HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

صبر کیا ہے؟ (حصہ دوم)

استعانت و صبر

قرآن مجید میں ’استعینوا بالصبر والصلٰوۃ‘ (البقرہ) میں صبر کو استعانت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ صبر بعض مشکلات میں ہمارا مددگار بنتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اللہ کی مدد اور توفیق حاصل کرنے کا ذریعہ صبر بنتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صبر ہماری مدد کیسے کرسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ اللہ کی اس مدد سے کیا مطلب ہے۔ 

مندرجہ بالاآیت میں مدد سے مراد ایمان لانے یا اس پر قائم رہنے پر مدد ہے۔دنیا کی مشکلات رفع کرنے میں بھی اللہ کی مدد صابر آدمی کے شامل حال ہوتی ہے ، مگر ہر دفعہ ایسا ہونا لازم نہیں ہے۔ یعنی ہماری مراد یہ ہے کہ یہ لازم نہیں کہ صبر کرنے والے آدمی کے ساتھ ہر ہر دفعہ ایسا ہو کہ ادھر وہ صبر کرے اور ادھر اس کی مشکل رفع ہو جائے۔ یہ دنیا چونکہ آزمایش کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے ہر دفعہ اگر نیکی کا صلہ اچھا مل جائے یا اس پر نقصان نہ ہو تو آزمایش باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے کہ نیکی کے ساتھ اگر خیر کے نتائج ہمیشہ نکلنے لگیں توغیب کا وہ پردہ اٹھ جائے گا، جس کی وجہ سے انتخاب کے لیے آخرت تک انتظار کی ضرورت نہیں ہوگی۔

یہ دنیا چونکہ اس لیے بنائی گئی ہے کہ نیکی کرنے والے کو دراصل اجر آخرت میں ملنا ہے۔ اسے اس د نیا میں نیکی پر ہمیشہ کوئی بھلائی نہیں ملتی، بلکہ اللہ تعالیٰ آزمانے کے لیے کبھی کبھی مزید سختی کردیتے ہیں تاکہ نیکی پر غیب کا پردہ پڑا رہے اور آزمایش کا یہ سلسلہ چلتا رہے۔

لیکن ایک مدد آپ کو ہر دفعہ شرطیہ طور پر ملے گی کہ آپ اگر صبر کریں گے اور حق پر قائم رہنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کا ایمان بچانے کے لیے لازماًآئے گی۔اس کی بہترین مثال سیدنا یوسف کی زندگی میں ہے کہ جب زلیخا نے اپنے پورے اصرار کے ساتھ اور بادشاہ کی بیوی ہونے کے زورپر انھیں کمرے میں بند کرلیا تو اس کے باوجود اللہ کی مددنے آکر انھیں بچا لیااوران کے اندر کے ایمان وتقویٰ میں وہ قوت پیدا ہوئی کہ وہ بھاگ نکلے۔ ٹھیک اسی طرح آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ مگر شرط یہی ہے کہ آپ ایمان و تقویٰ پر قائم رہیں اور اس بات کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار رہیں کہ اس کے بعد سیدنا یوسف کی مانند کچھ مشکلات سہنا پڑیں گی، جیسے انھیں جیل جانا پڑا ۔

اوپر ہم نے عرض کیا کہ صبر اللہ کی مدد آنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ مدد اللہ تعالیٰ کرتے ہیں ،مگر صبر ہمیں کرنا ہے، جیسا کہ اس آیت سے اشارہ ملتا ہے: ’استعینوا باللّٰہ واصبروا‘ (۷: ۱۲۸) ’’اللہ سے مددمانگو اور صبر کرو۔‘‘ یعنی اللہ کی مدد اور توفیق کے شامل حال ہونے کا ذریعہ صبر بنتا ہے۔صبر اصل میں ہماری طرف سے ایک شرط ہے جو اگر ہم پوری کردیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ اگر آپ یہ فیصلہ کریں کہ آج کے بعد سے آپ جھوٹ نہیں بولیں گے۔اوراگر آپ ایسے مواقع پر جہاں ہمیں نقصان کااندیشہ ہو ، وہاں بھی جھوٹ نہ بولیں تو اللہ تعالیٰ کی یہ توفیق ہمیں ہمیشہ حاصل رہے گی کہ آپ پرا گر وہ کوئی مشکل بھیجے گا توایسی نہیں ہو گی کہ آپ ایمان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

ہمیں اپنی زندگی میں ہر موڑ پر صبر سے مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً گھریلو مسائل میں صبر ایک نہایت ہی مددگار ہتھیار ہے۔ جو ہمیں کئی جھگڑوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ گھریلوجھگڑوں میں صبر سے مدد لینے کا طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی آپ کے گھر میں وقوع پذیر ہوا ہے، اس پر جذبات میں آکر کوئی اقدام کرنے سے پہلے معاملات کی تحقیق کریں۔ مثلاً ساس بہو کے جھگڑے میں اگر بہو کا شوہر والدہ کی بات سنے اور سنتے ہی بیوی کے خلاف کوئی انتہائی اقدام کرے تو یہ بے صبری ہو گی یا بیوی کی بات سنتے ہی والدہ کے خلاف کوئی بری حرکت کر ڈالے تو یہ بھی ناانصافی ہو گی۔

آپ پر ایسے مواقع پر لازم ہے کہ آپ جھگڑے کے دونوں فریقوں کا موقف جانیں۔ جھگڑے کی اصل وجہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔اگر اس کا تدارک ہو سکتا ہے تو وہ کریں اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے عدل و انصاف پر قائم رہیں ۔اس لیے کہ اگر آپ نے عدل نہ کیا تو یہ چیز موقف حق سے ہٹنا ہے۔ اور یہ ثابت قدمی اور صبر کی خلاف ورزی ہے۔ آپ کا فریقین میں سے کسی کے خلاف فوری کوئی قدم نہ اٹھانا ہی یہاں صبر ہے۔

دفتر اور کاروبار میں بھی اسی طریقے کو اپنانا چاہیے ۔ اس رویے سے آپ کے ساتھی آپ سے متنفر و بے زار نہیں ہوں گے اور آپ کو ایک سمجھ دار آدمی سمجھتے ہوئے آپ کے ساتھ ہمیشہ اچھا تعلق رکھیں گے ۔ اگر آپ سربراہ ہیں تو آپ اپنے تجربہ کار ساتھیوں سے محض جلد بازی کے فیصلوں سے محروم نہیں ہوں گے اور ان کی خیر خواہی آپ کو حاصل رہے گی وغیرہ ۔ اگر آپ ملازم ہیں تو آپ اپنے ساتھیوں کے لیے ایک ایسے متوازن رویے کے ساتھ سامنے آئیں گے جو آپ کے لیے دفتری زندگی میں ہمیشہ ممد و معاون ہو گا۔

دینی زندگی میں اگر صبر نہیں ہے تو آپ قدم قدم پر توبہ شکنی کررہے ہوں گے۔یہاں ہرہر قدم پر صبر کی ضرورت ہے۔ دین چونکہ اخلاق کا نام بھی ہے اور عبادت کا بھی ، اس لیے دونوں پر قائم رہنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے ۔ یہاں صبر کے معنی انھی دونوں چیزوں پر دوام کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ

أَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَدْوَمُھَا وَإِنْ قَلَّ.(بخاری ، رقم ۶۵۴۱) 
’’اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جو خواہ مختصر ہو، مگر ہمیشہ ہوتا رہے۔‘‘

یہود سے جب اللہ تعالیٰ نے یہ بات فرمائی کہ ’استعینوا بالصبر والصلاۃ‘ ’’ نماز اور صبر سے مدد لو‘‘ تو یہ اس پس منظر میں کہی گئی تھی کہ یہود باوجود اس کے کہ وہ تورات پڑھ رہے تھے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیشین گوئیاں پڑھتے تھے۔ اور اسی لیے مدینہ کے پاس یثرب میں آکر مقیم ہوئے تھے۔ مگر جب وہ نبی آیا تو انھوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ وہی ہوا جو یہود کی بابت سیدنا مسیح نے فرمایا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم دلہنوں کی طرح تیار ہو کر بیٹھو اور انتظار کرتے رہو ، مگر جب وہ دلہا آئے تو تم سو چکو۔یعنی ان سے مطالبہ بس یہی تھا کہ حق پر ثابت قدمی دکھاؤ ، یہ حق خواہ تمھارے بھائیوں اور دشمنوں ہی کے پاس کیوں نہ ہو۔اگر تم حق پر قائم رہنے کی کوشش کرو گے تو یقیناًیہ عمل تمھیں ایمان کی طرف لے جائے گا۔

یہود سے کفر کا صدوراس لیے ہوا کہ ان کے نزدیک حق پر قائم رہنا اصل مسئلہ نہیں رہا تھا۔ وہ تو بس اپنے آپ ہی کو حق پر سمجھتے تھے۔ خواہ وہ بڑی سے بڑی گمراہی کا شکار ہوں۔چنانچہ جب رسول امی مبعوث ہوئے تو حق پر قیام کے بجائے انھوں نے اپنے تحریف شدہ دین اور اپنی بدعات اور بد عقیدگی پر قائم رہنے ہی کو ترجیح دی۔ چنانچہ قرآن نے ان سے کہا کہ تم حق پر رہنے کا جذبہ پیدا کرو۔ یہی صبر ہے جس سے تمھیں اس نبی امی کو ماننے کی توفیق و مدد ملے گی۔

قومی تعمیر یا سیاسی کاموں میں بھی صبر ایک نہایت ہی اعلیٰ قسم کا مدد گار ہے۔ یہ آپ کو جلد بازی میں ڈالے بغیر نتائج کے انتظار کی توفیق بخشتا ہے۔آپ طویل المعیاد کی منصوبہ بندی (Long term planning)کر سکتے ہیں۔ جس کے نتائج زیادہ گہرے اور زیادہ دیر پا ہوتے ہیں۔ انبیا چونکہ اسی طرح کی منصوبہ بندی کے تحت کام کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کی ذات سے امتیں وجود پذیر ہوتی ہیں۔ لیکن جو لوگ کام تو بعض اوقات بڑے بڑے کرجاتے ہیں ، مگر اس بے صبری کی وجہ سے ایسے نقائص اپنے کاموں میں چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ کام دیرپا نہیں رہتے ۔

 

باہمی اتحاد اور صبر

صبر کا ایک اور ساتھی قرآن مجید نے اتحاد کو بنایا ہے۔ قرآن مجید نے میدان جنگ میں صبر کے حکم سے پہلے باہمی تنازعات سے روکا ہے اور یہ کہا ہے کہ اگر تم نے باہمی تنازعات نہ چھوڑے تو تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔(الانفال۸: ۴۶) قرآن مجید کے اس مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان جنگ میں ثابت قدمی(صبر) اگر فوج میں اتحاد نہ ہو تو پیدا نہیں ہو سکتی۔ ان کے قدم اکھڑ جائیں گے اور نتائج دشمن کے حق میں نکلیں گے۔

میدان جنگ کے دشمنوں سے نبرد آزمائی بھی ثابت قدمی اور صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ نفس پر حملہ آور شیاطین سے جنگ میں بھی ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔میدان جنگ میں جس طرح اتحاد پیدا کرنے کے لیے باہمی تنازعات سے چھٹکاراپانے کو کہا گیا ہے، ویسے ہی شیطان کے مقابل میں آنے کے لیے بھی باہمی منافرتوں کو چھوڑ کر آپس میں ایک خیر خواہانہ تعلق بنانا پڑے گا۔ جس کا حکم قرآن مجید نے سورۂ عصر میں یوں دیا ہے:

وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ، وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.(۱۰۳: ۱۔۳)
’’(رسولوں کا)زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں ہے، ہاں وہ نہیں جو ایمان لائے، انھوں نے نیک اعمال کیے، حق بات کی نصیحت کی اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی۔‘‘

اس سورہ سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ دنیا میں برائی سے بچ کررہنے کے لیے اور اپنے نفس کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم آپس میں ’تواصی بالحق‘ اور ’تواصی بالصبر‘ کی بنیاد پر اپنے تنازعات کو بھلا کر نصیحت اور اصلاح کرنے اور اصلاح ہونے کے بعد اس صحیح حالت پر قائم رہنے کے لیے صبر (ثابت قدمی) کی تلقین بھی کریں۔

صبریا ثابت قدمی اس سورہ کے دروبست سے معلوم ہو رہا ہے کہ باہمی تعاون ہی سے پیدا ہوگی۔

 

صبر اور مرحمت

صبر کا ایک اور ساتھی مرحمت یا ہمدردی ہے ، جسے قرآن مجید نے صبر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صبر کے معاملے میں ہمدردی کا کردار ویسا ہی ہے جیسا ہم نے اوپر تواصی کے حوالے سے دیکھاہے۔ ہمدردی ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ اور ہمارے لیے ایک دوسرے کے ساتھ نظری و عملی اختلافات کو کم کرتی ہے۔ ہمارے اندر اگر دوسروں کے لیے ہمدردی پیدا ہو جائے تو لوگوں کو دیکھنے کا زاویۂ نظر تبدیل ہو جاتا ہے اور ہم ایک دوسرے کے بارے میں اچھے احساسات رکھنے لگتے ہیں، جس کی بنا پر ہماری باتیں اور ہمارا تعلق ایسا بنتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نفرت اور دشمنی رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیر خواہ بنتے ہیں۔ یہ باہم ہمدردی ہمارے اندر ایسے جذبے پیدا کرتی ہے کہ جو ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی اور محبت کو نمو دیتے ہیں۔ یہ چیز ہمارے ماحول میں ایسی اپنائیت پیدا کردیتی ہے کہ ہمارے لیے سب لوگ خیرخواہ بن جاتے اور ہمیں غلطی کرتے دیکھ کر روکتے، ہمارے ہاتھ آگے بڑھ کر تھام لیتے ہیں ۔ چنانچہ ہم اپنے موقف حق سے ہٹنے سے بچ جاتے ہیں۔قرآن مجید نے صبر کے ساتھ مرحمت کا ذکر سورۂ بلد میں یوں کیا ہے:

ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ.(۹۰: ۱۷) 
’’پھر ان میں جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور ہمدردی کی نصیحت کی۔‘‘

جس طرح مرحمت اور ہمدردی صبر کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کردیتی ہے، اسی طرح صبر کی صلاحیت کے بغیر ہمدردی اور خیر خواہی وجود میں نہیں آسکتی ۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ سورۂ عصر کی تفسیر میں اس آیت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ دیکھو تمام بھلائیوں اور نیکیوں میں سے قرآن نے اس نیکی کو کس طرح چھانٹ لیا ہے جو درحقیقت سب نیکیوں کی اصل اور سب کا خلاصہ ہے۔صرف مرحمت ہی کا رشتۂ محبت ہے، جو پراگندہ اور بکھرے ہوئے دلوں کو ایک نقطہ پر مجتمع کرتا ہے اور سب کو جود و کرم اور فیاضی و ہمدردی کے جوش سے معمور کرکے زندہ و حساس بنا دیتا ہے۔... اس کے بعد صبر کی تعلیم فرمائی کیونکہ جب تک آدمی لوگوں کی پہنچائی ہوئی اذیتیں جھیلنے اور ان کی غلطیوں سے چشم پوشی اور درگزر کرنے کا عادی نہ ہوجائے اس وقت تک صحیح مرحمت وجود میں نہیں آسکتی۔‘‘ (مجموعۂ تفاسیر فراہی ۳۴۴) 

صبر اور حق

صبر اور حق بھی سورۂ عصر میں ایک دوسرے کا قرین بن کر آئے ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ سورۂ عصر کی تفسیر میں ان دونوں کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

’’نجات کا دارو مدار عقلی اور اخلاقی قوتوں کی اصلاح پر ہے۔عقل اور دل، دونوں کے سختی اور نرمی کے اعتبار سے دو پہلو ہیں۔عقل کی نرمی کا پہلو یہ ہے کہ وہ حق کے سامنے فوراً جھک جانے کے لیے مستعد رہے، وہ جہاں بھی اور جس وقت بھی ظاہر ہواور قلب کی نرمی یہ ہے کہ وہ خالق کی محبت اور مخلوق کی ہمدردی میں ہمیشہ سرشار رہے۔عقل کا کام یہ ہے کہ وہ حق پر ایمان لاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کی صفات اور اس کی آیات پر ایمان۔ قلب بندگی کرتا ہے اور پھر بے تابانہ اپنے مولاے حقیقی کی طرف لپکتا ہے۔اسی طرح دوسری طرف خلق کی ہمدردی کا جو فرض اس پر عائد ہوتا ہے، اس کے جوش و احساس سے معمور ہو جاتا ہے۔
عقل کی سختی کا پہلو یہ ہے کہ وہ اس حق پر ، جوآنکھوں سے اوجھل ہے، ثابت قدم رہے۔ اس باطل کو جو نگاہوں کے سامنے موجود ہے، چھوڑے۔ اس سختی کے پہلو سے دل کافرض یہ ہے کہ وہ مصائب وشدائد کے مقابل میں ڈٹا رہے۔اور اپنے قدم جادۂ مستقیم سے نہ ڈگنے دے اور قابو پا جانے کے بعد عفو و درگزر سے کام لے۔
یہ حق اور صبر کا تعلق عقل و دل سے ہوا۔‘‘(مجموعۂ تفاسیر فراہی ۳۵۵)

 

دوسرے یہ کہ حق کی بقا کا انحصار صبر پر ہے، صبر کے بغیر حق پر قیام ناممکن ہے۔ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی آل عمران کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 

’’دین کا بڑا حصہ اسی صبر پر قائم ہے۔اگر آدمی کے اندر یہ وصف نہ ہو تو کوئی طمع ، کوئی ترغیب، کوئی آزمایش بھی اس کو حق سے ہٹا کر باطل کے آگے سرنگوں کردے سکتی ہے۔جو شخص سچائی کے راستے پر چلنا چاہے اور اس پر چل کر اس پر استوار رہنے کا خواہش مند ہو اسے سب سے پہلے اپنے اندر صبر کی صفت پیدا کرنی چاہیے۔ مزاحمتوں کے مقابلے کے لیے جبکہ اس راہ میں ہر قدم پر مزاحمتوں سے مقابلہ ہے۔ اصلی ہتھیاربندے کے پاس یہی ہے ۔فلسفۂ دین کے نقطۂ نظر سے دین نصف شکر اور نصف صبر ہے، لیکن عملی تجربہ گواہ ہے کہ آدمی میں صبر نہ ہو تو شکر کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۴۳)

 

صبر اور ثابت قدمی 

اگرچہ صبر کے معنی ثابت قدمی کے ہیں، مگر جس طرح ہم مترادفات کو ایک دوسرے کے ساتھ عمل و نتیجہ اورلفظ کے اندر کسی معنوی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ٹھیک ایسے ہی سورۂ بقرہ کی درج ذیل آیت میں صبر کے ایک نتیجہ کے طور پر ثابت قدمی کا ذکر ہوا ہے۔ یہ آیت جالوت کے ساتھ بنی اسرائیل کی جنگ کے حوالے سے ہے ، جس میں صالحین یہود نے یہ دعا کی کہ:

 

رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ.(۲: ۲۵۰)
’’اے ہمارے رب، ہم پر صبر انڈیل دے، اور ہمارے قدم مضبوط رکھ اور ہمیں کافر لوگوں پر غلبہ عطا کر۔‘‘

 

اس آیت میں صبر اور ثابت قدمی سبب اور مسبب کے طور پر عطف ہوئے ہیں۔ یعنی صبر ہی وہ چیز ہے جس کے حاصل ہونے سے ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے ۔

 

صبراور دانائی(حکمت)

قرآن مجید نے مشرکین مکہ کے ظلم وستم کے مقابل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کو ان کی اس برائی کے بدلے میں نیکی کرنے کا حکم دیا۔اور کہا کہ جو اپنے دشمنوں کے خلاف یہ رویہ اختیار کرے گا اس کا دشمن بھی ایک پرجوش دوست بن جائے گا۔ پھر اس رویے کو قرآن مجید نے دانائی قرار دے کر کہا کہ یہ دانائی صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملتی ہے ۔(حمٰ السجدہ ۴۱: ۳۵)

قرآن مجید کا یہ بیان یہ بتا رہاہے کہ صبر ایک اعلیٰ درجے کی سمجھ داری سے پیدا ہوتاہے۔ اور ایک اعلیٰ سمجھ داری یہ ہے کہ ہم برائی کے بدلے میں نیکی کرتے چلے جائیں۔ یا ایسا موقف اختیار کریں کہ جس سے ہمارے ستم گر میں یہ احساس پیدا ہو کہ میرا مظلوم ایک اور ہی دنیا کا آدمی ہے۔ ایسی ہی بصیر ت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات میں جابجا ملتی ہے ۔ محض آپ کے اسی سلوک کی بنا پر نہ جانے کتنے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ہوں گے۔ 

 

بصیرت صابر

مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بصیرت کی ایک جھلک اس آدمی کے مقابل میں ہمارے سامنے آتی ہے ، جس نے آپ سے قرض واپس لینا تھا۔چنانچہ وہ بے وقت مطالبہ کرنے لگا اور کچھ سختی ظاہر کی ۔ صحابہ کو اس پر غصہ آیا ،لیکن آپ نے فرمایا: اسے معاف کرو،اس لیے کہ ’ان لصاحب الحق مقالا‘، ’’جس کا ہمارے ذمہ کچھ حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق حاصل ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس کے قرض سے بہتر قرض ادا کردیا۔(بخاری ، رقم ۲۱۸۳) اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ صابر آدمی کس بصیرت کے ساتھ معاف کرتا ہے۔وہ منتقم نہیں ہوتا، جس سے وہ لوگوں کے دل جیت لیتا ہے۔ چنانچہ یہ آدمی دائرۂ اسلام میں داخل ہوا۔

 

اللہ اور صبر

قرآن مجید کا فرمان ہے:

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ. (النحل۱۶: ۱۲۷) 
’’اور صبر کرو اور تمھیں اللہ کے بغیر صبرحاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘

اس آیت میں صبر کے حصول کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کی وضاحت میںیہاں ہم چند پہلووں کا ذکر کرنا چاہیں گے۔ اوپر والی آیت کو سامنے رکھیے اور قرآن کے اس فرمان کو بھی سامنے رکھیے کہ ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ ،’’ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ان دونوں آیتوں کو تقابل میں رکھیں تو صبر اللہ سے ملتا ہے اور صبر کرنے والے کے ساتھ اللہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ صبر اللہ کے تعلق کی مضبوطی سے ملتا ہے اور صبر سے اللہ ملتا ہے۔ اس طرح سے ان دونوں میں ایک دوری (Circular) تعلق وجود میں آجاتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایمان باللہ اور صبر لازم و ملزوم ہیں۔

اللہ اور صبر میں ایک اور تعلق بادنی تامل سامنے آتا ہے اور وہ اللہ سے تسلیم ورضاکا تعلق ہے۔ یعنی اللہ کے حوالے سے صبر کے معنی یہ ہوئے کہ آپ ہر حالت میں اللہ کے رب ہونے پر راضی رہیں۔ مشکل اور آسانی ، تنگی اور خوش حالی ، صحت اور بیماری ہر طرح کے حالات میں اس بات پر راضی رہیں کہ اللہ میرا رب ہے ۔یہی وہ ایمان کی منزل ہے ، جسے حاصل کرنے میں صبر ایک بنیادی ضرورت ہے۔اگر اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ اس کے تعلق کو نبھانے کے لیے صبر کا ساتھ نہ ہو توآدمی ہر قدم پر ڈگمگا تا اور خدا سے شکوہ و نالہ کر نے لگتا ہے۔اور پھر وہ درجہ بھی جلدہی آجاتا ہے کہ آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسرے دروازوں کے دھکے کھا رہا ہوتا یا الحاد کے نہ ختم ہونے والے بے منزل راستے پر جا نکلتاہے۔

خدا کے ساتھ اسی وفا شعاری والے تعلق کا نام تقویٰ ہے۔خدا کے ساتھ جڑے رہنا اور ہر حالت میں اسے رب تسلیم کیے رکھنا، یہ استقامت ہے ۔ اس استقامت کا مطالبہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا ہے: ’إن الذین قالوا ربنا اللّٰہ ثم استقاموا‘ یعنی جنھوں نے حق قبول کیا اور پھر اس پر قائم رہے۔ یہ صبر کے دینیات میں اصل معنی ہیں۔ یعنی یہ کہ آپ اس بات پر ہمیشہ قائم رہیں کہ اللہ میرا رب ہے۔

اللہ کے ساتھ صبر کا تعلق نماز کی طرف بھی ایک اشارہ کرتا ہے۔قرآن مجید کا فرمان ہے: ’وما صبرک الا باﷲ‘ ،’’تمھیں اللہ کے بغیر صبر حاصل نہیں ہو سکتا‘‘اور اسی طرح قرآن مجید کا فرمان ہے: ’استعینوا بالصبر والصلاۃ‘، ’’نماز اور صبر سے مدد لو۔‘‘ اس میں اللہ اور صبر اور اللہ اور نماز کا ایک باہمی تعلق بنتا ہے ۔ اللہ اور صبر کا باہمی تعلق ہم نے اوپر جانا۔ یہاں ہم صرف نمازکے حوالے سے بات کریں گے۔نماز اصل میں خدا کے ساتھ زندہ اور قریبی تعلق کا سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’واسجد واقترب‘ ،’’سجدہ کر اور قریب ہو جا۔‘‘ اوپر ہم نماز اور صبر کی سرخی کے تحت یہ پڑھ آئے ہیں کہ نمازدراصل اللہ کی یاددہانی کا ذریعہ ہے ۔ یہ یاددہانی اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔خدا کے ساتھ تعلق کی مضبوطی دراصل انسان میں حوصلہ و ہمت کو پیدا کرتی ہے ، جس کی بنا پر آدمی بڑی سے بڑی مشکل اٹھانے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے۔

 

بے صبری اور خدا کی ناراضی

قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے ، اگر آدمی ان میں صبر نہ کرے تو خدا ناراض ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے ایک گناہ کی طرح سمجھتے ہیں۔اس لیے بے صبری درحقیقت ایک گناہ بھی ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے آدمی شکر نہ کرے اور ناشکری کرنے لگے۔بظاہر شکر گزاری کوئی فرض و نفل کی طرح کی چیز نہیں ہے ۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں شکرگزاری اصل مطلوب ہے۔ سارا دین اور ساری شریعت اصلاً اسی شکرگزاری ہی کے لیے آئے ہیں۔جو آدمی اس شکرگزاری کا انکار کرتا ہے ، وہ درحقیقت سارے دین کی ضرورت کا منکر ہے۔ ٹھیک ایسے ہی ہم یہ بات اوپر پڑھ چکے ہیں کہ شکر کا دوسرا رخ صبر ہے۔ چنانچہ جس طرح شکر مطلوب اصلی ہے ،ایسے ہی صبر مطلوب اصلی ہے۔ 

 

یہود کی اصل بیماری: بے صبری

سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی من و سلویٰ پر بے صبری کے بیان کے فوراً بعد یہ فرمایا ہے کہ ہم نے ان پر ذلت و پستی اور کم ہمتی تھوپ دی۔یہ بات اگرچہ ان کے مسلسل جرائم ہی کی بنا پر تھی، مگر ان میں اصل جرم خداکے ساتھ اپنے عہد نبھانے میں کوتاہی تھی جسے آپ جان چکے ہیں کہ ہم عدم صبر ہی سے تعبیر کریں گے ۔ اس لیے کہ صبر اپنے موقف ،اپنے عقیدے اور حق پر قائم رہنے کا نام ہے۔سورۂ بقرہ میں یہ قصہ یوں نقل ہوا ہے:

’’اور یاد کرو، جب تم نے کہا : اے موسیٰ ،ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے تو اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو کہ ہمارے لیے وہ چیزیں نکالے جنھیں زمین اگاتی ہے ، سبزیاں، ککڑیاں، لہسن، مسور اور پیاز جیسی۔ کہا (موسیٰ علیہ السلام نے): کیا تم اعلیٰ کو ادنیٰ سے بدلنا چاہتے ہو، (مصر جیسے) کسی شہرمیں اترو گے تو وہ چیزیں تمھیں ملیں گی ،جو تم طلب کرتے ہو اور ان پر ذلت و پستی تھوپ دی گئی۔ اور وہ خدا کا غضب لے کر لوٹے۔‘‘(البقرہ ۲ :۶۱)

اللہ تعالیٰ کا یہ غضب یہود پر اسی بے صبری کے رویے کی بنا پر اترا۔ یہود کی اس تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ بقرہ میں جب انھیں ’ استعینوا بالصبر والصلوٰۃ‘ کہا گیا تو جس طرح یہ بات کم و بیش سب مفسرین نے لکھی ہے کہ یہود درحقیقت نماز ترک کرچکے تھے۔مگر انھوں نے صبر کا نہیں لکھا ، مگر حقیقت یہی ہے کہ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی پوری طرح ثابت ہے کہ ہرقدم پر اصل میں انھوں نے بے صبری بھی دکھائی ہے۔چنانچہ انھیں جب یہ حکم دیا گیا کہ نمازاور صبر سے مدد لو تو یہ بات یوں ہے کہ ان کی ایک کمزوری کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم نے اپنی لمبی تاریخ میں نماز قائم رکھی ہوتی، اسے ضائع نہ کیا ہوتا اور اسی طرح ہمیشہ ہر حالت میں حق کو ڈھونڈتے اور اس پر قائم رہنے کی کوشش کرتے تو یقیناًتم آج بھی برگزیدہ امت ہوتے۔

چنانچہ اس رسول پر ایمان لانے میں ذرا بھی مشکل محسوس نہ کرتے اور ان دو شرائط کے پورا کردینے کے بعد اصل میں تم وہ شرائط پوری کردیتے جنھیں قرآن ہدایت کے لیے ضروری کہتا ہے۔ قرآن جسے تقویٰ بھی کہتا ہے اور یہ تقویٰ بس اسی حق پر قیام اور بندگی کا نام ہے ۔ حق پر قیام کے معنی یہ ہیں کہ جو حق ہمارے پاس ہے اس پر قائم رہیں اور جو ہمیں غلطی لگی ہے اسے درست کر لیں۔ حق پر قائم رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے اور اسی کوقرآن مجید صبر کہتا ہے۔

 

ایفاے عہد اور صبر

قرآن مجید میں ایفاے عہد کو صبر کا مصاحب نہیں بنایا گیا ، لیکن حدیث میں یہ اکٹھے بیان ہوئے ہیں اور سیدنا عثمان نے بھی ایک موقع پر یہ جملہ بولا کہ میں اپنے عہد پر صابر ہوں۔ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر کے ساتھ عہد کا عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے اور وہ اسی پہلو سے ہوتا ہے کہ آدمی اپنے وعدے پر قائم ہے ۔(ترمذی، رقم ۴۰۷۶)

ایفاے عہد بھی صبر ہی کی ایک شکل ہے۔ اس کے معنی بھی وہی ہیں، جو حق پر ثابت قدمی کے ہیں۔ صبر درحقیقت ثبا ت قدم ہی کا نام ہے۔ یہ ثبات قدم ہر اچھی چیز پر ہے۔اسی کے تحت ایفاے عہد ہے۔ جب آدمی اپنے عہد پر قائم رہتا ہے تو درحقیقت وہ صابر ہے ،اس لیے کہ بسا اوقات عہد کی پاس داری ایک مشکل بن کر سامنے آجاتی ہے ۔

دین اسلام کا ایک بڑا حصہ دراصل عہد ہی ہے ۔ اس جہاں میں دین کی بنیاد عہد الست پر اوراس عہد نبوت پر ہے جو سیدناآدم سے اس وقت لیا گیا جب انھیں زمین پر بھیجا گیا ۔ اسی طرح ایک وہ عہد امانت ہے جو تمام مخلوقات عالم کے سامنے پیش کیا گیا، مگر بنی آدم کے سوا سب نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا ۔بنی نوع آدم کل قیامت کے دن انھی عہد معاہدوں کے لحاظ سے مسؤل ہوں گے۔ عہدالست قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے:

وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ.(الاعراف۷: ۱۷۲) 
’’یادرکھو ، جب نکالا تمھارے رب نے بنی آدم سے ان کی پشتوں سے ان کی ذریت کو اور ان کو گواہ ٹھہرایا خود ان کے اوپر (پھر پوچھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ بولے: ہاں، تو ہمارا رب ہے، ہم اس کے گواہ ہیں۔ (ہم نے یہ اس لیے کیا) مبادا تم قیامت کو عذر کرو کہ ہم تو اس سے بے خبر ہی رہے۔‘‘

عہد نبوت قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے:

قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا، فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ، اُولٰٓءِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ.(البقرہ ۲: ۳۸۔۳۹) 
’’ہم نے کہا: تم سب اتر جاؤ، اگر میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیرو ی کرے گا، تو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم ۔اور جو کفر کریں گے اور جھٹلائیں گے وہی دوزخ والے ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔‘‘

عہد امانت قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے :

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ. (الاحزاب۳۳: ۷۲) 
’’ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمینوں کے سامنے پیش کی تو انھوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈرے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔‘‘

یہ تین بڑے معاہدے ہیں، جن کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ،جن کے ہم محض انسان ہونے کے ناتے سے مکلف ہیں۔ دو معاہدے ہمار ے ساتھ براہ راست ہوئے ہیں اور ایک یعنی عہد نبوت ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے لیا گیاجس کے ہم ان کی اولاد ہونے کے ناتے سے مکلف ہیں۔

اگر ہم صابر بننا چاہیں تو ان عہود کی پاس داری ہم پر لازم ہے ۔عہد نبوت کے علاوہ دونوں عہد ہماری فطرت کا حصہ ہیں اور عہد نبوت ہمارے اوپر اپنے باپ کا قرض ہے۔ جس کے ادا کرنے کے ہم ذمہ دار ہیں۔دین داری اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ہم ان کیے ہوئے عہد معاہدوں کی پاس داری نہ کریں۔یہی دین پر قیام ہے۔ 

 

دعوت دین اور صبر 

دعوت کے راستے میں صبر سے بڑ ھ کر کوئی زاد سفر نہیں ہے۔ اس کے بغیر دعوت کی دنیا میں ایک قدم چلنا بھی ممکن نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار یہی حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے کہ آپ اللہ کے فیصلوں کا انتظار کریں۔ اپنی دعوت کو زیادہ سمجھتے ہوئے رک نہ جائیں۔ 

ہمارے دور میں بھی دعوت درحقیقت اسی صبر سے محروم ہو گئی ہے۔چنانچہ اس بے صبری کے سبب سے ہم جلد ہی فیصلہ کرگزرتے ہیں۔ ادھر کسی کے منہ سے اجنبی بات سنی ، ادھر اسے کافر قراردے دیا۔بے صبری دعوت کے میدان کی ایسی آفات میں سے ایک ہے کہ یہ نہ صرف اس وقت دعوت کے پھیلنے میں رکاوٹ ہے ، بلکہ فرقہ بندی کا سبب بھی ہے ۔

قرآن مجید میں سیدنا یونس علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ وہ ان کی بات نہیں سن رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی اور انھیں مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ سیدنا یونس نے غیرت حق میں قدم اٹھایا تھا ، بھلا اس میں اتنی سنگین بات کیا تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنی سخت سزا دی۔

اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دعوت کے ایک مورچہ پر مامور فرمایا تھا اور وہ اگلا حکم آنے سے پہلے ہی وہاں سے چل دیے تھے ۔ یقیناًآج کے داعی کو اللہ تعالیٰ خود مامور نہیں فرماتا، مگر اتنی بات تو ہے کہ ان رسولوں کی زندگی میں ہمارے لیے اسوہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و استقامت اور آپ کی میدان دعوت میں تن دہی اور لوگوں کو مسلمان کردینے کی لگن اور اس کے لیے ان تھک جدو جہد ، اور اتنی ان تھک جدو جہد کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم تو اپنے آپ کو ہلکان کر ڈالوگے۔

راہ دعوت میں لوگوں کے نہ سننے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے گریز کے ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ ’خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ‘، (اعراف۷: ۱۹۹)’’درگزر کرو، نیکی کا مشورہ جاری رکھو اور جو جاہل اور جذباتی قسم کے لوگ تمھارے مقابل میں آتے ہیں، ان سے اعراض کرتے رہو۔‘‘گویا صبر دراصل تین چیزوں سے تعبیر ہے:

۱۔ درگزر کرنا

۲۔ اپنے نیکی کے کام پر گامزن رہنا

۳۔ برے رویوں میں الجھنے اور ان پر کڑھتے رہنے کے بجائے ان سے گریز۔

دعوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کو یوں بیان کیا ہے:

یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ، اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ.(لقمان۳۱: ۱۷) 
’’اے میرے بیٹے، نماز کا اہتما م رکھو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تمھیں پہنچے اس پر صبر کرو، بے شک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں۔‘‘

یہ حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں رکھ کر جاوداں بنا دیا ہے۔ اس میں انھوں نے بیٹے کو یہ نصیحت کی ہے کہ حق کی نصیحت کرنے اور برائی سے بچنے کا مشورہ دینے میں اور انذار کرنے کی وجہ سے لوگ تمھیں ستائیں گے۔ لوگوں کے ستانے پر تمھیں صبر کرنا ہوگا۔ اور پھر اپنے بیٹے کو انگیخت کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ کام ان کے ہیں جن کے حوصلے بلند اور ان کے عزم صمیم ہوتے ہیں۔

ایمان کی دعوت ، بالخصوص اس وقت جب وہ تجدید و احیاے دین کی دعوت بن جائے تو وہ یقیناًدشمنیوں پر منتج ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔

جو لوگ دین و ملت کے احیا کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے دعوت کے میدان میں بے انتہا صبر کی ضرورت ہے۔ ان کے لیے یہ ایسا ہی ہے جیسے جینے والے کے لیے کھانا۔ ورنہ وہ دعوت کے میدان میں فساد ہی کا باعث بنیں گے۔ اس لیے کہ پھر وہ جلد بازی میں کفر و زندیقی کے فتوے لگائیں گے۔ منافق و ابلیس کے فقرے چست کریں گے۔ جیسا کہ ہم اس دور انحطاط میں دیکھتے ہیں۔

 

خلاصہ 

اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ صبر کے معنی دو ہیں: ایک یہ کہ آدمی مشکلات میں حوصلہ وبرداشت سے کام لے، وہ مایوس نہ ہو، چیخے اور چلائے نہیں۔ اور دوسرے یہ کہ ہر حالت میں حق و انصاف پر قائم رہے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے یہ دینی رویے کا ایک جز ہے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے یہ پورے دین پر قائم رہنے کی ایک جدو جہد کا نام ہے ۔ اس لحاظ سے یہ شکر کے مقابل مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔اور ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ یہ دراصل دونوں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ اچھے حالات میں نیکی کرتے رہنا اور تکبر و غرور وغیرہ سے بچنا شکر ہے ۔ اور برے حالات میں نیکی کرتے رہنا اور مایوسی وغیرہ سے بچنا صبر ہے۔

اسی لیے قرآن کے بعض اشارات سے، جیسا کہ ہم واضح کرآئے ہیں ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین کے مطالبہ کو اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ صبر و شکر ہے۔ جس نے یہ دونوں کام کرلیے وہ جنت کا حق دار ہے۔ 

اس خلاصہ کو اگر قرآن مجید اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ ہے کہ آدمی ہر حالت میں اپنے رب کے رب ہونے پر راضی رہے۔ اورکبھی اس حق سے منحرف نہ ہو۔ کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھے ایسی بات بتا دیں کہ پھر مجھے کسی اور سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔ تو آپ نے ان کے سوال کی اہمیت ہی کے مطابق یہ جواب دیا کہ ’قل آمنت باللّٰہ ثم استقم‘، ’’کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اورپھر اس پر ہمیشہ قائم رہو۔‘‘

اسی بات کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھیں تو صبر کے معنی یہ ہیں کہ آدمی زندگی بھر اس موقف پر جما رہے کہ میں آزمایش میں ہوں اور مجھے ہر حالت میں اس آزمایش میں کامیاب ہونا ہے۔گرم و سرد حالات میں مجھے وہی اعمال کرنے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہوں کہ میں اللہ کو اپنا رب مانتا اوراس کی منشا کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں۔تاکہ وہ مجھے اپنے ان بندوں میں شامل کرے جن سے وہ راضی ہے اور اپنی جنت میں داخل کرلے جس میں بس وہی جائیں گے جن سے وہ راضی ہو گا:

یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً. فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ. (الفجر۸۹: ۲۷۔ ۳۰) 
’’اے وہ، جس کا دل (ہر حال میں)اپنے خدا سے مطمئن رہا، اب اپنے رب کی طرف چل، تو اس سے راضی وہ تم سے راضی، سو میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘

اگلے مباحث میں ہم دیکھیں گے کہ قرآن نے صبرکی کیا اہمیت بتائی ہے۔

____________________

B