اللہ تعالیٰ نے صبر کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ حق اس دنیا میں موجود رہے، اگر حق پررہنے والے لوگ معدوم ہو جائیں تو پھر حق کہاں سے ملے گا۔اس طرح ایک فرد کی زندگی میں بھی حق کی بقا اسی میں ہے کہ وہ حق پر قائم رہنے کے لیے ثابت قدمی دکھائے۔آثارصحابہ میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ’لا ایمان لہ لمن لا صبر لہ‘، ’’اس کا ایمان ہی نہیں جس کے پاس صبر نہیں۔‘‘ یعنی جو آدمی صبر نہیں کرسکتا اس کا ایمان جاتا رہے گا۔ وہ صبر کی صفت نہ ہونے کے سبب سے اس بات سے محروم ہوتا ہے کہ وہ مشکل گھڑی میں ایمان کو قائم رکھ سکے ، وہ تھڑ دلوں کی طرح پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتا رہتا ہے۔ایسے آدمی کی تصویر قرآن نے یوں کھینچی ہے:
فَاَمَّا الاِْنْسَانُ اِذَا مَاابْتَلٰہُ رَبُّہٗ، فَاَکْرَمَہٗوَ نَعَّمَہٗ، فَیَقُوْلُ: رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗفَیَقُوْلُ: رَبِّیْٓ اَہَانَنِ. (الفجر۸۹: ۱۵۔۱۶)
’’پر اس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا خدا امتحان کرتا پھر اسے عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی۔ اور جب وہ اسے جانچتا پھر (اس غرض سے) رزق میں تنگی کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر ڈالا۔‘‘
ایک اسی تصویر کا پہلو یہ بھی ہے :
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا، اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا، وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا.(المعارج۷۰: ۱۹۔۲۱)
’’انسان کی گھٹی میں بے صبری پڑی ہے ، جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرانے لگ جاتا ہے اور جب فراخی حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔‘‘
بے صبری انسان کے اندر سے عزم و حوصلہ اور کشادگی اور اعلیٰ ظرفی کی نوعیت کی چیزوں کو کم کردیتی ہے۔ اور وہ تھڑ دلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد حق پر اس کا قائم رہنا ممکن نہیں رہتا۔
امت اسلامیہ اس وقت اسی بے صبر ی کا شکار ہے۔ اس لیے کہ اس کے ہاں ’’دشمن ‘‘کے منفی اقدامات کاجواب دینے میں یہی رنگ پایا جاتاہے کہ وہ مثبت اقداما ت کے بجائے منفی اقدامات کرتی ہے۔حق پر استقامت کے بجائے غلط طریقوں سے انتقام لیتی ہے۔ عدل و انصاف کے بجائے ردعمل میں آکر ناانصافی کرتی ہے وغیرہ۔اپنے انھی جذبات کی بنا پر امت اس وقت اس حق پر قائم نہیں رہ پاتی ہے ، جس کا نقیب اور امین اللہ نے اسے بنایاتھا۔
مثلاً اس کے پاس ایک بنیادی نیکی جسے عدل کہا جاتا ہے وہی موجود نہیں ہے، تو باقی نیکیاں چہ معنی دارد۔ اس لیے کہ عدل ہی وہ نیکی ہے جو ساری نیکیوں کو وجود بخشتی ہے۔ہمیں قیام بالقسط کا حکم دیا گیا ہے، مگر ہماری اکثریت اس پر قائم نہیں ہے ۔ البتہ ایک اقلیت اس پر قائم ہے اور یہ اقلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ اسلام جو سراپا حق ہے اس وقت اس کے علم بردار ناحق پر سمجھے جاتے، اورا ن کی رسوائی اسلام کے حصے میں بھی آرہی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حق کواپنے ماننے والوں کا سہارا ہی حاصل نہیں ہے تو دنیا میں قائم کیسے رہے۔
قرآن مجید میں ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ (اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ) کی نوید محض ثابت قدموں ہی کے لیے ہے۔قوم اور فرد، سب کے لیے یہ ایک ہی اصول ہے۔ محض اتنا فرق ہے کہ افراد کے لیے اس صبر کا ہر نیکی کی طرح نتیجہ اصلاً قیامت کے دن نکلنا ہے اور اقوام کی ثابت قدمی کا نتیجہ اسی دنیا میں عروج و رفاہیت کی صورت میں نکلتا ہے۔یعنی اجتماعی معاملات میں خدا کا یہ ساتھ دنیا ہی میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ ایک اجتماعیت جیسے ہی حق پر قائم رہنے کی جدو جہد کرنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا ساتھ ظاہر ہونے لگ جاتا ہے۔
ملت اسلامیہ کے ساتھ یہ نصرت بھی اسی صورت میں آئے گی جب ہم اپنا عمل پورا کردیں گے۔ ہمارا عمل یہ ہے کہ ہمارے شہداے ملت حق پر بہر صورت قائم رہیں،اس کے معنی یہ ہیں کہ زندگی کے معاملات کرتے ہوئے اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں۔ اور عمل پیرا ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان کو صحیح معنی میں سمجھنے کی کوشش کریں اور جو معنی دیانت داری سے سمجھ آجائیں ان پر اسی دیانت سے عمل کریں تو اللہ کی مدد ضرور شامل حا ل ہوگی۔ہماری مراد یہ ہے کہ یہ نصرت صبر کے ساتھ مشروط ہے، ہمارے محض برائے نام مسلمان ہونے سے یہ چیز ہمیں حاصل ہونے کی نہیں ہے۔
دنیوی کاموں میں تجربہ گواہ ہے کہ خدا کی مدد محنت کے ساتھ مشروط ہے۔ خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، محنت کرنے والے خدا کی مدد و نصرت پاتے ہیں۔اس میدان میں پوری استقامت اور تسلسل کے ساتھ محنت کرنا صبر ہے ۔ایسی محنت ہی ثمربار ہوتی اور نتائج لاتی ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ کی اس نوید کا ایک رخ ذریت ابراہیم کے ساتھ خاص ہے۔ یعنی ذریت ابراہیم اگر دین میں ثابت قدمی دکھاتی ہے تو ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو اصول دیا ہے، وہ یہ ہے کہ ’اذکرونی اذکرکم‘، ’’مجھے یاد رکھو گے تو میں تمھیں یاد رکھوں گا۔‘‘(البقرہ)اس یاد رکھنے سے مراد یہی مدد و نصرت ہے ، جو انھیں حاصل ہوتی رہے گی۔ اور ذریت ابراہیم کے یاد رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین پر ثابت قدم رہے ۔
صبر اس اعتبار سے بھی ایک اہم وصف ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے سہارے کا سبب ہے ۔ ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ ’’اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ آپ کو اللہ کا سہارا صبر کرنے کی صورت میں ملے گا۔ اس دنیا میں بے شمار مواقع ہیں، جن میں ہمیں خدا کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس میں ایک عجیب نفسیاتی پہلو بھی موجود ہے ۔ وہ یہ ہے کہ صابر آدمی کو پہلے ہی مرحلے پر ایک نفسیاتی تفوق حاصل ہوتا ہے۔ وہ مصائب پر چیخنے چلانے کے بجائے ، سب سے الگ طریقے پر حوصلہ اور عزم سے کھڑا ہو تا ہے ۔ یہ چیز ان کے لیے صدمہ کے آغاز ہی میں سہارا بن کر ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر مصیبت اور صدمہ سنگین ہو تا چلا جائے تو پھر اس سے نکلنے کی راہ یا سہنے کی طاقت ملتی چلی جاتی ہے۔ سیدنا یوسف کو جب زلیخا نے اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کی تو سیدنا یوسف پورے عزم و حوصلے سے ڈٹے رہے ۔ قرآن کے مطابق ان کے عزم کی گرفت ڈھیلی پڑسکتی تھی ، مگراللہ تعالیٰ نے انھیں بچا لیا۔ سورۂ یوسف میں اس کی تفصیل یوں کی گئی ہے:
وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ، وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ، وَ قَالَتْ ہَیْتَ لَکَ. قَالَ: مَعَاذَاللّٰہِ، اِنَّہٗرَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ، اِنَّہٗلَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ. وَ لَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ، وَ ہَمَّ بِہَا، لَوْ لَآ اَنْ رَّ اٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖکَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہٗالسُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ اِنَّہٗمِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ.(۱۲: ۲۳۔۲۴)
’’اورجس عورت کے گھر میں وہ تھا، وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور اس نے دروازے بند کرلیے اور بولی کہ بس آجاؤ۔ اس نے کہا اللہ کی پناہ، وہ (تیرا شوہر) میرا آقا ہے، اس نے مجھے خاطر مدارت سے رکھا ہے ۔حق تلفی کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔ اور عورت نے تو اس کا قصد کرہی لیا تھا اور وہ بھی اس کا قصد کر ہی لیتا اگر اس نے اپنے رب کی واضح نشانی نہ دیکھ لی ہوتی۔ ہم نے ایسا کیا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں۔ اس لیے کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔ ‘‘
سیدنا یوسف کی ثابت قدمی درج ذیل الفاظ میں واضح ہے : ایک اس جملے سے کہ ’’وہ (تیرا شوہر)میرا آقا ہے، اس نے مجھے خاطرمدارت سے رکھا ہے ۔ حق تلفی کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔‘‘اور دوسرے ان الفاظ سے کہ ’’اور وہ بھی اس کا قصد کر ہی لیتا اگر اس نے اپنے رب کی واضح نشانی نہ دیکھ لی ہوتی۔‘‘آیات کا اختتام جن الفاظ پر ہوا ہے وہ یہ ہیں کہ ’’ہم نے ایسا کیا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں۔ اس لیے کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔‘‘
یہ آخری بات یہ بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی برائی سے بچنے میں مدد کرتے ہیں ، اگر وہ اپنے صبر و استقامت سے یہ ثابت کردیں کہ وہ اللہ کے مخلص بندے ہیں۔ جن لوگوں کو اپنی خامیوں پر قابو پانے میں مشکل پیش آتی ہے ، ان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ کوشاں نہیں ہوتے ۔ وگرنہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آدمی اخلاص کے ساتھ برائی دور کرنا چاہے اور اللہ اسے دور نہ کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر بند ہ میرے راستے میں جدو جہد کرے گا تو میں اس کے لیے اپنی ہدایت کے راستے کھولوں گا۔(العنکبوت ۲۹: ۶۹)
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کی زندگی کی مشکلات میں ، اللہ کی مدد کا جو وعدہ تھا ، اس کی حقیقت بھی یہی تھی کہ وہ آپ کے صبر اور محسن ہونے کے ساتھ مشروط تھا۔ فرمایا گیاکہ:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍمِّمَّا یَمْکُرُوْنَ. اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ. (النحل۱۶: ۱۲۷۔ ۱۲۸)
’’اور صبر کرو، اور تمھیں اللہ کے بغیر صبر حاصل نہیں ہو سکتا۔ تم نہ ان پر غم کرو، اور نہ جو یہ چالیں چلتے ہیں، ان سے پریشانی میں مبتلا ہو۔ اس لیے کہ اللہ ان لوگوں کے ساتھہے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ محسن بھی ہیں۔‘‘
یہاں دیکھیے،جس سہارے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ درحقیقت تقویٰ اور احسان کے ساتھ مشروط ہے ۔ یعنی یہ(ساتھ دینے یا سہار ابننے )کا جو ذکر صبر کے حکم کے ساتھ شروع ہوا ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ صبر اگر نہ ہو تو یہ سب کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ نہ تقویٰ باقی رہے گا اور نہ احسان۔ اور نہ ان دونوں سے محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ سہارا حاصل ہو گا جس کی بنا پر آدمی غم نہیں کھاتا اور دوسروں کی ریشہ دوانیوں سے نہیں گھبراتا۔ امت اسلامیہ کے افراد اور اجتماعی دھڑے اس فریب کا شکار ہیں کہ انھیں خدا کا یہ سہارا ، بس مسلمان ہونے کی وجہ سے مل جائے گا۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ وعدۂ نصرت بھی چند شرائط کے ساتھ ہی کیا تھا۔ اگر وہ شرائط پوری نہ ہوتیں، تو سیدنایونس کی داستان ہمارے سامنے ہی ہے۔
صبر کی اہمیت میں یہ بات بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ صبر ان چیزوں میں سے ہے، جنھیں قرآن مجید احسان قرار دیتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ صبر محسنین کا وصف ہے۔ قرآن مجید کا بیان ہے:
وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ.(ہود۱۱: ۱۱۵)
’’اور ثابت قدم رہو، اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
وہ لوگ جو آخرت کے لحاظ سے کامیابی پانے کے لیے نیکی کرتے ہیں، ان کو قرآن مجید نے محسن قرار دیا ہے اور جو لوگ اسی دنیا کو اصل سمجھ کر اسے کمانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں، انھیں قرآن مجید نے ’ظالمی انفسہم‘ (اپنے اوپر ظلم کرنے والے )قرار دیا ہے۔ (الصافات۳۷: ۱۱۳) جو لوگ راہ حق میں صبر اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے محسن آپ ہیں۔ دنیا میں انھیں صبر کی بنا پر جو عزت ملے گی سو ملے گی، آخرت میں بھی انھیں اس احسان کا بدلہ ضرور ملے گا ۔ احسان کے معنی حسن سلوک کے ہیں اور وہ انسان اپنا محسن ہے جو اپنے ساتھ حسن سلوک کرے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو آخرت کی تیاری میں لگا دے۔ اگر وہ وہاں کامیاب ہو گیا تو اس سے بڑا محسن کون ہوگا۔
قرآن مجید نے مندرجہ بالا آیت میں ایک اشارہ اس بات کی طرف کیا ہے کہ صبر محسن آدمی کے لیے ضروری ہے ۔ صبر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے یہ نوید دی ہے کہ جو آدمی صبر کرے گا تو ایسے محسن کا میں اجر ضائع نہیں کروں گا۔اس سے معلوم ہوا کہ محسن بننے والے کے لیے صبر ایک اہمیت رکھتا ہے۔ نیکیوں پر ثابت قدم رہنے والا (صبر کرنے والا )محسن ہے ۔ (یوسف ۱۲ : ۹۰ )
محسن آدمی چونکہ صابر بھی ہوتا ہے، اس لیے جو بات قرآن مجید نے ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ کے الفاظ میں صابروں کے لیے کہی ہے، وہی بات ’ان اللّٰہ لمع المحسنین‘ کے پیرائے میں محسنین کے لیے کہی ہے ۔ (العنکبوت ۲۹: ۶۹)
قرآن مجید کے مطابق سب سے بڑا صلہ جس چیز کو ملنا ہے ، وہ صبر ہے ۔اسی طرح قوموں کی زندگی میں عروج پانے اور دوسری اقوام کے مقابلے میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھی صبر ہی اسلحہ و جہاد کی حیثیت رکھتا ہے ۔یعنی انفرادی زندگی میں فرد اگر حق پر قائم رہے گا تو اللہ اسے جنت میں اعلیٰ مقامات عطا فرمائے گا۔ اور اگر کوئی قوم اپنے اجتماعی وجود میں حق پر قائم رہتی ہے تو وہ دنیا میں فائزالمرامی پائے گی ۔ قرآن مجید نے فرمایا ہے:
اِنِّیْ جَزَیْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْٓا اَنَّہُمْ ھُمُ الْفَآءِزُوْنَ.(ا لمومنون۲۳: ۱۱۱)
’’آج میں نے ان کوان کے صبر کا بدلہ دیا ہے۔ اور آج یہ فائزالمرام (کامیاب و کامران ) ہیں ۔‘‘
اسی طرح یہ دیکھیے:
اُولٰٓءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا.(الفرقان ۲۵: ۷۵)
’’یہی لوگ ہیں جنھیں بالا خانے ملے ہیں اس بنا پر کہ انھوں نے صبر کیا، اور (اسی صبر کی بنا پر ) وہاں ان کا خیرمقدم تحیت و سلام سے ہو گا۔‘‘
یہاں یہ بات محض یاددہانی کے لیے سمجھ لیجیے کہ صبر پر جنت اس بات کا صلہ ہے کہ آدمی نے ساری زندگی اس طرح گزاری ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب پر راضی رہا ہے۔اور کسی موقع پر بھی اس نے خدا سے مایوس ہو کرکوئی اور در نہیں کھٹکھٹایا۔وہ کسی موقع پر اخلاق سے عاری نہیں ہوا،وغیرہ۔
صبر ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں انسان ایک موقع پر دو عمل کررہا ہوتا ہے۔ ایک مصیبت کو برداشت کرنا اور دوسرے برے عمل و اقدام سے رکے رہنا ۔ یہ چیز انسان کو اس بات کا مستحق بناتی ہے کہ وہ دوہراا جر پائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ اس صبر کا اجر دوہرا ہے ، جس کے ساتھ برائی کے بدلے میں نیکی کی گئی ہے:
اُولٰٓءِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السّیِِّءَۃَ ، وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ. (القصص ۲۸: ۵۴)
’’یہ لوگ ہیں کہ جنھیں دوہرا اجر ملے گا، بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے اور وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے اور ہمارے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
مراد یہ ہے کہ ہم اگر راہ حق میں آنے والے مصائب ، لوگوں کے طعن وتشنیع کو ایک صابر آدمی کی طرح لیں یعنی ان کی برائی پر آپے سے باہر نہ ہوں اور بداخلاقی پر نہ اتریں، بلکہ ان کی برائی کے بدلے میں بھی نیکی کریں تو اس طرح کے صبر کے بعد ہمیں دوہرا صلہ ملے گا۔ایک ان کی برائی پر صبر اور دوسرے اس کے جواب میں نیکی کرنے پر۔
اس کو ہم مثالوں سے سمجھتے ہیں۔مثلاً جب ہم ابتلا میں ہوں اور اس ابتلا میں خدا کی یاد سے غافل نہ ہوں اور جیسے ہی نماز کا وقت آئے تو ہم خدا کے حضور کھڑے ہو جائیں تو یہ نماز دوہرے اجر کی مستحق ہے۔ اور اسی طرح اگر ہمارے ساتھ کوئی برائی کرے اور ہم اس کی برائی کو برداشت بھی کریں اور اس کے ساتھ نیکی بھی کریں تو یہ نیکی دوہرے اجر کی حق دار ہوگی۔
اگر شدائد شدید تر ہو کر خدا کے بندوں کے لیے مذہبی جبر کی صورت اختیار کر جائیں تو صبر کا یہ صلہ دوہرے اجر سے بڑھ کر بے حساب صبر کی شکل بھی اختیار کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ یَا عِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ لِلَّذِیْنَ أَحْسَنُوْا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ وَأَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ إِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْْرِ حِسَابٍ.(الزمر ۳۹: ۱۰)
’’کہہ دو، اے میرے بندو، تم جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو لوگ اس دنیا میں نیکی کریں گے۔ ان کے لیے آخرت میں نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے۔ جو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے، ان کا صلہ بے حساب پورا کیا جائے گا۔‘‘
صبر کی اہمیت اس پہلوسے بھی قرآن کی روشنی میں ہمارے سامنے آتی ہے کہ صبر ان اوصاف میں سے ہے کہ جو نیکی پر چلنے میں ہماری مدد کرتاہے۔ صبر اصل میں ہمارے ذہن و قلب کا حصہ بن کرایک نفسیات کی تخلیق کرتا ہے۔ جوہمارے لیے ممد و معاون ہوتی ہے۔
یہ نفسیات یہ ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے بنی ہے۔ ہمیں اس میں کامیاب ہوناہے۔ اس دنیا کی ہر مشکل اور ہر آسانی اصل میں میرے امتحان کے لیے آتی ہے۔ میں ہر لمحہ امتحان میں ہوں۔ مجھے کوئی دھکے دے یا گھر سے نکال دے ، کوئی گالی دے یا تہمت باندھے، کوئی مذاق اڑائے یا نام بگاڑے، کوئی جسمانی اذیت دے یا ذہنی، سب میرے لیے امتحان ہیں۔میں نے ان میں کامیاب ہونا ہے ۔اس بات پر ہر گھڑی قائم رہنا ہی صبر کی نفسیات ہے ۔ چنانچہ اس نفسیات کے حامل کو جب بھی مشکل پیش آئے گی تو وہ درج ذیل دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرے گا:
پہلا راستہ: اگر وہ اسی آزمایش کے لحاظ سے سمجھے گا کہ اسے انتقام لینا چاہیے اور یہی حق کا تقاضا ہے اور اگر انتقام نہ لیا گیا تو یہ شخص ظلم کرنے کا عادی ہو جائے گا تو پھر قانون و شریعت کے مطابق انتقام لے گا اور اتنا ہی انتقام لے گا جتنا اس پر ظلم کیا گیاہے۔
دوسرا راستہ : اگر آزمایش کا تقاضا اسے یہ معلوم ہورہا ہو کہ اس کو معاف کرنا ہی بہتر ہے ،نہ صرف معاف کرنا ، بلکہ اس کے ساتھ نیکی کرنا بھی ضروری ہے تو اس صورت میں وہ نیکی بھی کردے گا۔
یہ نفسیات جس میں آخر ت کی کامیابی اصل کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس پر استقامت دکھانا ہمیشہ اس بات میں معاون رہے گا کہ آپ کے حوصلوں کو پست نہ ہونے دے اور آپ کو نیکی اور خیر کی طرف لگائے رکھے۔
مزید یہ بات بھی ہے کہ اس نفسیات کے اثرات کے بعد آدمی اگر کسی وقت مشکل میں ڈگمگانے لگے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہو کر اسے بچا لیتی ہے۔ یعنی اصل میں صبر حق پر قیام کے لیے ہماری دوہری مدد کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ ہماری نفسیات اور ہمارے قویٰ اور ذہن کو مضبوط بناتا ہے اور دوسرے یہ کہ اگر ہم کہیں کمزور ہونے لگتے ہیں تو اللہ کی مدد آنے کا باعث بنتا ہے۔یہ ہم اوپر جان چکے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کے پاس کن مشکلات میں اللہ کی برہان نازل ہوئی۔
’نفس مطمئنۃ‘کو عام طور سے غلط سمجھا جاتا ہے کہ شاید یہ بھی نفس کی نفس لوامہ کی مانند کوئی قسم ہے۔ ایسا نہیں ہے ۔ یہ دراصل ہر وہ آدمی ہے جو اپنے رب کی نعمتوں پر شکر گزار رہا، بندوں کے حقوق ادا کرتا رہا، تنگی میں صابر و قانع رہااور اسی طرح زندگی کے تمام مراحل میں اپنے رب کے ہر فیصلہ پر راضی رہا۔
صحابۂ کرا م رضوان اللہ علیہم کے آثار میں یہ بات منقول ہوئی ہے کہ جو صبر نہیں کرسکتا، اس کے پاس ایمان نہیں ہے۔یہ بات صحابہ کی زندگیوں کا نچوڑ ہے۔ انھیں جس طرح کی مشقتیں سہنی پڑیں اور انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ بے صبرے قسم کے لوگ یا تو منافق بن کر رہتے رہے اور یا پھر ارتداد کا شکار ہوئے (مانعین زکوٰۃ وغیرہ)۔اگر اس زندگی کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس وقت اصل مسئلہ کیا تھا تو قرآن کا تجزیہ بھی یہی ہے کہ یہود جو ایمان نہیں لا پارہے تھے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ان میں صبر (حق پر قیام کی کوشش) کا وصف نہیں تھا اور یہی چیز صحابہ نے ان ایمان لانے والوں میں دیکھی جو منافقت اختیار کیے ہوئے تھے ۔ اس لیے صبر کی اہمیت اس پہلو سے نہایت بڑھ جاتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ نئے سامنے آنے والے حق کو ماننا صبر کے بغیر ممکن نہیں ، بلکہ اگر کسی حق کو آدمی مانتا ہے تو اس پر قائم رہنا بھی صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
صبر ایک وسیلۂ ظفر ہے۔ اسی سے ایمان و حق حاصل ہوتا اور اسی سے اس پر قیام ممکن ہو تا اور اسی سے ہم نے اوپر یہ جانا ہے کہ حق پر قائم رہنے کے لیے خدا کی مدد و نصرت ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں آدمی کے پاس نہ ہوں تو ایما ن بچانا کیسے ممکن ہے۔آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنے آپ کو حق پر قائم رکھیں ۔ یہی صبر ہے ۔ اس منزل میں جتنی مشکل آئے گی خدا اس میں سے آپ کے لیے حق پر قائم رہنے کے راستے نکال لے گا۔
اس باب میں ہم نے یہ جانا کہ حق کی بقا کا انحصار صبر پر ہے۔ یہ دنیا میں بھی اور آدمی کے دل میں بھی حق کے قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔اگر یہ وصف انسانوں میں باقی نہ رہے تو یہ دنیا حق سے محروم ہو جائے گی۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی کی آزمایشوں میں بے صبرا ہو تو وہ دونوں امتحانوں (تنگی و آسانی )میں ایک تھڑ دلا انسان بن کر نمودار ہوتا ہے۔
اسی طرح صبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہمیں حاصل ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی معیت کی صورت میں ہمارے لیے ایک سہارا بنتی ہے۔ ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ کا اصول بتاتا ہے کہ اللہ کی مدد محض مسلمان کہلائے جانے والوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ جس اسلام کے ماننے والے ہیں، اس پر صبر اور ثابت قدمی سے عمل کرنے والے بھی ہوں۔ وہ ہر ہر قدم پر اس پر قائم رہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی مدد ان کی زندگیوں میں ظاہر ہوگی۔
صبر احسان ہے، یعنی انسان کا اپنے ساتھ بہترین حسن سلوک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو آخرت کی تیاری میں لگا دے اور اس کی بہترین صورت صبر کاوصف ہے۔
صبر کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اس کے بعد جو نیکی بھی ہم کریں گے وہ صبر کی نیکی کے ساتھ مل کر دوہرے اجر کی مستحق ہو جائے گی۔ یعنی جب ہم ابتلا میں ہوں اور اس ابتلا میں خدا کی یاد سے غافل نہ ہوں اور جیسے ہی نماز کا وقت آئے تو ہم خدا کے حضور کھڑے ہو جائیں تو یہ نماز دوہرے اجر کی مستحق ہے۔ اور اسی طرح اگر ہمارے ساتھ کوئی برائی کرے اور ہم اس کی برائی کو برداشت بھی کریں اور اس کے ساتھ نیکی بھی کریں تو یہ نیکی دوہرے اجر کی حق دار ہوگی۔
صبر کو قرآن مجید نے نماز کی طرح ذریعۂ استعانت بھی قرار دیا ہے۔ یعنی اس کے ذریعے سے ہم مشکلات میں مدد حاصل کرسکتے ہیں۔اسی استعانت کی ایک اہم مثال یہود سے مطالبۂ ایمان کے وقت کی ہے۔ ان سے یہ کہا گیا کہ محمد عربی پر ایمان لانا حق پرستی کا تقاضا ہے اور اس حق پر قائم رہنے کے لیے صبر سے مدد لو یعنی حق پرستی کی روش اختیار کرو۔ اسی چیز کے پیش نظر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کہا کرتے تھے کہ ’لا ایمان لہ لمن لاصبر لہ‘۔
____________