تیسرا باب
قرآن مجید میں کئی مقامات پرلفظ’’بر‘‘کا استعمال کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ’’بر‘‘کے راستے پر گامزن رہیں۔عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ’’نیکی‘‘کیا جاتا ہے۔عظیم مفسر قرآن مولانا حمید الدین فراھیؒ کے مطابق اس لفظ کے اصل معنی’’ادائیگی حقوق‘‘کے ہیں۔یعنی انسان ہر وہ حق ادا کرے جو اس پر قدرتی طور پر اس کے ضمیر کی طرف سے عاید ہوتا ہے۔گویا ہر انسان کو اپنے پروردگار کا حق بھی ادا کرنا ہے اور اپنے سے متعلق ہر دوسرے فرد کاحق بھی اداکرنا ہے۔ہر انسان پر اولین حق اس کے والدین ،میاں،بیوی اور بچوں کا ہوتا ہے،چنانچہ ان سب کے قدرتی حقوق کو پورا کرنا لازم ہے۔
اس دنیا میں ہرنئے بچے کی آمد کے ساتھ ایک نئی صورت حال جنم لیتی ہے ۔اب اس کے کچھ حقوق و فرائض متعین ہوتے ہیں دنیا میں اس کا وجود ایک سنجیدہ واقعہ ہو تاہے ۔چنانچہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کہ وہ پورے عقل و شعور کے ساتھ ان امور کو ملحوظ رکھے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سے ہر فرد حاکم ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ۔ایک آدمی اپنے گھر میں حاکم ہے اور اپنی رعایا کا ذمہ دار۔بیوی اپنے شوہر کے گھر میں حاکم ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں ذمہ دار‘‘
گویا ہر انسان حقوق وفرائض کے رشتے میں دوسروں کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔اگر اس دنیا کی زندگی میں وہ غیر ذمہ دار اور شتر بے مہار بن کر رہے گا تو اس سے اس کی دنیا کی زندگی بھی تکلیف وکمزوری کا شکار ہوگی اور آخرت کی زندگی میں بھی اسے جواب دہ ہونا پڑے گا۔چنانچہ جب ایک مرد اور ایک عورت اپنی آزادانہ مرضی سے رشتہ نکاح میں بند ھ جاتے ہیں اور اسی کے بعد ان کے ہاں بچوں کی آمد ہوتی ہے تو ان سب کے آپس میں ایک دوسرے پر حقوق و فرائض متعین ہوجاتے ہیں۔ان تمام حقوق کی طرف جگہ جگہ قرآن مجید نے اشارات کئے ہیں۔ان پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
بچے یا بچی کا سب سے پہلاحق یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں نو مہینے تک اس کی پوری حفاظت کی جائے، اس کی صحت کا خیال رکھا جائے اور اس کو ہر ممکن بیماری اور خطرے سے بچایا جائے ۔پہلے سے یہ طبی اندازہ لگایا جائے کہ اس کی ولادت کے وقت کوئی مسئلہ تو پیدا نہیں ہوگا۔بچے یا بچی کی ولادت ایک محفوظ جگہ میں عمل میں لائی جائے ۔
بچے یا بچی کا دوسرا حق یہ ہے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی صحت کا پورا خیال رکھا جائے ۔اسے ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں بیماریاں پیدا ہونے اور لگنے کا احتمال کم سے کم ہو۔ پورے گھر میں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھا جائے ۔
بچے یا بچی کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے ماں کا دودھ وافر مقدار میں اور بغیر کسی رکاوٹ کے ملتا رہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسے ماں کا لمس اور ماں کی گود ابتدائی دو سال میں مستقل ملتی رہے۔اس میں حتی الامکان کوئی اور شریک نہ ہو ۔یہ بات سائنسی طور پر ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ابتدائی دو سال میں ماں کا دودھ اور ماں سے بدنی تعلق بچے کی صحت مند نشوونما کے لئے بہت ضروری ہیں۔
بچے یا بچی کا چوتھا حق یہ ہے کہ ابتدائی تین چار سال میں ماں اور باپ اس کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دیں۔یہی تعلیم و تربیت بچے کے لیے مستقبل میں نہایت اہم ثابت ہو تی ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوبچوں کے درمیان تین سے لے کر پانچ برس تک وقفہ ہونا چا ہیے تاکہ اس دوران میں بچے کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی جا سکے۔
بچے کے ساتھ اہم ترین رشتہ ماں کا ہوتا ہے ۔اس لئے اس حوالے سے ماں کے بھی کچھ حقوق و فرائض متعین ہوجاتے ہیں۔ماں کا فرض یہ ہے کہ وہ دوران حمل میں اپنا پورا خیال رکھے۔ اپنا چیک اپ باقاعدگی سے کرواتی رہے۔وضع حمل مناسب جگہ پر ہو ۔ولادت کے بعد اسے اپنا دودھ پلائے ۔ابتدائی دو سال میں بچے کی صحت ،اس کی غذائی ضروریات، اس کو اپنا بدنی لمس فراہم کرنا اور اس کی بہترین تعلیم و تربیت ،ماں کے لیے ترجیح اولین ہو اور اس میں حتی الامکان کوئی اور بڑی مصروفیت اس کی توجہ کمزور نہ ہونے دے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ماں کا یہ حق ہے کہ پہلے دن سے ہی اس کی صحت کا پورا خیال رکھا جائے۔اسے باقاعدگی سے طبی معائنے کے لیے لے جایا جائے۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔بچے کی ولادت کسی مناسب جگہ پر کرنے کا انتظام کیا جائے ۔ولادت کے بعد پہلے چالیس دن ماں کو پورا آرام و سکون دیا جائے ۔بچے کی ولادت کے بعد ماں جسمانی اور نفسیاتی دونوں پہلووں سے بہت نڈھال ہو جاتی ہے۔اس مرحلے سے بخیر و خوبی گزرنے کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی چالیس دنوں میں ماں کی صحت اور اس کے آرام کا پورا خیال رکھا جائے ۔
ماں کا یہ بھی حق ہے کہ ایک بچے کی ولادت کے بعد تین سے لے کر پانچ برس تک اس پر دوبارہ حمل کا بار نہ ڈالا جائے ۔یہ وقفہ ماں کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے ۔جدید طبی تحقیقات سے یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر اور پینتیس برس کے بعد جو خاتون ماں بنے،تو اسے اور اس کے بچے کو بیماریوں اور دوسرے خطرات کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے ۔یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اگر ایک خاتون پر پانچ سے زیادہ بچوں کا بار ڈالا جائے ،تب بھی اس کی اور اس کے بعد میں ہونے والے بچوں کی صحت میں بہت زیادہ مسائل ہوتے ہیں۔اس لیے یہ ایک ماں کا حق ہے کہ وہ صرف اٹھارہ سے پینتیس سال عمر کے درمیان میں ماں بنے اور اس کے بچوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہو۔
ماں کی طرح باپ کے بھی حقوق و فرائض ہیں۔اس کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ اس کی بیوی کو حمل شروع ہوتے ہی اس کی اہم ترین ترجیح اپنی بیوی کی نگہداشت اورصحت ہو اوروہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔وہ اپنی بیوی کو باقاعدہ طبی معائنے کے لیے لے جائے۔وضع حمل کے لیے مناسب انتظام کرے۔ولادت کے بعد بچے اور اس کی ماں کا پورا خیال رکھے ۔ایک ذمہ دار شوہر بن کر اگلے حمل میں کم ازکم تین سے پانچ برس کا وقفہ رکھے ۔اگلے بچے کی تمہید باندھنے سے پہلے بیوی سے مشورہ کرے۔اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی ہر اولاد کو مناسب ذاتی توجہ دے۔ہر بچے پر باپ کی طرف سے ذاتی توجہ بچے کی صحت اور نفسیاتی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
ایک باپ اور شوہر کا یہ حق ہے کہ گھر میں اسے آرام و سکون ملے ۔اس کی بیوی کے پاس اس سے گفتگو اور پیار ومحبت کے لیے پورا وقت ہو ۔یہ تبھی ہو سکتا ہے جب بچوں کی تعداد میں مناسب وقفہ ہو ۔ایک شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی بیوی صحت مند ہو اور وقت سے پہلے بڑھاپے کے آثار اس پر طاری نہ ہوں۔یہ بھی صرف اسی وقت ممکن ہے جب بچوں کی ولادت مناسب وقفہ سے ہو۔ایک باپ کو پروردگار نے اپنے بچوں کی تمام ضروریات کا مکلف ٹھہرایا ہے اس لیے اس کے لیے یہ غور وفکر بھی ضروری ہے کہ اس کی آمدنی کتنی ہے اور اس آمدنی میں وہ کتنے بچوں کے لیے تعلیم ،علاج،صحیح رہا یش اور باعزت زندگی کی ضروریات مہیا کر سکتا ہے۔
جیسا کہ پہلے تذکرہ کیا گیا درج بالا امور میں سے بہت سارے پہلوؤں کی طرف قرآن مجید نے جگہ جگہ اشارات کئے ہیں۔مثلاً ارشاد ہے:
ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجاًلتسکنواالیھاوجعل بینکم مودۃورحمتۃ ان فی ذٰلک لایت لقوم یتفکرون۔(الروم۳۰:۲۱)
’’اس پروردگار کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۔تاکہ ان کے پاس سکون حاصل کرواور تم میاں بیوی کے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کردی۔یقینااس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جوغوروفکر کرتے ہیں۔‘‘
گویا یہ بھی لازم ہے کہ خاندان کی اٹھان اور اس کی تشکیل اس طرح سے ہوجس میں میاں بیوی ایک دوسرے سے سکون حاصل کر سکیں اور ایک دوسرے سے محبت کر سکیں۔
اسی طرح ایک دوسرے پر حقوق کے حوالے سے،ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کے لیے سب سے زیادہ فکر مند ہونے کے حوالے سے قرآن مجید نے سورۃبقرہ آیت۱۸۷میں نہایت خوبصورت مثال استعمال کی ہے۔وہ یہ کہ شوہر بیوی کے لیے لباس کی مانند ہے اور بیوی شوہر کے لیے لباس کی مانند ہے۔دونوں ایک دوسرے کے لیے خوشی ومسرت کا باعث بننے چاہئیں۔دونوں کو ایک دوسرے کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے ،تکلیف اور صحت کا خیال بھی کرنا چاہیے۔دونوں کو ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپانا چاہیے۔
بچوں کے حقوق کے اعتبار سے پروردگار نے انتہائی لطیف اور جذباتی پیرائے میں ماں باپ دونوں کو متوجہ کیا ہے:
ھوالذی خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منھا زوجھالیسکن الیھا فلما تغشٰھاحملت حملاً خفیفاًفمرت بہ فلما اثقلت دعواللہ ربھما لئن اتیتنا صالحاً لنکونن من الشٰکرین۔ (الاعراف۷:۱۸۹)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تم (مردوعورت)کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے تمھارا جوڑا بنایا تاکہ تم (مردوعورت)میں سے ایک دوسرے کے پاس سکون حاصل کر ے۔پھر جب شوہر نے بیوی سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا۔سو وہ اس کو لیے ہوئے چلتی پھرتی رہی۔پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی پروردگار سے دعا کرنے لگے کہ اگر تونے ہم کو صحیح وسالم اور نیک اولاد دے دی تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔‘‘(الاعراف۷:۱۸۹)
دعا کر نے میں یہ مفہوم ومعنی بھی آپ سے آپ شامل ہے کہ مردوعورت دونوں یہ پوری پوری کوشش کریں گے کہ ان کے ہاں اولاد صحت کے اعتبار سے ماں کے پیٹ میں،ولادت کے وقت اور ولادت کے بعد بالکل صحیح وسالم ہو اور وہ اس کی ایسی تربیت کریں جس سے وہ ہر اعتبار سے ایک نیک اور باشعور انسان اور مسلمان بنے۔
اسی طرح کئی روایات میں بھی ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔بیہقی کی روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
’’بیٹے کا باپ پر یہ حق ہے کہ باپ اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کرے اور اس کو اچھا نام دے‘‘
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:
’’اپنی اولاد کو مال دار چھوڑنا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ معاشرے پر بوجھ بنیں اور لوگوں کی خیرات پر پلیں‘‘
ترمذی اور طبرانی کی ایک اور روایت کے مطابق حضورؐ نے فرمایا:
’’ایک باپ اپنے بچے کے لیے ورثے میں اچھی تربیت سے بہتر کوئی چیز نہیں چھوڑتا‘‘
بیہقی کی ایک روایت کے مطابق حضورؐ سے پوچھا گیا:
’’یارسول اللہ!کیا بچے کا ہم پر ایسا ہی حق ہے جیسا کہ ہمارا ان پر ہے۔آپؐ نے فرمایا!ہاں!والد پر بچے کا یہ حق ہے کہ وہ بچے کو لکھنا،تیرتا اورتیراندازی سکھائے اور بچے کے لیے صرف اور صرف پاکیزہ اور عمدہ کھانا فراہم کرے‘‘
صحیح بخاری، مسند احمد بن حنبل اور ابوداؤد کی روایت کے مطابق حضورؐنے فرمایا:
’’اپنے بچوں کے درمیان انصاف سے کام لو۔جیسا کہ تم خود اپنے لیے پسند کرتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ انصاف سے کام لیں‘‘
امام بیہقی کی ’’شعب الایمان‘‘ کی ایک روایت کے مطابق حضرت انسؓ بن مالک نے کہا
’’ایک آدمی حضورؐ کے پاس بیٹھا تھا کہ اس کا بیٹا آیا۔اس نے بیٹے کو بوسہ دیا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔پھر اس کی بچی آئی جسے اس نے اپنے سامنے بٹھا لیا۔حضورؐ نے فرمایا:تم نے ان دونوں(بیٹے اور بیٹی)کے درمیان برابری سے کیوں کام نہیں لیا‘‘
گویا بیٹاہو یا بیٹی ،دونوں کی تعلیم،تربیت،صحت حتیٰ کہ ان کے ساتھ محبت کا برتاؤبھی ایک جیسا ہونا چاہیے۔
درج بالا تمام امور کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق زندگی کے ہر میدان میں علم،فکر،تدبر اور حکمت کا استعمال ضروری ہے۔درج بالا تمام باتیں علم و تدبر اور حکمت ہی کی باتیں ہیں،اس لیے خاندان میں اضافے کے وقت ان تمام امور کا خیال رکھنا ضروری ہے۔اسی کا نام پلاننگ ہے۔