم ڈھانے لگا۔ یہ ظلم اس نے اسی لیے ڈھائے کہ اس کی کمزوری ظاہر نہ ہو۔ اور کسی کواسے روکنے کی جرات اور دم خم باقی نہ رہے۔ اور کبھی ایسا ہوا کہ انسان نے یہ کمزوری اپنے اوپر اس طرح طاری کرلی کہ وہ کہیں ظالموں کے آگے مظلوم بن گیا اور کبھی بتوں کے آگے جھک گیا۔ اگر حق کی خاطر اس کو توازن دیا جاتا تو ایسا ہی حسن اخلاق وجود میں آتا، جیسا کہ ہم نے اوپر کے داعیات میں دیکھا کہ توازن کی وجہ سے پیدا ہوا۔

ضعف بلاشبہ ہماری ایک کمزوری ہے۔مگر یہ کمزوری بھی ہماری طاقت ہے ۔ جو ہر خوف اور اندیشہ کے وقت ہمیں حق کی جانب دھکیل کر خدا کے آگے ڈال دیتی ہے۔ ہمارے مذہبی گروہوں میں سے ایک گروہ ایسا رہا ہے کہ انھیں اپنی اس سرشت کے اقرار میں مشکل رہی ہے اور وہ ہمیشہ خدا بننے کی کوشش میں فلسفہ سازیوں میں مگن رہے ہیں۔اس چیز نے ہمارے مذہبی لوگوں میں کمزوری کو ایک منفی وصف بنا دیا ہے۔ حالانکہ یہ وصف منفی ہونے کے باوجود ایک مثبت وصف ہے کہ ہمیں اس حق شناسی پر لاکر کھڑا کردیتا ہے۔ جو سیدنا موسیٰ کے منہ سے اس وقت ان الفاظ میں صادر ہوتا ہے جب وہ مصر سے فرار ہونے کے بعد مدین کی سرحد پر کھڑے یہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ، اب تو مجھے جو بھی دے میں اس وقت اس کے لیے فقیر و محتاج ہوں۔ یہ شعور ذات اگر خدا کے مقابلے میں ہمیشہ کے لیے آدمی کو حاصل ہو جائے تو ایک ایسا طاقت ور انسان بن جاتا ہے کہ وہ خدا کی سرزمین میں خدا کے سہاروں کا سب سے بڑا مہبط ہوتا ۔ اور اسی کی بنا پر وہ اپنی کمزوری کے باوجو د مالک و حنبل کی طرح بادشاہوں کے مظالم کے آگے ایک پہاڑ بن جاتا اور بلال حبشی کی طرح صبر کا ایک اعلیٰ نمونہ بن جاتا ہے۔

اس اعتبار سے اگر ہم دیکھیں تو ضعف کا یہ داعیہ جو بظاہر صبر کے الٹ دکھائی دیتا ہے ، وہ دراصل صبر کا سب سے زیادہ موثر موید و معاون ہے۔یہ ہمارے اند ر اس کی جستجو پیدا کرتا ہے کہ ہم دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط سہارے کے ساتھ جڑ کر رہیں۔اور یہ سب سے مضبوط سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات ہے۔ اور یہ سادہ عقلی اصول ہے کہ ہم جس کے سہارے کو حاصل کرنا چاہیں، اس کی محبت کو جیتنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ خدا کی محبت جیتنے کے لیے ہمیں حق پرستی کو اختیار کرنا ہوگا۔ اور ہم یہ جان چکے ہیں کہ یہی چیز صبر ہے۔

 

قتور ہونا اور صبر

قتور‘ کے معنی تنگ دلی و بخل کے ہیں۔یہ ہمارے اندر حصانت ، احتیاط ، اتقا اور تحفظات کو وجود بخشتا ہے۔جب یہ تحفظات انسان پر زیادہ سوار ہو جائیں تو جس طرح بخیل بن کر مذموم ٹھہرتا ہے اسی طرح دوسرے امور میں حق پرستی سے دور رہتا ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب یہود ایمان نہیں لا پارہے تھے تو اس کی وجہ قرآن سے یہی معلوم ہو تی ہے کہ وہ اس مشیخت کو تحفظ دینا چاہتے ہیں جو انھیں اہل کتاب ہونے کے ناتے حاصل تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے بظاہر ہاتھ سے جاتی دکھائی دے رہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن ان پر تنقید کرتا ہے کہ تم حقیر قیمت کے عوض اس ہدایت کو نہ بیچو۔ میری آیات کا انکار محض اس وجہ سے نہ کرو کہ تم دنیا میں اس چند روزہ مشیخت کو باقی رکھو۔

اسی طرح ان کا یہ تحفظ بھی تھا کہ انبیا تو بنی اسرائیل میں آتے رہے ہیں۔ اب بھی یہ انھی کا حق ہے۔ بھلا اب یہ نبی بنی اسماعیل میں کیونکر آگیا۔اس سے انھیں اپنی برتری جاتی ہو ئی دکھائی دے رہی تھی جو ان کے لیے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی ۔جسے قرآن نے’حسدا من عند انفسہم‘(ان کے اپنے حسد)کے الفاظ سے بیان کیاہے۔ان کے انھی تحفظات میں سے ایک پر قرآن نے اس طرح بھی چوٹ لگائی ہے کہ’اخشونی ولا تخشوا الناس‘ (مجھ سے ڈرو، لوگوں سے نہ ڈرو)۔

یہ داعیہ بھی دراصل ان چیزوں کے روکنے کے لیے تھا، جنھیں اپنے پاس روکے رکھنا حق کا تقاضا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ داعیہ اس لیے رکھا ہے کہ ہم اپنے ہاتھ سے خیر کو نہ جانے دیں۔ خیر کو ہاتھ سے جاتے دیکھ کر ہمارے اندر ویساہی احساس محرومی پیدا ہو، جیسا مال کو جاتے دیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے اندر یہ بخل ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایک نیکی کو سینت سینت کر رکھیں۔ ایک بخیل آدمی کی طرح جو اپنے مال کو سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے ،ہم اپنی فطرت اور اپنے اندر کی نیکیوں کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ ہمہ وقت اس کوشش میں رہیں کہ ہمارا ایمان کہیں شیطان کے ہتھے نہ چڑھ جائے ۔ اور وہ ہماری راہ کھوٹی نہ کردے۔

جو آدمی اپنے پاس موجود نیکی کو ضائع نہ ہونے دے گا وہ دراصل نیکی پر قائم ہے۔ وہ نہ ریا کاری کرے گا اور نہ معاشرے اور ماحول کی دیکھا دیکھی نیکی کو چھوڑ کر برائی کو اختیار کرے گا اور نہ محض متاع دنیا کے عوض کبھی گمراہی خریدے گا ، بلکہ اس کے اگر تحفظات ہوں، تو وہ یہ ہوں گے کہ کہیں یہ کرنے سے میرا ایمان تو رخصت نہیں ہو جائے گا۔ کہیں ناانصافی تو نہیں کر بیٹھوں گا اور کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ میرے اور معاشرے کے اندر سے میرے اس عمل سے نیکی ختم ہو جائے گی۔ 

 

ہلوع ہونا اور صبر

’ہلوع‘کے معنی تھڑ دلے کے ہیں۔یعنی ذرا سی مصیبت پر ہی جزع فزع کرنے والا۔اہل لغت نے اس کے معنی حریص اور بزدل کے بھی بتائے ہیں۔قرآن میں یہ اس سیاق میں آیا ہے:

 

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا. اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا. وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا.(المعارج۷۰: ۱۹۔۲۱) 

’’بلاشبہ انسان تھڑدلا بنا ہے۔ جب اسے برائی لاحق ہوتی ہے، تو وہ جزع فزع کرتا ہے۔ اور جب اسے بھلائی نصیب ہوتی ہے تو وہ بخیل بن جاتا ہے۔‘‘

 

یہ بھی پچھلے پانچوں داعیات کی طرح بظاہر صبر کے مقابل و حریف کی طرح نظر آتا ہے۔ مگر یہ بھی دراصل اسی مثبت داعیے کا منفی رخ ہے، اس کا دوسرا رخ مثبت بھی ہے۔یعنی یہ انسان کو بے چینیوں میں مبتلا کر کے اصلاح احوال کی طرف دھکیلتا ہے۔ قرآن میں یہ اپنے منفی پہلو ہی سے بیان ہو اہے ، لیکن ہم یہ جان چکے ہیں کہ تمام داعیات اپنے اندر ایجابی و سلبی، دونوں رخ رکھتے ہیں۔ہلوع کی بزدلی ہمارے لیے خدا کی طرف بڑھنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ بزدلی خدا کے آگے آہ وزاری کا سبب ہے۔ ہمیں سرکشی سے روکتی ہے۔ہلوع میں حرص کا پہلو ہمیں نیکیوں کا حریص بناتا ہے۔ ہم اجر کے حریص بنتے ہیں۔اس کے اندر بخیل کا پہلو ہمیں نیکیوں اور اخلاق کی خوبیوں کی حفاظت پر ابھارتا ہے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ ہم اکثر اس داعیے کو غلط استعمال کرتے ہیں۔

 

خلاصہ 

اس باب میں ہم نے چند اہم داعیات کو اس مختصر سی وضاحت سے سمجھا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صبر کی آزمایش میں ڈال کر اس کے ساتھ کچھ داعیات کو بھی ہمارے اندر رکھ دیا ہے۔ جو حق کے ساتھ ہمارے بندھن کو مضبوط کرتے اور اس کے ساتھ ہمارے تعلق کو دوام بخشتے ہیں۔ان داعیات کو صحیح رخ پر ڈال کر ہم اپنے اندر صبر کی صفت کو پیدا کرسکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’عجول، ظلوم، جہول، ضعیف، قتور‘ اور’ہلوع‘ اس لیے بنایا ہے کہ ہم اپنے ان اوصاف کی بنا پر حق پرثابت قدم رہ سکیں۔ اور یہ داعیات ہمیں راہ حق پر قائم رکھنے کے لیے کبھی جذبۂ سبقت ، کبھی ہمت، کبھی جوش و حمیت، کبھی احتیاط و تحفظات، ٹھہراؤاور بے چینی کے جذبے عطا کرکے ہمیں راہ حق پر قائم رکھتے ہیں، مگر یہ بات ہم اپنی تاریخ انسانی میں بھی اور اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ انھی جذبات کی تسکین ہمیں راہ حق سے ہٹا بھی دیتی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم ان پر نگاہ رکھیں اور ان داعیات کا استعمال نہایت سوچ سمجھ کر کریں۔

____________

 

B