چھٹا باب
آ ج ہر طرح کی پلاننگ کے حوالے سے ہم ایک افسوس ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ایک فرد کی سطح سے لے کر سب سے اوپر ریاستی سطح تک، ہر طرف پلاننگ کا فقدان نظر آتا ہے۔ایک نوجوان تعلیم حاصل کرتا ہے مگر اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا مقصد کیا ہے۔وہ کیا بننا چاہتا ہے اور ان کے لیے کونسی کوشش درکار ہے۔اسی نوجوان کی جب شادی ہوتی ہے تو اسی وقت اس بندھن کا اس کے نزدیک یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اب گھر میں بچے آئیں گے۔لیکن اس سے آگے اس کے سامنے کچھ واضح نہیں ہوتا کہ اس کا اس کی زندگی پر،اس کی بیوی کی زندگی پر اور آنے والے بچے کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔ایک خاتون کے لیے پہلا حمل خصوصی طور پر حساس اور خطروں بھرا ہوتا ہے۔مگر ہمارے ہاں شاذونادر ہی معمول کے چیک اپ کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔راقم وہ لمحہ کبھی بھی بھول نہیں سکتا جب شہر کے مضافات میں رہنے والی ایک خاتون اس کے پاس لائی گئی۔اس نوجوان خاتون کے حمل کا آٹھواں مہینہ تھا۔پچھلے چار دن سے اسے غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔رشتہ داروں نے سوچا کہ یہ جنا ت کی کارستانی ہے چانچہ یہ دن تعویذ گنڈوں میں ضائع ہوئے۔جب حالت بہت غیر ہو گئی تو طبی معائنے کے لیے لے آئے۔معلوم ہوا اس کو eclampsiaنامی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔یہ بیماری حاملہ خواتین کو لاحق ہو سکتی ہے اور اگر ایسی خاتون معمول کی چیک اپ جاری رکھے تو اس کے علامات ظاہر ہونے سے بیشتر ہی ڈاکٹر اس کا پتہ لگا لیتا ہے اور اس کا تدارک ہو جاتا ہے۔بہر حال مذکورہ بالا خاتون بچ تو گئی مگر اس پر ہزاروں روپے لگ گئے۔بچہ ضائع ہو گیا۔کئی ہفتے ہسپتال میں رہنا پڑا۔وہ مستقل مرگی کی مریضہ بن گئی اور اس کی نوجوانی یوں خاک ہو گئی کہ وہ بیس سال کی عمر میں ایک ادھیڑ خاتون نظر آنے لگی۔اس بیماری کے وقت اس کا خاوند بھی موجود نہیں تھا اس لیے کہ وہ شادی کے دو مہینے بعد دوبئی چلا گیا تھا۔
اسی طرح ایک اور خاتون کا قصہ بھلائے نہیں بھولتا۔اس خاتون کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی۔اس کے تیرہ بچے تھے اور چودہواں بچہ پیٹ میں تھا۔اس کو پچھلے دس سال سے فالج کے وقتی دورے پڑ رہے تھے۔ہر ولادت کے وقت اس کو جان کے لالے پڑ جاتے تھے مگر وہ کسی نہ کسی طرح بچ جاتی تھی۔معائنے سے معلوم ہوا کہ اسے شوگر بھی ہے اور بلڈ پریشر بھی۔اس کے خاوند سے،جو ابھی ابھی چلے سے لوٹا تھا،درخواست کی گئی کہ آئندہ فیملی پلاننگ کے طریقوں سے کام لے۔یہ سنتے ہی اس نے کہا کہ یہ مداخلت فی الدین ہے۔یہ سلسلہ تو جاری رہے گا۔موت کو جب آنا ہے سو آجائے۔رہے بچے تو ان کا بھی اللہ مالک ہے۔
یہ ایک معمول ہے کہ آٹھ،دس یا بارہ تیرہ تک بچے ایک خاتون کے ہوچکے ہوتے ہیں۔اگلی دفعہ جب ماہواری میں تاخیر ہو جاتی ہے تو خاتون کو تشویش لاحق ہو جاتی ہے کہ کیا پھر حمل ٹھہر گیا ہے۔پھر جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ حمل موجود ہے تو پھر وہ روتی ہے اور چیختی چلاتی ہے کہ اس کا اسقاط کیا جائے اور اس اسقاط کے لیے وہ ایسی مختلف مشہور جگہوں پر جاتی ہے۔لیکن اگر اس سے پوچھا جائے کہ اس نے حمل سے پہلے ہی فیملی پلاننگ کے طریقوں سے کیوں کام نہیں لیا تو اس کا سوائے خاموشی کے اور کوئی جواب نہیں ہوتا۔
یہاں مقابلے بھی ہوتے ہیں۔مثلاًکسی خاتون کے آٹھ بچے ہیں جن میں پانچ لڑکیاں اور تین لڑکے ہیں۔اب وہ اور اس کا خاوند چاہتے ہیں کہ مزید بچے بھی آئیں۔جب پوچھا جاتا ہے کہ اتنی بڑی فیملی کے بعد اب مزید بچوں کی کیا ضرورت ہے۔تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل خاوند کے دوسرے بھائی کے پانچ لڑکے ہیں۔چنانچہ ان سے سکور برابر کرنا ہے۔
عام طور پر جب پانچ چھ بچوں کی پیدائش کے بعد میاں بیوی کو وقفے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو عام طور پر یہ جواب ملتا ہے کہ یہ تو قدرت کا کھیل ہے،اس میں ہمارا کیا دخل۔یہ جواب دینے والے عموماًاپنے باقی معاملات میں کوئی اچھے مسلمان نہیں ہوتے۔جھوٹ،غیبت،خیانت،کام چوری،لڑائی جھگڑے روزمرہ کا معمول ہوتے ہیں۔حقوق العباد کی طرف کوئی توجہ نہیں مگر بس ایک سلسلہ ہے جو چل رہا ہے۔یہ روئے صرف غیر تعلیم یافتہ لوگوں ہی کے نہیں بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی مسئلے کی تہہ کو پہنچے بغیر اپنے معاملات چلاتے ہیں۔ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کے ہاں جب شادی کے دوسال کے اندر اندر دوبچوں کی ولادت ہوگئی تو اسے فیملی پلاننگ کے طریقے استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر اس نے کہا کہ رزق دینے والی ذات تو پروردگار کی ہے،ہمیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ۔بہر حال بڑی مشکل سے اسے قائل کیا گیا۔
ہمارے یہاں خاندان کس طرح وجود پذیر اور تشکیل پذیر ہوتے ہیں۔اس ضمن میں ایک خاندان کا تذکرہ مناسب ہے۔ایک خاندان جس کی سربراہ سڑسٹھ یا ستر سالہ ایک خاتون ہے۔اس خاتون کی شادی اپنے گاؤں میں نویادس سال کی عمر میں ہوئی جب کہ ابھی اسے پہلی ماہواری بھی نہیں آئی تھی۔جب وہ بالغ ہوگئی تو اس کے بچے ہونے شروع ہوئے۔اس کے کل نو بچے پیدا ہوئے جن میں سے پانچ مرگئے،کچھ ڈیلوری کے وقت اور کچھ بعد میں۔شادی کے پندرہ بیس سال بعد خاوند کو دمے کا مرض لاحق ہوگیا۔وجہ اس کی یہ تھی کہ خاوند آٹے کی چکی میں کام کرتا تھا۔جب بیماری کی وجہ سے خاوند کام کے قابل نہ رہا اور گاؤ ں میں دوکانداروں نے قرض دینے سے انکار کیا رتو خاتون شہر میں آگئی اور ایک گھر میں کام کاج کرنے لگی۔کچھ مدت بعد اس نے خاوند اور بچوں کو بھی شہر بلوا لیا۔آخری تین بچے خاوند کی اس بیماری کے دوران میں پیدا ہوئے۔وہ آٹھ دس سال کی بیماری کے بعد فوت ہوگیا۔اس خاتون کے زندہ چار بچوں میں سے دولڑکیاں ہیں اور دو لڑکے ہیں۔پہلی لڑکی کے مزید سات بچے ہیں۔ان میں بڑے دوبچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور ان کے بھی اب دو دو تین تین بچے ہیں۔ان میں سے کسی نے تعلیم حاصل نہیں کی۔دوسری لڑکی کے سات لڑکے ہیں۔ لڑکی کوئی نہیں۔اس لڑکی کا خاوند کبھی نشہ اور کبھی مزدوری کرتا ہے۔لڑکی بھی مزدوری کرتی ہے۔بچوں میں سے تین ذہنی طور پر ہلکے سے پس ماندہ ہیں۔دوبچے پچھلے کئی برس سے لاہور بھاگ گئے تھے اب ان سے کوئی خاص رابطہ نہیں۔آخری دوبچوں کو دینی مدرسہ میں حفظ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔لیکن ابھی بچوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔یہ سب لوگ ایک کمرے کے کرائے کے گھر میں رہتے ہیں خاتون سربراہ کے ایک لڑکے کی پہلی بیوی سے پانچ بچے ہیں جن میں سے تین فوت ہوگئے،پہلی بیوی سے ان بن ہوگئی۔چنانچہ اس علیحدگی کے بعد اس نے ایک اور شادی کر لی جس سے اب اس کے مزید تین بچے ہیں۔وہ سوزوکی ڈبہ چلاتا ہے۔آخری بچوں میں سے ایک کو اس نے گورنمنٹ سکول میں داخل کردیا ہے۔وہ کرائے کے ایک کمرے کے گھر میں رہتا ہے۔سربراہ خاتون کے دوسرے لڑکے کے چھ بچے ہیں۔اس کے بعد وہ سعودی عرب چلا گیا چنانچہ’’قدرتی منصوبہ بندی‘‘ہوگئی۔بہرحال اس کی بیوی چونکہ نسبتاًہوشیار ہے،وہ خود بھی کام کرتی ہے اور اسے معلوم ہے کہ اسے بلڈپریشر ہے چنانچہ جب اس کا خاوند گھر آتا ہے تو وہ فیملی پلاننگ کے طریقوں سے کام لیتی ہے۔اس کی پہلی لڑکی کی بھی پندرہ برس کی عمر میں شادی ہوگئی ہے اور اب اس کے بھی تین بچے ہیں۔دوبڑے لڑکے ذہنی طور پر نسبتاًپس ماندہ ہیں(ذہنی پس ماندگی کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں خاندان کے اندر کی شادیاں ہیں)۔وہ ایک ہوٹل میں کام کرتے ہیں۔آخری دوبچے سکول جاتے ہیں۔بڑے لڑکے میں سے ایک کی منگنی اپنے چچا کی اس لڑکی سے ہوچکی ہے جس کی ماں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
کوئی چاہے تو اس طرح کے ہزاروں لاکھوں خاندانوں کی سچی کہانیاں اکٹھی کر سکتا ہے،ایسے خاندانوں کی اخلاقی اور سماجی حالت کے متعلق بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ایسے خاندانوں سے جو’’پاکستان‘‘بن رہا ہے اور مستقبل میں بنے گا،کا خاکہ بھی ذہن میں آسکتا ہے۔ایک عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ ایسے خاندانوں کے بچے اسلام کی کتنی خدمت کرینگے۔یقیناًایسے تمام والدین بے سوچے سمجھے بچے پیدا کرکے امت مسلمہ کی زبوں حالی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں اور ایک بڑی غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔جن کے لئے پروردگار کے ہاں ان کا مواخذہ ہو سکتا ہے۔چنانچہ یہ ہے وہ صورت حال جو ہر حساس مسلمان اور پاکستانی کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم،طب،احساس ذمہ داری،حقوق وفرائض اور مجموعی منصبوبہ بندی کی طرف بلائے اور ان کا شعور ان کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے۔نیز ان کو بتائے کہ اسلام کا بنیادی مقصد ایک اچھے اور مثبت معاشرے کی تشکیل ہے جو اس وقت وجود میں آئے گا۔جب ہمارے بچے تعلیم یافتہ،صحت مند اور تربیت یافتہ ہو۔
اس وقت پاکستان اور پوری امت مسلمہ ایک ناقابل رشک صورت حال سے گزر رہی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے۔زیادہ تر لوگوں کے لیے پوری طبی سہولیات موجود نہیں ہیں۔کرپشن اور ناجائز سفارشیں ہمارے معاشروں کوگھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔جمہوری کلچراور جمہوری روئے ہمارے لیے ابھی روزمرہ کا معمول نہیں بن سکے ۔امت مسلمہ کے غربت کے سمندر میں امارت کے چند ہی جزیرے موجود ہیں۔صنعت وحرفت اور سائنس وٹیکنالوجی میں دوسرے ممالک ہم سے کہیں آگے ہیں۔ضرورت کی عام اشیاء کے لیے بھی ہم دوسروں کے مختاج ہیں۔جرائم کی سطح بہت اونچی ہے۔ہمارے یہاں زندگی کے تمام میدانوں میں ایک عمومی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس کے نتیجے میں پوری امت مسلمہ بغیر کسی طویل المیعاد منصوبہ بندی اور حکمت وتدبیر کے زندگی گزار رہی ہے۔جس کے نتیجے میں ہم دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے رویوں میں تبدیلی پیدا ہو۔ہم میں احساس ذمہ داری پیدا ہو۔ہم حکمت و تدبیراور جمہوری کلچر کے ساتھ جینا سیکھیں۔ہم زندگی کے ہرمیدان میں بہترین منصوبہ بندی پر عمل پیراہوں۔ہر چیز کے متعلق غوروفکر،علم،عقل اور حکمت و تدبر سے کام لیناخود قرآن مجید کی ہدایت ہے۔حالات کا صحیح تجزیہ کئے بغیر محض جذباتی نعرے اور ہیجان خیز رو ئے اختیار کرکے ہم اپنے آپ ہی کونقصان پہنچائیں گے۔اسی سے ہمارے دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں۔چنانچہ ہمیں بلحاظ مجموعی اپنی سو چ میں تبدیلی لانی ہوگی۔
انسانیت ،امت مسلمہ،پاکستان اور ہمارا خاندان،یہ سب کچھ ہمارا اورہماری آنے والی نسلوں کا ورثہ ہے۔اس کی حفاظت ہم پر لازم ہے۔ہمیں ان سب کے متعلق تدبر اور ذمہ داری پر مبنی رویہ اختیار کرنا ہوگا۔جب ہم ایسا کریں گے تو ہم ہر اعتبار سے خودداری اور وقار کی زندگی بسر کرسکیں گے۔