HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اللہ کی طرف سے حضورﷺ کے ذریعے ایک بڑے کام کی تکمیل (حصہ دوم)

اس کے بعد مدنی دور میں قرآن مجید نے پہلے دن ہی سے ہر موقعہ پر پیش آمدہ صورت حال اور آخری نتیجے کے متعلق ہمیشہ صاف اور دو ٹوک بات کی۔یہی وجہ ہے کہ سورۃ حج آیات40-39،جن میں جنگ کی اجازت دی گئی تھی،کے بعد جنگ کی جو ہدایات نازل کی گئیں،ان میں یہ بات واضح کردی گئی کہ پروردگار مسلمانوں کو ہر طرف فتح نصیب کرے گا۔اس کے بعد مسجد حرام اور خانہ کعبہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا۔اس میں مسلمانوں کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئیے کہ وہ حتی الوسع لڑائی سے اجتناب کریں تاکہ مسجد حرام پرامن طور پر ان کے قبضے میں آجائے۔البتہ اگردشمن جنگ چھیڑ دے تو پھر مسلمانوں کو بھی جنگ کرنے کی اجازت ہے۔یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ہدایات جنگ بدر سے بھی پہلے نازل ہوئی تھیں جب حضورؐ کی فتح کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ارشاد ہے:

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ() وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْْثُ اَخْرَجُوْکُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قَاتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الْکَافِرِیْنَ() فَاِنِ انْتَہَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ() وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلاَ عُدْوَانَ اِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ()(سورۃ بقرہ -2آیات193.....190)
’’(اے رسولؐ کے ساتھیو)، اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جوتم سے لڑیں، مگر اس میں کوئی زیادتی مت کرو۔بے شک،اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ان لڑنے والوں کو جہاں کہیں پاؤ، قتل کرو اور (مسجدحرام) جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے،وہاں سے تم بھی ان کو نکالو۔( یاد رکھو کہ) فتنہ قتل سے بھی زیادہ بری چیز ہے۔اگر مسجد حرام کے قریب وہ تم سے نہ لڑیں تو تم بھی ان سے مت لڑو۔لیکن اگر وہ خود وہاں جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی (بغیر کسی تردد کے) انھیں قتل کرو۔اس طرح کے منکرین کی یہی سزا ہے، لیکن اگر وہ باز آجائیں تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
تم ان سے یہ جنگ برابر کیے جاؤ یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور(اس سرزمین میں)دین اللہ ہی کا ہوجائے۔تاہم اگر وہ باز آجائیں تو (جان لو کہ) اقدام صرف ظالموں کے خلاف ہی جائز ہے‘‘۔

دیکھئے کس وضاحت سے درج بالا آیات میں قرآن مجید نے فتح مکہ کے بارے میں تمام عملی ہدایات دے دی ہیں جب کہ ابھی جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی اور مسلمان اتنی بے سروسامانی کے عالم میں تھے کہ ان کے لئے اپنی جان بچانا مشکل ہورہا تھا۔

اسی طرح جنگ بدر کے موقعہ پر قرآن مجید نے کہا کہ یہ کام خالصتاً خدائی سکیم کے تحت ہوا۔ارشاد ہے:

فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ وَمَا رَمَیْْتَ اِذْ رَمَیْْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلَآءً حَسَنًا اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ()(سورۃ انفال -8آیت17)
’’اے اہل ایمان، ان دشمنوں کو تم نے قتل نہیں کیا، بلکہ انھیں اللہ نے قتل کیا،اور اے نبیؐ، جب تم نے ان پر خاک پھینکی تو یہ تم نے نہیں پھینکی، بلکہ اللہ نے پھینکی تاکہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمایش میں کامیاب کرے۔یقیناًاللہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ 

جنگ احد کی شکست کے موقعہ پر قرآن مجید نے یہ واضح کیا کہ یہ شکست مسلمانوں کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے انہیں دی گئی ،تاہم آخری فتح انہی کی ہوگی۔ارشاد ہوا:

وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ() اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ()(سورہ آل عمران -3آیات140,139)
’’(اے گروہ صحابہؓ)دل شکستہ نہ ہو،غم نہ کرو۔تم ہی غالب رہو گے اگر تم سچے مومن ہو۔ اس وقت(جنگ احد میں) اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو آخر دشمن کو بھی اس سے پہلے(جنگ بدر میں)ایسی ہی چوٹ پہنچی ہے۔یہ تو گردش ایام ہے جسے ہم ان لوگوں کے اندر جاری رکھتے ہیں۔(تمھیں یہ چوٹ اس لیے لگی ہے)کہ اللہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور تاکہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید بنائے ۔اللہ ظالم لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اسی طرح جنگ احزاب کے متعلق ارشاد ہوا:

وَرَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْْرًا وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا()(سورۃ احزاب -33آیت25)
’’اللہ نے منکرینِ حق کو پسپا کردیا۔ وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنا غم وغصہ اپنے ساتھ لیے یوں ہی واپس ہوگئے اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی جنگ کے لیے کافی ہوگیا۔ اللہ قوی اور غالب ہے۔‘‘

صلح حدیبیہ جو بظاہر دشمن کی شرائط پر کی گئی تھی،کو قرآن مجید نے فتح قرار دیا۔اس لئے کہ اس کے نتیجہ میں دین کی دعوت کو پرامن طور پر پورے سرزمین عرب میں غالب ہونا تھا۔ارشاد ہوا:

اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا() لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا() وَّیَنْصُرَ کَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا() (سورۃفتح -48آیات3.....1)
اے نبیؐ،بے شک ہم نے تم کو کھلی فتح عطا فرمائی تاکہ اللہ تمھاری اگلی اور پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے، تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، تمھارے لیے ایک بالکل سیدھی راہ کھول دے، اور تمھیں اپنی ناقابل شکست مدد سے نوازے‘‘۔ 

یہ بات واضح تھی کہ اگر اسلام کے راستے میں دشمن کی طرف سے مسلح مزاحمت نہ ہوتی تو سارا جزیرہ نمائے عرب اس دین کو پرامن طور پر قبول کرتا، مگر دشمن کی طرف سے مسلح مزاحمت ہوئی،لوگوں کو بہ جبر اسلام میں داخل ہونے سے روکاگیا، اور مسجد حرام کو مسلمانوں کے لئے بزور بند کردیا گیا ،اسی لئے مسلح مزاحمت کرنے والوں کے خلاف لڑائی کا حکم دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ کو پروردگار نے ’’کھلی فتح‘‘قرار دیا۔تاریخ شا ہد ہے کہ اس صلح کے بعد جب اسلام کی دعوت عام لوگوں تک پہنچنے لگی تو سوائے چند محدود علاقوں کے باقی سب لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔

یہی وہ بات ہے جو سورۃ صف۔آیت9-8میں قرآن مجید نے ارشاد فرمائی۔

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ() ہُوَ الَّذِیْٓ اَ رْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ() (سورۃصف -61آیات9,8)
’’ یہ دشمنانِ اسلام اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، لیکن اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا، خواہ یہ بات اِن منکرینِ حق کو کتنی ہی ناگوار ہو۔ وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘۔ 

یہی پیشن گوئی سورۃ توبہ9۔آیات33-32میں کی گئی ہے۔ارشاد ہے:

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلاّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَ ہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ() ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَ ہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ()(توبہ -9آیات33,32)
’’یہ اہلِ کتاب چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور دوسری طرف اللہ کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ وہ ان منکرینِ حق کی ناگواری کے باوجود اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا۔وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت یعنی دینِ حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ اس کو سارے ادیان پر غالب کردے گا خواہ یہ ان مشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

بالکل یہی بات سورۃ فتح، آیت28میں بیان ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سورۃ صلح حدیبیہ کے موقعے پر نازل ہوئی تھی۔

ہُوَ الَّذِیْٓ اَ رْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَ ہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا()(سورۃ فتح-48آیت28) 
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے،تاکہ اس کو سارے ادیان پر غالب کردے، اور (اس حقیقت پر) اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔ 

اسی لئے صحابہ کرامؓ کو یہ حکم دیا گیا کہ جب تک دشمن کی جانب سے لوگوں کو اسلام سے بہ جبر روکنے کی مہم جاری ہے ، تب تک لڑائی جاری رکھی جائے۔ البتہ اگر وہ لڑائی سے باز آ جائیں تو پھر ان کے خلاف لڑنے کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ اس صورت میں باقی سب لوگ پرامن طور پر اس دین کو قبول کر لیں گے۔ قرآن کی اصطلاح میں اسی کو فتنہ کہا گیا ہے۔ارشاد ہوا:

وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَہَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ()وَاِنْ تَوَلَّوفاَعْلَمُواَنَّ اللّہَ مَوْلٰکمْ ہ نِعْمَ الْمولیٰ وَ نِعمُ النّْصِیرْ ()(سورۃ انفال -8 آیت39۔40)
’’(اے رسول کے ساتھیو!) ان منکرینِ حق سے جنگ کرو یہاں تک کہ ان کا فتنہ وفساد باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر یہ منکرین حق (فتنہ پھیلانے سے) باز آ جائیں تو ان کے اعمال کو دیکھنے والا اللہ ہے ۔ پھر اگر وہ (لڑائی سے) منہ موڑ لیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہی بہترین حامی و مددگارہے‘‘ 

یہاں یہ سوال ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ درج بالا آیات میں ہم نے فتح کی اس بات کو سرزمینِ عرب کے ساتھ کیوں خاص کر دیا ہے۔اس کی تین وجوہات ہیں۔

ایک یہ کہ رسولوں کے ضمن میں یہی اللہ کی سنت ہے کہ وہ رسول کو اپنی مخاطب قوم پر غلبہ عطا کرتا ہے۔یہ بات قرآن مجید میں بیسیوں مقامات پر آئی ہے۔چنانچہ یہ لازم ہے کہ حضورؐ کے لئے بھی یہی طریقہ ہو۔اس لئے کہ اللہ اپنے طریقے کو تبدیل نہیں کرتا(ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا)

دوسری وجہ یہ ہے کہ درج بالا آیات میں سے ہر آیت کے سیاق وسباق سے بھی یہ ظاہر ہے کہ فتح وکامیابی کا یہ عمل حضورؐ ہی کے لئے تھا اور انہی کے لئے خاص تھا۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ سے منقول سب آثار میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کو کامل فتح بخشی اور فتنے کا خاتمہ ہوگیا۔ تمام تر سابقہ مفسرین نے ان آیات کو خالصتاً حضورؐ سے متعلق مانا ہے۔ 

تیسری وجہ یہ ہے کہ درج بالا آیات کی پیشن گوئی خالصتاًحضورؐ کے لئے پوری ہوئی۔آپؐ کی زندگی میں ہی تمام جزیرہ نمائے عرب مسلمان ہوگیا،مشرکین کا خاتمہ ہوگیا اور آج تک یہی حالت ہے۔اگر یہ پیشن گوئی پوری دنیا کے لئے ہوتی تو یہ لازم تھا کہ حضورؐ کی زندگی میں پوری دنیا فتح ہوجاتی۔اور اگر اس کا مطلب یہ تھا کہ حضورؐ کے بعد باقی مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دنیا کو فتح کرلیں، تو قرآن مجید اس بات کو بصراحت بیان کردیتا اور حضورؐ کے نام پر اپنی بات ختم نہ کرتا۔

فتح کی اس بات کوسرزمینِ عرب کے ساتھ خاص کرنے کے تین عملی نتائج بھی ہیں۔ ایک نتیجہ یہ ہے کہ درج بالا فرق ہی کی وجہ سے سرزمینِ عرب اور اس سے باہر کے علاقوں کے بارے میں دین کے بہت سے احکام میں فرق کیا گیا ہے۔مثلاً سرزمینِ عرب کے اندر ہر بت،ہر ا ستھان اور مشرکوں کی ہر عبادت گاہ کو ڈھانا لازم کیا گیا اور اس سرزمین سے باہر مسلمانوں پر یہ لازم کردیا گیا کہ وہ تمام غیر مسلموں بشمول مشرکین کی عبادت گاہوں کا احترام کریں گے۔اسی لئے مصر میں ابوالہول کا مجسمہ آج تک موجود ہے، جو حضرت عمرؓ کے وقت میں فتح ہوا تھا۔ اسی لئے صحیح روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ’’جزیرہ عرب میں دودین جمع نہیں ہوسکتے‘‘۔یہاں صرف اور صرف اسلام ہی ہوگا۔اور اسی لئے حرمین شریفین کے پورے علاقے میں غیر مسلموں کی مستقل رہائش ممنوع قرار دی گئی۔

دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ بعد کے مسلمانوں کو کئی مرتبہ فیصلہ کن شکستیں بھی ہوچکی ہیں۔(فیصلہ کُن شکست کا مطلب ہے ایک ایسی شکست جو کم ازکم عام انسان کی طبعی عمر تک جاری رہے)۔حالانکہ ان جنگوں میں دشمن کے مقابلے میں انتہائی اچھے عقیدہ وعمل کے مسلمان صف آرا تھے، لیکن یہ صالحیت انہیں شکست سے نہ بچا سکی، مثلاً سید احمد شہید اور ان کے ساتھیوں نے سکھوں کے مقابلے میں شکست کھائی۔

ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اگر درج بالا آیات سے پوری دنیا مراد لے لی جائے تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہئیے، جب تک وہ تمام مشرکین وملحدین کو قتل نہ کر ڈالیں اور اہل کتاب کی حکومتوں کو ختم نہ کردیں۔اگر یہ مطلب لیاجائے تو پھر انسان کے ارادہ واختیار کی آزادی سے متعلق تمام آیات اور قانونِ صلح سے متعلق تمام آیات بے معنی ہوکر رہ جائیں گی اور مخالفین اسلام کا یہ الزام نعوذ بااللہ ثابت ہوجائے گا کہ قرآن مجید میں( خاکم بدہن) تضاد بیانی ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ غیرمسلم لوگ اسلام پر یہ الزام لگائیں گے کہ اس کا معیار اپنے لئے کچھ اور ہے اوردوسروں کے لئے کچھ اور ہے۔اپنے لئے تو یہ دعوت وتبلیغ کی آزادی مانگتے ہیں اور دوسروں کی جمہوری حکومتوں کو بھی ختم کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔اس صورت میں اگر ساری غیرمسلم دنیا ہمیں اپنی جمہوری حکومتوں کا دشمن نمبر ایک سمجھے اور یہ موقف اختیارکرے کہ مسلمانوں کی موجودگی میں عالمی امن ممکن نہیں،تو اس پر ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہئیے۔اس صورت میں ہمیں کسی بھی ملک کے کسی دوسرے ملک پر قبضے کے خلاف احتجاج نہیں کرنا چاہئیے اور اس کو بے انصافی نہیں کہنا چاہئیے،اس لئے کہ اگر ہمیں موقع ملے گا تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے۔چنانچہ جب ہم اِن آیات کو حضورؐ کی زندگی سے بحیثیتِ رسول خاص کرلیتے ہیں، تو قرآن مجید کی تمام ہدایات اپنی اپنی جگہ پر بالکل صحیح بیٹھ جاتی ہیں، اور یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ 

ان دلائل کی بناء پریہ بات پوری طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی دین کے غلبے کے وعدے کا ذکر ہے،اس سے سرزمین عرب میں حضورؐ کے ذریعے دین کا غلبہ مراد ہے،یہ وہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہا اور جو نبوت محمدیؐ کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ 


حضور ؐ کی طرف سے آخری انتباہ:

ہر رسول کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اپنے نہ ماننے والوں کو آخری بار متنبہ کرتا ہے۔اس وقت کا فیصلہ اللہ کرتا ہے۔ یہ وقت وہ ہوتا ہے جب صرف وہی لوگ دائرہ اسلام سے باہر رہ جاتے ہیں جو جان بوجھ کر تعصب، ضد اور انا پرستی کے سبب دین حق کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان پرآخری عذاب کا نزول ہوجاتاہے۔حضرت لوحؑ ،حضرت لوطؑ ،حضرت ھودؑ ،حضرت صالحؑ اور دوسرے پیغمبروں کی داستان سے یہی ثابت ہے۔بعینہ ایسا ہی وقت حضورؐ کی زندگی میں بھی آیا۔جب پورے جزیرہ نمائے عرب کو دینِ حق کی دعوت کامل ترین شکل میں مل گئی تو سورۃ توبہ میں آخری الٹی میٹم نازل ہوا۔یہ عذاب کی سورۃ ہے۔ اسی مناسبت سے اس پر بسم اللہ بھی نہیں لکھی جاتی۔اس آخری انتباہ میں یہ کہا گیا کہ اب اس سرزمین میں جتنے مشرکین باقی رہ گئے ہیں،وہ چار مہینے کے اندر اندر اسلام قبول کرلیں یا اس سرزمین سے نکل جائیں۔اگر اب بھی اسلام کے متعلق ان کے شکوک وشبہات ہوں تو انہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کا پورا موقعہ دیا جائے گا۔اس کے بعدانہیں ان کی محفوظ جگہ پر پہنچا دیا جائے گا تاکہ وہ ٹھنڈے دل سے فیصلہ کر لیں۔البتہ جب یہ چار مہینے گزر جائیں گے تو سرزمین عرب کے اندر موجود تمام مشرکین کو قتل کردیا جائے گا۔

اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے اس سے مختلف سزا کا فیصلہ سنایا گیا۔وہ یہ کہ وہ اس سرزمین میں رہ سکتے ہیں لیکن حکومت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور وہ حکومت کو زکواۃ کی جگہ جزیہ نامی ٹیکس دیں گے۔

مشرکین کے متعلق یہ حکم ان الفاظ میں آیا:

بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ() فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکَافِرِیْنَ() وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَاِنْ تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ() اِلاَّ الَّذِیْنَ عَاہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْْءًا وَّلَمْ یُظَاہِرُوْا عَلَیْْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰی مُدَّتِہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ() فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ() وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَ بْلِغْہُ مَاْمَنَہُ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُوْنَ() (سورۃتوبہ -9آیات6-1)
’’اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اِن مشرکین سے اعلان براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔پس اے مشرکو، اب اس سرزمین عرب میں چار مہینے مزید چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کے قابو سے باہر نہیں جاسکتے اور اللہ یقیناًمنکرینِ حق کو رسوا کرکے رہے گا۔
(9 ہجری کے حجِ اکبر کے دن) اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان تمام لوگوں میں یہ اعلانِ عام کردیا جائے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ان مشرکین سے بری الذمہ ہے۔اے مشرکو، اب بھی اگر تم توبہ کرلو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم منہ پھیروگے تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے۔
( اے نبیؐ)، انکار کرنے والوں کو سخت سزا کی خبر پہنچا دو۔ البتہ وہ مشرکین، جن سے تم نے معاہدہ کیا اور انھوں نے اس معاہدہ کو پورا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی، ایسے لوگوں کے ساتھ معاہدہ اپنی مدت تک پورا کرو کیونکہ اللہ متقین( یعنی معاہدوں کی خلاف ورزی نہ کرنے والوں) کو پسند کرتا ہے۔
پھر جب یہ حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو جہاں پاؤ، قتل کرو، ان کو پکڑو، گھیرو اور ہرگھات کی جگہ ان کی تاک لگاؤ۔پھر اگر یہ لوگ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تب ان کی جان چھوڑ دو۔بے شک، اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اگر ان مشرکین میں سے کوئی تم سے امان کا طالب ہو تو اس کو پناہ دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے اور پھر اسے اس کی محفوظ جگہ پر پہنچا دو۔ ایسا اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ بے علم لوگ ہیں‘‘۔

خدا کاکرنا یہ ہوا کہ اس مدت کے دوران میں تمام مشرکین نے اسلام قبول کرلیا۔نہ کسی کو قتل کرنے کی نوبت آئی اورنہ ہی کسی نے جلاوطنی اختیار کی۔البتہ بعد میں جن لوگوں نے مسیلمہ کذاب کی نبوت قبول کرلی، اور یوں مرتد ہوگئے، اُن سب کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کیفر کردار تک پہنچایا۔ 

مشرکین کے برعکس اہلِ کتاب کے لیے قرآن مجید نے ایک مختلف فیصلہ کیا۔ حضورؐ کے زمانے کے سرزمینِ عرب کے اہل کتاب کے متعلق خدائی فیصلہ ان الفاظ میں نازل ہوا۔

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْکِتَابَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ()(سورۃتوبہ-9آیت29)
’’اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے، اللہ اور اس کے رسول کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے، ان سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ مغلوب ہوکر جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں‘‘۔

درج بالا آیت میں یہی آخری خدائی سزا بیان کی گئی ہے جو رسولؐ کی طرف سے اپنے مخاطبین کو اُس وقت سنائی جاتی ہے جب وہ پروردگار کا پیغام کامل ترین شکل میں ان لوگوں کو ایک لمبی مدت تک پہنچا چکا ہوتا ہے۔ اس مدت کاتعین پروردگار کرتا ہے ۔یہ صرف اور صرف رسولؐ ہی کا خصوصی کام ہوتا ہے اور رسول کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔

رسولؐ کے اس خصوصی کام کو قتال فی سبیل اللہ کے عام قوانین کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئیے۔یہ دراصل رسالتِ محمدیؐ کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

B