واضح رہے کہ ایمان کی طرح ہر وصف اور ہر نیکی کے شعبے ہوتے ہیں۔مثلاً توکل کے بھی شعبے ہیں، بعض لوگ خدا کی طرف سے آنے والے امتحانات میں تو توکل پر قائم رہ پاتے ہیں ، مگر انسانوں کی طرف سے آنے والے مصائب پر وہ ایسا نہیں کرپاتے اور خدا کے توکل کو بھول کر انتقام لینے نکل پڑتے ہیں اور بعض اس کے برعکس لوگوں کے ساتھ تو معاملات بخوبی نبھاتے ہیں، مگر سماوی تکالیف میں وہ خدا سے نالاں ہوتے یا مایوس ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ایسا ہی مسئلہ صبر میں ہے۔ آدمی بعض پہلووں میں بہت اچھا صابرہو گا اور بعض میں وہ نہایت بے صبرا۔ کہیں غصے میں بھڑ ک اٹھے گا اور کہیں نہایت صبر و حوصلے کے ساتھ شاہ راہ حیات پر گام زن ہوگا۔ہر آدمی کو ان اوصاف میں کامل ہونے کی سعی کرنی ہے۔
دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ وہ مکمل معنی میں غیر صابر ہو۔ وہ کہیں نہ کہیں صبر کررہا ہوتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنا جائزہ لے اور اپنے آپ کو کامل معنی میں صابر بنائے۔
ہم سب آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔آخرت پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ ہم چوبیس گھنٹے اس یاد میں رہیں کہ ہم امتحان دینے آئے ہیں۔ ہماری حالت اس طالب علم کی سی ہے جو کمرۂ امتحان میں بیٹھا ہے۔ جس کی ساری توجہ اپنے پرچے پر ہے۔اس کی توجہ ان چیزوں پر نہیں ہوتی کہ اس کا کمرہ صحیح ہے یا نہیں ، جس میز پر وہ بیٹھا ہے ، اس کا خیال اس کی تعمیر و رعنائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اس کی سر تا سر کوشش یہی ہوتی ہے کہ بس امتحان دے اور فارغ ہوچکے۔ وہ ہمہ وقت اس میں مگن ہے کہ کسی نہ کسی طرح پرچہ اچھا ہوجائے۔ کسی کی نقل کرکے، کسی سے پوچھ کر ، بھولی ہوئی بات یاد کرکے سوال کا جواب پورا دے دے ۔ ہر لمحہ وہ اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ اس کا پرچہ صحیح حل ہو جائے۔
جو آدمی اپنے امتحان میں یوں مگن ہوجائے تو وہ بس اپنے بینچ اور میز کی اتنی ہی فکر کرے گا جس پرو ہ بیٹھ کر امتحان دے سکے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ یہی حالت ہماری اس کمرۂ امتحان میں ہے جس میں ہم ساٹھ ستر یا اس سے کم یا زیادہ برسوں کے لیے ڈال دیے جاتے ہیں، لیکن چونکہ ہم اس امتحان میں نسل در نسل ڈالے گئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک تو ایسا لگتا ہے کہ کمرۂ امتحان ہی میں ترکھان نے دکان کھول لی ہے۔ اور وہ ہر طالب علم کی خواہش کے مطابق میز اور بینچیں بنانے لگا ہے۔چنانچہ اب پرچے کے بجائے بینچ اور میز کی رعنائی پر توجہ ہو گئی ہے ۔ پرچہ ممتحن کے ہاتھ میں دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ اور بینچوں اور میزوں کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے اور امتحان کی جانب کسی کو توجہ نہیں ہے۔ اگر امتحان کی جانب توجہ ہوتی تو ٹوٹی میز اور ہلتی ہوئی بینچ بھی کافی تھی، مگر اب اس سے توجہ اٹھ گئی ہے،اس لیے میزوں میں مقابلہ ہو گیا ہے ۔ جس میں غصہ بھی آرہا ہے اور بے صبری بھی ظاہر ہو رہی ہے۔آپا دھاپی کا سماں ہے۔ حسن و رعنائی کے مقابلے ہیں اور امتحان کی کھٹک سی سینے میں ہے ۔ میزوں میں مقابلہ ہارتے ہیں تو سیخ پا ہو جاتے ہیں اور چھینا جھپٹی جاری ہو گئی ہے۔
یہی آج کی دنیا کے انسان کی حقیقت ہے کہ وہ کمرۂ امتحان میں ہے، مگر سمجھتا ہے کہ اس سے باہر ہے۔اگر وہ دوبارہ کمرۂ امتحان میں آجائے تو اسے نہ غم ستائیں گے اور نہ مادیت میں دوسروں کی ترقی اور نہ اپنی کم مائیگی۔اگر کوئی چیز اسے ستائے گی تو یہی کہ اس کا پرچہ صحیح حل ہو رہا ہے یا نہیں۔ اگر پرچہ صحیح حل نہیں ہو رہا تو میز کی خو ب صورتی اسے کھلنے لگے گی۔ بینچ کی نرمی اس کے لیے تکلیف دہ ہو جائے گی۔
اس تمثیل کو ہم نے اس لیے بیان کیا ہے کہ آپ پر یہ حقیقت واضح ہو کہ آخرت کا ایمان آدمی میں کیا نظر اور زاویۂ نگاہ پیدا کرتا ہے اوراس سے گریز اور دوری کیا مسائل پیدا کرتی ہے۔ یعنی جب آدمی راستے کو منزل سمجھ لے اور گزر گاہ کو گھر بنا لے تو اس سے کیا مسائل پیدا ہوں گے۔ایک تو وہ منزل کھوٹی کر لے گا اور دوسرے اس دنیا میں ایک تکلیف سے بھرپور قسم کی کیفیت میں مبتلا رہے گا جو اس سے ہر طرح کے اعلیٰ اوصاف کو آہستہ آہستہ چھین لے گی۔جن میں صبر سب سے بڑا وصف ہے۔
نیکی کے اسباب دنیوی بھی ہوتے ہیں اور دینی بھی۔ہمیں حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے محرکات اور اسباب دینی ہو جائیں۔ مثلاً صبر ہی میں دیکھیں تو کبھی ہم اپنے بچوں کے محض پیار اور شفقت کے پیش نظر ان کی غلطیوں پرصبر کرلیتے ہیں اور ان کی برائی سے صرف نظر کرتے ہیں ، مگر اسے دینی بنا لینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم پیار اور محبت کے ساتھ ساتھ خدا کی رضا جوئی کے لیے ایسا کریں ، پھر ہم محض صرف نظر نہیں کریں گے اور شفقت دکھا کر نہیں رہ جائیں گے ، بلکہ ان کی خیرخواہی میں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں گے۔ ان کے دنیوی مستقبل ہی پر نہیں اخروی مستقبل پر بھی ہماری نگاہ ہو گی۔ اور یہ صبر پھر محض ایک باپ یا ماں کا عمل بن کر نہیں رہ جائے گا، بلکہ ایک بندۂ مومن کا عمل خیر بن جائے گا۔ جس سے خود اس کی اپنی تربیت بھی ہو گی اور اس کو اجر بھی ملے گا۔
_______________