جب آدمی پر مشکلات آ جائیں اور وہ گردشوں میں گھرجائے تو اسے سب سے زیادہ جس بات کا دھیان رکھنا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے یقیناً میرا بھلا چاہتے ہیں۔ یہ بات ہم اوپر کی بحث میں اچھی طرح سمجھ آئے ہیں کہ مشکلات سے اللہ ہمارا بھلا کس طرح چاہتے ہیں۔ مشکلات آئیں تو ہمیں اللہ کے اور قریب لے جائیں۔ اسی بات کو احادیث مبارکہ میں ’رضیت باللّٰہ ربا‘ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔
اوپر والے مطلوب رویے ہی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آدمی شرک میں مبتلا نہ ہو۔ مشکلات میں کبھی کبھی آدمی پر یہ وقت آجاتا ہے کہ جب لوگ اسے یہ بتاتے ہیں کہ فلاں شخص ہر مراد پوری کردیتا ہے اور فلاں ’’بابا جی‘‘ ہر مشکل حل کردیتے ہیں تو آدمی یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ شاید اللہ تو یہ نہیں کرے گا تو یہ بزرگ یقیناً ایسا کردیں گے۔ یہیں سے شرک کا وہ سارا بازار گرم ہوتا ہے جس سے حق کی شاہ راہ سے ضلالت کی پگڈنڈیاں نکلتی ہیں۔
مشکلات سے بارہا یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ہمارا موقف کسی بات کے بارے میں غلط تھا۔ اس کی غلطی واضح ہونے کے بعد آدمی کا صبر یہ ہے کہ حق پر قائم رہنے کے لیے غلط رائے کو ترک کردے۔ اور یہ خیال ہر گز نہ کرے کہ میں نے اتنے لوگوں کے سامنے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی ہے تو آیا اب میں اس سے رجوع کر لوں۔ نہ یہ کہے کہ میں نے اتنی محنت سے یہ سلسلہ چلایا تھا،کیا اب اسے ختم کردوں یا یہ سوچے کہ میں نے پچھلے سالوں سے اسی نہج پر اتنا بڑا ادارہ قائم کر رکھا ہے یا اتنے لوگوں کو اس بات پر جمع کرلیا ہے تو حق کا اعتراف تو کر لوں ، لیکن یہ سب کچھ کہیں بکھر نہ جائے۔
یہود کا قضیہ قرآن میں بڑی تفصیل سے آیا ہے۔ ان کی مذہبی پیشوائی عربوں میں مسلم تھی۔ انھوں نے قریش کو امی کہہ کر انھیں اپنے تابع بنا رکھا تھا تاکہ وہ ان کے زیر اثر رہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد یہود کے لیے یہی سوال ابھر کر سامنے آیا کہ اگر انھوں نے اس نبی امی کو مان لیا تو ان کی مشیخت و پیشوائی جاتی رہے گی۔ چنانچہ قرآن نے ان سے کہا کہ حق پر قائم رہنا چاہتے ہو تو صبر اور نماز سے مدد لو۔ یعنی مشیخت و پیشوائی جاتی ہے تو اس پر صبر کرو، اس لیے کہ اس کے بعد تمھیں حق پر قیام کی نعمت حاصل ہوگی۔
حق پر قائم رہنے میں صبر کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اپنے محرکات عمل کو درست رکھیں۔ جو کام دنیا کے لیے کرنا ہے، اسے دنیا کے لیے کریں اور جو کام آخرت یا رضاے الٰہی کے لیے کرنا ہے ، اسے اسی نیت سے کریں۔ اگر آپ کی نیت درست نہیں ہے تو گویا آپ نے صبر کا ایک بڑا حصہ ہاتھ سے جانے دیا۔آپ نے مشکلات میں صبرکیا ، مگر محض اس لیے کہ آپ کو دنیا صابر کہے تو آپ دراصل حق پر قائم نہیں رہے۔
مشکلات میں بعض اوقات ایسی مشکل بھی سر پر آپڑتی ہے جیسی مشکل سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں پر آئی جب انھیں سیدنا یوسف کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ان کے وہی بھائی ہیں جنھوں نے انھیں کنویں میں پھینکا تھا۔ اور خود ان کے سامنے ان پر الزامات لگائے تھے۔ ایسے موقع پر صبر کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف متعلقہ لوگوں کے سامنے کر لیا جائے ۔
قرآن مجید میں مایوس ہونے کو کفر کرنے والوں کا عمل بتایا گیا ہے۔ اور مصائب و مشکلات میں کفر وہی شخص کرتا ہے، جسے خدا کے بارے میں صحیح علم نہ ہو۔ وہ جذبات میں آکر بھول جائے کہ اللہ اس سے کیا چاہتا ہے۔ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی مصائب میں اللہ کے اگلے فیصلے کا مایوس ہوئے بغیر انتظار کرے۔ آج وہ جس مصیبت میں مبتلا کیا گیا ہے ، وہ کل ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے ایک روشن مستقبل لے کر آرہی ہو۔اور اگر کل روشن مستقبل نہ بھی آئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ خدا کے ایمان سے محروم نہ ہوااور ایسی مشکل میں بھی حق پر قائم رہا، اخلاق اور نیکی کو ضائع نہ کیا تو اسے پھر جنت میں ایسا اجر ملنے والا ہے کہ دنیا کے کئی خوش حال اس پر رشک کریں گے۔
جب ہمیں کوئی تکلیف اپنے قریب رہنے والے لوگوں سے ملتی ہے توہم ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سوچنے لگتے ہیں۔ حالانکہ بعض اوقات دوسرے لوگ ہماری بھلائی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں ، مگر ان کی بھلائی ہمارے لیے نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ تو ایسے موقع پر ہمیں ان کے بارے میں برے گمان نہیں کرنے چاہییں۔ صرف اسی حد تک ہمیں ان کے بارے میں رائے بنانی چاہیے جتنی معلومات ہمارے پاس ہوں۔ قرآن مجید نے اس بارے میں ہمیں یہ فرمایا ہے:
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً.(بنی اسرائیل ۱۷ : ۳۶)
’’اس چیز کے درپے نہ ہو جس کا تمھارے پاس نہ علم ہو، (اور نہ بنیاد)۔اس لیے کہ کان، آنکھ اور دل سب سے بازپرس ہو نی ہے۔‘‘
دوسرے موقع پرقرآن مجید نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رائے ان معلومات پر مبنی ہونی چاہیے، جو تحقیق شدہ ہوں۔ سنی سنائی باتوں پر عمل نہیں ہونا چاہیے۔نہ کسی پر تحقیق کیے بغیرالزام دھرنا چاہیے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام اس عمل کے بغیر ہونا چاہیے۔
اگر آدمی یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی اس کو ضرر نہیں پہنچا سکتا تو اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ دوسروں کے ہاتھوں زک پہنچنے پر آدمی اخلاقی رویوں میں کمزور نہ ہو۔
وہ دوسروں کی صریح غلطی کے باوجود غم و غصہ کا اظہار بھی کرے تو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے کرے اور وہ آداب کو ملحوظ رکھے ، دین و شریعت کا پابند رہے، عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
اخلاق کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی دوسروں کو گالی نہ دے۔ سورۂ حجرات میں ہمیں دوسروں کے برے نام رکھنے اور ان پر اتہام لگانے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ گالی انھی دونوں کے بیچ میں آتی ہے۔ کبھی گالی کی نوعیت برے نام کی سی ہوتی ہے اور کبھی الزام و اتہام کی سی۔یہ واضح رہنا چاہیے کہ قرآن کے نزدیک برے نام رکھنا فسق و فجور کے درجے کی چیزہے۔ گالی بھی اسی دائرے میں آئے گی۔
غیبت و چغلی بھی آدمی کے بغض و کینہ اور بری رائے کاہی اظہار ہے۔ اگر آدمی صابر ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان سے بھی گریز کرے۔ وہ ہمہ وقت اس سے بچا رہے ۔اگر کبھی شدت جذبات سے ایسا ہو جائے تو تلافی کی کوشش کرے۔
آدمی کو اللہ تعالیٰ اگر نعمتیں عطا کریں، اچھی شکل و صورت اسے دیں، اعلیٰ صلاحیتوں سے اسے نوازیں تو وہ مغرور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ کسی مشکل میں صحیح رویہ اختیار کرلے اور اسے محسوس ہو کہ وہ آزمایش میں کامیاب ہوا ہے۔ تو یہ چیز بھی باعث تکبر وغرور ہو سکتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے موقعوں پر ہوشیاری سے اپنی حفاظت کرے۔
غرور و تکبر کا مطلب صرف اکڑ کر چلنا ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد دوسروں کو حقیر سمجھنا بھی ہے۔ مثلاً اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر آدمی اس شخص کو حقیر سمجھے جس کو اللہ ہی نے ان نعمتوں سے محروم رکھا ہے تو یہ بات ایسی سنگین ہے کہ آدمی کو دوزخی بھی بنا دیتی ہے۔
صبر کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی دوسروں کو ان کی خطاؤں پر معاف کردیا کرے۔ ان سے بدلہ نہ لے ۔ دوسروں سے بدلہ لینا ایک دنیوی عمل ہے۔ جس نے پورا پورا بدلہ لیا ، وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے ایک سودا دے کر اس کی قیمت وصول کرلی۔ اس پر وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہے۔
لیکن جو شخص دوسرے کو معاف کردے ، وہ ایک دینی عمل سرانجام دیتا ہے۔ اسے اجر عظیم عطا ہو گا۔ جتنی بڑی خطا کو اس نے معاف کیا ہوگا ، اتنا بڑا اجر اسے حاصل ہوگا۔قرآن مجید کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم نہ صرف معاف کردیں ، بلکہ اس کی برائی کا بدلہ بھلائی سے دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کی عادت حسنہ تھی کہ آپ گالیاں دینے والوں کو دعائیں دیتے ، ان کی تیمار داری کو جاتے ، ان کی خیر خواہی کرتے ، ان کے کام آتے ، چنانچہ وہ لوگ آپ کے اخلاق ہی کی وجہ سے مسلمان ہو جاتے تھے۔قرآن مجید نے اس بات کو یوں واضح کیا ہے:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ، فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗعَدَاوَۃٌ کَأَنَّہٗوَلِیٌّ حَمِیْمٌ، وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا، وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ. (حٰم السجدہ ۴۱: ۳۴۔۳۵)
’’برائی اور بھلائی برابر نہیں ہو سکتیں، تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو بہتر ہے، تو تم دیکھو گے کہ وہ، جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے ، گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔اور یہ (دانائی) نہیں ملتی، مگر انھی لوگوں کو جو صابر(ثابت قدم ) ہوتے ہیں، اور یہ (حکمت) نہیں ملتی، مگر انھی کو جو بڑے نصیبہ ور ہوتے ہیں۔‘‘
ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی برائی کا بدلہ نیکی سے دے۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ نصیبہ وری اللہ تعالیٰ کے انتخاب کا نام ہے۔ایسا نہیں ہے ۔ ہر وہ شخص نصیبہ ور ہو سکتا ہے کہ جو آخرت کی کامیابی کے لیے جینا سیکھ لے۔ قرآن مجید سورۂ عصر میں یہی کہتا ہے کہ جو ایمان لایا ، اور اس نے نیک اعمال کیے اور ’تواصی بالحق‘ اور ’تواصی بالصبر‘ کا فریضہ سرانجام دیا تو وہ خسارے سے بچ گیا ۔ یعنی وہی اچھے نصیبہ والا ہے۔ چنانچہ آدمی اگر آخرت کے لیے جینے لگے تو وہی نصیبہ ور ہے اور اسی کو وہ دانائی مل جاتی ہے جو اسے صابر بنادیتی ہے۔ صبر اور آخرت کے لیے جینے والا ہی اس آیت کا نصیبہ ور اور صابر و حکیم ہے۔
اس درگزر اور صبر و دانائی کا نتیجہ آخرت کی نصیبہ وری ہے اور دنیا میں یہ کہ دشمن دوست بن جائے گا۔ اور اس دشمن کا خوف امن میں بدل جائے گا۔
اس درگزر کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم بس معاف کردیں۔ بدلہ نہ لیں ، مگر ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیں ۔یہ غلط ہو گا۔ آپ کے دل میں اس کے بارے میں خیالات کیسے بھی ہوں ، آپ اسے خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اسی کو حدیث میں صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ جو آپ کے ساتھ نیکی کرتا ہے اور آپ اس کو مسکرا کر ملتے ہیں تو یہ تو ہر کوئی کرلیتاہے۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ ہم ان سے بھی مسکرا کر ملیں جو ہمارے لیے برائی کرتے پھرتے ہیں۔اور دوسری طرف براہ راست یا بالواسطہ ان کی اصلاح کی کوشش بھی جاری رکھیں تاکہ وہ اپنی غلطی پر عادی نہ ہوں۔ یہ ’تواصی بالحق‘ کا تقاضا ہے۔ اس سے گریز کرنا بھی عدم صبر ہے ، مگر یہ سب حکمت و دانائی سے ہونا چاہیے۔
صبر کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی جب بھی کسی صدمے سے دو چار ہو یا دوستوں اور عزیزوں کی طرف سے برا سلو ک اس کے ساتھ کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ ضبط نفس سے کام لیتے ہوئے اپنا احتساب کرے۔ یہ دیکھے کہ اس پریہ ابتلا جو آئی ہے ، وہ کیوں کر آئی ہے۔ اس کی کوئی غلطی ہے جس کی بنا پر خدا نے اسے بیدار کرنا چاہا ہے یا اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے، جس پر خدا چاہتا ہے کہ ہم توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کریں۔ یا میرے دوستوں اور عزیزوں کو میرے کسی رویے اور میرے کسی اقدام یا قول سے تکلیف پہنچی ہے۔ اگر آدمی ایسا نہیں کرے گا تو یا وہ کڑھنے میں لگا رہے گایا دوسروں کے لیے ایسا ماحول بنا چھوڑے گا کہ وہ اس کے ہدف نقد اور طعن و تشنیع ہوں گے۔
وہ معاشرے میں بھی ایک تکلیف دہ شخص کی طرح جیے گا ۔ اور آخرت میں دوسروں کو تکلیف دینے والا بنے رہنے کی وجہ سے سزا کا مستحق ہو گا۔دوسروں پر زبان کھولنے سے پہلے اپنے دامن کے داغ شمار کرنے چاہییں۔ اور دوسروں پر نقد کرنے سے پہلے اپنے اوپر تنقید کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ ہم خود بھی خطاؤں سے پاک نہیں ہیں۔
جیسے ہی ہمارے سامنے ہماری خطا آئے تو اسے درست کریں، معلوم ہو کہ ہم نے گنا ہ کیا تھا تو توبہ کریں۔ اور اگر ہمیں معلوم ہو کہ لوگوں نے میرے ساتھ یہ برا رویہ اس لیے اختیار کیا ہے کہ میں نے بھی ان کے ساتھ یوں اور یوں کیا تھا تو ان سے معذرت کریں۔ اور اگر معلوم نہ ہوسکے کہ میرے بھائیوں نے میرے ساتھ جو برا سلوک کیا ہے ، وہ کیوں کیا ہے تو پھر ان سے محبت اور عاجزی کے ساتھ پوچھ لیں کہ آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ہے۔ اگر ان کی غلط فہمی ہو تو اسے دور کردیں، اگر وہ کسی غلطی کی نشان دہی کریں تو اسے تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلیں۔ اس رویے سے آپ کی زندگی میں ایک سکون آئے گا۔ آپ لوگوں کے لیے ایک اسوہ بنیں گے اور اگر آپ کی نیت درست ہوگی ، آخرت میں اجر پانے کے لیے یہ سب کچھ کریں گے تو پھر آپ کے لیے آخرت میں ایک اجر عظیم منتظر ہو گا۔
احتساب نفس میں صبر کے تقاضوں میں سے یہ بھی ایک تقاضا ہے کہ اگر آپ کا عقیدہ و عمل درست ہے۔ اور کچھ لوگ بلاوجہ یا اپنے نظریے کی بنا پر آپ کے درپے ہوگئے ہیں، تو اس صورت میں ان کے ساتھ الجھنے اور ان کے ساتھ لگے رہنے کے بجائے لازم ہے کہ آپ ان کی صحیح بات سمجھنے کی کوشش کریں، ان کے نقد کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اگر اس میں کوئی جان ہے تو ضرور اپنی اصلاح کرلیں وگرنہ محض مذاق اور ٹھٹھوں پر نہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اور نہ دل جلانے کی۔ بہتیرے لوگ اپنا وقت اسی میں ضائع کردیتے ہیں کہ اس نے یہ کہا ہے اور اس نے وہ۔ پھر اس کی صفائی دینے میں لگے رہتے ہیں ۔ اگر ہم خود صحیح چل رہے ہیں تو اس فکر میں نہیں پڑنا چاہیے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اگر کسی کو غلط فہمی بھی ہو گی تو جلد یا بدیر دور ہو جائے گی۔ اگر آپ نے ویسا کیا ہے تو آپ کی صفائی اور اس کے لیے آپ کی جدو جہد رائگاں جائے گی۔اس لیے کہ اگر آپ غلطی کرتے ہیں تو جلد یا بدیر سامنے آجائے گی۔
دوسروں کی خیر خواہی ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا بھی صبر کا تقاضا ہے۔ بندۂ مومن دوسروں کے لیے بے ضرر ہے۔اسے دوسروں کی برائی کے باوجود ان کے لیے خیر خواہ رہنا ہے۔اس کے تقاضے درج ذیل ہیں:
۱۔ صحیح مشورہ دینا
۲۔ مشکل میں مدد کرنا
۳۔ حق اور صبر کی نصیحت کرنا وغیرہ
۴۔ ہمیشہ بھلا چاہنا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’اَلدِّیْنُ النَّصِیحَۃُ لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُوْلِہٖوَلِأَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِھِمْ‘ ،’’دین اللہ ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ یعنی ہماری خیر خواہی ان سب کے لیے ہے۔
____________