پانچواں باب
پروردگارِعالم کے نزدیک رسول کی ایک خصوصی حیثیت ہوتی ہے۔پروردگار ہر رسول کو ایک خاص کام کی بجاآوری کے لیے بھیجتا ہے۔اس کام کی تکمیل پروردگار خود کرتا ہے، جب کہ رسول اس کام کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہوا کرتا ہے۔حضورؐ کے ذریعے اللہ امتِ مسلمہ کو وجود میں لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔اس مقصد کی خاطراللہ کا ارادہ یہ تھاکہ آپؐ سرزمین عرب میں اسلام کو غلبہ دیں گے،عملاً اسلامی احکامات کو نافذ کرکے ایک اسلامی معاشرہ وجود میں لائیں گے اور خانہ کعبہ یعنی مسجد حرام کو ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کا مرکز بنائیں گے۔اللہ کا ہر ارادہ پورا ہوکر رہتا ہے۔ چنانچہ یہ سارا کام رسولؐ کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے رسول کے لیے کچھ قوانین عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔بعض قوانین میں رسول کے لیے سختی کی جاتی ہے، اور بعض قوانین میں نرمی۔ اسی طرح رسول کی دعوت کے علاقے کے لیے بھی ایک مختلف قانون بنتا ہے۔ اپنے علاقے اور اپنے براہ راست مخاطبین کے لیے رسول کی حیثیت شروع میں ایک نذیر وبشیر کی ہوتی ہے، لیکن ایک خاص وقت ایسا آجاتا ہے جب رسول کے مخاطبین کے لیے اسی دنیا میں اللہ کی عدالت قائم کردی جاتی ہے، اور اُس عدالت سے رسول کے ساتھیوں، اور اُس کے مخالفین کے لیے جزا و سزا قائم کردی جاتی ہے۔ رسول کے ساتھیوں کو اس دنیا میں ایک خاص وقت تک، اللہ کے خصوصی فیصلے کے تحت، انعام اور غلبہ عطا کیا جاتا ہے، جب کہ رسول کے مخالفین پر، اُن کے جرائم کی مناسبت سے، سزا نافذ کردی جاتی ہے۔ مثلاً حضرت نوحؑ ایک رسول تھے۔ جب سینکڑوں برس تک دعوت کے باوجود اُن کی قوم کے ایک بڑے حصے نے جانتے بوجھتے اسلام کا انکار کیا، اور دشمنی کی، تو اللہ نے، باقاعدہ پیشگی اعلان کے ساتھ، اُن کے مخالفین کو سیلاب میں غرق کردیا، اور نوحؑ کے ساتھیوں کو بچاکر اُن کو زندگی کی نعمتیں دے دیں۔دنیا کے اندر اس سزا و جزا کے نفاذ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گردوپیش کے سب لوگوں اور سب اقوام کے لیے یہ ایک زندہ سبق اور ثبوت ہو، اور یوں وہ پروردگار کی طرف رجوع کریں۔ اسی طرح حضرت لوطؑ ،حضرت صالحؑ ، حضرت شعیبؑ ، حضرت ھودؑ ، حضرت موسیٰؑ ، اور حضرت عیسیٰؑ بھی اللہ کے رسول تھے۔ ان سب رسولوں کے فرمان برداروں اور نافرمانوں کو اسی دنیا میں جزا وسزا دی گئی۔
قرآن مجید نے بے شمار مواقع پریہ داستانیں بیان کی ہیں،اور سب لوگوں کو بتایاکہ حضرت محمدؐ بھی ایک رسول ہیں۔ یہ رسولؐ پہلے سب لوگوں کو دین کی دعوت دے گا۔ پھر ایک وقت آئے گا، جب حضورؐکے مخاطبین پر اتمامِ حجت ہوجائے گا(اتمامِ حجت کا مطلب یہ ہے کہ مخاطب پر دلائل اور مشاہدہ کے ذریعے اس دین کی حقانیت پوری طرح واضح ہوجائے) ۔ چنانچہ اس اتمامِ حجت کے بعد آپؐ کے مخالفین کو اسی دنیا میں، اپنے جرم کی سنگینی کی نسبت سے، سزا دی جائے گی، اور آپؐ کے ساتھیوں کو غلبہ عطا کردیا جائے گا۔ اس سارے معاملے کو قرآن مجید نے ایک بہت بڑے ’’سنت اللہ‘‘ یعنی اللہ کے ایک خاص طریقے سے تعبیر کیا ہے، اور بتایا ہے کہ اللہ کا یہ طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ حضورؐ کے معاملے میں تو یہ بات اس وجہ سے بہت ضروری تھی کہ حضورؐ کی یہ عظیم ترین فتح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رسالتِ محمدیؐ کا سب سے بڑا ثبوت بن جائے، آخری اُمتِ مسلمہ وجود میں آجائے، اور مکہ ومدینہ ہمیشہ کے لیے اسلام کے مرکز بن جائیں۔
چنانچہ حضورؐ کے متعلق مکی دور کے بالکل آغاز سے،جب کہ اسلام کی سربلندی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا،قرآن مجید نے یہ بات مسلسل واضح طریقے سے کی کہ اس رسول کوغالب آنا ہے۔اس مضمون کی بیسیوں آیات میں سے ہم بطور نمونہ چند آیات پیش کر رہے ہیں۔یہ آیات مکی دور کی ہیں۔ارشاد ہے:
وَکُلاًّ نَّقُصُّ عَلَیْْکَ مِنْ اَنبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ وَجَآءَ کَ فِیْ ہٰذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَّذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ () وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنَّا عَامِلُوْنَ() وَانْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ()(سورۃھود-11آیات120-120)
’’(اے نبی)، ہم رسولوں کے قصے تمھیں اس لیے بتا رہے ہیں کہ ان سے تمھارے دل کو مضبوط کریں۔یہ تمھارے پاس بالکل سچی بات آئی ہے اور یہ اہل ایمان کے لیے نصیحت اور یاددہانی ہے۔رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لارہے، ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنی روش پر چلتے رہیں گے۔ تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں۔‘‘
مزید ارشاد ہے:
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَ()وَ لَنُسْکِنَنَّکُمْ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِھِمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِےْدِ()(سورۃ ابراہیم-14آیات14,13)
’’منکرینِ حق نے اپنے رسولوں سے کہا : ’’تمھیں ہماری ملت میں واپس آنا پڑے گا، ورنہ ہم تمھیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے۔‘‘ تب رسولوں کے رب نے ان پر وحی بھیجی : ’’ہم ان ظالموں ہی کو ہلاک کریں گے اور ان کے بعد تمھیں اس سرزمین میں بسائیں گے۔ (یہ فیصلہ تمھارے) ان (ساتھیوں) کے لیے ہے جو میرے سامنے جواب دہی کا خوف رکھتے ہیں اور میری دھمکی سے ڈرتے ہیں۔‘‘
مزید ارشاد ہے:
قُلْ کُلٌّ مُّتَرَبِّص فَتَرَبَّصُوْا فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ وَمَنِ اہْتَدٰی() (سورۃطہ-20آیت135)
’’اے نبیؐ، ان سے کہو ہرایک (انجام کا) منتظر ہے، اس لیے تم بھی انتظار کرو۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ سیدھی راہ پر چلنے والے کون ہیں اور اپنی منزل پر کون لوگ پہنچ گئے۔‘‘
مزید ارشاد ہے:
جُنْدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ()(سورۃ ص -38آیت11)
’’اے نبی ؐ، یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے‘‘۔
بالکل اسی طرح مدنی دور میں بھی قرآن مجید نے حضورؐ کے غلبے کا باربار اعلان کیا۔سخت ترین ناسازگار حالات مثلاً جنگِ احد پر تبصرے کے وقت بھی قرآن مجید نے یہی کہا۔
وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ() اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیات140,139)
(اے گروہ صحابہؓ)دل شکستہ نہ ہو،غم نہ کرو۔تم ہی غالب رہو گے اگر تم سچے مومن ہو۔اِس وقت(جنگ احد میں) اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو آخر دشمن کو بھی اِس سے پہلے(جنگ بدر میں)ایسی ہی چوٹ پہنچی ہے۔یہ تو گردشِ ایام ہے جسے ہم ان لوگوں کے اندر جاری رکھتے ہیں۔ (تمہیں یہ چوٹ اس لیے لگی ہے)کہ اللہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور تاکہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید بنائے ۔اللہ ظالم لوگوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
مزید ارشاد ہے:
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ() (سورۃمجادلہ-58آیت21)
’’ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ بے شک میں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔یقیناًاللہ قوی اور زورآور ہے‘‘۔
مزید ارشاد ہے:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ() ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ() (سورۃصف -61 آیت 9,8)
’’یہ دشمنانِ اسلام اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، لیکن اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا، خواہ یہ بات اِن منکرینِ حق کو کتنی ہی ناگوار ہو۔ وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘۔
قرآن مجید ، حضورؐکے اسی غلبے کی داستان ہمارے سامنے بیان کرتا ہے۔ جب مکے کے سرداروں پر حجت تمام ہوگئی، اور ان کی اکثریت نے تعصب اور ذاتی مفادات کی خاطر اسلام سے دشمنی اختیار کی، تو اللہ نے اپنے غیبی امداد کے ذریعے مدینے کے لوگوں کے اندر اسلام کی محبت ڈال دی۔ انہوں نے حضورؐ کو اپنے ہاں آنے اور حکومت قائم کرنے کی دعوت دی۔ یوں انتہائی پُرامن جمہوری طریقے پر حضورؐ نے مسلمان معاشرہ اور اسلامی حکومت قائم کردی۔ اس کے بعد بھی حضورؐ نے صرف اُن لوگوں کے خلاف لڑائی لڑی، جنہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا، یا حملے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ اس دوران میں ہر وقت حضورؐ کی یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کو امن کا وقفہ میسر آجائے، تاکہ جتنے لوگ قریش کے سرداروں کے زیرِ اثر نہیں ہیں، اُن کو اسلام کی دعوت پہنچ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے ہر ممکن طریقے سے امن کے قیام کو اپنا ہدف بنایا۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے متعلق صحابہؓ بہت غمگین تھے، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ صلح دب کر کی جارہی تھی، اور اس صلح میں قریش کی صریح ناانصافی پر مبنی شرطیں بھی مانی جارہی تھیں۔ مگر اس صلح کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سرزمینِ عرب کے دوسرے قبیلے قریش کی گرفت سے نکل گئے۔ چنانچہ اس صلح کے دو برس کے اندر جتنے لوگ مسلمان ہوئے، اُتنے اس سے پہلے اٹھارہ برس میں نہیں ہوئے تھے۔
پھر ایک وقت آیا جب پروردگار نے مسلمانوں کو یاددلایا کہ حضرت ابراہیمؑ نے تو مسجد حرام کو صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا، لیکن مشرکین نے اس میں سینکڑوں بت رکھ دیے ہیں۔ چونکہ اب ان سب مشرکین پر حجت تمام کردی گئی ہے، اس لیے اب ایک دفعہ پھر مسجد حرام کو ایک اللہ کی عبادت کے لیے خالص کردیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حضورؐ نے اللہ کے حکم سے ایک ایسی حکمتِ عملی تشکیل دی، جس سے تقریباً بغیر کسی لڑائی کے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔
اس کے بعد ایک وقت آیا جب قرآن مجید نے اعلان کردیا کہ جس طرح پچھلے رسولوں کی قوموں پر ایک خاص وقت میں اتمامِ حجت ہوجاتا تھا، اور پھر اُن کو الٹی میٹم دے دیا جاتا تھا، اسی طرح اب سرزمینِ عرب کے سب مخاطبین کو اسلام کا پیغام پہنچ گیا ہے، چنانچہ اب ان کو بھی آخری وارننگ دی جارہی ہے۔ پھر قرآن مجید نے بتایا کہ اب بھی اگر ایسے لوگ موجود ہوں، جو سمجھتے ہیں کہ اُن کو اسلام کی دعوت پوری وضاحت کے ساتھ نہیں ملی، تو اُن کو یہ دعوت ہے کہ وہ مدینے آکر اسلام کو سمجھیں۔ اس کے بعد اُن کو واپس اُن کے گھروں تک حفاظت کے ساتھ پہنچادیا جائے گا، اور پھر وہ اپنی آزادانہ مرضی سے یہ فیصلہ کریں کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ یہ ساری ہدایات سورۃ توبہ میں نازل ہوئیں۔
اس اعلان میں مشرکین کو چار مہینے کا وقت دیا گیا تھا۔ ان چار مہینوں میں سرزمینِ عرب کے سب مشرکین نے اسلام قبول کرلیا۔ جو لوگ بعد میں مرتد ہوئے، ان کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کیفر کردار کو پہنچایا۔
یہ سارا معاملہ حضورؐ کے ساتھ، بحیثیتِ رسول، خاص تھا۔ حضورؐ کے لیے یہ اللہ کا وعدہ تھاکہ آپؐ کے ساتھیوں کو لازماً غلبہ عطا کیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اللہ کا یہ وعدہ عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے مسلمانوں کو دنیوی تدبیر اور حالات کے مطابق کامیابی بھی ملی ہے، اور انہوں نے فیصلہ کن شکستیں بھی کھائی ہیں۔
حضورؐ کے وقت میں جو جو پیش رفت ہوتی رہی،اس پر قرآن مجید نے مسلسل تبصرہ کیا۔مثلاًمکی دور کی ایک سورت الرعد میں قرآن مجید نے اُس وقت کے حالات پر یہ تبصرہ کیا:
وَاِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیْْکَ الْبَلاَغُ وَعَلَیْْنَا الْحِسَابُ() اَوَلَمْ یَرَوْا اَ نَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ وَہُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ()(سورۃرعد -13آیات41-40)
’’(اے نبی)، جس (برے انجام) کی دھمکی ہم ان (منکرین حق) کو دے رہے ہیں، اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمھاری زندگی میں دکھا دیں یا اس کے ظاہر ہونے سے پہلے ہم تمھیں وفات دے دیں بہر حال تمھاراکام صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔حساب لینے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ کیا یہ مشرکین نہیں دیکھتے کہ ہم اِس سرزمین( جزیرہ نماے عرب) پر چلے آرہے ہیں اور اس (میں شرک) کو اس کے مختلف اطراف سے کم کرتے چلے آرہے ہیں۔فیصلہ اللہ کرتا ہے۔ اس کے فیصلوں کو ہٹانے والا کوئی نہیں۔ وہ بہت جلد حساب چکا دیتا ہے‘‘۔
اس آیت کی تشریح میں مولانامودودی لکھتے ہیں:
’’یعنی کیا تمھارے مخالفین کو نظر نہیں آرہا ہے کہ اسلام کا اثر سرزمینِ عرب کے ہر گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے ان لوگوں پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے؟ کیایہ ان کی شامت کے آثار نہیں ہیں؟اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ہے کہ ’’ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں‘‘ایک نہایت لطیف اندازِ بیان ہے۔چونکہ دعوتِ حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہے،اس لئے کسی سرزمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں‘‘۔(ترجمہ قرآن مجید مع مختصرحواشی،صفحہ نمبر657)
اس تشریح سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت میں’’الارض‘‘کا مطلب’’سرزمین عرب‘‘ہے۔