چوتھا باب
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان ملک کے حکمرانوں کے اندر خرابیاں ہوتی ہیں۔ وہ دین کی ہدایات کا خیال نہیں کرتے۔ اُن کی کمزوری، غفلت، یا اُن کے طرزِ عمل کی وجہ سے ملک کے اندر رشوت، بددیانتی، بے انصافی ،بے حیائی اور بدامنی بڑے پیمانے پر موجود ہوتی ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکمران خود قانون کا کوئی خیال نہیں کرتے۔ ایسے موقع پر ہر حساس اور درد مند انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کی اصلاح ہونی چاہیے۔ بعض اوقات یہ احساس اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ ایک مسلح گروہ تشکیل دے دے، جو بزور اور طاقت کے ساتھ حکومت کی ان برائیوں کا سدِ باب کرے۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ملک میں اچھائیوں کے فروغ اور حکمرانوں کی برائیوں کا سدِباب کرنے کے لیے اسلحہ اٹھایا جائے اور اپنے حکمرانوں کے خلاف جنگ کی جائے؟ ۔ آج کے زمانے میں یہ سوال بہت اہم بن گیا ہے، اس لیے کہ کئی مسلمان ملکوں میں ایسی مسلح تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں، جو اپنے مقاصد مسلح جدوجہد کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
اس معاملے میں اسلام کا جواب بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہ ایک مسلمان ریاست کے اندر، مسلمان حکمران کے خلاف کسی مسلح کاروائی کی اجازت نہیں۔ اصلاح کی کوشش ضرور ہونی چاہیے، لیکن یہ کوشش خالصتاً پُرامن ہونی چاہیے، اور عدم تشدد کے اصول پر ہونی چاہیے۔ ارشاد ہے:
یاَایُّھَاالَّذِےْنَ اٰمَنُوْ،اَطِےْعُوْاللّٰہَ وَ اَطِےْعُوالرَّسُوْلَ وَ اُوْلِیْ الْاَمْرِ مِنْکُمْ، فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَےْیءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ، اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِااللّٰہِ وَالْےَوْمِ اْلاٰخِرِ۔ ذٰلِکَ خَےْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِےْلَا۔(سورۃ نسا-4آیت59)
’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو، اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنوں میں سے اپنے حاکموں کی اطاعت کرو۔ پھر اگر کسی معاملے میں تمہارے درمیان اختلافِ رائے ہو، تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اچھا طریقہ ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔‘‘
یہ حکم اُس وقت دیا گیا جب قرآن نازل ہورہا تھا، اور حضورؐ خود مسلمانوں کے درمیان موجود تھے۔ چنانچہ جب حضورؐ کے مقرر کردہ حاکموں سے عوام کا کوئی اختلاف ہوتا، تو یہ معاملہ حضورؐ کے سامنے لایا جاتا، اور حضورؐ اُس کا فیصلہ فرمادیتے۔ اُس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ جب حضورؐ اس دنیا میں تشریف فرما نہ ہوں، تو کیا کیا جائے۔ حضورؐنے اپنے ارشادات کے ذریعے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ مسلمان عوام کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی ریاست اور حکومت سے وابستہ رہیں۔ اگر حکمرانوں کے اندر کوئی غلط یا ناگوار بات موجود ہو، اور وہ لوگوں کو اُن کا حق نہ دے رہے ہوں، تو تب بھی اُن کی عمومی اطاعت کی جائے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تم پر لازم ہے کہ تم اپنے حکمرانوں کی بات سنو اور ان پر عمل کرو۔ چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں، اور چاہے کہ ماننے کا یہ عمل رضاورغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ، اور اس کے باوجود کہ تمہارا حق تمہیں نہ پہنچے‘‘۔ (صحیح مسلم،حدیث نمبر4754)
اسی طرح حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جسے حکمران کی کوئی بات ناگوار گزرے، اُس شخص کو صبر کرنا چاہیے، کیونکہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی حکومت کی اطاعت سے نکلا، اور اسی حالت میں مر گیا، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی‘‘۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر7053)
اسی طرح حضورؐ نے مزید ارشاد فرمایا:
’’جس نے اپنے حکمران کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اُس شخص کو چاہیے کہ صبر کرے، کیونکہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی مسلمانوں کی اجتماعی ریاست سے الگ ہوا، اور اسی حالت میں مرگیا، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر7054)
درج بالا روایات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اگر حکمرانوں کے اندر خرابیاں موجود ہوں تو ہم صبر کے ساتھ اُن کی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں گے، تاہم ہم اپنے حکمرانوں کے احکام کو مانیں گے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ حکمران کی ذاتی خرابیاں، اور حکومتی نظام کی خرابیاں تو اپنی جگہ پر، لیکن اگر کوئی حکمران کسی باشندے کو گناہ کا کوئی کام کرنے کا حکم دے، تو ایسی حالت میں کیا کیا جائے۔ مثلاً اگر کوئی حاکم کسی باشندے کو شراب پینے کا حکم دے، تو ایسا شخص کیا کرے۔ اس کا جواب حضورؐ نے یوں دیا:
’’ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ہر حال میں اپنے حکمران کی بات سنے اور مانے، خواہ یہ حکم اُس کو پسند ہو یا نہ پسند۔سوائے اس کے کہ اُس شخص کو کسی گناہ کاکام کرنے کا حکم دیا جائے۔ پھر اگر اُس شخص کو گناہ کاکام کرنے کا حکم دیا گیاتو وہ نہ سنے گا اور نہ مانے گا‘‘۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر4763)
گویا درج بالا حدیث کے مطابق اگر کسی مسلمان کو اپنے حاکم کی طرف سے گناہ کا کوئی کام کرنے کو کہا جائے تو ایسے شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے کسی حکم کو نہ مانے۔ اگر ایسے حکم کو نہ ماننے کے نتیجے میں اس شخص پر حاکم کی طرف سے ظلم ہوتا ہے تو ایسا شخص اس ظلم کو برداشت کرے۔ اس کا اجروثواب اُسے قیامت کے دن ملے گا۔ (واضح رہے کہ آج کے زمانے میں کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم حکمران کی طرف سے کسی بھی مسلمان کو گناہ کے کسی کام پر مجبور نہیں کیا جارہا)۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اگرکوئی حکمران اس حد تک خراب ہوجائے کہ وہ اپنی رعایا کو گناہ کاکام کرنے کا حکم دینے لگے، تو کیا ایسے حکمران کے خلاف اسلحہ اٹھایا جاسکتا ہے؟۔ حضورؐ نے اس کا یہ جواب دیا کہ جب تک حکمران نماز سے انکار نہ کرے، اور اسلام کو چھوڑ کر کھلم کھلا کفر اختیار نہ کرے، تب تک اُس کے خلاف اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ عبادہؓ بن صامت سے روایت ہے:
’’نبیؐ نے ہمیں بیعت کے لیے بلایا تو ہم نے آپؐ سے بیعت کی۔ اُس میں جن باتوں کا وعدہ لیا گیا تھا، وہ یہ تھیں کہ ہم اپنے حکمران کی بات سنیں گے اور مانیں گے۔ چاہے یہ رضاورغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ، اور چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں،اور اس کے باوجود کہ ہمارا حق ہمیں نہ پہنچے۔ ہم سے یہ وعدہ بھی لیا گیا کہ ہم اپنے حکمرانوں سے اقتدار کے معاملے میں کوئی جھگڑا نہ کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم اپنے حکمرانوں سے جھگڑا صرف اُس صورت میں کرسکتے ہو، جب تم اُن کی طرف سے کوئی کھلم کھلا کفر دیکھو، اور تمہارے پاس اس معاملے میں اللہ کی واضح دلیل موجود ہو‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر4771)
اسی طرح حضورؐ نے مستقبل کے مسلمان حکمرانوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’تم پر ایسے لوگ حکومت کریں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی، اور بعض باتیں بُری لگیں گی۔پھر جس شخص نے اُن کی بُری باتوں کو ناپسند کیا، وہ بری الذمہ ہوا۔ اور جس نے اُن غلط باتوں کا انکار کیا، وہ بھی محفوظ رہا۔ مگر جو شخص اُن غلط باتوں پر راضی ہوا اور پیچھے چل پڑا، تو اُس سے (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا۔ صحابہؓ نے پوچھا: جب یہ صورت ہو (یعنی ہمارے حکمران ہمیں گناہ کرنے کا حکم دیں) تو کیا ہم اُن سے جنگ نہ کریں؟۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے ہوں(تب تک تمہیں جنگ کا اختیار نہیں ہے)‘‘۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر4801)
یہاں ضمنی طور پر ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جو حکمران لوگوں کی مرضی سے منتخب شدہ ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود اُس میں بڑی خرابیاں ہوتی ہیں، تو ایسے حکمران کی کیا حیثیت ہے؟۔ حضورؐ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا کہ ایسے حکمران کے خلاف بغاوت کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ارشاد ہے:
’’جب تم کسی شخص کی حکمرانی پر جمع ہو(یعنی لوگوں کی اکثریت اُس کے حق میں ہو)، اور کوئی شخص تمہاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنے ، یا تمہاری حکومت کے معاملے میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اٹھے، تو اُسے قتل کردو‘‘۔
یہاں ایک اور سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر حکمران کے خلاف مسلح بغاوت منع ہے، تو حکمران اور حکومت کی اصلاح کے لیے کیا کیا جائے۔اس کا جواب حضورؐ نے یہ دیا کہ ایسے حکمران کے سامنے سچی بات کہی جائے۔ ظاہر ہے کہ سچی بات سننے کے نتیجے میں یا وہ اُس بات کو مان لے گا، یا اُس پر آنکھیں بند کرلے گا، اور یا پھر سچی بات کہنے والے شخص پر ظلم کرنا شروع کردے گا۔ ایسے ظلم پر صبر اور ثابت قدمی کا رویہ اختیار کرنا جہاد کا بہت بڑا درجہ ہے۔ ارشاد فرمایا:
اَفْضَلُ الْجِہَادِ مَنْ قَالَ کَلِمَۃً حَقً عِنْدَ سُلْطَانٍ جَاءِر
ُُ’’سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے سچی بات کہی جائے‘‘
حضورؐ نے مزید ارشاد فرمایا:
اِنَّ مِنْ اَعْظَمُ الْجِہَادِ کَلِمَۃً عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَاءِر(ترمذی،حدیث نمبر2174)
’’یقیناًحق وانصاف کی بات کہنا ایک بڑا جہاد ہے، جب وہ ظالم حکمران کے سامنے کی جائے‘‘۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر مسلمانوں کو یہ بتایا ہے کہ وہ دین کی خدمت انتہائی دانائی اور اچھے طریقے سے کریں ۔ اُن کاکام صرف نصیحت اور یاددہانی کرنا ہے۔ اُن کاکام یہ نہیں ہے کہ وہ بزور لوگوں کو، یا حکومت کو سیدھے راستے پر لائیں گے۔ اللہ کے نبیوں کا بھی یہی کام تھا۔ اس سے آگے بڑھ کر اُن پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی تھی۔ اسی لیے سب نبیوں کو قرآن مجید میں ’’نذیروبشیر‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ قرآن وحدیث نے یہ بھی بتایا ہے کہ اصلاح اور تبدیلی کی دعوت اس طرح دی جائے کہ لوگوں کے لیے اس میں آسانی ہو، اور لوگوں کو مشکلات میں مبتلا نہ کیا جائے۔ مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ بہت آہستگی کے ساتھ، اور رفتہ رفتہ لوگوں اور حکومت کے طرزِ عمل اور سوچ میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔ ارشاد ہے:
اُدْعُ اِلیٰ سَبِےْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ، وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ، وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ (سورۃ نحل-16آیت125)
’’اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی کے ساتھ دعوت دو، اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور ان لوگوں سے اُس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہو‘‘۔
مزید ارشاد ہے:
فَذَکِّرْ، اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرْ۔ لَسْتَ عَلَےْھِمْ بِمُصَےْطِرْ(سورۃ غاشیہ -88آیات21,22)
’’(اے نبیؐ)، تم یاددہانی کردو۔ تم تو بس یاددہانی کرنے والے ہی ہو۔ تم اِن لوگوں پر کوئی جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔
مزید ارشاد ہے:
فَاِنَّمَا عَلَےْکَ الْبَلٰغُ، وَعَلَےْنَا الْحِسَابُ ۔(سورۃ رعد -13آیت40)
’’سوتم پر صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، اور (ان کا ) حساب تو ہمیں ہی لینا ہے۔ ‘‘
مزید بتایا گیا کہ برائی کے مقابلے میں برائی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کے مقابلے میں بھلائی کرنی چاہیے۔ کسی فرد کو سمجھانا ہو یا کسی حاکم کی اصلاح کرنی ہو، یہ سب کچھ خیرخواہی کی طریقے پر ہونا چاہیے۔ فرمایا:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَاالسَّےِّءَۃُ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ، فَاِذَا الَّذِیْ بَےْنَکَ وَ بَےْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیُّ حَمِےْمٌ۔ وَمَا ےُلَقّٰھَا اِلَّا الَّذِےْنَ صَبَرُوْا، وَمَا ےُلَقّٰھَا اِلَّا ذُوْ حَظِّ عَظِےْمٍ۔ وَاِمَّا ےَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّےْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ، اِنَّہُ ھُوَ السَّمِےْعُ الْعَلِےْم۔(سورۃ حٰم سجدہ -41آیات36.......34)
’’بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کو اُس خیر سے رفع کرو جو بہتر ہے، تو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ گویا ایک سرگرم دوست ہے۔ اور (یاد رکھو کہ) یہ دانائی صرف اُنہیں ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ صرف انہیں ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں۔ اور اگر تم (اس معاملے میں) شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ چاہو۔ بے شک، وہ سننے والا ہے، جاننے والا ہے۔‘‘
گویا یہ ایک شیطانی طرزِعمل ہے کہ انسان دین کے کام میں اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ دین کاکام تو ہم سے مسلسل صبر کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ صبر ہمیں حکومت کے معاملے میں بھی کرنا ہے، اور معاشرے کی اصلاح کے دوران میں بھی کرنا ہے۔ اگر کبھی انسان کا ذہن تشدد کی طرف جانے پر مائل ہوجائے، تو اسے چاہیے کہ فوراً متنبہ ہوجائے، اور تشدد کو ترک کرکے اللہ کی پناہ میں آجائے۔
دین کاکام ہمیشہ پُرامن طریقے سے، خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ ہونا چاہیے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
اَلدِّےْنُ النَّصِےْحَۃٌ، لِلّٰہِ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَ اَءِمَّۃُ الْمُسْلِمِےْنَ وَ عَامَّتِھِمْ
’’دین نصیحت اور خیرخواہی کانام ہے، اللہ کے لیے اور اللہ کے رسول کے لیے(اپنی نیت کو خالص کرتے ہوئے)، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے، اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
’’سب سے پہلی چیز جو قرآن مجید میں نازل ہوئی، وہ ’مفصل‘ کی ایک سورہ ہے جس میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کے دائرے میں آگئے، تب حلال اور حرام کے احکام نازل ہوئے۔ (حقیقت یہ ہے کہ ) اگر شروع ہی میں یہ حکم آجاتا کہ شراب نہ پیو، تو لوگ کہتے کہ ہم ہر گز شراب نہ چھوڑیں گے، اور اگر یہ حکم اترتا کہ زنا نہ کرو، تو وہ کہتے کہ ہم ہر گز زنا کرنا نہ چھوڑیں گے۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث نمبر4707)
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی ہر چیز لوگوں کو اور حکمرانوں کو رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ سکھائی جائے، تاکہ وہ اُن کے دل ودماغ میں اُترے، اور اُن کے عمل کا حصہ بنے۔ گویا اصلاح کاکام ہمیشہ آہستگی کے ساتھ اور پُرامن طریقے سے ہونا چاہیے، خواہ اس میں جتنا وقت لگے۔
دین کی بات ہمیشہ خوش اخلاقی اور دل آویزی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ یہ خوش خبری کے انداز میں ہونی چاہیے، نہ کہ نفرت، غصے اور تشدد کے انداز میں۔ اسی لیے حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
بَشِّرُوْ، وَ لَا تُنَفِّرُوْا (صحیح بخاری، حدیث نمبر69)
’’لوگوں کو خوش خبری دو، اُن میں نفرت مت پھیلاؤ‘‘۔
اسی طرح حضورؐ نے ارشاد فرمایا:
فَاِنَّمَا بُعِثْتُمْ مَےْسِرِےْنَ وَلَمْ تَبْعَثُوْا مُعْسِرِےْنَ۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر217)
’’تم مسلمان آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو، دشواری پیدا کرنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے۔‘‘