مسلمانوں اور مسلمانوں کی حکومتوں کی اقسام
مسلمان تین طرح کے ہوسکتے ہیں۔ بہت اچھے مسلمان، یا درمیانے درجے کے مسلمان، اور یا پھر بہت بُرے مسلمان۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان حکومت بھی تین طرح کی ہوسکتی ہے۔ بہت اچھی مسلمان حکومت ، یا درمیانے درجے کی مسلمان حکومت، اور یا پھر بہت بُری مسلمان حکومت ۔ جس طرح کوئی مسلمان اپنی بہت سی بُرائیوں کے باوجود اُس وقت تک دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، جب تک وہ دین کی بنیادی باتوں کااقرار کرتا ہے،، اسی طرح ایک بُری مسلمان حکومت بھی ایک مسلمان حکومت ہی ہوتی ہے، جب تک وہ کھلم کھلا کفر کو اپنا نہ لے۔ آج کے زمانے میں ’مسلمانوں کی حکومت‘ اور ’اسلامی حکومت‘ کا مطلب ایک ہی ہے۔
ان تین اقسام کے متعلق قرآن مجید کا ارشاد ہے:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَّمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْْرَاتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ()(سورۃ فاطر -35آیت32)
’’پھر ہم نے اُن لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنادیا، جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا۔ پس ان میں سے کچھ لوگ تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں، ان میں سے کچھ میانہ رو (یعنی درمیان کے راستے کے) ہیں، اور کچھ اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔ ‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک بہت بُرے مسلمان ، یا ایک بہت بُری مسلمان حکومت کو اسلام پھر بھی مسلمان کیوں قرار دیتا ہے، اور اُسے دائرہ اسلام سے خارج کیوں قرار نہیں دیتا؟۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔
سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ جب تک ہم ایک مسلمان فرد یا ایک مسلمان حکومت کو ملتِ اسلامیہ کا حصہ قرار دیتے ہیں، تب تک وہ بھی باقی سارے مسلمانوں اور ساری مسلمان حکومتوں کے لیے اپنائیت اور بھائی چارے کا ایک احساس رکھتا ہے۔ یہ احساس اُسے مسلسل اس اُمت کا حصہ رہنے پر ابھارتا ہے۔ ایسی حکومت یا ایسا شخص اپنے دل کے اندر سے ایک مسلمان کی طرح سوچتا ہے۔ اُس کا ضمیر کسی نہ کسی درجے میں بیدار ہوتاہے۔ چنانچہ ہر وقت یہ امکان موجود رہتا ہے کہ یہ شخص یا یہ حکومت اچھائی کی طرف پلٹ آئے۔ گویا اُس وقت تک کسی انسان یا کسی حکومت کو اپنے آپ سے نہیں کاٹنا چاہیے، جب تک وہ خود ہی دائرہ اسلام کو چھوڑنے کا اعلان نہ کرے۔
جب کسی شخص یا کسی حکومت کو مسلمان سمجھ کر اُسے نصیحت کی جاتی ہے، یا اُس پر تنقید کی جاتی ہے، تو ایسے شخص یا حکومت کا دل اس نصیحت کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ نصیحت، تنقید، یا سچی بات اُس پر کارگر ہوجائے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ایسا شخص یا ایسی حکومت کے اندر کوئی اصلاح نہ ہوسکے۔ لیکن اگر اُس کو مسلمان سمجھ کر اُس سے معاملہ کیا جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ اس شخص کی اولاد ، یا ایسی حکومت کے بعد آنے والی حکومت اصلاح پر آمادہ ہوجائے، اور یوں خیر کی جانب تبدیلی کا راستہ کھل جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کسی شخص ، یا کسی حکومت کو کافرانہ حکومت قرار دیا جائے، تو آنے والی حکومتوں یا نسلوں کی تبدیلی کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک بُری سے بُری مسلمان حکومت بھی بہرحال کھلم کھلا غیر مسلموں کی حکومت سے بہتر ہے۔ اگر عام مسلمانوں کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ حکومت کی بُرائیوں کی وجہ سے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا سکتے ہیں، تو اس سے ہر مسلمان ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں جان ومال اور آبرو کا نقصان ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہر مسلمان ملک کمزور ہوجائے گا، اور یوں وہ مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے ایک آسان شکار بن جائے گا۔
درج بالا بحث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ایک انتہائی غلط کار اور بُری مسلمان حکومت کے خلا ف بھی ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔اس کے برعکس اصلاح کے لیے ہر پُرامن طریقے کو روبہ عمل لانا چاہیے۔
پچھلے چودہ سو برس میں سب کے سب علماء نے عوام اور حکومت کی اصلاح کے لیے ہمیشہ پُرامن طریقوں سے کام لیا ہے۔ اُن کے وقت میں حکومتوں کے اندر ہزار طرح کی خرابیاں موجود تھیں، مگر علماء نے کبھی حکومت کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔ بنوامیہ ، بنو عباس، سامانی حکومتیں، سلطنتِ فاطمیہ، مملوک بادشاہوں کی حکومتیں، غزنوی، سلجوقی، غوری حکومتیں، اندلس کی سلطنت، تیموری حکومت، مغل حکومت، اور سلطنت عثمانیہ ان کے اندر بے شمار خرابیاں تھیں۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بعض خرابیاں ہمارے آج کے مسلمان حکمرانوں کی خرابیوں سے بھی کہیں زیادہ تھیں۔ (اس کی تفصیل کے لیے ’’امتِ مسلمہ، کامیابی کا راستہ، حصہ اول، صفحہ 24 تا64 ملاحظہ ہو۔)
ان سب حکومتوں کے دور میں وہ عظیم علماء زندہ تھے جو آج ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ مثلاً بنو اُمیہ کے دور میں سعیدؒ بن مسیب، عروہؒ بنِ زبیر، حسنؒ بصری، مجاہدؒ بنِ جبیر، شعبیؒ ، قتادہؒ ، مکحولؒ ، یزیدؒ بن حبیب، حمادؒ ، اور عیسیٰؒ بن عمر جیسے علماء موجود تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی کسی بُرے حکمران کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔
اسی طرح بنو عباس کے دور میں امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ جیسے علماء موجود تھے، لیکن انہوں نے اپنی طرف سے کسی غلط کار حکومت کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔ البتہ انہوں نے وقت کے حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق ضرور بلند کیا، اور اس کی پاداش میں اُن پر ظلم بھی ہوا۔ واضح رہے کہ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے اکثر حکمرانوں کے درباروں میں شراب نوشی عام تھی، ہر محل میں سینکڑوں کنیزیں موجود ہوتی تھیں، درباروں میں خواجہ سراؤں (ہجڑوں) کا شرم ناک رواج کھلم کھلا موجود تھا۔ حکمران خاندان اور ملک کے سارے حکام عام طور پر قانون سے بالاتر ہوتے تھے۔ اتنی بڑی بڑی خرابیوں کے باوجود اُس وقت کے علماء صرف نصیحت سے کام لیتے تھے، اور انہوں نے کبھی حکومت کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھایا۔ انہی علماء کے اصلاحی کام کی وجہ سے مسلم معاشرہ بلحاظِ مجموعی قائم رہا، اور آج تک قائم ہے۔ اگر یہ علماء اپنے وقت کی حکومتوں کے خلاف لڑائی پر اُتر آتے، تو اُمت مسلمہ آپس کی خانہ جنگی میں مبتلا ہوکر کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔
درج بالا الفاظ ایک روایت کا ٹکڑا ہیں۔ اس روایت کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’حضورؐ نے فرمایا جب تم میں کوئی کسی منکر کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی ہمت واستطاعت اپنے اندر نہ پاتا ہو تو زبان سے روکے۔ اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ پاتا ہوتو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔ اس روایت کا سہارا لے کر بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ جہاں بھی کوئی برائی دیکھے تو اسے طاقت کے ساتھ روکے۔ تاہم اگر اس استدلال کو صحیح مان لیا جائے تو پھر دنیا میں ضابطے اور قانون نام کی کوئی چیز نہ رہے گی، ہر شخص اپنے خیال میں جس چیز کو برائی سمجھتا ہے، اسے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گااور یوں انارکی اور بدامنی ہر طرف پھیل جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم نے کبھی اس روایت سے یہ استدلال نہیں کیا۔ایسا استدلال قرآن مجید کے خلاف ہوگا کیونکہ قرآن مجید میں کئی مرتبہ حضورؐ کو مخاطب کرکے یہ فرمایا گیا کہ آپ ؐ کوئی داروغہ یا حوالہ دار بناکر نہیں بھیجے گئے۔ خود حضورؐ کی مکی زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ اُس وقت مشرکینِ مکہ کے ہاں ہر وہ خرابی موجود تھی جس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ بیت اللہ میں تین سو سے زیادہ بُت موجود تھے اور فحاشی اور سودی کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ لیکن حضورؐ اور صحابہ کرامؓ نے ان کو ختم کرنے کے لیے کبھی طاقت کا استعمال نہیں کیا۔کیا ہم (نعوذ بااللہ) اس بات کا تصور کرسکتے ہیں کہ حضورؐ اپنی پوری زندگی میں ایمان کے اعلیٰ ترین درجے سے ایک لمحے کے لیے بھی کبھی نیچے آئے ہیں؟۔ ظاہر ہے کہ یہ ناقابلِ تصور ہے۔ مدنی دور میں بھی کسی مسلمان نے برائی کو براہ راست اپنے ہاتھوں سے ختم نہیں کیا، بلکہ ہر معاملہ ہمیشہ حضورؐ کے نوٹس میں لایا گیا اور پھر قانون کے مطابق کاروائی کی گئی۔
اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ درج بالا روایت سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم کے نزدیک یہ روایت دراصل ہر انسان کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔ یعنی جہاں جہاں کسی انسان کو قانونی اختیار حاصل ہے، اُسی حدتک انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اپنے اختیار سے کام لے کر برائی کو روکے۔ اگر اس کی ہمت وہ اپنے اندر نہ پاتا ہوتو وعظ ونصیحت کے ذریعے اُسے روکنے کی کوشش کرے، ورنہ کم ازکم دل میں تو برا جانے۔ ایک حاکم کا دائرہ اختیار اُس کا ملک ہے۔ کسی ادارے کے سربراہ کا دائرہ اختیار اُس کا ادارہ ہے۔ کسی والد یا والدہ کا دائرہ اختیار اُس کی اولاد ہے۔علیٰ ھٰذ القیاس۔ اسی بات کی مزید وضاحت میں حضورؐ نے فرمایا:
’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلَّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَّعِیَّۃِ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم میں ہر ایک شخص ذمہ دار ہے اور اُس سے اپنی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے، چنانچہ اُس سے اُس کے گھر کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے، اس لیے اُس سے اُس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ملازم اپنے مالک کے مال کا ذمہ دار ہے اس لیے وہ اُس کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔ ایک آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے، چنانچہ اُس سے اِس مال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اُس سے اُس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
جب اس حدیث کی روشنی میں ہم ’’من را منکم ۔۔۔۔‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہر انسان کی اصل ذمہ داری اُس کے اختیار کا دائرہ ہے۔ اور اس سے باہر اُس پر صرف یاددہانی کی ذمہ داری ہے۔
’’منکر‘‘ کے معنی ہیں جانی پہچانی برائی۔ یعنی وہ چیز جسے ساری انسانیت برائی سمجھتی ہو۔ جس فرد کا جو بھی دائرہ اختیار ہے، اُس کے اندر اس کو چاہیے کہ برائی کو روکے۔ اس کی ایک مثال ہمارے ملک میں دیکھنے میں آئی، جب کچھ بہت بڑے ذخیرہ اندوزوں نے چینی کو سٹاک کرلیا، جس کے نتیجے میں چینی کی قیمتیں بڑھ گئیں اور عام انسان کو بڑی پریشانی ہوئی۔ پہلے پہل تو حکومت نے کہا کہ ہم ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی کریں گے۔ مگر جب اس کی ہمت اپنے اندر نہ پائی تو زبانی وعظ ونصیحت شروع کردی کہ ذخیرہ اندوز اپنے سٹاکس لے آئیں۔ جب حکومت کو یہ اندازہ ہوا کہ ذخیرہ اندوز اس پر بھی بُرا مان رہے ہیں تو یہ زبانی نصیحت بھی ترک کردی گئی۔ اس کے بعد میں ہم نہیں جانتے کہ کیا حکمران اپنے دل میں بھی اس ذخیرہ اندوزی کو بُرا سمجھے یا نہیں۔
حضورؐ کی ساری زندگی ایمان وعمل کی اعلیٰ ترین تصویر تھی۔ حضورؐ کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے قانونی دائرہ کے اندر ہی اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہیے۔ کسی بھی انسان کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے بدنظمی، انتشار، جھگڑے اور انارکی جنم لیتی ہے۔
شریعت کا لفظ قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے۔ اس سے مراد پورا دین ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ اسلام کے صرف عدالتی قانون کے لیے شریعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں کہیں بھی اس لفظ کو اس معنی کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا۔ چنانچہ جب ایک فرد ایمان کی پانچوں باتیں صدقِ دل سے قبول کر لیتا ہے اور یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ اسلام کے پانچ لازمی ارکان ہیں، تو وہ شریعت کے دائرے کے اندر آجاتا ہے۔ یعنی وہ قانونی طور پر مسلمان بن جاتا ہے۔
اب اس کے سامنے اسلام پر عمل کرنے کا سارا میدان کھلا ہے۔ اس کے سامنے معیار یہ ہے کہ وہ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو جائے، یعنی اسلام کی سب تعلیمات پر ہمیشہ عمل کرے۔ تاہم چونکہ انسان کمزور ہے اور پیغمبروں کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر مسلمان کے اندر کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے اندر بہت کم کمزوریاں ہوتی ہیں، کچھ کے اندر درمیانے درجے کی کمزوریاں ہوتی ہیں، اور کچھ لوگوں کے اندر بہت زیادہ کمزوریاں ہوتی ہیں۔
یہی حال حکومتوں کا ہے۔ ایک حکومت دراصل عوام کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس لیے بعض مسلمان حکومتوں کے اندر کمزوریوں کی تعداد کم ہوتی ہے، بعض کے اندر کمزوریاں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں، اور بعض مسلمان حکومتوں کے اندر بہت زیادہ کمزوریاں ہوتی ہیں۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا، کسی مسلمان فرد یا کسی مسلمان حکومت کی کمزوریوں کو دور کرنے کا واحد طریقہ عدم تشدد پر مبنی پُرامن راستہ ہے جو تعلیم، ترغیب، قائل کرنے، ہمت بڑھانے، بشارت دینے، اور خبردار کرنے پر مشتمل ہے۔
یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ ایک مسلمان حکومت کے لیے اسلام کی ہدایات کو اپنے قانون کا جزو بنانے کا طریقہ تدریج کا ہے۔ یعنی وہ آہستگی سے اس جانب اس طرح قدم بڑھائے گی کہ پہلے عوام کی تربیت کرے گی، اس قانون پر عمل کرنے کے راستے میں رکاوٹیں دور کرے گی، اور پھر اسے نافذ کرے گی۔ حضورﷺ کی سربراہی میں مدینے کی ریاست پہلے دن سے ہی ایک اسلامی ریاست تھی، لیکن اُس ریاست میں حدود وتعزیرات اور دوسرے قوانین آہستہ آہستہ نافذ ہوئے۔ صرف اسی وقت کسی قانون کو نافذ کیا گیا جب لوگوں کے دل ودماغ میں اس کا نفوذ ہوگیا اور سب حالات پوری طرح تیار ہوگئے۔ جب صحابہ کرامؓ کے لیے پروردگار نے تدریج کا طریقہ پسند فرمایا، جب کہ ان کا ایمان کائنات میں سب سے مضبوط تھا، تو ہم اور ہماری سوسائٹی کس شمارقطار میں ہے۔ ہمارے لیے تو اس سے سو گنا زیادہ تدریج کی ضرورت ہے۔
سورۃ مائدہ آیات 44-47 میں یہ بات آئی ہے کہ جو لوگ اﷲ کے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہ لوگ منکرِ حق، ظالم اور نافرمان ہیں۔ ان آیات میں ’’لم‘‘ کالفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے ’’جان بوجھ کر نافرمانی کے ارادے سے‘‘۔ یعنی جب کو ئی شخص یا حکومت کہے کہ اسلام کا طریقہ غلط ہے اور میں اس پر عمل نہیں کروں گا، تو ایسا شخص یقیناًدائرہ اسلام کے اندر نہیں رہتا۔ تاہم کچھ حقیقی حالات ایسے بھی ہو سکتے ہیں جب بامر مجبوری کسی حکم پر عمل درامد ممکن نہ ہو۔ مثلاً ابھی سوسائٹی کی تربیت نہ ہوئی ہو، افراتفری کا دور دورہ ہو، یا بین الاقوامی حالا ت کی وجہ سے سنگین خطرات لاحق ہوں۔ مثلاً جب حضرت یوسفؑ کو مصر میں حکمرانی ملی تو کئی برس گزرنے کے بعد بھی انہوں نے وہاں بنی اسرائیل کے ہاں رائج قوانین کو نافذ نہیں کیا، اس لیے کہ مصر کے حالات ابھی اس کے لیے سازگار نہیں تھے۔ اس بات کا تذکرہ خود قرآن مجید نے سورۃ یوسف میں کیا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب ایک انسان دین کے کچھ احکام پر عمل کررہا ہوتا ہے، مثلاً نماز پڑھتا ہے، صدقہ دیتا ہے، یا بددیانتی سے اپنے آپ کو بچاتا ہے تو وہ دراصل شریعت پر عمل کررہا ہوتا ہے۔ جتنی شریعت کا تعلق ایک عام آدمی سے ہے، اس سے پروردگار اسی کے مطابق پوچھے گا۔ جہاں تک حکومت و ریاست کے حوالے سے قوانین کا تعلق ہے، ایک فرد صرف اس حد تک مکلف ہے کہ وہ اصلاح کے لیے پرامن جدوجہد کرے۔ آج دنیا میں ہر مسلمان تقریباً ہر جگہ (سوائے چند محدود استثناء کے) اپنے دین پر مکمل طور پر عمل کر سکتا ہے، اور کوئی حکومت اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکتی۔
اس طرح سارے مسلمان ممالک میں بہت سے ملکی قوانین اسلام کے مطابق ہیں۔ یقیناًاس میں بہتری کی گنجائش ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اسلامی احکام و ہدایات کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا۔
پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ یہاں قانون کی کتاب کی حد تک سارے قوانین (سوائے بینکوں کے سودی کھاتوں کے) روایتی فقہ کے مطابق ہیں۔ اب اگر ان پر صحیح عمل درآمد نہیں ہوتا تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں غلط بیانی کرتے ہیں، گواہ یا تو سرے سے گواہی نہیں دیتے اور یا پھر غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، پولیس رشوت لیتی ہے، وکیل تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں، اور عدالتی اہلکار نذرانہ طلب کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا اصل حل ایک مسلسل اصلاحی عمل ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل ممکن نہیں۔
درج بالا بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو لوگ شریعت کا نام لے کر اس کو نافذ کرنے کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں، وہ غلط کرتے ہیں۔ پچھلے چودہ سو برس میں کسی عالم، فقیہہ اور محدث نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا۔ یہ طریقہ انجام کے اعتبار سے تباہی کا راستہ ہے۔ اصل راستہ صرف اصلاح کا ہے۔