یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ ہمارا اصلی امتحان صبر ہی کا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہر حالت میں صحیح عقیدہ و عمل اور صحیح رویہ و سلوک پر قائم رہیں۔ صبر ہی کا صلہ جنت ہے۔ اسی صبر کا دوسرا پہلو شکر ہے۔ یہ دونوں مل کر دینی رویے کی تکمیل کرتے ہیں۔ شکر بندگی پر ابھارتا ہے اور صبر بے بندگی سے روکتا ہے۔شکر نیکی کرنے کانام ہے اور صبر برائی سے بچنے کا۔ شکر نیکی میں آگے بڑھنے کا نام ہے تو صبر اس پر قائم رہنے کا۔
دین اسلام کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے۔ یہ اصل میں دین پر قائم رہنے ، اخلاق کو قائم رکھنے اور صحت عقیدہ و عمل کو برقرار رکھنے کا نام ہے۔ یہی دراصل دین ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جب اللہ کی طرف سے آزمایش آئے تو ہم
۱۔ اسے امتحان سمجھیں۔
۲۔ یہ تسلی رکھیں کہ اس کا امتحان ہماری ہمت سے بڑھ کرنہیں۔
۳۔ یہ آزمایش ہمیں یا ہمارے ایمان کو ضائع کرنے نہیں آئی، بلکہ اگر ہم ثابت قدم رہے تو دنیا میں ہمارے اندر کی خامیوں کو دور کرنے ، اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے آئی ہے۔ اگر ہم ثابت قدمی دکھاتے ہیں تو آخرت میں بھی اجر عظیم کا باعث ہو گی۔
ہم لوگوں کے معاملات میں ان کے رویوں کو اپنے لیے اللہ کی طرف سے امتحان سمجھیں ۔ اوپر والے نکات کے ساتھ ساتھ درج ذیل نکات کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے سارے معاملے پر غور کریں:
۱۔ اگر غلطی ہماری طرف سے ہے تو اسے درست کرلیں، اور ان سے مل کر اصلاح احوال کی کوشش کریں۔اگر غلطی ان کی ہے تو ان سے درگزر کریں۔
۲۔ اگر آپ صحیح تھے تو اپنے کام ، رویے اور نظریہ پر قائم رہیں۔
۳۔ برے رویوں ، تبصروں میں الجھنے اور ان پر کڑھتے رہنے کے بجائے ان سے اعراض کریں، جذباتی قسم کے لوگوں سے جب معاملہ پڑے تو ان سے اعراض کریں۔
____________________