صبر کے معنی
عربی زبان کے اس لفظ کو اگر ہم قرآن مجید اور عربی ادب کے استعمالات کی رو سے دیکھیں تو اس کے بنیادی معنی ’رکے رہنے ‘ یا ’روکنے ‘کے ہیں۔ پھر یہ لفظ وسعت پاکر ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں استعمال ہونے لگااوراب یہ زیادہ تر اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔یہ ثابت قدمی اپنے’’موقف‘‘ پر ہوتی ہے۔ یہ’’موقف‘‘ میدان جنگ بھی ہوسکتا ہے اور اعلیٰ اوصاف و اخلاق بھی۔ یعنی آدمی ہر حالت میں اپنے اچھے’’موقف‘‘ پر ڈٹا رہے تو یہ صبر ہے۔صبر میں غلط چیزوں پر ڈٹے رہنے کا مفہوم داخل نہیں ہے۔اس لیے صبر کا لفظ ہمیشہ مثبت معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے ۔ تاہم اپنے حقیقی یا لغوی معنی (روکنے) میں یہ منفی پہلو میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ صبر مشکلات میں رونے دھونے اور چیخنے چلانے کے متضاد معنی میں بھی آتا ہے، لیکن بنظر غائر دیکھیں تواس کے معنی بھی وہی ہیں۔ یعنی رونا دھونا حوصلہ مندی جیسے اعلیٰ وصف پر قائم نہ رہنے کا نام ہے۔چنانچہ جب ہم چیخنے چلانے والے سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ صبر کرو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ حوصلہ مندی پر قائم رہو۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عرب صبر کی جگہ ’تجمل‘کا لفظ بھی استعمال کرلیتے ہیں۔ یعنی وہ رونے دھونے والے سے کہتے ہیں کہ’تجمل‘ ’’بھلا کام کرو‘‘ یعنی صبر کرو اور کمزوری ظاہر نہ ہونے دو،وغیرہ ۔ امرؤ القیس کا شعر ہے:
وقوفًا بہا صحبي عليَّ مطیَّہم
یقولون:لا تھلک اأسیً و تجمَّلِ
’’ ببول کے درختوں کے پاس میرے دوست میرے اردگرد اپنی سواریاں روکے کہہ رہے تھے: غم سے خود کو ہلاک نہ کرو، بھلے بنو(یعنی کمزوری نہ دکھاؤ، صبر کرو)۔‘‘
اسی طرح بعد میں صبر کے ساتھ جمیل کا اضافہ ہونے لگا۔ جس میں احسان اور نیکی کے معنی ہوتے ہیں۔ اس طرح صبر جمیل ان مواقع پر استعمال ہونے لگا،جہاں صبر سے بڑھ کرمزیدکسی حسن سلوک اور نیکی کی بھی ضرورت ہو۔جیسے قصۂ یوسف میں سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال آئے اور آکر ان سے جھوٹی کہا نی کہہ سنائی تو انھوں نے جواب میں فرمایا: ’بل سولت لکم انفسکم امرا، فصبر جمیل واللّٰہ مستعان علی ما تصفون‘ یعنی ایک طرف سیدنا یوسف کے کھونے کا دکھ ہے اور دوسری طرف برادران یوسف کی دھوکا دہی کا غم و غصہ۔ چنانچہ ایک طرف غم یوسف سے نبرد آزما ہونے کے لیے حوصلہ چاہیے اور دوسری طرف برادران یوسف سے عفو و درگزر کے لیے حوصلہ اور حسن سلوک۔
ابھی تک ہم نے صبر کے ساتھ مشکلات ہی کا ذکر کیا ہے کہ صبر مشکلات میں ثابت قدمی کا نام ہے، مگرجس طرح مشکلات میں صبر کرنا پڑتا ہے، ایسے ہی انعامات کے وقت بھی صبر کرنا پڑتا ہے۔ یعنی جس طرح مشکل کی وجہ سے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ آدمی اپنے موقف سے ہٹ جائے، اسی طرح نعمتیں بھی اس بات کا امکان پیدا کردیتی ہیں کہ آدمی ان میں مگن ہو کر اپنے موقف سے ہٹ جائے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’اگرہم انسان کو اپنے کسی فضل سے نوازتے ہیں،پھر اس سے اس کو محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس و ناشکرا بن جاتا ہے۔اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچی اس کونعمت سے نوازتے ہیں توکہتا ہے کہ میری مشکلات رفع ہوئیں، پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ اکڑنے والا اور شیخی بھگارنے والا بن جاتا ہے۔اس سے صرف وہی بچے رہتے ہیں، جو صبر کرنے والے اور نیک اعمال کرنے والے ہیں، انھی کے لیے بڑی نجات اور اجر کبیر ہے۔‘‘(ہود۱۱: ۹۔ ۱۱)
یہاں قرآن مجید نے نعمتیں چھننے پر مایوس ہونے اور نعمتیں ملنے پر اکڑنے اور تکبر کرنے کو خلاف صبر رویہ قرار دیا ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ صبریہ بھی ہے کہ نعمتیں پا کر بھی آپے سے باہرنہ ہو۔ یہ صرف چیخنے چلانے یا رائے میں حق پرستی کا نام نہیں ہے، بلکہ صبریہ بھی ہے کہ آدمی مشکلات میں پڑنے کے بعد عملی طور پر بھی صحیح موقف پر قائم رہے۔
اوپر کی بحث کا اگرخلاصہ کریں تو پوری بات یہ ہے کہ صبر کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہر حالت میں علم و عمل میں صحیح ’’موقف‘‘ پر قائم رہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صحیح ’’موقف‘‘ سے کیا مرادہے؟
قرآن مجید نے سورۂ ملک کی پہلی آیات میں اس دنیا کی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
’’بڑی ہی عظیم اور بافیض ہے، وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں(اس کائنات کی) بادشاہی ہے،اور جوہر چیز پر قادر ہے۔اس نے زندگی اورموت کو پیدا کیا تاکہ تمھارا امتحان کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل والا بنتا ہے۔اور (اللہ)غالب بھی ہے اور مغفرت فرمانے والا بھی۔‘‘ (الملک۶۷: ۱۔۲)
اس آیت سے ہمیں یہ بات واضح الفاظ میں معلوم ہو رہی ہے کہ ہمیں یہ زندگی اس لیے دی گئی ہے کہ ہمارا امتحان لیا جائے اور اچھے عمل والوں کو جنت کے لیے چن لیا جائے۔اس دنیامیں ہمارا اصل’’موقف‘‘ یہی ہے۔ یعنی ہم ہرلمحہ امتحان میں ہیں۔ جب ہمیں کوئی نعمت ملے یا نہ ملے، جب کوئی آسانی آئے یا مشکل درپیش ہو توہرحالت میں ہمیں یہ بات پوری طرح ملحوظ رہنی چاہیے کہ ہم امتحان میں ہیں۔جس شخص کو یہ حقیقت سمجھ میں آجائے اور وہ اسی نقطۂ نظر سے زندگی بسر کرنے لگ جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ جس کی بھلائی چاہتا ہے ، اسے دین کی یہ سمجھ عطا کردیتا ہے۔(مسلم، رقم ۱۰۳۷)
اس موقف کے واضح ہو جانے کے بعد ہماری پوری بات کا مطلب یہ ہے کہ صبر کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہر حالت میں امتحان دینے والے بن کر رہیں۔
قرآن مجید نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کو اپنی زبان میں اس پوری بات کو سمجھا کر ہم پر واضح کردیا ہے کہ صبر کیا ہے ۔سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے:
’’ اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ بس ثابت قدموں کے ساتھ ہے،اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ نہ کہو،بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم محسوس نہیں کرسکتے۔بے شک ہم تمھاراامتحان کریں گے۔کسی قدر خوف ، بھوک اور جان و مال میں کمی سے،اور ان صابروں کو یہ خوش خبری سنا دو،جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں:’انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘ یعنی ہم اللہ ہی کے ہیں، اور (ایک دن )اسی کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہی لوگ ہیں، جن پر تیرے رب کی عنایتیں اور رحمتیں ہیں، اور یہی لوگ راہ یاب ہیں ۔‘‘(۲: ۱۵۳۔ ۱۵۷)
صحابہ کے لیے قرآن کا یہ مطالبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ہمیں اس سے خدائی اسکیم اور اس آزمایش کی طرز، ذرائع اور مطلوب رویوں کا پتا چلتا ہے۔اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ صبر بڑے سے بڑے موقع پر بھی چھوڑنے کی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک اعلیٰ و محمود رویہ ہے ۔مولا نا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’’نظام القرآن و تاویل الفرقان بالفرقان ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں :
أن الصبر ربما یکون فعلا، ینشأ من شرافۃ النفس و إباۂا، ورسوخ القدم فی الطاعۃ و احتمال عظائم الأمور، و ربما یکون انفعالا و احتمالا للقہر والظلم و ہذا ادنی الصبر.(۲۳۶)
’’صبر ایک ایسا عمل ہے جو کبھی اعلیٰ ظرفی، روح کی ابا اور بندگی میں راسخ القدمی سے پھوٹتا ہے۔ اور یہ بڑے کاموں کے تحمل کے حوصلہ سے پیدا ہوتا ہے۔اورکبھی یہ ظلم و جبرکے مقابلے میں محض منفعل مزاجی کی بنا پر سامنے آتا ہے۔یہ دوسری صورت صبر کی گھٹیا شکل ہے۔‘‘
صبر کا ایک لازمی تقاضا قرآن مجید سے یہ سامنے آتا ہے کہ جب کسی کی طرف سے برائی سامنے آئے تو اسے نہ صرف برداشت کریں ، بلکہ ان کی برائی کے بدلے نیکی سے جواب دیں۔ اگر ہم اس کے برعکس کریں گے تو یہ عمل صبر کے خلاف ہو گا۔ اس لیے کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ صبر صرف یہ نہیں ہے کہ ہم چیخنے چلانے سے گریز کریں۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اخلاق اور کردار کی بلندی پر قائم رہیں۔ اور دوسرے اگر برائی کر رہے ہوں تو ہم ان کی نقل میں یا انتقام لینے میں برائی نہ کریں ۔ بلکہ کوشش کریں کہ ہم لوگوں کی برائی کا جواب بھلائی سے دیں۔ مزید یہ بات بھی قرآن سے معلوم ہوتی ہے کہ بسا اوقات ایسا کرنا اگر ممکن ہو تو اس موقع پر اپنے مقابل کے ساتھ نیکی کرکے اللہ کی راہ میں خیرات وغیرہ کرنی چاہیے:
اُولٰٓءِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّ تَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ ، وَمِمَّا رَزْقَنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ. (القصص ۲۸ : ۵۴)
’’یہ لوگ ہیں کہ جنھیں دوہرا اجر ملے گا، بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے اور ہمارے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
صبر کے مفہوم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان چیزوں کے ساتھ موازنہ کرکے اسے سمجھیں جن کاقرآن مجید نے صبر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔اس موازنے سے نہ صرف صبر کے سمجھنے میں ہمیں مدد ملے گی، بلکہ اخلاق و اوصاف میں سے بعض ایسی چیزیں بھی ہمارے سامنے آجائیں گی جو قرآن مجید کے نزدیک صبر کی ساتھی، اس کی مصاحب اور اس کی معاون و مدد گار ہیں۔ ہم ذیل میں صبر کے انھی مصاحب کا ذکر کریں گے۔
اس دنیا میں انسانوں سے اصلاً مطلوب شکر گزار ی کا رویہ ہے۔اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی اوراس میں خیرکے راستے کا شعور رکھا تو ساتھ ہی یہ فرمایا کہ:
إِنَّا ہَدَیْْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَّإِمَّا کَفُوْرًا.(الدھر ۷۶: ۳)
’’ہم نے انسان کو راہ سکھائی، چاہے (اب) یہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔‘‘
شکر انسان سے اصلاً مطلوب ہے۔نعمتیں پاکر آپے سے باہر نہ ہونا، تکبرنہ کرنا اور اللے تللے نہ کرنا، حدود آشنا رہنا ، غافل نہ ہو جانااور اسی طرح تنگ دستی اور مشکلات میں شکوہ شکایت پر نہ اتر آنا، مایوس نہ ہونا، مایوس ہو کر خداے حقیقی کو چھوڑ نہ دینا،سب شکر ہی ہے۔ مگر ہم پہلے رویے کے لیے شکر اور دوسرے رویے کے لیے صبر کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
اسی وجہ سے تفسیری روایات میں قرآن مجید کی اس آیت کہ ’اِنَّ فِیْ ذٰلکِ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ‘ کے حوالے سے نقل ہوا ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں: ایک صبر اور دوسرا شکر۔اس آیت کی وضاحت میں امام امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صبر اور شکر، دونوں توام(جوڑا) ہیں۔یہ دونوں بیک وقت مطلوب ہیں۔جس کے اندر صبر نہ ہووہ شکر کا حق ادا نہیں کرسکتااور جس کے اندرشکر نہ ہو وہ صبر نہیں کرسکتا۔اس دنیا کے دارالامتحان میں ہر قدم پربندے کاامتحان ہر وقت انھی دونوں چیزوں میں ہوتا رہتا ہے اور اسی امتحان پر اس کی اخروی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۶/ ۳۱۰)
صبر اور شکر اصل میں اس شعور کے ساتھ زندہ رہنے کا نام ہے جسے قرآن مجید نے ’انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی جو کچھ آپ کو ملا ہے ،و ہ اللہ کی طرف سے ملا ہے اور جو کچھ آپ سے چھن گیا ہے ،وہ بھی اللہ ہی نے چھینا ہے۔ یہ سب اسی کا تھا، اسی نے دیا تھااور اسی نے لے لیا ہے ۔ اور یہ لینا اور دینا سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ آپ کو آزمایا جارہا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے اس مقام پرنگاہ ڈالتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے:
’’اگرہم انسان کو اپنے کسی فضل سے نوازتے ہیں،پھر اس سے اس کو محروم کردیتے ہیں، تو وہ مایوس و ناشکرا بن جاتا ہے۔ اور اگر تکلیف کے آنے کے بعد، اس کونعمت سے نوازتے ہیں، توکہتا ہے کہ میری مشکلات رفع ہوئیں، پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ اکڑنے والا اور شیخی بگھارنے والا بن جاتا ہے۔اس سے صرف وہی بچے رہتے ہیں، جو صبر کرنے والے اور نیک اعمال کرنے والے ہیں، انھی کے لیے بڑی نجات اور بے انتہااجرہے۔‘‘(ہود۱۱: ۹۔ ۱۱)
قرآن مجید کے اس اقتباس سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ صبر اورشکر پر قائم رہنے والے لوگ کس قدر متوازن رویہ کے حامل ہوتے ہیں، اگر انھیں ناسازگار حالات پیش آتے ہیں توانھیں مایوسی اور دل شکستگی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے رب کے بھروسے پر صبر کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر سازگار حالات میسر آجائیں تو وہ اترانے والے اور فخر کرنے والے نہیں بن جاتے، بلکہ اپنے رب کے آگے اور جھک جاتے ہیں، جیسا کہ ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ نے آپ کی گردن میں اکڑ کے بجائے فروتنی پیدا کی اور وہ عجز و انکسار سے اتنی جھک گئی کہ آپ کا سر اونٹنی کی گردن سے ٹکرانے لگا۔
اس بحث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہو گی کہ ایک ہی رویہ جو دو مختلف حالات میں ظاہرکیا جاتا ہے، اسے ہی صبر اور شکر کہتے ہیں۔ یعنی صبر اور شکر اصل میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اور یہ دو نام ان کو مختلف حالات کے دوران میں آپ کے ایک رویے کو دیے گئے ہیں۔ آپ کایہ رویہ اصل میں یہ ہے کہ آپ کو
۱۔ مشکلات میں مایوس اور خدا بے زاراور
۲۔ خوش حالی میں مغرور و بے پروا
نہیں ہونا۔بلکہ یہ سوچ کر کہ آپ کو خدا نے اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے اور آپ کو جو کچھ وہ دے رہا ہے اور جو کچھ وہ چھین رہا ہے ،وہ سب آپ کے امتحان کے لیے ہے، کہیں آپ کو صبر کرنا ہو گا اور کہیں شکر۔
صبر کا ایک ساتھی عفو و درگزر بھی ہے۔ قرآن مجید نے ان دونوں کو یوں اکٹھا کیا ہے:
’’ جنھوں نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیا تو ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔الزام تو ان پر ہے جولوگوں پر ظلم اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بے شک ایسا کرنا کار عزیمت ہے۔‘‘(الشوریٰ۴۲: ۴۱۔۴۳)
اس آیت سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ دوسرے لوگ جب اذیت دے رہے ہوں اور آپ صبر کرنا چاہیں تو اس کا لازمی نتیجہ درگزر کی صورت میں نکلے گا۔ مراد یہ ہے کہ صبر یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کی اذیت کے جواب میں پہلے تو خاموش رہیں، مگر موقع پا کر اس سے خوب انتقام لے لیں۔
چنانچہ جب آپ پر کوئی اذیت کسی کی طرف سے آئے تو آپ کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اس آدمی سے انصاف کے مطابق بدلہ لے لیں۔ اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اسے معاف کردیں اور اس کی اذیت پر صبر کریں۔ قرآن مجید کے نزدیک یہی دوسرا راستہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صبر سے مراد یہ ہے کہ آپ دوسروں کی ان خطاؤں سے درگزر کریں، جو آپ کے لیے باعث اذیت و نقصان ہیں۔اگر آپ نے صبر کیا ہے تو معاف کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کاصبر بے معنی ہو کررہ جائے گا۔
یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ قرآن مجید کے نزدیک عفو و درگزرتقویٰ اور للہیت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔اس لیے کہ تقویٰ انسان کے خدا سے ایک تعلق کا نام ہے اور یہ تعلق اگر صحیح بنیادوں پر استوار ہو تو آدمی میں ایسی بصیرت پیدا کردیتا ہے کہ اس کے اندر ایک ہمت ، شفقت اور دانائی پیدا ہو جاتی ہے، جو اس کے اندر معاف کردینے کا حوصلہ پیداکردیتی ہے۔سورۂ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓءِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ، وَ اِذَا مَا غَضَبُوْا ہُمْ یَغْفِرُوْنَ.(۴۲: ۳۷)
’’اور جو بڑی بڑی حق تلفیوں اور کھلی ہوئی بے حیائی سے بچتے ہیں اور وہ جب غصہ میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ یہ آیت میں مذکور بڑے جرائم سے بچتے ہیں۔ یعنی ان کا تقویٰ ان کو بڑی بڑی حق تلفیوں اور کھلی ہوئی بے حیائی سے روکتا ہے۔ اور اسی طرح ان کا یہ تقویٰ غصہ کے وقت ان کے ہاتھ اور زبان کو روکے رکھتا ہے۔ غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ’کبائر الاثم‘ حق تلفی ، ظلم اور نا انصافی کی طرز کی برائیاں ہیں، ’فواحش‘ نفس پرستی اور شہوت سے اٹھی ہوئی برائیاں ہیں اور ’غضب‘ (غصہ ) انانیت ، خودسری ، استکبار اور خودپسندی سے وجود میں آتا ہے۔ ان تمام چیزوں سے آدمی کو بچانے والی چیز اصل میں تقویٰ ہے۔ اگر آدمی میں تقویٰ نہیں ہو گا تو آدمی ان سب برائیوں کے ساتھ ساتھ غصہ کو بھی چھوڑ نہیں سکے گاا ور غصہ کے وقت بے قابو ہو جائے گا۔ اس کو روکنے والی چیز صرف تقویٰ ہے۔
جہاد، جیسا کہ قرآن مجید سے واضح ہے ،دین کی راہ میں مصائب جھیلنے اور قتال کرنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ پہلے مفہوم کے لیے قرآن مجید نے سورۂ نحل میں جہاد کوصبر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ارشاد ہے:
’’پھر تیرا رب ان لوگوں کے لیے جنھوں نے آزمایشوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی، پھر جہاد کیا اور ثابت قدمی دکھائی(صبر کیا)تو ان باتوں کے بعدبے شک تیرا رب بڑا ہی بخشنے والااور رحمت والا ہے۔‘‘(النحل ۱۶: ۱۱۰)
جہاد میں صبر کے معنی میدان جنگ سے فرار نہ ہونے کے بھی ہیں۔قرآن مجید میں فرمان ہے:
...وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَأْسِ، اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۷۷)
’’... اور وہ جوفقر و فاقہ، جسمانی تکالیف اور جنگ کے موقع پر ثابت قدم رہنے والے ہوں، یہی لوگ ہیں جنھوں نے راست بازی دکھائی اوریہی لوگ سچے متقی ہیں۔‘‘
شاید صبر کے مواقع میں سے جہاد میں ثابت قدمی ،جب جان جانے کا ڈر ہو ،سب سے سخت موقع ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر مجاہدین میں ثابت قدمی کا وصف موجود نہ ہو تو جنگ ہار دی جائے گی۔ صبر کا یہ وصف جتنا قوی ہو گا، میدان جنگ میں اتنا ہی مجاہدین کا پلڑا بھاری رہے گا۔قرآن مجید میں اس بات کی طرف مختلف پہلووں سے اشارہ کیا گیا ہے۔
پہلی قسم کا جہا دجسے ہم مجاہدہ سے تعبیر کرسکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ دین اور خدا کی راہ میں عمومی زندگی میں مشقت برداشت کرنے والا ہی دین کی خاطر میدان جنگ میں بھی مشقت اٹھا سکے گا۔ جو آدمی نماز روزہ کی مشقت برداشت نہ کرسکے ، وہ بھلا میدان جنگ کی صعوبتوں میں کیسے ثابت قدم رہ سکتا ہے۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(آل عمران۳: ۲۰۰)
’’اے ایمان والو، اپنے اندر صبر پیدا کرو، اور دشمن کے مقابل میں ثابت قدمی دکھاؤ، اور سامان جنگ تیار رکھو، اور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم کامیاب رہو۔‘‘
اس آیت میں دشمن کے مقابل میں’ صبر‘ (صابروا) پر ’صبر‘ (صبروا) مقدم ہے، اس لیے (صابروا) کا صبر عام صبر کے بغیر پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ جو دین و شریعت اور زندگی کے عام معاملات میں صبر و استقامت نہیں دکھاتا، وہ اصل میں اپنے آپ کو صبر میں ترقی کے سفر پر نہیں ڈالتا کہ جس کے بعد وہ صبر کے داعیات اور حوصلوں کو اپنے باطن میں پروان چڑھاتا چلا جائے۔ اور ان داعیات کی پرورش کرتے کرتے اس مقام تک جا پہنچے کہ آدمی میدان جنگ میں مردانہ وار لڑتے لڑتے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردے۔
ہماری ساری زندگی نفس کے ساتھ جہاد کی زندگی ہے۔ ہمیں اس جہاد میں صبرو استقامت دکھانی ہے۔نفس کے تیر و تفنگ کے مقابلے میں صبر کی ڈھال اور اعمال صالح کی تلوار سے دفاع کرنا ہے۔ کوئی جنگ صرف ڈھال کی مددسے نہیں لڑی جا سکتی ۔ اس کے لیے تلوار کی بھی ضرورت ہے۔ نفس کے میدان جنگ میں صبر کی حیثیت ڈھال کی ہے اور اعمال کی حیثیت تلوار کی۔ صبر ہمارے اندر وہ وصف پیدا کردیتا ہے ، جس کے ذریعے سے ہم اپنے نفس کی شہوات اور لوگوں کی اذیتوں اور خدا کی طرف سے آئی ہوئی تقدیر کی سختیوں کی ضرب کو سہ لیتے ہیں۔ اور اعمال صالح ہمارے اندر کے باطل داعیات و جذبات کو ختم کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’ان الصلٰوۃ تنہی عن الفحشاء والمنکر‘ ’’بلاشبہ نماز کھلی بے حیائی اور منکر اعمال سے روکتی ہے۔‘‘
قربانی کاایک نہایت ہی ایمان افروز واقعہ سیدنا ابراہیم کے فرزند اسماعیل کے ذبح سے متعلق ہے۔جس میں جب سیدنا ابراہیم نے اپنے خواب کا ذکر اسماعیل علیہ السلام سے کیا تو انھوں نے آگے سے جواب میں کہا کہ:
یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ.(الصافات۳۷: ۱۰۲)
’’اے ابا جان ،جو آپ کو حکم ہوا ہے، کر گزریے ، آپ، ان شا ء اللہ، مجھے صابر پائیں گے۔‘‘
جہاد اور اس قربانی میں یہ امر مشترک ہے کہ دونوں میں جان کو خطرہ لاحق ہے۔ سیدنا اسماعیل کا اپنے رب کے حکم کے سامنے اس طرح سرافگندگی اس وقت اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اس آیت سے اگلی آیت میں اس قربانی کے حکم کا جو منشا سامنے آرہا ہے ، وہ یہ تھا کہ سیدنا ابراہیم سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا اور اس کے دین کی خدمت کے لیے نذر کردیں۔ اور پھر اس قربانی کو ہماری عیدالاضحی کی قربانی سے بدل دیاگیا۔ جواب اس بات کی علامت ہے کہ قربانی اصل میں اس بات کا نام ہے کہ ہم خدا کے حضور میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہروقت حاضرہیں۔
جان کا یہ نذرانہ، جیسا کہ سیدنا اسماعیل کے جواب سے معلوم ہورہا ہے، ایک عظیم صبر کا مظہر ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی باپ اور بیٹا ،دونوں کے لیے صبر کا ایک بڑا امتحان تھی ۔ سیدنا ابراہیم کو یہ بیٹا ایک طویل مدت کے بعد عطا ہوا تھا اور اس کے جوان ہوتے ہی اس کو طلب کرلیا گیا، اس میں ان کے لیے ثبات قدم اور حق کے آگے سرافگندگی کی عظیم آزمایش تھی۔
قربانی میدان جنگ میں ہو یا راہ حق میں اپنے آپ کو وقف کر دینے کی، دونوں کے لیے حوصلہ، عزیمت اور صبر وا ستقامت کی ضرورت ہے۔جو راہ خدا میں چھوٹی چھوٹی قربانیوں ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ آپ کبھی اپنی تفریحات کو خدا کے حکم کے لیے قربان کررہے ہوتے ہیں اور کبھی اپنے اوقات و لمحات کو، کبھی نیند توڑ کر اٹھ رہے ہوتے ہیں اور کبھی اپنے لذیذ کھانوں کو اٹھا کر فقیر کو دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی وہ قربانی ہے جو سارا دن سامنے موجود رہتی ہے۔ ہر لمحہ ہم سے کسی چیز کو قربان کیے جانے کا مطالبہ ہو رہا ہوتا ہے۔ وقت، خواہش، مال، تمنا اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہیں جن کے مطالبے ہروقت موجود رہتے ہیں۔ کبھی فقیر دروازے پر ہوتا ہے اور کبھی کوئی ضرورت مند بھائی، کبھی ہمسایے کو ہمارے تعاون کی ضرور ت ہوتی ہے اور کبھی ہمیں ان کی۔ کبھی ملت پکار رہی ہوتی ہے اور کبھی دین کی نصرت ۔ کبھی محلہ مطالبہ لیے کھڑا ہوتا ہے اور کبھی پورا معاشرہ۔ کبھی ملک و قوم اور کبھی دنیا کی انسانیت۔ہر موڑ پر ہم سے ایثار و قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ان مطالبات پر اپنی جان و مال کی قربانی کے لیے اگر کوئی چیز کام آ سکتی ہے تو وہ ثابت قدمی ہے۔ جسے قرآن صبر کہتا ہے۔
نماز اور صبر کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایک ساتھ بیان کیا گیاہے ۔کہیں نماز صبر کے حصول کاذریعہ ہے اور کہیں دوام نماز کا دارو مدار صبر پر ہے۔سورۂ طٰہٰ میں قرآن مجید کا ارشادہے:
فَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِہَا، وَمِنْ اٰنَآیئ الَّیْلِ، فَسَبِّحْ، وَ اَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی.(۲۰: ۱۳۰)
’’جوکچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں، اس پر صبر کرو،اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو، سورج کے چڑھنے اور ڈوبنے سے پہلے، رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو، اور دن کے اطراف میں بھی تا کہ تم نہال ہو جاؤ۔‘‘
یہاں صبر کے بعد پانچ وقت کی نماز کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تا کہ یہ بات واضح کی جائے کہ صبر نماز پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ سورۂ مزمل میں اس کو مزید کھول دیا گیا ہے، جہاںآپ کو اسی مقصد سے نماز کاحکم دیاگیاہے۔
دوسرا پہلو یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ صبر نماز کا اس لحاظ سے بھی مصاحب ہے کہ وہ نماز کے دوام و قیام کا سبب ہے۔ یہ بات بھی سورۂ طٰہٰ ہی میں بیان کی گئی ہے:
وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰٰوۃِ ، وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا.( ۲۰: ۱۳۲)
’’اپنے لوگوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی صبر سے اس پر جمے رہو۔‘‘
اس آیت میں صبر کے نماز کے ساتھ تعلق کا ایک دوسرا رخ واضح کیا گیاہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی نماز پر استقامت کے لیے اپنے اندر صبر کا وصف پیدا کرے ۔ اگر صبر و استقامت کا یہ وصف اس کے اندرنہیں ہے تو وہ کبھی بھی اس نماز پر دوام سے قائم نہ رہ سکے گا۔
نماز ہمارے دل سے برائی کو ختم کرتی ہے۔ برائی کا خاتمہ کئی چیزوں سے ہمیں بے نیاز کردیتا ہے۔ یہ بے نیازی ہمارے اندر صبر کے وصف کوجنم دیتی ہے۔یعنی ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ نماز کے قیام کے لیے جب ہمیں اٹھنا پڑے تو خواہشات نفس کو جو نماز کے لیے اٹھنے میں رکاوٹ ہوتی ہیں، انھیں اپنی بے نیازی کی وجہ سے قربان کر کے اٹھ سکیں۔
نماز دراصل اللہ کی یاددہانی کا ذریعہ ہے ۔یہ یاددہانی اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔خدا کے ساتھ تعلق کی مضبوطی دراصل انسان میں حوصلہ و ہمت کو پیدا کرتی ہے ، جس کی بنا پر آدمی بڑی سے بڑی مشکل اٹھانے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے۔جیسا کہ ہم صحابۂ کرام میں دیکھتے ہیں کہ وہ بدر وحنین میں کس تحمل سے اترتے اور عزم و حوصلہ کی عظیم الشان داستان رقم کر دیتے ہیں۔
قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض مواقع پر جب صبر کا حکم دیا کہ آپ کفار کی باتوں اور اذیتوں پر صبر کریں تو ساتھ ہی آپ کو ہجر جمیل کا مشورہ بھی دیا۔سورۂ مزمل میں یہ حکم یوں بیان ہوا ہے:
وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا.(۷۳: ۱۰)
’’اور جو یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور خوب صورتی سے ان سے گریز کر لو۔‘‘
مولانا امین احسن صاحب اصلاحی رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
’’ چھوڑنا دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک چھوڑنا تو وہ ہے جو فضیحتاً اور لعن طعن کے بعد ، عناد و انتقام کے جذبہ کے ساتھ ہو۔اس طرح کا چھوڑنا عام دنیا داروں کا شیوہ ہے۔اخیار و صالحین یہ طریقہ اختیار نہیں کرتے ۔ ...وہ لوگوں کے رویے سے مجبور ہو کر انھیں چھوڑتے تو ہیں ،لیکن یہ چھوڑنا اس طرح کا ہوتا ہے جس طرح ایک شریف باپ اپنے نالائق بیٹے کے رویہ پر خاموشی اور علیحدگی اختیار کرلیتا ہے۔اس طرح کے چھوڑنے کو یہاں ہجر جمیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس طرح کی علیحدگی بعض اوقات اچھے نتائج پیدا کرتی ہے۔جن کے اندر خیر کی کوئی رمق ہوتی ہے، وہ اس شریفانہ طرز عمل سے متاثر اور اپنے رویہ کا جائزہ لینے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۲۸)
سورۂ مزمل کی مندرجہ بالا اس آیت سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ صبر کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کو اگر لوگوں کوراہ حق میں چلتے ہوئے چھوڑنا بھی پڑے تو انھیں خوب صورت طریقے سے چھوڑیں۔اگر آپ نے چھوڑتے وقت گالی دی یا کینہ و عناد کے ساتھ چھوڑاتو یہ صبر کے طریقے کے خلاف ہو گا۔ اس آیت کی روشنی میں آپ صبر کے اس معنی کو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ صبر اصل میں ایسے رویے کا نام ہے کہ اگر لوگوں کو چھوڑے بنا راہ حق و اخلاق پرقائم رہنا ممکن نہ ہو تو صبر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق و کردار اور اعلیٰ اوصاف پر قائم رہتے ہوئے انھیں چھوڑدیں ۔اپنے سینے کو ہر طرح کے کینے اور نفرتوں سے پاک رکھیں۔ ان کو دھکے دے کر اور گالی گلوچ کے بعد رخصت نہ کریں۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ چھوڑنے سے مرادیہ نہیں ہے کہ آپ اپنے لازمی فرائض و واجبات سے دست بردار ہو جائیں۔ آپ کو ان کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ وہ بڑے ہیں تو ان کا احترام کرنا ہے۔ حاجت مند ہیں تو ان کی مدد کو آنا ہے۔ کمزور ہیں تو ان کا ساتھ دینا ہے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو آپ صابر نہیں کہلاسکتے۔ کیونکہ ہمیشہ کے لیے بالکل چھوڑ دینا تو غیر صابروں کاشیوہ ہے۔جو ردعمل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ’’ہجر جمیل‘‘ میں ’’جمیل‘‘ وہی چیز ہے جسے ہم صبر جمیل کے تحت پڑھ چکے ہیں۔
قرآن مجید میں صبر کا ایک ساتھی عزیمت کو بھی قرار دیا گیا ہے،بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہیے کہ صبر کو عزیمت قرار دیا گیا ہے۔سورۂ لقمان میں ہے:
وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ، اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ.(۳۱: ۱۷)
’’اورجو بھی مصیبت تمھیں پہنچے، اس پر صبر کرو، بلاشبہ یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘
سورۂ حٰم ٓمیں یوں آیا ہے کہ
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ .(۴۶: ۳۵)
’’تو تم اولوالعزم رسولوں کی طرح ثابت قدم رہو۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ صبر عزم و ہمت والے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔عزم کے معنی پختہ ارادہ کے ہیں۔ وہ آدمی اولوالعزم ہے، جو کسی مقصد کے لیے ارادہ کرے اور اس پر جم جائے۔ظاہر ہے، ایسا آدمی جس کا اپنے مقصد پر پورا عزم ہو اور اس کی نگاہیں اپنی منزل پر گڑی ہوں ،تو وہ راستے کی مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ مگر اس کے برعکس جس کے عزم و ہمت میں کمی ہوگی اور اس کے ارادے پختہ نہیں ہوں گے تو عبد اللہ بن ابی کی مانند میدان آزمایش سے بھاگ جائے گا۔وہ منزل کو نہ پا سکے گا۔
صابر آدمی وہی ہے جو عزیمت کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرے اور پورے حوصلہ کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہے۔آپ کو زندگی کے نشیب و فراز میں اگر کسی چیز کو ہدف بنائے رکھنا ہے تو وہ یہ ہے کہ میں نے آخرت میں ہر طرح سے کامیابی حاصل کرنی ہے۔ اور پھر اس منزل کو پانے کے لیے ہرحالت میں ہمیں حوصلہ مندی سے راہ گزر طے کرنا ہے۔
یہاں ہم تقویٰ کے لفظ کو صرف خدا خوفی کے معنی کے لحاظ سے زیر بحث لائیں گے۔ اس لیے کہ خدا کی طرف سے نعمتوں کا احساس اور ان پر شکرگزاری نیکیوں کی بنیاد ہے اور خدا خوفی برائیوں سے روکنے کی بنیاد ہے۔ پہلی چیز ہمارے لیے تحریک کا باعث ہے اور دوسری چیز ہمارے لیے برائی کے راستے کی رکاوٹ ہے ۔ ’ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم‘ میں اصل بات یہی موجب فضیلت ہے کہ یہ آدمی برائی سے بچنے والا ہے۔ اپنی فطرت کا محافظ ہے۔ خدا خوفی یا تقویٰ قرآن مجید میں صبرکے ساتھ زیربحث آیا ہے۔ (آل عمران۳: ۱۲۰)۔ اس لحاظ سے یہ صبر کا مصاحب ہے۔
خدا خوفی بے صبری میں ہونے والے اقدامات کی بھی بیخ کنی کرتی ہے۔اور اگر ہم سے صادر ہو جائیں تو ہمیں توبہ و معذرت پر ابھارتی ہے،جو حق پر ثابت قدمی ہے۔ اس لیے تقویٰ یا خشیت دراصل صبر کا ایسا ساتھی ہے، جو صبر کو پیدا کرتا اور اسے تقویت دیتا ہے۔
تقویٰ ہماری زندگی کے تمام پہلووں میں صبر کا ایک گہرا دوست ہے۔اس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے، اس لیے آگے ہم تقویٰ کے اہم اجزا کے ساتھ صبر کی مفاہمت کا ذکر تفصیل سے کریں گے۔
توکل کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے آپ اور اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کریں اور اس کے سہارے پر مطمئن رہیں۔ توکل اور صبر، دونوں ایک دوسرے کے معاون و رفیق ہیں۔ بعض موقعوں پر اگر توکل کا وصف آپ میں موجود نہ ہو تو آپ صبر پر قادر نہیں ہو سکتے۔ اور اگر صبر کی عادت پختہ نہ ہو تو توکل کی طرف پیش قدمی بھی ممکن نہیں ہوتی۔
یعنی جب آپ اللہ تعالیٰ کو اپنے امور کا محافظ ،نگران اور کارساز سمجھتے ہوں تو یہ تصور آپ کے اندر ایک احساس تحفظ پیدا کرتا اور مصائب و شدائد میں ہمیں ایک نئی قوت عطا کرتا ہے۔اسی طرح صبر کی عادت آپ کو اس بات سے روکتی ہے کہ آپ جلدی میں خدا سے مایوس ہو جائیں، خدا کے ساتھ اپنے سچے تعلق پر قائم رہیں تاآنکہ اللہ اس صورت حال سے نکال نہ دے ۔
توکل صبر کا سب سے بڑا ساتھی ہے۔ اگر آپ خدا پر توکل رکھتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ صبر آپ کو حاصل نہ ہو۔ لیکن بہتیرے لوگ ایسے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم صاحب توکل ہیں، مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے نہایت ہی چھوٹے سے معاملے میں توکل پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور ایک بڑے حصے میں وہ توکل سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ایک حصے میں صابر و شاکر نظر آئیں گے ، مگردوسرے حصے میں وہ نہایت بے صبرے دکھائی دیں گے۔
توکل اور صبردکان پر بیٹھے ہوئے آدمی کے لیے مثلاً یہ ہے کہ وہ خدا کے بھروسے پر دکان میں آئے اور اپنی اس کوشش اور محنت کے بعد گاہک کا انتظار کرے، اگر گاہک آجائے تو شکر گزار ہو۔اور اگر گاہک آتا دکھائی نہ دے تو اپنے آپ کو یہ خیال کرے کہ وہ رب کی دی ہوئی روٹی پر ہی جیتا ہے ، جس نے اسے کل تک جیتا رکھا ہے تو وہ آج بھی دے گا۔ اور اگر آج اس نے نہیں دی تو شایدروٹی نہ ملنے ہی میں میری زندگی ہے۔ اس لیے کہ زندگی صرف دو ٹکڑے روٹی کا نام نہیں ہے، بلکہ اس روحانی لگاؤکا نام بھی ہے جو مالک کی طرف سے روٹی نہ ملنے کے باوجود اسی کے دروازے پر بیٹھے رہنے سے حاصل ہوتا ہے۔ شاید اسی بات کو سمجھاتے ہوئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آدمی صرف روٹی سے ہی نہیں جیتا ، بلکہ کلمہ سے بھی جیتا ہے۔یہی صبر ہے جو توکل آپ کے اندر پیدا کرتا ہے۔
یہ توکل اور صبر ان لوگوں کے لیے ایک مشکل بن جاتا ہے ، جو میدا ن دعوت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ان کے اوپر جب نقد اور طعن و تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں تو وہ اپنے معاملے کو خدا کے حوالے کرنے کے بجائے جواب دینے کے لیے خود میدان میں اتر آتے ہیں۔ایسے لوگ دعوتی زندگی میں اخلاق کی جنگ ہار جاتے اور بالآخر دین کے نقصان کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس میدان میں لازماً خدا کے فیصلوں ہی کاانتظار کرنا چاہیے ، خواہ یہ انتظار ہماری زندگی کے خاتمے پر ہی ختم ہو۔
گھریلو زندگی میں بھی توکل ہی کے سہارے سے صبر اور قناعت پیدا ہوتی ہے ۔بیویاں بالعموم اس توکل سے محروم ہوتی ہیں کہ رزق و پوشاک اللہ ہی دینے والا ہے، ہاں البتہ ان کے شوہر اگر ناکارہ بیٹھے رہتے ہوں تو ان کو سمجھاناا ور نہ ماننے پر خاندان کے بزرگوں اور بالآخر عدالت کو بیچ میں ڈال کر انھیں کام پر مجبور کرنا یہ صبر اور توکل کے خلاف نہیں ہے۔لیکن اگر شوہر پوری محنت کرتا ہے۔ نچلا نہیں بیٹھتا اور اپنی کمائی شراب اور جوئے میں نہیں لٹا تا ، مگر اس سب کچھ کے باوجود رزق میں تنگی ہے تو پھرخدا کے فیصلے پر راضی رہنے کی کوشش ہمارے لیے صبر کا ذریعہ بنے گی۔
اس کی ایک عام مثال اولاد سے محرومی کی بھی ہے ۔اولاد اگر نہیں ہوتی تو سسرال اور شوہر ایک ظالم گروہ کی طرح اپنی بہو بیٹی پر یلغار کر دیتے ہیں، پہلے طعنوں کی صورت میں اور پھر طلاق یا مارنے پیٹنے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ خدا پر توکل رکھنے والے ایسے رویے اختیار نہیں کرتے۔
صبر کاا یک بڑا پہلو انتظار بھی ہے۔اس معنی میں یہ سورۂ حجرات میںآیاہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ. وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ.(۴۹: ۴۔۵)
’’بے شک جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر سمجھ رکھنے والے نہیں ہیں۔اگر یہ لوگ صبر (یعنی انتظار) کرتے حتیٰ کہ تم خود ہی ان کی طرف نکل آتے۔ تو ان کے لیے یہ بہتر ہوتا۔‘‘
صبر یہ چاہتا ہے کہ آپ اپنے اندر انتظار کا وصف بھی پیدا کریں، انتظار جلد بازی کا بھی متضاد ہے اور بے صبری کا بھی۔ ان آیات میں جس بے صبر ی کا ذکر ہے ، وہ یہ ہے کہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتے تھے اور آکر اگر دیکھتے کہ آپ ملاقات کی جگہ پر نہیں ہیں تو وہ آپ کے حجروں کے سامنے کھڑے ہو کر مسلسل آوازیں دیتے رہتے ۔ اس کے پیچھے غالباً ان کا محرک یہ ہوتا تھا کہ ہمیں اہمیت دی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد ان کے ملنے کے لیے باہر آجائیں۔
اس کے پیچھے کی نفسیات ظاہر ہے ،ایک بدویانہ تربیت کا نتیجہ ہے ۔ جس میں چھوٹے بڑے کے آداب، ملنے جلنے اورمعاشرے کی کسی بڑی شخصیت کے ساتھ معاملہ کرنے کی عدم تربیت ایک اہم جز ہے۔
بعض اوقات صبر کے معنی محض انتظار کے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان مواقع پر صرف انتظار کرلیں تو یہ گویا آپ نے صبر کیا۔ مثلاً آپ نے کسی کے دروازے پر دستک دی تو پھر آپ کو انتظار کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بے صبری سے دستک پر دستک دیتے جائیں اور گھر والا نماز پڑھ رہا ہو یا اتنا بیمار ہو کہ اٹھ کر آہی نہ سکتا ہو اور آپ اس کے لیے تکلیف کا باعث بن رہے ہوں۔ آپ کی بے دھڑک مسلسل دستک کسی کے لیے اذیت کا باعث بن سکتی ہے اور اگر وہ آپ پر اپنی اذیت کا اظہار نہ بھی کرے تو آپ تو بہرحال اذیت دینے کا باعث بن گئے ہیں۔
سڑکوں پر چلتے ہوئے ، آپ یہ اکثر دیکھیں گے کہ ہمارے بھائی اشارہ بند ہونے کے باوجود پیچھے سے ہارن بجاتے رہتے ہیں۔ یہ نہ صرف عدم شایستگی کی علامت ہے، بلکہ ان کی بے صبری کا بھی اظہار ہے۔اگر وہ انتظار کریں تو اگلے آدمی کو آپ اذیت نہیں دیں گے۔ وگرنہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ ہارن بجا بجا کر ماحول میں شور پیدا کرتے اور اپنے سے اگلے گاڑی والوں کے لیے بالخصوص اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ اسی بے صبری کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب آپ اشارہ توڑتے ہوئے چوک پار کرجاتے ہیں۔آپ کی یہ بے صبری آپ کے جسم و جان کے نقصان کا باعث بھی ہو سکتی ہے اور دوسروں کے بھی۔ پہلی صورت میں آپ نے نقصان اٹھایا اور دوسری صورت میں آپ نقصان دینے والے بن گئے۔ دونوں چیزیں ظاہر ہے کہ اچھی نہیں ہیں۔
گھروں میں ساس اور بہو اور میاں اور بیوی کے جھگڑوں میں ایک بڑا سبب یہی بے صبر ی ہے ۔ سب لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ادھر ہم حکم کریں اور ادھر کھانا یا کپڑے تیار ہو کر ان کے ہاتھ میں تھما دیے جائیں۔ یا ادھر ہم نصیحت کریں اور اگلے ہی لمحے اصلاح ہو جائے۔انسانی زندگی میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ چیزیں بھی فوراً تیار نہیں ہوتیں اور اصلاح تو بالخصوص فوراً نہیں ہو جاتی۔ کچھ چیزیں لوگوں کی عادت بن جاتی ہیں اور کچھ چیزیں عادت نہ سہی، مگر کسی کو کسی نہ کسی پہلو سے اچھی لگ سکتی ہیں۔ مگر چونکہ وہ آپ کو اچھی نہیں لگ رہی ہیں، اس لیے آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ فوراًچھوڑ دے۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ پہلے ہی دن ایمان لے آتے ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ ایک سال بعد، لیکن دونوں کا درجہ ہم سب جانتے ہیں کہ بس انیس بیس ہی کا فرق رہا ہو گا۔ ہم یہاں یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیدنا عمر کفر پر ضد کر رہے تھے۔ نہیں ایسا نہیں تھا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو ایک سال تک اپنی قبائلی اور دینی روایات کے مطابق ایک اچھا عمل سمجھتے تھے۔ جب آپ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ حق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے تو فوراً تبدیل ہو گئے۔ انھوں نے اپنی اصلاح کرلی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر بے صبر ی سے کام لیتے تو وہ دعا نہ کرتے کہ اے اللہ، مجھے ایک عمر دے دے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آپ نے پوری زندگی بھی بعض لوگوں کی اصلاح کا انتظار کیا ہے۔جس کے اثرات ہم فتح مکہ کے موقع پردیکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ انتظار نہ کیا جاتا اور مثلاً ہجرت مدینہ کے موقع پر ہی سب کو ناقابل اصلاح قرار دے دیا جاتاتو یہ بے صبری ہوتی ۔ اسی لیے قرآن مجید آپ کو باربار یہی نصیحت کرتا رہا کہ ’فاصبر لحکم ربک ‘(اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کرو)۔
____________