چھٹا باب
مسلمانوں کے حوالے سے غیر مسلم ریاستوں اور شہریوں کے تین گروہ بنتے ہیں۔ایک وہ ممالک جو مسلمان ریاستوں سے دوستی کا رویہ رکھیں،ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کریں، بلکہ تعاون اور ہمدردی کا رویہ اختیار کریں۔
دوسرے وہ ممالک جو دوستی،تعاون اور ہمدردی کا رویہ اختیار نہ کریں، لیکن واضح دشمنی بھی نہ کریں، اورعلی الاعلان مسلمانوں یا مسلمان حکومتوں کو اپنا دشمن قرار نہ دیں۔
تیسرے وہ ممالک جو مسلمان ممالک کو علی الاعلان اپنا دشمن قرار دیں،ا ورمسلمان ممالک پر قبضہ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کے درپے ہوں۔
ہرزمانے میں یہ تینوں گروہ رہے ہیں۔ ان تینوں گروہ کے متعلق قرآن مجید نے علیحدہ علیحدہ اصول دئے ہیں۔جہاں تک پہلے گروہ کا تعلق ہے،اس کے متعلق یہ ہدایت ہے کہ ان سے نیکی اور انصاف کا برتاؤ کیا جائے اور ان کی دوستی کا جواب دوستی سے دیا جائے۔ارشاد ہے:
لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ() اِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلآی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ الظَّالِمُوْنَ() (سورۃ ممتحنہ -60آیات9,8)
’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا،(بلکہ تمھیں اس بات کا حکم دیتا ہے)کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا۔اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تو تمہیں صرف اس بات سے روکتا ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے، تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے، اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ایسے دشمنانِ دین سے جو لوگ بھی دوستی کریں گے، وہی ظالم ہیں۔‘‘
اسی طرح ارشاد ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ()(سورۃمائدہ -5آیت8)
’’اے مسلمانو!کسی قوم کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم عدل وانصاف سے کام نہ لو۔عدل کرو۔یہی تقویٰ کے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرو‘‘
جہاں تک دوسرے گروپ کا تعلق ہے،اس کے متعلق قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ ان کے خلاف لڑائی نہ لڑی جائے۔ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔گویا ان سے کام کا تعلق (Working Relation)رکھا جائے۔
ارشاد ہے:
اِلاَّ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآءُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَہُمْ وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْْکُمْ فَلَقَاتَلُوْکُمْ فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَاجَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلاً()(سورۃنساء-4آیت90 )
’’وہ لوگ جو اس طرح تمھارے پاس آئیں کہ نہ تم سے لڑنے کی ہمت کر رہے ہوں، اور نہ اپنی قوم سے۔اور( ایسے ہیں کہ)اگر اللہ چاہتا تھا تو ان کو تم پر دلیر کردیتا اور وہ تم سے لڑتے۔اس لئے اگر وہ الگ رہیں،تم سے جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ تمھیں ان کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا‘‘
درج بالا آیت سے یہ اصول نکلتا ہے کہ بنیادی طور پر صرف وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں جو ہم سے دشمنی کریں۔اس کے علاوہ باقی سب سے کام کا تعلق رکھا جاسکتا ہے۔
تیسرا گروپ ان اقوام کا ہے جو علی الاعلان کسی مسلمان ملک کے دشمن ہوں۔ایسی صورت میں قرآن مجید نے ہمیں کسی لائحہ عمل کا پابند نہیں کیا۔قرآن مجید نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ جو لوگ ہمیں دشمن سمجھتے ہیں، اُن سے یکطرفہ طور پر دوستی رکھنا اور محبت کرنا بالکل غلط ہے۔ظاہر ہے کہ یہ عقلِ عام سے بھی واضح ہے کہ ایسی ریاستوں سے متعلق بہت چوکنا اور متنبہ رہنا ضروری ہے۔لیکن ان سے عملی تعلق کے حوالے سے دین نے ہمیں حالات کے مطابق کوئی بھی پالیسی بنانے کی اجازت دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے اپنے زمانے میں دشمنوں کے مقابلے میں دفاعی لڑائی بھی لڑی ہے،آگے بڑھ کر خود بھی ان پر حملہ کیا ہے،ان سے جنگ بندی کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ان سے معاہدہ امن بھی کیا ہے اور کل کے دشمنوں سے بعد میں’’حلیف ہونے‘‘کا قول بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ حلیف بنانے کے اس عمل میں غیر مسلم قبیلے بھی شامل تھے۔اور اگر کسی حلیف نے وعدہ خلافی یا غداری کا ارتکاب کیا ہے،تو اسے دوبارہ دشمن بھی قرار دے دیا ہے۔گویا ایسی حکومتوں سے کام کا تعلق ، وقت اور حالات پر منحصر ہے۔اگر کسی وقت حالات کا تقاضا یہ ہو کہ مسلمان ملک کے بچاؤ کی خاطر کسی دشمن ملک سے بھی بظاہر دوستی کا طرزِ عمل اختیار کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ ارشاد ہے:
لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْْءٍ اِلاّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ()(سورۃآل عمران -3آیت28)
’’مومنین اہلِ ایمان کو چھوڑ کر ان منکرینِ حق کو اپنا رفیق ومددگار ہرگز نہ بنائیں۔جو شخص ایسا کرے گا، اُس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں یہ معاف ہے کہ تم اُن کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِعمل اختیار کرجاؤ‘‘۔
ظاہر ہے کہ ایسا کام انتہائی حکمت کا متقاضی ہے تاکہ ایک طرف دشمن کے ظلم سے بچا جائے اور دوسری طرف اپنے ملک کو بھی بچایا جائے۔
غیر مسلم افراد چار گروپوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ایک وہ لوگ جو مسلمانوں سے ہمدردی اور انصاف کا رویہ اختیار کریں اور انسانی بھائی چارے کے اصول کی بنیاد پر مسلمانوں سے تعلق رکھیں۔ایسے لوگ دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ان کے متعلق قرآن مجید کی ہدایت سورۃ ممتحنہ 60آیت 9-8میں اور سورۃ مائدہ5۔آیت8میں آئی ہے جس کے مطابق ایسے لوگوں سے دوستی،انصاف اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا چاہئیے۔
دوسرا گروپ ان غیر مسلموں کا ہے، جو لاتعلق ہیں، یعنی جو مسلمانوں سے کوئی اچھا یا برا تعلق رکھتے ہی نہیں۔پہلے بیان کردہ سورۃ نساء4۔آیت90 کی ہدایت کے مطابق ان سے کام کا تعلق رکھا جاسکتا ہے اور مناسب حالات میں تبلیغ اسلام میں بھی ضروری ہے۔
تیسرا گروپ ایسے ناسمجھ غیر مسلموں کا ہے جو مسلمانوں سے برسرجنگ تو نہیں ہیں، مگر جو اسلام کے متعلق بحث کرتے ہوئے بے سروپا اعتراضات کرتے ہیں، اور آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے متعلق ہدایت ہے کہ انہیں بہترین طریقے سے دین کی دعوت دی جائے۔ان کا جواب معقول طریقے سے دیا جائے۔اگروہ بالکل جہالت پر اتر آئیں تو انہیں سلام کرکے ان سے اس وقت بحث چھوڑ دی جائے اور ان کی بے ہودگی اور زیادتی پر ان سے درگزر اور اعراض کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔اس ضمن میں قرآن مجید میں کئی دفعہ ہدایات آئی ہیں۔چند ارشادات درج ذیل ہیں:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّءَۃَ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ()(سورۃ مومنون23۔آیت96)
’’اے نبی،برائی کا جواب اچھائی سے دو۔ہم خوب جانتے ہیں ان غلط الزامات کو جو تمھارے مخالفین تم پر لگا رہے ہیں‘‘
آگے ارشاد ہے:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ() وَمَا یُلَقَّاہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقَّاہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ() وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بااللہ، انہ ھوا السمیع العلیمO(سورۃحٰم سجدہ-41آیات36.....34)
’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہوسکتی۔برائی کو ہمیشہ بہترین اچھائی سے دفع کرو۔پھر تم دیکھو گے کہ وہی شخص جو تمھارا دشمن تھا،تمھارا جگری دوست بن جائے گا۔ یہ دانائی صرف انہی لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام صرف بڑے نصیب والوں کو ملتا ہے۔ اگر شیطان تمہارے دل میں کوئی اکساہٹ پیدا کرہی دے تو اللہ کی پناہ ڈھونڈو۔ بے شک، حقیقی سننے والا، جاننے والا وہی ہے۔‘‘
مزید ارشاد ہے:
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا()(سورۃ فرقان -25آیت63)
’’رحمان کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین میں اطمینان ووقارسے چلتے ہیں اور جب ضدی اور ہٹ دھرم لوگ ان سے بحث کرتے ہیں تو ان سے سلام کرکے الگ ہو جاتے ہیں‘‘
مزید ارشاد ہے:
وَاِذَا رَاَیْْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیَاتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْْرِہٖ ۔۔۔۔۔۔۔() (سورۃ انعام -6آیت68کا ایک حصہ)
’’جب تم دیکھو کہ وہ لوگ جو ہمارے آیتوں میں عیب نکالتے ہیں تو ان سے الگ ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں‘‘
مزید ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ()(سورۃآل عمران -3آیت134)
’’جو لوگ آسانی اور سختی دونوں مواقع پر اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں،اللہ ان نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے‘‘
مزیدارشاد ہے:
وَاِذَا سَمِعُوا الَّلغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلَامٌ عَلَیْْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاہِلِیْنَ() (سورۃ قصص -28آیت55)
’’جب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمھارے اعمال تمھارے لئے، تم کو سلام ہے۔ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہتے‘‘
مزید ارشاد ہے:
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ() وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ() (سورۃ اعراف -7آیات200-199)
’’اے نبیؐ،نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو،معروف کی تلقین کئے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔اگر تمہیں شیطان اکسائے (کہ نرمی چھوڑ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دو) تو اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘
چوتھا گروپ ان لوگوں کا ہے جو ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں جو مسلمان حکومت سے جنگ کررہی ہو، اور ان کی ساری ہمدردیاں اور مفادات اپنی قوم سے وابستہ ہوں۔ایسے لوگوں سے دوستی اور رازدارانہ تعلق رکھنا منع ہے، اور ایسا کرنا جرم ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں ریاست مدینہ بننے کے بعد برسرِجنگ اقوام کے افراد سے تعلق کو ممنوع قرار دیا گیا۔اس زمانے میں تقریباً تمام مسلمانوں کے کچھ نہ کچھ رشتہ دار اسلام کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ساتھ برسرِجنگ بھی تھے۔ان میں مشرکین،یہودی اور عیسائی سب شامل تھے۔بعض اوقات بے خیالی میں یا اپنے کافر رشتہ داروں کے بچاؤ کی خاطر بعض مسلمان اپنے جنگی راز،ان کے سامنے افشا کر دیتے۔یہ حرکت بعض مخلص مسلمانوں سے بھی تقاضائے بشر ی کے تحت سرزد ہوئی تھی۔چنانچہ قرآن مجید نے باربار اس سے منع کیا۔
ارشاد ہے:
لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْْءٍ اِلاّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ()(سورۃآل عمران -3آیت28)
’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر ان منکرین حق کو اپنا رفیق ومددگار ہرگز نہ بنائیں۔جو شخص ایسا کرے گا، اُس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں یہ معاف ہے کہ تم اُن کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِعمل اختیار کرجاؤ‘‘۔
مزید ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَ کْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ() (سورۃآل عمران -3آیت118)
’’اے ایمان والو،اپنے سے باہر والوں کو اپنا رازدان مت بناؤ۔یہ تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔یہ تمھارے لئے نقصان کے خواہاں ہیں۔ان کی دشمنی ان کے چہروں سے ابل پڑتی ہے اور جو کچھ یہ اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں،وہ اس سے بھی سخت تر ہے۔اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے اپنی تنبہیات تمھارے لئے واضح کر دی ہیں‘‘
مزید ار شاد ہے:
یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْْکُمْ سُلْطَانًا مُّبِیْنًا()(سورۃنساء -4آیت144)
’’اے ایمان والو،ان اہلِ ایمان (یعنی صحابہ کرامؓ) کے بالمقابل میں ان منکرینِ حق(یعنی اسلام کے دشمنوں) کو اپنا دوست نہ بناؤ۔کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح دلیل قائم کر لو‘‘
درج بالا تمام آیات کے سیاق وسباق سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ یہ سب ان برسرجنگ کفار کے لئے نازل ہوئیں جو خالص ظلم کے ساتھ اس ریاست مدینہ کے خلاف لڑ رہے تھے جس کی سربراہی حضورؐکے ہاتھ میں تھی۔
یہودیوں اور عیسائیوں یعنی اہل کتاب کے متعلق قرآن مجید کے بعض ارشادات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئیے کہ انہیں توحید کی شراکت کی بناء پرکام کے تعلق(Working Relation)کی دعوت دیں،اور ان سے اچھے طریقے سے بحث کریں۔قرآن مجید یہ بیان کرتا ہے کہ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بہت اچھے،منصف مزاج اور راست باز ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں اسلام کا پیغام اپنی صحیح شکل پر پہنچ جائے تو وہ اسے قبول کرلیں گے۔اسی طرح قرآن مجید نے مسلمان مردوں کے لئے یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔ظاہر بات ہے کہ ایسی شادی تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب مسلمان مرد اور یہودی یا عیسائی عورت میں محبت کا تعلق استوار ہو،اس کے اہل خاندان سے بھی محبت واحترام کا تعلق رکھا جائے اور ان کے ساتھ کھانے،گفتگو،سیر وتفریح اور غمی شادی کی تقریبات میں شرکت بھی کی جائے۔اسی طرح قرآن مجید یہود یوں اورعیسائیوں کے طعام کو بھی مسلمانوں کے لئے جائز قرار دیتا ہے۔اس ضمن میں قرآن مجید کے کچھ ارشادات درج ذیل ہیں:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلَمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ اَ لاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْْءًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیت64)
’’کہہ دو اے اہل کتاب،اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے،یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ان کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا پروردگارٹھہرائے۔اگر وہ اس چیز سے منہ پھیریں ،تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو مسلم ہیں‘‘
مزید ارشاد ہے:
وَمِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ اِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْْہِ قَآءِمًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْْسَ عَلَیْْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیت75)
’’اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس امانت کا ڈھیر بھی رکھو تو مانگنے پر ادا کریں گے اور ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ اگر تم ان کے پاس بطور امانت ایک دینار بھی رکھو تو وہ اس وقت تک اس کو تمھیں لوٹانے والے نہیں ہیں جب تک تم ان کے سر پر سوار نہ ہوجاؤ۔یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان امیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی الزام نہیں۔یہ لوگ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں‘‘
مزید ارشاد ہے:
لَیْْسُوْا سَوَآءً مِّنْ اَہْلِ الْکِتَابِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیَاتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیْْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ() یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْْرَاتِ وَاُولٰٓءِکَ مِنَ الصَّالِحِیْنَ() وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیات115.....113)
’’سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں،راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔نیکی کی تلقین کرتے ہیں،برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کام میں سرگرم رہتے ہیں۔یہ صالح لوگ ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے،اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے‘‘
مزید ارشاد ہے:
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُم....ْ (سورۃ مائدہ -5آیت5)
’’آج تمھارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔اہل کتاب کا کھانا تمھارے لئے حلال ہے اور تمھارا کھانا،ان کے لئے۔ اہل ایمان اور جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی،کی شریف عورتیں بھی تمھارے لئے حلال ہیں‘‘
مزید ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَفْرَحُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْْکَ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْکِرُ بَعْضَہٗ ......ِ(سورۃ الرعد -13آیت36کا ایک حصہ)
’’اے نبی،جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی،وہ اس کتاب سے جو ہم نے تم پرنازل کی ہے،خوش ہیں۔تاہم مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے‘‘
مزید ارشاد ہے:
اَ لَّذِیْنَ اٰتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ() وَاِذَا یُتْلٰی عَلَیْْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ() اُولٰٓءِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَءُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ()(سورۃ قصص -28آیات54,52)
’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی،وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اس پر ایمان لائے ۔یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے۔ہم تو اس کے آنے سے پہلے سے اس کو ماننے والے ہیں‘‘۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا۔اس لئے کہ وہ ثابت قدم رہے۔وہ برائی کو بھلائی سے رفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے،اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘
مزید ارشاد ہے:
وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتَابِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ۔۔۔۔ (سورۃ عنکبوت -29آیت46کا ایک حصہ)
’’اہل کتاب سے عمدہ طریقے سے بحث کرو،سوائے ان کے جو ظالم ہیں‘‘۔
درج بالا آیات سے بظاہر مختلف معنی کی ایک آیت سورۃ مائدہ5۔آیت51ہے جس میں یہود ونصاریٰ سے دوستی رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔
ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ() (سورۃ مائدہ -5آیت51)
’’اے ایمان والو،تم ان یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔تم میں سے جو بھی انہیں اپنا دوست بنائے گا،وہ انہی میں سے ہے‘‘
درحقیقت اس آیت میں اور درج بالا آٹھ آیات میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہود ونصاریٰ کے نام سے پہلے’’ال‘‘کا لاحقہ آیا ہے یہ ’’عہد‘‘کا ال ہے۔ گویا اس سے مراد کچھ خاص یہود ونصاریٰ ہیں،نہ کہ سب کے سب۔اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے یہود ونصاریٰ ہیں جن سے دوستی ممنوع ہے۔پوری سورۃ مائدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمانوں سے برسرجنگ تھے، مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے، مسلمانوں کو ستاتے تھے ، ان کے دین کے خلاف پروپیگنڈے کرتے تھے اور معاہدہ کرنے کے بعد اس سے غداری کرتے تھے۔یقیناًایسے اہل کتاب سے دوستی ایک بڑا جرم تھا۔آج بھی یہود ونصاریٰ کے کسی گروہ کی طرف سے یہ رویہ سامنے آئے تو مسلمانوں کو ایسے گروہ سے تعلقات منقطع کرلینے چاہئیے۔
اسی آیت کی مزید تشریح آگے آیات نمبر57تا59میں آئی ہے، جہاں وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ یہاں یہودونصاریٰ سے مراد صرف وہ خاص یہود ونصاریٰ ہیں جو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں، نماز اور دوسرے اسلامی شعائر کے خلاف مسلسل باتیں کرتے ہیں، اور اسلام سے دشمنی کرتے ہیں۔فرمایا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ() وَاِذَا نَادَیْْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُوْنَ() قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتَابِ ہَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ اِلاّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْنَا وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَاَنَّ اَ کْثَرَکُمْ فَاسِقُوْنَ()(سورۃ مائدۃ -5 آیات57۔۔۔۔59)
’’اے مومنو، اُن اہلِ کتاب اور اُن حق کا انکار کرنے والوں کو اپنا دوست اور رفیق مت بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنادیا ہے۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اُس کو مذاق اور کھیل بنالیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بے عقل ہیں۔ ان سے کہو: ’’اے اہلِ کتاب، تم ہم پر اس بات کا غصہ نکال رہے ہو کہ ہم اللہ اور اُس تعلیم پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل ہوئی، اور ہم اُس تعلیم پر بھی ایمان لائے جو ہم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ تم میں سے تو اکثر فاسق ہیں‘‘۔
اس تشریح سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اُن یہودونصاریٰ اوردوسرے غیر مسلموں کو اپنا دوست نہیں بنانا چاہیے جو علی الاعلان اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اور مسلمانوں سے دشمنی کرتے ہیں۔ آیت نمبر51میں بھی یہی یہود ونصاریٰ مراد ہیں۔
قرآن مجید میں ایک جگہ یہ ارشاد ہے کہ یہود اور مشرکین عموماً مسلمانوں سے دشمنی رکھیں گے جب کہ مسیحی دوستی میں مسلمانوں سے قریب تر ہوں گے۔اس کی وجہ قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ مسیحیوں کے اندر علماء اور درویشوں کی ایک جماعت ہمیشہ موجود رہتی ہے اور مسیحیوں میں تکبر نسبتاً کم ہے۔
ارشاد ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَ نَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ()(سورۃ مائدہ -5آیت82)
’’تم اہل ایمان کی دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور اہل ایمان کی دوستی سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤگے جنہوں نے کہا کہ ہم نصٰریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا درویش پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے‘‘
تارک الدنیا درویشوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بغیر کسی دنیوی لالچ کے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کیا ہوتا ہے۔
پچھلے چودہ سو برس کی تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ مسیحیوں نے بھی بارہا مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے ہیں۔ جس کی مثال ہمیں صلیبی جنگوں اور سپین کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے ملتی ہے۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں قرآن مجید نے مسیحیوں کی تعریف کیوں کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب آیات میں قرآن مجیدنے حضورؐ کے زمانے کے یہودیوں، مسیحیوں اور مشرکین کا تجزیہ کیا ہے۔ اُس زمانے کے یہودیوں میں بھی کچھ اچھے لوگ موجود تھے۔ چنانچہ قرآن مجید نے اُن کی تعریف کی۔ اسی طرح مسیحیوں میں اچھے لوگ زیادہ تعداد میں تھے۔ چنانچہ قرآن نے اُن کی بھی تعریف کی۔ جو یہود ونصاریٰ مسلمانوں سے دشمنی رکھتے تھے، اُن پر قرآن مجید نے تنقید کی۔ جس طرح اُس زمانے کے یہودیوں اور مسیحیوں میں اچھے اور برے لوگ موجود تھے، اسی طرح آج بھی ایسا ہی ہے۔ چنانچہ اُن کے اچھے لوگوں سے ہم مودت ودوستی کا تعلق رکھ سکتے ہیں۔ اور اُن کے برے اور اسلام کے دشمن لوگوں سے ہم تعلق نہیں رکھیں گے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا غلط ہے۔