HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

فیملی پلاننگ پر اعتراضات کا جائزہ (حصہ دوم)


فیملی پلاننگ: مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی سازش

 

یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ فیملی پلاننگ ہمارے خلاف دشمن کی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھنے نہ پائے۔یہ اعتراض بھی بالکل بے وزن ہے۔اس امت کے خلاف اصل سازش تو یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ بے ہنگم،غیر منظم،تعلیم سے بے بہرہ اور سائنس سے نا بلد رکھا جائے۔آبادی میں غیر منظم اضافہ تمام پلاننگ کو درہم برہم کرکے رکھ دیتا ہے۔اس کے برعکس ایک منظم اور منصوبہ بند قوم اپنی تہذیب اور عملی برتری کو تمام دنیا پر قائم کر دیتی ہے۔اس طرح جب امت مسلمہ اپنے آپ کو برتری کے اعلیٰ ترین مقام پر لے جائے تو غیر مسلم اقوام کے قبول اسلام کی راہ کھل جائے گی ۔اس امت کی خدمت کا یہی صحیح طریقہ ہے۔

اس ضمن میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ فیملی پلاننگ کے لئے مغربی ممالک بہت امداد فراہم کررہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ امداد وہ ہمارے مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لئے ہمیں دے رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فیملی پلاننگ دراصل مغرب کے مقاصد کو پورا کر رہی ہے۔

درج بالا نکتے کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے مفاد میں کیا ہے اور ہمیں وہ کس طرح حاصل کرنا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس دنیا میں ہر ہوش مند قوم وہی کچھ کرتی ہے،جو اس کے فائدے میں ہوتی ہے۔یہ فایدہ مثبت بھی ہوسکتا ہے اور منفی بھی۔اگر کوئی قوم بالکل ہی منفی ہتھ کنڈے استعمال کرنے پر اتر آئے اور پوری انسانیت کی تباہی کا سامان کرنے لگے تو قدرت اپنے انتظام کے تحت اس کا ہاتھ روک دیتی ہے(ملاحظہ ہو صفحہ نمبر چار پر ہونے والی بحث)۔تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ایک خاص فعل ایک قوم کے بھی مفاد میں ہو اور وہی فعل کچھ اور وجوہات کی بناء پر دوسری قوم کے فائدے میں بھی جاتی ہو۔ایسی صورت میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔

اگر غیر ترقی یافتہ ممالک کی آبادی بے محابا بڑھتی رہی تو اس سے ترقی یافتہ ملکوں کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔مثلاً تیسری دنیا میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھنے سے بے اطمینانی میں اضافہ ہوگا،انتہاپسندانہ سوچ بڑھے گی،جس کے نتیجے میں باربار انقلاب آئیں گے۔ایسی حکومتیں برسراقتدار آسکتی ہیں جو عالمی امن کے لئے خطرہ ثابت ہوں۔انتہاپسندانہ لوگ دہشت گردی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں جس کا نتیجہ ترقی یافتہ ملکوں کی مزید پریشانی کی صورت میں نکلے گا۔

جب غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا تو بے شمار لوگ مہم جو بن کر ترقی یافتہ ملکوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔جس کی وجہ سے ان ممالک کے اندر جرائم،منشیات اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا نیز امن وامان کے مزید انتظامات پر بھی بہت خرچ آئے گا۔

ترقی یافتہ ممالک یہ بھی اندیشہ رکھتے ہوں گے کہ غیر ترقی یافتہ ممالک کی آبادی تیزی سے بڑھنے اور اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک کی آبادی نہ بڑھنے کے نتیجے میں توازن آبادی اس حد تک بگڑنے کا امکان ہے جس کے نتیجے میں ان کی بالادستی کمزور ہوجائے گی۔

اگر درج بالا عوامل کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دوعوامل تو مثبت ہیں جب کہ تیسرا منفی ہے۔اس تیسرے عامل کے ضمن میں درج ذیل حقائق کی بنیاد پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے۔

ایک یہ کہ اگر کیفیت بمقابلہ کمیت(quality versus quantity)کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے۔آج اصل اہمیت علم اور سائنس کی ہے۔ٹیکنالوجی سے لیس ایک انسان،تہی دست سو افراد پر بھاری ہے۔ترقی یافتہ ممالک ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جس مقام پر ہیں اور دن بدن وہاں اس میدان پر جس طرح تحقیق ہو رہی ہے،اس کے مقابلے میں پس ماندہ ممالک ٹیکنالوجی اور تحقیق کے میدان میں جتنا پیچھے اور اس سے غافل ہیں،اگر یہی صورت حال جاری رہی تو آئندہ ایک لمبے عرصے میں ترقی یافتہ ممالک کو اس میدان میں کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ جو ممالک کسی حد تک ترقی یافتہ ممالک کے مقابل آرہے ہیں،وہ بھی غیر مسلم ممالک ہیں مثلاً چین،بھارت اور ارجنٹاین وغیرہ۔یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ ان ممالک کے اندر ترقی کے ساتھ ساتھ فیملی پلاننگ بھی بڑے زور وشور سے ہو رہی ہے۔اگر فیملی پلاننگ صرف مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہوتی تو ان غیر مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ پر سرے سے عمل ہی نہ کیا جاتا۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے اندر ایک طرف تو فیملی پلاننگ پر عمل نہیں ہورہا اور دوسری طرف ترقی کے بجائے تنزل کی طرف سفر جاری ہے۔تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمدنی دن بدن کم ہورہی ہے۔جہاں فی کس آمدنی بڑھ رہی ہے۔وہاں مہنگائی اس سے رفتار میں تیز ترہے۔بمشکل دوممالک ایسے ہیں جہاں ترقی ہورہی ہے مثلاً ملایشیاء اور ترکی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی ممالک فیملی پلاننگ پر بھی عمل پیرا ہیں۔

چوتھی حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے پچھلے پانچ سو برس میں ہمیشہ بہتر حکمت عملی سے کام لیاہے۔مثلاً جب یورپ کے اندر آبادی بڑھنے لگی تو وہاں کے باشندوں نے امریکہ اور آسٹریلیا کی شکل میں نئی دنیا ئیں دریافت کر لیں اور ایشیاء افریقہ کے بڑے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ زیادہ آبادی ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے تو انہوں نے فیملی پلاننگ کے طریقے ایجاد کر لئے۔اب بھی یہ ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ اگر وہ سمجھیں کہ توازن آبادی فیصلہ کن صورت میں ان کے خلاف ہو رہا ہے،تو وہ فوری طور پر پلاننگ کے تحت آبادی بڑھانا شروع کر دیں۔قدرتی وسائل،زمین اور سرمایہ،سبھی کچھ ان کے پاس دوسروں سے زیادہ ہے۔

درج بالا حقائق کی وجہ سے یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ آبادی کا عدم توازن مغرب کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ان کے لئے اصل عوامل پہلے دو ہیں جن کی وجہ سے وہ پس ماندہ دنیا میں فیملی پلاننگ کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں اگر ہم اپنے نقطہ نظر سے اس مسئلے کا جائزہ لیں تو معلو م ہوتا ہے کہ خود مثبت بنیادوں پر یہ بات ہمارے مفاد میں ہے کہ ہم فیملی پلاننگ سے کام لیں۔اس طرح ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم،صحت اور تربیت کی طرف زیادہ توجہ دے سکیں گے۔ہمارے تمام وسائل آبادی کی بڑھوتری کی نذر ہونے کے بجائے انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کی طرف منتقل کیا جاسکے گا۔ہمارے لئے قومی منصوبہ بندی میں آسانی ہوگی۔غربت اور انتہاپسندی پر قابو پایا جا سکے گا۔دوسری کی مختاجی سے ہم رفتہ رفتہ نکل سکیں گے۔یوں اسی طریقے سے کام لیتے ہوئے ہم آہستہ آہستہ ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ آسکیں گے۔

اس بحث سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ فیملی پلاننگ سے پس ماندہ ممالک کو زیادہ فوائد متوقع ہیں۔کچھ وجوہات کی بناء پر ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس سے دلچسپی ہے مگر درحقیقت یہ چیز خود ہمارے مفاد میں ہے۔

بعض اوقات ایک اور سوال بھی پیش کیا جاتا ہے۔وہ یہ کہ فیملی پلاننگ پر جو رقم خرچ ہو رہی ہے،اسے ملکی ترقی پر کیوں نہ خرچ کیا جائے اور دوسرا یہ کہ فیملی پلاننگ کے بجائے ایسے طریقے کیوں نہ دریافت کئے جائیں جن کے ذریعے کثرت آبادی سے مثبت کام لیا جا سکے۔پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ فیملی پلاننگ پر پس ماندہ ممالک میں جو رقم خرچ ہوتی ہے،وہ بجٹ کے اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم ہوتی ہے جب کہ اس کے ضمنی فواید اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ آبادی کی صحیح پلاننگ اور تعلیم وتربیت تو یقیناًضروری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خاندنی منصوبہ بندی کو رواج دیا جائے۔


فیملی پلاننگ کے طریقوں کے نقصانات

 

بسا اوقات اس بات پر بھی بہت زور دیا جاتا ہے کہ فیملی پلاننگ کے ہر طریقے کے کچھ ناپسندیدہ یا مضر ذیلی اثرات بھی ہوتے ہیں۔یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہر طبی طریقے کے کچھ ذیلی اثرات بھی ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان چیزوں کا استعمال ترک نہیں کیا جا تا۔مثلاً ہر دوا کے ذیلی اثرات ہوتے ہیں،ہر آپریشن میں انسانی موت سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔سڑک پر سفر کرنے والا اور ہوا ئی جہاز کا ہر مسافر حادثے کا شکار ہو سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ان سب چیزوں کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے۔یہی صورت خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کی ہے۔ہمیں بہتر طریقوں کی تلاش جاری رکھنی چاہئیے۔یہی مثبت راستہ ہے۔ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ کس خاندان کے لئے کون سا طریقہ سب سے مناسب ہوگا لیکن ذیلی اثرات کے ڈر سے ان طریقوں کو ترک کرنا کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔

 

چند روایات کا صحیح مفہوم 

 

احادیث رسولؐ سے فائدہ اٹھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک موضوع سے متعلق تمام روایات کا دقت نظر سے مطالعہ کیا جائے،ان کو قرآن مجید کے ارشادات کے تحت سمجھا جائے اور جن روایات کا مفہوم متعین کرنے میں مشکل پیش آتی ہو، ا نھیں ان جیسی دوسری روایات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

جب ہم فیملی پلاننگ سے تعلق رکھنے والی تمام روایات کا دقت نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ہمیں تین طرح کی روایات نظر آتی ہیں۔ایک وہ روایات جن میں حضورﷺنے اس زمانے میں رائج فیملی پلاننگ کے واحد طریقے یعنی عزل کی اجازت دی ہے۔دوسری وہ روایات جن میں حضورﷺنے اس کی اجازت تو دی ،مگر اس کے ساتھ کچھ مزید باتیں بھی ارشاد فرمائی ہیں اور تیسرے گروپ میں وہ روایات شامل ہیں جن سے بظاہر فیملی پلاننگ کی نفی ہوتی ہے۔چنانچہ ہم ان تینوں گروپوں کا مطالعہ کریں گے۔

جن احادیث میں عزل کی غیر مشروط اجازت دی گئی ہے، وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم، دونوں میں روایت کی گئی ہیں۔مثلاً حضرت جابرؓسے صحیح مسلم میں یہ روایات مذکور ہیں:

’’ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اترتا تھا ۔اور اسحاق کی روایت میں یہ بھی ہے کہ سفیان نے کہاکہ اگر عزل برا ہوتا تو قرآن مجید میں اس کی نہی اترتی۔‘‘

’’ہم رسول اللہؐ کے زمانہ مبارک میں عزل کیا کرتے تھے۔آپ کواس کی خبر پہنچی مگر آپؐ نے اس سے ہمیں منع نہیں فرمایا۔‘‘

ٍ قرآن مجید کے نزول کے وقت جتنے خلاف اسلام امور سرزمین عرب میں رائج تھے،ا نھیں قرآن مجید نے نام لے لے کر صراحت کے ساتھ منع کر دیا اور باقی زمانوں کے لیے اصول دے د یے ۔چنانچہ اگر عزل ممنوع ہوتا تو قرآن مجید لازماً اس سے روک دیتا۔

احادیث کا دوسرا گروپ وہ ہے جن میں حضورﷺنے عزل سے منع نہیں فرمایا ۔مگر اس کے ساتھ کچھ سوالات کئے اور کچھ اصولی باتوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کی ۔مثلاً ابو سعید خدریؓ کے ایک سوال کے جواب میں آپؐ نے فرمایا: ’’تم اگر یہ کرو تو بھی حرج نہیں اور اگر نہ کرو تو بھی کچھ حرج نہیں ۔اس لیے کہ پروردگار نے قیامت تک جس روح کی پیدا یش لکھی ہے ،وہ توپیدا ہو کر رہے گی۔ ‘‘

اسی جواب کو ایک اور روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے ’’تم یہ کرتے ہی رہو گے(یہ بات آپ ؐ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی)اور قیامت کے دن تک پیدا ہونے والی روح ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔‘‘

اسی جواب کو ایک اور روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے؛’’آپؐ نے فرمایا :تم عزل کیوں کرتے ہو۔آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایسا مت کرو۔اس لیے کہ پیدا ہونے والی ہر جان کو اللہ لازماً پیدا کرکے رہے گا۔‘‘

حضورﷺکے ان ارشادات کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی تدبیر ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لے۔وہ اپنی تدبیر کرتا رہے گا مگر قدرت کی طرف سے تقدیر اپنی کچھ مصلحتوں کے تحت اپنے فیصلے صادر کرتی رہے گی۔جہاں تک فیملی پلاننگ کا تعلق ہے ،یہ بچوں کو روکنے کی نہیں بلکہ ان میں مناسب وقفہ لانے کی تدبیر ہے۔یعنی یہ کہ قیامت تک جتنے بچے پیدا ہو نے ہیں،وہ ضرور پیدا ہوں مگر ایک پلاننگ کے تحت ہوں،بغیر مناسب تیاری کے پیدا نہ ہوں۔جب انسان اس کے لئے کوشش کرے گا تو پروردگار اپنے قانون کے تحت اس کی کوشش کو بار آور کرے گا اور کبھی اس کی کوشش کامیاب نہیں بھی ہوگی۔اس لیے کہ قدرت کے فیصلے پوری کائنات اور عالم انسانیت کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سامنے رکھ کر کئے جاتے ہیں۔

تیسرے گروپ میں صرف دو روایات ہیں جو بظاہر فیملی پلاننگ کے خلاف محسوس ہو تی ہیں۔ مسلم کتاب النکاح میں ایک خاتون حضرت جدامہؓ بنت وھب سے روایت ہے کہ ’’جب لوگوں نے حضورﷺسے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ ’’واد خفی‘‘ہے۔یہی ہے وہ مؤدۃ جس کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا‘‘

اس حدیث پر تین بڑے اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ اگر عزل اتنا بڑا گناہ ہے کہ یہ ایک زندہ انسان کو دفن کرنے کے مترادف ہے،تو پھر یہ لازم تھا کہ حضورؐ اس سے نہایت واضح الفاظ میں تمام لوگوں کو منع فرماتے،بار بار منع فرماتے اور ضروری تھا کہ یہ روایت کئی دوسرے صحابہؓ کے ذریعے بھی ہمیں پہنچی ہوتی ۔اس لئے کہ اس کا تعلق اس معاملے سے ہے جس سے ہر شادی شدہ انسان کو روز واسطہ پیش آتا ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے اور اس کی تائید میں دوسری کوئی روایت نہیں ہے۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ حدیث پہلے اور دوسرے گروپ کی بیسیوں صحیح ترین روایات سے متضاد اور متعارض ہے۔اگر ہم اس کو مان لیں تو ہمیں اس باب میں باقی تمام روایات کا انکار کرنا پڑے گا۔

تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک اور حدیث میں اس بات کی وضاحت آئی ہے،یہ اس سے بھی متضادہے ۔ابو داؤد اور ترمذی کی روایت کے مطابق ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ میری ایک کنیز ہے جس سے ملاپ کے وقت میں عزل کرتا ہوں۔اس لئے کہ میں اس کا حاملہ ہو نا پسند نہیں کرتا ۔مگر یہود کہتے ہیں کہ عزل بھی ایک چھوٹی قسم کی مو دۃ(یعنی بچی کو زندہ درگور کرنا)ہے ۔اس پر حضور ؐنے فرمایا’’یہود جھوٹے ہیں۔اگر اللہ کسی کو پیدا کرنا چاہے تو تم اسے روک نہیں سکتے۔‘‘

درج بالا حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ دراصل یہودیوں کے کسی گروہ کا قول تھا اور حضورؐ نے اس کی تردید فرمائی۔چنانچہ اگر اس حدیث اور پہلے اور دوسرے گروہ کی تمام احادیث کی روشنی میں ہم زیر بحث روایت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر بھی حضورؐ نے یہودیوں کے اس قول کی تردید فرمائی ہوگی مگر درمیانی راویوں(یعنی وہ لوگ جن سے یہ روایت ہمیں پہنچی ہے)میں سے کسی راوی کے بات کو پوری طرح یاد نہ رکھ سکنے کے سبب اس میں یہ کمزوری در آئی۔

تیسرے گروپ ہی کی ایک اور روایت،جو ابو داؤد میں تحریر ہے،کے مطابق حضورؐ نے فرمایا ’’خوب محبت کرنے والی اور خوب بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمام امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کرونگا‘‘

اس روایت میں دو بڑی اندرونی کمزوریاں ہیں ۔پہلی کمزوری یہ ہے کہ شادی سے پہلے بھلا کس کو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کی بیوی اس سے خوب محبت کرے گی یا نہیں۔اس کا کوئی علمی یا عقلی معیار مقرر نہیں کیا جا سکتا ۔بیوی کا شوہر سے محبت کرنے کا انحصار صرف اس خاتون کی عادت پر نہیں بلکہ خاوند کے روئے اور بہت سے دوسرے عوامل پر بھی ہوتا ہے۔چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ پہلے سے یہ اندازہ لگا لیا جائے کہ کسی خاص خاتون میں محبت کرنے کا داعیہ کتنا مضبوط ہے۔

اس روایت کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ عملی یا عقلی طریقے سے یہ معلوم کرنا بھی ناممکن ہے کہ کون سی خاتون زیادہ بچے جننے والی ہے۔سوائے ان خواتین کے ،جن میں کسی واضح نقص کی وجہ سے بچے کی ولادت ممکن نہ ہو،باقی تمام خواتین اس صلاحیت سے بہرہ و ر ہوتی ہیں۔لیکن پوری صلاحیت رکھنے کے باوجود بعض اوقات حمل نہیں ہوتا۔بسا اوقات ایک خاص مرد سے کسی خاتون کے ہاں بچے نہیں ہوتے لیکن جب کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی ہوجاتی ہے،تب اس کے کئی بچے پیدا ہوجاتے ہیں۔یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ بعض خاندانوں کی عور توں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔اس لیے کہ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوبہنوں میں سے ایک کے ہاں کئی بچے پیدا ہوئے جب کہ دوسری بہن اولاد کی نعمت سے محروم رہی ۔چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ ایسا کوئی سائنسی آلہ یا مشاہدہ آج تک دریافت نہیں ہوا جس سے کسی خاتون کی اس تخلیقی صلاحیت کا پہلے سے اندازہ لگا یا جائے۔

ممکن ہے کہ اس کی یہ تاویل پیش کی جائے کہ ایسی بیوی یا مطلقہ خاتون سے شادی کی جائے جس کے ہاں بہت سارے بچے پیدا ہو چکے ہوں۔لیکن یہ تاویل بھی صحیح نہیں اس لیے کہ ایسی خاتون اس وقت اپنی ڈھلتی عمر کی وجہ سے مزید بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہوگی۔

عقل عام کی بنیاد پر درج بالا دونوں کمزوریوں کی وجہ سے اس روایت کو صحیح ماننا ممکن نہیں ۔اس لئے کہ وحی،عقل اور سائنسی علم کا سرچشمہ ایک یعنی ذات خداوندی ہی ہے۔چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ اس پروردگار کا نمائندہ یعنی رسو ل ؐوحی کی بنیا دپر ایک ایسی بات فرمادے جو علمی سائنسی اور مشاہداتی اعتبار سے محل نظر ہو۔

عقل وفطرت کی بنیاد پر احادیث کے پرکھنے کو محدثین کی اصطلاح میں ’’درایت‘‘کہتے ہیں۔اس معیار کے پیچھے یہ اصول کارفرما ہے کہ عقل وفطرت اور وحی دونوں پروردگار کی نعمتیں ہیں اس لئے ان دونوں میں تضاد ممکن نہیں۔


فیملی پلاننگ کے مستقل ذریعے 

 

جیسا کہ معلوم ہے فیملی پلاننگ کے کچھ ذریعے عارضی اور کچھ طریقے مستقل ہوتے ہیں۔بعض لوگ ان کے درمیان فرق کر کے عارضی طریقوں کو جائز اور مستقل طریقوں کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ہمارے نزدیک موخرالذ کر طریقوں کو ناجائز سمجھنے کی بنیاد موجود نہیں ہے۔یہ طریقے عموماًاس وقت استعمال میں لائے جاتے ہیں۔جب کسی دوسری بیماری یا مسئلے کے باعث ایک خاتون مزید حمل سے بالکل ہی گریز کرنا چاہتی ہو یا فیملی پلاننگ کے عارضی طریقوں کے خراب ذیلی اثرات ظاہر ہو رہے ہوںیا خاندان پوری طرح مکمل ہو چکا ہو اور ایک خاتون کے ہاں بچوں کی کافی تعداد تو لد ہو چکی ہواور اپنے وسائل کی کمی کے سبب اس کے لیے عارضی طریقوں کا خرچ یا اس کا تسلسل برقرار رکھنا بہت مشکل ہو ۔ایسی صورتوں میں مستقل طریقہ اپنانے میں کوئی حرج نہیں ،بلکہ یہی زیادہ قابل ترجیح ہے۔

بعض اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایسا کرنا قانون فطرت کے خلاف ہے۔اس لئے یہ غلط ہے ۔یہ صحیح دلیل نہیں ہے ۔جس طرح کوئی بھی اور آپریشن ،جس کے ذریعے سے کسی معذوریا بیمار عضو کو نکالا جاتا ہے یا کسی مصنوعی عضو کو جزو بدن بنایا جاتا ہے ،جائز ہے اسی طریقے سے یہ بھی جائز ہے ۔قانون فطرت یہ ہے کہ ایک عورت کے ہاں شادی کے بعد بچے ہوں۔اب اگر ایسا ہو گیا ہے اور بچوں کی تعداد میاں بیوی کے اطمینان کے مطابق پوری ہوگئی ہے تو قانون فطرت پورا ہو گیا۔ درحقیقت فطرت کا قانون یہی ہے کہ ایک خاص عمر کے بعد خاتون کے ہاں اولاد کا سلسلہ بند ہوجائے۔چنانچہ میڈیکل سائنس صرف یہ کرتی ہے کہ خاتون کی صحت کی خاطر اس کام کو چند برس پہلے کرلیتی ہے۔ ہاں اس وقت یقیناً قانون فطرت کی خلاف ورزی ہوگی جب ایک خاتون کو بچے پیدا کیے بغیر ایسے آپریشن پر مجبور کر دیا جائے ۔

بعض اوقات اس کے خلاف یہ عقلی دلیل دی جاتی ہے کہ اگر کسی ایسی خاتون کے تمام بچے خدانخواستہ کسی حادثے کا شکار ہو جائیں تو اس صورت میں وہ مزید بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوگی ۔یقیناًایسی صورت پیش آسکتی ہے ۔مگر ایسی بھی بہت سی صورتیں ممکن ہیں جن میں فیملی پلاننگ کے طریقوں کو اختیار کیے بغیر ہی ایسا ہو جائے مثلاً ایک خاتون کے بچے پیدا کرنے کی عمر گزر گئی ہے اور اس کے سارے بچے حادثے کا شکار ہو گئے،تب کیا کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے موہوم خطرات کو وجہ بناتے ہوئے ایک سائنسی اور علمی چیز کو نہیں جھٹلانا چا ہیے۔شاید ہمارے ملک میں پچھلے پچاس سا ل کے دوران میں ایسے حادثات کی تعداد لاکھوں میں سے دس بھی نہیں ہو گی جن میں کسی حادثے میں ا یک جوڑے کے سارے بچے فوت ہو گئے ہوں ،دونوں میاں بیوی بچ گئے ہوں اور بیوی ابھی بچے پیدا کرنے کی عمر میں ہو۔

مستقل طریقہ ا ختیار کرنے کا فیصلہ یقیناًسوچ سمجھ کے کرنا چا ہیے لیکن جب کر لیا جائے،تب مستقبل کے متعلق پروردگار سے دعا مانگ کر ،تمام حفاظتی تدابیر کو استعمال کرتے ہوئے ،اس پر توکل کر لیا جائے اور موہوم اندیشوں کو اپنے دل میں کوئی جگہ نہ دی جائے۔

واضح رہے کہ اب حقیقت میں کسی بھی طریقے کو مستقل کہنا مناسب نہیں، اس لیے کہ پلاسٹک سرجری کے ذریعے بند نالیوں کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعے سے ہر رکاوٹ کو ختم کر کے بچوں کی نعمت سے سر فراز ہوا جا سکتا ہے۔چنانچہ عملی اعتبار سے اب سے یہ بحث بہت اہمیت کی حامل نہیں۔

 

B